قرآن مجید وراثت کا قانون مقرر کرنے کے ساتھ آدمی کو یہ ہدایت بھی دیتا ہے کہ وہ مرنے سے پہلے اپنے ترکے کے بارے میں وصیت کر دے:
كُتِبَ عَلَيْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَيْرَۨا۰ۚۖ الْوَصِيَّۃُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ بِالْمَعْرُوْفِ۰ۚ حَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَo البقرہ180:2
تم پر لکھ دیا گیا کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ کافی مال چھوڑ رہا ہو تو والدین اور رشتہ داروں کے لیے جائز طریقہ پر وصیت کر دے، یہ حق ہے پرہیز گاروں پر۔
اس حکم کا منشا یہ ہے کہ ایک تو مرنے والا خصوصیت کے ساتھ اپنے والدین کے حق میں اپنی اولاد کو حسن سلوک کی وصیت کر جائے، کیوں کہ ان سے بوڑھے دادا ، دادی کی خدمت کی توقع کم ہی کی جاسکتی ہے۔ دوسرے اس کے خاندان میں جو افراد ایسے ہوں جنھیں قانون کے مطابق میراث میں سے حصہ نہیں پہنچتا، مگر مرنے والا انہیں مدد کا مستحق سمجھتا ہو تو انہیں اپنے ترکے میں سے حصہ دینے کی وصیت کر دے۔ اس کے علاوہ ایک شخص اگر بہت مال چھوڑ رہا ہو تو وہ رفاہِ عام کے کاموں کے لیے بھی وصیت کرنے کا مجاز ہے۔ کیوں کہ مذکورہ بالا آیت کا منشا یہ نہیں ہے کہ وصیت کی اجازت صرف والدین اور رشتہ داروں تک ہی محدود رہے۔(نَیل الاوطار، ج ۶، ص ۳۲۔۳۳۔ اس معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح سے قرآن کا جو منشا معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کے لیے اپنے رشتے داروں کو غریب و محتاج چھوڑ کر رفاہِ عام پر خرچ کرنے کی وصیت کرنا پسندیدہ نہیں ہے ۔ نیل الاوطار میں بخاری، مسلم اور دوسری کتبِ حدیث سے آنحضرتؐ کے جو الفاظ نقل کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں کہ: ’’تیرا اپنے وارثوں کو خوشحال چھوڑنا اس سے بہتر ہے کہ تو انہیں اس حال میں چھوڑے کہ وہ محتاج ہوں اور لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلائیں۔‘‘)
وصیت اور میراث کے اس قانون سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ شخصی املاک کے ترکوں کے معاملے میں اسلامی اسکیم یہ ہے کہ دو تہائی تو لازماً قانونِ میراث کے مطابق تقسیم ہو، اور ایک تہائی مرنے والے کے اختیارِ تمیزی پر چھوڑ دیا جائے تا کہ وہ جس غرض کے لیے چاہے اسے صرف کرنے کی وصیت کردے، بشرطیکہ وہ جائز طریقے پر ہو، یعنی وہ کام بھی جائز ہو جس کے لیے وصیت کی گئی ہے اور اس میں کسی کی حق تلفی بھی نہ ہو۔(وصیت کے قانون کی تشریح کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حقِ وصیت پر تین حدود عائد کیے ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی زیادہ سے زیادہ اپنے ایک تہائی مال کی حد تک وصیت کے اختیارات استعمال کرسکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ جن لوگوں کو اَز رُوئے قانون وراثت کا حصہ پہنچتا ہو ان کے لیے کوئی وصیت دوسرے وارثوں کی رضا مندی کے بغیر نہیں کی جاسکتی۔ تیسرے یہ کہ کسی وارث کو وراثت سے محروم کرنے یا اس کے حصے میں کمی کرنے کی وصیت نہیں کی جاسکتی (نیل الاوطار، ج ۶، ص ۳۱، ۳۵)