اِنَّ اللہَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى وَيَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ۰ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَo النحل90:16
اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تا کہ تم سبق لو۔
اس مختصر سے فقرے میں تین ایسی چیزوں کا حکم دیا گیا ہے جن پر پورے انسانی معاشرے کی درستی کا انحصار ہے۔
پہلی چیز عدل ہے جس کا تصور دو مستقل حقیقتوں سے مرکب ہے۔ ایک یہ کہ لوگوں کے درمیان حقوق میں توازن اور تناسب قائم ہو۔ دوسرے یہ کہ ہر ایک کو اس کا حق بے لاگ طریقہ سے دیا جائے۔ اردو زبان میں اس مفہوم کو لفظ ’’انصاف‘‘ سے ادا کیا جاتا ہے، مگر یہ لفظ غلط فہمی پیدا کرنے والا ہے۔ اس سے خواہ مخواہ یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان حقوق کی تقسیم نصف نصف کی بنیاد پر ہو، اور پھر اسی سے عدل کے معنی مساویانہ تقسیم حقوق کے سمجھ لیے گئے ہیں جو سراسر فطرت کے خلاف ہے۔ دراصل عدل جس چیز کا تقاضا کرتا ہے وہ توازن اور تناسب ہے نہ کہ برابری۔ بعض حیثیتوں سے تو عدل بے شک افرادِمعاشرہ میں مساوات چاہتا ہے ، مثلاً حقوقِ شہریت میں۔ مگر بعض دوسری حیثیتوں سے مساوات بالکل خلافِ عدل ہے، مثلاً والدین اور اولاد کے درمیان معاشرتی اور اخلاقی مساات، یا اعلیٰ درجے کی خدمات انجام دینے والوں اور کم تر درجے کی خدمات ادا کرنے والوں کے درمیان معاوضوں میں مساوات، پس اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا حکم دیا ہے وہ حقوق میں مساوات نہیں بلکہ توازن اور تناسب ہے، اور اس حکم کا تقاضا ہی یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کے اخلاقی، معاشرتی، معاشی، قانونی اور سیاسی و تمدنی حقوق پوری ایمان داری کے ساتھ ادا کیے جائیں۔
دوسری چیز احسان ہے جس سے مراد ہے نیک برتائو، فیاضانہ معاملہ، ہمدردانہ رویہ، رواداری، خوش خلقی ، باہمی مراعات، ایک دوسرے کا پاس و لحاظ، دوسرے کو اس کے حقوق سے کچھ زیادہ دینا، اور خود اپنے حق سے کچھ کم پر راضی ہو جانا ۔ یہ انصاف سے زائد ایک چیز ہے جس کی اہمیت اجتماعی زندگی میں عدل سے بھی زیاد ہ ہے۔ عدل اگر معاشرے کی اساس ہے تو احسان اس کا جمال و کمال ۔ عدل اگر معاشرے کو ناگواریوں اورتلخیوں سے بچاتا ہے تو احسان اس میں خوش گواریاں اور شیرینیاں پیدا کرتا ہے۔ کوئی معاشرہ صرف اس بنیاد پر کھڑا نہیں رہ سکتا کہ اس کا ہر فرد ہر وقت ناپ تول کر دیکھتا رہے کہ اس کا کیا حق ہے اور اسے وصول کر کے چھوڑے، اور دوسرے کا کتنا حق ہے اور اسے بس اتنا ہی دے دے۔ ایسے ایک ٹھنڈے اور کھرے معاشرے میں کش مکش تو نہ ہوگی مگر وہ محبت اور شکر گزاری اور عالی ظرفی اور ایثار اور اخلاص و خیر خواہی کی قدروں سے محروم رہے گا جو دراصل زندگی میں لطف و حلاوت پیدا کرنے والی اور اجتماعی محاسن کو نشوونما دینے والی قدریں ہیں۔
تیسری چیز جس کا اس آیت میں حکم دیاگیا ہے صلہ رحمی ہے جو رشتہ داروں کے معاملے میں احسان کی ایک خاص صورت متعین کرتی ہے۔ اس کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتائو کرے اور خوشی و غمی میں ان کا شریک حال ہو، اور جائز حدود کے اندر ان کا حامی و مددگار بنے۔ بلکہ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ ہر صاحب استطاعت شخص اپنے مال پر صرف اپنی ذات اور اپنے بال بچوں ہی کے حقوق نہ سمجھے بلکہ اپنے رشتہ داروں کے حقوق بھی تسلیم کرے۔ شریعت الٰہی ہر خاندان کے خوش حال افراد کو اس امر کا ذمہ دار قرار دیتی ہے کہ وہ اپنے خاندان کے لوگوں کو بھوکا ننگا نہ چھوڑیں۔ اس کی نگاہ میں ایک معاشرے کی اس سے بدتر کوئی حالت نہیں ہے کہ اس کے اندر ایک شخص عیش کر رہا ہو اور اسی کے خاندان میں اس کے اپنے بھائی بند روٹی کپڑے تک کے محتاج ہوں۔وہ خاندان کو معاشرے کا ایک اہم عنصرِ ترکیبی قرار دیتی ہے اور یہ اصول پیش کرتی ہے کہ ہر خاندان کے غریب افراد کا پہلا حق اپنے خاندان کے خوش حال افراد پر ہے، پھر دوسروں پر ان کے حقوق عائد ہوتے ہیں۔ یہی بات ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مختلف ارشادات میں وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ متعدد احادیث میں اس کی تصریح ہے کہ آدمی کے اولین حقدار اس کے والدین، اس کے بیوی بچے، اور اس کے بھائی بہن ہیں، پھر وہ جو ان کے بعدقریب تر ہوں، اور پھر وہ جو اُن کے بعد قریب تر ہوں۔ اور یہی اصول ہے جس کی بنا پر حضرت عمرؓ نے ایک یتیم بچے کے چچا زاد بھائیوں کو مجبور کیا کہ وہ اس کی پرورش کی ذمہ داری قبول کریں، اور ایک دوسرے یتیم کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ اگر اس کا کوئی بعید ترین رشتہ دار بھی موجود ہوتا تو میں اس پر اس کی پرورش لازم کر دیتا… اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جس معاشرے کا ہر واحدہ (unit) اس طرح اپنے اپنے افراد کو سنبھال لے اس میں معاشی حیثیت سے کتنی خوش حالی، معاشرتی حیثیت سے کتنی حلاوت اور اخلاقی حیثیت سے کتنی پاکیزگی و بلندی پیدا ہو جائے گی۔
اوپر کی تین بھلائیوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ تین برائیوں سے روکتا ہے جو انفرادی حیثیت سے افراد کو اور اجتماعی حیثیت سے پورے معاشرے کو خراب کرنے والی ہیں۔
پہلی چیز فحشاء ہے جس کا اطلاق تمام بیہودہ اور شرمناک افعال پر ہوتا ہے۔ ہر وہ برائی جو اپنی ذات میں نہایت قبیح ہو فحش ہے۔ مثلاً بخل، زنا، برہنگی و عریانی، عملِ قومِ لوط، محرمات سے نکاح، چوری، شراب نوشی، بھیک مانگنا، گالیاں بکنا اور بدکلامی کرنا وغیرہ۔ اس طرح علی الاعلان برے کام کرنا اور برائیوں کو پھیلانا بھی فحش ہے۔ مثلاً جھوٹا پروپیگنڈا، تہمت تراشی، پوشیدہ جرائم کی تشہیر، بدکاریوں پر ابھارنے والے افسانے اور ڈرامے اور فلم، عورتوں کا بن سنور کر منظر عام پر آنا، علی الاعلان مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط ہونا، اور اسٹیج پر عورتوں کا ناچنا اور تھرکنا اور ناز و ادا کی نمائش کرنا وغیرہ۔
دوسری چیز منکر ہے جس سے مراد ہر وہ برائی ہے جسے انسان بالعموم برا جانتے ہیں، ہمیشہ سے برا کہتے رہے ہیں، اور تمام شرائع الٰہیہ نے جس سے منع کیا ہے۔
تیسری چیز ’’بَغْی‘‘ ہے جس کے معنی ہیں اپنی حد سے تجاوز کرنا اور دوسرے کے حقوق پر دست درازی کرنا خواہ وہ حقوق خالق کے ہوں یا مخلوق کے۔
یہ وہ بنیادی قدریں ہیں جن پر اسلامی معاشرہ قائم ہوتا ہے، جن کی حفاظت فرد اور حکومت دونوں کی ذمّے داری ہے اور جن کے حصول کے لیے قانون اور اخلاق کی تمام قوتیں استعمال کی جاتی ہیں۔