فرض زکوٰۃ عائد کرنے سے جو فنڈ فراہم ہوتا ہے اس پر قرآن نے ایک اور مد کا اضافہ بھی کیا ہے اور وہ ہے اموالِ غنیمت (spoils of war) کا ایک حصہ۔ قرآن نے یہ قاعدہ مقرر کیا ہے کہ ہر لڑائی میں جو غنیمت کا مال فوج کے ہاتھ آئے اسے سپاہی بطورِ خود نہ لوٹ لیں بلکہ سب کچھ لا کر اپنے کمانڈر کے حوالے کر دیں، اور کمانڈر اس کے پانچ حصے کر کے چار حصے ان سپاہیوں میں تقسیم کرے جنھوں نے معرکے میں حصہ لیا ہو، اور پانچواں حصہ الگ کر کے حکومت کے حوالے کر دے:
وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۰ۙ الانفال41:8
تم کو معلوم ہو کہ جو کچھ بھی غنیمت تم حاصل کرو اس کا پانچواں حصہ اللہ اور رسولؐ اور قرابت داروں(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں غنیمت کے خمس میں سے ایک حصہ خود حضورؐ اپنی اور اپنے متعلقین کی ضروریات کے لیے لیتے تھے، کیوں کہ زکوٰۃ میں آپؐ کا اور آپؐ کے رشتے داروں کا کوئی حصہ نہ تھا۔ لیکن آپؐ کی وفات کے بعد اس امر میں اختلاف ہوا کہ رسولؐ اور قرابت داروں کا حصہ کس کو دیا جائے۔ بعض لوگوں کی رائے یہ تھی کہ یہ حصہ آنحضرتؐ کے لیے سربراہِ مملکت ہونے کی حیثیت سے تھا اور اب یہ آپؐ کے خلیفہ اور اس کے متعلقین کا حق ہے۔ بعض دوسرے لوگوں کی رائے تھی کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی آپؐ ہی کے متعلقین کا حق ہے۔ آخرکار اس بات پر اتفاق ہوا کہ وہ حصہ جو آنحضرتؐ اور ان کے متعلقین کے لیے تھا، اب اسلامی حکومت کی جنگی ضروریات کے لیے مخصوص کر دیا جائے۔ (الجصاص، ج ۳، ص ۷۵۔۷۷) اور یتامیٰ اور مسافر کے لیے ہے۔