Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
دیباچہ
کچھ جدید اڈیشن کے بارے میں
۱۔ نوعیتِ مسئلہ
۲ ۔عورت مختلف اَدوار میں
۳ ۔دَورِ جدید کا مسلمان
۴۔ نظریات
۵ ۔نتائج
۶ ۔چند اور مثالیں
۷۔ فیصلہ کن سوال
۸ ۔قوانینِ فطرت
۹ ۔انسانی کوتاہیاں
۱۰ ۔اسلامی نظامِ معاشرت
۱۱ ۔پردہ کے احکام
۱۲۔ باہر نکلنے کے قوانین
۱۳۔ خاتمہ

پردہ

  مغربی تہذیب کی برق پاشیوں اور جلوہ سامانیوں نے اہل ِمشرق کی عموماً اور مسلمانوں کی نظروں کو خصوصاً جس طرح خیرہ کیا ہے وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور عریانی نے جس سیل رواں کی شکل اختیار کی ہے اس نے ہماری ملی اور دینی اقدار کو خس و خاشاک کی طرح بہادیا گیا۔ اس کی چمک دمک نے ہمیں کچھ اس طرح مبہوت کردیا کہ ہم یہ بھی تمیز نہ کر سکے کہ اس چمکتی ہوئی شے میں زرِخالص کتنا ہے اور کھوٹ کتنا۔ اس تیز وتند سیلاب کے مقابلہ میں ہم اتنے بے بس ہو کر رہ گئے ہیں کہ ہماری اکثریت نے اپنے آپ کو پوری طرح اس کے حوالے کردیا۔ نیتجتاً ہمارا معاشرہ تلپٹ ہوگیا اور ہمارے خاندانی نظام کا شیرازہ کچھ اس طرح منتشر ہواکہ کوچہ کوچہ ہماری اس تہذیبی خودکشی پر نوحہ کر رہا ہے۔مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ ان با بصیرت اصحاب میں سے ہیں جنھوں نے اس سیلاب بلا خیز کی تباہ کا ریوں کا بروقت اندازہ لگا کر ملت کو اس عظیم خطرے سے متنبہ کیا اور اسے روکنے کے لیے مضبوط بند باندھنے کی کو شش کی۔

”پردہ “ آپ کی انھی کوششوں کی آئینہ دار ہے۔

عصرِ حاضر میں اس موضوع پر اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں ،”پردہ “ان میں ممتاز مقام رکھتی ہے اس کا دل نشین اندازِ بیان، پرزوراستدلال اور حقائق سے لبریز تجزیے اپنے اندروہ کشش رکھتا ہے کہ کٹر سے کٹر مخالف بھی قائل ہوئے بغیر نہیں رہتا۔یہی وجہ ہے کہ پورے عالمِ اسلام میں اس کتاب کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ بہت کم کتابوں کو نصیب ہوئی ہے ۔مشرقِ وسطیٰ میں اس کا عربی ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ یہی حال اس کے اردو اور انگریزی ایڈیشن کا ہے۔

۱۲۔ باہر نکلنے کے قوانین

لباس اور ستر کے حدود مقرر کرنے کے بعد آخری حکم جو عورتوں کو دیا گیا ہے وہ یہ ہے:
وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاہِلِيَّۃِ الْاُوْلٰى (الاحزاب 33:33)
اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ بیٹھی رہو اور زمانہ جاہلیت کے سے بنائو سنگار نہ دکھاتی پھرو۔
وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِہِنَّ۝۰ۭ (النور 31:24)
اور اپنے پائوں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلیں کہ جو زینت انھوں نے چھپا رکھی ہے وہ معلوم ہو جائے۔
فَلَا تَخْـضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ (الاحزاب 32:33)
پس دبی زبان سے بات نہ کرو کہ جس شخص کے دل میں مرض ہو وہ طمع میں مبتلا ہوجائے۔
وقرن کی قرأت میں اختلاف ہے۔ عام قراء مدینہ اور بعض کوفیوں نے اسے وقرن بفتح پڑھا ہے جس کا مصدر قرار ہے۔ اس لحاظ سے ترجمہ یہ ہو گا کہ ’’اپنے گھروں میں ٹھہری رہو یا جمی رہو۔‘‘ عام قراء بصرہ و کوفہ نے وقرن بکسر قاف پڑھا ہے جس کا مقصد وقار ہے۔ اس لحاظ سے معنی یہ ہوں گے کہ ’’اپنے گھروں میں وقار اور سکینت کے ساتھ رہو۔ ‘‘
تبرج کے دو معنی ہیں۔ ایک زینت اور محاسن کا اظہار۔ دوسرے چلنے میں ناز و انداز دکھانا، تبختر کرتے ہوئے چلنا، اٹھلانا، لچکے کھانا، جسم کو توڑنا، ایسی چال اختیار کرنا جس میں ایک ادا پائی جاتی ہو۔ آیت میں یہ دونوں معنی مراد ہیں۔ جاہلیتِ اُولیٰ میں عورتیں خوب بن سنور کر نکلتی تھیں۔ جس طرح دورِ جدید کی جاہلیت میں نکل رہی ہیں۔ پھر چال بھی قصدًا ایسی اختیار کی جاتی تھی کہ ہر قدم زمین پر نہیں بلکہ دیکھنے والوں کے دلوں پر پڑے۔ مشہور تابعی و مفسر قرآن قتادہ بن دعامہ کہتے ہیں کہ
کَانَتْ لَھُنَّ مَشْیَۃٌ وَتُکَسِّرُ وَتُغَنِّجُ فَنَھَا ھُنَّ اللّٰہَ عَنْ ذٰلِکَ۔(تفسیر الطبری، الاحزاب:۳۲)
]ان کی چال میں ناز و نخرہ تھا، چنانچہ اللہ ان کو اس سے منع فرمایا۔[
اس کیفیت کو سمجھنے کے لیے کسی تاریخی بیان کی حاجت نہیں۔ کسی ایسی سوسائٹی میں تشریف لے جائیے جہاں مغربی وضع کی خواتین تشریف لاتی ہوں۔ جاہلیتِ اولیٰ کی تبرج والی چال آپ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ اسلام اسی سے منع کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اول تو تمھاری صحیح جائے قیام تمھارا گھر ہے۔ بیرونِ خانہ کی ذمہ داریوں سے تمھیں اسی لیے سبک دوش کیا گیا کہ تم سکون و وقار کے ساتھ اپنے گھروں میں رہو اور خانگی زندگی کے فرائض ادا کرو۔ تاہم اگر ضرورت پیش آئے تو گھر سے باہر نکلنا بھی تمھارے لیے جائز ہے۔ لیکن نکلتے وقت پوری عصمت مابی ملحوظ رکھو۔ نہ تمھارے لباس میں کوئی شان اور بھڑک ہونی چاہیے کہ نظروں کو تمھاری طرف مائل کرے۔ نہ اظہارِ حسن کے لیے تم میں کوئی بے تابی ہونی چاہیے کہ چلتے چلتے کبھی چہرے کی جھلک دکھائو اور کبھی ہاتھوں کی نمائش کرو۔ نہ چال میں کوئی خاص ادا پیدا کرنی چاہیے کہ نگاہوں کو خود بخود تمھاری طرف متوجہ کر دے۔ ایسے زیور بھی پہن کر نہ نکلو جن کی جھنکار غیروں کے لیے سامعہ نواز ہو۔ قصدًا لوگوں کو سنانے کے لیے آواز نہ نکالو۔ ہاں اگر بولنے کی ضرورت پیش آئے تو بولو، مگر رس بھری آواز نکالنے کی کوشش نہ کرو۔ ان قواعد اور حدود کو ملحوظ رکھ کر اپنی حاجات کے لیے تم گھر سے باہر نکل سکتی ہو۔
یہ ہے قرآن کی تعلیم آئیے اب حدیث پر نظر ڈال کر دیکھیں کہ نبی اکرمaنے اس تعلیم کے مطابق سوسائٹی میں عورتوں کے لیے کیا طریقے مقرر فرمائے تھے اورصحابہ کرامؓ اور ان کی خواتین نے ان پر کس طرح عمل کیا۔
۱۔حاجات کے لیے گھر سے نکلنے کی اجازت
حدیث میں ہے کہ احکامِ حجاب نازل ہونے سے پہلے حضرت عمر کا تقاضا تھا کہ یارسول اللہ اپنی خواتین کو پردہ کرائیے۔ ایک مرتبہ ام المومنین حضرت سودہ بنت زمعہ رات کے وقت باہر نکلیں تو حضرت عمرؓ نے انھیں دیکھ لیا اور پکارکر کہا کہ سودہ! ہم نے تمھیں پہچان لیا۔ اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ کسی طرح خواتین کا گھروں سے نکلنا ممنوع ہو جائے۔ اس کے بعد جب احکامِ حجاب نازل ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بن آئی۔ انھوں نے عورتوں کے باہر نکلنے پر زیادہ روک ٹوک شروع کر دی۔ ایک مرتبہ پھر حضرت سودہؓ کے ساتھ وہی صورت پیش آئی۔ وہ گھر سے نکلیں اور عمرؓ نے انھیں ٹوکا۔ انھوں نے حضور اکرمa سے شکایت کی۔ حضور اکرم a نے فرمایا:
قد اذن اللّٰہ لکن ان تخرجن لحوائجکن…
اللہ نے تمھیں اپنی ضروریات کے لیے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے۔{ FR 6849 }
اس سے معلوم ہوا کہ وقرن فی بیوتکن کے حکم قرآنی کا منشا یہ نہیں ہے کہ عورتیں گھر کے حدود سے قدم کبھی باہر نکالیں ہی نہیں۔ حاجات و ضروریات کے لیے انھیں نکلنے کی پوری اجازت ہے۔ مگر یہ اجازت نہ غیر مشروط ہے نہ غیر محدود۔ عورتیں اس کی مجاز نہیں ہیں کہ آزادی کے ساتھ جہاں چاہیں پھریں اور مردانہ اجتماعات میں گھل مل جائیں۔ حاجات و ضروریات سے شریعت کی مراد ایسی واقعی حاجات و ضروریات ہیں جن میں درحقیقت نکلنا اور باہر کام کرنا عورتوں کے لیے ناگزیر ہو۔ اب یہ ظاہر ہے کہ تمام عورتوں کے لیے تمام زمانوں میں نکلنے اور نہ نکلنے کی ایک ایک صورت بیان کرنا اور ہر ہر موقع کے لیے رخصت کے علیحدہ علیحدہ حدود مقرر کر دینا ممکن نہیں ہے۔ البتہ شارع نے زندگی کے عام حالات میں عورتوں کے لیے نکلنے کے جو قاعدے مقرر کیے تھے اور حجاب کی حددد میں جس طرح کمی و بیشی کی تھی اس سے قانونِ اسلامی کی سپرٹ اور اس کے رجحان کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اور اس کی سمجھ کو انفرادی حالات اورجزئی معاملات میں حجاب کے حدود اور موقع ومحل کے لحاظ سے ان کی کمی و بیشی کے اصول ہر شخص خود معلوم کر سکتا ہے۔ اس کی توضیح کے لیے ہم مثال کے طور پر چند مسائل بیان کرتے ہیں۔
۲۔مسجد میں آنے کی اجازت اور اس کے حدود
یہ معلوم ہے کہ اسلام میں سب سے اہم فرض نماز ہے اور نماز میں حضور مسجد اور شرکتِ جماعت کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ مگر نماز باجماعت کے باب میں جو احکام مردوں کے لیے ہیں ان کے بالکل برعکس احکام عورتوں کے لیے ہیں۔ مردوں کے لیے وہ نماز افضل ہے جومسجد میں جماعت کے ساتھ ہو اور عورتوں کے لیے وہ نماز افضل ہے جو گھر میں انتہائی خلوت کی حالت میں ہو۔ امام احمد اور طبرانی نے ام حمید ساعدیہ کی یہ حدیث نقل کی ہے کہ:
قَالَتْ یَارَسُولَ اللہِ إِنّیِ أَحَبُّ الصَّلوٰۃَ مَعَکَ۔ قَالَ قَدْ عَلِمَتُ أَنَّکِ تُحِبِیّنَ الصَّلوٰۃَ مَعِیَ وَ صَلوٰتِکِ فِی بَیْتِکِ خَیْرٌ لَکِ مِنْ صَلٰوتِکِ فِیْ حُجْرَتِکِ وَصَلٰوتُکِ فِی حُجْرَتِکِ خَیرٌ مِنْ صَلٰوتِکِ فِی دَارِکِ، وَصَلٰوتُکِ فِی دَارِکِ خَیْرٌ مِنْ صَلٰوتِکِ فِی مَسْجِدِ قَومِکِ وَصَلوٰتُکِ فِی مَسْجِدِ قَومِکِ خَیْرُ مِنْ صَلوٰتِکِ فِی مَسْجِدِ الْجُمُعَۃِ۔ (مسند احمد، حدیث ۲۵۸۴۲)
انھوں نے عرض کیا یارسول اللہa میرا جی چاہتا ہے کہ آپ کے ساتھ نماز پڑھوں۔ حضور اکرم a نے فرمایا مجھے معلوم ہے۔ مگر تیرا ایک گوشے میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تُو اپنے حجرے میں نماز پڑھے اور تیرا حجرے میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تو اپنے گھر کے دالان میں نماز پڑھے اور تیرا دالان میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تو اپنے محلہ کی مسجد میں نماز پڑھے اور تیرا اپنے محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ جامع مسجد میں نماز پڑھے۔{ FR 6850 }
اسی مضمون کی حدیث ابودائود میں ابن مسعودؓ سے منقول ہے جس میں حضور اکرمa نے فرمایا کہ
صَلٰوۃُ الْمَرْأَۃِ فِی بَیْتِھَا أَفْضَلُ مِنْ صَلوٰتِھَا فِی حُجْرَتِھَا وَصَلٰوتُھَا فِی مَخْدَعِھَا أَفْضَلُ مِنْ صَلوٰتِھَا فِی بَیْتِھَا۔ (کتاب الصلوٰۃ، باب ما جاء فی خروج النساء الی المساجد، حدیث ۴۸۳)
عورت کا اپنی کوٹھڑی میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنے کمرے میں نماز پڑھے اور اس کا اپنے چور خانہ میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنی کوٹھڑی میں نماز پڑھے۔
دیکھیے یہاں ترتیب بالکل الٹ گئی ہے۔ مرد کے لیے سب سے ادنیٰ درجہ کی نماز یہ ہے کہ وہ ایک گوشہ تنہائی میں پڑھے اور سب سے افضل یہ کہ وہ بڑی سے بڑی جماعت میں شریک ہو۔ مگر عورت کے لیے اس کے برعکس انتہائی خلوت کی نماز میں فضیلت ہے، اور اس خفیہ نماز کو نہ صرف نماز باجماعت پر ترجیح دی گئی ہے، بلکہ اس نماز سے بھی افضل کہا گیا ہے جس سے بڑھ کر کوئی نعمت مسلمان کے لیے ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ یعنی مسجد نبوی کی جماعت، جس کے امام خود امام الانبیا محمد a تھے۔ آخر اس فرق و امتیاز کی وجہ کیا ہے؟ یہی ناکہ شارع نے عورت کے باہر نکلنے کو پسند نہیں کیا اور جماعت میں ذکور و اناث کے خلط ملط ہونے کو روکنا چاہا۔
مگر نماز ایک مقدس عبادت ہے اور مسجد ایک پاک مقام ہے۔ شارع حکیم نے اختلاط صنفین کو روکنے کے لیے اپنے منشا کا اظہار تو فضیلت اور عدم فضیلت کی تفریق سے کر دیا، مگر ایسے پاکیزہ کام کے لیے ایسی پاک جگہ پر آنے سے عورتوں کو منع نہیں کیا۔ حدیث میں یہ اجازت جن الفاظ کے ساتھ آئی ہے وہ شارع کی بے نظیر حکیمانہ شان پر دلالت کرتے ہیں۔ فرمایا:
لاَ تَمْنَعُوْا إِمَائَ اللہِ مَسَاجِدَ اللہِ۔(صحیح البخاری، کتاب الجمعۃ، باب ھل علی من لم یشھد الجمعۃ، حدیث۸۴۹)
إِذَا اسْتَأذَنَتْ إِمْرَأَۃُ‘ اَحَدُکُمْ إِلٰی الْمَسْجِدِ فَلاَ یَمْنَعْھَا۔
(ایضاً، کتاب الا ٔذان، باب استیذان المرأۃ، حدیث۸۲۶)
خدا کی لونڈیوں کو خدا کی مسجدوں میں آنے سے منع نہ کرو۔ جب تم میں سے کسی کی بیوی مسجد جانے کی اجازت مانگے تو وہ اسے منع نہ کرے۔
لَاتَمْنَعُوا نِسَائَ کُمْ الْمَسَاجِدَ وَبُیْوْتُھُنَّ خَیْرٌ لَھُنَّ۔
(سنن ابی دائود، کتاب اصلوٰۃ، باب ماجائ فی خروج النسائ الی المسجد، حدیث۴۸۰)
اپنی عورتوں کو مسجدوں سے نہ روکو مگران کے گھر ان کے لیے زیادہ بہتر ہیں۔
یہ الفاظ خود ظاہر کر رہے ہیں کہ شارع عورتوں کو مسجد میں جانے سے روکتا تو نہیں ہے، کیوں کہ مسجد میں نماز کے لیے جانا کوئی بُرا فعل نہیں جسے ناجائز قرار دیا جا سکے۔ مگر مصالح اس کے بھی مقتضی نہیں کہ مساجد میں ذکور و اناث کی جماعت مخلوط ہو جائے۔ لہٰذا انھیں آنے کی اجازت تو دے دی، مگر یہ نہیں فرمایا کہ عورتوں کو مسجدوں میں بھیجو، یا اپنے ساتھ لایا کرو، بلکہ صرف یہ کہا ہے کہ اگر وہ افضل نماز کو چھوڑ کر ادنیٰ درجہ کی نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں آنا ہی چاہیں اور اجازت مانگیں تو منع نہ کرو۔ حضرت عمرؓ جو روحِ اسلام کے بڑے رازدان تھے، شارع کی اس حکمت کو خوب سمجھتے تھے۔ چنانچہ موطا میں مذکور ہے کہ ان کی بیوی عاتکہ بنتِ زید سے ہمیشہ اس معاملہ میں ان کی کش مکش رہا کرتی تھی۔ حضرت عمرؓ نہ چاہتے تھے کہ وہ مسجد میں جائیں۔ مگر انھیں جانے پر اصرار تھا۔ وہ اجازت مانگتیں تو آپ ٹھیک ٹھیک حکم نبوی پر عمل کرکے بس خاموش ہو جاتے۔ مطلب یہ تھا کہ ہم تمھیں روکتے نہیں ہیں، مگر صاف صاف اجازت بھی نہ دیں گے۔ وہ بھی اپنی بات کی پکی تھیں۔ کہا کرتی تھیں کہ خدا کی قسم میں جاتی رہوں گی جب تک کہ صاف الفاظ میں منع نہ کریں گے۔{ FR 6851 }
۳۔مسجد میں آنے کی شرائط
حضورِ مساجد کی اجازت دینے کے ساتھ چند شرائط بھی مقرر کر دی گئیں۔ ان میں سے پہلی شرط یہ ہے کہ دن کے اوقات میں مسجد میں نہ جائیں۔ بلکہ صرف ان نمازوں میں شریک ہوں جو اندھیرے میں پڑھی جاتی ہوں یعنی عشا اور فجر :
عَنِ ابْنِ عُمَرَقَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِئْذَنُوْاللِنِّسَائِ بِالَّلیْلِ إلیالْمَسَاجِدِ۔ (سنن الترمذی، باب خروج النساء الی المسجدحدیث۵۲۰ وفی ہذا المعنی حدیث اخرجہ، البخاری فی باب خروج النساء الی المساجد باللیل والغلس)
قال نافع مولی ابن عمر وَکَأَنَّ اِخْتِصَاصُ اللَّیلِ بِذَالِکَ لِکَونِہِ أَسْتَرُ۔
(فتح الباری، ج۳، ص۲۶۶)
حضرت ابن عمرؓ کے شاگرد خاص حضرت نافع کہتے ہیں کہ رات کی تخصیص اس لیے کہ رات کی تاریکی میں اچھی طرح پردہ داری ہوسکتی ہے۔
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَیُصَلِّی فَیَنْصَرِفُ النِّسَائَ مُتَلَّفِعَاَتٍ بِمُروطِھِنَّ مَا یَعْرِفَنَ مِنَ الْغَلَسِ۔{ FR 6852 }
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ a صبح کی نماز ایسے وقت پڑھتے تھے کہ جب عورتیں نماز کے بعد اپنی اوڑھنیوں میں لپٹی ہوئی مسجد سے پلٹتیں تو تاریکی کی وجہ سے پہچانی نہ جاتی تھیں۔
دوسری شرط یہ ہے کہ مسجد میں زینت کے ساتھ نہ آئیں اور نہ خوش بو لگا کر آئیں۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اکرم a مسجد میں تشریف فرما تھے کہ قبیلہ مزینہ کی ایک بہت بنی سنوری ہوئی عورت بڑے ناز و تبختر کے ساتھ چلتی ہوئی آئی۔حضوراکرم a نے فرمایا، لوگو! اپنی عورتوں کو زینت اور تبختر کے ساتھ مسجد میں آنے سے روکو۔ (ابن ماجہ، باب فتنہ النسا)
خوش بو کے متعلق فرمایا کہ جس رات تمھیں نماز میں شریک ہونا ہو اس رات کو کسی قسم کا عطر لگا کر نہ آئو، نہ بخور استعمال کرو۔ بالکل سادہ لباس میں آئو۔ جو عورت خوش بو لگا کر آئے گی اس کی نماز نہ ہو گی۔
تیسری شرط یہ ہے کہ عورتیں جماعت میں مردوں کے ساتھ خلط ملط نہ ہوں اور نہ آگے کی صفوں میں آئیں۔ انھیں مردوں کی صفوں کے پیچھے کھڑا ہونا چاہیے۔ فرمایا کہ:
خَیْرُ صُفُوفِ الرِّجَالِ أَوَّلُھَا وَشَرُّھَا آخِرُھَا۔ وَخَیْرُ صُفُوفِ النِّسَائِ آخِرُھَا وَشَرُّھَا اَوُّلُھَا۔ (صحیح مسلم، کتاب الصلوٰۃ، باب تسویۃ الصفوف، حدیث۶۶۴)
مردوں کے لیے بہترین مقام آگے کی صفوں میں ہے اور بدترین مقام پیچھے کی صفوں میں اور عورتوں کے لیے بہترین مقام پیچھے کی صفوں میں ہے اور بدترین مقام آگے کی صفوں میں۔
جماعت کے باب میں حضور اکرمa نے یہ قاعدہ بھی مقرر کر دیا تھا کہ عورت اور مرد پاس پاس کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھیں خواہ وہ شوہر اور بیوی یا ماں اور بیٹا ہی کیوں نہ ہوں۔
حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ میری نانی ملیکہؓ نے آں حضرت a کی دعوت کی۔ کھانے کے بعد آپ a نماز کے لیے اٹھے۔مَیں اور یتیم (یہ غالبًا حضرت انسؓ کے بھائی کا نام تھا) حضور اکرم a کے پیچھے کھڑے ہوئے اور ملیکہؓ ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں۔ { FR 6853 }
حضرت انسؓ کی دوسری روایت ہے کہ حضور اکرمa نے ہمارے گھر میں نماز پڑھی۔ مَیں اور یتیم آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے اور میری ماں ام سلیمؓ ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں۔{ FR 6854 }
حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور اکرم a نماز کے لیے اٹھے۔ مَیں آپ کے پہلو میں کھڑا ہوا اور حضرت عائشہؓ ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں۔{ FR 6855 }
چوتھی شرط یہ ہے کہ عورتیں نماز میں آواز بلند نہ کریں۔ قاعدہ یہ مقرر کیا گیا ہے کہ اگر نماز میں امام کو کسی چیز پر متنبہ کرنا ہو تو مرد سبحان اللہ کہیں اور عورتیں دستک دیں۔{ FR 6856 }
ان تمام حدود و قیود کے باوجود جب حضرت عمرؓ کو جماعت میں ذکور و اناث کے خلط ملط ہونے کا اندیشہ ہوا تو آپ نے مسجد میں عورتوں کے لیے ایک دروازہ مختص فرما دیا اور مردوں کو اس دروازہ سے آنے جانے کی ممانعت کر دی۔{ FR 6857 }
۴۔ حج میں عورتوں کا طریقہ
اسلام کا دوسرا اجتماعی فریضہ حج ہے۔ یہ مردوں کی طرح عورتوں پر بھی فرض ہے۔ مگر حتی الامکان عورتوں کو طواف کے موقع پر مردوں کے ساتھ خلط ملط ہونے سے روکا گیا ہے۔
بخاری میں عطار سے روایت ہے کہ عہدِ نبوی میں عورتیں مردوں کے ساتھ طواف کرتی تھیں مگر خلط ملط نہ ہوتی تھیں۔{ FR 6858 }
فتح الباری میں ابراہیم نخعی سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے طواف میں عورتوں اور مردوں کو گڈ مڈ ہونے سے روک دیا تھا۔ ایک مرتبہ ایک مرد کو آپ نے عورتوں کے مجمع میں دیکھا تو پکڑ کر کوڑے لگائے۔{ FR 6859 }
موطا میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ اپنے بال بچوں کو مزدلفہ سے منیٰ آگے روانہ کر دیا کرتے تھے، تاکہ لوگوں کے آنے سے پہلے صبح کی نماز اور رمی سے فارغ ہو جائیں۔
نیز حضرت ابوبکرؓکی صاحب زادی حضرت اسماءؓ صبح اندھیرے منہ منیٰ تشریف لے جاتی تھیں کہ نبی اکرم a کے عہد میں عورتوں کے لیے یہی دستور تھا۔{ FR 6860 }
۵۔جمعہ و عیدین میں عورتوں کی شرکت
جمعہ و عیدین کے اجتماعات اسلام میں جیسی اہمیت رکھتے ہیں محتاج بیان نہیں۔ ان کی اہمیت کو مدِّنظر رکھ کر شارع نے خاص طور پر ان اجتماعات کے لیے وہ شرط اڑا دی جو عام نمازوں کے لیے تھی، یعنی یہ کہ عورتیں دن میں شریکِ جماعت نہ ہوں۔ اگرچہ جمعہ کے متعلق یہ تصریح ہے کہ عورتیں فرضیت جمعہ سے مستثنیٰ ہیں (ابودائود، باب الجمعۃ للمملوک) اور عیدین میں بھی عورتوں کی شرکت ضروری نہیں، لیکن اگر وہ چاہیں تو نماز باجماعت کی دوسری شرائط کی پابندی کرتے ہوئے ان جماعتوں میں شریک ہو سکتی ہیں۔ حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ a خود اپنی خواتین کو عیدین میں لے جاتے تھے:
عَنْ اُمِّ عَطِیَّہَ قَالَتْ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُخْرِجُ الْأبْکَارَ وَالْعَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الْخُدُوْرِ وَالحُیَّضَ فِی الْعِیْدَینِ فَأَمَّا الْحُیَّضَ فَیَعْتَزِلْنَ الْمُصَلیّٰ وَیَشْھَدْنَ دَعْوَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ۔
(سنن الترمذی، کتاب الجمعۃ، باب خروج النساء فی العیدین، حدیث۴۹۵)
امِّ عطیہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ aکنواری اور جوان لڑکیوں اور گھر گرہستنوں اور ایام والی عورتوں کو عیدین میں لے جاتے تھے۔ جو عورتیں نماز کے قابل نہ ہوتیں وہ جماعت سے الگ رہتیں اور دعا میں شریک ہو جاتی تھیں۔
عن ابن عباس اَنَّ النَبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وسَلَّمَ کَانَ یُخْرِجُ بَنَاتِہِ وَنِسَائَہُ فِی الْعِیْدَیْنِ۔ (سنن ابن ماجہ،کتاب إقامۃ اصلوٰۃ و السنۃ فیھا، باب ما جاء فی خروج النساء فی العیدین، حدیث۲۱۹۹)
ابن عباس کی روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی بیٹیوں اور بیویوں کو عیدین میں لے جاتے تھے۔
۶۔ زیارتِ قبور و شرکتِ جنازات
مسلمان کے جنازے میں شریک ہونا شریعت میں فرض کفایہ قرار دیا گیا ہے اور اس کے متعلق جو تاکیدی احکام ہیں، واقف کاروں سے پوشیدہ نہیں۔ مگر یہ سب مردوں کے لیے ہیں۔ عورتوں کو شرکتِ جنازات سے منع کیا گیا ہے۔ اگرچہ اس ممانعت میں سختی نہیں ہے اور کبھی کبھی اجازت بھی دی گئی ہے۔ لیکن شارع کے ارشادات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کا جنازوں میں جانا کراہت سے خالی نہیں۔ بخاری میں ام عطیہ کی حدیث ہے :
نُھَیْنَا عَنْ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ ولَمْ یُعْزَمْ عَلَیْنَا۔
(کتاب الجنائز، باب اتباع النساء الجنازۃ، حدیث ۱۱۹۹)
ہمیں جنازوں کی مشایعت سے منع کیا گیا تھا مگر سختی کے ساتھ نہیں۔
ابنِ ماجہ اور نسائی میں روایت ہے کہ رسول اللہ a ایک جنازہ میں شریک تھے۔ ایک عورت نظر آئی۔ حضرت عمرؓ نے اسے ڈانٹا۔ حضور اکرم a نے فرمایا: یاعمر دعھا۔ ’’اے عمرؓ! اسے چھوڑ دے‘‘(کتاب ماجائ فی الجنائز، باب ماجائ فی البکائ علی المیت، حدیث۱۵۷۶)
معلوم ہوتا ہے کہ وہ عورت میت کی کوئی عزیز قریب ہو گی۔ شدتِ غم سے مجبور ہو کر ساتھ چلی آئی ہو گی۔ حضور اکرمa نے اس کے جذبات کی رعایت کرکے حضرت عمرؓ کو ڈانٹ ڈپٹ سے منع فرما دیا۔
ایسی ہی صورت زیارتِ قبور کی بھی ہے۔ عورتیں رقیق القلب ہوتی ہیں۔ اپنے مردہ عزیزوں کی یاد ان کے دلوں میں زیادہ گہری ہوتی ہے۔ ان کے جذبات کو بالکل پامال کر دینا شارع نے پسند نہ فرمایا۔ مگر یہ صاف کہہ دیا کہ عورتوں کا کثر ت سے قبروں پر جانا ممنوع ہے۔
ترمذی میں حضرت ابوہریرہؓ کی حدیث ہے :
لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زَوَّارَتُ الْقُبُوْرِ۔
(سنن الترمذی، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی کراہیۃ زیارۃ القبور للنسا{ FR 6861 } حدیث:۹۷۶)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکثرت قبروں پر جانے والیوں کو ملعون ٹھہرایا تھا۔
حضرت عائشہ ؓ اپنے بھائی حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر کی قبر پر تشریف لے گئیں تو فرمایا:
وَاللّٰہِ لَوْشَھِدْتُکَ مَازُرْتُکَ۔(سنن الترمذی،کتاب الجنائز، باب ما جاء فی زیارۃ القبور للنسا، حدیث۹۷۵)
بخدا اگر مَیں تمھاری وفات کے وقت موجود ہوتی تو اب تمھاری قبر کی زیارت کو نہ آتی۔
انس ؓ بن مالک کی روایت ہے کہ نبی اکرم a نے ایک عورت کو قبر کے پاس بیٹھے روتے دیکھا تو اسے منع نہ فرمایا بلکہ صرف اِتَّقیِ اللّٰہَ وَاصْبِرِیْ فرما دیا۔
(صحیح البخاری،کتاب الجنائز، باب زیارۃ القبور،حدیث۱۲۰۳)
ان احکام پر غور کیجیے۔ نماز ایک مقدس عبادت ہے۔ مسجد ایک پاک مقام ہے۔ حج میں انسان انتہائی پاکیزہ خیالات کے ساتھ خدا کے دربار میں حاضر ہوتا ہے۔ جنازوں اور قبروں کی حاضری میں ہر شخص کے سامنے موت کا تصور ہوتا ہے اور غم و الم کے بادل چھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ سب مواقع ایسے ہیں جن میں صنفی جذبات یا تو بالکل مفقود ہوتے ہیں یا رہتے ہیں تو دوسرے پاکیزہ تر جذبات سے مغلوب ہو جاتے ہیں مگر اس کے باوجود شارع نے ایسے اجتماعات میں بھی مردوں اور عورتوں کی سوسائٹی کا مخلوط ہونا پسند نہ کیا۔ مواقع کی پاکیزگی، مقاصد کی طہارت اور عورتوں کے جذبات کی رعایت ملحوظ رکھ کر انھیں گھر سے نکلنے کی اجازت تو دے دی اور بعض مواقع پر خود بھی ساتھ لے گئے۔ لیکن حجاب کی اتنی قیود لگا دیں کہ فتنے کے ادنیٰ احتمالات بھی باقی نہ رہیں۔ پھر حج کے سوا تمام دوسرے اُمور کے متعلق فرما دیا کہ ان میں عورتوں کا شریک نہ ہونا زیادہ بہتر ہے۔
جس قانون کا یہ رجحان ہو، کیا اس سے آپ توقع رکھتے ہیں کہ وہ مدرسوں اور کالجوں میں، دفتروں اور کارگاہوں میں، پارکوں اور تفریح گاہوں میں، تھیٹروں اور سینمائوں میں، قہوہ خانوں اور رقص گاہوں میں اختلاط صنفین کو جائز رکھے گا؟
۷۔ جنگ میں عورتوں کی شرکت
حدودِ حجاب کی سختی آپ نے دیکھ لی۔ اب دیکھیے کہ ان میں نرمی کہاں اور کس ضرورت سے کی گئی ہے۔
مسلمان جنگ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ عام مصیبت کا وقت ہے۔ حالات مطالبہ کرتے ہیں کہ قوم کی پوری اجتماعی قوت دفاع میں صَرف کر دی جائے۔ ایسی حالت میں اسلام قوم کی خواتین کو عام اجازت دیتا ہے کہ وہ جنگی خدمات میں حصہ لیں۔ مگر اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی اس کے پیشِ نظر ہے کہ جو ماں بننے کے لیے بنائی گئی ہے وہ سر کاٹنے اور خون بہانے کے لیے نہیں بنائی گئی۔ اس کے ہاتھ میں تیر و خنجر دینا اس کی فطرت کو مسخ کرنا ہے۔ اس لیے اسلام عورتوں کو اپنی جان اور آبرو کی حفاظت کے لیے تو ہتھیار اٹھانے کی اجازت دیتا ہے مگر بالعموم عورتوں سے مصافی خدمات لینا اور انھیں فوجوں میں بھرتی کرنا اس کی پالیسی سے خارج ہے۔ وہ جنگ میں ان سے صرف یہ خدمت لیتا ہے کہ زخمیوں کی مرہم پٹی کریں، پیاسوں کو پانی پلائیں، سپاہیوں کے لیے کھانا پکائیں اور مجاہدین کے پیچھے کیمپ کی حفاظت کریں۔ ان کاموں کے لیے پردے کی حدود انتہائی کم کر دی گئی ہیں، بلکہ ان خدمات کے لیے تھوڑی ترمیم کے ساتھ وہی لباس پہننا شرعًا جائز ہے جو آج کل عیسائی ننیں پہنتی ہیں۔
تمام احادیث سے ثابت ہے کہ جنگ میں ازواجِ مطہرات اور خواتین اسلام آں حضرت a کے ساتھ جاتیں اور مجاہدین کو پانی پلانے اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے کی خدمات انجام دیتی تھیں۔ یہ طریقہ احکامِ حجاب نازل ہونے کے بعد بھی جاری رہا۔
(صحیح البخاری، باب حمل الرجل المرأۃ فی الغزو)
ترمذی میں ہے ام سلیم اور انصار کی چند دوسری خواتین اکثر لڑائیوں میں حضور اکرمa کے ساتھ گئی ہیں۔ (ترمذی، باب ما جاء فی خروج النساء فی الغزو)
بخاری میں ہے کہ ایک عورت نے حضور اکرم a سے عرض کیا:
میرے لیے دُعا فرمائیے کہ مَیں بھی بحری جنگ میں جانے والوں کے ساتھ رہوں۔
آپؐ نے فرمایا: اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا مِنْھُمْ۔] یااللہ! اس عورت کو ان میں شامل فرما۔[
(صحیح البخاری، باب غزوۃ المراۃ فی البحر)
جنگِ اُحد کے موقع پر جب مجاہدین اسلام کے پائوں اکھڑ گئے تھے۔ حضرت عائشہؓ اور ام سلیمؓ اپنی پیٹھ پر پانی کے مشکیزے لاد لاد کر لاتی تھیں اور لڑنے والوں کو پانی پلاتی تھیں۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ اس حال میں، مَیں نے انھیں پائنچے اُٹھائے دوڑ دوڑ کر آتے جاتے دیکھا ان کی پنڈلیوں کا نچلا حصہ کھلا ہوا تھا۔
(صحیح البخاری، باب غزوۃ النساء وقتالہن مع الرجال۔ صحیح مسلم، باب غزوۃ النساء مع الرجال جلد۲، صفحہ ۷۶)
ایک دوسری خاتون اُمِّ سلیط کے متعلق حضرت عمرؓ نے خود رسول اللہ aکا یہ قول نقل کیا ہے:
جنگ احد میں دائیں اور بائیں جدھر میں دیکھتا ام سلیط میری حفاظت کے لیے جان لڑاتی ہوئی نظر آتی تھی۔
اسی جنگ میں ربیع بنت معوذ اور ان کے ساتھ خواتین کی ایک جماعت زخمیوں کی مرہم پٹی میں مشغول تھی اور یہی عورتیں مجروحین کو اُٹھا اُٹھا کر مدینے لے جا رہی تھیں۔
(صحیح البخاری، باب مداوات النساء البحرحی فی الغزو)
جنگِ حنین میں ام سلیمہ ایک خنجر ہاتھ میں لیے پھر رہی تھیں۔
حضور اکرم a نے پوچھا یہ کس لیے ہے؟ کہنے لگیں کہ اگر کوئی مشرک میرے قریب آیا تو اس کا پیٹ پھاڑ دوں گی۔ (صحیح مسلم، باب غزوۃ النساء مع الرجال)
اُم عطیہ سات لڑائیوں میں شریک ہوئیں۔ کیمپ کی حفاظت، سپاہیوں کے لیے کھانا پکانا، زخمیوں اور بیماروں کی تیمار داری کرنا ان کے سپرد تھا۔
(سنن ابنِ ماجہ، باب العبید والنساء یشہدون مع المسلمین)
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ علیہ کا بیان ہے کہ جو خواتین اس قسم کی جنگی خدمات انجام دیتی تھیں انھیں اموالِ غنیمت میں سے انعام دیا جاتا تھا۔ (صحیح مسلم، باب النساء الغازیات یرضح لہن)
اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی پردہ کی نوعیت کسی جاہلی رسم کی سی نہیں ہے جس میں مصالح اور ضروریات کے لحاظ سے کمی بیشی نہ ہو سکتی ہو۔ جہاں حقیقی ضروریات پیش آ جائیں وہاں اس کے حدود کم بھی ہو سکتے ہیں، نہ صرف چہرہ اور ہاتھ کھولے جا سکتے ہیں، بلکہ جن اعضا کو سترِ عورت میں داخل کیا گیا ہے ان کے بھی بعض حصے اگر حسبِ ضرورت کھل جائیں تو مضایقہ نہیں لیکن جب ضرورت رفع ہوجائے تو حجاب کو پھر انھی حدود پر قائم ہو جانا چاہیے جو عام حالات کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ جس طرح یہ پردہ جاہلی پردہ نہیں ہے، اسی طرح اس کی تخفیف بھی جاہلی آزادی کی مانند نہیں۔ مسلمان عورت کا حال یورپین عورت کی طرح نہیں ہے کہ جب وہ ضروریاتِ جنگ کے لیے اپنی حدود سے باہر نکلی، تو اس نے جنگ ختم ہونے کے بعد اپنی حدود میں واپس جانے سے انکار کر دیا۔

شیئر کریں