Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
مقدمہ
باب اوّل: دُنیوی زندگی کا اسلامی تصور
دُنیوی زندگی کا اِسلامی تصوّر
باب دوم: زندگی کا نصب العین
زِندگی کا نصب العین
حصہ سوم: ۱۔ ایمان کی حقیقت و اہمیت
۲۔اسلام کے ایمانیات
۳۔ ایمان باللّٰہ
۴۔ ایمان بالملائکہ
۵۔ ایمان بالرُّسُل
۶۔ ایمان بالکتب
۷۔ ایمان بالیوم الآخر
۸۔ اسلامی تہذیب میں ایمان کی اہمیت
ضمیمہ: زندگی بعد موت

اسلامی تہذیب اور اس کے اُصول ومبادی

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

۲۔اسلام کے ایمانیات

قرآن مجید میں اسلام کے ایمانیات اتنی تفصیل کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں کہ ان میں کسی اختلاف کی گنجائش باقی نہیں رہی ہے، مگر جن لوگوں نے قرآن کے اسلوبِ بیان کو نہیں سمجھا ہے، یا اس کے مضامین کا تتبع نہیں کیا ہے، انھیں چند در چند غلط فہمیاں ہو گئی ہیں۔ قرآن کا اسلوب یہ ہے کہ کہیں وہ تمام ایمانیات کو یک جا بیان کرتا ہے، اورکہیں موقع و محل کے لحاظ سے بعض اجزا یا صرف ایک جز بیان کرکے اسی پر زور دیتا ہے۔ اس سے بعض لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ اسلام کے ایمانیات کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ یعنی ان میں سے کسی ایک یا بعض پر ایمان لانا کافی ہے، اور بعض کے انکار کرنے کے باوجود انسان فلاح پا سکتا ہے۔ حالاں کہ قرآن کا ناطق فیصلہ یہ ہے کہ جتنے امور اس نے ایمانیات کے طور پر پیش کیے ہیں ان سب کو ماننا ضروری ہے۔ انھیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ سب مل کر ایک ناقابلِ تجزیہ کل بناتے ہیں جسے ’’مِنْ حَیْثُ الْمَجْمُوْع‘‘ تسلیم کرنا چاہیے۔ اگر ان میں سے ایک کا بھی انکار کیا گیا تو وہ باقی سب کے اقرار کو باطل کر دے گا۔ قرآن میں ایک جگہ کہا گیا ہے کہ:
اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَيْہِمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ حٰمٓ سجدہ30:41
جن لوگوں نے کہا کہ اللّٰہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقینا ًان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں۔
اس آیت میں صرف خدا پر ایمان لانے کا ذکر ہے اور اسی پر دنیا و آخرت کی کام یابی کا مُژدہ سنایا گیا ہے۔ دوسری جگہ خدا کے ساتھ یوم آخر کا بھی ذکر ہے:
مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ البقرہ 62:2
یہی مضمون آل عمران (ع۱۲) ، مائدہ (ع۱۰) اور رعد (ع۳) میں بھی ہے۔ تیسری جگہ خدا اور رسولوں پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے:
فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَرُسُلِہٖ۝۰ۚ وَاِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَلَكُمْ اَجْرٌ عَظِيْمٌo آل عمران 179:3
یہی مضمون حدید (ع۴) میں بھی ہے۔
ایک اور جگہ ایمان دار اس شخص کو کہا گیا ہے جو خدا اور محمدؐ پر ایمان لائے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ النور 62:24
محمد(۴۷:۲،۳)، جن(۷۲:۲۲) اور الفتح (۴۸:۲۵) میں اسی مضمون کا اعادہ ہے۔ ایک جگہ خدا، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن تین چیزوں پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے:
فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالنُّوْرِ الَّذِيْٓ اَنْزَلْنَا۝۰ۭ التغابن 8:64
ایک جگہ کتب الٰہی، قرآن اور یومِ آخر، چار چیزوں کا ذکر ہے:
وَالْمُؤْمِنُوْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ…… وَالْمُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭo النسائ 162:4
ایک اور جگہ خدا، ملائکہ، انبیا اور قرآن کے انکار کو کفر و فسق قرار دیا گیا ہے:
مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلہِ وَمَلٰۗىِٕكَتِہٖ وَرُسُلِہٖ وَجِبْرِيْلَ وَمِيْكٰىلَ فَاِنَّ اللہَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِيْنَo وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ اٰيٰتٍؚبَيِّنٰتٍ۝۰ۚ وَمَا يَكْفُرُ بِہَآ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَo
البقرہ 98-99:2
ایک جگہ اللہ، ملائکہ، کتب ِ الٰہی، انبیا اور قرآن پر ایمان لانے والوں کو مومن کہا گیا ہے:
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ۝۰ۭ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللہِ وَمَلٰۗىِٕكَتِہٖ وَكُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ۝۰ۣ البقرہ 285:2
دوسری جگہ ایمان کے پانچ اجزا بیان کیے گئے ہیں۔ ایمان باللّٰہ و یوم آخر و ملائکہ و کتب الٰہی و انبیا:
وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃِ وَالْكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ۝۰ۚ……… اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا۝۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَo البقرہ 177:2
سورۃ النساء میں مذکورہ بالا پانچ اجزا کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پر بھی ایمان لانے کی تاکید کی گئی ہے اور ان کا انکار کرنے والوں کو کافر اور گم راہ قرار دیا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو سورۃ النساء۴:۱۳۶)
ایک جگہ یومِ آخر کے اقرار پر زور دیا گیا ہے اوراس کے انکار کو نامرادی کا سبب بتلایا گیا ہے:
قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَاۗءِ اللہِ۝۰ۭ الانعام 31:6
اسی مضمون کا اعادہ سورہ اعراف(ع۱۷) یونس(ع۱) ،فرقان(ع۲)،نمل(ع۱)، صافات (ع۱) میں ہے۔
دوسری جگہ یوم آخر کے ساتھ کتب ِ الٰہی کے انکار کو بھی عذابِ الیم کا موجب قرار دیا گیا ہے:
اِنَّہُمْ كَانُوْا لَا يَرْجُوْنَ حِسَابًاo وَّكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا كِذَّابًاo النبائ 27-28:78
تیسری جگہ یومِ آخر اورکتب ِ الٰہی کے ساتھ قرآن کو بھی ایمانیات میں شامل کیا گیا ہے:
وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ۝۰ۚ وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَo اُولٰۗىِٕكَ عَلٰي ھُدًى مِّنْ رَّبِّہِمْ۝۰ۤوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَo البقرہ 4-5:2
چوتھے مقام پر کہا گیا ہے کہ یوم آخر، کتب ِ الٰہی اور انبیا کے انکار سے تمام اعمال پر پانی پھر جاتا ہے۔ ایسا شخص دوزخی ہے اور اس کے عمل کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ (۱۸:۱۰۰۔۱۰۶)
کتب الٰہی پر ایمان لانے کا اوپر بار بار ذکر آیا ہے اور ان میں تورات، انجیل، زبور اور صحفِ ابراہیم ؑکے نام تصریح کے ساتھ لیے گئے ہیں۔ مگر قرآن میں بیسیوں مقامات پر یہ بھی صاف کہہ دیا گیا ہے کہ ان کتابوں کا ماننا ہرگز کافی نہیں ہے بلکہ ان کے ساتھ قرآن کا ماننا بھی ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص تمام کتابوں کو مانتا ہو اور قرآن کو نہ مانتا ہو، تو وہ اسی طرح کافر ہے جس طرح تمام کتابوں کا انکار کرنے والا۔ ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ: (۲:۹۹۔۱۰۱) ، نساء(۴:۴۷)،مائدہ(۴۵:۶۸،۸۱)،رعد(ع۳)،عنکبوت(۲۹:۴۷)،زُمُر (۳۹:۵۵۔۶۰) یہی نہیں بلکہ خدا کی بھیجی ہوئی ہر کتاب کو پورا پورا ماننا لازم ہے۔ اگر کوئی شخص اس کی بعض باتوں کو مانے اور بعض کو نہ مانے تو وہ بھی کافر ہے۔ (۲:۸۵)
اسی طرح انبیا کے متعلق تصریح ہے کہ ان سب پر ایمان لانا ضروری ہے۔ جن کے نام لیے گئے ہیں ان پر تفصیلاً اور جن کے نام نہیں ہیں ان پر اجمالاً۔ لیکن اگر کوئی شخص تمام انبیا پرایمان رکھتا ہو اور صرف محمدؐ کی نبوت کا انکار کر دے تو وہ یقینا ً کافر ہے۔ قرآن میں ایک جگہ نہیں بیسیوں مقامات پر اس کی تصریح کی گئی ہے اور تمام انبیا کے ساتھ محمدؐ کی رسالت کے اقرار کو ایمان کی لازمی شرط قرار دیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ (۲:۸۹)، نساء (۴:۷۵)، مائدہ (۵:۱۵،۱۶)، انعام (ع۱۹)، اعراف (۷:۱۵۷)، الانفال (۸:۱،۲۷)، مومنون (۲۳:۶۹)، شوریٰ (۴۲:۱۳)، محمدؐ (۴۷:۲،۳)، طلاق (۶۵:۱)۔ ان میں سے اکثر آیات ایسی ہیں جن میں حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی امتوں کو نبی اکرمؐ پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ جب تک تم قرآن اور محمدؐ پر ایمان نہ لائو، تمھیں ہدایت نہیں مل سکتی۔
ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ اسلام کے ایمانیات پانچ ہیں:
۱۔ خدا۔
۲۔ ملائکہ۔
۳۔ کتب ِ الٰہی، جن میں قرآن بھی شامل ہے۔
۴۔ انبیا علیہم السلام، جن میں رسولِ عربی محمدؐ بھی شامل ہیں۔
۵۔ یومِ آخر یعنی قیامت۔ ۱؎
یہ اجمال ہے۔ آگے چل کر بتایا جائے گا کہ ان میں سے ہر ایک کے متعلق تفصیلی عقیدہ کیا ہے؟ ان میں باہم کیا تعلق ہے جس کی وجہ سے انھیں الگ نہیں کیا جا سکتا اور ایک کے انکار سے سب کا انکار لازم آتا ہے؟ اور ان میں سے ہر ایک کو ایمانیات میں داخل کرنے کا فائدہ کیا ہے؟
عقلی تنقید
یہ پانچوں ایمانیات امورِ غیب کے قبیل سے ہیں اور عالمِ آب و گل سے ماورا، اس لیے ہماری تقسیم کے مطابق یہ مذہبی و روحانی ایمانیات ہیں۔ لیکن ان کی خصوصیت یہ ہے کہ اسلام نے ان پر اپنے رُوحانی نظام ہی کی نہیں بلکہ اَخلاقی و سیاسی اور تمدنی نظام کی بھی بنیاد رکھی ہے۔ اس نے دین اور دنیا دونوں کو باہم ملاکر ایک ایسا نظام وضع کیا ہے جس کے تحت انسانی زندگی کے تمام شعبے حرکت کرتے ہیں۔ اس نظام کو اپنے قیام و بقا اور اپنے تصرفات کے لیے جتنی طاقت کی ضرورت ہے وہ سب انھی پانچوں ایمانیات سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ اس کے لیے قوت کا ایک لامتناہی سرچشمہ ہیں جس کی رسد کبھی بند نہیں ہوتی۔ اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ جن ایمانیات سے اتنا بڑا کام لیا گیا ہے، وہ عقلی حیثیت سے کیا پایہ رکھتے ہیں؟ اور ان میں ایک ایسے ہمہ گیر اور ترقی پذیر نظام کے لیے اساس اور منبعِ قوت بننے کی کہاں تک صلاحیت موجود ہے؟
اس سوال کی تحقیق میں قدم آگے بڑھانے سے پہلے ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اسلام ایک ایسی تہذیب کی بنیاد رکھنا چاہتا ہے جو صحیح معنوں میںانسانی تہذیب ہو۔ یعنی اس کا تعلق کسی خاص ملک یا نسل کے لوگوں سے نہ ہو، نہ کوئی مخصوص رنگ رکھنے والی یا مخصوص زبان بولنے والی قوم اس کے ساتھ اختصاص رکھتی ہو، بلکہ تمام نوعِ انسانی کی فلاح اس کی مقصود ہو، اور اس کے زیر اثر ایک ایسا نظامِ اجتماعی قائم ہو سکے جس میں ہر اس چیز کو پرورش کیا جائے جو انسان کے لیے بحیثیت انسان ہونے کے خیر و صلاح ہے، اور ہر اس چیز کو مٹایا جائے جو اس کے لیے شر اور فساد ہے۔ ایسی ایک خالص انسانی تہذیب کی بنیاد ان ایمانیات پر نہیں رکھی جا سکتی جو عالمِ آب و گل سے تعلق رکھتے ہوں۔ اس لیے کہ مادیات اور محسوسات دو حال سے خالی نہیں ہیں: یا تو وہ ایسے ہیں جن کے ساتھ تمام انسانوں کا تعلق یکساں ہے، مثلاً سورج، چاند، زمین، ہوا، روشنی وغیرہ، یا ایسے ہیں جن کے ساتھ تمام انسانوں کا تعلق یکساں نہیں ہے، مثلاً وطن، نسل، رنگ، زبان وغیرہ۔ پہلی قسم کی چیزوں میں تو ایمانیات بننے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، کیونکہ ان کے نفسِ وجود پرایمان لانا تو محض بے معنی ہے، اور ان پر اس حیثیت سے ایمان لانا کہ وہ انسان کی اصلاح میں کوئی اختیاری تاثیر رکھتے ہیں، ازرُوئے علم و عقل غلط ہے۔ علاوہ بریں ان پر کسی حیثیت سے بھی ایمان لانے کا کوئی نفع انسان کی روحانی، اخلاقی اور عملی زندگی میں مترتب نہیں ہوتا۔ رہیں دوسری قسم کی چیزیں، تو ظاہر ہے کہ وہ ایک مشترک انسانی تہذیب کے لیے اساس نہیں بن سکتیں، کیونکہ وہ بنائے تفریق و تقسیم ہیں نہ کہ بنائے جمع و تالیف۔ لہٰذا یہ قطعاً ناگزیر ہے کہ اس قسم کی تہذیب کی بنیاد ایسے ایمانیات پر رکھی جائے جو مادیات و محسوسات سے ماورا ہوں۔
لیکن ان کا محض مادیات و محسوسات سے ماورا ہونا ہی کافی نہیں ہے، اس کے ساتھ ضرورت ہے کہ ان میں چند اور خصوصیات بھی پائی جائیں:
۱۔ وہ خرافات اور اوہام نہ ہوں بلکہ ایسے امور ہوں جن کی تصدیق پر عقلِ سلیم مائل ہو سکتی ہو۔
۲۔ وہ دُو راَز کار باتیں نہ ہوں بلکہ ہماری زندگی سے ان کا گہرا تعلق ہو۔
۳۔ ان میں ایسی معنوی قوت ہو جس سے تہذیب کا نظام انسان کے قوائے فکر و عمل پر تسلّط کرنے میں پوری طرح مدد حاصل کر سکے۔
اس لحاظ سے جب ہم اسلام کے ایمانیات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان تینوں آزمائشوں میں پورے اترتے ہیں۔
اولاً اسلام نے خدا، ملائکہ، وحی، رسالت اور یومِ آخر کا جو تصور پیش کیا ہے اس میں کوئی استحالۂ عقلی نہیں ہے۔ اس کے اندر کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا صحیح ہونا غیر ممکن ہو، نہ کوئی ایسی بات ہے جسے ماننے سے عقلِ سلیم انکار کرتی ہو۔ اس میں شک نہیں کہ عقل ان کا احاطہ نہیں کر سکتی، اس کی کُنہٗ تک نہیں پہنچ سکتی، ان کی حقیقتوں کو کماحقہٗ نہیں سمجھ سکتی، لیکن ہمارے اہلِ حکمت نے اب تک جتنے مجردات و مفارِقات کی تصدیق کی ہے ان سب کا یہی حال ہے۔ توانائی (انرجی)، حیات، جذب و کشش، نشووارتقا اور ایسے ہی دوسرے امور کی تصدیق ہم نے اس بِنا پر نہیں کی ہے کہ ہم ان کی حقیقتوں کو پوری طرح سمجھ چکے ہیں، بلکہ اس بِنا پر کی ہے کہ ہم نے جن مختلف قسم کے مخصوص آثار کا مشاہدہ کیا ہے، ان کی توجیہہ و تعلیل کے لیے ہمارے نزدیک ان امور کا موجود ہونا ضروری ہے، اور ظواہر اشیا کے باطنی نظام کے متعلق جو نظریات ہم نے قائم کیے ہیں وہ ان امور کے موجود ہونے کا اقتضا کرتے ہیں۔ پس اسلام جن مجردات پر ایمان لانے کا مطالبہ کرتا ہے ان کی تصدیق کے لیے بھی یہ ضروری نہیں ہے کہ ہماری عقل ان کی حقیقتوں کو پوری طرح سمجھ لے اور ان کا احاطہ کر لے، بلکہ اس کے لیے عقلی طور پر صرف اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ کائنات اور انسان کے متعلق جو نظریہ اسلام نے پیش کیا ہے وہ خلافِ عقل نہیں ہے، اس کا صحیح ہونا اغلب ہے اور وہ ان پانچوں امور کے وجود کا مقتضی ہے جو اسلام نے ایمانیات کے طور پر پیش کیے ہیں۔
اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ:
۱۔ کائنات کا نظم ایک قادر مطلق ہستی کا قائم کیا ہوا ہے اور وہی اسے چلا رہی ہے۔
۲۔ اس قادرِ مطلق ہستی کے ماتحت بے شمار دوسری ہستیاں ہیں جو اس کے احکام کے مطابق اس وسیع کائنات کی تدبیر کر رہی ہیں۔
۳۔ انسان کے وجود میں اس کے خالق نے خیر اور شر دونوں کے میلانات رکھے ہیں۔ دانائی اور نادانی، علم اور جہل دونوں کا اس کے اندر اجتماع ہے۔ غلط اور صحیح دونوں طرح کے راستوں پر وہ چل سکتا ہے۔ ان متضاد قوتوں اور متخالف میلانات میں سے جس کا غلبہ ہوتا ہے، اس کی پیروی انسان کرنے لگتا ہے۔
۴۔ اس تنازعِ خیر و شر میں خیر کی قوتوں کو مدد پہنچانے اور انسان کو سیدھی راہ دکھانے کے لیے اس کا خالق خود بنی نوع انسان ہی میں سے ایک بہتر آدمی کو انتخاب کرتا ہے اور اسے علم صحیح عطا کرکے لوگوں کی ہدایت پر مامور کر دیتا ہے۔
۵۔ انسان کوئی غیر ذمے دار اور غیر مسئول ہستی نہیں ہے۔ وہ اپنے تمام اختیاری اعمال کے لیے اپنے خالق کے سامنے جواب دہ ہے۔ ایک دن اسے ذرّے ذرّے کا حساب دینا ہو گا اور اپنے اعمال کے اچھے یا برے نتائج دیکھنے ہوں گے۔
یہ نظریہ خدا، ملائکہ، وحی، رسالت اور یومِ آخر پانچوں اُمور کے وجود کا مقتضی ہے۔ اس میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جو عقلاً محال ہو۔ نہ اس کی کسی چیز کو وہمیات وخرافات سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ برعکس اس کے ہم اس پر جس قدر زیادہ غور کرتے ہیں، اسی قدر اس کی تصدیق کی جانب ہمارا میلان بڑھتا جاتا ہے۔
خدا کی حقیقت خواہ ہماری سمجھ میں نہ آئے، مگر اس کا وجود تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں۔ یہ ایک ایسی ضرورت ہے جس کے بغیر کائنات کا معما کسی طرح حل نہیں ہوتا۔
ملائکہ کے وجود کی کیفیت ہم متعین نہیں کر سکتے، مگر ان کے نفسِ وجود میں شک کی گنجائش نہیں ہے۔ تمام اہلِ علم و حکمت نے ان کی ہستی کو کسی نہ کسی طور پر تسلیم کیا ہے۔ اگرچہ وہ انھیں اس نام سے یاد نہیں کرتے جس سے قرآن انھیں موسوم کرتا ہے۔
قیامت کا آنا اور ایک نہ ایک دن دنیا کے نظام کا درہم برہم ہو جانا عقلی قیاسات کی رُو سے اغلب بلکہ قریب بہ یقین ہے۔
انسان کا اپنے خدا کے آگے جواب دہ ہونا اور اپنے اعمال کے لیے مستوجب ِ جزا و سزا ہونا کسی قطعی دلیل سے ثابت نہیں کیا جا سکتا، مگر عقلِ سلیم اس حد تک تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ انسان کی موت اور موت کے بعد کی حالت کے متعلق جتنے نظریے قائم کیے گئے ہیں، ان میں سب سے زیادہ بہتر، نتیجہ خیز اور اقرب اِلی القیاس نظریہ وہی ہے جو اسلام نے پیش کیا ہے۔
رہا وحی اور رسالت کا مسئلہ، تو یہ ظاہر ہے کہ اس کا کوئی سائنٹیفک ثبوت نہیں پیش کیا جا سکتا۔ مگر جن کتابوں کو وحی الٰہی کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے، ان کے معانی اور جن لوگوں کو خدا کا رسول کہا گیا ہے ان کی سیرتوں پر غور کرنے سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ نوعِ انسانی کے افکار واعمال پر ان کے برابر گہرے، وسیع، پائدار اور مفید اثرات کسی راہ نُما نے نہیں ڈالے۔ یہ بات اس امر کا یقین کرنے کے لیے کافی ہے کہ ان میں کوئی غیر معمولی بات ضرور تھی جو نہ انسانی تصنیفات کو نصیب ہے اور نہ معمولی انسانی لیڈروں کو۔
اس بیان سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام کے ایمانیات عقل کے خلاف نہیں ہیں۔ عقل کے پاس ان کی تکذیب کے لیے کسی قسم کا مواد نہیں ہے۔ ان میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ علمی اور عقلی ارتقا کے کسی مرتبے پر پہنچ کر انسان انھیں رد کر دینے پر مجبور ہوجائے۔ بلکہ اس کے برعکس عقل ان کی اغلبیت کا حکم لگاتی ہے۔ رہا ایمان اور تصدیق کا معاملہ، تو اس کا تعلق عقل سے نہیں ہے، وجدان اور ضمیر سے ہے۔ ہم جتنے مجردات اور غیبیات کو مانتے ہیں، ان سب کی تصدیق دراصل ہمارے وجدان پر مبنی ہوتی ہے۔ اگر کسی امر غیب کو ہم نہ ماننا چاہیں، ہمارا دل اس پر نہ ٹھکتا ہو، تو کسی عقلی دلیل سے ہمیں اس کی تصدیق پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر ایتھر کے وجود پرجتنے دلائل قائم کیے گئے ہیں، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو یقینی طور پر اسے ثابت کر دیتا ہو اور اس کی صحت میں شک کی گنجائش نہ چھوڑتا ہو۔ انھی دلائل کو دیکھ کر بعض اہلِ حکمت اس پر ایمان لے آتے ہیں، اور انھی کو بعض دوسرے حکما ناکافی سمجھ کر ایمان لانے سے انکار کر دیتے ہیں۔ پس تصدیق و ایمان کا انحصار دراصل ضمیر کے اطمینان اور وجدان کی گواہی پر ہے۔ البتہ عقل کا اس میں اتنا دخل ضرور ہے کہ جن کی تصدیق عقل کے خلاف ہوتی ہے ان کے بارے میں وجدان اور عقل کے درمیان کش مکش برپا ہوتی ہے اور ایمان ضعیف ہو جاتا ہے، اور جن کی تصدیق قیاسِ عقلی کے خلاف نہیں ہوتی، یا جن کی تصدیق میں عقل بھی ایک حد تک مددگار ہوتی ہے، ان کے بارے میں ضمیر کا اطمینان زیادہ بڑھ جاتا ہے اور اس سے ایمان کو قوت حاصل ہوتی ہے۔
ثانیاً غیبیات میں سے بیش تر ایسے امور ہیں جن کی حیثیت محض علمی ہے، یعنی ان سے ہماری عملی زندگی کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ مثلاً ایتھر (ether)، ہیولیٰ، صورتِ مطلقہ، مادّہ، فطرت و قانونِ فطرت، قانونِ علت و معلول، اور ایسے ہی بیسیوں علمی مسلمات یا مفروضات کہ ان کے ماننے یا نہ ماننے کا ہماری زندگی کے معاملات پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لیکن اسلام نے جن امورِ غیب پر ایمان لانے کی دعوت دی ہے وہ ایسے نہیں ہیں۔ ان کی حیثیت محض علمی ہی نہیں ہے بلکہ ہماری اخلاقی اور عملی زندگی سے ان کا گہرا تعلق ہے۔ ان کی تصدیق کو اصل الاصول قرار دینے کی وجہ یہی ہے کہ وہ محض علمی صداقتیں نہیں ہیں بلکہ ان کا صحیح علم اور ان پر کامل ایمان ہمارے نفسانی اوصاف و خصائص پر، ہمارے شخصی اعمال پر، اور ہمارے اجتماعی معاملات پر شدت کے ساتھ اثر انداز ہوتا ہے، اس کا تفصیلی بیان آگے آئے گا۔
ثالثاً اسلام کے نظامِ تہذیب کو مختلف عقلی اور علمی مراتب رکھنے والی وسیع انسانی آبادیوں پر ان کی زندگی کے مخفی اور جزوی سے جزوی شعبوں تک میں اپنی حکومت قائم کرنے اور اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے جس قوت کی ضرورت ہے، وہ صرف انھی ایمانیات سے حاصل ہو سکتی ہے جن کی تصدیق کا اسلام نے مطالبہ کیا ہے۔ یہ یقین کہ ایک سمیع و بصیر، قاہر و غالب، اور رؤف و رحیم خدا ہمارے اوپر حکمران ہے، اس کے بے شمار لشکر ہر جگہ ہر آن موجود ہیں، پیغمبر اسی کا بھیجا ہوا ہے، جو احکام اس (پیغمبر) نے ہمیں دیے ہیں وہ اس نے خود نہیں گھڑے ہیں بلکہ سب کے سب خدا کی طرف سے ہیں، اور اپنی اطاعت یا سرکشی کا اچھا یا برا نتیجہ ہمیں ضرور دیکھنا پڑے گا، اپنے اندروہ زبردست اور ہمہ گیر طاقت رکھتا ہے جو اس کے سوا کسی اور ذریعے سے حاصل نہیں کی جا سکتی۔ مادی طاقتیں صرف جسم کو جکڑ سکتی ہیں، تربیت اور تعلیم کے اخلاقی اثرات انسانی سوسائٹی کے اعلیٰ طبقوں تک پہنچ سکتے ہیں، قانون صرف وہاں کام کر سکتا ہے جہاں اس کے کارندوں کی پہنچ ہو۔ مگر یہ وہ قوت ہے جو دل اور روح پر قبضہ کرتی ہے، عوام اور خواص، جاہل اور عالم، دانش مند اور بے دانش، سبھی کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے، جنگل کی تنہائیوں اور رات کی تاریکیوں تک میں اپنا کام کرتی ہے۔ جہاں گناہ سے روکنے والا، حتیٰ کہ اسے دیکھنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا، وہاں خدا کے حاضر و ناظر ہونے کا یقین، پیغمبر کی دی ہوئی تعلیم کے برحق ہونے کا یقین، قیامت کی باز پرس کا یقین، وہ کام کرتا ہے جو نہ کوئی پولیس کا سپاہی کر سکتا ہے، نہ عدالت کا حاکم، نہ پروفیسر کی تعلیم۔ پھر جس طرح اس یقین نے معمورۂ ارضی پر پھیلے ہوئے بے شمار مختلف و متضاد انسانی عناصر کو جمع کیا، انھیں ملا کر ایک قوم بنایا، ان کے تخیلات، اعمال اور اطوار میں غایت درجے کی یک جہتی پیدا کی، ان کے اندر اختلافِ ظروف و احوال کے باوجود ایک تہذیب پھیلائی اور ان میں ایک اعلیٰ مقصد کے لیے فداکاری کی والہانہ روح پھونکی، اس کی مثال کہیں ڈھونڈے نہیں مل سکتی۔
یہاں تک جو کچھ ثابت کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کی اصطلاح میں ایمان سے مراد اللّٰہ ، ملائکہ، رُسُل اور یومِ آخر پر ایمان لانا ہے، اور یہ پانچوں ایمانیات مل کر ایک ناقابلِ تجزیہ کُل بناتے ہیں۔ یعنی ان کے درمیان ایسا ربط ہے کہ اگر ان میں سے کسی ایک جز کا بھی انکار کیا جائے تو اس سے کل کا انکار لازم آتا ہے۔ پھر عقلی تنقید کرکے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اسلام جس قسم کی تہذیب قائم کرنا چاہتا ہے اس کے لیے صرف یہی امور ایمانیات بن سکتے ہیں اور انھی ایمانیات کی اسے ضرورت ہے۔ نیز یہ کہ ان میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو عقلی و علمی ترقی کا ساتھ نہ دے سکتی ہو۔
اب ہمیں تیسرے سوال کی طرف توجہ کرنی چاہیے، اور وہ یہ ہے کہ اسلام میں ایمان کی کیا حیثیت ہے؟ اور یہ حیثیت کیوں ہے؟ اس مسئلے کو سمجھنے میں لوگوں نے بکثرت غلطیاں کی ہیں، اور بعض مشہور اہلِ علم و فضل اصحاب بھی اس میں ٹھوکر کھا گئے ہیں۔ اس لیے اسے ذرا بسط کے ساتھ بیان کرنا ضروری ہے۔
اسلام میں ایمان کی اہمیت
اگر سوال کیا جائے کہ قرآن مجید کی دعوت کا اصل الاصول کیا ہے، تو اس کا جواب صرف ایک لفظ میں دیا جا سکتا ہے، اور وہ ’’ایمان‘‘ ہے۔ قرآن کے نزول اور نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد ہی ایمان کی طرف دعوت دینا ہے۔
قرآن اپنے لانے والے کے متعلق صاف کہتا ہے کہ وہ ایمان کا منادی ہے:
رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُّنَادِيْ لِلْاِيْمَانِ آل عمران 193:3
مالک، ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا جو ایمان کی طرف بلاتا تھا اور کہتا تھا کہ اپنے رب کو مانو۔
اور خود اپنے متعلق اعلان کرتا ہے کہ:
ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَo يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ البقرہ 2-3:2
وہ صرف ان لوگوں کو ہدایت کا راستہ دکھائے گا جو غیب کی باتوں (یعنی انھی ایمانیات) پر یقین لانے کے لیے تیار ہوں۔
وہ وعظ سے، تلقین سے، وعدہ و وعید سے، بحث و استدلال سے، قصص و حکایات سے اسی کی طرف دعوت دیتا ہے۔ انسان سے اس کا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ وہ ایمان لائے۔ اس کے بعد وہ تزکیۂ نفس، اصلاحِ اخلاق اور وضعِ قوانینِ مدنی کی طرف قدم بڑھاتا ہے۔ اس کے نزدیک ایمان ہی حق، صدق، علم، ہدیٰ اور نور ہے، اور عدمِ ایمان یعنی کفر کو وہ جہل، ظلم، باطل، کذب، ظلمت اور ضلالت قرار دیتا ہے۔
قرآن حکیم نے ایک واضح خطِ فاصل کھینچ کر تمام دنیا کے انسانوں کو دو گروہوں پر تقسیم کردیا ہے۔ ایک گروہ ایمان لانے والوں کا، دوسرا گروہ انکار کرنے والوں کا۔ پہلا گروہ اس کے نزدیک حق پر ہے، علم اور نور سے بہرہ ور ہے، اس کے لیے ہدایت کا راستہ اور تقوٰی و پرہیزگاری کا دروازہ کھل گیا ہے، اور وہی فلاح پانے والا ہے۔ دوسرا گروہ اس کے نزدیک کافر ہے، ظالم ہے، جاہل ہے، تاریکی میں پھنسا ہوا ہے، ہدایت کی راہیں اس کے لیے بند ہیں، تقوٰی اور پرہیز گاری میں اس کا کوئی حصہ نہیں، اور اس پر خسران و نامرادی کا فیصلہ ہو چکا ہے۔
وہ ان دونوں طبقوں کی مثال اس طرح دیتا ہے کہ ان میں سے ایک اندھا اور بہرا ہے اور دوسرا دیکھنے اور سننے والا:
مَثَلُ الْفَرِيْقَيْنِ كَالْاَعْمٰى وَالْاَصَمِّ وَالْبَصِيْرِ وَالسَّمِيْعِ۝۰ۭ ھود 24:11
ان دونوں فریقوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی تو ہو اندھا بہرا اور دوسرا ہو دیکھنے اور سننے والا۔
وہ کہتا ہے کہ ایمان کا راستہ ہی صراط مستقیم ہے:
وَاِنَّكَ لَـــتَہْدِيْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍo الشورٰی 52:42
یقیناً تم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہو۔
اور اس کے سوا جتنے راستے ہیں سب کا چھوڑ دینا ضروری ہے:
وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْہُ۝۰ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّـبُلَ الانعام 153:6
نیز اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو۔
اس نے بلا کسی لاگ لپیٹ کے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ جو اللّٰہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی کتاب کو مانتا ہے اس کے پاس ایک روشن چراغ ہے، جس کی مدد سے وہ سیدھے رستے پر چل سکتا ہے۔ اس چراغ کی موجودگی میں اس کے لیے بھٹک جانے کا کوئی خدشہ نہیں ہے۔ وہ راہِ راست کو ٹیڑھے راستوں سے ممتاز کرکے دیکھ لے گا، اور بخیر و عافیت فلاح کی منزل مقصود تک پہنچ جائے گا۔ اور جو ایمان کی شمع نہیں رکھتا اس کے پاس کوئی روشنی نہیں ہے۔ اس کے لیے سیدھے اور ٹیڑھے راستوں کا فرق معلوم کرنا مشکل ہے۔ وہ اندھوں کی طرح اندھیرے میں اٹکل سے ٹٹول ٹٹول کر چلے گا۔ ممکن ہے کہ اتفاقاً اس کا کوئی قدم سیدھے راستے پر بھی پڑ جائے، مگر یہ راہِ راست پر چلنے کا کوئی یقینی ذریعہ نہیں ہے۔ غالب امکان اسی کا ہے کہ راہِ راست سے ہٹ جائے گا، کہیں خندق میں گرے گا اور کہیں کانٹوں میں جا پھنسے گا۔ پہلے گروہ کے متعلق اس کا قول ہے کہ:
فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ۝۰ۙ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo الاعراف 157:7
پس جو لوگ رسولؐ پر ایمان لائے اورجنھوں نے اس کی مدد و حمایت کی اور اس نور کا اتباع کیا جو اس کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی دراصل فلاح پانے والے ہیں۔
اور
اِتَّقُوا اللہَ وَاٰمِنُوْا بِرَسُوْلِہٖ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَّحْمَتِہٖ وَيَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِہٖ وَيَغْفِرْ لَكُمْ۝۰ۭ الحدید 28:57
لوگو! اللّٰہ سے ڈرو اوراس کے رسول پر ایمان لائو، اللّٰہ تمھیں اپنی رحمت سے دہرا حصہ دے گا اور تمھارے لیے ایسی روشنی کر دے گاجس میں تم چلو گے، اور تمھیں بخش دے گا۔
اور دوسرے گروہ کے متعلق کہتا ہے:
وَمَا يَتَّبِـــعُ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ شُرَكَاۗءَ۝۰ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَo یونس 66:10
جو لوگ خدا کے سوا دوسرے شرکا کو پکارتے ہیں، جانتے ہو وہ کس کی پیروی کرتے ہیں؟ وہ صرف گمان کی پیروی کرتے اور محض اٹکل پر چلتے ہیں۔
اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ۝۰ۚ وَاِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَـيْــــًٔاo النجم 28:53
وہ صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں، اور گمان کا حال یہ ہے کہ وہ حق کی ضرورت سے کچھ بھی بے نیاز نہیں کرتا۔
وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ بِغَيْرِ ہُدًى مِّنَ اللہِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَo القصص50:28
اور اس شخص سے زیادہ گم راہ کون ہو گا جس نے اللّٰہ کی ہدایت کے بغیر اپنے نفس کی خواہش کی پیروی کی؟ اللّٰہ ایسے ظالموں کو کبھی سیدھا راستہ نہیں دکھاتا۔
وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللہُ لَہٗ نُوْرًا فَمَا لَہٗ مِنْ نُّوْرٍo النور 40:24
اور جسے اللّٰہ نے روشنی نہ دی ہو اس کے لیے پھر کوئی روشنی نہیں۔
اس پورے مضمون کی تصریح سورۂ بقرہ میں ملتی ہے، جس سے یہ حقیقت بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ایمان اور کفر کے فرق سے نوعِ بشری کے ان دونوں گروہوں میں کتنا عظیم فرق ہو جاتا ہے۔
لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ۝۰ۣۙ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۝۰ۚ فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۝۰ۤ لَاانْفِصَامَ لَہَا۝۰ۭ وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌo اَللہُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۙ يُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ۝۰ۥۭ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَوْلِيٰۗــــُٔــھُمُ الطَّاغُوْتُ۝۰ۙ يُخْرِجُوْنَـھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَo البقرہ 256-257:2
دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ ہدایت کا راستہ گم راہی سے الگ کرکے دکھا دیا گیا ہے۔ اب جو طاغوت کو چھوڑ کر اللّٰہ پر ایمان لے آیا اس نے ایک مضبوط رسی تھام لی جو ٹوٹنے والی نہیں ہے۔ اور اللّٰہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ اللّٰہ ان لوگوں کا مددگار ہے جو ایمان لائے۔ وہ انھیں تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے۔ اور جو کافر ہیں ان کے مدد گار شیطان ہیں۔ وہ ان کونور سے تاریکیوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ وہ دوزخی ہیں اور دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔
علم پر ایمان کا تقدم
پھر اسی ایمان اور کفر کے بنیادی فرق نے انسانی اعمال کے درمیان بھی فرق کر دیا ہے۔ قرآن کے نزدیک نیکو کار اور پرہیز گار وہی شخص ہو سکتا ہے جو ایمان لائے۔ ایمان کے بغیر کسی عمل پر بھی تقوٰی اور صلاح کا اطلاق نہیں ہوتا، خواہ اہلِ دنیا کی نگاہ میں وہ عمل کتنا ہی نیک ہو۔ وہ کہتا ہے:
وَالَّذِيْ جَاۗءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖٓ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُتَّـقُوْنَo الزمر 33:39
اور جو شخص سچی بات لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی، بس وہی لوگ متقی ہیں۔
ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَo الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَo وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ۝۰ۚ وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَo البقرہ 2-4:2
قرآن ہدایت دیتا ہے متقین کے لیے جو غیب کی باتوں پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے اور ہمارے بخشے ہوئے مال کو خرچ کرتے ہیں، اور جو اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں جو تیرے اوپر اتاری گئی ہے اور ان کتابوں پر بھی جو تجھ سے پہلے نازل کی جا چکی ہیں، اور جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔
پس قرآن کی نگاہ میں ایمان ہی تقوٰی کی جڑ اور پرہیز گاری کی اصل ہے۔ جو شخص ایمان لاتا ہے اس کے نیک اعمال اس طرح پھلتے اورپُھولتے ہیں جس طرح اچھی آب و ہوا میں باغبان کے لگائے ہوئے درخت سرسبز ہوتے اورپھل پُھول لاتے ہیں۔ بخلاف اس کے جو شخص ایمان کے بغیر عمل کرتا ہے وہ گویا ایک بنجر، پتھریلی زمین اور خراب آب و ہوا میں باغ لگاتا ہے ۱؎۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں ہر جگہ ایمان کو عمل ِ صالح پر مقدم رکھا گیا ہے، اور کہیں بھی نرے حسنِ عمل کو، ایمان کے بغیر، نجات اورفلاح کا ذریعہ قرار نہیں دیا گیا ہے۔۲؎ بلکہ اگر آپ قرآن کا غور سے مطالعہ کریں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ قرآن مجید نے جس قدر اخلاقی ہدایات اور قانونی احکام دیے ہیں ان سب کے مخاطب صرف وہ لوگ ہیں جو ایمان لا چکے ہیں۔ اس قسم کی تمام آیات یا تو ’’یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘سے شروع ہوتی ہیں، یا اثنائے بیان میں کسی نہ کسی طرح سے تصریح کر دی گئی ہے کہ خطاب صرف مومنین سے ہے۔ باقی رہے کفار، تو ان کوحُسنِ عمل کی نہیں، صرف ایمان کی دعوت دی گئی ہے اور صاف کہہ دیا گیا ہے کہ جو لوگ مومن نہیں، ان کے اعمال کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے، وہ بے وزن ہیں، بے حقیقت ہیں اور قطعاً ضائع ہو جانے والے ہیں۔
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَعْمَالُہُمْ كَسَرَابٍؚ بِقِيْعَۃٍ يَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَاۗءً۝۰ۭ حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءَہٗ لَمْ يَجِدْہُ شَـيْــــًٔـا النور 39:24
اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے اعمال ایسے ہیں جیسے چٹیل میدان میں سراب، پیاسا دور سے دیکھ کرسمجھتا ہے کہ پانی ہے مگر جب وہاں پہنچتا ہے تو کچھ نہیں پاتا۔
قُلْ ہَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًاo اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُہُمْ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَہُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًاo اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّہِمْ وَلِقَاۗىِٕہٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فَلَا نُقِيْمُ لَہُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ وَزْنًاo ذٰلِكَ جَزَاۗؤُہُمْ جَہَنَّمُ بِمَا كَفَرُوْا وَاتَّخَذُوْٓا اٰيٰتِيْ وَرُسُلِيْ ہُزُوًاo الکہف 103-106:18
ان سے کہو، کیا ہم تمھیں بتائیں کہ اپنے اعمال کے لحاظ سے کون لوگ سب سے زیادہ نامراد ہیں؟ وہ جن کی کوششیں دنیوی زندگی میں بے کار صرف ہو گئیں اور وہ سمجھتے رہے کہ ہم بہت اچھے کام کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے پروردگار کی آیات کا انکار کیا اور یہ تسلیم نہ کیا کہ انھیں اس کے پاس حاضر ہونا ہے۔ اس وجہ سے ان کے اعمال اکارت گئے۔ قیامت کے دن ہم ان کے اعمال کو کوئی وزن نہ دیں گے اور وہ دوزخ میں جائیں گے۔ یہ بدلہ ہے اس کا کہ انھوں نے کفر کیا اور میری آیات اور میرے رسولوں کو مضحکہ بنا لیا۔
یہی مضمون سورۂ مائدہ (رکوع۱)، انعام (ع۱۰)، اعراف (ع۱۷)، توبہ(ع۳)، ہود(ع۲)، احزاب (ع۲)، زُمر(ع۷)، محمدؐ(ع۱) میں بیان ہوا ہے، اور سورۂ توبہ میں صاف تصریح کی گئی ہے کہ جو کافر بظاہر نیک عمل کرتا ہے وہ مومن کے برابر کبھی نہیں ہو سکتا:
اَجَعَلْتُمْ سِقَايَۃَ الْحَاۗجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰہَدَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۭ لَا يَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللہِ۝۰ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَo اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ۝۰ۙ اَعْظَمُ دَرَجَۃً عِنْدَ اللہِ۝۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَo التوبہ 19-20:9
کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے والے اور مسجد حرام کو آباد رکھنے والے کا مرتبہ اس شخص کے برابر سمجھ لیا ہے جو اللّٰہ اور یومِ آخر پر ایمان لایا اور جس نے اللّٰہ کی راہ میں جہاد کیا؟ یہ دونوں اللّٰہ کے نزدیک ہرگز برابر نہیں، اور اللّٰہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے ہجرت کی اور اللّٰہ کی راہ میں جان اور مال سے جہاد کیا، وہ اللّٰہ کے نزدیک بڑے درجے والے ہیں اور وہی کام یاب ہیں۔
خلاصہ
اس بیان سے اور قرآنِ مجید کی ان آیات سے جو اس کی تائید میں پیش کی گئی ہیں، چند امور غیر مشتبہ طور پر ثابت ہوتے ہیں:
۱۔ ایمان، نظامِ اسلامی کا سنگِ بنیاد ہے، اسی پر اس نظام کی عمارت قائم کی گئی ہے، اور کفر و اسلام کا امتیاز صرف ایمان و عدمِ ایمان کے بنیادی فرق پر مبنی ہے۔
۲۔ انسان سے اسلام کا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ وہ ایمان لائے۔ اس مطالبے کو قبول کرنے والا دائرۂ اسلام میں داخل ہے، اور تمام اخلاقی احکام اور مدنی قوانین اسی کے لیے ہیں۔ اور جو اس مطالبے کو رد کر دے، وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے، اس سے نہ کوئی اخلاقی حکم متعلق ہوتا ہے اور نہ کوئی مدنی قانون۔
۳۔ اسلام کے نزدیک ایمان ہی عمل کی جڑ ہے۔ صرف وہی عمل اس کی نگاہ میں قدر و قیمت اور وزن رکھتا ہے جو ایمان کی بنیاد پر ہو۔ اور جہاں سرے سے یہ بنیاد ہی موجود نہ ہو، وہاں تمام اعمال بے اصل اور بے وزن ہیں۔
ایک اعتراض
ایمان کی یہ اہمیت بعض لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی۔ وہ کہتے ہیں کہ چند عقلی نظریات کا ماننا کوئی ایسی جوہریت نہیں رکھتا کہ اس کی بنیاد پر نوعِ انسانی کو دو گروہوں پر تقسیم کیا جا سکے۔ ہمارے نزدیک اصل چیز اخلاق، سیرت اورکردار ہے۔ اسی پر اچھے اور برے، صحیح اور غلط کا امتیاز قائم ہے۔ جو شخص عمدہ اخلاق، پاک سیرت اور نیک کردار رکھتا ہو، وہ خواہ ان نظریات کو جنھیں اسلام نے ایمانیات قرار دیا ہے تسلیم کرتا ہو یا نہ کرتا ہو، بہرحال ہم اسے نیک کہیں گے اور متقین کے گروہ میں شمار کریں گے۔ اور جس میں یہ صفات نہیں ہیں اس کے لیے ایمان اور کفر کا اعتقادی فرق بالکل بے اصل ہے۔ وہ خواہ کسی عقیدے کا قائل ہو، ہم اسے بُرا ہی کہیں گے۔ رہی یہ بات کہ اعمال کے وزن اور ان کی قدر و قیمت کا انحصار ایمان پر ہے، اور یہ کہ ایمان کے بغیر کوئی عمل صالح نہیں ہوسکتا، تو یہ محّلِ نظر ہے۔ کسی دلیلِ عقلی کے بغیر یہ بات تسلیم نہیں کی جا سکتی کہ محض خدا، یارسول، یا کتاب، یا قیامت کے متعلق اسلام سے مختلف عقیدہ رکھنے والے کے فضائلِ اخلاق اور اعمالِ حسنہ ضائع ہو جاتے ہیں۔ اگر اسلام کسی عقیدے کو صحیح سمجھتا ہے تو وہ بلاشبہ اس کی تبلیغ کا حق رکھتا ہے، لوگوں کو اس کی طرف بلا سکتا ہے، اس پر ایمان لانے کی دعوت دے سکتا ہے۔ مگر اعتقاد کے سوال کو اخلاق اور اعمال کے حدود پر وسیع کرنا اور اخلاق کی فضیلت، سیرت کی پاکیزگی، اعمال کی بہتری کو ایمان پر منحصر کر دینا کہاں تک درست ہے؟
بظاہر یہ اعتراض اتنا وزنی ہے کہ بعض مسلمان بھی اس سے متاثر ہو کر اسلام کے اصول میں ترمیم کرنے پرآمادہ ہو گئے ہیں۔ مگر ایمان کی حقیقت اور سیرت و کردار سے اس کے تعلق کو سمجھ لینے کے بعد یہ اعتراض خود بخود رفع ہو جاتا ہے۔
اعتراض کی تحقیق
سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ افرادِ نوعِ بشری کے درمیان خوب و زشت کا امتیاز دراصل دو جداگانہ بنیادوں پر قائم ہے۔ ایک پیدائشی سرشت، جس کا حسن و قبح انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہے۔ دوسرے اکتساب، جس کا نیک یا بد ہونا عقل و فکر اور اختیار و ارادہ کے صحیح یا غلط استعمال پرمنحصر ہوتا ہے۔ یہ دونوں اُمور انسانی زندگی میں اپنی تاثیرات کے لحاظ سے باہم اس قدر خلط ملط ہیں کہ ہم انھیں اور ان کی تاثیرات کے حدود کو ایک دوسرے سے ممتاز نہیں کر سکتے۔ مگر نظری حیثیت سے اتنا ضرور جانتے ہیں کہ انسان کی حیاتِ فکر و عمل میں حُسن و قبح کی یہ دونوں بنیادیں الگ الگ موجود ہیں۔ جو حسن و قبح سرشت کی بنیاد پر ہے وہ اپنی اصل کے لحاظ سے میزانِ عدل میں کسی وزن کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ وزن صرف اس حسن و قبح کو حاصل ہونا چاہیے جو اکتساب کی بنیاد پر ہو۱؎ ۔ تعلیم، تلقین، تہذیب کے لیے جتنی کوششیں کی جاتی ہیں ان سب کا تعلق پہلی بنیاد (یعنی پیدائشی سرشت) سے نہیں ہے، کیوں کہ اس کے حسن کو قبح سے یا قبح کو حسن سے بدلنا غیر ممکن ہے، بلکہ ان کا تعلق دوسری بنیاد (اکتساب) سے ہے، جس کی راہ نُمائی صحیح تعلیم اور صحیح تربیت کے ذریعے سے حسن کی جانب اور غلط تعلیم اور غلط تربیت کے ذریعے سے قبح کی جانب کی جا سکتی ہے۔
اس اصل کے لحاظ سے جو شخص انسان کی اکتسابی قوتوں کو حُسن کی طرف پھیرتا اور اسی راہ میں ترقی دینا چاہتا ہو اس کے لیے صحیح طریق کار کیا ہو سکتا ہے؟ یہی کہ انسان کو علمِ صحیح بخشے، اور اسی علم کی روشنی میں اس کے لیے ایک ایسا نظامِ تربیت وضع کرے جو اس کے اخلاق، سیرت اور کردار کو، جہاں تک اس کا تعلق اکتساب سے ہے نہ کہ سرشت سے، ایک بہتر سانچے میں ڈھال سکتا ہو۔ اس باب میں علم کا تربیت پر مقدم ہونا لازمی ہے، اور کوئی صاحبِ عقل و دانش اس تقدم سے انکار نہیں کر سکتا۔ اس لیے کہ علم ہی عمل کی بنیاد ہے، علمِ صحیح کے بغیر کسی عمل کا صحیح ہونا ممکن نہیں ہے۔
اب علم کو لیجیے۔ علم کی ایک قسم تو وہ ہے جس کا تعلق ہماری زندگی کے جزئیات سے ہے، جسے ہم مدرسوں میں پڑھتے پڑھاتے ہیں، اور جو بے شمار علوم و فنون پر مشتمل ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جو علم کلی، اور قرآن کی اصطلاح میں’’العلم‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ جس کا تعلق ہمارے معاملات سے نہیں بلکہ ’’ہم‘‘ سے ہے۔ جو اس سے بحث کرتا ہے کہ ہم کیا ہیں؟ یہ دنیا جس میں ہم رہتے سہتے ہیں اس میں ہماری حیثیت کیا ہے؟ ہمیں اور اس دنیا کو کس نے بنایا ہے؟ اس بنانے والے سے ہمارا کیا تعلق ہے؟ ہمارے لیے زندگی بسر کرنے کا صحیح طریقہ (ہدیٰ اور صراطِ مستقیم) کیا ہے اور وہ ہمیں کیوں کر معلوم ہو؟ ہمارے سفرِ حیات کی منزلِ مقصود کون سی ہے؟ علم کی ان دونوں قسموں میں سے یہی دوسری قسم اصل اور بنیاد کا حکم رکھتی ہے۔ ہمارے تمام جزوی علوم اس کی فرع ہیں اور اسی علم کے صحیح یا غلط ہونے پر ہمارے تمام تخیلات اور معاملات کی صحت یا غلطی کا دارومدار ہے۔ پس انسان کی تربیت و تہذیب کے لیے جو نظام بھی وضع کیا جائے گا اس کی بنیاد اسی علم کلی پر قائم ہو گی۔ اگر علم کلی صحیح ہو گا تو تہذیب و تربیت کا نظام بھی صحیح ہو گا، اور اگر اس علم میں کوئی خرابی ہو گی تو لازماً اس خرابی سے تہذیب وتربیت کا نظام بھی خراب ہو جائے گا۔
قرآن مجید میں خدا، ملائکہ، کتب، رُسُل اور یومِ آخر کے متعلق جو معتقدات پیش کیے گئے ہیں وہ اسی علم کلی سے متعلق ہیں، اور ان پر ایمان لانے کا مطالبہ اس قدر شدت سے اسی لیے کیا گیا ہے کہ اسلام کا نظامِ تہذیب و تربیت اسی علم پر مبنی ہے۔ اسلام کے نزدیک انسان کی اکتسابی قوتوں کی تربیت اور تہذیب کا وہی نظام صحیح ہے جو صحیح علم کلی پر قائم ہو۔ کسی علم کلی کے بغیر جو نظام قائم کیے گئے ہیں، یا جن کی بنیادیں صحیح علم پر نہیں رکھی گئی ہیں، وہ اصلاً غلط ہیں۔ ان کے تحت انسان کی اکتسابی قوتیں غلط راستوں پر ڈال دی گئی ہیں۔ ان راستوں میں انسان کی جو مساعی صرف ہوتی ہیں، وہ بظاہر کتنی ہی صحیح معلوم ہوتی ہوں، مگر حقیقت کے اعتبار سے ان کا مصرف غلط ہے۔ ان کا رخ صحیح منزل مقصود کی جانب نہیں ہے۔ وہ کام یابی کے مقام تک نہیں پہنچ سکتیں۔ اس لیے وہ ضائع ہو جانے والی ہیں اور ان کا کوئی فائدہ انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام صرف اپنے راستے کو ’’صراطِ مستقیم‘‘ کہتا ہے اور باقی تمام راستوں کو جو بلا علم یا غلط علم کی بِنا پر اختیار کیے گئے ہیں، چھوڑ دینے کا مطالبہ کرتا ہے۔
وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْہُ۝۰ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّـبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِہٖ۝۰ۭ الانعام 153:6
نیز اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اس کے راستے سے ہٹا کر تمہیں پراگندہ کر دیں گے۔
اور اسی لیے اسلام کہتا ہے کہ جس کا ایمان صحیح نہیں ہے، اس کے تمام اعمال بے نتیجہ ہیں اور وہ آخر کار نامراد رہنے والا ہے۔
وَمَنْ يَّكْفُرْ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہٗ۝۰ۡوَہُوَفِي الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَo المائدہ 5:5
اور جس کسی نے ایمان کی رَوش پر چلنے سے انکار کیا تو اس کا سارا کارنامۂ زندگی ضائع ہو جائے گا اور وہ آخرت میں دیوالیہ ہوگا۔
اسلام نے جو ایمانیات پیش کیے ہیں وہی اس کے نزدیک عین علم، عین حق، عین صدق، عین ہدایت اور عین نُور ہیں۔ اور جب وہ ایسے ہیں تو لازماً ان کے خلاف جتنے معتقدات ہیں، وہ عین جہل، عین باطل، عین کذب، عین ضلالت، اور عین ظلم ہونے چاہییں۔ اگر اسلام انھیں چھوڑ دینے کا مطالبہ اس قدر شدت کے ساتھ نہ کرتا، اور اگر وہ ان غلط معتقدات کے قائلین کو صحیح ایمان رکھنے والوں کے برابر درجہ دیتا، تو گویا وہ اس امر کا اقرار کرتا کہ اس کے ایمانیات عین حق نہیں ہیں، اور اسے ان کے صدق اور ہدایت اور نور ہونے کا خود ہی پورا یقین نہیں ہے۔ اس صورت میں اس کا ان ایمانیات کو پیش کرنا، اور ان کی بِنا پر تربیت و تہذیب کا ایک نظام وضع کرنا، اور اس نظام میں شامل ہونے کے لیے لوگوں کو دعوت دینا، سب بے معنی ہوتا۔ اس لیے کہ اگر وہ یہ تسلیم کر لیتا کہ اس علمِ کُلی کے خلاف دوسرے علوم بھی اسی کی طرح صحیح ہیں، یا سرے سے کسی علمِ کُلی کے مفقود ہونے میں بھی کوئی مضایقہ نہیں ہے، تو اس علمِ کُلی کو پیش کرنے اور اس پر ایمان لانے کی دعوت دینے میں کوئی معنویت باقی نہ رہتی۔ اسی طرح اگر وہ یہ مان لیتا کہ اس علم کے خلاف دوسرے علوم کی بِنا پر، یا کسی علمِ کُلی کے بغیر، تہذیب و تربیت کے جونظام وضع کیے گئے ہیں ان کے ذریعے سے بھی انسان فلاح پا سکتا ہے، تو پھر نظامِ اسلامی کے اتباع کی طرف دعوت دینے میں کوئی وزن نہ رہتا۔
علاوہ بریں اگر وہ بحث آپ کے ذہن میں تازہ ہے جو پچھلے صفحات میں ایمان کی حقیقت پر کی گئی ہے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اسلام نے ایمان پر اس قدر زور کیوں دیا ہے؟ تخیل کی دنیا میں رہنے والے ریت پر، پانی پر، بلکہ ہوا پر بھی قصر تعمیر کر سکتے ہیں، مگر اسلام ایک حکیمانہ مذہب ہے، وہ تہذیب و تربیت کی عمارت بودی بنیادوں پر تعمیر نہیں کر سکتا۔ وہ سب سے پہلے انسان کی رو ح اور اس کے قوائے فکری کی گہرائیوں میں مضبوط بنیادیں قائم کرتا ہے، پھر ان پر ایک ایسی عمارت بناتا ہے جو کسی کے ہلائے نہیں ہل سکتی۔ وہ سب سے پہلے انسان کے ذہن نشین کرتا ہے کہ تیرے اوپر ایک خدا ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں تیرا حاکم ہے۔ جس کی حکومت سے تو کسی طرح نہیں نکل سکتا۔ جس کے علم سے تیری کوئی بات چھپی ہوئی نہیں ہے۔ اس نے تیری ہدایت کے لیے رسول بھیجا ہے، اور رسول کے ذریعے سے تجھ کو وہ کتاب اور وہ شریعت بھیجی ہے جس کے اتباع سے تو اس حاکم حقیقی کی رضا حاصل کر سکتا ہے۔ اگر تو اس کے خلاف عمل کرے گا تو خواہ تیری خلاف ورزی کیسی ہی ڈھکی چھپی ہو، وہ حاکم ضرور تیری گرفت کرے گا اور تجھے سزا دیے بغیر نہ رہے گا۔ یہ نقش انسان کے دل پر گہرا بٹھا دینے کے بعد وہ اخلاقِ حسنہ کی تعلیم دیتا ہے،امر و نہی کے احکام دیتا ہے، اور اسی نقشِ ایمانی کی قوت سے اپنی تعلیم کا اتباع اور اپنے احکام کی اطاعت کراتا ہے۔ یہ نقش جتنا گہرا ہو گا، اتباع اتنا ہی کامل ہو گا، اطاعت اتنی ہی مضبوط ہو گی، نظامِ تہذیب و تربیت اتنا ہی طاقت ور ہو گا۔ اور اگر یہ نقش کم زور ہو، یا سرے سے موجود ہی نہ ہو، یا اس کے بجائے کچھ دوسرے نقوش دل پرجمے ہوئے ہوں، تو تعلیمِ اخلاق محض نقش بر آب ہو گی، امر و نہی کے احکام بالکل بے زور اور بودے ہوں گے، تہذیب و تربیت کا سارا نظام بچوں کا ایک گھروندا ہو گا، جس کے قیام و دوام کا کچھ اعتبار نہیں۔ ممکن ہے کہ وہ خوش نما ہو، وسیع ہو، بلند ہو، مگر اس میںاستحکام کہاں؟ اس بات کو قرآنِ حکیم میں ایک مثال کے ذریعے سے واضح کیا گیا ہے:
اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا كَلِمَۃً طَيِّبَۃً كَشَجَرَۃٍ طَيِّبَۃٍ اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُہَا فِي السَّمَاۗءِo تُؤْتِيْٓ اُكُلَہَا كُلَّ حِيْنٍؚبِـاِذْنِ رَ بِّہَا۝۰ۭ وَيَضْرِبُ اللہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَتَذَكَّرُوْنَo وَمَثَلُ كَلِمَۃٍ خَبِيْثَۃٍ كَشَجَرَۃٍ خَبِيْثَۃِۨ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَہَا مِنْ قَرَارٍo يُثَبِّتُ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَۃِ۝۰ۚ وَيُضِلُّ اللہُ الظّٰلِــمِيْنَ۝۰ۣۙ وَيَفْعَلُ اللہُ مَا يَشَاۗءُo
ابراہیم 24-27:14
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللّٰہ نے کلمہ طیبہ (اعتقاد صحیح) کی کیسی مثال دی ہے؟ وہ گویا ایک اچھا درخت ہے جس کی جڑ خوب جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک بلند ہیں۔ وہ اپنے پروردگار کے اذن سے ہمہ وقت پھل لاتا رہتا ہے۔ اللّٰہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ سبق حاصل کریں۔ اور کلمۂ خبیثہ (اعتقاد باطل) کی مثال ایک خراب درخت کی سی ہے جو زمین کے اوپر سے اُکھیڑ دیا جاتا ہے، کوئی جمائو اورمضبوطی ہی نہیں رکھتا۔ اللّٰہ ایمان لانے والوں کو ایک قولِ ثابت (پکے اعتقاد) کے ساتھ دنیا و آخرت دونوں زندگیوں میں استحکام بخشتا ہے اور ظالموں کو یوں ہی بھٹکتا چھوڑ دیتا ہے۔ اور اللّٰہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
اب تک ایمانیاتِ خمسہ پر بحیثیت مجموعی نظر کی گئی ہے۔ اب تفصیل کے ساتھ دیکھنا چاہیے کہ ان پانچوں امور میں سے ہر ایک کے متعلق اسلام نے کیا عقائد پیش کیے ہیں؟ ہر عقیدے کی ضرورت و مصلحت کیا ہے؟ انسان کی قوتِ فکری پر اس کا کیا اثر مرتب ہوتا ہے؟ اور ذہن میں اس کے جم جانے سے کس طرح ایک صالح اور نہایت مستحکم سیرت کی تشکیل و تعمیر ہوتی ہے۔

شیئر کریں