ان دونوں مدات سے جو مال حاصل ہو وہ قرآن کی رو سے خزانہ عامہ (public exchequer) کا کوئی حصہ نہیں ہے جس کا مقصد زکوٰۃ دینے والوں سمیت تمام لوگوں کے لیے آسائشیں اور ضروری خدمات بہم پہنچانا ہوتا ہے، بلکہ قرآن نے اسے حسبِ ذیل مصارف کے لیے مخصوص کیا ہے:
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۰ۭ فَرِيْضَۃً مِّنَ اللہِ۰ۭ
التوبہ 60:9
’’صدقات تو مخصوص ہیں فقراء ( فقر کے اصل معنی حاجت کے ہیں اور فقیر ہر وہ شخص ہے جو اپنی ضرورت سے کم معاش پانے کے باعث مدد کا محتاج ہو۔ (لسان العرب، ج ۵، ص ۶۰۔۶۱، بیروت، ۱۹۵۶ء)کے لیے اور مساکین ( حضرت عمرؓ کا قول ہے کہ مسکین وہ شخص ہے جو کما نہ سکتا ہو یا کمانے کا موقع نہ پاتا ہو۔ (الجصاص، ج ۳، ص ۱۵۱)۔ اس تعریف کی رو سے تمام وہ غریب بچے جو ابھی کمانے کے قابل نہ ہوئے ہوں، اور اپاہج اور بوڑھے جو کمانے کے قابل نہ رہے ہوں، اور بیروزگار یا بیمار جو عارضی طور پر کمانے کے موقع سے محروم ہوگئے ہوں، مسکین ہیں۔
)کے لیے اور ان لوگوں کے لیے جو صدقات کی تحصیل و تقسیم کا کام کریں، اور ان کے لیے جن کی تالیف قلب مطلوب ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تین قسم کے لوگوں کو تالیفِ قلب کے لیے روپیہ دیا جاتا تھا۔ (۱) جو مخالفینِ اسلام کمزور مسلمانوں کو تکلیفیں دیتے یا اسلام کی عداوت میں سخت تھے انہیں روپیہ دے کر نرم رویہ اختیار کرنے پر آمادہ کیا جاتا تھا۔ (۲) جو لوگ اپنی قوم یا قبیلے کے لوگوں کو اسلام قبول کرنے سے زبردستی روکتے تھے انہیں روپیہ دے کر اس روش سے باز آجانے پر آمادہ کیا جاتا تھا۔ (۳) جو لوگ نئے نئے اسلام میں داخل ہوتے تھے ان کی مالی مدد کی جاتی تھی تا کہ ان کا اضطراب رفع ہو اور وہ مطمئن ہو کر مسلمانوں کے گروہ میں رہیں۔ (الجصاص، ج ۳، ص ۱۵۲)۔
)ہو،نیز وہ صرف ہونے چاہئیں غلاموں کی گردنیں چھڑانے میں( اس سے مراد وہ مسلمان بھی ہیں جو لڑائیوں میں دشمنوں کے ہاتھ گرفتار ہو کر غلام بنا لئے جاتے تھے اور وہ غیر مسلم بھی جو مسلمانوں کے ہاں جنگ میں گرفتار ہو کر آتے اور فدیہ ادا کر کے رہائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ نیز وہ غلام بھی مراد ہیں جو پہلے سے غلام چلے آ رہے تھے۔
)، قرض داروں کی مدد میں، اللہ کی راہ میں( اللہ کی راہ سے مراد جہاد اور حج ہے۔ جہاں میں جانے والا رضاکار اگر اپنی ضروریات کی حد تک مال دار بھی ہو، تب بھی وہ زکوٰۃ لے سکتا ہے، کیونکہ جہاد کے لیے تیاری کرنے اور سفر وغیرہ کے مصارف بہم پہنچانے کے لیے آدمی کا ذاتی مال کافی نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح حج کے سفر میں اگر آدمی کا زادِ راہ ختم ہو جائے تو وہ بھی زکوٰۃ کا مستحق ہے۔ (الجصاص، ج ۳، ص ۵۷۔۱۵۶۔ نَیل الاَوطار، ج ۴، ص ۴۶۔۱۴۴) اور اور مسافروں کی خبر گیری میں( مسافر اپنے گھر پر چاہے مال دار بھی ہو، لیکن حالتِ سفر میں اگر وہ مدد کا محتاج ہو جائے تو اسے زکوٰۃ لینے کا حق پہنچتا ہے۔ (الجصاص، ج ۳، ص ۱۵۷)،اللہ کی طرف سے ایک فریضے کے طور پر۔‘‘