Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
دیباچہ
کچھ جدید اڈیشن کے بارے میں
۱۔ نوعیتِ مسئلہ
۲ ۔عورت مختلف اَدوار میں
۳ ۔دَورِ جدید کا مسلمان
۴۔ نظریات
۵ ۔نتائج
۶ ۔چند اور مثالیں
۷۔ فیصلہ کن سوال
۸ ۔قوانینِ فطرت
۹ ۔انسانی کوتاہیاں
۱۰ ۔اسلامی نظامِ معاشرت
۱۱ ۔پردہ کے احکام
۱۲۔ باہر نکلنے کے قوانین
۱۳۔ خاتمہ

پردہ

  مغربی تہذیب کی برق پاشیوں اور جلوہ سامانیوں نے اہل ِمشرق کی عموماً اور مسلمانوں کی نظروں کو خصوصاً جس طرح خیرہ کیا ہے وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور عریانی نے جس سیل رواں کی شکل اختیار کی ہے اس نے ہماری ملی اور دینی اقدار کو خس و خاشاک کی طرح بہادیا گیا۔ اس کی چمک دمک نے ہمیں کچھ اس طرح مبہوت کردیا کہ ہم یہ بھی تمیز نہ کر سکے کہ اس چمکتی ہوئی شے میں زرِخالص کتنا ہے اور کھوٹ کتنا۔ اس تیز وتند سیلاب کے مقابلہ میں ہم اتنے بے بس ہو کر رہ گئے ہیں کہ ہماری اکثریت نے اپنے آپ کو پوری طرح اس کے حوالے کردیا۔ نیتجتاً ہمارا معاشرہ تلپٹ ہوگیا اور ہمارے خاندانی نظام کا شیرازہ کچھ اس طرح منتشر ہواکہ کوچہ کوچہ ہماری اس تہذیبی خودکشی پر نوحہ کر رہا ہے۔مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ ان با بصیرت اصحاب میں سے ہیں جنھوں نے اس سیلاب بلا خیز کی تباہ کا ریوں کا بروقت اندازہ لگا کر ملت کو اس عظیم خطرے سے متنبہ کیا اور اسے روکنے کے لیے مضبوط بند باندھنے کی کو شش کی۔

”پردہ “ آپ کی انھی کوششوں کی آئینہ دار ہے۔

عصرِ حاضر میں اس موضوع پر اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں ،”پردہ “ان میں ممتاز مقام رکھتی ہے اس کا دل نشین اندازِ بیان، پرزوراستدلال اور حقائق سے لبریز تجزیے اپنے اندروہ کشش رکھتا ہے کہ کٹر سے کٹر مخالف بھی قائل ہوئے بغیر نہیں رہتا۔یہی وجہ ہے کہ پورے عالمِ اسلام میں اس کتاب کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ بہت کم کتابوں کو نصیب ہوئی ہے ۔مشرقِ وسطیٰ میں اس کا عربی ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ یہی حال اس کے اردو اور انگریزی ایڈیشن کا ہے۔

۱۱ ۔پردہ کے احکام

قرآن مجید کی جن آیات میں پردہ کے احکام بیان ہوئے ہیں وہ حسبِ ذیل ہیں:
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ۝۰ۭ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَہُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَo وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰي جُيُوْبِہِنَّ۝۰۠ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اٰبَاۗىِٕہِنَّ اَوْ اٰبَاۗءِ بُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اَبْنَاۗىِٕہِنَّ اَوْ اَبْنَاۗءِ بُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اِخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اِخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اَخَوٰتِہِنَّ اَوْ نِسَاۗىِٕہِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُہُنَّ اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْہَرُوْا عَلٰي عَوْرٰتِ النِّسَاۗءِ۝۰۠ وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِہِنَّ۝۰ۭ (النور 30-31:24)
اے نبیؐ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے پاکیزگی کا طریقہ ہے۔ یقینا اللہ جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں اور مومن عورتوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اوراپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس زینت کے جو خود ظاہر ہو جائے اور وہ اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے بکل مار لیا کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر ان لوگوں کے سامنے: شوہر، باپ، خسر، بیٹے، سوتیلے بیٹے، بھائی، بھتیجے، بھانجے، اپنی عورتیں، اپنے غلام، وہ مرد خدمت گار جو عورتوں سے کچھ مطلب نہیں رکھتے۔ وہ لڑکے جو ابھی عورتوں کی پردہ کی باتوں سے آگاہ نہیں ہوئے ہیں۔ (نیز انھیں حکم دو کہ) وہ چلتے وقت اپنے پائوں زمین پر اس طرح نہ مارتی چلیں کہ جو زینت انھوں نے چھپا رکھی ہے(آواز کے ذریعہ) اس کا اظہار ہو۔
يٰنِسَاۗءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِنِ اتَّــقَيْتُنَّ فَلَا تَخْـضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاo وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاہِلِيَّۃِ الْاُوْلٰى (الاحزاب 32-33:33)
اے نبیؐ کی بیبیو! تم کچھ عام عورتوں کی طرح تو ہو نہیں۔ اگر تمھیں پرہیز گاری منظور ہے تو دبی زبان سے بات نہ کرو کہ جس شخص کے دل میں کوئی خرابی ہے وہ تم سے کچھ توقعات وابستہ کر بیٹھے۔ بات سیدھی سادی طرح کرو اور اپنے گھروں میں جمی بیٹھی رہو اور اگلے زمانہ جاہلیت کے سے بنائو سنگار نہ دکھاتی پھرو۔
يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْہِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِہِنَّ۝۰ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ۝۰ۭ (الاحزاب 59:33)
اے نبی ؐ! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مسلمان عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے گھونگٹ ڈال لیا کریں۔ اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پہچانی جائیں گی اور انھیں ستایا نہ جائے گا۔
ان آیات پر غور کیجیے۔ مردوں کو تو صرف اس قدر تاکید کی گئی ہے کہ اپنی نگاہیں پست رکھیں اور فواحش سے اپنے اخلاق کی حفاظت کریں۔ مگر عورتوں کو مردوں کی طرح ان دونوں چیزوں کا حکم بھی دیا گیا ہے اور پھر معاشرت اور برتائو کے بارے میں چند مزید ہدایتیں بھی دی گئی ہیں۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ان کے اخلاق کی حفاظت کے لیے صرف غض بصر اور حفظ فروج کی کوشش ہی کافی نہیں ہے بلکہ کچھ اور ضوابط کی بھی ضرورت ہے۔ اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ان مجمل ہدایات کو نبی اکرم a اور آپؐ کے صحابہ نے اسلامی معاشرت میں کس طرح نافذ کیا ہے اور ان کے اقوال اور اعمال سے ان ہدایات کی معنوی اور عملی تفصیلات پر کیا روشنی پڑتی ہے۔
۱۔ غضِ بصر
سب سے پہلا جو حکم مردوں اور عورتوں کو دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ غض بصر کرو۔ عمومًا اس لفظ کا ترجمہ ’’نظریں نیچی رکھو‘‘ یا ’’نگاہیں پست رکھو‘‘ کیا جاتا ہے مگر اس سے پورا مفہوم واضح نہیں ہوتا۔ حکمِ الٰہی کا اصل مقصد یہ نہیں ہے کہ لوگ ہر وقت نیچے ہی دیکھتے رہیں اور کبھی اوپر نظر ہی نہ اٹھائیں۔ مدعا دراصل یہ ہے کہ اس چیز سے پرہیز کرو جسے حدیث میں آنکھوں کا زنا کہا گیا ہے۔ اجنبی عورتوں کے حسن اور ان کی زینت کی دید سے لذت اندوز ہونا مردوں کے لیے اور اجنبی مردوں کو مطمح نظر بنانا عورتوں کے لیے فتنے کا موجب ہے۔ فساد کی ابتدا طبعًا و عادتًا یہیں سے ہوتی ہے۔ اس لیے سب سے پہلے اسی دروازے کو بند کیا گیا ہے اور یہی ’’غضِ بصر‘‘ کی مراد ہے۔ اردو زبان میں ہم اس لفظ کا مفہوم ’’نظر بچانے‘‘ سے بخوبی ادا کر سکتے ہیں۔
یہ ظاہر ہے کہ جب انسان آنکھیںکھول کر دنیا میں رہے گا تو سب ہی چیزوں پر اس کی نظر پڑے گی۔ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ کوئی مرد کسی عورت کو اور کوئی عورت کسی مرد کو کبھی دیکھے ہی نہیں۔ اس لیے شارع نے فرمایا کہ اچانک نظر پڑ جائے تو معاف ہے، البتہ جو چیز ممنوع ہے وہ یہ ہے کہ ایک نگاہ میں جہاں تمھیں حسن محسوس ہو وہاں دوبارہ نظر دوڑائو اور اسے گھورنے کی کوشش کرو۔
عَنْ جَرِیرٍ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ نَظْرَۃِ الْفُجْأَۃِ فَقَالَ اصْرِفْ بَصَرَکَ۔
(سنن ابی دائود، کتاب النکاح، باب مایومربہ من غض البصر، حدیث۱۸۳۶)
حضرت جریر ؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ a سے پوچھا کہ اچانک نظر پڑ جائے تو کیا کروں؟ آپؐ نے فرمایا کہ نظر پھیر لو۔
عَنْ بُرَیْدَۃَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہِ عَلَیہِ وَسَلَّمَ لِعَلّیٍ یَا عَلِیٌّ لَاتُتْبِعِ النَّظْرَۃَ النَّظْرَۃَ فَإِنَّ لَکَ الأُولٰی وَلَیْسَ لَکَ الآخِرَۃُ۔ (ایضاً، حدیث۱۸۳۷)
حضرت بریدہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا، اے علیؓ ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالو۔ پہلی نظر تمھیں معاف ہے مگر دوسری نظر کی اجازت نہیں۔
عَنِ النَیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ نَظَرَ اِلٰی مَحَاسِنِ إِمْرأَۃٍ أَجْنَبِیَّۃٍ عَنْ شَھْوَۃٍ صُبَّ فِی عَیْنَیْہِ الْاٰنُکَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔ (نصب الرایۃ، ج۸،ص۱۰۸)
نبی اکرمؐ نے فرمایا جو شخص کسی اجنبی عورت کے محاسن پر شہوت کی نظر ڈالے گا تو قیامت کے روز اس کی آنکھوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔
مگر بعض مواقع ایسے بھی آتے ہیں جن میں اجنبیہ کو دیکھنا ضروری ہو جاتا ہے۔ مثلاً کوئی مریضہ کسی طبیب کے زیرِ علاج ہو، یا کوئی عورت کسی مقدمہ میں قاضی کے سامنے بحیثیت گواہ یا بحیثیت فریق پیش ہو، یا کسی آتش زدہ مقام میں کوئی عورت گھر گئی ہو یا پانی میں ڈوب رہی ہو، یا اس کی جان یا آبرو کسی خطرے میں مبتلا ہو۔ ایسی صورتوں میں چہرہ تو درکنار حسبِ ضرورت ستر کو بھی دیکھا جا سکتا ہے، جسم کو ہاتھ بھی لگایا جا سکتا ہے، بلکہ ڈوبتی ہوئی یا جلتی ہوئی عورت کو گود میں اٹھا کر لانا بھی صرف جائز ہی نہیں، فرض ہے۔ شارع کا حکم یہ ہے کہ ایسی صورتوں میں جہاں تک ممکن ہو اپنی نیت کو پاک رکھو۔ لیکن اقتضائے بشریت سے اگر جذبات میں کوئی خفیف سی تحریک پیدا ہو جائے تب بھی کوئی گناہ نہیں، کیوں کہ ایسی نظر اور ایسے لمس کے لیے ضرورت داعی ہوئی ہے کہ فطرت کے مقتضیات کو بالکل روک دینے پر انسان قادر نہیں ہے۔{ FR 6838 }
اسی طرح اجنبی عورت کو نکاح کے لیے دیکھنا اور تفصیلی نظر کے ساتھ دیکھنا نہ صرف جائز ہے، بلکہ احادیث میں اس کا حکم وارد ہوا ہے اور خود نبی اکرم a نے اس غرض کے لیے عورت کو دیکھا ہے۔
عَن الْمُغِیرَۃِ ابنِ شُعْبَۃَ اَنَّہُ خَطَبَ أِمْرَأَۃً فَقَالَ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ اُنْظُرْ إِلَیْھَا فَإِنَّہُ أَحْرٰی أَنْ یُؤْدَمَ بَیْنَکُمَا۔
(سنن ترمذی،کتاب النکاح، باب ما جاء فی النظر الی المخطوبۃحدیث:۱۰۰۷)
مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے کہ انھوں نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام دیا۔ نبی اکرمa نے ان سے فرمایا کہ اسے دیکھ لو، کیوں کہ یہ تم دونوں کے درمیان محبت و اتفاق پیدا کرنے کے لیے مناسب تر ہو گا۔
عَنْ سَھْلِ ابْنِ سَعْدٍ أَنَّ إِمْرأَۃً جَائَ تْ إِلٰی رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ یَارَسُوْلَ اللہِ جِئْتُ لِأَھَبَ لَکَ نَفْسِی فَنَظَرَ إِلَیْھَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَعَّدَ النَّظَرَ إِلَیْھَا۔
(صحیح البخاری،کتاب النکاح، باب النظر الی المراۃ قبل الترویج، حدیث ۴۷۳۱)
سہل ابن سعد سے روایت ہے کہ ایک عورت آں حضرت a کے پاس حاضر ہوئی اور بولی کہ مَیں اپنے آپ کو حضور اکرم a کے نکاح میں دینے کے لیے آئی ہوں اس پر رسول اللہa نے نظر اٹھائی اور اسے دیکھا۔
عَنْ اَبیِ ھُرَیْرَۃَ قَالَ کُنْتُ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ فَأَتَاہُ رَجُلٌ فَأَخْبَرَہُ أَنَّہُ تَزَوَّجَ إِمْرأَۃً مِنَ الْاَنْصَارِ فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ اَنَظَرْتَ إِلَیْھَا؟ قَالَ لَا۔ قَالَ فَاذْھَبْ فَانْظُرْ إِلَیْھَا فَإِنَّ فِی أَعْیُنِ الْاَنْصَارِ شَیْئًا۔
(صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب ندب النظر إلی وجہ المرأۃ، حدیث۲۵۵۲)
حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ مَیں نبی اکرم a کے پاس بیٹھا تھا۔ ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں نے انصار میں سے ایک عورت کے ساتھ نکاح کا ارادہ کیا ہے۔ حضوراکرمa نے پوچھا کیا تو نے اسے دیکھا ہے؟ اس نے عرض کیا نہیں۔ آپؐ نے فرمایا جا اور اسے دیکھ لے، کیوں کہ انصار کی آنکھوں میں عمومًا عیب ہوتا ہے۔
عَنْ جَابِرْ بنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا خَطَبَ أَحَدُکُمْ الْمَرْأَۃَ فَإِنِ اسْتَطَاعَ أَنْ یَنْظُرَ إِلٰی مَا یَدْعُوہُ إِلٰی نِکَاحِھَا فَلْیَفْعَلْ۔
(سنن ابی دائود، کتاب النکاح، باب فی الرجل، ینظر الی المراۃ و ہویرید تزویجہا، حدیث۱۷۸۳)
جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ a نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کو نکاح کا پیغام دے تو حتی الامکان اسے دیکھ لینا چاہیے کہ آیا اس میں کوئی چیز ہے جو اسے اس عورت کے ساتھ نکاح کی رغبت دلانے والی ہو۔
ان مستثنیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شارع کا مقصد دیکھنے کو کلیۃً روک دینا نہیں ہے بلکہ دراصل فتنے کا سدباب مقصود ہے اور اس غرض کے لیے صرف ایسے دیکھنے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے جس کی کوئی حاجت بھی نہ ہو۔ جس کا کوئی تمدنی فائدہ بھی نہ ہو اور جس میں جذباتِ شہوانی کو تحریک دینے کے اسباب بھی موجود ہوں۔
یہ حکم جس طرح مردوں کے لیے ہے اُسی طرح عورتوں کے لیے بھی ہے۔ چنانچہ حدیث میں حضرت اُمّ سلمہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ وہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا{ FR 6839 } آں حضرت کے پاس بیٹھی تھیں۔ اتنے میں حضرت ابن ام مکتوم آئے جو نابینا تھے۔ حضور اکرم a نے فرمایا ان سے پردہ کرو۔ حضرت ام سلمہ نے عرض کیا، کیا یہ نابینا نہیں ہیں؟ نہ وہ ہمیں دیکھیں گے، نہ ہمیں پہچانیں گے۔ حضور اکرمa نے جواب دیا، کیا تم دونوں بھی نابینا ہو؟ کیا تم انھیں نہیں دیکھتی ہو؟{ FR 6840 }
مگر عورت کے مردوں کو دیکھنے اور مرد کے عورتوں کو دیکھنے میں نفسیات کے اعتبار سے ایک نازک فرق ہے۔ مرد کی فطرت میں اقدام ہے، کسی چیز کو پسند کرنے کے بعد وہ اس کے حصول کی سعی میں پیش قدمی کرتا ہے۔ مگر عورت کی فطرت میں تمانع اور فرار ہے، جب تک کہ اس کی فطرت بالکل ہی مسخ نہ ہو جائے۔ وہ کبھی اس قدر دراز دست، جری اور بے باک نہیں ہو سکتی کہ کسی کو پسند کرنے کے بعد اس کی طرف پیش قدمی کرے۔ شارع نے اس فرق کو ملحوظ رکھ کر عورتوں کے لیے غیر مردوں کو دیکھنے کے معاملہ میں وہ سختی نہیں کی ہے جو مردوں کے لیے غیر عورتوں کو دیکھنے کے معاملہ میں کی ہے۔ چنانچہ احادیث میں حضرت عائشہؓکی یہ روایت مشہور ہے کہ آں حضرت a نے عید کے موقع پر انھیں حبشیوں کا تماشا دکھایا تھا{ FR 6841 }۔ اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں کا مردوں کو دیکھنا مطلقًا ممنوع نہیں ہے، بلکہ ایک مجلس میں مل کر بیٹھنا اور نظر جما کر دیکھنا مکروہ ہے اور ایسی نظر بھی جائز نہیں جس میں فتنے کا احتمال ہو۔ وہی نابینا صحابی، ابن مکتوم جن سے نبی اکرم a کو پردہ کرنے کا حکم دیا تھا، ایک دوسرے موقع پر حضور اکرمa انھی کے گھر میں فاطمہ بن قیس کو عدت بسر کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ { FR 6842 }قاضی ابوبکر ابن العربی نے اپنی احکام القرآن میں اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے کہ فاطمہ بنت قیس ام شریک کے گھر میں عدت گزارنا چاہتی تھیں۔ حضوراکرمa نے فرمایا کہ اس گھر میں لوگ آتے جاتے رہتے ہیں، تم ابن مکتوم کے ہاں رہو کیوں کہ وہ ایک اندھا آدمی ہے اور اس کے ہاں تم بے پردہ رہ سکتی ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصل مقصد فتنے کے احتمالات کو کم کرنا ہے۔ جہاں فتنے کا احتمال زیادہ تھا وہاں رہنے سے منع فرما دیا۔ جہاں احتمال کم تھا وہاں رہنے کی اجازت دے دی، کیوں کہ بہرحال اس عورت کو کہیں رہنا ضرور تھا۔ لیکن جہاں کوئی حقیقی ضرورت نہ تھی وہاں خواتین کو ایک غیر مرد کے ساتھ ایک مجلس میں جمع ہونے اور رُو برُو اسے دیکھنے سے روک دیا۔
یہ سب مراتب حکمت پر مبنی ہیں اور جو شخص مغزِ شریعت تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہو وہ بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ غضِ بصر کے احکام کن مصالح پر مبنی ہیں اور ان مصالح کے لحاظ سے ان احکام میں شدت اور تخفیف کا مدار کن امور پر ہے۔ شارع کا اصل مقصد تمھیں نظر بازی سے روکنا ہے، ورنہ اسے تمھاری آنکھوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ یہ آنکھیں ابتدا میں بڑی معصوم نگاہوں سے دیکھتی ہیں۔ نفس کا یہ شیطان ان کی تائید میں بڑے بڑے پرفریب دلائل پیش کرتا ہے۔ کہتا ہے کہ یہ ذوقِ جمال ہے جو فطرت نے تم میں ودیعت کیا ہے۔ جمالِ فطرت کے دوسرے مظاہر و تجلیات کو جب تم دیکھتے ہو اور ان سے بہت ہی پاک لطف اٹھاتے ہو تو جمالِ انسانی کو بھی دیکھو اور روحانی لطف اٹھائو مگر اندر ہی اندر یہ شیطان لطف اندوزی کی لے کو بڑھاتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ ذوق جمال ترقی کرکے شوق وصال بن جاتا ہے۔ کون ہے جو اس حقیقت سے انکار کی جرات رکھتا ہو کہ دنیا میں جس قدر بدکاری اب تک ہوئی ہے اور اب ہو رہی ہے اس کا پہلا اور سب سے بڑا محرک یہی آنکھوں کا فتنہ ہے؟ کون یہ دعوٰی کر سکتا ہے کہ اپنی صنف کے مقابل کے کسی حسین اور جوان فرد کو دیکھ کر اس میں وہی کیفیات پیدا ہوتی ہیں جو ایک خوب صورت پھول کو دیکھ کر ہوتی ہیں؟ اگر دونوں قسم کی کیفیات میں فرق ہے اور ایک کے برخلاف دوسری کیفیت کم و بیش شہوانی کیفیت ہے تو پھر تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ ایک ذوقِ جمال کے لیے بھی وہی آزادی ہونی چاہیے جو دوسرے ذوقِ جمال کے لیے ہے؟ شارع تمھارے ذوق جمال کو مٹانا تو نہیں چاہتا وہ کہتا ہے کہ تم اپنی پسند کے مطابق اپنا ایک جوڑا انتخاب کر لو۔ اور جمال کا جتنا ذوق تم میں ہے اس کا مرکز صرف اسی ایک کو بنا لو۔ پھر جتنا چاہو اس سے لطف اٹھائو۔ اس مرکز سے ہٹ کر دیدہ بازی کرو گے تو فواحش میں مبتلا ہو جائو گے۔ اگر ضبطِ نفس یا دوسرے موانع کی بنا پر آوارگی عمل میں مبتلا نہ بھی ہوئے تو وہ آوارگی خیال سے کبھی نہ بچ سکو گے۔ تمھاری بہت سی قوت آنکھوں کے راستے ضائع ہو گی۔ بہت سے ناکردہ گناہوں کی حسرت تمھارے دل کوناپاک کرے گی۔ بار بار فریبِ محبت میں گرفتار ہو گے اور بہت سی راتیں بیداری کے خواب دیکھنے میں جاگ جاگ کر ضائع کرو گے۔ بہت سے حسین ناگوں اور ناگنوں سے ڈسے جائو گے۔ تمھاری بہت سی قوتِ حیات دل کی دھڑکن اور خون کے ہیجان میں ضائع ہو جائے گی۔ یہ نقصان کیا کچھ کم ہے؟ اور یہ سب اپنے مرکز دید سے ہٹ کر دیکھنے ہی کا نتیجہ ہے۔ لہٰذا اپنی آنکھوں کو قابو میں رکھو۔ بغیر حاجت کے دیکھنا اور ایسا دیکھنا جو فتنے کا سبب بن سکتا ہو، قابلِ عذر ہے۔ اگر دیکھنے کی حقیقی ضرورت ہو یا اس کا کوئی تمدنی فائدہ ہو تو احتمالِ فتنہ کے باوجود دیکھنا جائز ہے اور اگر حاجت نہ ہو اور فتنے کا بھی احتمال نہ ہو تو عورت کے لیے مرد کو دیکھنا جائز ہے، مگر مرد کے لیے عورت کو دیکھنا جائز نہیں، الا یہ کہ اچانک نظر پڑ جائے۔
۲۔ اظہارِ زینت کی ممانعت اور اس کے حدود
غضِ بصر کا حکم عورت اور مرد دونوں کے لیے تھا۔ اس کے چند احکام خاص عورتوں کے لیے ہیں۔ ان میں سے پہلا حکم یہ ہے کہ ایک محدود دائرے کے باہر اپنی ’’زینت‘‘ کے اظہار سے پرہیز کرو۔
اس حکم کے مقاصد اور اس کی تفصیلات پر غور کرنے سے پہلے ان احکام کو پھر ایک مرتبہ ذہن میں تازہ کر لیجیے جو اس سے پہلے لباس اور ستر کے باب میں بیان ہو چکے ہیں۔ چہرے اور ہاتھوں کے سوا عورت کا پورا جسم ستر ہے جسے باپ، چچا، بھائی اور بیٹے تک کے سامنے کھولنا جائز نہیں۔ حتّٰی کہ عورت پر بھی عورت کے ستر کا کھلنا مکروہ ہے{ FR 6843 }۔ اس حقیقت کو پیشِ نظر رکھنے کے بعد اظہارِ زینت کے حدود ملاحظہ کیجیے:
۱۔ عورت کو اجازت دی گئی ہے کہ اپنی زینت کو ان رشتہ داروں کے سامنے ظاہر کرے: شوہر، باپ، خسر، بیٹے، سوتیلے بیٹے، بھائی، بھتیجے اور بھانجے۔
۲۔ اسے یہ بھی اجازت دی گئی ہے کہ اپنے غلاموں کے سامنے اظہارِ زینت کرے (نہ کہ دوسروں کے غلاموں کے سامنے)
۳۔ وہ ایسے مردوں کے سامنے بھی زینت کے ساتھ آ سکتی ہے جو تابع یعنی زیر دست اور ماتحت ہوں اور عورتوں کی طرف میلان و رغبت رکھنے والے مردوں میں سے نہ ہوں۔{ FR 6844 }
۴۔ عورت ایسے بچوں کے سامنے بھی اظہارِ زینت کر سکتی ہے جن میں ابھی صنفی احساسات پیدا نہ ہوئے ہوں۔ قرآن میں اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْہَرُوْا عَلٰي عَوْرٰتِ النِّسَاۗءِ۝۰۠ (النور 31:24 ) فرمایا گیا ہے جس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ ’’ایسے بچے جو ابھی عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے آگاہ نہ ہوئے ہوں۔
۵۔ اپنے میل جول کی عورتوں کے سامنے بھی عورت کا زینت کے ساتھ آنا جائز ہے۔ قرآن میں النسا (عورتوں) کے لیے الفاظ نہیں کہے گئے بلکہ نسائھن (اپنی عورتوں) کے الفاظ کہے گئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوا کہ شریف عورتیں، یا اپنے کنبے یا رشتے، یا اپنے طبقے کی عورتیں مراد ہیں۔ ان کے ماسوا غیر عورتیں، جن میں ہر قسم کی مجہو ل الحال، اور مشتبہ چال چلن والیاں، اور آوارہ و بدنام سب ہی شامل ہوتی ہیں، اس اجازت سے خارج ہیں کیوں کہ وہ بھی فتنہ کا سبب بن سکتی ہیں۔ اسی بنا پر جب شام کے علاقہ میں مسلمان گئے اور ان کی خواتین وہاں کی نصرانی اور یہودی عورتوں کے ساتھ بے تکلف ملنے لگیں تو حضرت عمرؓ نے امیرِ شام حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کو لکھا کہ مسلمان عورتوں کو اہلِ کتاب کی عورتوں کے ساتھ حماموں میں جانے سے منع کر دو۔ (ابن جریر۔ تفسیر آیہ مذکورہ)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے تصریح کی ہے کہ ’’مسلمان عورت کفار او ر اہل الذمہ کی عورتوں کے سامنے اس سے زیادہ ظاہر نہیں کر سکتی جو اجنبی مردوں کے سامنے ظاہر کر سکتی ہے۔‘‘ (تفسیر کبیر۔آیہ مذکورہ)
اس سے کوئی مذہبی امتیاز مقصود نہ تھا، بلکہ مسلمان عورتوں کو ایسی عورتوں کے اثرات سے بچانا مقصود تھا جن کے اخلاق اور تہذیب کا صحیح حال معلوم نہ ہو، یا جس حد تک معلوم ہو وہ اسلامی نقطہ نظر سے قابلِ اعتراض ہو۔ رہیں وہ غیر مسلم عورتیں جو شریف، باحیا اور نیک خصلت ہوں تو وہ نِسَآئِھِنَّ ہی میں شمار ہوں گی۔
ان حدود پر غور کرنے سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں:
ایک یہ کہ جس زینت کے اظہار کی اجازت اس محدود حلقہ میں دی گئی ہے وہ ستر عورت کے ماسوا ہے۔ اس سے مراد زیور پہننا، اچھے ملبوسات سے آراستہ ہونا، سرمہ، حنا اوربالوں کی آرائش اوردوسری وہ آرائشیں ہیں جو عورتیں اپنی انوثت کے اقتضا سے اپنے گھر میں کرنے کی عادی ہوتی ہیں۔
دوسرے یہ کہ اس قسم کی آرائشوں کے اظہار کی اجازت، یا تو ان مردوں کے سامنے دی گئی ہے جنھیں ابدی حرمت نے عورتوں کے لیے حرام کر دیا ہے۔ یا ان لوگوں کے سامنے جن کے اندر صنفی میلانات نہیں ہیں، یا ان کے سامنے جو فتنے کا سبب نہ بن سکتے ہوں۔ چنانچہ عورتوں کے لیے نِسَآئِھِنَّ کی قید ہے۔ تابعین] نوکر وغیرہ[ کے لیے غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَۃِ کی ، اور بچوں کے لیے لَمْ یَظْھَرُوْا عَلٰی عَوْرٰتِ النِّسَآئِ کی۔ اس سے معلوم ہوا کہ شارع کا منشا عورتوں کے اظہارِ زینت کو ایسے حلقے میں محدود کرنا ہے جس میں ان کے حسن اور ان کی آرائش سے کسی قسم کے ناجائز جذبات پیدا ہونے اور صنفی انتشار کے اسباب فراہم ہو جانے کا اندیشہ نہیں ہے۔
اس حلقے کے باہر جتنے مرد ہیں ان کے بارے میں ارشاد ہے کہ ان کے سامنے اپنی زینت کا اظہار نہ کرو، بلکہ چلنے میں پائوں بھی اس طرح نہ مارو کہ چھپی ہوئی زینت کا حال آواز سے ظاہر ہو اور اس ذریعہ سے توجہات تمھاری طرف منعطف ہوں۔ اس فرمان میں جس زینت کو اجانب سے چھپانے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ وہی زینت ہے جسے ظاہر کرنے کی اجازت اوپر کے محدود حلقہ میں دی گئی ہے۔ مقصود بالکل واضح ہے۔ عورتیں اگر بن ٹھن کر ایسے لوگوں کے سامنے آئیں گی جو صنفی خواہشات رکھتے ہیں اور جن کے داعیات نفس کو ابدی حرمت نے پاکیزہ اور معصوم جذبات سے مبدل بھی نہیں کیا ہے، تو لامحالہ اس کے اثرات وہی ہوں گے جو مقتضائے بشریت ہیں۔ یہ کوئی نہیں کہتا کہ ایسے اظہارِ زینت سے ہر عورت فاحشہ ہی ہو کر رہے گی اور ہر مرد بالفعل بدکار ہی بن کر رہے گا۔ مگر اس سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ زینت و آرائش کے ساتھ عورتوں کے علانیہ پھرنے اور محفلوں میں شریک ہونے سے بے شمار جلی اور خفی، نفسانی اور مادی نقصانات رونما ہوتے ہیں۔ آج یورپ اور امریکا کی عورتیں اپنی اور اپنے شوہروں کی آمدنی کا بیش تر حصہ اپنی آرائش پرخرچ کر رہی ہیں اور روز بروز ان کا یہ خرچ اتنا بڑھتا چلا جا رہا ہے کہ ان کے معاشی وسائل اس کے تحمل کی قوت نہیں رکھتے{ FR 6845 }۔ کیا یہ جنون انھی پُرشوق نگاہوں نے پیدا نہیں کیا ہے جو بازاروں، دفتروں اور سوسائٹی کے اجتماعات میں آراستہ خواتین کا استقبال کرتی ہیں؟ پھر غور کیجیے کہ آخر عورتوں کی آرائش کا اس قدر شوق پیدا ہونے اور طوفان کی طرح بڑھنے کا سبب کیا ہے؟ یہی ناکہ وہ مردوں سے خراجِ تحسین وصول کرنا اور ان کی نظروں میں کھب جانا چاہتی ہیں{ FR 6846 }۔
یہ کس لیے؟ کیا یہ بالکل ہی معصوم جذبہ ہے؟ کیا اس کی تہ میں وہ صنفی خواہشات چھپی ہوئی نہیں ہیں جو اپنے فطری دائرے سے نکل کر پھیل جانا چاہتی ہیں اور جن کے مطالبات کا جواب دینے کے لیے دوسری جانب بھی ویسی خواہشات موجود ہیں؟ اگر آپ اس سے انکار کریں گے تو شاید کل آپ یہ دعوٰی کرنے میں بھی تامل نہ کریں کہ جوالا مکھی پہاڑ پر جو دھواں نظرآتا ہے اس کی تہ میں کوئی لاوا باہر نکلنے کے لیے بے تاب نہیں ہے۔ آپ اپنے عمل کے مختار ہیں جو چاہے کیجیے۔ مگر حقائق سے انکار نہ کیجیے۔ یہ حقیقتیں اب کچھ مستور بھی نہیں رہیں سامنے آ چکی ہیں اور اپنے آفتاب سے زیادہ روشن نتائج کے ساتھ آ چکی ہیں۔ آپ ان نتائج کو دانستہ یا نادانستہ قبول کرتے ہیں، مگر اسلام انھیں ٹھیک اسی مقام پر روک دینا چاہتا ہے جہاں سے ان کے ظہور کی ابتدا ہوتی ہے۔ کیوں کہ اس کی نظرِ اظہار زینت کے بظاہر معصوم آغاز پر نہیں بلکہ اس نہایت غیر معصوم انجام پر ہے جو تمام سوسائٹی پر قیامت کی سی تاریکی لے کر پھیل جاتا ہے:
مَثَلُ الرَّافِلَۃِ فِی الزِّیْنَۃِ فِی غَیْرِ أَھْلِھَا کَمَثَلِ ظُلْمَۃِ یَومَ الْقِیٰمَۃِ لَانُوْرَلَھَا۔
(سنن ترمذی،کتاب الرضاع، باب ما جاء فی کراہیۃ خروج النسا فی الزینتہ، حدیث۱۰۸۷)
اجنبیوں میں زینت کے ساتھ ناز و انداز سے چلنے والی عورت ایسی ہے جیسے روزِ قیامت کی تاریکی کہ اس میں کوئی نور نہیں۔
قرآن میں جہاں اجنبیوں کے سامنے زینت کا اظہار کرنے کی ممانعت ہے۔ وہاں ایک استثنا بھی ہے۔ الا ماظھر منھا جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی زینت کے ظاہر ہونے میں کوئی مضایقہ نہیں ہے جو خود ظاہر ہو جائے۔ لوگوں نے اس استثنا سے بہت کچھ فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ ان الفاظ میں کچھ زیادہ فائدہ اٹھانے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ شارع صرف یہ کہتا ہے کہ تم اپنے ارادہ سے غیروں کے سامنے اپنی زینت ظاہر نہ کرو، لیکن جو زینت خود ظاہر ہوجائے یا اضطرارًا ظاہر ہی رہنے والی ہو اس کی تم پر کوئی ذمہ داری نہیں۔ مطلب صاف ہے تمھاری نیت اظہار زینت کی نہ ہونی چاہیے۔ تم میں یہ جذبہ، یہ ارادہ، ہرگز نہ ہونا چاہیے۔ کہ اپنی آرائش غیروں کو دکھائو اور کچھ نہیں تو چھپے ہوئے زیوروں کی جھنکار ہی سنا کر ان کی توجہ اپنی طرف مائل کرو۔ تمھیں اپنی طرف سے تو اخفائے زینت کی اختیاری کوشش کرنی چاہیے۔ پھر اگر کوئی چیز اضطرارًا کھل جائے تو اس پر خدا تم سے کوئی مواخذہ نہ کرے گا۔ تم جن کپڑوں میں زینت کو چھپائو گی وہ تو بہرحال ظاہر ہی ہوں گے۔ تمھارا قدوقامت، تناسب جسمانی، ڈیل ڈول تو ان میں محسوس ہو گا۔ کسی ضرورت یا کام کاج کے لیے کبھی ہاتھ یا چہرے کا کوئی حصہ تو کھولنا ہی پڑے گا۔ کوئی حرج نہیں اگر ایسا ہو۔ تمھاری نیت اس کے اظہار کی نہیں۔ تم اس کے اظہار پرمجبور ہو۔ اگر ان چیزوں سے بھی کوئی کمینہ لذت لیتا ہے تو لیا کرے۔ اپنی بدنیتی کی سزا خود بھگتے گا۔ جتنی ذمہ داری تمدن اور اخلاق کی خاطر تم پر ڈالی گئی تھی۔ اسے تم نے اپنی حد تک پورا کر دیا۔
یہ ہے صحیح مفہوم اس آیت کا۔ مفسرین کے درمیان اس کے مفہوم میں جتنے اختلافات ہیں، ان سب پر جب آپ غور کریں گے تو معلوم ہو گا کہ تمام اختلافات کے باوجود ان کے اقوال کا مدعا وہی ہے جو ہم نے بیان کیا ہے
ابن مسعود، ابراہیم نخعی اور حسن بصری کے نزدیک زینت ظاہرہ سے مراد وہ کپڑے ہیں جن میں زینت باطنہ کو چھپایا جاتا ہے، مثلاً برقع یا چادر۔
ابن عباس، مجاہد، عطا ابن عمر، انس، ضحاک، سعید بن جبیر، اوزاعی اور عامہ حنفیہ کے نزدیک اس سے مراد چہرہ اور ہاتھ ہیں اوروہ اسباب زینت بھی اس استثنا میں داخل ہیں جو چہرے اور ہاتھ میں عادتًا ہوتے ہیں، مثلاً ہاتھ کی حنا، انگوٹھی اور آنکھوں کا سرمہ وغیرہ۔
سعید بن المسیب کے نزدیک صرف چہرہ مستثنیٰ ہے اور ایک قول حسن بصری سے بھی ان کی تائید میں منقول ہے۔
حضرت عائشہؓ چہرہ چھپانے کی طرف مائل ہیں۔ ان کے نزدیک زینت ظاہرہ سے مراد ہاتھ اور چوڑیاں، کنگن اور انگوٹھیاں ہیں۔
مسور بن محزمہ اور قتادہ ہاتھوں کو ان کی زینت سمیت کھولنے کی اجازت دیتے ہیں مگر چہرے کے باب میں ان کے اقوال سے ایسا متبادر ہوتا ہے کہ پورے چہرے کی بجائے وہ صرف آنکھیں کھولنے کو جائز رکھتے ہیں۔{ FR 6847 }
ان اختلافات کے منشا پر غور کیجیے۔ ان سب مفسرین نے الا ماظھر منھا سے یہی سمجھا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی زینت کو ظاہر کرنے کی اجازت دیتا ہے جو اضطرارًا ظاہر ہو جائے یا جسے ظاہر کرنے کی ضرورت پیش آ جائے۔ چہرے اور ہاتھوں کی نمائش کرنا یا انھیں مطمح انظار بنانا ان میں سے کسی کا بھی مقصود نہیں۔ ہر ایک نے اپنے فہم اور عورتوں کو ضروریات کے لحاظ سے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ ضرورت کس حد تک کسی چیز کو بے حجاب کرنے کے لیے داعی ہوتی ہے، یا کیا چیز اضطرارًا کھل سکتی ہے، یا عادتًا کھلتی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ آپ اِلاَّ مَا ظَھَرَ مِنْھَاکو ان میں سے کسی چیز کے ساتھ بھی مقید نہ کیجیے۔ ایک مومن عورت جو خدا اور رسولؐ کے احکام کی سچے دل سے پابند رہنا چاہتی ہے، اور جسے فتنے میں مبتلا ہونا منظور نہیں ہے، وہ خود اپنے حالات اور ضروریات کے لحاظ سے فیصلہ کر سکتی ہے کہ چہرہ اور ہاتھ کھولے یا نہیں، کب کھولے اور کب نہ کھولے، کس حد تک کھولے اور کس حد تک چھپائے۔ اس باب میں قطعی احکام نہ شارع نے دیے ہیں، نہ اختلاف احوال و ضروریات کو دیکھتے ہوئے یہ مقتضائے حکمت ہے کہ قطعی احکام وضع کیے جائیں۔ جو عورت اپنی حاجات کے لیے باہر جانے اور کام کاج کرنے پر مجبور ہے۔ اسے کسی وقت ہاتھ بھی کھولنے کی ضرورت پیش آ ئے گی اور چہرہ بھی۔ ایسی عورت کے لیے بلحاظ ضرورت اجازت ہے اور جس عورت کا حال یہ نہیں ہے اس کے لیے بلا ضرورت قصدًا کھولنا درست نہیں۔ پس شارع کا مقصد یہ ہے کہ اپنا حسن دکھانے کے لیے اگر کوئی چیز بے حجاب کی جائے تو یہ گناہ ہے۔ خود بخود اگر کچھ ظاہر ہو جائے تو کوئی گناہ نہیں۔ حقیقی ضرورت اگر کچھ کھولنے پر مجبور کرے تو اس کا کھولنا جائز ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ اختلاف احوال سے قطع نظر کرکے نفس چہرہ کا کیا حکم ہے؟ شارع اس کے کھولنے کو پسند کرتا ہے یا ناپسند؟ اس کے اظہار کی اجازت محض ناگزیر ضرورت کے طور پر دی گئی ہے یا اس کے نزدیک چہرہ غیروں سے چھپانے کی چیز ہی نہیں ہے؟ ان سوالات پر سورۂ احزاب والی آیت میں روشنی ڈالی گئی ہے۔
۳۔ چہرے کا حکم
سورۂ احزاب کی جس آیت کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:
يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْہِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِہِنَّ۝۰ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ۝۰ۭ (الاحزاب 59:33)
اے نبیؐ! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے گھونگٹ ڈال لیا کریں۔ اس تدبیر سے یہ بات زیادہ متوقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی اور انھیں ستایا نہیں جائے گا۔
یہ آیت خاص چہرے کو چھپانے کے لیے ہے۔ جلابیب جمع ہے جلباب کی جس کے معنی چادر کے ہیں۔ ادناء کے معنی ارخاء یعنی لٹکانے کے ہیں۔ یدنین علیھن من جلابیبھن کا لفظی ترجمہ یہ ہو گا کہ ’’اپنے اوپر اپنی چادروں میں سے ایک حصہ لٹکا لیا کریں۔ یہی مفہوم گھونگٹ ڈالنے کا ہے۔ مگر اصل مقصد وہ خاص وضع نہیں ہے۔ جسے عرفِ عام میں گھونگٹ سے تعبیر کیا جاتا ہے بلکہ چہرے کو چھپانا مقصود ہے، خواہ گھونگٹ سے چھپایا جائے یا نقاب سے یا کسی اور طریقے سے۔ اس کا فائدہ یہ بتایا گیا ہے کہ جب مسلمان عورتیں اس طرح مستور ہو کر باہر نکلیں گی تو لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ شریف عورتیں ہیں، بے حیا نہیں ہیں، اس لیے کوئی ان سے تعرض نہ کرے گا۔
قرآن مجید کے تمام مفسرین نے اس آیت کا یہی مفہوم بیان کیا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت سے نکلیں تو سر کے اوپر سے اپنی چادروں کے دامن لٹکا کر اپنے چہروں کو ڈھانک لیا کریں۔ (تفسیر ابن جریر، جلد ۲۲۔ صفحہ ۲۹)
امام محمد بن سیرین نے حضرت عبیدہ بن سفیان بن الحارث الحضرمی سے دریافت کیا کہ اس حکم پر عمل کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ انھوں نے چادر اوڑھ کر بتایا اور اپنی پیشانی، ناک اور آنکھ کو چھپا کر صرف ایک آنکھ کھلی رکھی۔ (تفسیر ابن جریر، حوالہ مذکور۔ ا حکام القرآن جلد سوم، صفحہ ۴۵۷)
علامہ ابن جریر طبری اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
اے نبی ؐ! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ جب اپنے گھروں سے کسی حاجت کے لیے نکلیں تو لونڈیوں کے سے لباس نہ پہنیں کہ سر اور چہرے کھلے ہوئے ہوں بلکہ وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے گھونگٹ ڈال لیا کریں تاکہ کوئی فاسق ان سے تعرض نہ کر سکے اور سب جان لیں کہ وہ شریف عورتیں ہیں۔ (تفسیر ابن جریر، حوالہ مذکور)
علامہ ابو بکر جصاص لکھتے ہیں:
یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو ان عورت کو اجنبیوں سے چہرہ چھپانے کا حکم ہے اور اسے گھر سے نکلتے وقت پردہ داری اور عفت مابی کا اظہار کرنا چاہیے تاکہ بد نیت لوگ اس کے حق میں طمع نہ کر سکیں۔ (احکام القرآن، جلد سوم، صفحہ ۴۵۸)
علامہ نیشا پوری اپنی تفسیر غرائب القرآن میں لکھتے ہیں:
ابتدائے عہدِ اسلام میں عورتیں زمانہ جاہلیت کی طرح قمیص اوردوپٹے کے ساتھ نکلتی تھیں اور شریف عورتوں کا لباس ادنیٰ درجہ کی عورتوں سے مختلف نہ تھا۔ پھر حکم دیا گیا کہ وہ چادریں اوڑھیں اور اپنے سر اور چہرے کو چھپائیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ وہ شریف عورتیں ہیں فاحشہ نہیں ہیں۔ (تفسیر غرائب القرآن برحاشیہ ابن جریر، جلد ۲۲، صفحہ ۳۲)
امام رازی لکھتے ہیں:
جاہلیت میں اشراف کی عورتیں اور لونڈیاں سب کھلی پھرتی تھیں اور بدکار لوگ ان کا پیچھا کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے شریف عورتوں کوحکم دیا کہ وہ اپنے اوپر چادر ڈالیں اور یہ فرمایا کہ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ۝۰ۭ ( الاحزاب 59:33 ) تو اس کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ اس لباس سے پہچان لیا جائے گا کہ وہ شریف عورتیں ہیں اور ان کا پیچھا نہ کیا جائے گا۔ دوسرے یہ کہ اس سے معلوم ہو جائے گا کہ وہ بدکار نہیں ہیں کیوں کہ وہ عورت چہرہ چھپائے گی، درآنحالیکہ چہرہ عورت{ FR 6848 } نہیں ہے جس کا چھپانا فرض ہو، تو کوئی شخص اس سے یہ توقع نہ کرے گا کہ ایسی شریف عورت کشف ’’عورت‘‘ پر آمادہ ہو جائے گی۔ پس اس لباس سے ظاہر ہو جائے گا کہ وہ ایک پردہ دار عورت ہے اور اس سے بدکاری کی توقع نہ کی جا سکے گی۔ (تفسیر کبیر، جلد۶، صفحہ ۵۹۱)
قاضی بیضاوی لکھتے ہیں:
يُدْنِيْنَ عَلَيْہِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِہِنَّ۝۰ۭ(الاحزاب59:33 ) یعنی جب وہ اپنی حاجات کے لیے باہر نکلیں تو اپنی چادروں سے اپنے چہروں اور اپنے جسموں کو چھپا لیں۔ یہاں لفظ من تبعیض کے لیے ہے۔ یعنی چادروں کے ایک حصہ کو منہ پر ڈالا جائے اور ایک حصہ کو جسم پر لپیٹ لیا جائے ذلک ادنی ان یعرفن یعنی اس سے ان کے اور لونڈیوں اور مغنیات کے درمیان تمیز ہو جائے گی۔ فلا یُؤذَیْنَ اور مشتبہ چال چلن کے لوگ اس سے تعرض کی جرات نہ کر سکیں گے۔‘‘ (تفسیر بیضاوی، جلد۴، صفحہ ۱۶۸)
ان اقوال سے ظاہر ہے کہ صحابہ کرامؓ کے مبارک دَور سے لے کر آٹھویں صدی تک ہر زمانے میں اس آیت کا ایک ہی مفہوم سمجھا گیا ہے اور وہ مفہوم وہی ہے جو اس کے الفاظ سے ہم نے سمجھا ہے۔ اس کے بعد احادیث کی طرف رجوع کیجیے تو وہاں بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد سے عہد نبوی میں عام طور پر مسلمان عورتیں اپنے چہروں پر نقاب ڈالنے لگی تھیں اور کھلے چہروں کے ساتھ پھرنے کا رواج بند ہو گیا تھا۔ ابودائود، ترمذی، موطا اور دوسری کتب حدیث میں لکھا ہے کہ آں حضرت a نے عورتوں کو حالتِ احرام میں چہروں پر نقاب ڈالنے اور دستانے پہننے سے منع فرما دیا تھا:
اَلْمُحْرِمَۃُ لَا تَنْتَقِبْ وَلَا تَلْبِسِ الْقُفَّازَینِ۔
] محرم عورت نقاب نہ کرے اور دستانے نہ پہنے۔[
(سنن ابی دائود، کتاب المناسک، باب مایلبس المحرم، حدیث۱۵۵۵)
وَنَھَی النِّسَائَ فِی إحْرَامِھِنَّ عَنِ الْقُفَّازَینِ وَالّنقَابٍ۔
(سنن ابی دائود، کتاب المناسک، باب مایلبس المحرم، حدیث۱۵۵۶)
اس سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اس عہد مبارک میں چہروں کو چھپانے کے لیے نقاب اور ہاتھوں کو چھپانے کے لیے دستانوں کا عام رواج ہو چکا تھا۔ صرف احرام کی حالت میں اس سے منع کیا گیا۔ مگر اس سے بھی یہ مقصد نہ تھا کہ حج میں چہرے منظر عام پر پیش کیے جائیں، بلکہ دراصل مقصد یہ تھا کہ احرام کی فقیرانہ وضع میں نقاب عورت کے لباس کا جزو نہ ہو، جس طرح عام طور پر ہوتا ہے۔ چنانچہ دوسری احادیث میں تصریح کی گئی ہے کہ حالتِ احرام میں بھی ازواجِ مطہرات اور عام خواتینِ اسلام نقاب کے بغیر اپنے چہروں کو اجانب سے چھپاتی تھیں۔
ابودائود میں ہے:
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ کَانَ الرُّکْبَانُ یَمُرُّوْنَ بِنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُحْرِمَاتٌ فَاذَا حَاذُوا بِنَا سَدَلَتْ إحْدَانَا جِلْبَابَھَا مِنْ رَأسِھَا عَلٰی وَجْھِھَا فَإِذَا جَاوَزُوْنَا کَشَفْنَاہُ۔ ( کتاب المناسک فی المحرمۃ تغطی وجہھا)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ سوار ہمارے قریب سے گزرتے تھے اور ہم عورتیں رسول اللہ a کے ساتھ حالتِ احرام میں ہوتی تھیں۔ پس جب وہ لوگ ہمارے سامنے آ جاتے تو ہم اپنی چادریں اپنے سروں کی طرف سے اپنے چہروں پر ڈال لیتیں اور جب وہ گزر جاتے تو منہ کھول لیتی تھیں۔
موطا امام مالک میں ہے:
عن فاطمۃ بنت المنذر قَالَتْ کُنَّانُخَمِّرُ وُجُوھَنَا وَنَحْنُ مُحْرِمَاتُ وَنَحْنُ مَعَ أسْمائ بِنْتِ اَبِی بَکرِ الصِّدِیقِ۔ (مؤطا مالک، کتاب الحج، باب تخمیر المحرم وجھہ، حدیث۱۱۷۶)
فاطمہ بنت منذر کا بیان ہے کہ ہم حالتِ احرام میں اپنے چہروں پر کپڑا ڈال لیا کرتی تھیں۔ ہمارے ساتھ حضرت ابوبکرؓ کی صاحب زادی حضرت اسماءؓ تھیں۔ (یعنی انھوں نے یہ نہیں کہا کہ احرام کی حالت میں نقاب استعمال کرنے کی جو ممانعت ہے اس کا اطلاق ہمارے اس فعل پر ہوتا ہے۔
فتح الباری، کتاب الحج میں حضرت عائشہؓ کی ایک روایت ہے:
تُسْدِلُ الْمَرْأَۃُجِلْبَابَھَا مِنْ فَوقِ رَأسِھَا عَلٰی وَجْھِھَا۔ (باب مایلبس المحرم من الثیاب)
عورت حالتِ احرام میں اپنی چادر اپنے سر پر سے چہرے پر لٹکا لیا کرے۔

۴۔ نقاب
جو شخص آیت قرآنی کے الفاظ اور ان کی مقبول عام اور متفق علیہ تفسیر اور عہد نبویa کے تعامل کو دیکھے گا اس کے لیے اس حقیقت سے انکار کی مجال باقی نہ رہے گی کہ شریعتِ اسلامیہ میں عورت کے لیے چہرے کو اجانب سے مستور رکھنے کا حکم ہے اور اس پر خود نبی اکرم a کے زمانہ سے عمل کیا جا رہا ہے۔ نقاب اگر لفظًا نہیں تو معنی و حقیقتاً خود قرآن عظیم کی تجویز کردہ چیز ہے۔ جس ذات مقدس پر قرآن نازل ہوا تھا اس کی آنکھوں کے سامنے خواتین اسلام نے اس چیز کو اپنے خارج البیت لباس کا جزو بنایا تھا اور اس زمانہ میں بھی اس چیز کا نام ’’نقاب‘‘ ہی تھا۔
جی ہاں! یہ وہی ’’نقاب‘‘ (veil) ہے جسے یورپ انتہا درجہ کی مکروہ اور گھنائونی چیز سمجھتا ہے، جس کا محض تصور ہی فرنگی ضمیر پر ایک بارِ گراں ہے، جسے ظلم، تنگ خیالی اور وحشت کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔ ہاں یہ وہی چیز ہے جس کا نام کسی مشرقی قوم کی جہالت اور تمدنی پسماندگی کے ذکر میں سب سے پہلے لیا جاتا ہے اور جب یہ بیان کرنا ہوتا ہے کہ کوئی مشرقی قوم تمدن و تہذیب میں ترقی کر رہی ہے تو سب سے پہلے جس بات کا ذکر بڑے انشراح و انبساط کے ساتھ کیا جاتا ہے وہ یہی ہے کہ اس قوم سے ’’نقاب‘‘ رخصت ہو گئی ہے۔ اب شرم سے سر جھکا لیجیے کہ یہ چیز بعد کی ایجاد نہیں، خود قرآن نے اسے ایجاد کیا ہے اور محمدa اسے رائج کر گئے ہیں۔ مگر محض سر جھکانے سے کام نہ چلے گا۔ شتر مرغ اگر شکاری کو دیکھ کر ریت میں سر چھپا لے تو شکاری کا وجود باطل نہیں ہو جاتا۔ آپ بھی اپنا سر جھکائیں گے تو سر ضرور جھک جائے گا مگر قرآن کی آیت نہ مٹے گی، نہ تاریخ سے ثابت شدہ واقعات محو ہو جائیں گے۔ تاویلات سے اس پر پردہ ڈالیے گا تو یہ ’’شرم کا داغ‘‘ اور زیادہ چمک اٹھے گا۔ جب وحی مغربی پر ایمان لا کر آپ اسے ’’شرم کا داغ‘‘ مان ہی چکے ہیں، تو اسے دور کرنے کی اب ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ اس اسلام ہی سے اپنی برأت کا اعلان فرما دیں جو نقاب، گھونگٹ، سترِ وجوہ جیسی ’’گھنائونی‘‘ چیز کا حکم دیتا ہے۔ آپ ہیں ’’ترقی‘‘ کے خواہش مند۔ آپ کو درکار ہے ’’تہذیب‘‘ آپ کے لیے وہ مذہب کیسے قابلِ اتباع ہو سکتا ہے جو خواتین کو شمعِ انجمن بننے سے روکتا ہو، حیااور پردہ داری اور عفت مابی کی تعلیم دیتا ہو، گھر کی ملکہ کو اہلِ خانہ کے سوا ہر ایک کے لیے قرۃ العین بننے سے منع کرتا ہو، بھلا ایسے مذہب میں ’’ترقی‘‘ کہاں! ایسے مذہب کو تہذیب سے کیا واسطہ! ’’ترقی‘‘ اور ’’تہذیب‘‘ کے لیے ضروری ہے کہ عورت…… نہیں لیڈی صاحبہ…… باہر نکلنے سے پہلے دو گھنٹے تک تمام مشاغل سے دست کش ہو کر صرف اپنی تزئین و آرائش میں مشغول ہو جائیں، تمام جسم کو معطر کریں، رنگ اور وضع کی مناسبت سے انتہا درجہ کا جاذبِ نظر لباس زیبِ تن فرمائیں، مختلف قسم کے غازوں سے چہرے اور بانہوں کی تنویر بڑھائیں، ہونٹوں کو لپ اسٹک سے مزین کریں، کمان ابرو کو درست اور آنکھوں کو تیر اندازی کے لیے چست کر لیں اور ان سب کرشموں سے مسلح ہو کر گھر سے باہر نکلیں تو شان یہ ہو کہ ہر کرشمہ دامن دل کو کھینچ کھینچ کر ’’جا ایں جااست‘‘کی صدا لگا رہا ہو! پھر اس سے بھی ذوق خود آرائی کی تسکین نہ ہو، تو آئینہ اور سنگار کا سامان ہر وقت ساتھ رہے تاکہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اسبابِ زینت کے خفیف ترین نقصانات کی بھی تلافی کی جاتی رہے۔
جیسا کہ ہم بار بار کہہ چکے ہیں، اسلام اور مغربی تہذیب کے مقاصد میں بعد المشرقین ہے اور وہ شخص سخت غلطی کرتا ہے جو مغربی نقطۂ نظر سے اسلامی احکام کی تعبیر کرتا ہے۔ مغرب میں اشیا کی قدر و قیمت کا جومعیار ہے، اسلام کا معیار اس سے بالکل مختلف ہے۔ مغرب جن چیزوں کو نہایت اہم اورمقصودِ حیات سمجھتا ہے، اسلام کی نگاہ میں ان کی کوئی اہمیت نہیں اور اسلام جن چیزوں کو اہمیت دیتا ہے، مغرب کی نگاہ میں وہ بالکل بے قیمت ہیں۔ اب جو مغربی معیار کا قائل ہے، اسے تو اسلام کی ہر چیز قابلِ ترمیم ہی نظر آئے گی۔ وہ اسلامی احکام کی تعبیر کرنے بیٹھے گا تو ان کی تحریف کر ڈالے گا اور تحریف کے بعد بھی انھیں اپنی زندگی میں کسی طرح نصب نہ کر سکے گا۔ کیوں کہ قدم قدم پر قرآن اور سنت کی تصریحات اس کی مزاحمت کریں گی۔ ایسے شخص کو عملی طریقوں کے جزئیات پرنظر ڈالنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ جب مقاصد کے لیے ان طریقوں کو اختیار کیا گیا ہے وہ خود کہاں تک قابلِ قبول ہیں۔ اگر وہ مقاصد ہی سے اتفاق نہیں رکھتا تو حصولِ مقاصد کے طریقوں پر بحث کرنے اور انھیں مسخ و محرف کرنے کی فضول زحمت کیوں اٹھائے؟کیوں نہ اس مذہب ہی کو چھوڑ دے جس کے مقاصد کو وہ غلط سمجھتا ہے؟ اور اگر اسے مقاصد سے اتفاق ہے تو بحث صرف اس میں رہ جاتی ہے کہ ان مقاصد کے لیے جو عملی طریقے تجویز کیے گئے ہیں وہ مناسب ہیں یا نامناسب اور اس بحث کو بآسانی طے کیا جا سکتا ہے لیکن یہ طریقہ صرف شریف لوگ ہی اختیار کر سکتے ہیں۔ رہے منافقین، تو وہ خدا کی پیدا کی ہوئی مخلوقات میں سب سے ارذل مخلوق ہیں۔ انھیں یہی زیب دیتا ہے کہ دعوٰی ایک چیز پر اعتقاد رکھنے کا کریں اور درحقیقت اعتقاد دوسری چیز پر رکھیں۔
نقاب اور برقع کے مسئلے میں جس قدر بحثیں کی جا رہی ہیں وہ دراصل اسی نفاق پر مبنی ہیں۔ ایڑی سے چوٹی تک کا زور یہ ثابت کرنے میں صرف کیا گیا ہے کہ پردے کی یہ صورت اسلام سے پہلے کی قوموں میں رائج تھی اور جاہلیت کی یہ میراث عہدِ نبویa کے بہت مدت بعد مسلمانوں میں تقسیم ہوئی۔ قرآن کی ایک صریح آیت اور عہدِ نبوی کے ثابت شدہ تعامل اور صحابہ و تابعین کی تشریحات کے مقابلہ میں تاریخی تحقیقات کی یہ زحمت آخر کیوں اٹھائی گئی؟ صرف اس لیے کہ زندگی کے وہ مقاصد پیشِ نظر تھے اور ہیں جو مغرب میں مقبولِ عام ہیں۔ ’’ترقی‘‘ اور ’’تہذیب‘‘ کے وہ تصورات ذہن نشین ہو گئے ہیں جو اہلِ مغرب سے نقل کیے گئے ہیں۔ چوں کہ برقع اوڑھنا اور نقاب ڈالنا ان مقاصد کے خلاف ہے اور ان تصورات سے کسی طرح میل نہیں کھاتا، لہٰذا تاریخی تحقیق کے زور سے اس چیز کومٹانے کی کوشش کی گئی جو اسلام کی کتاب آئین میں ثبت ہے، یہ کھلی ہوئی منافقت، جو بہت سے مسائل کی طرح اس مسئلہ میں بھی برتی گئی ہے، اس کی اصلی وجہ وہی بے اصولی، عقل کی خفت اور اخلاقی جرأت کی کمی ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اتباعِ اسلام کا دعوٰی کرنے کے باوجود قرآن کے مقابلہ میں تاریخ کو لا کر کھڑا کرنے کا خیال بھی ان کے ذہن میں نہ آتا۔ یا تو یہ اپنے مقاصد کو اسلام کے مقاصد سے بدل ڈالتے (اگر مسلمان رہنا چاہتے) یا اعلانیہ اس مذہب سے الگ ہو جاتے جو ان کے معیار ترقی کے لحاظ سے مانع ترقی ہے۔
جو شخص اسلامی قانون کے مقاصد کو سمجھتا ہے اور اس کے ساتھ کچھ عقل عام (common sense) بھی رکھتا ہے اس کے لیے یہ سمجھنا کچھ بھی مشکل نہیں کہ عورتوں کو کھلے چہروں کے ساتھ باہر پھرنے کی عام اجازت دینا ان مقاصد کے بالکل خلاف ہے جنھیں اسلام اس قدر اہمیت دے رہا ہے۔ ایک انسان کو دوسرے انسان کی جو چیز سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے وہ اس کا چہرہ ہی تو ہے۔ انسان کی خلقی و پیدائشی زینت، یا دوسرے الفاظ میں انسانی حسن کا سب سے بڑا مظہر چہرہ ہے۔ نگاہوں کو سب سے زیادہ وہی کھینچتا ہے۔ جذبات کو سب سے زیادہ وہی اپیل کرتا ہے۔ صنفی جذب و انجذاب کا سب سے زیادہ قوی ایجنٹ وہی ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے نفسیات کے کسی گہرے علم کی بھی ضرورت نہیں۔ خود اپنے دل کو ٹٹولیے۔ اپنی آنکھوں سے فتوٰی طلب کیجیے۔ اپنے نفسی تجربات کا جائزہ لے کردیکھ لیجیے۔ منافقت کی بات تو دوسری ہے۔ منافق اگر آفتاب کے وجود کو بھی اپنے مقصد کے خلاف دیکھے گا تو دن دیہاڑے کہہ دے گا کہ آفتاب موجود نہیں۔ البتہ صداقت سے کام لیجیے گا۔ تو آپ کو اعتراف کرنا پڑے گا کہ صنفی تحریک (sex appeal) میں جسم کی ساری زینتوں سے زیادہ حصہ اس فطری زینت کا ہے جو اللہ نے چہرے کی ساخت میں رکھی ہے۔ اگر آپ کو کسی لڑکی سے شادی کرنی ہو اورآ پ اسے دیکھ کر آخری فیصلہ کرنا چاہتے ہوں تو سچ بتائیے کہ کیا دیکھ کر آپ فیصلہ کریں گے؟ ایک شکل اس کے دیکھنے کی یہ ہو سکتی ہے کہ چہرے کے سوا وہ پوری کی پوری آپ کے سامنے ہو۔ دوسری شکل یہ ہو سکتی ہے کہ ایک جھروکے میں وہ صرف اپنا چہرہ دکھا دے۔ بتائیے کہ دونوں شکلوں میں سے کون سی شکل کو آپ ترجیح دیں گے؟ سچ بتائیے کیا سارے جسم کی بہ نسبت چہرے کا حسن آپ کی نگاہ میں اہم ترین نہیں ہے؟
اس حقیقت کے مسلم ہو جانے کے بعد آگے بڑھیے۔ اگر سوسائٹی میں صنفی انتشار اور لامرکزی ہیجانات و تحریکات کو روکنا مقصود ہی نہ ہو، تب تو چہرہ کیا معنی، سینہ، بازو، پنڈلیاں اور رانیں سب کچھ ہی کھو ل دینے کی آزادی ہونی چاہیے، جیسی کہ اس وقت مغربی تہذیب میں ہے۔ اس صورت میں ان حدود و قیود کی کوئی ضرورت ہی نہیں جو اسلامی قانون حجاب کے سلسلہ میں آپ اوپر سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں لیکن اگر اصل بات اسی طوفان کو روکنا ہو تو اس سے زیادہ خلاف حکمت اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ اسے روکنے کے لیے چھوٹے چھوٹے دروازوں پر تو کنڈیاں چڑھائی جائیں اور سب سے بڑے دروازے کا چوپٹ کھلا چھوڑ دیا جائے۔
اب آ پ سوال کر سکتے ہیں کہ جب ایسا ہے تو اسلام نے ناگزیر حاجات و ضروریات کے لیے چہرہ کھولنے کی اجازت کیوں دی؟ جیسا کہ تم خود پہلے بیان کر چکے ہو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کوئی غیر معتدل اور یک رخا قانون نہیں ہے۔ وہ ایک طرف مصالحِ اخلاقی کا لحاظ کرتا ہے تو دوسری طرف انسان کی حقیقی ضرورتوں کا بھی لحاظ کرتا ہے اور ان دونوں کے درمیان اس نے غایت درجہ کا تناسب اور توازن قائم کیا ہے۔ وہ اخلاقی فتنوں کا سدِّباب بھی کرنا چاہتا ہے اور اس کے ساتھ کسی انسان پر ایسی پابندیاں بھی عائد کرنا نہیں چاہتا جن کے باعث وہ اپنی حقیقی ضروریات کو پورا نہ کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے عورت کے لیے چہرے اور نقاب کے باب میں ویسے قطعی احکام نہیں دیے جیسے ستر پوشی اور اخفائے زینت کے باب میں دیے ہیں۔ کیوں کہ سترپوشی اور اخفائے زینت سے ضروریات زندگی کو پورا کرنے میں کوئی حرج واقع نہیں ہوتا۔ مگر چہرے ا ور ہاتھوں کو دائمًا چھپائے رکھنے سے عورتوں کو اپنی حاجات میں سخت مشکل پیش آ سکتی ہے پس عورتوں کے لیے عام قاعدہ یہ مقرر کیا گیا کہ چہرے پر نقاب یا گھونگٹ ڈالے رہیں اور اس قاعدہ میں الا ما ظھر منھا کے استثنا سے یہ آسانی پیدا کر دی گئی کہ اگر حقیقت میں چہرہ کھولنے کی ضرورت پیش آ جائے تو وہ اسے کھول سکتی ہے، بشرطیکہ نمائشِ حسن مقصود نہ ہو بلکہ رفع ضرورت مدِّنظر ہو پھر دوسری جانب سے فتنہ انگیزی کے جو خطرات تھے ان کا سدباب اس طرح کیا گیا کہ مردوں کو غضِ بصر کا حکم دیا گیا تاکہ اگر کوئی عفت ماب عورت اپنی حاجات کے لیے چہرہ کھولے تو وہ اپنی نظریں نیچی کر لیں اور بے ہودگی کے ساتھ اسے گھورنے سے باز رہیں۔
پردہ داری کے ان احکام پر آپ غورکریں گے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اسلامی پردہ کوئی جاہلی رسم نہیں بلکہ ایک عقلی قانون ہے۔ جاہلی رسم ایک جامد چیز ہوتی ہے۔ جو طریقہ جس صورت سے رائج ہو گیا، کسی حال میں اس کے اندر تغیر نہیں کیا جا سکتا۔ جو چیز چھپا دی گئی وہ بس ہمیشہ کے لیے چھپا دی گئی۔ آپ مرتے مر جائیں مگر اس کا کھلنا غیر ممکن۔ بخلاف اس کے عقلی قانون میں لچک ہوتی ہے۔ اس میں احوال کے لحاظ سے شدت اور تخفیف کی گنجائش ہوتی ہے۔ موقع و محل کے اعتبار سے اس کے عام قواعد میں استثنائی صورتیں رکھی جاتی ہیں۔ ایسے قوانین کی پیروی اندھوں کی طرح نہیں کی جا سکتی۔ اس کے لیے عقل اور تمیز کی ضرورت ہے۔ سمجھ بوجھ رکھنے والا پیرو خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ کہاں اسے عام قاعدے کی پیروی کرنی چاہیے اور کہاں قانون کے نقطہ نظر سے ’’حقیقی ضرورت‘‘ درپیش ہے جس میں استثنائی رخصتوں سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔ پھر وہ خود ہی یہ رائے قائم کر سکتا ہے کہ کس محل پر رخصت سے کس حد تک استفادہ کیا جائے اور استفادہ کی صورت میں مقصد قانون کو کس طرح ملحوظ رکھا جائے۔ ان تمام امور میں دَرحقیقت ایک نیک نیت مومن کا قلب ہی سچا مفتی بن سکتا ہے، جیسا کہ نبی اکرم a نے فرمایا: اِسْتَفْتِ قَلْبَکَ اور دَعْ مَا حَاکَ فیِ صَدْرِکَ (اپنے دل سے فتوٰی طلب کرو اور جو چیز دل میں کھٹکے اسے چھوڑ دو)یہی وجہ ہے کہ اسلام کی صحیح پیروی جہالت اور ناسمجھی کے ساتھ نہیں ہو سکتی۔ یہ عقلی قانون ہے اور اس کی پیروی کے لیے قدم قدم پر شعور اور فہم کی ضرورت ہے۔

شیئر کریں