Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
دیباچہ
کچھ جدید اڈیشن کے بارے میں
۱۔ نوعیتِ مسئلہ
۲ ۔عورت مختلف اَدوار میں
۳ ۔دَورِ جدید کا مسلمان
۴۔ نظریات
۵ ۔نتائج
۶ ۔چند اور مثالیں
۷۔ فیصلہ کن سوال
۸ ۔قوانینِ فطرت
۹ ۔انسانی کوتاہیاں
۱۰ ۔اسلامی نظامِ معاشرت
۱۱ ۔پردہ کے احکام
۱۲۔ باہر نکلنے کے قوانین
۱۳۔ خاتمہ

پردہ

  مغربی تہذیب کی برق پاشیوں اور جلوہ سامانیوں نے اہل ِمشرق کی عموماً اور مسلمانوں کی نظروں کو خصوصاً جس طرح خیرہ کیا ہے وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور عریانی نے جس سیل رواں کی شکل اختیار کی ہے اس نے ہماری ملی اور دینی اقدار کو خس و خاشاک کی طرح بہادیا گیا۔ اس کی چمک دمک نے ہمیں کچھ اس طرح مبہوت کردیا کہ ہم یہ بھی تمیز نہ کر سکے کہ اس چمکتی ہوئی شے میں زرِخالص کتنا ہے اور کھوٹ کتنا۔ اس تیز وتند سیلاب کے مقابلہ میں ہم اتنے بے بس ہو کر رہ گئے ہیں کہ ہماری اکثریت نے اپنے آپ کو پوری طرح اس کے حوالے کردیا۔ نیتجتاً ہمارا معاشرہ تلپٹ ہوگیا اور ہمارے خاندانی نظام کا شیرازہ کچھ اس طرح منتشر ہواکہ کوچہ کوچہ ہماری اس تہذیبی خودکشی پر نوحہ کر رہا ہے۔مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ ان با بصیرت اصحاب میں سے ہیں جنھوں نے اس سیلاب بلا خیز کی تباہ کا ریوں کا بروقت اندازہ لگا کر ملت کو اس عظیم خطرے سے متنبہ کیا اور اسے روکنے کے لیے مضبوط بند باندھنے کی کو شش کی۔

”پردہ “ آپ کی انھی کوششوں کی آئینہ دار ہے۔

عصرِ حاضر میں اس موضوع پر اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں ،”پردہ “ان میں ممتاز مقام رکھتی ہے اس کا دل نشین اندازِ بیان، پرزوراستدلال اور حقائق سے لبریز تجزیے اپنے اندروہ کشش رکھتا ہے کہ کٹر سے کٹر مخالف بھی قائل ہوئے بغیر نہیں رہتا۔یہی وجہ ہے کہ پورے عالمِ اسلام میں اس کتاب کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ بہت کم کتابوں کو نصیب ہوئی ہے ۔مشرقِ وسطیٰ میں اس کا عربی ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ یہی حال اس کے اردو اور انگریزی ایڈیشن کا ہے۔

۱۰ ۔اسلامی نظامِ معاشرت

۱۔ اساسی نظریات
یہ بات اسلام کی خصوصیات میں سے ہے کہ وہ اپنے قانون کی حکمت پر بھی خود ہی روشنی ڈالتا ہے۔ معاشرت میں عورت اور مرد کے تعلقات کو منضبط کرنے کے لیے جو قانون اسلام میں پایا جاتا ہے اس کے متعلق خود اسلام ہی نے ہمیں بتا دیا ہے کہ اس قانون کی بنیاد کن اصولِ حکمت اور کن حقائقِ فطرت پر ہے۔
(۱)زوجیت کا اساسی مفہوم
اس سلسلہ میں سب سے پہلی حقیقت جس کی پردہ کشائی کی گئی ہے، یہ ہے:
وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ ( الذٰریٰت49:51)
اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے پیدا کیے۔
اس آیت میں قانون زوجی (law sex) کی ہمہ گیری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ کارگاہِ عالَم کا انجینئر خود اپنی انجینئری کا یہ راز کھول رہا ہے کہ ُاس نے کائنات کی یہ ساری مشین قاعدۂ زوجیت پر بنائی ہے۔ یعنی اس مشین کے تمام کَل پرزے جوڑوں (pairs) کی شکل میں بنائے گئے ہیں اور اس جہانِ خلق میں جتنی کاری گری تم دیکھتے ہو، وہ سب جوڑوں کی تزویج کا کرشمہ ہے۔
اب اس پر غور کیجیے کہ زوجیت کیا شے ہے۔ زوجیت میں اصل یہ ہے کہ ایک شے میں فعل ہو اور دوسری شے میں قبول و انفعال۔ ایک شے میں تاثیر ہو اور دوسری شے میں تاثر۔ ایک شے میں عاقدیت ہو اور دوسری شے میں منعقدیت۔ یہی عقد و انعقاد، فعل و انفعال، تاثیر و تاثر اور فاعلیت و قابلیت کا تعلق دوچیزوں کے درمیان زوجیت کا تعلق ہے۔ اسی تعلق سے تمام ترکیبات واقع ہوتی ہیں۔ اور انھی ترکیبات سے عالمِ خلق کا سارا کارخانہ چلتا ہے۔ کائنات میں جتنی چیزیں ہیں وہ سب اپنے اپنے طبقہ میں زوج زوج اورجوڑ جوڑ پیدا ہوئی ہیں، اور ہر دو زوجین کے درمیان اصلی و اساسی حیثیت سے زوجیت کا یہی تعلق پایا جاتا ہے کہ ایک فعال ہے اور دوسرا قابل و منفعل۔ اگرچہ مخلوقات کے ہر طبقے میں اس تعلق کی کیفیت مختلف ہوتی ہے۔ مثلًا ایک تزویج وہ ہے جو بسائط اور عناصرمیں ہوتی ہے، ایک وہ جو مرکباتِ غیر نامیہ میں ہوتی ہے، ایک وہ جو اجسامِ نامیہ میں ہوتی ہے۔ ایک وہ جو انواع حیوانی میں ہوتی ہے۔ یہ سب تزویجیں اپنی نوعیت، کیفیت اور فطری مقاصد کے لحاظ سے مختلف ہیں لیکن اصل زوجیت ان سب میں وہی ایک ہے۔ ہر نوع میں، خواہ وہ کسی طبقہ کی ہو، فطرت کے اصل مقصد، یعنی وقوعِ ترکیب اور حصولِ ہیئت ترکیبی کے لیے ناگزیر ہے کہ زوجین میں سے ایک میں قوتِ فعل ہو اوردوسرے میں قوتِ انفعال۔
آیت مذکورہ بالا کا یہ مفہوم متعین ہوجانے کے بعد اس سے قانونِ زوجیت کے تین ابتدائی اصول مستنبط ہوتے ہیں۔
۱۔ اللہ تعالیٰ نے جس فارمولے پر تمام کائنات کی تخلیق کی ہے اور جس طریقے کو اپنے کارخانے کے چلنے کا ذریعہ بنایا ہے وہ ہرگز ناپاک اورذلیل نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اپنی اصل کے اعتبار سے وہ پاک اور محترم ہی ہے اور ہونا چاہیے۔ کارخانہ کے مخالف اسے گندہ اور قابلِ نفرت قرار دے کر اس سے اجتناب کر سکتے ہیں، مگر خود کارخانہ کا صانع اور مالک تو یہ کبھی نہ چاہے گا کہ اس کا کارخانہ بند ہو جائے۔ اس کا منشا تو یہی ہے کہ اس کی مشین کے تمام پرزے چلتے رہیں اور اپنے اپنے حصے کا کام پورا کریں۔
۲۔ فعل اور انفعال دونوں اس کارخانے کو چلانے کے لیے یکساں ضرور ہیں۔ فاعل اور منفعل دونوں کا وجود اس کارگاہ میں یکساں اہمیت رکھتا ہے۔ نہ فاعل کی حیثیت فعلی میں کوئی عزت ہے اور نہ منفعل کی حیثیتِ انفعالی میں کوئی ذلت۔ فاعل کا کمال یہی ہے کہ اس میں قوتِ فعل اور کیفیاتِ فاعلیہ پائی جائیں تاکہ وہ زوجیت کے فعلی پہلو کا کام بخوبی ادا کر سکے اور منفعل کا کمال یہی ہے کہ اس میں انفعال اور کیفیتِ انفعالیہ بدرجہ اتم موجود ہوں تاکہ وہ زوجیت کے انفعالی اور قبولی پہلو کی خدمت باحسن وجوہ بجا لا سکے۔ ایک معمولی مشین کے پرزے کو بھی اگرکوئی شخص اس کے اصلی مقام سے ہٹا دے اور اس سے وہ کام لینا چاہے جس کے لیے وہ دراصل بنایا ہی نہیں گیا ہے، تو و ہ احمق اور اناڑی سمجھا جائے گا۔ اول تو اپنی اس کوشش میں اسے کام یابی ہی نہ ہو گی، اور اگر وہ بہت زور لگائے تو بس اتنا کر سکے گا کہ مشین کو توڑ دے۔ ایسا ہی حال اس کائنات کی عظیم الشان مشین کا بھی ہے۔ جو احمق اور اناڑی ہیں وہ اس کے زوج فاعل کو زوج منفعل کی جگہ یا زوج منفعل کو زوج فاعل کی جگہ رکھنے کا خیال کر سکتے ہیں اور اس کی کوشش کرکے اور اس میں کام یابی کی امید رکھ کر مزید حماقت کا ثبوت بھی دے سکتے ہیں مگر اس مشین کا صانع تو ہرگز ایسا نہ کرے گا۔ وہ تو فاعل پرزے کو فعل ہی کی جگہ رکھے گا اور اسی حیثیت سے اس کی تربیت کرے گا اور منفعل پرزے کو انفعال ہی کی جگہ رکھے گا اور اس میں انفعالی استعداد ہی پرورش کرنے کا انتظام کرے گا۔
۳۔ فعل اپنی ذات میں قبول و انفعال پر بہرحال ایک طرح کی فضیلت رکھتا ہے۔ یہ فضیلت اس معنی میں نہیں ہے کہ فعل میں عزت ہو اور انفعال اس کے مقابلے میں ذلیل ہو بلکہ فضیلت دراصل غلبہ، قوت اور اثر کے معنی میں ہے جو شے کسی دوسری شے پر فعل کرتی ہے وہ اسی وجہ سے تو کرتی ہے کہ وہ اس پر غالب ہے، اس کے مقابلے میں طاقت وَر ہے، اور اس پر اثر کرنے کی قوت رکھتی ہے اور جو شے اس کے فعل کو قبول کرتی ہے اور اس سے منفعل ہوتی ہے اس کے قبول و انفعال کی وجہ یہی تو ہے کہ وہ مغلوب ہے، اس کے مقابلے میں کم زور ہے اورمتاثر ہونے کی استعداد رکھتی ہے۔ جس طرح وقوع فعل کے لیے فاعل اور منفعل دونوں کا وجود یکساں ضروری ہے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ فاعل میں غلبہ اور قوتِ تاثیر ہو اور منفعل میں مغلوبیت اور قبولِ اثر کی استعداد۔ کیوں کہ اگر دونوں قوت میں یکساں ہوں اور کسی کو کسی پر غلبہ حاصل نہ ہو تو ان میں کوئی کسی کا اثر قبول نہ کرے گا اور سرے سے فعل واقع ہی نہ ہو گا۔ اگر کپڑے میں بھی وہی سختی ہو جو سوئی میں ہے تو سینے کا فعل پورا نہیں ہو سکتا۔ اگر زمین میں نرمی نہ ہو جس کی وجہ سے کدال اور ہل کا غلبہ قبول کرتی ہے تو زراعت اور تعمیر ناممکن ہو جائے، غرض دنیا میں جتنے افعال واقع ہوتے ہیں ان میں سے کوئی بھی واقع نہیں ہو سکتا اگر ایک فاعل کے مقابلہ میں ایک منفعل نہ ہو اور منفعل میں فاعل کے اثر سے مغلوب ہونے کی صلاحیت نہ ہو۔ پس زوجین میں سے زوجِ فاعل کی طبیعت کا اقتضا یہی ہے کہ اس میں غلبہ، شدت اور تحکم ہو جسے مردانگی اور رجولیت سے تعبیر کیا جاتا ہے، کیوں کہ فعلی پرزے کی حیثیت سے اپنی خدمت بجا لانے کے لیے اس کا ایسا ہی ہونا ضروری ہے۔ اس کے برعکس زوج منفعل کی فطرتِ انفعالیہ کا یہی تقاضا ہے کہ اس میں نرمی ونزاکت، لطافت اور تاثر ہو جسے انوثت یا نسائیت کہا جاتا ہے، کیوں کہ زوجیت کے انفعالی پہلو میں یہی صفات اسے کام یاب بنا سکتی ہیں۔ جو لوگ اس رازکو نہیں جانتے وہ یا تو فاعل کی ذاتی فضیلت کو عزت کا ہم معنی سمجھ کر منفعل کو بالذات ذلیل قرار دے بیٹھے ہیں، یا پھر سرے سے اس فضیلت کا انکار کرکے منفعل میں بھی وہی صفات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو فاعل میں ہونا چاہییں۔ لیکن جس انجینئر نے ان دونوں پرزوں کو بنایا ہے وہ انھیں مشین میں اس طور پر نصب کرتا ہے کہ عزت میں دونوں یکساں، اور تربیت و غایت میں دونوں برابر، مگر فعل و انفعال کی طبیعت جس غالبیت اور مغلوبیت کی مقتضی ہے وہی ان میں پیدا ہو، تاکہ وہ تزویج کے منشا کو پورا کر سکیں، نہ کہ یہ دونوں ایسے پتھر بن جائیں جو ٹکرا تو سکتے ہیں مگر آپس میں کوئی امتزاج اور کوئی ترکیب قبول نہیں کر سکتے۔
یہ وہ اصول ہیں جو زوجیت کے ابتدائی مفہوم ہی سے حاصل ہوتے ہیں۔ محض ایک مادی وجود ہونے کی حیثیت سے عورت اور مرد کا زوج زوج ہونا ہی اس کا مقتضی ہے کہ ان کے تعلقات میں یہ اصولِ مرعی رکھے جائیں۔ چنانچہ آگے چل کر آپ کو معلوم ہو گا کہ فاطر السموات والارض نے جو قانون معاشرت بنایا ہے اس میں ان تینوں کی پوری رعایت کی گئی ہے۔
(۲) انسان کی حیوانی فطرت اور اس کے مقتضیات
اب ایک قدم اور آگے بڑھیے، عورت اور مردکا وجود محض ایک مادی وجود ہی نہیں ہے بلکہ وہ ایک حیوانی وجود بھی ہے۔ اس حیثیت سے ان کا زوج ہونا کس چیز کا مقتضی ہے؟ قرآن کہتا ہے۔
جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا وَّمِنَ الْاَنْعَامِ اَزْوَاجًا۝۰ۚ يَذْرَؤُكُمْ فِيْہِ۝۰ۭ
(الشوریٰ 11:42)
اللہ نے تمھارے لیے خود تمھی میں سے جوڑے بنائے اور جانوروں میں سے بھی جوڑے بنائے۔ اس طریقہ سے وہ تمھیں روئے زمین پر پھیلاتا ہے۔
نِسَاۗؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ۝۰۠ (البقرہ 223:2)
تمھاری عورتیں تمھاری کھیتیاں ہیں۔
پہلی آیت میں انسان اور حیوان دونوں کے جوڑے بنانے کا ایک ساتھ ذکر کیا گیا ہے اور اس کا مشترک مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ ان کے زوجی تعلق سے تناسل کا سلسلہ جاری ہو۔
دوسری آیت میں انسان کو عام حیوانات سے الگ کرکے یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ انواعِ حیوانات میں سے اس خاص نوع کے زوجین میں کھیتی اور کسان کا سا تعلق ہے۔ یہ ایک حیاتیاتی حقیقت (biological fact) ہے۔ حیاتیات کے نقطہ نظر سے بہترین تشبیہ جو عورت اور مرد کو دی جا سکتی ہے ۔ وہ یہی ہے۔
ان دونوں آیتوں سے تین مزید اُصول حاصل ہوتے ہیں:
(۱) اللہ تعالیٰ نے تمام حیوانات کی طرح انسان کے جوڑے بھی اس مقصد کے لیے بنائے کہ ان کے صنفی تعلق سے انسانی نسل جاری ہو۔ یہ انسان کی حیوانی فطرت کا مقتضا ہے جس کی رعایت ضروری ہے۔ خدا نے نوعِ انسانی کو اس لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ اس کے چند افراد زمین پر اپنے نفس کی پرورش کریں اور بس ختم ہو جائیں۔ بلکہ اس کا ارادہ ایک اجل معین تک اس نوع کو باقی رکھنے کا ہے، اور اس نے انسان کی حیوانی فطرت میں صنفی میلان اسی لیے رکھا ہے کہ اس کے زوجین باہم ملیں اور خدا کی زمین کو آباد رکھنے کے لیے اپنی نسل جاری کریں۔ پس جو قانون خدا کی طرف سے ہو گا وہ کبھی صنفی میلان کو کچلنے اور فنا کرنے والا نہیں ہو سکتا۔ اس سے نفرت اور کلی اجتناب کی تعلیم دینے والا نہیں ہو سکتا، بلکہ اس میں لازمًا ایسی گنجائش رکھی جائے گی کہ انسان اپنی فطرت کے اس اقتضا کو پورا کر سکے۔
(۲) عورت اور مرد کو کھیتی اور کسان سے تشبیہ دے کر بتایا گیا ہے کہ انسانی زوجین کا تعلق دوسرے حیوانات کے زوجین سے مختلف ہے۔ انسانی حیثیت سے قطع نظر، حیوانی اعتبار سے بھی ان دونوں کی ترکیبِ جسمانی اس طور پر رکھی گئی ہے کہ ان کے تعلق میں وہ پائداری ہونی چاہیے جو کسان اور اس کے کھیت میں ہوتی ہے۔ جس طرح کھیتی میں کسان کا کام محض بیج پھینک دینا ہی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ اسے پانی دے، کھاد مہیا کرے اور اس کی حفاظت کرتا رہے، اسی طرح عورت بھی وہ زمین نہیں ہے جس میں ایک جانور چلتے پھرتے کوئی بیج پھینک جائے اور وہ ایک خود رو درخت اُگا دے، بلکہ جب وہ بارآورہوتی ہے تو درحقیقت اس کی محتاج ہوتی ہے کہ اس کا کسان اس کی پرورش اور اس کی رکھوالی کا پورا بار سنبھالے۔
(۳) انسان کے زوجین میں جو صنفی کشش ہے وہ حیاتیاتی حیثیت سے (biologically) اسی نوعیت کی ہے جو دوسری انواعِ حیوانی میں پائی جاتی ہے۔ ایک صنف کا ہر فرد صنف مقابل کے ہر فرد کی طرف حیوانی میلان رکھتا ہے اور تناسل کا زبردست داعیہ، جو ان کی سرشت میں رکھا گیا ہے، دونوں صنفوں کے ان تمام افراد کو ایک دوسرے کی طرف کھینچتا ہے، جن میں تناسل کی حیثیت بالفعل موجود ہو۔ پس فاطر کائنات کا بنایا ہوا قانون انسان کی حیوانی فطرت کے اس کم زور پہلو سے بے پروا نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس میں صنفی انتشار (sexul anarchy) کی طرف … شدید میلان چھپا ہوا ہے جو تحفظ کی خاص تدابیر کے بغیر قابو میںنہیں رکھا جا سکتا، اور ایک مرتبہ اگر وہ بے قابو ہو جائے تو انسان کو پورا حیوان بلکہ حیوانات میں بھی سب سے ارذل بن جانے سے کوئی چیز نہیں روک سکتی۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍo ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَo
(التین95:5- 4)
ہم نے انسان کو بہت ہی اچھی صورت میں پیدا کیا۔ پھر (رفتہ رفتہ) اس (کی حالت) کو (بدل کر) پست سے پست کر دیا مگر جو لوگ ایمان لائے اورنیک عمل کرتے رہے۔
(۳) فطرتِ انسانی اور اس کے مقتضیات
جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، طبیعتِ حیوانیہ، خلقت انسانی کی تہ میں زمین اور بنیاد کے طور پر ہے، اور اسی زمین پر انسانیت کی عمارت قائم کی گئی ہے۔ انسان کے انفرادی وجود اور اس کی نوعی ہستی، دونوں کو باقی رکھنے کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے ان میں سے ہر ایک کی خواہش اور ہر ایک کے حصول کی استعداد اللہ تعالیٰ نے اس کی حیوانی سرشت میں رکھ دی ہے اور فطرتِ الٰہی کا منشا یہ ہرگز نہیں ہے کہ ان خواہشات میں سے کسی خواہش کو پورا نہ ہونے دیا جائے یا ان استعدادات میں سے کسی استعداد کو فنا کر دیا جائے، کیوں کہ یہ سب چیزیں بھی بہرحال ضروری ہیں اور ان کے بغیر انسان اور اس کی نوع زندہ نہیں رہ سکتی۔ البتہ فطرتِ حق یہ چاہتی ہے کہ انسان اپنی ان خواہشات کو پورا کرنے اور ان استعدادات سے کام لینے میں نرا حیوانی طریقہ اختیار نہ کرے بلکہ اس کی انسانی سرشت جن امور کی مقتضی ہے اور اس میں جن فوق الحیوانی امور کی طلب رکھی ہے، ان کے لحاظ سے اس کا طریقہ انسانی ہونا چاہیے۔ اسی غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے حدودِ شرعی مقرر فرمائی ہیں تاکہ انسان کے افعال کو ایک ضابطہ کا پابند بنایا جائے۔ اس کے ساتھ یہ تنبیہ بھی کر دی گئی ہے کہ اگر افراط یا تفریط کا طریقہ اختیار کرکے ان حدود سے تجاوز کرو گے تو اپنے آپ کو خود تباہ کر لو گے۔
وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ۝۰ۭ (الطلاق 1:65)
جس نے اللہ کی حدود سے تجاوز کیا پس اس نے اپنی ہی جان پر ظلم کیا۔
اب دیکھیے کہ صنفی معاملات میں قرآن مجید انسانی فطرت کی کن خصوصیات اور کن مقتضیات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
۱۔ دونوں صنفوں کے درمیان جس قسم کا تعلق انسانی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے، اس کی تشریح یہ ہے:

خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْہَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً۝۰ۭ
(الروم 21:30)
اللہ نے تمھارے لیے خود تمھی میں سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو، اور اس نے تمھارے درمیان مودّت اور رحمت رکھ دی ہے۔
ھُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ۝۰ۭ (البقرہ 187:2)
وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔
اس سے پہلے جس آیت میں انسان اور حیوان دونوں کے جوڑے بنانے کا ذکر ایک ساتھ کیا گیا وہاں تخلیقِ زوجین کا مقصد صرف بقائے نسل بتایا گیا تھا۔ اب حیوان سے الگ کرکے انسان کی یہ خصوصیت بتائی گئی ہے کہ اس میں زوجیت کا ایک بالاتر مقصد بھی ہے اور وہ یہ کہ ان کا تعلق محض شہوانی تعلق نہ ہو بلکہ محبت اور انس کا تعلق ہو، دل کے لگائو اور روحوں کے اتصال کا تعلق ہو، وہ ایک دوسرے کے راز دار اور شریکِ رنج و راحت ہوں، ان کے درمیان ایسی معیت اور دائمی وابستگی ہو جیسی لباس اور جسم میں ہوتی ہے۔ دونوں صنفوں کا یہی تعلق انسانی تمدن کی عمارت کا سنگِ بنیاد ہے جیسا کہ ہم بتفصیل بیان کر چکے ہیں۔ اس کے ساتھ لِتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا سے اس طرف بھی اشارہ کر دیا گیا کہ عورت کی ذات میں مرد کے لیے سرمایۂ سکون و راحت ہے، اور عورت کی فطری خدمت یہی ہے کہ وہ اس جدوجہد اور ہنگامہ عمل کی مشقتوں بھری دنیا میں سکون و راحت کا ایک گوشتہ مہیا کرے۔ یہ انسان کی خانگی زندگی ہے، جس کی اہمیت کو مادی منفعتوں کی خاطر اہلِ مغرب نے نظر انداز کر دیا ہے۔ حالانکہ تمدن و عمران کے شعبوں میں جو اہمیت دوسرے شعبوں کی ہے وہی اس شعبے کی بھی ہے اور تمدنی زندگی کے لیے یہ بھی اتنا ضروری ہے جتنے دوسرے شعبے ضروری ہیں۔
۲۔ یہ صنفی تعلق صرف زوجین کی باہمی محبت ہی کا مقتضی نہیں ہے بلکہ اس امر کا بھی مقتضی ہے کہ اس تعلق سے جو اولاد پیدا ہو اس کے ساتھ بھی ایک گہرا روحانی تعلق ہو۔ فطرتِ الٰہی نے اس کے لیے انسان کی اور خصوصًا عورت کی جسمانی ساخت اور حمل و رضاعت کی طبعی صورت ہی میں ایسا انتظام کر دیا ہے کہ اس کی رگ رگ اور ریشے ریشے میں اولاد کی محبت پیوست ہو جاتی ہے، چنانچہ قرآن مجید کہتا ہے:
حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَہْنًا عَلٰي وَہْنٍ وَّفِصٰلُہٗ فِيْ عَامَيْنِ (لقمان 14:31)
اس کی ماں نے اسے جھٹکے پر جھٹکے اٹھا کر پیٹ میں رکھا۔ پھر وہ دو سال کے بعد ماں کی چھاتی سے جدا ہوا۔
حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ كُرْہًا وَّوَضَعَتْہُ كُرْہًا۝۰ۭ وَحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَہْرًا۝۰ۭ (الاحقاف 15:46)
اس کی ماں نے اسے تکلیف کے ساتھ پیٹ میں رکھا، تکلیف کے ساتھ جنا اور اس کے حمل اور دودھ چھٹائی میں تیس مہینے صرف ہوئے۔
ایسا ہی حال مرد کا ہے، اگرچہ اولاد کی محبت میں وہ عورت سے کم تر ہے:
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَاۗءِ وَالْبَنِيْنَ (آل عمران 14:3)
لوگوں کے لیے خوش آیند ہے۔ مرغوب چیزوں کی محبت، جیسے عورتیں، اولاد اور…
یہی فطری محبت انسان اور انسا ن کے درمیان نسبی اور صِہری رشتے قائم کرتی ہے، پھر ان رشتوں سے خاندان اور خاندانوں سے قبائل اور قومیں بنتی ہیں، اور ان کے تعلقات سے تمدن وجود میں آتا ہے۔
وَہُوَالَّذِيْ خَلَقَ مِنَ الْمَاۗءِ بَشَرًا فَجَعَلَہٗ نَسَبًا وَّصِہْرًا۝۰ۭ ( الفرقان 54:25)
اور وہ خدا ہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا پھر اسے نسب اور شادی بیاہ کا رشتہ بنایا۔
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا۝۰ۭ ( الحجرات 13:49)
لوگو! ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا، پھر تمھاری، قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔
پس اَرحام، اَنساب اور مصاہرت کے رشتے دراصل انسانی تمدن کے ابتدائی اور طبعی موسسات ہیں اور ان کے قیام کا انحصار اس پر ہے کہ اولاد اپنے معلوم و معروف ماں باپ سے ہو اور انساب محفوظ ہوں۔
۳۔ انسانی فطرت کا اقتضا یہ بھی ہے کہ وہ اپنی محنتوں کے نتائج اور اپنی گاڑھی کمائی میں سے اگر کچھ چھوڑے تو اپنی اولاد اور اپنے عزیزوں کے لیے چھوڑے جن کے ساتھ وہ تمام عمر خونی اور رحمی رشتوں میں بندھا رہا ہے۔
وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللہِ۝۰ۭ (الانفال 75:8)
اور اللہ کے قانون میں رشتہ دار ایک دوسرے کی وراثت کے زیادہ حق دار ہیں۔
وَمَا جَعَلَ اَدْعِيَاۗءَكُمْ اَبْنَاۗءَكُمْ۝۰ۭ ( الاحزاب 4:33)
جنھیں تم منہ بولا بیٹا بنا لیتے ہو، انھیں خدا نے تمھارا بیٹا نہیں بنایا ہے۔
پس تقسیمِ میراث کے لیے بھی تحفظِ انساب کی ضرورت ہے۔
۴۔ انسان کی فطرت میں حیا کا جذبہ ایک فطری جذبہ ہے۔ اس کے جسم کے بعض حصے ایسے بھی ہیں جن کے چھپانے کی خواہش خدا نے اس کی جبلت میں پیدا کی ہے۔ یہی جبلی خواہش ہے جس نے ابتدا سے انسان کو کسی نہ کسی نوع کا لباس اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے۔ اس باب میں قرآن قطعیت کے ساتھ جدید نظریہ کی تردید کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انسانی جسم کے جن حصوں میں مرد اور عورت کے لیے صنفی جاذبیت ہے۔ ان کے اظہار میں شرم کرنا اور انھیں چھپانے کی کوشش کرنا انسانی فطرت کا اقتضا ہے۔ البتہ شیطان یہ چاہتا ہے کہ وہ انھیں کھول دے۔
فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّيْطٰنُ لِيُبْدِيَ لَہُمَا مَا وٗرِيَ عَنْہُمَا مِنْ سَوْاٰتِہِمَا (الاعراف 20:7)
پھر شیطان نے آدم اور ان کی بیوی کو بہکایا تاکہ ان کے جسم میں سے جو ان سے چھپایا گیا تھا اسے ان پر ظاہر کر دے۔
فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَۃَ بَدَتْ لَہُمَا سَوْاٰتُہُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْہِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّۃِ۝۰ۭ ( الاعراف 22:7)
پس جب انھوں نے اس شجر کو چکھا تو ان پر ان کے جسم کے پوشیدہ حصے کھل گئے اور وہ انھیں جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے۔
پھر قرآن کہتا ہے کہ اللہ نے لباس اسی لیے اتارا ہے کہ وہ تمھارے لیے ستر پوشی کا ذریعہ بھی ہو اور زینت کا ذریعہ بھی۔ مگر محض ستر چھپا لینا کافی نہیں۔ اس کے ساتھ ضروری ہے کہ تمھارے دلوں میں تقوٰی بھی ہو۔
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا۝۰ۭ وَلِبَاسُ التَّقْوٰى۝۰ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ۝۰ۭ ( الاعراف 26:7)
اے اولادِ آدمؑ! ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمھارے جسم کے قابلِ شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمھارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو اور بہترین لباس تقوٰی کا لباس ہے۔
یہ اسلامی نظامِ معاشرت کے اساسی تصورات ہیں۔ ان تصورات کو ذہن نشین کرنے کے بعد اب اس نظامِ معاشرت کی تفصیلی صورت ملاحظہ کیجیے جو ان تصورات کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے۔ اب مطالعہ کے دوران میں آپ کو گہری نظر سے اس امرکا تجسس کرنا چاہیے کہ اسلام جن نظریات کو اپنے قانون کی اساس قرار دیتا ہے انھیں عملی جزئیات و تفصیلات میں نافذ کرتے ہوئے کہاں تک یکسانی و ہمواری اور منطقی ربط و مطابقت قائم رکھتا ہے۔ انسان کے بنائے ہوئے جتنے قوانین ہم نے دیکھے ہیں ان سب کی یہ مشترک اور نمایاں کم زوری ہے کہ ان کے اساسی نظریات اور عملی تفصیلات کے درمیان پورا منطقی ربط قائم نہیں رہتا۔ اصول اور فروغ میں صریح تناقض پایا جاتا ہے۔ کلیات جو بیان کیے جاتے ہیں ان کا مزاج کچھ اور ہوتا ہے اور عمل درآمد کے لیے جو جزئیات مقرر کیے جاتے ہیں ان کا مزاج کوئی اور صورت اختیار کر لیتا ہے۔ فکر و تعقل کے آسمانوں پر چڑھ کر ایک نظریہ پیش کر دیا جاتا ہے، مگر جب عالمِ بالا سے اُتر کر واقعات اور عمل کی دنیا میں آدمی اپنے نظریہ عمل کو جامہ پہنانے کی کوشش کرتا ہے تو یہاں عملی مسائل میں وہ کچھ ایسا کھویا جاتا ہے کہ اسے خود اپنا نظریہ یاد نہیں رہتا۔ انسانی ساخت کے قوانین میں سے کوئی ایک قانون بھی اس کم زوری سے خالی نہیں پایا گیا۔ اب آپ دیکھیں، اور خردبین لگا کر انتہائی نکتہ چینی کی نگاہ سے دیکھیں کہ یہ قانون جو ریگستان عرب کے ایک ان پڑھ انسان نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، جس کے مرتب کرنے میں اس نے کسی مجلسِ قانون ساز اور کسی سلکٹ کمیٹی سے مشورہ تک نہیں لیا، اس میں بھی کہیں کوئی منطقی بے ربطی اور کسی تناقص کی جھلک پائی جاتی ہے؟
۲۔ اُصول و ارکان
تنظیم معاشرت کے سلسلہ میں سب سے اہم سوال، جیسا کہ ہم کسی دوسرے موقع پر بیان کر چکے ہیں، صنفی میلان کو انتشارِ عمل سے روک کر ایک ضابطہ میں لانے کا ہے۔ کیوں کہ اس کے بغیر تمدن کی شیرازہ بندی ہی نہیں ہو سکتی اور اگر ہو بھی جائے تو اس شیرازہ کو بکھرنے اور انسان کو شدید اخلاقی و ذہنی انحطاط سے بچانے کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ اس غرض کے لیے اسلام نے عورت اور مرد کے تعلقات کو مختلف حدود کا پابند کرکے ایک مرکز پر سمیٹ دیا ہے۔
(۱)محرمات
سب سے پہلے اسلامی قانون اُن تمام مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کے لیے حرام کرتا ہے جو باہم مل کر رہنے یا نہایت قریبی تعلقات رکھنے پر مجبور ہیں۔ مثلاً ماں اور بیٹا، باپ اور بیٹی، بھائی اور بہن، پھوپھی اور بھتیجا، چچا اور بھتیجی، خالہ اور بھانجا، ماموں اور بھانجی، سوتیلا باپ اور بیٹی، سوتیلی ماں اور بیٹا، ساس اور داماد، خسر اور بہو، سالی اور بہنوئی (بہن کی زندگی میں) اور رضاعی رشتہ دار (سورہ نساء:۲۳۔۲۴) ان تعلقات کی حرمت قائم کرکے انھیں صنفی میلان سے اس قدر پاک کر دیا گیا ہے کہ ان رشتوں کے مرد اور عورت یہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ وہ ایک دوسرے کی جانب کوئی صنفی کشش رکھتے ہیں۔ (بجز ایسے خبیث بہائم کے جن کی بہیمیت کسی اخلاقی ضابطہ کی حد میں رہنا قبول نہیں کرتی)۔
(۲)حرمتِ زِنا
اس حد بندی کے بعد دوسری قید یہ لگائی گئی کہ ایسی تمام عورتیں بھی حرام ہیں جو بالفعل کسی دوسرے کے نکاح میں ہوں۔
وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَاۗءِ (النسا 24:4)
ان کے بعد جو عورتیں باقی بچتی ہیں ان کے ساتھ ہر قسم کے بے ضابطہ صنفی تعلق کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّہٗ كَانَ فَاحِشَۃً۝۰ۭ وَسَاۗءَ سَبِيْلًاo ( بنی اسرائیل 32:17)
زناکے پاس بھی نہ پھٹکو، کیوں کہ وہ بے حیائی ہے اور بہت بُرا راستہ ہے۔
(۳) نکاح
اس طرح حدود و قیود لگا کر صنفی انتشار کے تمام راستے بند کر دیے گئے مگر انسان کی حیوانی سرشت کے اقتضا اور کارخانہ قدرت کے مقررہ طریقہ کو جاری رکھنے کے لیے ایک دروازہ کھولنا بھی ضرور تھا۔ سو وہ دروازہ نکاح کی صورت میں کھولا گیا اور کہہ دیا گیا کہ اس ضرورت کو تم پورا کرو۔ مگر منتشر اور بے ضابطہ تعلقات میں نہیں، چوری چھپے بھی نہیں، کھلے بندوں بے حیائی کے طریقہ پر بھی نہیں، بلکہ باقاعدہ اعلان و اظہار کے ساتھ، تاکہ تمھاری سوسائٹی میں یہ بات معلوم اور مسلم ہو جائے کہ فلاں مرد اور عورت ایک دوسرے کے ہو چکے ہیں۔
وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَاۗءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ۝۰ۭ o فَانْكِحُوْھُنَّ بِـاِذْنِ اَھْلِہِنَّ…….مُحْصَنٰتٍ غَيْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّلَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ۝۰ۚ
(النسائ 24-25:4)
ان عورتوں کے سوا جوعورتیں ہیں تمھارے لیے حلال کیا گیا کہ تم اپنے اموال کے بدلہ میں (مہر دے کر) ان سے احصان (نکاح) کا باضابطہ تعلق قائم کرو نہ کہ آزاد شہوت رانی کا… پس ان عورتوں کے متعلقین کی رضا مندی سے ان کے ساتھ نکاح کرو… اس طرح کہ وہ قیدِ نکاح میں ہوں نہ یہ کہ کھلے بندوں یا چوری چھپے آشنائی کرنے والیاں۔‘‘
یہاں اسلام کی شانِ اعتدال دیکھیے کہ جو صنفی تعلق دائرہ ازدواج کے باہر حرام اور قابلِ نفرت تھا وہی دائرۂ ازدواج کے اندر نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ہے، کارِ ثواب ہے، اسے اختیارکرنے کا حکم دیا جاتا ہے، اس سے اجتناب کرنے کو ناپسند کیا جاتا ہے اور زوجین کا ایسا تعلق ایک عبادت بن جاتا ہے۔ حتّٰی کہ اگر عورت اپنے شوہر کی جائز خواہش سے بچنے کے لیے نفل روزہ رکھ لے یا نمازو تلاوت میں مشغول ہو جائے تو وہ الٹی گناہ گار ہو گی۔ اس باب میں نبی اکرم a کے چند حکیمانہ اقوال ملاحظہ ہوں:
عَلَیْکُمْ بِالْبَئَۃِ فَاِنَّہُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَ أَحْصَنُ لِلْفَرَجِ فَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ الْبَائَۃَ فَعَلَیْہِ بِالصَّوْمِ وَإِنَّ الصَّوْمَ لَہُ وِجَائٌ۔
(سنن الترمذی، ابواب النکاح، باب ما جائ فی فضل الترویج، حدیث: ۱۰۰۱)
تمھیں نکاح کرنا چاہیے کیوں کہ وہ آنکھوں کو بد نظری سے روکنے اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے کی بہترین تدبیر ہے اور تم میں سے جو شخص نکاح کی قدرت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھے کیوں کہ روزہ شہوت کو دبانے والا ہے۔
وَاللّٰہِ اِنّیِ لَاَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَاَتْقَاکُمْ لَہُ لٰکِنّیِ اَصُوْمُ وَاُفْطِرُ وَاُصَلِّی وَاَرْقُدُ وَاَتَزَوَّجُ النِّسَائَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ۔
(صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح، حدیث ۴۶۷۵)
بخدا میں خدا سے ڈرنے اور اس کی ناراضی سے بچنے میں تم سب سے بڑھ کر ہوں، مگر مجھے دیکھو کہ روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں اور راتوں کو سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، یہ میرا طریقہ ہے اور جو میرے طریقہ سے اجتناب کرے اس کا مجھ سے کوئی واسطہ نہیں۔
لَاتَصُوْمُ الْمَرْأۃُ وَبَعْلُھَا شَاھِدٌ اِلاَّ بِاِذْنِہِ۔
(صحیح البخاری،کتاب النکاح، باب صوم المراۃ باذن زوجہا تطوعا، حدیث: ۴۷۹۳)
عورت اپنے شوہر کی موجودگی میں اس کے اذن کے بغیر نفل روزہ نہ رکھے۔
إِذَابَاتَتْ الْمَرْ أَۃُ مُھَاجِرَۃٌ فِرَاشَ زَوْجِھَا لَعَنتْھَا الْمَلَائِکۃُ حَتّٰی تَرْجِعَ۔
(صحیح بخاری، کتاب النکاح باب اذا باتت المرأۃ مھاجرۃ فراش زوجھا، حدیث: ۴۷۹۵)
جو عورت اپنے شوہر سے اجتناب کرکے اس سے الگ رات گزارے، اس پر ملائکہ لعنت بھیجتے ہیں جب تک کہ وہ رجوع نہ کرے۔
إِذَا رَأی اَحَدُکُمْ إِمْرَأۃً فَاَعْجَبَتْہُ فَلْیَأْتِ أَھْلَہُ فَإِنَّ مَعَھَا مِثْلَ الَّذِی مَعَھَا۔
(سنن ترمذی کتاب الرضاع، باب ماجاء الرجل یری المراۃ فتعجبہ، حدیث ۱۰۷۸)
جب تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کو دیکھ لے اور اس کے حسن سے متاثر ہو تو اپنی بیوی کے پاس چلا جائے کیوں کہ اس کے پاس وہی ہے جو اس کے پاس تھا۔
ان تمام احکامات و ہدایات سے شریعت کا منشا یہ ہے کہ صنفی انتشار کے تمام دروازے مسدود کیے جائیں، زوجی تعلقات کو دائرہ ازدواج کے اندرمحدود کیا جائے، اس دائرہ کے باہر جس حد تک ممکن ہو کسی قسم کی صنفی تحریکات نہ ہوں اور جو تحریکات خود طبیعت کے اقتضا یا اتفاقی حوادث سے پیدا ہوں ان کی تسکین کے لیے ایک مرکز بنا دیا جائے۔ عورت کے لیے اس کا شوہر اور مرد کے لیے اس کی بیوی…… تاکہ انسان تمام غیر طبعی اور خود ساختہ ہیجانات اور انتشار عمل سے بچ کر اپنی مجتمع قوت (conservated energy) کے ساتھ نظامِ تمدن کی خدمت کرے اور وہ صنفی محبت اور کشش کا مادہ جو اللہ تعالیٰ نے اس کارخانہ کو چلانے کے لیے ہر مرد و عورت میں پیدا کیا ہے، تمام تر ایک خاندان کی تخلیق اور اس کے استحکام میں صرف ہو۔ ازدواج ہر حیثیت سے پسندیدہ ہے، کیوں کہ وہ فطرتِ انسانی اور فطرتِ حیوانی دونوں کے منشا اور قانونِ الٰہی کے مقصد کو پورا کرتا ہے اور ترکِ ازدواج ہر حیثیت سے ناپسندیدہ، کیوں کہ وہ دو برائیوں میں سے ایک برائی کا حامل ضرور ہو گا یا تو انسان قانونِ فطرت کے منشا کو پورا ہی نہ کرے گا اور اپنی قوتوں کو فطرت سے لڑنے میں ضائع کر دے گا یا پھر وہ اقتضائے طبیعت سے مجبور ہو کر غلط اور ناجائز طریقوں سے اپنی خواہشات کو پورا کرے گا۔
(۴)خاندان کی تنظیم
صنفی میلان کو خاندان کی تخلیق اور اس کے استحکام کا ذریعہ بنانے کے بعد اسلام خاندان کی تنظیم کرتا ہے اور یہا ں بھی وہ پورے توازن کے ساتھ قانونِ فطرت کے ان تمام پہلوئوں کی رعایت ملحوظ رکھتا ہے جس کا ذکر اس سے پہلے کیا جا چکا ہے۔ عورت اور مرد کے حقوق متعین کرنے میں جس درجہ عدل و انصاف اس نے ملحوظ رکھا ہے، اس کی تفصیلات مَیں نے ایک الگ کتاب میں بیان کی ہیں جو ’’حقوق الزوجین‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے اس کی طرف مراجعت کرنے سے آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ دونوں صنفوں میں جس حد تک مساوات قائم کی جا سکتی تھی وہ اسلام نے قائم کر دی ہے۔ لیکن اسلام اُس مساوات کا قائل نہیں ہے جو قانونِ فطرت کے خلاف ہو۔ انسان ہونے کی حیثیت سے جیسے حقوق مرد کے ہیں ویسے ہی عورت کے ہیں۔
لَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ ۔ (البقرہ۲: ۲۲۸)
لیکن زوج فاعل ہونے کی حیثیت سے ذاتی فضیلت (بمعنی عزت نہیں بلکہ بمعنی غلبہ تقدم) مرد کو حاصل ہے، وہ اس نے پورے انصاف کے ساتھ مرد کو عطا کی ہے۔
وَلِلرِّجَالِ عَلَيْہِنَّ دَرَجَۃٌ۝۰ۭ (البقرہ 228:2)
اس طرح عورت اور مرد میں فاضل اور مفضول کا فطری تعلق تسلیم کرکے اسلام نے خاندان کی تنظیم حسبِ ذیل قواعد پر کی ہے۔
(۵)مرد کی قوامیت
خاندان میں مرد کی حیثیت قوام کی ہے، یعنی وہ خاندان کا حاکم ہے، محافظ ہے، اخلاق اور معاملات کا نگران ہے، اس کی بیوی اور بچوں پر اس کی اطاعت فرض ہے (بشرطیکہ وہ اللہ اور رسول کی نافرمانی کا حکم نہ دے) اور اس پر خاندان کے لیے روزی کمانے اور ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے کی ذمہ داری ہے۔
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللہُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ۝۰ۭ ( النسائ 34:4)
مرد عورتوں پر قوام ہیں اس فضیلت کی بنا پر جو اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر عطا کی ہے اور اس بِنا پر کہ وہ ان پر (مہر و نفقہ کی صورت میں) اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔
اَلرَّجُلُ رَاعٍ عَلٰی اَھْلِہِ وَھُوَ مَسْئُولٌ ۔
(صحیح بخاری، کتاب النکاح باب قواانفسکم و اھلیکم ناراً، حدیث:۴۷۸۹)
مرد اپنے بیوی بچوں پر حکم ران ہے اور اپنی رعیت میں اپنے عمل پر وہ خدا کے سامنے جواب دِہ ہے۔
فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللہُ۝۰ۭ (النسائ 34:4)
صالح بیویاں شوہروں کی اطاعت گزار اور اللہ کی توفیق سے شوہروں کی غیر موجودگی میں ان کے ناموس کی محافظ ہیں۔
إِنَّ الْمَرْأَۃَ إِذَا خَرَجَتْ مِنْ بَیْتِھَا وَزَوْجُھَا کَارِۃٌ لِذَالِکَ لَعَنَھَا کُلُّ مَلَکٌ فِی السَّمَائِ وَکُلُّ شَی ئٍ تَمُرُّ عَلَیْہِ غَیَر الْجِنِّ وَالْاِنْسِ حَتّٰی تَرْجِعَ۔
(المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث:۵۲۰)
نبی اکرم a نے فرمایا کہ جب عورت اپنے شوہر کی مرضی کے خلاف گھر سے نکلتی ہے تو آسمان کا ہر فرشتہ اس پر لعنت بھیجتا ہے اور جن و انس کے سوا ہر وہ چیز جس پر سے وہ گزرتی ہے پھٹکار بھیجتی ہے، تاوقتیکہ وہ واپس نہ ہو۔
وَالّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاہْجُرُوْھُنَّ فِي الْمَضَاجِــعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ۝۰ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْہِنَّ سَبِيْلًا۝۰ۭ (النسائ 34:4)
اور جن بیویوں سے تمھیں سرکشی و نافرمانی کا خوف ہو انھیں نصیحت کرو، (نہ مانیں تو) خواب گاہوں میں ان سے ترکِ تعلق کرو، (پھر بھی باز نہ آئیں تو)مارو۔ پھر اگر وہ تمھاری اطاعت کریں تو ان پر زیادتی کرنے کے لیے کوئی بہانہ نہ ڈھونڈو۔
وقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم لَا طَاعَۃَ لِمَنْ لَمْ یُطِعِ اللّٰہَ عزوجل (مسنداحمد، حدیث: ۱۲۷۴۸) ولا طاعۃ فی معصیۃ اللّٰہ ۔
(صحیح البخاری، کتاب أخبار الآحاد، باب ماجائ فیإجازۃ خبر الواحد، حدیث: ۶۷۱۶)
نبی اکرم a کا ارشاد ہے کہ جو شخص خدا کی اطاعت نہ کرے اس کی اطاعت نہ کی جائے۔ اللہ کی نافرمانی میں کسی شخص کی فرماں برداری نہیں کی جا سکتی۔ فرماں برداری صرف معروف میں ہے۔ (یعنی ایسے حکم میں جو جائز اور معقول ہو)
وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْہِ حُسْـنًا۝۰ۭ وَاِنْ جَاہَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا۝۰ۭ ( العنکبوت8:29)
اور ہم نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ ادب سے پیش آئے لیکن اگر وہ تجھے حکم دیں کہ تو میرے ساتھ کوئی شریک ٹھہرائے جس کے لیے تیرے پاس کوئی دلیل ہی نہیں ہے تو اس معاملے میں ان کی اطاعت نہ کر۔
اس طرح خاندان کی تنظیم اس طور پر کی گئی ہے کہ اس کا ایک سر دھرا اور صاحبِ امر ہو۔ جو شخص اس نظم میں خلل ڈالنے کی کوشش کرے اس کے حق میں نبی اکرم a کی یہ وعید ہے کہ:
مَنْ اَفْسَدَ إِ مْرأَۃً عَلٰی زَوْجِھَا فَلَیْسَ مِنَّا۔
(السنن الکبریٰ للنسائی، کتاب عشرۃ النسائ، باب من أفسد امرأۃ علی زوجھا، حدیث: ۹۲۱۴)
جوکوئی کسی عورت کے تعلقات اس کے شوہر سے خراب کرنے کی کوشش کرے اس کا کچھ تعلق ہم سے نہیں۔
(۶)عورت کا دائرۂ عمل
اس تنظیم میں عورت کو گھر کی ملکہ بنایا گیا ہے۔ کسب مال کی ذمہ داری اس کے شوہر پر ہے اور اس مال سے گھر کا انتظام کرنا اس کا کام ہے۔
اَلْمَرأَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلٰی بَیْتِ زَوْجِھَا وَھِیَ مَسْئُولَۃٌ۔
(صحیح البخاری،کتاب النکاح، باب قوا انفسکم واہلیکم نارا، حدیث: ۴۷۸۹)
عورت اپنے شوہر کے گھر کی حکم ران ہے اور وہ اپنی حکومت کے دائرہ میں اپنے عمل کے لیے جواب دہ ہے۔
اسے ایسے تمام فرائض سے سبک دوش کیا گیا ہے جو بیرونِ خانہ کے امور سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ مثلاً
٭ اس پر نمازِ جمعہ واجب نہیں۔
(سنن ابی دائود،کتاب الصلاۃ باب الجمعہ للملوک والمراۃ، حدیث:۹۰۱)
٭ اس پر جہاد بھی فرض نہیں، اگرچہ بوقتِ ضرورت وہ مجاہدین کی خدمت کے لیے جا سکتی ہے جیسا کہ آگے چل کر بہ تحقیق بیان ہو گا۔
٭ اس کے لیے جنازوں کی شرکت بھی ضروری نہیں، بلکہ اس سے روکا گیا ہے۔
(صحیح البخاری،کتاب الجنائزہ باب اتباع النساء الجنائز، حدیث: ۱۱۹۹)
٭ اس پر نماز باجماعت اور مسجدوں کی حاضری بھی لازم نہیں کی گئی۔ اگرچہ چند پابندیوں کے ساتھ مسجد میں آنے کی اجازت ضرور دی گئی ہے، لیکن اسے پسند نہیں کیا گیا۔
٭ اسے محرم کے بغیر سفر کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔
(ترمذی،کتاب الرضاع، باب ماجاء فی کراہیۃ ان تسافر المراۃ وحدہا۔ ابودائود، باب فی المراۃ تحج بغیر محرم)
غرض ہر طریقہ سے عورت کے گھر سے نکلنے کو ناپسند کیا گیا ہے اور اس کے لیے قانونِ اسلامی میں پسندیدہ صورت یہی ہے کہ وہ گھر میں رہے، جیسا کہ آیت وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ { FR 6826 }(الاحزاب33:33 )کا صاف منشا ہے لیکن اس باب میں زیادہ سختی اس لیے نہیں کی گئی کہ بعض حالات میں عورتوں کے لیے گھر سے نکلنا ضروری ہو جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک عورت کا کوئی سر دھرا نہ ہو۔ یہ بھی ممکن ہے محافظِ خاندان کی مفلسی، قلتِ معاش، بیماری، معذوری یا اور ایسے ہی وجوہ سے عورت باہر کام کرنے پر مجبور ہو جائے۔ ایسی تمام صورتوں کے لیے قانون میں کافی گنجائش رکھی گئی ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے:
قَدْ اَذِنَ اللّٰہُ لَکُنَّ اَنْ تَخْرُجْنَ لِحَوائِجِکُنَّ۔
(صحیح البخاری،کتاب النکاح باب خروج النساء لحوائجہن، صحیح مسلم، کتاب السلام، باب اباحۃ الخروج النساء لِقفائ حاجۃ الانسان)
اللہ تعالیٰ نے تمھیں اجازت دی ہے کہ تم اپنی ضروریات کے لیے گھر سے نکل سکتی ہو۔
مگر اس قسم کی اجازت جو محض حالات اور ضروریات کی رعایت سے دی گئی ہے، اسلامی نظامِ معاشرت کے اس قاعدے میں ترمیم نہیں کرتی کہ عورت کا دائرۂ عمل اس کا گھر ہے۔ یہ تو محض ایک وسعت اور رخصت ہے اور اسے اسی حیثیت میں رہنا چاہیے۔
(۷)ضروری پابندیاں
بالغ عورت کو اپنے ذاتی معاملات میں کافی آزادی بخشی گئی ہے، مگر اسے اس حد تک خود اختیاری عطا نہیں کی گئی جس حد تک بالغ مرد کو عطا کی گئی ہے۔مثلاً:
مرد اپنے اختیار سے جہاں چاہے جا سکتا ہے لیکن عورت خواہ کنواری ہو یا شادی شدہ یا بیوہ، ہر حال میں ضروری ہے کہ سفر میں اس کے ساتھ ایک محرم ہو۔
لَا یَحِلُّ لاِ مْرأَۃٍ تُوْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَومِ الْآخِرِ اَنْ تُسَافِرَ سَفَرًا یَکُونُ ثَلٰثَۃَ اَیَّامٍ فَصَاعِدَا اِلاَّ وَمَعَھَا اَبُوھَا وَاَخُوھَا اَوزَوْجُھَا اَوْااِبْنُھَااَوذُومَحْرَمٍ مِنْھَا۔
(سنن ابی دائود، کتاب المناسک، باب فی المرأۃ تحج بغیر محرم، حدیث: ۱۴۶۶)
کسی عورت کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتی ہو۔ یہ حلال نہیں کہ وہ تین دن یا اس سے زیادہ سفر کرے بغیر اس کے کہ اس کے ساتھ اس کا باپ یا بھائی یا شوہر یا بیٹا یا کوئی محرم مرد ہو۔
وعن ابی ھریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّہُ قَالَ لَا تُسَافِرُ الْمَرأۃُ مَسِیْرۃَ یَومٍ وَلَیْلَۃٍ اِلاَّ مَعَ ذِی مَحَرمٍ۔ وَالْعَمَلُ عَلٰی ھٰذا عِنْدَاَھْلِ الْعِلْمِ۔
(سنن الترمذی، باب ما جاء فی کراھیۃ ان تسافر المراۃ وحدہا، حدیث:۱۰۸۹)
اور ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم a نے فرمایا عورت ایک دن رات کا سفر نہ کرے جب تک کہ اس کے ساتھ کوئی محرم مرد نہ ہو اور اہل علم کے ہاں اسی پر عمل ہے۔
وعن ابی ھریرۃ ایضًا ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قَالَ لَا یَحِلُّ لاِمْرأۃٍ مُسْلِمَۃٍ تُسَافِرُ مَسِیرَۃَ لَیلَۃٍ اِلاَّ وَمَعھَا رَجُلٌ ذُوحُرْمَۃٍ مِنْھَا۔
(سنن ابو دائود،کتاب المناسک، باب فی المراۃ تحج بغیر محرم حدیث:۱۴۶۵)
اور حضرت ابوہریرہؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ نبی اکرم a نے فرمایا کسی مسلمان عورت کے لیے حلال نہیں کہ ایک رات کا سفر کرے مگر یہ کہ اس کے ساتھ ایسا مرد ہو جو اس کا محرم ہو۔
ان روایات میں جو اختلاف مقدار سفر کی تعیین میں ہے وہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ دراصل ایک دن یا دو دن کا سوال اہمیت نہیں رکھتا، بلکہ اہمیت صرف اس امر کی ہے کہ عورت کو تنہا نقل و حرکت کرنے کی ایسی آزادی نہ دی جائے جو موجبِ فتنہ ہو۔ اسی لیے حضور اکرم a نے مقدارِ سفر معین کرنے میں زیادہ اہتمام نہ فرمایا اور مختلف حالات میں وقت اور موقع کی رعایت سے مختلف مقداریں اِرشادفرمائیں۔
مرد کو اپنے نکاح کے معاملہ میں پوری آزادی حاصل ہے۔ مسلمان یا کتابیہ عورتوں میں سے جس کے ساتھ چاہے وہ نکاح کر سکتا ہے اور لونڈی بھی رکھ سکتا ہے، لیکن عورت اس معاملہ میں کلیۃً خود مختار نہیں ہے۔ وہ کسی غیر قوم سے نکاح نہیں کر سکتی۔
لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلَا ہُمْ يَحِلُّوْنَ لَہُنَّ۝۰ۭ (الممتحنہ 10:60)
نہ یہ ان کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ ان کے لیے حلال۔
وہ اپنے غلام سے بھی تمتع نہیں کر سکتی۔ قرآن میں جس طرح مرد کو لونڈی سے تمتع کی اجازت دی گئی ہے اس طرح عورت کو نہیں دی گئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک عورت نے ماملکت ایمانکم… کی غلط تاویل کرکے اپنے غلام سے تمتع کیا تھا۔ آپ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے یہ معاملہ صحابہ کی مجلسِ شورٰی میں پیش کیا اور سب نے بالاتفاق فتویٰ دیا کہ
تَاَوَّلَتْ کِتَابَ اللّٰہِ تعالٰی عَلٰی غَیْرِ تَأوِئلہِ۔ (مصنف عبدالرزاق، ج۷، ص۲۰۹)
اس نے کتاب اللہ کو غلط معنی پہنائے۔
ایک اور عورت نے حضرت عمرؓ سے ایسے ہی ایک فعل کی اجازت مانگی تو آپ نے اسے سخت سزا دی اور فرمایا:
لَنْ تَزَالَ الْعَرَبُ بخَیْرِ مَا مَنَعَتْ نِسَاؤُ ھَا۔ (جلال الدین السیوطی، جامع الاحادیث:۲۹۷۹۲)
یعنی عرب کی بھلائی اسی وقت تک ہے جب تک اس کی عورتیں محفوظ ہیں۔
غلام اور کافر کو چھوڑ کر آزاد مسلمان مردوں میں سے عورت اپنے لیے شوہر کا انتخاب کر سکتی ہے، لیکن اس معاملہ میں بھی اس کے لیے اپنے باپ، دادا، بھائی اور دوسرے اولیا کی رائے کا لحاظ کرنا ضروری ہے۔ اگرچہ اولیا کو یہ حق نہیں کہ عورت کی مرضی کے خلاف کسی سے اس کا نکاح کر دیں، کیوں کہ ارشادِ نبوی ہے:
اَلْاَیِّمُ اَحَقُّ بِنَفْسِھَا مِنْ وَلِّیِھَا۔
(صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب استیذان الثیب فی النکاح، حدیث ۲۵۴۵)
بیوہ اپنے معاملہ میں فیصلہ کرنے کا حق اپنے ولی سے زیادہ رکھتی ہے۔
اور
لَاتُنْکَحُ الْبِکْرُ حَتّٰی تُستَاَذنَ۔
(صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب لاینکح الا ٔب وغیرۃ البکر، حدیث:۴۷۴۱)
باکرہ لڑکی کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے اجازت نہ لی جائے۔
مگر عورت کے لیے بھی یہ مناسب نہیں کہ اپنے خاندان کے ذمہ دار مردوں کی رائے کے خلاف جس کے ساتھ چاہے نکاح کر لے۔ اسی لیے قرآن مجید میں جہاں مرد کے نکاح کا ذکر ہے وہاں نکح ینکح کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی خود نکاح کر لینے کے ہیں، مثلاً:
وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ ( البقرہ 221:2)
مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو۔
فَانْكِحُوْھُنَّ بِـاِذْنِ اَھْلِہِنَّ (النسائ 25:4)
ان سے ان کے گھر والوں کی اجازت لے کر نکاح کر لو۔
مگر جہاں عورت کے نکاح کا ذکر آیا ہے وہاں عمومًا باب افعال سے انکاح کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی نکاح کر دینے کے ہیں۔ مثلاً:
وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ (النور 32:24)
اپنی بے شوہر عورتوں سے نکاح کرو۔
وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا۝۰ۭ (البقرہ 221:2)
اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح شادی شدہ عورت اپنے شوہر کی تابع ہے اسی طرح غیر شادی شدہ عورت اپنے خاندان کے ذمہ دار مردوں کی تابع ہے۔ مگر یہ تابعیت اس معنی میں نہیں ہے کہ اس کے لیے ارادہ و عمل کی کوئی آزادی نہیں یا اسے اپنے معاملہ میں کوئی اختیار نہیں۔ بلکہ اس معنی میں ہے کہ نظامِ معاشرت کو اختلال و برہمی سے محفوظ رکھنے اور خاندان کے اخلاق و معاملات کو اندرونی و بیرونی فتنوں سے بچانے کی ذمہ داری مرد پر ہے اور اس نظم کی خاطر عورت پر یہ فرض عائد کیا گیا ہے کہ جو شخص اس نظم کا ذمہ دار ہو اس کی اطاعت کرے، خواہ وہ اس کا شوہر ہو یا باپ یا بھائی۔
(۸)عورت کے حقوق
اس طرح اسلام نے بِمَا فَضَّلَ اللہُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ (النسائ 34:4 )کو ایک فطری حقیقت تسلیم کرنے کے ساتھ ہی وَلِلرِّجَالِ عَلَيْہِنَّ دَرَجَۃٌ۝۰ۭ (البقرہ 228:2 ) کی بھی ٹھیک ٹھیک تعیین کر دی ہے۔ عورت اورمرد میں حیاتیات اور نفسیات کے اعتبار سے جو فرق ہے اسے وہ بعینہٖ قبول کرتا ہے، جتنا فرق ہے اسے جوں کا توں برقرار رکھتا ہے اورجیسا فرق ہے اس کے لحاظ سے ان کے مراتب اور وظائف مقرر کرتا ہے۔
اس کے بعد ایک اہم سوال عورت کے حقوق کا ہے۔ ان حقوق کی تعیین میں اسلام نے تین باتوں کو خاص طور پر ملحوظ رکھا ہے۔
٭ ایک یہ کہ مرد کو جو حاکمانہ اختیارات محض خاندان کے نظم کی خاطر دیے گئے ہیں ان سے ناجائز فائدہ اٹھا کر وہ ظلم نہ کر سکے اور ایسا نہ ہو کہ تابع و متبوع کا تعلق عمومًا لونڈی اور آقا کا تعلق بن جائے۔
٭ دوسرے یہ کہ عورت کو ایسے تمام مواقع بہم پہنچائے جائیں جن سے فائدہ اٹھا کر وہ نظامِ معاشرت کے حدود میں اپنی فطری صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ ترقی دے سکے اور تعمیرِ تمدن میں اپنے حصے کا کام بہتر سے بہتر انجام دے سکے۔
٭ تیسرے یہ کہ عورت کے لیے ترقی اور کام یابی کے بلند سے بلند درجوں تک پہنچنا ممکن ہو، مگر اس کی ترقی اور کام یابی جو کچھ بھی ہو عورت ہونے کی حیثیت سے ہو۔ مرد بننا تو اس کا حق ہے، نہ مردانہ زندگی کے لیے اسے تیار کرنا اس کے لیے اور تمدن کے لیے مفید ہے اور نہ مردانہ زندگی میں وہ کام یاب ہو سکتی ہے۔
مذکورہ بالا تینوں امور کی پوری پوری رعایت ملحوظ رکھ کر اسلام نے عورت کو جیسے وسیع تمدنی و معاشی حقوق دیے ہیں، اور عزت و شرف کے جو بلند مراتب عطا کیے ہیں، اور ان حقوق و مراتب کی حفاظت کے لیے اپنی اخلاقی اور قانونی ہدایات میں جیسی پائدار ضمانتیں مہیا کی ہیں، ان کی نظیر دنیا کے کسی قدیم و جدید نظامِ معاشرت میں نہیں ملتی۔
(۹)معاشی حقوق
سب سے اہم اور ضروری چیز جس کی بدولت تمدن میں انسان کی منزلت قائم ہوتی ہے اور جس کے ذریعہ سے وہ اپنی منزلت کو برقرار رکھتا ہے، وہ اس کی معاشی حیثیت کی مضبوطی ہے۔ اسلام کے سوا تمام قوانین نے عورت کو معاشی حیثیت سے کم زور کیا ہے اور یہی معاشی بے بسی معاشرت میں عورت کی غلامی کا سب سے بڑا سبب بنی ہے۔ یورپ نے اس حالت کو بدلنا چاہا مگر اس طرح کہ عورت کو ایک کمانے والا فرد بنا دیا۔ یہ ایک دوسری عظیم تر خرابی کا باعث بن گیا۔ اسلام بیچ کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ وہ عورت کو وراثت کے نہایت وسیع حقوق دیتا ہے۔ باپ سے، شوہر سے، اولاد سے اور دوسرے قریبی رشتہ داروں سے اسے وراث{ FR 6828 } ملتی ہے۔ نیز شوہر سے اسے مہر بھی ملتا ہے اور ان تمام ذرائع سے جو کچھ مال اسے پہنچتا ہے اس میں ملکیت اور قبض و تصرف کے پورے حقوق اسے دیے گئے ہیں جن میں مداخلت کا اختیار نہ اس کے باپ کو حاصل ہے، نہ شوہر کو، نہ کسی اور کو۔ مزید برآں اگر وہ کسی تجارت میں روپیہ لگا کر، یا خود محنت کرکے کچھ کمائے تو اس کی مالک بھی کلیۃً وہی ہے اور ان سب کے باوجود اس کا نفقہ ہر حال میں اس کے شوہر پر واجب ہے۔ بیوی خواہ کتنی ہی مال دار ہو، اس کا شوہر اس کے نفقہ سے بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔ اس طرح اسلام میں عورت کی معاشی حیثیت اتنی مستحکم ہو گئی ہے کہ بسا اوقات وہ مرد سے زیادہ بہتر حالت میں ہوتی ہے۔
(۱۰)تمدنی حقوق
۱۔ عورت کو شوہر کے انتخاب کا پورا حق دیا گیا ہے۔ اس کی مرضی کے خلاف یا اس کی رضا مندی کے بغیر کوئی شخص اس کا نکاح نہیں کر سکتا اور اگر وہ خود اپنی مرضی سے کسی مسلم کے ساتھ نکاح کر لے تو کوئی اُسے روک نہیں سکتا۔ البتہ اگر اس کی نظر ِ انتخاب کسی ایسے شخص پر پڑے جو اس کے خاندان کے مرتبے سے گرا ہوا ہو تو صرف اس صورت میں اس کے اولیا کو اعتراض کا حق حاصل ہے۔
۲۔ ایک ناپسندیدہ یا ظالم یا ناکارہ شوہر کے مقابلہ میں عورت کو خلع اور فسخ و تفریق کے وسیع حقوق دیے گئے ہیں۔
۳۔ شوہر کو بیوی پر جو اختیارات اسلام نے عطا کیے ہیں ان کے استعمال میں حسن سلوک اور فیاضانہ برتائو کی ہدایت کی گئی ہے۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے:
وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۚ ( النسائ 19:4)
عورتوں کے ساتھ نیکی کا برتائو کرو۔
اور
تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ۝۰ۭ (البقرہ 237:2)
آپس کے تعلقات میں فیاضی کو نہ بھول جائو۔
نبی اکرم a کا ارشاد ہے:
] اِنَّ مِنْ اَکْمَلِ الْمُومِنِیْنَ اِیْمَاناً أَحْسَنُھُمْ خُلُقًا أَلْطَفَھُمْ بِأَھْلِہٖ۔
(سنن الترمذی، کتاب الایمان، باب ماجائ فی استکمال الایمان، حدیث۲۵۳۷)
اہل ایمان میں کامل تر وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں اور جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ لطف و مہربانی کا سلوک کرنے والا ہو۔
خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَھْلِہِ وَأَناَ خَیْرُکُمْ لِأَھْلِی۔
(سنن الترمذی، کتاب المناقب، باب فضل أزواج النبیؐ، حدیث:۳۸۳۰)
تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔[
یہ محض اخلاقی ہدایت ہی نہیں ہے۔ اگر شوہر اپنے اختیارات کے استعمال میں ظلم سے کام لے تو عورت کو قانون سے مدد لینے کا حق بھی حاصل ہے۔
۴۔ بیوی اور مطلقہ عورتوں اور ایسی تمام عورتوں کو جن کے نکاح ازروئے قانون فسخ کیے گئے ہوں یا جنھیں حکم تفریق کے ذریعہ سے شوہر سے جدا کیا گیا، نکاحِ ثانی کا غیر مشروط حق دیا گیا ہے اور اس امر کی تصریح کر دی گئی ہے کہ ان پر شوہر سابق یا اس کے کسی رشتہ دار کا کوئی حق باقی نہیں۔ یہ وہ حق ہے جو آج تک یورپ اور امریکا کے بیش تر ممالک میں بھی عورت کونہیں ملا ہے۔
۵۔ دیوانی اور فوج داری قوانین میں عورت اور مرد کے درمیان کامل مساوات قائم کی گئی ہے۔ جان و مال اور عزت کے تحفظ میں اسلامی قانون عورت اور مرد کے درمیان کسی قسم کا امتیاز نہیں رکھتا۔
(۱۱)عورتوں کی تعلیم
عورتوں کو دینی اور دنیوی علوم سیکھنے کی نہ صرف اجازت دی گئی ہے بلکہ ان کی تعلیم و تربیت کو اُسی قدر ضروری قراردیا گیا ہے جس قدر مردوں کی تعلیم و تربیت ضروری ہے۔ نبی اکرمa سے دین و اخلاق کی تعلیم جس طرح مرد حاصل کرتے تھے اسی طرح عورتیں بھی حاصل کرتی تھیں۔ آپ نے ان کے لیے اوقات معین فرما دیے تھے جن میں وہ آپ سے علم حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوتی تھیں۔ آپ کی ازواجِ مطہرات اور خصوصًا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نہ صرف عورتوں کی، بلکہ مردوں کی بھی معلمہ تھیں اور بڑے بڑے صحابہ و تابعین ان سے حدیث، تفسیر اور فقہ کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ اشراف تو درکنار، نبی اکرم a نے لونڈیوں تک کو علم اور ادب سکھانے کا حکم دیاتھا۔ چنانچہ حضور اکرم a کا ارشاد ہے کہ:
اَیُّمَا رَجُلٍ کَانَتْ عِنْدَہُ وَلِیْدَۃٌ فَعَلَّمَھَا فَاَحْسَنَ تَعْلِیَمَھَا وَاَدَّبَھَا فَأ حَسَنَ تَادِیْبَھَا ثُمَّ اَعْتَقَھَا وَتَزَّوَجَھَا فَلَہُ اَجْرَانِ۔
(صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب اتخاذ السراری و من اعتق جاریۃ، حدیث:۴۶۹۳)
جس شخص کے پاس کوئی لونڈی ہو اور وہ اسے خوب تعلیم دے اور عمدہ تہذیب و شائستگی سکھائے پھر اسے آزاد کرکے اس سے شادی کر لے اس کے لیے دوہرا اجر ہے۔
پس جہاں تک نفس تعلیم و تربیت کا تعلق ہے۔ اسلام نے عورت اور مرد کے درمیان کوئی امتیاز نہیں رکھا ہے۔ البتہ نوعیت میں فرق ضرور ی ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے عورت کی صحیح تعلیم و تربیت وہ ہے جو اسے ایک بہترین بیوی، بہترین ماں، اور بہترین گھر والی بنائے۔ اس کا دائرہ عمل گھر ہے۔ اس لیے خصوصیت کے ساتھ اسے ان علوم کی تعلیم دی جانی چاہیے جو اس دائرہ میں اسے زیادہ مفید بنا سکتے ہوں۔ مزید برآں وہ علوم بھی اس کے لیے ضروری ہیں جو انسان کو انسان بنانے والے، اس کے اخلاق کو سنوارنے والے اور اس کی نظر کو وسیع کرنے والے ہیں۔ ایسے علوم اور ایسی تربیت سے آراستہ ہونا ہر مسلمان عورت کے لیے لازم ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی عورت غیرمعمولی عقلی وہ ذہنی استعداد رکھتی ہو، اور ان علوم کے علاوہ دوسرے علوم و فنون کی اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کرنا چاہ تو اسلام اس کی راہ میں مزاحم نہیں ہے، بشرطیکہ وہ ان حدود سے تجاوز نہ کرے جو شریعت نے عورتوں کے لیے مقررکیے ہیں۔
(۱۲)عورت کی اصلی اٹھان (emancipation)
یہ تو صرف حقوق کا ذکر ہے۔ مگر اس سے اُس احسان عظیم کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا جو اسلام نے عورت پر کیا ہے۔ انسانی تمدن کی پوری تاریخ اس پر گواہ ہے کہ عورت کا وجود دنیا پر ذلت، شرم اور گناہ کا وجود تھا۔ بیٹی کی پیدائش باپ کے لیے سخت عیب اور موجبِ ننگ و عار تھی۔ سسرالی رشتے ذلیل سمجھے جاتے تھے حتّٰی کہ سسر اور سالے کے الفاظ اسی جاہلی تخیل کے تحت آج تک گالی کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔ بہت سی قوموں میں اسی ذلت سے بچنے کے لیے لڑکیوں کو قتل کر دینے کا رواج ہو گیا تھا{ FR 6830 }۔ جہلا تو درکنار علما اور پیشوایانِ مذہب تک میں مدتوں یہ سوال زیرِ بحث رہا کہ آیا عورت انسان بھی ہے یا نہیں؟ اور خدا نے اسے روح بخشی ہے یا نہیں؟ ہندو مذہب میں ویدوں کی تعلیم کا دروازہ عورت کے لیے بند تھا۔ بدھ مت میں عورت سے تعلق رکھنے والے کے لیے نروان کی کوئی صورت نہ تھی۔ مسیحیت اور یہودیت کی نگاہ میں عورت ہی انسانی گناہ کی بانی مبانی اور ذمہ دار تھی۔ یونان میں گھر والیوں کے لیے نہ علم تھا نہ تہذیب و ثقافت تھی اور نہ حقوقِ مدنیت۔ یہ چیزیں جس عورت کو ملتی تھیں وہ رنڈی ہوتی تھی۔ روم، ایران، چین، مصر اور تہذیبِ انسانی کے دوسرے مرکزوں کا حال بھی قریب قریب ایسا ہی تھا۔ صدیوں کی مظلومی و محکومی اور عالم گیر حقارت کے برتائو نے خود عورت کے ذہن سے بھی عزتِ نفس کا احساس مٹا دیا تھا۔ وہ خود بھی اس امر کو بھول گئی تھی کہ دنیا میں وہ کوئی حق لے کر پیدا ہوئی ہے یا اس کے لیے بھی عزت کا کوئی مقام ہے۔مرد اس پر ظلم و ستم کرنا اپنا حق سمجھتا تھا اور وہ اس کے ظلم کو سہنا اپنا فرض جانتی تھی۔ غلامانہ ذہنیت اس حد تک اس میں پیدا کر دی گئی تھی کہ وہ فخر کے ساتھ اپنے آپ کو شوہر کی ’’داسی‘‘ کہتی تھی۔ ’’پتی ورتا‘‘ اس کا دھرم تھا اور پتی ورتا کے معنی یہ تھے کہ شوہر اس کا معبود اور دیوتا ہے۔
اس ماحول میں جس نے نہ صرف قانونی اورعملی حیثیت سے بلکہ ذہنی حیثیت سے بھی ایک انقلاب عظیم برپا کیا وہ اسلام ہے۔ اسلام ہی نے عورت اور مرد دونوں کی ذہنیتوں کو بدلا ہے۔ عورت کی عزت اور اس کے حق کا تخیل بھی انسان کے دماغ میں اسلام کا پیدا کیا ہوا ہے۔ آج حقوقِ نسواں اور بیداری اناث کے جو الفاظ آپ سن رہے ہیں، یہ سب اسی انقلاب انگیز صدا کی باز گشت ہیں جو محمد a کی زبان سے بلند ہوئی تھی اور جس نے افکارِ انسانی کا رخ ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ وہ محمد a ہی ہیں جنھوں نے دنیا کو بتایا کہ عورت بھی ویسی ہی انسان ہے جیسا مرد ہے۔
خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا (النسائ 1:4)
اللہ نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کے جوڑے کو پیدا کیا۔
خدا کی نگاہ میں عورت اور مرد کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اكْتَـسَبُوْا۝۰ۭ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اكْتَـسَبْنَ۝۰ۭ ( النسائ 32:4)
مرد جیسے عمل کریں ان کا پھل وہ پائیں گے اور عورتیں جیسے عمل کریں ان کا پھل وہ پائیں گی۔
ایمان اور عملِ صالح کے ساتھ روحانی ترقی کے جو درجات مرد کو مل سکتے ہیں وہی عورت کے لیے بھی کھلے ہوئے ہیں۔ مرد اگر ابراہیم بن ادہم بن سکتا ہے تو عورت کو بھی رابعہ بصریہ بننے سے کوئی شے نہیں روک سکتی۔
فَاسْتَجَابَ لَھُمْ رَبُّھُمْ اَنِّىْ لَآ اُضِيْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى۝۰ۚ بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ۝۰ۚ (آل عمران 195:3)
ان کے رب نے ان کی دعا کے جواب میں فرمایا کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہ کروں گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت تم سب ایک دوسرے کی جنس سے ہو۔
وَمَنْ يَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَھُوَمُؤْمِنٌ فَاُولٰۗىِٕكَ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ وَلَا يُظْلَمُوْنَ نَقِيْرًاo (النسائ 124:4)
اور جو کوئی بھی نیک عمل کرے، خواہ مرد ہو یا عورت، مگر ہو ایمان دار، تو ایسے سب لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر رتی برابر ظلم نہ ہو گا۔
پھر وہ محمد a ہی ہیں جنھوں نے مرد کو بھی خبردار کیا اور عورت میں بھی یہ احساس پیدا کیا کہ جیسے حقوق عورت پر مرد کے ہیں ویسے ہی مرد پر عورت کے ہیں۔
وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْہِنَّ (البقرہ 228:2)
عورت پر جیسے فرائض ہیں ویسے ہی اس کے حقوق بھی ہیں۔
پھر وہ محمد a ہی کی ذات ہے جس نے ذلت اور عار کے مقام سے اٹھا کر عورت کو عزت کے مقام پر پہنچایا۔ وہ حضور اکرم a ہی ہیں جنھوں نے باپ کو بتایا کہ بیٹی کا وجود تیرے لیے ننگ و عار نہیں ہے بلکہ اس کی پرورش اور اس کی حق رسانی تجھے جنت کا مستحق بناتی ہے۔
مَنْ عَالَ جَارِیَتَیْنِ حَتّٰی تَبْلُغَا جَائَ یَومَ الْقِیَامَۃِ اَنَا وَھُوَ وَضَمَّ اَصَاَبِعَہُ۔
(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والادب، باب فضل الاحسان إبی البنات، حدیث:۴۷۶۵)
جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بلوغ کو پہنچ گئیں تو قیامت کے روز مَیں اور وہ اس طرح آئیں گے جیسے میرے ہاتھ کی دو انگلیاں ساتھ ساتھ ہیں۔
مَنْ ابْتُلِیَ مِنَ الْبَنَاتِ بِشَی ئٍ فَأَحْسَنَ إ لَیْھِنَّ کُنَّ لَہُ سِتْرًا مِّنَ النَّارِ۔
(ایضاً، حدیث:۴۷۶۳)
جس کے ہاں لڑکیاں پیدا ہوں اور وہ اچھی طرح ان کی پرورش کرے تو یہی لڑکیاں اس کے لیے دوزخ سے آڑ بن جائیں گی۔
حضور اکرم a ہی نے شوہر کو بتایا کہ نیک بیوی تیرے لیے دنیا میں سب سے بڑی نعمت ہے:
خَیْرُ مَتَاعِ الدُّنْیَا اَلْمَرأَۃُ الصَّالِحَہُ۔
(صحیح مسلم، کتاب الرضاع، باب خیر متاع الدنیا المرأۃ الصالحۃ، حدیث۲۶۶۸)
دُنیا کی نعمتوں میں بہترین نعمت نیک بیوی ہے۔
حُبِّبَ إلَّیَ مِنَ الدُّنْیَا اَلنِّسَائُ وَ الطّیْبُ، وَجُعِلَ قُرَّۃُ عَیْنیِ فِی الصَّلٰوۃ۔
(سنن النسائی، کتاب عشرۃ النسا، باب حب النسائ، حدیث ۳۸۷۸)
دُنیا کی چیزوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب عورت اور خوش بو ہے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے۔
لَیْسَ مِنْ مَتَاعِ الدُّنْیَا شَی ئٌ افْضَلَ مِنَ الْمَرْأَۃ الصَّالِحَۃِ۔
(سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب افضل النسائ، حدیث۱۸۴۵)
دنیا کی بہترین نعمتوں میں کوئی چیز نیک بیوی سے بہتر نہیں ہے۔
حضور اکرم a ہی نے بیٹے کو بتایا کہ خدا اور رسول کے بعد سب سے زیادہ عزت اور قدر و منزلت اور حُسنِ سلوک کی مستحق تیری ماں ہے۔
سَألَ رَجُلٌ یَارَسُولَ اللہِ مَنْ أَحَقُ النَّاسِ بِحُسَنِ صَحَابَتِیْ قَالَ اُمُّکَ قَالَ ثُمَّ مَنَ قَالَ اُمُّکَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ اُمُّکَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ اَبُوْکَ۔
(صحیح بخاری، کتاب الادب، باب من احق الناس بحسن صحابتی، حدیث۵۵۱۴)
ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہ! مجھ پر حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ فرمایا تیری ماں، اس نے پوچھا پھر کون؟ فرمایا تیری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ فرمای تیری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ فرمایا تیرا باپ۔‘‘
اِنَّ اللہَ حَرَّمَ عَلَیْکُمْ عُقُوْقَ الاُمَّھَاتِ۔
(صحیح بخاری، کتاب الادب، باب ما ینھی عن اضاعۃ المال،۲۲۳۱)
بے شک اللہ نے تم پر مائوں کی نافرمانی اور حق تلفی حرام کر دی ہے۔
حضور اکرم a ہی نے انسان کو اس حقیقت سے آگاہ کیا کہ جذبات کی فراوانی، حسیات کی نزاکت اور انتہا پسندی کی جانب میل و انعطاف عورت کی فطرت میں ہے۔ اسی فطرت پر اللہ نے اسے پیدا کیا ہے اور یہ انوثت کے لیے عیب نہیں ہے۔ اس کا حسن ہے۔ تم اس سے جو کچھ بھی فائدہ اٹھا سکتے ہو اس فطرت پر قائم رکھ کر ہی اٹھا سکتے ہو۔ اگر اسے مردوں کی طرح سیدھا اور سخت بنانے کی کوشش کرو گے تو اسے توڑ دو گے۔
اَلْمَرْأَۃُ کَالضِّلْعِ اِنْ اَقَمْتَھَا کَسَرْ تَھَا وَاِنْ اسْتَمْتَعْتَ بِھَا اسْتَمْتَعْتَ بِھَا وَفِیھَا عِوَجٌ۔ (صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب المداراۃ مع النسائ، حدیث ۴۷۸۶)
]عورت پسلی کی طرح ہے اگر تم اس کو سیدھا کرنا چاہو تو توڑ دو گے اور اگر اس سے فائدہ اٹھانا چاہو تو ٹیڑھ پن کے باوجود اٹھائو۔[
اسی طرح محمد a وہ پہلے اور درحقیقت وہ آخری شخص ہیں جنھوں نے عورت کی نسبت نہ صرف مرد کی، بلکہ خود عورت کی اپنی ذہنیت کو بھی بدل دیا اور جاہلی ذہنیت کی جگہ ایک نہایت صحیح ذہنیت پیدا کی، جس کی بنیاد جذبات پر نہیں بلکہ خالص عقل اور علم پر تھی۔ پھر آپ نے باطنی اصلاح ہی پر اکتفا نہ فرمایا بلکہ قانون کے ذریعہ سے عورتوں کے حقوق کی حفاظت اور مردوں کے ظلم کی روک تھام کا بھی انتظام کیا اور عورتوں میں اتنی بیداری پیدا کی کہ وہ اپنے جائز حقوق کو سمجھیں اور ان کی حفاظت کے لیے قانون سے مدد لیں۔
سرکارِ رسالت ماب a کی ذات میں عورتوں کو ایک ایسا رحیم و شفیق حامی اور ایسا زبردست محافظ مل گیا تھا کہ اگر ان پر ذرا سی بھی زیادتی ہوتی تو وہ شکایت لے کر بے تکلف حضور اکرمa کے پاس دوڑ جاتی تھیں اور مرد اس بات سے ڈرتے تھے کہ کہیں ان کی بیویوں کو آں حضرت a تک شکایت لے جانے کا موقع نہ مل جائے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب تک حضور اکرم a زندہ رہے ہم اپنی عورتوں سے بات کرنے میں احتیاط کرتے تھے کہ مبادا ہمارے حق میں کوئی حکم نازل نہ ہو جائے۔ جب حضور اکرمa نے وفات پائی تب ہم نے کھل کر بات کرنا شروع کی۔
(صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب الوصاۃ بالنسائ، حدیث:۴۷۸۸)
ابنِ ماجہ میں ہے کہ حضور اکرم a نے بیویوں پر دست درازی کرنے کی عام ممانعت فرما دی تھی۔ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شکایت کی کہ عورتیں بہت شوخ ہو گئی ہیں، انھیں مطیع کرنے کے لیے مارنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ آپ نے اجازت دے دی۔ لوگ نہ معلوم کب سے بھرے بیٹھے تھے۔ جس روز اجازت ملی اسی روز ستر عورتیں اپنے گھروں میں پیٹی گئیں۔ دوسرے دن نبی اکرم a کے مکان پر فریادی عورتوں کا ہجوم ہو گیا۔ سرکار نے لوگوں کو جمع ہونے کا حکم دیا، خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور فرمایا:
لَقَدْ طَافَ اللَّیْلَۃَ بِاٰلِ مُحمَّدٍ سَبْعُونَ اِمْرأَۃٗ کُلُّ اِمْرأَۃٍ تَشْتَکِی زَوْجَھَا فَلَا تَجِدُونَ اُولٰئَکَ خِیَارَکُمْ۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب ضرب النسائ، حدیث۱۹۷۵)
آج محمد a کے گھر والوں کے پاس ستر عورتوں نے چکر لگایا ہے۔ ہر عورت اپنے شوہر کی شکایت کر رہی تھی۔ جن لوگوں نے یہ حرکت کی ہے وہ تم میں ہرگز اچھے لوگ نہیں ہیں۔
اسی اخلاقی اور قانونی اصلاح کا نتیجہ ہے کہ اسلامی سوسائٹی میں عورت کو وہ بلند حیثیت حاصل ہوئی جس کی نظیر دنیا کی سوسائٹی میں نہیں پائی جاتی۔ مسلمان عورت دنیا اور دین میں مادی، عقلی اور روحانی حیثیات سے عزت اور ترقی کے ان بلند سے بلند مدارج تک پہنچ سکتی ہے جن تک مرد پہنچ سکتا ہے اور اس کا عورت ہونا کسی مرتبہ میں بھی اس کی راہ میں حائل نہیں ہے۔ آج اس بیسویں صدی میں بھی دنیا اسلام سے بہت پیچھے ہے۔ افکارِ انسانی کا ارتقا اب بھی اس مقام تک نہیں پہنچا ہے جس پر اسلام پہنچا ہے۔ مغرب نے عورت کو جو کچھ دیا ہے عورت کی حیثیت سے نہیں دیا ہے بلکہ مرد بنا کر دیا ہے۔ عورت درحقیقت اب بھی اس کی نگاہ میں ویسی ہی ذلیل ہے جیسی پرانے دورِ جاہلیت میں تھی۔ گھر کی ملکہ، شوہر کی بیوی، بچوں کی ماں، ایک اصلی اور حقیقی عورت کے لیے اب بھی کوئی عزت نہیں۔ عزت اگر ہے تو اس مردِ مونث یا زنِ مذکر کے لیے جو جسمانی حیثیت سے تو عورت مگر دماغی اور ذہنی حیثیت سے مرد ہو اور تمدن و معاشرت میں مرد ہی کے سے کام کرے۔ ظاہر ہے کہ یہ انوثت کی عزت نہیں، رجولیت کی عزت ہے، پھر احساسِ پستی کی ذہنی اُلجھن (inferiority complex) کا کھلا ثبوت یہ ہے کہ مغربی عورت مردانہ لباس فخر کے ساتھ پہنتی ہے، حالانکہ کوئی مرد زنانہ لباس پہن کر برسرِ عام آنے کا خیال بھی نہیں کر سکتا۔ بیوی بننا لاکھوں مغربی عورتوں کے نزدیک موجبِ ذلت ہے، حالانکہ شوہر بننا کسی مرد کے نزدیک ذلت کا موجب نہیں۔ مردانہ کام کرنے میں عورتیں عزت محسوس کرتی ہیں، حالانکہ خانہ داری اورپرورشِ اطفال جیسے خالص زنانہ کاموں میں کوئی مرد عزت محسوس نہیں کرتا۔ پس بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ مغرب نے عورت کو بحیثیت عورت کے کوئی عزت نہیں دی ہے۔ یہ سارا کام اسلام اور صرف اسلام نے کیا ہے کہ عورت کو تمدن و معاشرت میں اس کے فطری مقام ہی پر رکھ کر عزت و شرف کا مرتبہ عطا کیا اور صحیح معنوں میں انوثت کے درجہ کو بلند کر دیا۔ اسلامی تمدن عورت کو عورت اور مرد کو مرد رکھ کر دونوں سے الگ الگ وہی کام لیتا ہے جس کے لیے فطرت نے انھیں بنایا ہے اور پھر ہر ایک کو اس کی جگہ ہی پر رکھتے ہوئے عزت، ترقی اور کام یابی کے یکساں مواقع بہم پہنچاتا ہے۔ اس کی نگاہ میں انوثت اور رجولیت دونوں انسانیت کے ضروری اجزا ہیں۔ تعمیرِ تمدن کے لیے دونوں کی اہمیت یکساں ہے۔ دونوں اپنے اپنے دائرے میں جو خدمات انجام دیتے ہیں وہ یکساں مفید اور یکساں قدر کی مستحق ہیں۔ نہ رجولیت میں کوئی شرف ہے نہ انوثت میں کوئی ذلت۔ جس طرح مرد کے لیے عزت، ترقی اور کام یابی اسی میں ہے کہ وہ مرد رہے اور مردانہ خدمات انجام دے۔ اسی طرح عورت کے لیے بھی عزت، ترقی اور کام یابی اسی میں ہے کہ وہ عورت رہے اور زنانہ خدمات انجام دے۔ ایک صالح تمدن کا کام یہی ہے کہ وہ عورت کو اس کے فطری دائرۂ عمل میں رکھ کر پورے انسانی حقوق دے، عزت اور شرف عطا کرے۔ تعلیم و تربیت سے اس کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو چمکائے اور اسی دائرے میں اس کے لیے ترقیوں اور کام یابیوں کی راہیں کھولے۔
۳۔ تحفظات
یہ اسلامی نظامِ معاشرت کا پورا خاکہ تھا۔ اب آگے بڑھنے سے پہلے اس خاکہ کی اہم خصوصیات کو پھر ایک نظر دیکھ لیجیے:
۱۔ اس نظام کا منشا یہ ہے کہ اجتماعی ماحول کو حتی الامکان شہوانی ہیجانات اور تحریکات سے پاک رکھا جائے، تاکہ انسان کی جسمانی و ذہنی قوتوں کو ایک پاکیزہ اور پرسکون فضا میں نشو و ارتقا کا موقع ملے اور وہ اپنی محفوظ اور مجتمع قوت کے ساتھ تعمیرِ تمدن میں اپنے حصے کا کام انجام دے سکے۔
۲۔ صنفی تعلقات بالکل دائرۂ ازدواج میں محدود ہوں اور اس دائرے کے باہر نہ صرف انتشارِعمل کو روکا جائے بلکہ انتشارِ خیال کا بھی امکانی حد تک سدِّباب کر دیا جائے۔
۳۔ عورت کا دائرہ عمل مرد کے دائرے سے الگ ہو، دونوں کی فطرت اور ذہنی و جسمانی استعداد کے لحاظ سے تمدن کی الگ الگ خدمات ان کے سپرد کی جائیں، اور ان کے تعلقات کی تنظیم اس طورپر کی جائے کہ وہ جائز حدود کے اندر ایک دوسرے کے مددگار ہوں، مگر حدود سے تجاوزکرکے کوئی کسی کے کام میں خلل انداز نہ ہو سکے۔
۴۔ خاندان کے نظم میں مرد کی حیثیت قوام کی ہو اور گھر کے تمام افراد صاحبِ خانہ کے تابع رہیں۔
۵۔ عورت اور مرد دونوں کو پورے انسانی حقوق حاصل ہوں، اور دونوں کو ترقی کے بہتر سے بہتر مواقع بہم پہنچائے جائیں، مگر دونوں میں سے کوئی بھی ان حدود سے تجاوز نہ کر سکے جو معاشرت میں اس کے لیے مقرر کر دی گئی ہیں۔
اس نقشے پر جس نظامِ معاشرت کی تاسیس کی گئی ہے اسے چند ایسے تحفظات کی ضرورت ہے جن سے اس کا نظم اپنی جملہ خصوصیات کے ساتھ برقرار رہے۔ اسلام میں یہ تحفظات تین قسم کے ہیں:
۱۔ اصلاحِ باطن ۲۔تعزیری قوانین ۳۔انسدادی تدابیر
یہ تینوں تحفظات نظامِ معاشرت کے مزاج اور مقاصد کی ٹھیک مناسبت ملحوظ رکھ کر تجویز کیے گئے ہیں اور مل جل کر اس کی حفاظت کرتے ہیں۔
اصلاحِ باطن کے ذریعہ سے انسان کی تربیت اس طور پر کی جاتی ہے کہ وہ خود بخود اس نظامِ معاشرت کی اطاعت پر آمادہ ہو، عام اس سے کہ خارج میں کوئی طاقت اس کی اطاعت پر مجبور کرنے والی ہو یا نہ ہو۔
تعزیری قوانین کے ذریعہ سے ایسے جرائم کا سدِّباب کیا جاتا ہے جو اس نظام کو توڑنے اور اس کے ارکان کو منہدم کرنے والے ہیں۔
انسدادی تدابیر کے ذریعہ سے اجتماعی زندگی میں ایسے طریقے رائج کیے گئے ہیں جو سوسائٹی کے ماحول کو غیر طبعی ہیجانات اور مصنوعی تحریکات سے پاک کر دیتے ہیں اور صنفی انتشار کے امکانات کو کم از کم حد تک گھٹا دیتے ہیں۔ اخلاقی تعلیم سے جن لوگوں کی اصلاحِ باطن مکمل نہ ہوئی ہو اور جنھیں تعزیری قوانین کا خوف بھی نہ ہو، ان کی راہ میں یہ طریقے ایسی رکاوٹیں ڈال دیتے ہیں کہ صنفی انتشار کی جانب میلان رکھنے کے باوجود ان کے لیے عملی اقدام بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ علاوہ بریں یہی وہ طریقے ہیں جو عورت اور مرد کے دائروں کو عملًا الگ کرتے ہیں، خاندان کے نظم کو اس کی صحیح اسلامی صورت پر قائم کرتے ہیں اور ان حدود کی حفاظت کرتے ہیں جو عورتوں اور مردوں کی زندگی میں امتیاز قائم رکھنے کے لیے اسلام نے مقرر کی ہیں۔
۱۔ اصلاحِ باطن
اسلام میں اطاعتِ امر کی بنیاد کلیۃً ایمان پر رکھی گئی ہے۔ جو شخص خدا اور اس کی کتاب اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہو وہی شریعت کے اوامر و نواہی کا اصل مخاطب ہے اور اسے اوامر کا مطیع اورنواہی سے مجتنب بنانے کے لیے صرف یہ علم ہو جانا کافی ہے کہ فلاں امر خدا کا امر ہے اور فلاں نہی خدا کی نہی ہے۔ پس جب ایک مومن کو خدا کی کتاب سے یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ فحش اوربدکاری سے منع کرتا ہے تو اس کے ایمان کا اقتضا یہی ہے کہ وہ اس سے پرہیز کرے اور اپنے دل کو بھی اس کی طرف مائل ہونے سے پاک رکھے۔ اسی طرح جب ایک مومن عورت کو یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ اور اس کے رسول a نے معاشرت میں اس کے لیے کیا حیثیت مقرر کی ہے تو اس کے بھی ایمان کا اقتضا یہی ہے کہ وہ برضا و رغبت اس حیثیت کو قبول کرے اور اپنی حد سے تجاوز نہ کرے۔ اس لحاظ سے زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح اخلاق اور معاشرت کے دائرے میں بھی اسلام کے صحیح اور کامل اتباع کا مدار ایمان پر ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسلام میں اخلاق اور معاشرت کے متعلق ہدایات دینے سے پہلے ایمان کی طرف دعوت دی گئی ہے اور دلوں میں اسے راسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہ تو اصلاحِ باطن کا وہ اساسی نظریہ ہے جس کا تعلق صرف اخلاقیات ہی سے نہیں بلکہ پورے نظامِ اسلامی سے ہے۔ اس کے بعد خاص کر اَخلاق کے دائرے میں اسلام نے تعلیم و تریت کا ایک نہایت حکیمانہ طریقہ اختیار کیا ہے جسے مختصرًا ہم یہاں بیان کرتے ہیں۔
(۱)حیا
پہلے اشارتًا یہ کہا جا چکا ہے کہ زِنا، چوری، جھوٹ اور تمام دوسرے معاصی، جن کا ارتکاب فطرتِ حیوانی کے غلبہ سے انسان کرتا ہے، سب کے سب فطرتِ انسانی کے خلاف ہیں۔ قرآن ایسے تمام افعال کو منکر کے جامع لفظ سے تعبیر کرتا ہے۔ ’’منکر‘‘ کا لفظی ترجمہ ’’مجہول‘‘ یا ’’غیر معروف‘‘ ہے۔ ان افعال کو منکر کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ایسے افعال ہیں جن سے فطرتِ انسانی آشنا نہیں ہے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جب انسان کی فطرت ان سے ناآشنا ہے اور حیوانی طبیعت اس پر زبردستی ہجوم کرکے اسے ان افعال کے ارتکاب پرمجبور کرتی ہے، تو خود انسان ہی کی فطرت میں کوئی ایسی چیز بھی ہونی چاہیے جو تمام منکرات سے نفرت کرنے والی ہو۔ شارع حکیم نے اس چیز کی نشان دہی کر دی ہے۔ وہ اسے ’’حیا‘‘ سے تعبیرکرتا ہے۔
حیا کے معنی شرم کے ہیں۔ اسلام کی مخصوص اصطلاح میں حیا سے مراد وہ ’’شرم‘‘ ہے جو کسی امرِ منکر کی جانب مائل ہونے والا انسان خود اپنی فطرت کے سامنے اور اپنے خدا کے سامنے محسوس کرتا ہے۔ یہی حیا وہ قوت ہے جو انسان کو فحشا اور منکر کا اقدام کرنے سے روکتی ہے اور اگر وہ جبلتِ حیوانی کے غلبہ سے کوئی بُرا فعل کر گزرتا ہے تو یہی چیز اُس کے دل میں چٹکیاں لیتی ہے۔ اسلام کی اخلاقی تعلیم و تربیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ حیا کے اسی چھپے ہوئے مادے کو فطرتِ انسانی کی گہرائیوں سے نکال کر علم و فہم اور شعور کی غذا سے اس کی پرورش کرتی ہے اور ایک مضبوط حاسہ اخلاقی بنا کر اس کو نفسِ انسانی میں ایک کوتوال کی حیثیت سے متعین کر دیتی ہے۔ یہ ٹھیک ٹھیک اس حدیث نبوی کی تفسیر ہے جس میں ارشاد ہوا ہے کہ
] اِنَّ لِکُلِّ دِیْنٍ خُلُقاً وَاِنَّ خُلُقَ الْاِسْلَامِ الْحیَائُ۔[
(سنن ابن ماجہ، کتاب الزھد، باب الحیائ، حدیث۴۱۷۲)
ہر دین کا ایک اخلاق ہوتا ہے اور اسلام کا اخلاق حیا ہے۔
اور وہ حدیث بھی اسی مضمون پر روشنی ڈالتی ہے جس میں سرورِ کائنات رسالت مابa نے فرمایا:
اِذَا لَمْ تَسْتَحْیِ فَاصْنَعْ مَاشِئْتَ۔
(صحیح البخاری، کتاب أحادیث الانبیائ، جاب حدیث الغار، حدیث۳۲۲۴)
جب تجھ میں حیا نہیں تو جو تیرا جی چاہے کر۔
کیوں کہ جب حیا نہ ہو گی تو خواہشات جس کا مبدا جبلتِ حیوانی ہے، تجھ پر غالب آ جائے گی، اورکوئی منکر تیرے لیے منکر ہی نہ رہے گا۔
انسان کی فطری حیا ایک ایسے اَن گھڑ مادے کی حیثیت رکھتی ہے جس نے ابھی کوئی صورت اختیار نہ کی ہو۔ وہ تمام منکرات سے بالطبع نفرت تو کرتی ہے مگر اس میں سوجھ بوجھ نہیں ہے، اس وجہ سے وہ نہیں جانتی کہ کسی خاص فعل منکر سے اسے کس لیے نفرت ہے، یہی نادانستگی رفتہ رفتہ اس کے احساسِ نفرت کو کم زور کر دیتی ہے حتّٰی کہ حیوانیت کے غلبہ سے انسان منکرات کا ارتکاب کرنے لگتا ہے اور اس ارتکاب کی پیہم تکرار آخر کار حیا کے احساس کو بالکل باطل کر دیتی ہے۔ اسلام کی اَخلاقی تعلیم کا مقصد اسی نادانی کو دُور کرنا ہے۔ وہ اسے نہ صرف کھلے ہوئے منکرات سے روشناس کراتی ہے، بلکہ نفس کے چور خانوں تک میں نیتوں، ارادوں اور خواہشوں کی جو بُرائیاں چھپی ہوئی ہیں انھیں بھی اس کے سامنے نمایاں کر دیتی ہے اور ایک ایک چیز کے مفسدوں سے اسے خبردار کرتی ہے تاکہ علی وجہ البصیرت اس سے نفرت کرے۔ پھراخلاقی تربیت اس تعلیم یافتہ شرم و حیا کو اس قدر حساس بنا دیتی ہے کہ منکر کی جانب سے ادنیٰ سے ادنیٰ میلان بھی اس سے مخفی نہیں رہتا اور نیت و خیال کی ذرا سی لغزش کو بھی وہ تنبیہ کیے بغیر نہیں چھوڑتی۔
اسلامی اخلاقیات میں حیا کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ زندگی کا کوئی شعبہ اس سے چھوٹا ہوا نہیں ہے۔ چنانچہ تمدن و معاشرت کا جو شعبہ انسان کی صنفی زندگی سے تعلق رکھتا ہے اس میں بھی اسلام نے اصلاحِ اخلاق کے لیے اسی چیز سے کام لیا ہے۔ وہ صنفی معاملات میں نفسِ انسانی کی نازک سے نازک چوریوں کو پکڑ کر حیا کو ان سے خبردار کرتا ہے اور اس کی نگرانی پر مامور کر دیتا ہے یہاں تفصیل کا موقع نہیں اس لیے ہم صرف چند مثالوں پر اکتفا کریں گے۔
(۲)دل کے چور
قانون کی نظر میں زِنا کا اطلاق صرف جسمانی اِتصال پر ہوتا ہے۔ مگر اخلاق کی نظر میں دائرۂ ازدواج کے باہر صنف مقابل کی جانب ہر میلان، ارادے اور نیت کے اعتبار سے زنا ہے۔ اجنبی کے حسن سے آنکھ کا لطف لینا، اس کی آواز سے کانوں کا لذت یاب ہونا، اس سے گفتگو کرنے میں زبان کا لوچ کھانا، اس کے کوچے کی خاک چھاننے کے لیے قدموں کا بار بار اُٹھنا، یہ سب زنا کے مقدمات اورخود معنوی حیثیت سے زنا ہیں۔ قانون اس زنا کو نہیں پکڑتا۔ یہ دل کا چور ہے اور صرف دل ہی کا کوتوال اسے گرفتار کر سکتا ہے۔ حدیث نبوی اس کی مخبری اس طرح کرتی ہے:
اَلْعَیْنَانِ تَزْنِیَانِ وَزِنَا ھُمَا النَّظَرُ وَالْیَدَانِ تْزَنیَانِ وَزِنَاھُمَا اَلْبَطْشُ وَالرِّجْلَانِ تَزْنِیَانِ وَزِنَاھُمَا الْمَشْیُ۔
(سنن ابی دائود، کتاب النکاح، باب مایؤمر من غض البصر، حدیث: ۱۸۴۰)
وزِنَا اللّسَانِ النْطْقُ وَالنَّفْسُ تَتَمَنّیِ وَتَشْتَھِی وَالْفَرْجُ یُصَدِّقُ ذلِکَ وَیُکَذِّبُہُ۔
(شعب الایمان، الباب السابع و التلاثون، حدیث ۵۴۲۷)
آنکھیں زنا کرتی ہیں اور ان کا زنا نظر ہے اور ہاتھ زنا کرتے ہیں اور ان کا زنا دست درازی ہے اور پائوں زنا کرتے ہیں اور ان کا زنا اس راہ میں چلنا ہے اور زبان کا زنا گفتگو ہے اور دل کا زنا تمنا اور خواہش ہے۔ آخر میں صنفی اعضا یا تو ان سب کی تصدیق کر دیتے ہیں یا تکذیب۔
(۳)فتنۂ نظر
نفس کا سب سے بڑا چور نگاہ ہے، اس لیے قرآن اور حدیث دونوں سب سے پہلے اس کی گرفت کرتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے:
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ۝۰ۭ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَہُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَo وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ (النور 30-31:24)
اے نبی مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظروں کو (غیر عورتوں کی دید سے) باز رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ جو کچھ وہ کرتے ہیں اس سے اللہ باخبر ہے۔ اور اے نبی مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ اپنی نگاہوں کو (غیر مردوں کی دید سے) باز رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔
حدیث میں ہے:
اِبنَ آدَمَ لَکَ اَوَّلُ نَظْرَۃٍ وَاِیِاَّکَ وَالثَّانِیَۃَ۔
(احکام القرآن للجصاص تفسیر سورۃ النور، ج۸، ص۱۶۳)
آدمی زادے! تیری پہلی نظر تو معاف ہے مگر خبردار دوسری نظر نہ ڈالنا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:
یَاعَلیِ لَاُ تَتْبِعِ النَظَرَۃَ النَظَرَۃَ فَاِنَّ لَکَ الاُولٰی وَ لَیْسَ لَکَ الآخِرَۃُ۔
(سنن ابودائود،کتاب النکاح، باب مایومربہ من غض البصرحدیث ۱۸۳۷)
اے علیؓ! ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالو۔ پہلی نظر تو معاف ہے مگر دوسری نہیں۔
حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ ’’اچانک نظر پڑ جائے تو کیا کروں؟ فرمایا: ’’تو فورًا نظر پھیر لو۔‘‘ (ایضاً، حدیث۱۸۳۶)
(۴) جذبۂ نمائشِ حُسن
اسی فتنہ نظر کا ایک شاخسانہ وہ بھی ہے جو عورت کے دل میں یہ خواہش پیدا کرتا ہے کہ اس کا حسن دیکھا جائے۔ یہ خواہش ہمیشہ جلی اور نمایاں ہی نہیں ہوتی، دل کے پردوں میں کہیں نہ کہیں نمائشِ حسن کا جذبہ چھپا ہوا ہوتا ہے اور وہی لباس کی زینت میں، بالوں کی آرائش میں، باریک اور شوخ کپڑوں کے انتخاب میں اور ایسے ایسے خفیف جزئیات تک میں اپنا اثر ظاہر کرتا ہے۔ جن کا احاطہ ممکن نہیں۔ قرآن نے ان سب کے لیے ایک جامع اصطلاح ’’تبرج جاہلیۃ‘‘استعمال کیا ہے۔ ہر وہ زینت اور ہر وہ آرائش جس کا مقصد شوہر کے سوا دوسروں کے لیے لذتِ نظر بننا ہو، تبرجِ جاہلیت کی تعریف میں آ جاتی ہے۔ اگر برقع بھی اس غرض کے لیے خوب صورت اور خوش رنگ انتخاب کیا جائے کہ نگاہیں اس سے لذت یاب ہوں تو یہ بھی تبرج جاہلیت ہے۔ اس کے لیے کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔ اس کا تعلق عورت کے اپنے ضمیر سے ہے۔ اسے خود ہی اپنے دل کا حساب لینا چاہیے کہ اس میں کہیں یہ ناپاک جذبہ تو چھپا ہوا نہیں ہے۔ اگر ہے تو وہ اس حکمِ خداوندی کی مخالفت ہے کہ
وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاہِلِيَّۃِ الْاُوْلٰى (الاحزاب 33:33)
اسلام سے پہلے جاہلیت کے زمانے میں جس بنائو سنگار کی نمائش کرتی پھرتی تھیں وہ اب نہ کرو۔
جو آرائش ہر بُری نیت سے پاک ہو، وہ اسلام کی آرائش ہے اور جس میں ذرہ برابر بھی بُری نیت شامل ہو وہ جاہلیت کی آرائش ہے۔
(۵) فتنۂ زبان
شیطان نفس کا ایک دوسرا ایجنٹ زبان ہے۔ کتنے ہی فتنے ہیں جو زبان کے ذریعہ سے پیدا ہوتے اور پھیلتے ہیں۔ مرد اور عورت بات کر رہے ہیں۔ کوئی بُرا جذبہ نمایاں نہیں ہے۔ مگر دل کاچھپا ہوا چور آواز میں حلاوت، لہجے میں لگاوٹ، باتوں میں گھلاوٹ پیدا کیے جا رہا ہے۔ قرآن اس چور کو پکڑ لیتا ہے:
اِنِ اتَّــقَيْتُنَّ فَلَا تَخْـضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاo (الاحزاب 32:33)
اگر تمھارے دل میں خداکا خوف ہے تو دبی زبان سے بات نہ کرو کہ جس شخص کے دل میں (بدنیتی کی بیماری ہو وہ تم سے کچھ امیدیں وابستہ کر لے گا۔ بات کرو تو سیدھے سادے طریقے سے کرو۔ جس طرح انسان انسان سے بات کرتا ہے۔
یہی دل کا چور ہے جو دوسروں کے جائز یا ناجائز صنفی تعلقات کا حال بیان کرنے میں بھی مزے لیتا ہے اور سننے میں بھی۔ اس لطف کی خاطر عاشقانہ غزلیں کہی جاتی ہیں اور عشق و محبت کے افسانے جھوٹ سچ ملا کر جگہ جگہ بیان کیے جاتے ہیں اور سوسائٹی میں ان کی اشاعت اس طرح ہوتی ہے جیسے پولے پولے آنچ لگتی چلی جائے۔ قرآن اس پر بھی تنبیہ کرتا ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَۃُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۰ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۝۰ۭ ( النور 19:24)
جو لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے گروہ میں بے حیائی کی اشاعت ہو ان کے لیے دنیا میں بھی درد ناک عذاب ہے اور آخرت میں بھی۔
فتنہ زبان کے اور بھی بہت سے شعبے ہیں اور ہر شعبے میں دل کا ایک نہ ایک چور اپنا کام کرتا ہے۔ اسلام نے ان سب کا سراغ لگایا ہے اور ان سے خبردار کیا ہے۔ عورت کو اجازت نہیں کہ اپنے شوہر سے دوسری عورتوں کی کیفیت بیان کرے۔
لَاتُبَاشِرِ الْمَرأَۃُ الْمَرأَۃَ فَتَنْعَتَھاَ لِزوْجِھَا کَأَنَّہُ یَنْظُرُ اِلَیْھَا۔
(صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب لا تباشر المرأۃ المرأۃ، حدیث۴۸۳۹)
عورت عورت سے خلا ملا نہ کرے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اس کی کیفیت اپنے شوہر سے اس طرح بیان کر دے کہ گویا وہ خود اسے دیکھ رہا ہے۔
عورت او ر مرد دونوں کو اس سے منع کیا گیا ہے کہ اپنے پوشیدہ ازدواجی معاملات کا حال دوسرے لوگوں کے سامنے بیان کریں کیوں کہ اس سے بھی فحش کی اشاعت ہوتی ہے اور دلوں میں شوق پیدا ہوتا ہے۔
(سنن ابودائود کتاب النکاح، باب مایکرہ من ذکر الرجل مایکون من اصابتہ اہلہ، حدیث:۱۸۵۹)
نمازِ باجماعت میں اگر امام غلطی کرے، یا اسے کسی حادثہ پر متنبہ کرنا ہو تو مردوں کو سبحان اللہ کہنے کا حکم ہے، مگر عورتوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ صرف دستک دیں اور زبان سے کچھ نہ بولیں۔ (سنن ابودائود،کتاب الصلاۃ، باب التصفیق فی الصلوۃ، حدیث:۸۰۴)
(۶) فتنۂ آواز
بسا اوقات زبان خاموش رہتی ہے مگر دوسری حرکات سے سامعہ کو متاثر کیا جاتا ہے۔ اس کا تعلق بھی نیت کی خرابی سے ہے اور اسلام اس کی بھی ممانعت کرتا ہے۔
وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِہِنَّ۝۰ۭ (النور 31:24)
اور وہ اپنے پائوں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلیں کہ جو زینت انھوں نے چھپا رکھی ہے (یعنی جو زیور وہ اندر پہنے ہوئے ہیں) اس کا حال معلوم ہو (یعنی جھنکار سنائی دے)
(۷)فتنۂ خوش بو
خوش بو بھی ان قاصدوں میں سے ایک ہے جو ایک نفسِ شریر کا پیغام دوسرے نفسِ شریر تک پہنچاتے ہیں۔ یہ خبر رسانی کا سب سے زیادہ لطیف ذریعہ ہے جسے دوسرے تو خفیف ہی سمجھتے ہیں، مگر اسلامی حیااتنی حساس ہے کہ اس کی طبع نازک پر یہ لطیف تحریک بھی گراں ہے۔ وہ ایک مسلمان عورت کو اس کی اجازت نہیں دیتی کہ خوش بو میں بسے ہوئے کپڑے پہن کر راستوں سے گزرے یا محفلوں میں شرکت کرے۔ کیوں کہ اس کا حسن اور اس کی زینت پوشیدہ بھی رہی تو کیا فائدہ، اس کی عطریت تو فضا میں پھیل کر جذبات کو متحرک کر رہی ہے۔
قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اَلْمَرأَۃُ اِذَا اِسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ بِالْمَجْلِسِ فَھِیَ کَذَا وَکَذَا یَعْنِی زَانِیَۃٌ۔
(سنن ترمذی،کتاب الا ٔدب، باب ما جاء فی کراہیۃ خروج المرأۃ، حدیث۲۷۱۰)
نبی اکرم a نے فرمایا کہ جو عورت عطر لگا کر لوگوں کے درمیان سے گزرتی ہے، وہ آوارہ قسم کی عورت ہے۔
اِذَا شَھِدَتْ اِحْدَاکُنَّ الْمَسْجِدَ فَلَا تَمَسَّ طِیْباً۔
(صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب خروج النسائ إلیٰ المساجد، حدیث ۶۷۴)
جب تم میں سے کوئی عورت مسجد میں جائے تو خوش بو نہ لگائے۔
طِیْبُ الرِّجَالِ مَا ظَھَرَ رِیْحُہُ وَخَفِیَ لَوْنُہُ وَطِیْبُ النِّسَائِ مَا ظَھَرَلَونُہُ وَخَفِیَ رِیْحُہُ۔ (سنن ترمذی، باب ما جاء فی طیب الرجال والنسا، حدیث ۲۷۱۱)
مردوں کے لیے وہ عطر مناسب ہے جس کی خوش بو نمایاں اور رنگ مخفی ہو اور عورتوں کے لیے وہ عطر مناسب ہے جس کا رنگ نمایاں اور خوش بو مخفی ہو۔
(۸)فتنۂ عریانی
ستر کے باب میں اسلام نے انسانی شرم و حیا کی جس قدر صحیح اورمکمل نفسیاتی تعبیر کی ہے اس کا جواب دنیا کی کسی تہذیب میں نہیں پایا جاتا۔ آج دنیا کی مہذب ترین قوموں کا بھی یہ حال ہے کہ ان کے مردوں اور ان کی عورتوں کو اپنے جسم کا کوئی حصہ کھول دینے میں باک نہیں۔ ان کے ہاں لباس محض زینت کے لیے ہے ستر کے لیے نہیں ہے۔ مگر اسلام کی نگاہ میں زینت سے زیادہ ستر کی اہمیت ہے۔ وہ عورت اور مرد دونوں کو جسم کے وہ تمام حصے چھپانے کا حکم دیتا ہے جن میں ایک دوسرے کے لیے صنفی کشش پائی جاتی ہے۔ عریانی ایک ایسی ناشائستگی ہے جسے اسلامی حیا کسی حال میں بھی برداشت نہیں کرتی۔ غیر تو غیر اسلام اسے بھی پسند نہیں کرتا کہ میاں اور بیوی ایک دوسرے کے سامنے برہنہ ہوں۔
اِذَا أَتٰی أَحَدُکُمْ اَھْلَہُ فَلْیَسْتَتُرْ وَلَا یَتَجَرَّدْ تَجَرُّدَ الْعِیْرَیْنِ۔
(سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب التسترعند الجماع، حدیث۱۹۱۱)
جب تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس جائے تو اسے چاہیے کہ ستر کا لحاظ رکھے۔ بالکل گدھوں کی طرح دونوں ننگے نہ ہو جائیں۔
قالت عائشۃ مَا نَظَرْتُ فَرْجَ رَسُولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
(سنن ابن ماجۃ، کتاب الطھارۃ و سننھا، باب النھی اُنْ یری عورۃ اخیہ، حدیث۶۵۴)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ a کو کبھی برہنہ نہیں دیکھا۔
اس سے بڑھ کر شرم و حیا یہ ہے کہ تنہائی میں بھی عریاں رہنا اسلام کو گوارا نہیں اس لیے کہ
اَللہُ اَحَقُّ ان یُسْتَحْیَا مِنْہُ۔ (سنن ترمذی،کتاب الا ٔدب، باب ماجائ فی حفظ العورۃحدیث ۲۶۹۳)
اللہ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے حیا کی جائے۔
حدیث میں آتا ہے کہ
اِیَّاکُمْ وَالتَّعَرِی فَإِنَّ مَعَکُمْ مَنْ لَّا یُفَارِقُکُمْ اِلاَّ عِنْدَ الْغَائِطِ وَحِیْنَ یُفْضِی الرَّجُلُ اِلٰی أَھْلِہِ فَاسْتَحْیُوھُمْ وَاَکْرِمُوھُمْ۔
(سنن الترمذی، کتاب الا ٔدب، باب ماجائ فی الاستتار عندالجماع، حدیث ۲۷۲۴)
خبردار کبھی برہنہ نہ رہو کیوں کہ تمھارے ساتھ خدا کے فرشتے لگے ہوئے ہیں جو تم سے جدا نہیں ہوتے بجز ان اوقات کے جن میں تم رفع حاجت کرتے ہو یا اپنی بیویوں کے پاس جاتے ہو لہٰذا تم ان سے شرم کرو اور ان کی عزت کا لحاظ رکھو۔
اسلام کی نگاہ میں وہ لباس درحقیقت لباس ہی نہیں ہے جس میں سے بدن جھلکے اور ستر نمایاں ہو۔
قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نِسَائٌ کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ مُمِیلَاتٌ، مَائِلاتٌ رُٔوسُھُنَّ کَأَسْنِمَۃِ الْبُخْتِ الْمَائِلَۃِ لَایَدْخُلْنَ الْجَنَّۃَ وَلَا یَجِدْنَ رِیحَھَا۔
(صحیح مسلم، کتاب الجنۃ و صفۃ نعیمھاو أھلھا، باب النار یدخلھا الجبارون، حدیث ۵۰۹۸)
رسول اللہ a نے فرمایا کہ جو عورتیں کپڑے پہن کر بھی ننگی ہی رہیں اور دوسروں کو رجھائیں اور خود دوسروں پر ریجھیں اور بختی اونت کی طرح ناز سے گردن ٹیڑھی کرکے چلیں وہ جنت میں ہرگز داخل نہ ہوں گی اور نہ اس کی بو پائیں گی۔
یہاں استیعاب مقصود نہیں۔ ہم نے صرف چند مثالیں اس غرض سے پیش کی ہیں کہ ان سے اسلام کے معیارِ اخلاق اور اس کی اخلاقی اسپرٹ کا اندازہ ہو جائے۔ اسلام سوسائٹی کے ماحول اور اس کی فضا کو فحشا و منکر کی تمام تحریکات سے پاک کر دینا چاہتا ہے۔ ان تحریکات کا سرچشمہ انسان کے باطن میں ہے۔ فحشا و منکر کے جراثیم وہیں پرورش پاتے ہیں اور وہیں سے ان چھوٹی چھوٹی تحریکات کی ابتدا ہوتی ہے جو آگے چل کر فساد کا موجب بنتی ہیں۔ جاہل انسان انھیں خفیف سمجھ کر نظر انداز کر دیتا ہے مگر حکیم کی نگاہ میں دراصل وہی اخلاق اور تمدن و معاشرت کو تباہ کر دینے والی خطرناک بیماریوں کی جڑ ہیں۔ لہٰذا اسلام کی تعلیم اخلاقِ باطن ہی میں حیا کا اتنا زبردست احساس پیدا کر دینا چاہتی ہے کہ انسان خود اپنے نفس کا احتساب کرتا رہے اور بُرائی کی جانب ادنیٰ سے ادنیٰ میلان بھی اگر پایا جائے تو اسے محسوس کرکے وہ آپ ہی اپنی قوتِ ارادی سے اس کا استیصال کرے۔
۲۔ تعزیری قوانین
اسلام کے تعزیری قوانین کا اصل الاصول یہ ہے کہ انسان کو ریاست کے شکنجہ میں اس وقت تک نہ کسا جائے جب تک وہ نظامِ تمدن کو برباد کرنے والی کسی حرکت کا بالفعل مرتکب نہ ہو جائے۔ مگر جب وہ ایسا کر گزرے تو پھر اسے خفیف سزائیں دے دے کر گناہ کرنے اور سزا بھگتنے کا خوگر بنانا درست نہیں ہے۔ ثبوتِ جرم کی شرائط بہت سخت رکھو{ FR 6831 }۔ لوگوں کو حدود قانون کی زد میں آنے سے جہاں تک ممکن ہو بچائو{ FR 6832 }مگر جب کوئی شخص قانون کی زد میں آ جائے تو اسے ایسی سزا دو کہ نہ صرف وہ خود اس جرم کے اعادہ سے عاجز ہو جائے بلکہ دوسرے ہزاروں انسان بھی جو اس فعل کی جانب اقدام کرنے والے ہوں اس عبرت ناک سزا کو دیکھ کر خوف زدہ ہو جائیں ، کیوں کہ قانون کا مقصد سوسائٹی کو جرائم سے پاک کرنا ہے۔ نہ یہ کہ لوگ بار بار جرم کریں اور بار بار سزا بھگتیں۔
نظامِ معاشرت کی حفاظت کے لیے اسلامی تعزیرات نے جن افعال کو جرم مستلزم سزا قرار دیا ہے وہ صرف دو ہیں۔ ایک زنا، دوسرے قذف (یعنی کسی پر زِنا کی تہمت لگانا)۔
(۱)حدِّ زِنا
زِنا کے متعلق ہم اس سے پہلے بیان کر چکے ہیں کہ اخلاقی حیثیت سے یہ فعل انسان کی پستی کا نتیجہ ہے۔ جو شخص اس کا ارتکاب کرتا ہے وہ دراصل اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ اس کی انسانیت حیوانیت سے مغلوب ہو چکی ہے اور وہ انسانی سوسائٹی کا ایک صالح رکن بن کر نہیں رہ سکتا۔ اجتماعی نقطہ نظر سے یہ ان عظیم ترین جرائم میں سے ایک ہے جو انسانی تمدن کی عین بنیاد پر حملہ کرتے ہیں۔ ان وجوہ سے اسلام نے اسے بجائے خود ایک قابلِ تعزیر گناہ قرار دیا ہے، خواہ اس کے ساتھ کوئی دوسرا جرم مثلاً جبر و اکراہ یا کسی شخص غیر کی حق تلفی شریک ہو یا نہ ہو، قرآن مجید کا حکم یہ ہے کہ:
اَلزَّانِيَۃُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ۝۰۠ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِيْ دِيْنِ اللہِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۚ وَلْيَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَاۗىِٕفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَo (النور 2:24)
زِنا کار عورت اور زنا کار مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور قانونِ الٰہی کے معاملہ میں تمھیں ان پر ہرگز رحم نہ کھانا چاہیے۔ اگر تم اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور جب انھیں سزا دی جائے تو مسلمانوں میں سے ایک جماعت اسے دیکھنے کے لیے حاضر رہے۔
اس باب میں اسلامی قانون اور مغربی قانون میں بہت بڑا اختلاف ہے۔ مغربی قانون زِنا کو بجائے خود کوئی جرم نہیں سمجھتا۔ اس کی نگاہ میں یہ فعل صرف اس وقت جرم ہوتا ہے جب کہ اس کا اِرتکاب جبر و اکراہ کے ساتھ کیا جائے یا کسی ایسی عورت کے ساتھ کیا جائے جو دوسرے شخص کے نکاح میں ہو۔ بالفاظ دیگر اس قانون کے نزدیک زنا خود جرم نہیں ہے بلکہ جرم دراصل جبر یا حق تلفی ہے۔ بخلاف اس کے اسلامی قانون کی نظر میں یہ فعل خود ایک جرم ہے اور جبر و اکراہ یا حقِ غیر میں مداخلت سے اس پر ایک اور جرم کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس بنیادی اختلاف کی وجہ سے سزا کے باب میں بھی دونوں کے طریقے مختلف ہو جاتے ہیں۔ مغربی قانون زنا بالجبر میں صرف سزائے قید پر اکتفا کرتا ہے اور منکوحہ عورت کے ساتھ زنا کرنے پر عورت کے شوہر کو صرف تاوان کا مستحق قرار دیتا ہے۔ یہ سزا جرم کو روکنے والی نہیں بلکہ لوگوں کو اور جرأت دلانے والی ہے۔ اسی لیے ان ممالک میں جہاں یہ قانون رائج ہے، زنا کا ارتکاب بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں اسلامی قانون زنا پر ایسی سخت سزا دیتا ہے جو سوسائٹی کو اس جرم اور ایسے مجرموں سے ایک مدت کے لیے پاک کر دیتی ہے جن ممالک میں زنا پر یہ سزا دی گئی ہے وہاں اس فعل کا ارتکاب کبھی عام نہیں ہوا۔ ایک مرتبہ حد شرعی جاری ہو جائے، پھر پورے ملک کی آبادی پر ایسی ہیبت چھا جاتی ہے کہ برسوں تک کوئی شخص اس کے ارتکاب کی جرأت نہیں کر سکتا۔ یہ مجرمانہ میلانات رکھنے والوں کے ذہن پر ایک طرح کا نفسیاتی اپریشن ہے۔ جس سے ان کے نفس کی خود بخود اصلاح ہو جاتی ہے۔
مغربی ضمیر سو کوڑوں کی سزا پر نفرت کا اظہار کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ انسان کو جسمانی تکلیف پہنچاناپسند نہیں کرتا بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس کے اخلاقی شعور کی نشوونما ابھی تک ناقص ہے۔ وہ زنا کو پہلے صرف ایک عیب سمجھتا تھا اور اب اسے محض ایک کھیل، ایک تفریح سمجھتا ہے جس سے دو انسان تھوڑی دیر کے لیے اپنا دل بہلا لیتے ہیں اس لیے وہ چاہتا ہے کہ قانون اس فعل سے رواداری برتے اور اس وقت تک کوئی باز پرس نہ کرے جب تک کہ زانی دُوسرے شخص کی آزادی یا اس کے قانونی حقوق میں خلل انداز نہ ہو۔ پھر اس میں خلل اندازی کی صورت میں بھی وہ اسے ایسا جرم سمجھتا ہے جس سے بس ایک ہی شخص کے حقوق متاثر ہوتے ہیں، اس لیے معمولی سزا یا تاوان اس کے نزدیک ایسے جرم کی کافی سزا ہے۔
ظاہر ہے کہ جو شخص زنا کا یہ تصور رکھتا ہو وہ اس فعل پر سو کوڑوں کی سزا کو ایک ظالمانہ سزا ہی سمجھے گا۔ مگر جب اس کا اخلاقی و اجتماعی شعور ترقی کرے گا اور اسے معلوم ہو گا کہ زنا خواہ بالرضا ہو یا بالجبر اور خواہ بیاہی ہوئی عورت کے ساتھ ہو یا بن بیاہی کے ساتھ، بہرحال وہ ایک اجتماعی جرم ہے اور پوری سوسائٹی پر اس کے نقصانات عائد ہوتے ہیں، تو سزا کے متعلق بھی اس کا نظریہ خود بخود بدل جائے گا۔ اسے تسلیم کرنا پڑے گا کہ سوسائٹی کو ان نقصانات سے بچانا ضروری ہے اور چوں کہ زِنا کی تحریک کرنے والے اسباب انسان کی حیوانی جبلت میں نہایت گہری جڑیں رکھتے ہیں اور ان جڑوں کو محض قید و بند اور مالی تاوان کے زور سے نہیں اکھاڑا جا سکتا، لہٰذا اس کا سدباب کرنے کے لیے شدید تدابیر استعمال کیے بغیر چارہ نہیں۔ ایک شخص یا دو شخصوں کو شدید جسمانی آزار پہنچا کر لاکھوں اشخاص کو بے شمار اخلاقی اور عمرانی مضرتوں سے بچا دینا اس سے بہتر ہے کہ مجرموں کو تکلیف سے بچا کر ان کی پوری قوم کو ایسے نقصانات میں مبتلا کیا جائے جو آنے والی بے گناہ نسلوں تک بھی متوارث ہونے والے ہوں۔
سو کوڑوں کی سزا کو ظالمانہ سزا قرار دینے کی ایک وجہ اور بھی ہے جو مغربی تہذیب کی بنیادوں پر غور کرنے سے بآسانی سمجھ میں آ سکتی ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں، اس تہذیب کی ابتدا ہی جماعت کے مقابلہ میں فرد کی حمایت کے جذبہ سے ہوئی ہے اور اس کا سارا خمیر انفرادی حقوق کے ایک مبالغہ آمیز تصور سے تیار ہوا ہے۔ اس لیے فرد خواہ جماعت پر کتنا ہی ظلم کرے، اہلِ مغرب کو کچھ زیادہ ناگوار نہیں ہوتا، بلکہ اکثر حالات میں وہ اسے بخوشی گوارا کر لیتے ہیں۔ البتہ جماعتی حقوق کی حفاظت کے لیے جب فرد پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے تو ان کے رونگٹے کھڑے ہونے لگتے ہیں اور ان کی ساری ہم دردیاں جماعت کی بجائے فرد کے ساتھ ہوتی ہیں۔ علاوہ بریں تمام اہلِ جاہلیت کی طرح جاہلیت مغرب کے پیروئوں کی بھی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ وہ معقولات کی بجائے محسوسات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ جو نقصان ایک فرد پرمترتب ہوتا ہے وہ چوں کہ محدود شکل میں محسوس طور پر ان کے سامنے آتا ہے اس لیے وہ اسے ایک امر عظیم سمجھتے ہیں۔ بخلاف اس کے وہ اس نقصان کی اہمیت کا ادراک نہیں کر سکتے۔ جو وسیع پیمانہ پر تمام سوسائٹی اور اس کی آیندہ نسلوں کو پہنچتا ہے، کیوں کہ وہ اپنی وسعت اور اپنی دور رسی کی بنا پر محسوس نہیں ہوتاے۔
(۲)حدِ قذف
زنا کے جونقصانات ہیں انھی سے ملتے جلتے نقصانات تہمتِ زنا (قذف) کے بھی ہیں کہ یہ شریف عورت پرزنا کی جھوٹی تہمت لگانا تنہا اسی کے لیے بدنامی کا موجب نہیں بلکہ اس سے خاندانوں میں دشمنی پھیلتی ہے، انساب مشتبہ ہوتے ہیں، ازدواجی تعلقات میں خرابی واقع ہوتی ہے اور ایک شخص محض ایک مرتبہ زبان ہلا کر بیسیوں انسانوں کو برسوں کے لیے عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ قرآن نے اس جرم کے لیے بھی سخت سزا تجویز کی ہے:
وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُہَدَاۗءَ فَاجْلِدُوْہُمْ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَۃً وَّلَا تَــقْبَلُوْا لَہُمْ شَہَادَۃً اَبَدًا۝۰ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَo (النور 4:24)
اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر الزام لگائیں پھر چار گواہ اس کے ثبوت میں پیش نہ کریں، انھیں اسّی (۸۰) کوڑے لگائو اور آیندہ کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو، ایسے لوگ خود ہی بدکار ہیں۔
۳۔ انسدادی تدابیر
اس طرح اسلام کا قانون فوج داری اپنی سیاسی طاقت سے ایک طرف تو بدکاری کو زبردستی روک دیتا ہے اور دوسری طرف سوسائٹی کے شریف ارکان کو بد نیت لوگوں کی بدزبانی سے بھی محفوظ کر دیتا ہے۔ اسلام کی اخلاقی تعلیم انسان کو اندر سے درست کرتی ہے تاکہ اس میں بدی اور گناہ کی طرف رجحان ہی پیدا نہ ہو اور اس کا تعزیری قانون اسے باہر سے دُرُست کرتا ہے تاکہ اَخلاقی تربیت کے ناقص رہ جانے سے اگر اس قسم کے رُجحانات پیدا ہو جائیں، اور قوت سے فعل میں آنے لگیں، تو انھیں بجبر روک دیا جائے۔ ان دونوں تدبیروں کے درمیان چند مزید تدبیریں اس غرض کے لیے اختیار کی گئی ہیں کہ اصلاحِ باطن کی اخلاقی تعلیم کے لیے مددگار ہوں۔ ان تدبیروں سے نظامِ معاشرت کو اس طرح درست کیا گیا ہے کہ اخلاقی تربیت کے نقائص سے جو کم زوریاں افراد جماعت میں باقی رہ جائیں انھیں ترقی کرنے اور قوت سے فعل میں آنے کا موقع ہی نہ مل سکے، سوسائٹی میں ایک ایسا ماحول پیدا ہو جائے جس میں بُرے میلانات کو نشوونما دینے والی آب و ہوا مفقود ہو، ہیجان انگیز تحریکات ناپید ہوں۔ صنفی انتشار کے اسباب انتہائی حد تک کم ہو جائیں اور ایسی تمام صورتوں کا سدِّباب ہو جائے جن سے نظامِ تمدن میں برہمی پیدا ہونے کا امکان ہو۔
اب ہم تفصیل کے ساتھ ان تدبیروں میں سے ایک ایک کو بیان کرتے ہیں۔
(۱)لباس اور ستر کے احکام
احکامِ معاشرت کے سلسلہ میں اسلام کا پہلا کام یہ ہے کہ اس نے برہنگی کا استیصال کیا اور مردوں اور عورتوں کے لیے ستر کے حدود مقرر کر دیے۔ اس معاملہ میں عرب جاہلیت کا جو حال تھا، آج کل کی مہذب ترین قوموں کا حال اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ وہ ایک دوسرے کے سامنے بے تکلف ننگے ہو جاتے تھے{ FR 6833 }۔ غسل اور قضائے حاجت میں پردہ کرنا ان کے نزدیک غیرضروری تھا۔ کعبہ کا طواف بالکل برہنہ ہو کر کیا جاتا تھا اور اسے ایک اچھی عبادت سمجھا جاتا تھا{ FR 6834 }۔ عورتیں تک طواف کے وقت برہنہ ہو جاتی تھیں{ FR 6835 }۔ ان کی عورتوں کا لباس ایسا تھا جس میں سینے کا کچھ حصہ کھلا رہتا تھا اور بازو، کمر اور پنڈلیوں کے بعض حصے کھل جاتے تھے{ FR 6836 }۔ بالکل یہی کیفیت آج یورپ، امریکا اور جاپان کی بھی ہے اور مشرقی ممالک میں بھی کوئی دوسرا نظامِ معاشرت ایسا نہیں ہے جس میں کشف و ستر کے حدود باقاعدہ مقرر کیے گئے ہوں۔
اسلام نے اس باب میں انسان کو تہذیب کا پہلا سبق سکھایا۔ اس نے بتایا کہ:
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا۝۰ۭ (الاعراف 26:7)
اے اولادِ آدم اللہ نے تم پر لباس اسی لیے اتارا ہے کہ تمھارے جسموں کو ڈھانکے اور تمھارے لیے موجبِ زینت ہو۔
اس آیت کی رو سے جسم ڈھانکنے کو ہر مرد و عورت کے لیے فرض کر دیا گیا۔ نبی اکرم a نے سخت احکام دیے کہ کوئی شخص کسی کے سامنے برہنہ نہ ہو۔
مَلْعُونٌ مَنْ نَظَرَ اِلٰی سَوْأَۃَ اَخِیْہِ ۔ (احکام القرآن للجصاص، سورۃ الاعراف)
ملعون ہے وہ جو اپنے بھائی کے ستر پر نظر ڈالے۔
لَایَنْظُر الرَّجُلُ اِلٰی عَورَۃِ الرَّجُلِ وَلَا الْمَرأَۃُ اِلٰی عَورَۃِ الْمَرأَۃِ۔
(صحیح مسلم،کتاب الحیض، باب تحریم النظر الی العورات، حدیث:۵۱۲)
کوئی مرد کسی مرد اور کوئی عورت کسی عورت کو برہنہ نہ دیکھے۔
لَأَنْ اَخِرَّ مِنَ السَّمَائِ فَانْقَطَعَ نِصْفَینِ أَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ أَنظُرَ اِلٰی عَورَۃِ أَحدٍ أَوْیَنْظُرَ اَحَدٌ اِلٰی عَورَتِی۔ (المبسوط، کتاب الاستحسان، باب النظر الی الا ٔجنبیات)
خدا کی قسم! مَیں آسمان سے پھینکا جائوں اور میرے دو ٹکڑے ہو جائیں، یہ میرے لیے زیادہ بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ میں کسی کے پوشیدہ مقام کو دیکھوں یا کوئی میرے پوشیدہ مقام کو دیکھے۔
اِیَّاکُمْ وَالتَّعْرِی فَاِنَّ مَعَکُمْ مَنْ لَا یُفَارِقُکُمْ اِلاَّ عِنْدَ الْغَائِطِ وَحِیْنَ یَفْضِی الرَّجُلُ اِلٰی اَھْلِہِ۔ (سنن ترمذی،کتاب الا ٔدب، باب ما جاء فی الاستتارعند الجماع، حدیث۲۷۲۴)
خبردار کبھی برہنہ نہ رہو، کیوں کہ تمھارے ساتھ وہ ہے جو تم سے کبھی جدا نہیں ہوتا، سوائے قضائے حاجت اور مباشرت کے وقت کے۔
إِذَا أَتٰی اَحَدُکُمْ اَھْلَہُ فَلْیَسْتَتُرْ وَلَا یَتَجَرَّدْ تَجَرُّدَ الْعَیْرَینِ۔
(سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب التستر عند الجماع، حدیث ۱۹۱۱)
جب تم میںسے کوئی اپنی بیوی کے پاس جائے تو اس وقت بھی ستر ڈھانکے اور بالکل گدھوں کی طرح ننگا نہ ہو جائے۔
ایک مرتبہ آں حضرت a زکوٰۃ کے اونٹوں کی چراگاہ میں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ چرواہا جنگل میں ننگا لیٹا ہے۔ آپ نے اسی وقت اسے معزول کر دیا اور فرمایا:
لَایَعْمَلُ لَنَا مَنْ لَا حَیَاَئ لَہُ ۔ (المبسوط، کتاب الاستحسان، باب النظر إلی الا ٔجنبیات)
جو شخص بے شرم ہے وہ ہمارے کسی کام کا نہیں۔
(۲)مردوں کے لیے ستر کے حدود
ا ن احکام کے ساتھ عورتوں اور مردوں کے لیے جسم ڈھانکنے کے حدود بھی الگ الگ مقرر کیے گئے۔ اصطلاحِ شرعی میں جسم کے اُس حصہ کو ستر کہتے ہیں جس کا ڈھانکنا فرض ہے۔ مرد کے لیے ناف اور گھٹنے کے درمیان کا حصہ ’’ستر‘‘ قرار دیا گیا ہے اور حکم دیا گیا کہ اسے نہ کسی کے سامنے کھولیں اور نہ کسی دوسرے شخص کے اس حصہ پر نظر ڈالیں۔
عن ابی ایوب الانصاری عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم مَافَوْقَ الرُّکْبَتَینِ مِنَ الْعَوَرۃِ وَمَا اَسْفَلَ مِنَ السُّرَّۃِ مِنَ الْعَورَۃِ۔
(سنن الدارقطنی، کتاب الصلاۃ، باب الا ٔمر بتعلیم الصلوات، حدیث:۹۰۲)
حضرت ابو ایوب الانصاریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم a نے ارشاد فرمایا: جو کچھ گھٹنے کے اوپر ہے وہ چھپانے کے لائق ہے اور جو کچھ ناف کے نیچے ہے وہ چھپانے کے لائق ہے۔
عَوْرَۃُ الرَّجُلِ مَابَیْنَ سُرَّتِہِ اِلِیٰ رُکْبَتِہِ ۔ (المبسوط، ج۱۰، ص۲۵۱)
مرد کے لیے ناف سے گھٹنے تک کا حصہ چھپانے کے لائق ہے۔
عَنْ عَلِیّ ابْنِ اَبیِ طَالِبٍ عَنِ النَّبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَاتَبْرُزْ فَخِذَکَ وَلَاتَنْظُرْ؟ اِلٰی فَخِذِ حَیّ وَلَامَیّتٍ۔
( سنن ابی دائود، کتاب الجنائز، باب فی ستر المیت عند غسلہ، حدیث۳۱۴۰)
حضرت علیؓ بن ابی طالب سے روایت ہے کہ نبی کریم a نے ارشاد فرمایا: اپنی ران کو کسی کے سامنے نہ کھول اور نہ کسی زندہ شخص یا مردہ شخص کی ران پر نظر ڈال۔
اِحْفَظْ عَورَتَکَ اِلاَّ مِنْ زَوْجَتِکِ أَوْمَامَلَکَتْ یَمِیْنُکَ۔
(سنن ابی دائود، کتاب الحمام، باب ماجائ فی التعری، حدیث ۳۵۰۱)
اپنے ستر کی حفاظت کرو بجز اپنی بیویوں اور ان لونڈیوں کے جو تمھارے تصرف میں ہوں۔
(۳)عورتوں کے لیے ستر کے حدود
عورتوں کے لیے ستر کے حدود اس سے زیادہ وسیع رکھے گئے ہیں۔ انھیں حکم دیا گیا کہ اپنے چہرے اور ہاتھوں کے سوا تمام جسم کو تمام لوگوں سے چھپائیں۔ اس حکم میں باپ، بھائی اور تمام رشتہ دار مرد شامل ہیں اور شوہر کے سوا کوئی مرد اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
لَا یَحِلُّ لِامْأَۃٍ تُوْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِر اَنْ تَخْرُجَ یَدَیْھَا اِلاَّ اِلٰی ھٰھُنَا وَقَبَضَ نِصْفَ الذِرَاعِ۔ (تفسیر ابن جریرتفسیر سورہ النور، آیت۳۱)
نبی اکرم a نے فرمایا کہ ’’کسی عورت کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتی ہو، جائز نہیں کہ وہ اپنا ہاتھ اس سے زیادہ کھولے: یہ کہہ کر آپ نے اپنی کلائی کے نصف حصہ پر ہاتھ رکھا۔
اَلْجَارِیَۃُ اِذَا حَاضَتْ لَمْ یُصْلِحْ اَن یُّرٰی مِنْھَا اِلاَّ وَجْھَھَا وَیَدَھَا اِلَی الْمَفْصَلِ۔
(فتح القدیر، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ التی تتقد مھا)
جب عورت بالغ ہو جائے تو اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر نہ آنا چاہیے سوائے چہرہ ا ور کلائی کے جوڑ تک ہاتھ کے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اپنے بھتیجے عبداللہ بن الطفیل کے سامنے زینت کے ساتھ آئی تو نبی اکرم a نے اسے ناپسند کیا۔
مَیں نے عرض کیا یارسول اللہ a یہ تو میرا بھتیجا ہے۔ حضور اکرم aنے فرمایا:
إِذَا عَرَقَتْ الْمَرْأۃُ لَمْ یَحِلُّ لَھَا اَنْ تُظْھِرَاِلاَّ وَجْھَھَا وَاِلاَّ مَادُونَ ھٰذَا وَقَبَضَ عَلٰی ذِرَاعِ نَفْسِہِ فَتَرَکَ بَیْنَ بَیْنَ قَبْضَتِہِ وَبَیْنَ الْکَفِّ مِثْلَ قَبْضَتِہِ اُخْرٰی۔
(تفسیرابن جریرالنور: ۳۱)
جب عورت بالغ ہو جائے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ اپنے جسم میں سے کچھ ظاہر کرے سوائے چہرے کے اور سوائے اس کے۔ یہ کہہ کر آپ نے اپنی کلائی پر اس طرح ہاتھ رکھا کہ آپ کی گرفت کے مقام اور ہتھیلی کے مقام کے درمیان صرف ایک مٹھی بھر جگہ باقی تھی۔
حضرت اسما بنت ابی بکرؓ جو آں حضرت a کی سالی تھیں ، ایک مرتبہ آپ کے سامنے باریک لباس پہن کر حاضر ہوئیں اس حال میں کہ جسم اندر سے جھلک رہا تھا۔ حضوراکرم a نے فورًا نظر پھیر لی اور فرمایا:
یَااَسْمائُ اِنَّ الْمَرْأَۃَ اِذَا بَلَغَتْ الْمَحِیْضَ لَمْ یُصْلِحْ أَنْ یُریٰ مِنْھَا اِلاَّ ھٰذَا وَھٰذَا وَاَشَارَاِلٰی وَجْھِہِ وَکَفِّہِ۔ ( فتح القدیر کتاب الکراھیۃ، فصل فی الوط ئ و النظر و اللمس)
اے اسما عورت جب سنِ بلوغ کو پہنچ جائے تو دُرُست نہیں کہ اس کے جسم میں سے کچھ دیکھا جائے بجز اس کے اور اس کے۔ یہ کہہ کر آپ نے اپنے چہرے اور ہتھیلیوں کی طرف اشارہ فرمایا۔
حفصہ بنت عبدالرحمن حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ وہ ایک باریک دوپٹا اوڑھے ہوئے تھیں۔ حضرت عائشہؓ نے اسے پھاڑ دیا اور ایک موٹی اوڑھنی ان پر ڈالی۔
(موطا امام مالک کتاب الجامع، باب مایکرہ اللنسائ لبسہ من الثیاب، حدیث۱۴۲۰)
نبی اکرم a کا اِرشاد ہے کہ
لَعَنَ اللہُ الْکَاسِیَاتِ الْعَارِیَاتِ۔ (المبسوط، کتاب الاستحسان، باب النظرإ لیٰ الا ٔجنبیات)
اللہ کی لعنت ہے اُن عورتوں پر جو لباس پہن کر بھی ننگی کی ننگی رہیں۔
حضرت عمرؓ کا ارشاد ہے کہ اپنی عورتوں کو ایسے کپڑے نہ پہنائو جو جسم پر اس طرح چست ہوں کہ سارے جسم کی ہیئت نمایاں ہو جائے۔ (المبسوط، کتاب الاستحسان‘ باب النظرإلیٰ الاجنبیات)
ان تمام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ چہرے اور ہاتھوں کے سوا عورت کا پورا جسم ستر میں داخل ہے جسے اپنے گھر میں اپنے قریب ترین عزیزوں سے بھی چھپانا اس پر واجب ہے۔ وہ شوہر کے سوا کسی کے سامنے اپنے ستر کو نہیں کھول سکتی، خواہ وہ اس کا باپ، بھائی یا بھتیجا ہی کیوں نہ ہو۔ حتّٰی کہ وہ ایسا باریک لباس بھی نہیں پہن سکتی جس میں ستر نمایاں ہوتا ہو۔
اس باب میں جتنے احکام ہیں وہ سب جوان عورت کے لیے ہیں۔ ستر کے احکام اس وقت سے عائد ہوتے ہیں جب سے عورت سنِ رشد کے قریب پہنچ جائے، اور اس وقت تک نافذ رہتے ہیں جب تک اس میں صنفی کشش باقی رہے۔ اس عمر سے گزر جانے کے بعد ان میں تخفیف کر دی جاتی ہے۔ چنانچہ قرآن میں ہے:
وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاۗءِ الّٰتِيْ لَا يَرْجُوْنَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْہِنَّ جُنَاحٌ اَنْ يَّضَعْنَ ثِيَابَہُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجٰتٍؚبِزِيْنَۃٍ۝۰ۭ وَاَنْ يَّسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّہُنَّ۝۰ۭ (النور 60:24)
اور بوڑھی عورتیں جو نکاح کی امید نہیں رکھتیں اگر اپنے دوپٹے اتار رکھا کریں تو اس میں کوئی مضایقہ نہیں بشرطیکہ اپنی زینت کی نمائش مقصود نہ ہو اور اگر وہ احتیاط رکھیں تو یہ ان کے لیے بہتر ہے۔
یہاں تخفیف کی علت صاف بیان کر دی گئی ہے۔ نکاح کی امید باقی نہ رہنے سے ایسی عمر مراد ہے جس میں صنفی خواہشات فنا ہو جاتی ہیں اور کوئی کشش بھی باقی نہیں رہتی۔ تاہم مزید احتیاط کے طورپر یہ شرط لگا دی گئی کہ زینت کی نمائش مقصود نہ ہو۔ یعنی اگر صنفی خواہشات کی ایک چنگاری بھی سینہ میں باقی ہو تو دوپٹا وغیرہ اُتار کر بیٹھنا دُرُست نہیں۔ تخفیف صرف ان بوڑھیوں کے لیے ہے جنھیں سن رسیدگی نے لباس کی قیود سے بے پروا کر دیا ہو اور جن کی طرف بجز احترام کی نظروں کے اور کسی قسم کی نظریں اٹھنے کا کوئی امکان نہ ہو۔ ایسی عورتیں گھر میں بغیر دوپٹے اور اوڑھنی کے بھی رہ سکتی ہیں۔
(۴)استیذان
اس کے بعد دوسری حد یہ قائم کی گئی کہ گھر کے آدمیوں کو بلا اطلاع اچانک گھروں میں داخل ہونے سے منع کر دیا تاکہ عورتوں کو کسی ایسے حال میں نہ دیکھیں جس میں مردوں کو نہیں دیکھنا چاہیے۔
وَاِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَاْذِنُوْا كَـمَا اسْتَاْذَنَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝۰ۭ ( النور 59:24)
اور جب تمھارے لڑکے سنِ بلوغ کو پہنچ جائیں تو چاہیے کہ وہ اسی طرح اجازت لے کر گھر میں آئیں جس طرح ان کے بڑے ان سے پہلے اجازت لے کر آتے تھے۔
یہاں بھی علتِ حکم پر روشنی ڈال دی گئی ہے۔ استیذان کی حد اسی وقت شروع ہوتی ہے جب کہ صنفی احساس پیدا ہو جائے۔ اس سے پہلے اجازت مانگنا ضروری نہیں۔
اس کے ساتھ غیر لوگوں کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ کسی کے گھر میں بلا اجازت داخل نہ ہوں:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَاتَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَہْلِہَا۝۰ۭ (النور 27:24)
اے اہلِ ایمان! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہو جب تک کہ اہلِ خانہ سے پوچھ نہ لو اور جب داخل ہو تو گھر والوں کو سلام کرو۔
اصل مقصد اندرونِ خانہ اور بیرونِ خانہ کے درمیان حد بندی کرنا ہے تاکہ اپنی خانگی زندگی میں عورتیں اور مرد اجنبیوں کی نظروں سے محفوظ رہیں۔ اہلِ عرب ابتدا میں ان احکام کی علت کو نہ سمجھ سکے، اس لیے بسا اوقات وہ گھر کے باہر سے گھروں میں جھانک لیتے تھے۔ ایک مرتبہ خود آں حضرت a کے ساتھ بھی یہ واقعہ پیش آیا۔ آپ اپنے حجرے میں تشریف رکھتے تھے۔ ایک شخص نے تاب دان میں سے جھانکا۔ اس پر آپ نے فرمایا: ’’اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تُو جھانک رہا ہے تو مَیں تیری آنکھ میں کوئی چیز چبھو دیتا۔ استیذان کا حکم تو نظروں سے بچانے ہی کے لیے دیا گیا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب الاستیذان ،باب الاستیذان من اجل البصر، حدیث:5772)
اس کے بعد آپ نے اعلان فرمایا کہ ’’اگر کوئی شخص کسی کے گھر میں بِلا اجازت دیکھے تو گھر والوں کو حق ہے کہ اس کی آنکھ پھوڑ دیں۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الاداب ، باب تحریم النظر فی بیت غیرہ، حدیث:4013)
پھر اجنبی مردوں کو حکم دیا گیا کہ کسی دوسرے کے گھر سے کوئی چیز مانگنا ہو تو گھر میں نہ چلے جائیں بلکہ باہر پردے کی اوٹ سے مانگیں:
وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔــلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَاۗءِ حِجَابٍ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ اَطْہَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَقُلُوْبِہِنَّ۝۰ۭ (الاحزاب 53:33)
اور جب تم عورتوں سے کوئی چیز مانگو تو پردے کی اوٹ سے مانگو۔ اس میں تمھارے دلوں کے لیے بھی پاکیزگی ہے اور ان کے دلوں کے لیے بھی۔
یہاں بھی حد بندی کے مقصد پر ذٰلِكُمْ اَطْہَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَقُلُوْبِہِنَّ۝۰ۭ(الاحزاب 53:33) سے پوری روشنی ڈال دی گئی ہے۔ عورتوں اور مردوں کو صنفی میلانات اور تحریکات سے بچانا ہی اصل مقصود ہے اور یہ حدبندیاں اسی لیے کی جا رہی ہیں کہ عورتوں اور مردوں کے درمیان خلا ملا اور بے تکلفی نہ ہونے پائے۔
یہ احکام صرف اجانب ہی کے لیے نہیں بلکہ گھر کے خدام کے لیے بھی ہیں۔ چنانچہ روایت میں آیا ہے کہ حضرت بلال یا حضرت انسؓ نے سیّدہ فاطمہؓ سے آپ کے کسی بچے کو مانگا تو آپ نے پردے کے پیچھے سے ہاتھ بڑھا کر دیا۔ حالانکہ یہ دونوں حضور نبی اکرم a کے خدامِ خاص تھے اور آپ کے پاس گھر والوں کی طرح رہتے تھے۔ (فتح القدیر)
(۵)تخلیہ اور لمس کی ممانعت
تیسری حد بندی یہ کی گئی کہ شوہر کے سوا کوئی مرد کسی عورت کے پاس نہ تخلیہ میں رہے اور نہ اس کے جسم کو مس کرے، خواہ وہ قریب ترین عزیز ہی کیوں نہ ہو:
عن عقبۃ بن عامر اَنَّ رَسُولَ اللہِ قَالَ اِیَّاکُمْ وَالدُّخُولَ عَلٰی النِّسَائِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْاَنْصَارِ یَارَسُولَ اللہِ اَفَرَأَیْتَ الْحَمْوَ قَالَ اَلْحَمْوُالْمَوتُ۔
(صحیح البخاری،کتاب النکاح، باب لا یدخلون رجل بامرائۃ الاذو محرم۔صحیح مسلم، باب تحریم الخلو بالاجنبیہ، حدیث: ۴۸۳۱)
عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ حضور اکرم a نے فرمایا: خبردار عورتوں کے پاس تنہائی میں نہ جائو۔ انصار میں سے ایک شخص نے عرض کیا: یارسول اللہ ؐ! دیور اور جیٹھ کے متعلق کیا ارشاد ہے؟ فرمایا: ’’وہ موت ہے۔‘‘
لَاتَلِجُوْا عَلی الْمُغِیْبَاتِ فَإِنَّ الشَّیْطٰنَ یَجْرِی مِنْ اَحَدِکُمْ مَجْرَی الدَّمِ۔
(سنن الترمذی، کتاب الرضاع ، باب کراہیۃ الدخول علی المغیبات، حدیث ۱۰۹۲)
شوہروں کی غیر موجودگی میں عورتوں کے پاس نہ جائو کیوں کہ شیطان تم میں سے کسی کے اندر خون کی طرح گردش کر رہا ہے۔
عَنْ عَمْروا بْنِ عَاصٍ قَالَ نَھَانَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ نَدْخُلَ عَلٰی النِّسَائَ بِغَیرِ اِذْنِ اَزْوَاجِھِنَّ۔
(سنن ترمذی،کتاب الا ٔدب، باب فی النہی عن الدخول علی النساإلا باذن ازواجہن حدیث: ۲۷۰۳)
عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ہمیں عورتوں کے پاس ان کے شوہروں کی اجازت کے بغیر جانے سے منع فرما دیا۔
لَایَدْ خُلَنَّ رَجُلٌ بَعْدَ یَومِی ھَذَا عَلٰی مُغِیْبَۃِ اِلَّامَعَہَ رَجُلٌ اَوْاِثْنَانِ۔
(صحیح مسلم،کتاب السلام، باب تحریم الخلوۃ الاجنبیۃ حدیث۴۰۳۹)
آج کے بعد سے کوئی شخص کسی عورت کے پاس اس کے شوہر کے غیاب میں نہ جائے تاوقتیکہ اس کے ساتھ ایک دو آدمی اور نہ ہوں۔ایسے ہی احکام لمس کے متعلق بھی ہیں:
قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم منَ مَسَّ کَفَّ اِمْرَأۃٍ لَیْسَ مِنْھَا بِسَبِیْلٍ وَضَعَ عَلٰی کَفَّہِ جَمْرَۃً یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔ (نصب الرایۃ، ج۸،ص۱۰۹)
حضور اکرم a نے فرمایا جو شخص کسی عورت کا ہاتھ چھوئے گا جس کے ساتھ اس کا جائز تعلق نہ ہو، اس ہتھیلی پر قیامت کے روز انگارا رکھا جائے گا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ نبی اکرم a عورتوں سے صرف زبانی اقرار لے کر بیعت لیا کرتے تھے، ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں نہ لیتے تھے۔ آپ نے کبھی ایسی عورت کے ہاتھ کو مس نہیں کیا جو آپ کے نکاح میں نہ ہو۔
(صحیح البخاری،کتاب الا ٔحکام، باب بیعۃ النسا۔صحیح مسلم،کتاب الامارۃ، باب کیفیۃ بیعۃ النسائ،حدیث:۶۶۷۴ )
امیمہ بن رقیقہ کا بیان ہے کہ میں چند عورتوں کے ساتھ حضور اکرم a سے بیعت کرنے حاضر ہوئی۔ آپ ؐ نے ہم سے اقرار لیا کہ شرک، چوری، زِنا، بہتان تراشی و افترا پردازی، اور نبی کی نافرمانی سے احتراز کرنا۔ جب اقرار ہو چکا تو ہم نے عرض کیا کہ تشریف لائیے تاکہ ہم آپ ؐ سے بیعت کریں۔ آپ ؐ نے فرمایا۔ میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا، صرف زبانی اقرار کافی ہے۔ (سنن النسائی ،کتاب البیعۃ، باب بیعۃ النسا، حدیث۴۱۱۰)
یہ احکام بھی صرف جوان عورتوں کے لیے ہیں۔ سِن رسیدہ عورتوں کے ساتھ خلوت میں بیٹھنا جائز ہے اور انھیں چھونا بھی ممنوع نہیں۔ چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ کے متعلق منقول ہے کہ وہ ایک قبیلہ میں جاتے تھے جہاں انھوں نے دودھ پیا تھا اور آپ اس قبیلہ کی بوڑھی عورتوں سے مصافحہ کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ کے متعلق یہ روایت ہے کہ وہ ایک بوڑھی عورت سے پائوں اور سر دبوا لیا کرتے تھے۔ یہ امتیاز جو بوڑھی اور جوان عورتوں کے درمیان کیا گیا ہے، خود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ دراصل دونوں صنفوں کے درمیان ایسے اختلاط کو روکنا مقصود ہے جو فتنے کا سبب بن سکتا ہے۔
(۶)محرموں اور غیر محرموں کے درمیان فرق
یہ تو وہ احکام تھے جن میں شوہر کے سوا تمام مرد شامل ہیں خواہ وہ محرم ہوں یا غیر محرم۔ عورت ان میں سے کسی کے سامنے اپنا ستر، یعنی چہرے اور ہاتھ کے سوا جسم کا کوئی حصہ نہیں کھول سکتی۔ بالکل اسی طرح جس طرح مرد کسی کے سامنے اپنا ستر یعنی ناف اور گھٹنے کے درمیان کا حصہ نہیں کھول سکتا۔ سب مردوں کو گھروں میں اجازت لے کر داخل ہونا چاہیے اور ان میں سے کسی کا عورت کے پاس خلوت میں بیٹھنا یا اس کے جسم کو ہاتھ لگانا جائز نہیں۔{ FR 6837 }
اس کے بعد محرموں اور غیر محرموں کے درمیان تفریق کی جاتی ہے۔ قرآن اور حدیث میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ آزادی اور بے تکلفی کے کون سے مدارج ایسے ہیں جو صرف محرم مردوں کے سامنے برتے جا سکتے ہیں اور غیر محرم مردوں کے سامنے برتنے جائز نہیں ہیں۔ یہی چیز ہے جسے عرفِ عام میں پردہ یا حجاب سے تعبیرکیا جاتا ہے۔

شیئر کریں