اب تک ہم نے مسئلۂ زیر بحث کے بارے میں صرف قرآن و سنت کی تعلیمات پیش کی ہیں۔ اب ہم اس پر عقلی نقطۂ نظر سے گفتگو کرتے ہیں۔
سب سے پہلے جس بات کو طے ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ کیا فی الواقع سود ایک معقول چیز ہے؟ کیا درحقیقت عقل کی رو سے ایک شخص اپنے دیے ہوئے قرض پر سود کا مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے؟ اور کیا انصاف یہی چاہتا ہے کہ جو شخص کسی سے قرض لے وہ اس کو اصل کے علاوہ کچھ نہ کچھ سود بھی دے؟ یہ اس بحث کا اولین سوال ہے اور اس کے طے ہونے سے آدھی سے زیادہ بحث آپ سے آپ طے ہو جاتی ہے۔ کیوں کہ اگر سود ایک معقول چیز ہے تو پھر تحریم سود کے مقدمے میں کوئی جان باقی نہیں رہتی۔ اور اگر سود کو عقل و انصاف کی رُو سے درست ثابت نہیں کیا جاسکتا تو پھر یہ امر غور طلب ہو جاتا ہے کہ انسانی معاشرے میں اس نامعقول چیز کو باقی رکھنے پر آخر کیوں اصرار کیا جائے؟