کسی مرد یا عورت کی وفات پر اس کے متروکہ مال کے متعلق قرآن کا قانون یہ ہے کہ یہ مال اس کے والدین، اس کی اولاد، اور اس کی بیوی یا شوہر کے درمیان ایک مقرر نسبت کے ساتھ تقسیم کیا جائے۔ اور اگر والدین اور اولاد نہ ہو تو اس کے حقیقی اور علاتی اور اخیافی (یعنی صرف ماں شریک اور صرف باپ شریک) بھائی بہنوں کو حصہ دیا جائے۔ اس کے متعلق مفصل احکام سورئہ نساء میں بیان ہوئے ہیں( نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قانون کی جو تشریح فرمائی ہے اس کی رو سے قریب ترین رشتہ داروں کی غیر موجودگی میں میراث قریب تر رشتے داروں کو پہنچے گی اور ان کی غیر موجودگی میں بدرجۂ آخر اسے ان لوگوں میں تقسیم کیا جائے گا جو غیروں کی بہ نسبت میت سے کوئی قرابت رکھتے ہوں۔ لیکن اگر کوئی رشتہ دار سرے سے موجود ہی نہ ہو تو پھر یہ مال اسلامی حکومت کے خزانہ میں داخل ہوگا۔ (نَیل الاَوطار، ج۶، ص ۴۷۔۵۶) (ملاحظہ ہو آیت ۷ تا ۱۲، اور آیت ۱۷۶) ۔ یہاں ہم بخوفِ طوالت انہیں نقل نہیں کرتے۔
اس معاملے میں قرآن نے جو اصول اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ جو مال ایک شخص کی زندگی میں یکجا مرتکز ہوگیا ہو وہ اس کے مرنے کے بعد مرتکز نہ رہنے دیا جائے بلکہ اس کے قرابت داروں میں پھیلا دیا جائے۔ یہ اصول توریثِ خلفِ اکبر primo geniture)) اور مشترک خاندانی جائیداد (joint family system) اور ایسے ہی دوسرے طریقوں کے برعکس ہے، جن کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مرتکز شدہ دولت مرنے والے کے بعدبھی مرتکز ہی رہے۔
اسی طرح قرآن متبنٰی بنانے کے طریقے کو بھی رد کر دیتا ہے اور یہ قاعدہ مقرر کرتا ہے کہ جو لوگ واقعی رشتہ دار ہیں، میراث میں حق انہی کا ہے، کسی غیر آدمی کو بیٹا بنا کر مصنوعی طور پر وارث نہیں بنایا جاسکتا:
وَمَا جَعَلَ اَدْعِيَاۗءَكُمْ اَبْنَاۗءَكُمْ۰ۭ ذٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِاَفْوَاہِكُمْ۰ۭ الاحزاب 4:33
اللہ نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا بیٹا نہیں بنایا ہے، یہ تو ایک بات ہے جو تم بس اپنے منہ سے نکالتے ہو۔
وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللہِ الاحزاب 6:33
اور رشتہ دار ہی اللہ کی کتاب میں ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں۔
لیکن حقیقی وارث رشتہ داروں کے حقوق کی پوری طرح حفاظت کر دینے کے بعد قرآن ان کو یہ ہدایت کرتا ہے کہ تقسیمِ میراث کے موقع پر جو غیر وارث رشتہ دار آئیں ان کو بھی وہ اپنی خوشی سے کچھ نہ کچھ دیں:
وَاِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ اُولُوا الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنُ فَارْزُقُوْھُمْ مِّنْہُ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاo وَلْيَخْشَ الَّذِيْنَ لَوْ تَرَكُوْا مِنْ خَلْفِھِمْ ذُرِّيَّۃً ضِعٰفًا خَافُوْا عَلَيْھِمْ۰۠ فَلْيَتَّقُوا اللہَ النساء 8,9:4
اور جب تقسیم کے موقع پر رشتہ دار اور یتیم اور مسکین لوگ آئیں تو ان کو بھی اس میں سے کچھ دو اور ان سے اچھی طرح بات کرو۔ لوگوں کو ڈرنا چاہیے کہ اگر وہ اپنے پیچھے کمزور اولاد چھوڑ رہے ہوتے تو انہیں کیسے کیسے اندیشے لاحق ہوتے، پس چاہیے کہ لوگ اللہ سے ڈریں۔