اعتراض:آپ فرماتے ہیں کہ سُنّت کے محفوظ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وضو، پنج وقتہ نماز، اذان، عیدین کی نمازیں، نکاح وطلاق ووراثت کے قاعدے وغیرہ مسلم معاشرے میں ٹھیک اسی طرح رائج ہیں جس طرح قرآن کی آیتیں زبانوں پر چڑھی ہوں۔ کیا آپ فرمائیں گے کہ نماز اور اذان، نکاح اور طلاق اور وراثت وغیرہ میں تمام امت ایک ہی طریقے پر عمل کر رہی ہے؟‘‘
جواب: نماز اور اذان اور نکاح وطلاق اور وراثت وغیرہ امور کے متعلق جتنی چیزوں پر امت میں اتفاق ہے ان کو ایک طرف جمع کر لیجیے، اور دوسری طرف وہ چیزیں نوٹ کر لیجیے جن میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ اتفاق کس قدر زیادہ ہے اور اختلاف کس قدر کم۔ بنیادی امور قریب قریب سب متفق علیہ ہیں اور اختلاف زیادہ تر جزئیات میں ہے لیکن چوں کہ بحث اتفاقی امور میں نہیں بلکہ ہمیشہ اختلافی امور میں ہوتی ہے، اس لیے بحثوں نے اختلافات کو نمایاں کر دیا ہے جس کی وجہ سے کم علم لوگوں کو یہ غلط فہمی لاحق ہوتی ہے کہ امت میں کوئی چیز بھی متفق علیہ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر نماز ہی کو لے لیجیے۔ تمام دُنیا کے مسلمان ان امور پر پوری طرح متفق ہیں کہ پانچ وقت کی نماز فرض ہے۔ اس کے اوقات یہ ہیں ۔ اس کے لیے جسم اور لباس پاک ہونا چاہیے۔ اس کے لیے باوضو ہونا چاہیے۔ اس کو قبلہ رخ پڑھنا چاہیے۔ اس میں قیام اور رکوع اور سجدہ اور قعود اس ترتیب سے ہونا چاہیے۔ ہر وقت کی اتنی اتنی رکعتیں فرض ہیں۔ نماز کی ابتدا تکبیر تحریمہ سے ہونی چاہیے۔ نماز میں بحالتِ قیام فلاں چیزیں، بحالت رکوع فلاں، بحالتِ سجود فلاں اور بحالتِ قعود فلاں چیزیں پڑھنی چاہییں۔ غرض یہ کہ بحیثیت مجموعی نماز کا پورا بنیادی ڈھانچہ متفق علیہ ہے۔ اختلاف صرف اس طرح کے معاملات میں ہے کہ ہاتھ باندھا جائے یا چھوڑا جائے، باندھا جائے تو سینے پر یا ناف پر، امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھی جائے یا نہیں، سورۂ فاتحہ کے بعد آمین زور سے کہی جائے یا آہستہ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان چھوٹے چھوٹے اختلافات کو بنیاد بنا کر یہ دعوٰی کرنا صحیح ہو گا کہ نماز کے معاملے میں امت سرے سے کسی متفق علیہ طریقہ پر ہے ہی نہیں؟ اذان میں اس کے سوا کوئی اختلاف نہیں کہ شیعہ حَیَّ عَلٰی خَیْرِ الْعَمْلِ کہتے ہیں اور سنی نہیں کہتے۔ باقی اذان کے تمام کلمات اور متعلقہ مسائل بالکل متفق علیہ ہیں۔ کیا اس ذرا سے اختلاف کو اس بات کی دلیل بنایا جا سکتا ہے کہ اذان بجائے خود مختلف فیہ ہے؟