ماہ جون ۱۹۳۳ء کے نگار میں حضرت نیاز فتح پوری نے ترجمان القرآن پر ایک مفصل تبصرہ فرمایا ہے جس کے لیے میں ان کا شکرگزار ہوں۔ اگرچہ عموماً رسائل و جرائد کے انتقادات({ FR 1103 }) پر بحث کرنے اور ان پر جوابی نقد کرنے کا دستور نہیں ہے لیکن چونکہ ناقد فاضل نے اپنے تبصرے میں ایسے خیالات کا اظہار کیا ہے جو اُن کے مذہب تجدد(۲) کے مخصوص اصول و مبادی سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کی اصلاح کرنا ترجمان القرآن کے اولین مقاصد میں سے ہے‘ اس لیے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ان پر اظہار خیال کے پہلے موقع سے فائدہ اٹھائوں۔ وہ لکھتے ہیں:
اس رسالے کا مقصود اس کے نام سے ظاہر ہے‘ یعنی مطالبِ قرآنی اور تعلیماتِ فرقانی کو ان کی صحیح روشنی میں لوگوں کے سامنے پیش کرنا۔ یقیناً اس مقصود کی افادیت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا، لیکن جیسا کہ خود فاضل اڈیٹر نے ظاہر کیا ہے‘ عہد حاضر میں اس مدّعا کی تکمیل آسان نہیں۔ عہد ماضی میں جب مذہب نام صرف اسلاف پرستی و قدامت پرستی کا تھا‘ کسی شخص کا مبلغ یا مصلح بن جانا دشوار نہ تھا، لیکن اب جب کہ علوم جدیدہ اور اکتشافاتِ حاضرہ نے عمل و خیال کی بالکل نئی طرح ڈال کرحریت فکر و ضمیر کی دولت سے دماغوں کو مالا مال کردیا ہے‘ مذہب صرف اس دلیل کی بنیاد پر زندہ نہیں رہ سکتا کہ اس کے اسلاف کا طرز عمل بھی یہی تھا‘ اور وہ بھی وہی سوچتے تھے جو اَب بتایا جاتا ہے۔
پہلے اگر خدا کی وحدانیت سے بحث کی جاتی تھی تو اب سرے سے خدا کا وجود ہی محل نظر بتایا جاتا ہے۔ اگر پہلے رسولؐ کی ہدایت اس کے معجزوں سے ثابت کی جاسکتی تھی تو اب علوم مقناطیسیہ انھی معجزوں کی دلیل پر ہزاروں رسول و نبی پیدا کرنے کے لیے آمادہ ہیں۔ پہلے ایک واعظ آسمان کی طرف دیکھ کر عرش و کرسی والے خدا کو پکار سکتا تھا‘ لیکن آج جب کہ آسمان ہی کوئی چیز نہ رہا‘ اس کا ایسا کرنا کسی طرح مفید یقین نہیں ہو سکتا۔ الغرض اب زمانہ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ البقرہ 3:2 کا نہیں رہا بلکہ یُؤْمِنُوْنَ بِالتَّجْرِبَۃِ وَالشُّھُوْدِ کا ہے‘ اور ایسے نازک وقت میں کسی شخص کا مذہب کی حمایت کے لیے کھڑا ہو جانا آسان کام نہیں‘ جب کہ خود نفس مذہب کا خیال بھی اپنی جگہ چنداں قابل قبول نہیں۔
آگے چل کر وہ فرماتے ہیں:
قرآن پاک اپنے معنی کے لحاظ سے تین حصوں پر منقسم ہے:
۱۔ ایک وہ جس میں اخلاق کی تعلیم دی گئی ہے۔
۲۔ دوسرا وہ جس میں اعتقادات پیش کیے گئے ہیں۔
۳۔ تیسرا وہ جو قصص و تمثیلات پر مشتمل ہے۔
حصہ اوّل کے متعلق نہ زیادہ لکھنے کی ضرورت ہے اور نہ کسی دلیل و برہان کے لانے کی کیونکہ تعلیم اخلاق تمام مذاہب کی تقریباً یکساں ہے اور ہر شخص یہ ماننے پر مجبور ہے کہ مذہب اسلام کی تعلیم دوسرے مذاہب کی تعلیم سے مختلف یا فروتر({ FR 1151 }) نہیں ہے۔ البتہ حصہ دوم اور حصہ سوم پر زیادہ توجہ کرنا چاہیے کیونکہ علوم جدیدہ اور اکتشافات حالیہ نے انھی دو حصوں کی طرف سے ریب و تذبذب(۲) کی کیفیات لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دی ہے اور واقعہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ان شبہات کے دور کر دینے میں کامیاب ہو جائے تو وہ اس صدی کا مجدد کہلائے جانے کا مستحق ہوگا۔
اس لیے میں مشورہ دوں گا کہ ایک مستقل باب اس موضوع پر قائم کرکے تمام ان آیات قرآنی کا استقصاء(۳) کرنا چاہیے جو عقائد و قصص کے متعلق ہیں اور ان کا صحیح مفہوم و مدّعا متعین کرکے ان اعتراضات کو رفع کرنا چاہیے جو اس وقت اہل علم و تحقیق کی طرف سے وارد کیے جاتے ہیں۔
آخرمیں وہ لکھتے ہیں:
آئندہ کے لیے میں ان کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ سب سے پہلے وحی و الہام کی حقیقت پر گفتگو کریں کہ اسی کے سمجھنے پر کلام اللہ کی حقیقت کا سمجھنا منحصر ہے، اور مسئلۂ معاد({ FR 1105 }) کو لیں کہ اسی کے حل ہونے پر انحصار مذہبیت و لا مذہبیت کا ہے۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ کلام الٰہی اور معاد کا کیا مفہوم متعین کرتے ہیں۔ اس کے بعد میں اپنے شبہات و اعتراضات پیش کروں گا اور اگر ان کی کوشش سے وہ دور ہوگئے تو مجھے بڑی مسرت ہوگی کیونکہ ’ناچار مسلمان شو‘ کی جس لعنت میں بہت سے لوگ گرفتار ہیں‘ ان کا ایک بڑا سبب عقیدہ معاد بھی ہے۔
فاضل مبصر نے جن فروعی و جزئی مسائل کی طرف اشارے کیے ہیں ان کو چھوڑ کر میں صرف ان امور سے بحث کرنا چاہتا ہوں جن کا تعلق اصول سے ہے۔
انھوں نے قرآن مجید کے مباحث کی تقسیم تین حصوں پر کی ہے، لیکن ہم بآسانی ان کو صرف دو حصوں پر تقسیم کرسکتے ہیں:
o ایک وہ حصہ جن کا تعلق ان امور سے ہے جو ہمارے علم کی حدود سے باہر ہیں۔ ہمارے ادراک کی سرحد سے ماورا(۲) ہیں‘ جن کے متعلق ہم قطعیت کے ساتھ صحیح یا غلط ہونے کا کوئی حکم نہیں لگا سکتے اور جن میں قرآن ہم کو ایمان بالغیب لانے کی دعوت دیتا ہے۔
o دوسرے وہ امور جو ہمارے دائرہ علم سے باہر نہیں ہیں‘ اور جن میں قطعیت کے ساتھ کوئی حکم عقلی لگانا ہمارے لیے ممکن ہے۔
پہلے حصے میں وجود و صفات الٰہی ‘ فرشتے‘ وحی و کتب آسمانی حقیقت نبوت‘ بعث بعد الموت‘ عذاب و ثواب آخرت‘ اور ایسے ہی دوسرے مسائل کے علاوہ وہ تمام ماورائے سرحد علم و ادراک کی(۳) باتیں بھی آجاتی ہیں جو قصص اور تمثیلات کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں۔ عام اس سے کہ وہ بالذات عام انسانی ادراک کی سرحد سے ماورا ہوں‘ یا اس بنا پر ایسی ہوں کہ سردست ہم جس مرتبہ عقلی و علمی میں ہیں اس میں ہم ان کی صحت و صداقت کے متعلق کوئی حکم لگانے کے قابل نہیں ہیں۔ دوسرے حصے میں وہ تمام امور آجاتے ہیں جن کا تعلق اسلام کی تعلیم حکمت و تزکیۂ نفوس اور تنظیمِ حیات انسانی کے اصول سے ہے۔
ناقد فاضل کی رائے میں دوسرے حصے سے بحث کرنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ اس بارے میں جیسے اور مذاہب ہیں ویسا ہی اسلام بھی ہے، البتہ بحث صرف پہلے حصے سے کی جانی چاہیے، اس لیے کہ لوگوں میں ریب و تذبذب کی کیفیت انھی امور کے بارے میں پیدا ہوگئی ہے جو اس حصے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پھر یہ سوال کہ ان امور کے متعلق ریب و تذبذب کیوں پیدا ہو رہا ہے؟ اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ عہد ماضی میں تو قدامت پرستی اور جہالت کی وجہ سے لوگ غیب کی باتوں پر ایمان لے آتے تھے‘ لیکن اب علوم جدیدہ اور اکتشافات حاضرہ نے عمل و خیال کی بالکل نئی طرح ڈال کر حریت فکرو ضمیر کی دولت سے دماغوں کو مالا مال کر دیا ہے، اس لیے اب يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ البقرہ 3:2کا زمانہ نہیں رہا بلکہ یُؤْمِنُوْنَ بِالتَّجْرِبَۃِ وَالشُّھُوْدِ کا زمانہ ہے۔
اس رائے کی بنیاد چند غلطیوں پر ہے جن میں پہلی غلطی گزشتہ اور موجودہ زمانے کے حقیقی فرق کو نہ سمجھنا ہے۔ بدقسمتی سے تنہا حضرت نیاز ہی نہیں بلکہ ایک بہت بڑا گروہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ مذہب کی شمع صرف گذشتہ زمانے کی تاریکی میں جل سکتی تھی۔ علومِ جدیدہ کا آفتاب طلوع ہونے کے بعد اس کا روشن ہونا مشکل ہے۔ حالانکہ علوم عقلیہ جن کو یہ لوگ روشنی سے تعبیر کرتے ہیں کچھ اس زمانے کی مخصوص متاع نہیں ہیں۔ گذشتہ زمانے میں بھی ان علوم کی روشنی نے آنکھوں کو اس طرح خیرہ کیا ہے اور گذشتہ زمانے میں بھی جن لوگوں کی آنکھیں ان سے خیرہ ہوئی ہیں‘ انھوںنے یہی سمجھا ہے کہ مذہب کی شمع اب روشن نہیں رہ سکتی۔ جو علوم اس زمانے کے علوم جدیدہ اور جو اکتشافات اس زمانے کے اکتشافاتِ حاضرہ تھے‘ وہ ان کے زعم میں عمل و خیال کی بالکل نئی طرحیں ڈال چکے تھے اور انھوں نے دماغوں کو حریت فکر و ضمیر کی دولت سے ایسا مالا مال کیا تھا کہ ان کے روشن زمانے میں يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ البقرہ 3:2 کی گنجائش ہی نہ تھی۔ کیا بالکل یہی حالت دوسری صدی ہجری سے چوتھی صدی تک نہیں گزری ہے‘ افلاطون‘ ارسطو‘ اپکیورس‘ زینو‘ برقلس اسکندر‘ فردوسی‘ فلاطینوس‘ اور دوسرے علمائے فلسفہ و حکمت کے خیالات جب اسلامی ممالک میں شائع ہوئے اور ان کی بدولت فلسفیانہ تفکر اور عقلی اجتہاد کا ایک نیا دور شروع ہوا تو کیا اس وقت بھی ایک گروہ نے بالکل یہی نہ سمجھا تھا جو اب ایک گروہ سمجھ رہا ہے؟ کیا اس زمانے کی حریت فکر و ضمیر اور ’’عمل و خیال کی نئی طرح‘‘ نے اسی طرح لوگوں کو مذہبی معتقدات کی طرف سے ریب و شک میں نہ ڈال دیا تھا؟ مگر پھر کیا ہوا؟ فلاسفہ کے بہت سے نظری و قیاسی مسائل جن پر اس وقت کے لوگ ایمان لے آئے تھے‘ بعد میں غلط ثابت ہوئے۔ وہ آفتابِ علم جن کے سامنے ان لوگوں کو مذہب کی شمع ٹمٹماتی({ FR 1153 }) نظر آرہی تھی زمانے کی ایک ہی گردش میں بے نور ہو کر رہ گیا۔ ان کے علوم جدیدہ فرسودہ ہوگئے۔ ان کے ’اکتشافاتِ حاضرہ‘ میں عمل و خیال کی نئی طرحیں ڈالنے کی قوت باقی نہ رہی‘ اور جو طَرحیں انھوں نے ڈالی تھیں وہ سب پرانی ہو گئیں۔ حتیٰ کہ اپنے زمانے کے اکتشافات پر کامل یقین و اذعان رکھتے ہوئے انھوں نے جو عقلی استدلالات کیے تھے اور ان پر جن مذاہب حکمت کی بنیاد رکھی تھی ان میں سے اکثر کو آج ایک معمولی طالب علم بھی لغو(۲) و مہمل(۳) قرار دینے میں تامل نہیںکرتا۔
اب اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ گذشتہ زمانے کی تاریکی میں مذہب کی شمع جل سکتی تھی مگر اب اس روشنی کے زمانے میں نہیں جل سکتی‘ تو ہمیں بالکل ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ جن چیزوں کو آج علوم جدیدہ و اکتشافات حاضرہ کہہ کر وہی دعوے کیے جارہے ہیں جو پہلے کیے تھے‘ ان کے متعلق بھی ہم کو یقین ہے کہ ان میں سے بیش تر کا وہی حشر ہونا ہے جوگذشتہ لوگوں کے’’ علوم جدیدہ‘‘ اور ’’اکتشافات حاضرہ‘‘ کا ہو چکا ہے اور ’’عمل و خیال کی یہ نئی طرحیں‘‘ بھی زمانے کی گردش کے ساتھ پرانی اور فرسودہ ہو جانے والی ہیں۔ آپ ان تمام علوم و اکتشافات پر ایک غائر نظر ڈالیے جو آپ کا سرمایہ فخر و ناز ہیں‘ اور خود ان لوگوں سے جو ان علوم و اکتشافات کے اصلی محقق اور مکتشف ہیں دریافت کیجیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ گذشتہ علوم کی طرح ان میں بھی ایسے یقینیات بہت کم ہیں جن کے متعلق اعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہو کہ ان کے غلط ثابت ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ باقی جتنی چیزیں ہیں سب ظنون،(۴) قیاسات، نظریات‘ ارتیابات(۵) اور تذبذبات ہیں جن کے متعلق یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ترقی کی جانب زمانے کا قدم جتنا جتنا آگے بڑھتا جائے گا یہ علوم جدیدہ اور اکتشافات حاضرہ قدامت کا لباس عار پہنتے جائیں گے اور عمل و خیال کی نئی طرحیں جو ان ناپائدار علوم و اکتشافات کے بھروسے پر پڑی ہیں‘ کچھ دوسری نئی طرحوں کے لیے جگہ خالی کرتی جائیں گی۔
پس جب حال یہ ہے تو ایک ہوش مند اور بالغ النظر آدمی کے لیے اس خیال سے ہیبت زدہ({ FR 1107 }) ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ اب ’علوم جدیدہ‘ اور’ اکتشافات حاضرہ‘ نے عمل و خیال کی نئی طرحیں ڈال دی ہیں اور ’’حریت فکر و ضمیر‘‘ کی دولت سے دماغوں کو مالا مال کر دیا ہے‘ لہٰذا اب خدا جانے مذہب کا کیا حشر ہو۔ وہ تو ان علوم و اکتشافات پر ایک تحقیقی نظر ڈال کر یہ دیکھے گا کہ ان میں جو چیزیں مذہب سے متصادم ہو رہی ہیں وہ یقینی بھی ہیں یا نہیں۔ اگر فی الواقع وہ یقینیات ہوں اور مذہب کے حقیقی معتقدات سے متصادم بھی ہوں تو بلاشبہ اس کے لیے یہ سوال پیدا ہو جائے گا کہ مذہب پر ایمان لائے، یا ان یقینی نتائج تحقیق پر؟ لیکن اگر وہ محض قیاسات و نظریات ہوں یا محض شک اور تذبذب میں ڈالنے والی چیزیں ہوں تو وہ ان کے اور مذہب کے تصادم سے ہرگز نہ گھبرائے گا کیونکہ مذہب کی بنیاد اگر یقین و اذعان پر ہے تو یقین و اذعان کے مقابلے میں ظن و قیاس اور شک و تذبذب کو ہرگز کوئی ترجیح حاصل نہیں، اور اگر مذہب کوئی ظنی و قیاسی چیز ہے تو اس ظن و قیاس پر تو جدید علمی نظریات کی بنیاد بھی ہے۔ پھر دونوں میں وجہ ترجیح کیا چیز ہے؟
علومِ جدیدہ اور اکتشافات حاضرہ سے مرعوب ہو کر مذہب کی طرف ایک ترمیم طلب نگاہ ڈالنا تو صرف ان لوگوں کا شیوہ ہے جن کے دل میں یہ تخیل گھر کرگیا ہے کہ نئی چیز علم و اکتشاف ہے اور زمانے کا ساتھ دینے کے لیے اس کو قبول کرلینا، یا اس پر ایمان لے آنا ضروری ہے‘ خواہ اس کی حیثیت محض قیاسی و نظری ہو، اور خواہ اس کو انہوں نے گہری علمی بصیرت کے ساتھ نقد صحیح کی کسوٹی پر پرکھا بھی نہ ہو۔ ایسے ہی لوگوں میںعمل و خیال کی نئی طرحیں ڈالنے کا شوق پیدا ہوگیا ہے۔ حالانکہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ عمل و خیال کی نئی طرحیں کیوں کر پڑتی ہیں‘ اور کون سی طرحیں عاقلانہ ہوتی ہیںاور کون سی محض طفلانہ۔ اسی طرح حریتِ فکر و ضمیر کی دولت سے مالا مال ہونے کا ادّعا بھی ایسے ہی سطحی النظر لوگوں کا طرّۂ امتیاز بنا ہوا ہے مگر انھیں معلوم نہیں کہ مجرد حریت فکر و ضمیر ایک فتنہ اور ایک خطرناک حالت ہے‘ اگر اس کے ساتھ ایک وسیع اور پختہ علم‘ ایک عمیق اور بالغ نظر‘ ایک متوازن اور صحیح الفکر دماغ نہ ہو‘ اور یہ وہ چیز ہے جس کو عطا کرنے میں قدرت نے اتنی فیاضی سے کام نہیں لیا جتنی آج کل فرض کرلی گئی ہے۔
دوسرا نظریہ جو اسی پہلے نظریے سے نکلا ہے‘ یہ ہے کہ اب زمانہ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ البقرہ 3:2 کا نہیں رہا بلکہ یْوُمِنُوْنَ بِالتّجْربَۃِ وَالشُھُوْدِ کا ہے۔میں بہت غور کرنے کے بعد بھی نہیں سمجھ سکا کہ ان الفاظ سے قائل کا حقیقی مقصود کیا ہے۔ اگر مقصود یہ ہے کہ زمانے میں کوئی ایسی بات تسلیم نہیں کی جاتی جس پرغیب کا اطلاق ہوتا ہو اور جس کا تجربہ یا مشاہدہ نہ کیا گیا ہو تو یہ بالکل غلط ہے۔ ایسے کہنے کا مطلب دوسرے الفاظ میں یہ ہوگا کہ اس زمانے میں لوگوں نے صرف اسی حد کے اندر محدود رہنا قبول کرلیا ہے جس میں ان کا تجربہ و مشاہدہ ان کے لیے وسیلۂ اکتسابِ ({ FR 1108 }) علم بن سکتا ہے اور جس میں ان کے حواس کام دے سکتے ہیں‘ اور اس دائرے کے باہر جتنے امور ہیں ان کے بارے میں فکر کرنا اور قیاس و استقرا(۲)سے ان کے متعلق حکم لگانا انسان نے چھوڑ دیا ہے، مگر کوئی شخص جس نے علوم جدیدہ و اکتشافات کا سرسری مطالعہ بھی کیا ہے‘ اس بیان کو تسلیم نہ کرے گا۔ فلسفہ اور مابعد الطبیعیات کو چھوڑیے جس کی بحث تمام تر امور غیب سے ہے۔ خود سائنس اور اس کے امور طبیعیہ کو لے لیجیے جن کے اعتماد پر آپ ایمان بِالتّجْرِبَہِ و الشُہُودِ کا اعلان کر رہے ہیں۔ اس فن کا کون سا شعبہ ایسا ہے جس کی تحقیقات کا مدار قوت، انرجی،قانون فطرت مادہ، رشتہ علت و معلول اور ایسے ہی دوسرے امور کے اقرارو اثبات پر نہیں؟ کون سا عالم طبیعیات ایسا ہے جو ان چیزوں پر ایمان نہیں رکھتا۔ اب ذرا کسی بڑے سے بڑے حکیم سے جاکر پوچھیے کہ ان میں سے کس کی حقیقت وہ جانتا ہے؟ کس کی کنہ(۳) تک اس کے حواس پہنچ سکے ہیں؟ کس کے نفس وجود کا تجربہ و مشاہدہ اس نے کرلیاہے؟ اور کس کے موجود ہونے کا حقیقی ثبوت وہ پیش کرسکتا ہے؟ پھر یہ غیب پر ایمان نہیں تو کیا ہے؟
ان الفاظ کا ایک دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس زمانے میں صرف وہی بات مانی جاتی ہے جس کا تمام انسانوں نے تجربہ و مشاہدہ کیا ہے اور جو نوع انسانی کے تمام افراد کے لیے شہود و حضور کامرتبہ رکھتی ہے، لیکن یہ ایسی بات ہے جو کسی مرد عاقل کی زبان سے نہیں نکل سکتی اس لیے کہ یہ بالکل بدیہی({ FR 1109 }) امر ہے کہ تمام انسانی معلومات افراد انسانی کو فرداً فرداً حاصل نہیں ہیں بلکہ ان کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے جس میں مخصوص جماعتوں اور مخصوص افراد کو اختصاص(۲) کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔ ان خصوصی معلومات کاہر شعبہ صرف اپنے مختص عالموں کے لیے حاضر اور باقی تمام انسانوں کے لیے غائب ہوتا ہے اورجمہور کو اس شخص یا اس گروہ پر ایمان بالغیب لانا پڑتا ہے جو اس شعبے کا عالم ہو۔
تیسرا مفہوم اس قضیے کلیے کا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس زمانے کا ہر شخص صرف وہی بات مانتا ہے جو اس کے ذاتی تجربے یا مشاہدے میں آئی ہو‘ اور ایسی کسی بات کو نہیں مانتا جو خود اس کے لیے غیب کا حکم رکھتی ہو۔ لیکن یہ ایسی بات ہے کہ اس سے زیادہ مہمل کوئی بات انسانی دماغ سے نکل نہیں سکتی۔ اس صفت کا نہ کوئی آدمی کبھی پایا گیا ہے‘ نہ آج پایا جاتا ہے‘ نہ قیامت تک اس کے پائے جانے کی امید ہے، اور اگروہ فی الواقع کہیں موجود ہے تو اس کی نشان دہی کرنے میں ہرگز تامّل نہ کرنا چاہیے، کیونکہ ’انکشافات حاضرہ‘ میں یہ انکشاف سب سے زیادہ اہم ہوگا۔
غرض آپ خواہ کسی پہلو سے اس فقرے کو دیکھیں اس میں کوئی صداقت آپ کو نظر نہ آئے گی۔ خود تجربہ و مشاہدہ ہی اس پر گواہ ہے کہ یہ زمانہ بھی اسی طرح یومنون بالغیب کا ہے جس طرح گذشتہ زمانہ تھا اور ایمان بالغیب جس چیز کا نام ہے اس سے انسان کو نہ کبھی چھٹکارا ملا ہے نہ مل سکتا ہے۔ ہرشخص اپنی زندگی کے ۹۹۹ فی ہزار بلکہ اس سے زیادہ معاملات میں ایمان بالغیب لاتا ہے اور لانے پر مجبور ہے۔ اگر وہ یہ عہد کرلے کہ صرف اپنے تجربے و مشاہدے پر ہی ایمان لائے گا تو اس کو معلومات کا وہ تمام ذخیرہ اپنے دماغ سے خارج کر دینا پڑے گا جسے دوسروں پر اعتماد کر کے اس نے مقام علم و یقین میں جگہ دی ہے‘ اکتساب علم کے ان تمام ذرائع کا مقاطعہ کر دینا پڑے گا جو خود اس کے اپنے تجربے و مشاہدے سے ماسوا ہیں‘ اور یہ ایسی حالت ہوگی جس میں وہ زندہ ہی نہ رہ سکے گا‘ کجا کہ دنیا کا کوئی کام کرسکے۔ درحقیقت ایمان بالغیب کی کلی نفی اور ایمان بالتجربہ والشہود کا کلی اثبات، نہ اس زمانے میں ممکن ہے اور نہ اس سے بھی زیادہ روشن کسی زمانے میں ہونے کی توقع ہے۔ لامحالہ ہر زمانے اور ہر حالت میں انسان مجبور ہے کہ اپنے ذاتی تجربے و مشاہدے کے بغیر بہت سی باتیں محض دوسروں کے اعتماد پر مان لے۔ کچھ باتیں اس کو خبر متواتر کی بنا پر ماننی پڑتی ہیں‘ جیسے یہ کہ سنکھیا کھانے سے آدمی مر جاتا ہے‘ در آنحالیکہ ہر شخص نے نہ خود سنکھیا کھا کر اس کا تجربہ کیا، نہ کسی کو کھا کر مرتے ہوئے دیکھا۔ کچھ باتوں کو ایک یا چند معتبر آدمیوں کی روایت سے مان لینا پڑتا ہے‘ جیسے عدالتوں کا شہادت پر اعتماد‘ کہ اگر وہ ایسا نہ کریں تو قانون کی مشین ایک لمحے کے لیے بھی حرکت نہ کرسکے۔ کچھ باتیں صرف اس بنا پر تسلیم کرلینی پڑتی ہیں کہ ان کو ایک ماہر فن کہہ رہا ہے۔ یہ حالت ہر مدرسے اور ہر کالج میں ہر طالب علم پر گزرتی ہے۔ اگر وہ اپنے فن کے اکابر علما و ماہرین کی تحقیقات اور ان کے اکتشافات و نظریات پر ایمان بالغیب نہ لائے تو علم کے میدان میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا اور نہ کبھی ترقی کرکے اس مقام تک پہنچ سکتا ہے جہاں وہ خود ان علما و ماہرین کی طرح حقائق علمیہ کی تحقیق کرنے کے قابل ہو۔
اس سے ثابت ہوا کہ ہم ان تمام معاملات میں دوسروں پر ایمان بالغیب لاتے ہیں اور لانے پر مجبور ہیں جن میں ہم نے اپنے ذاتی تجربے و مشاہدے سے اکتسابِ علم نہیں کیا ہے اور دوسرے لوگوں نے کیا ہے۔ اب صرف یہ سوال باقی رہ جاتا ہے اور اسی پر فیصلے کا انحصار ہے کہ کس معاملے میں کس پر ایمان بالغیب لانا چاہیے؟ اصولاً یہ بات ہر شخص تسلیم کرتا ہے کہ ایسے ہر معاملے میں صرف اس شخص یا جماعت پر ایمان لانا چاہیے جس کے متعلق ہم کو یہ اطمینان ہو کہ اسے اس معاملے کا بہتر علم حاصل ہے اور اس کے پاس اس کے جاننے کے بہتر ذرائع موجود ہیں۔ اسی قاعدے کلیے کے ماتحت ایک مریض ڈاکٹر کو چھوڑ کر وکیل سے مشورہ نہیں کرتا‘ اور ایک اہل مقدمہ وکیل کو چھوڑ کر انجینئر کے پاس نہیں جاتا، لیکن الٰہیات و روحانیت کے مسائل میں یہ اختلاف واقع ہوتا ہے کہ آیا ان میں علمائے فلسفہ و ماہرین علوم عقلیہ کی رائے تسلیم کی جائے یا عالم انسانی کے مذہبی و روحانی پیشوائوں کی؟ خدا اور ملا ئکہ‘ وحی و الہام‘ روح اور حیات بعدالموت‘ عذاب و ثواب آخرت اور ایسے ہی دوسرے امورِ غیب میں کانٹ اور اسپنسر‘ آئن سٹائن اوربرگسان جیسے لوگوں کی بات مانی جائے یا ابراہیم‘ موسیٰ، عیسیٰ اور محمد علیہم السلام جیسے بزرگوں کی؟۔
’’حریت فکر و ضمیر‘‘ کے مدعیوں کا رجحان پہلے گروہ کی جانب ہے اور وہ انھی کی مہیا کی ہوئی کسوٹی پر گروہِ انبیاء علیہم السلام کی باتوں کو کس کر دیکھتے ہیں۔ جو باتیں اس کسوٹی پر کھری نکلتی ہیں انھیں مان لیتے ہیں‘ اس لیے نہیں کہ انبیاء علیہم السلام نے کہی ہیں‘ بلکہ اس لیے کہ حکما و فلاسفہ نے ان کو شرفِ قبول عطا کیا ہے اور بدقسمتی سے ایسی باتیں بہت ہی کم بلکہ بالکل نہیں ہیں۔ اور جو باتیں اس کسوٹی پر کھوٹی نکلتی ہیں ان کو وہ غیر معتبر قرار دے کر رد کر دیتے ہیں۔ برعکس اس کے ’قدامت پرستوں‘ اور ’اسلاف پرستوں‘ کا مسلک یہ ہے کہ نہ طبیعیات و عقلیات کی باتیں الٰہیات و روحانیات والوں سے پوچھو، اور نہ اس کے برعکس الٰہیات و روحانیت کی باتیں عقلیات و طبیعیات والوں سے۔ دونوں کے دائرے الگ الگ ہیں اور ایک علم میں دوسرے علم کے ماہر کی رائے دریافت کرنا پہلی بنیادی غلطی ہے۔ حکما و فلاسفہ اپنے عقلی علوم میں خواہ کتنی ہی اعلیٰ بصیرت رکھتے ہوں لیکن علومِ الٰہیہ میں ان کا مرتبہ ایک عامی سے زیادہ نہیں ہے اور وہ ان کے متعلق معلومات کے اتنے ہی ذرائع رکھتے ہیں جتنے ہر معمولی انسان رکھتا ہے۔ یہ علوم مخصوص ہیں انبیاء علیہم السلام کے ساتھ‘ وہی ان کے ماہر ہیں، انھی پر اِیَمانِ بِالْغَیْبِ لانا چاہیے۔ آپ کے لیے بحث و کلام کی اگر گنجائش ہے تو وہ صرف اس امر میں ہے کہ آیا فی الواقع وہ سچے اور علوم الٰہیہ میں صاحب ِبصیرتِ تامہ ہیں یا نہیں، مگر جب یہ بات ثابت ہو جائے یا ثابت کر دی جائے کہ فی الحقیقت وہ ایسے ہیں تو پھر جو باتیں اپنی بصیرت اور اپنے علم کی بنا پر انھوں نے بیان کی ہیں وہ سب آپ کو ماننی پڑیں گی۔ ان سے انکار کرنا اور ان کے خلاف دلیل و حجت لانا بالکل ایسا ہی ہوگا جیسے اندھا سورج کے وجود سے انکار کر دے اور آنکھوں والوں کو جھٹلانے کے لیے وجود شمس کے امتناع پر دلیلیں پیش کرے۔ ایسا شخص اپنے زعم میں خواہ کتنا ہی بڑا فلسفی ہو مگر جو اپنی آنکھوں سے سورج کو دیکھ رہا ہے وہ اس ’نابینا‘ کے متعلق جو کچھ رائے قائم کرے گا اس کے بیان کی حاجت نہیں۔
آپ کہیں گے کہ انبیاء علیہم السلام نے امور غیب کے متعلق جو کچھ کہا ہے اس کی تائید’علومِ جدیدہ‘ اور’اکتشافات حاضرہ‘ سے نہیں ہوتی‘ اس لیے لوگ ’ریب و تذبذب‘ میں مبتلا اور’ناچار مسلمان شو‘ کی لعنت میں گرفتار ہوگئے ہیں، مگر میں کہوں گا کہ ان علوم و اکتشافات میں وہ کون سے یقینیات ہیں جو اصول اسلام سے ٹکراتے ہیں؟ اگر ہیں تو انھیں پیش فرمائیے تاکہ ہم بھی غور کریں کہ آیا قرآن کو مانیں یا علوم جدیدہ و اکتشافات حاضرہ کو۔ اور اگر نہیں ہیں اور ہرگز نہیں ہیں جیسا کہ خود آپ کے الفاظ ’ریب و تذبذب‘ اور ’ناچار مسلماں شو‘ سے ظاہر ہوتا ہے تو پھر کیا علوم جدیدہ و اکتشافات حاضرہ کے اسلحہ خانے میں صرف ظنیات و قیاسات ہی کے وہ ہتھیار ہیں جن کے بل پر وہ مذہب کے خلاف اعلان جنگ کر رہے ہیں اور جن کی کاٹ نہیں‘ محض چمک دمک دیکھ کر آج کل کے ارباب ’’حریت فکر و ضمیر‘‘ یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ مذہب ان کا نام سنتے ہی سہم جائے گا اور میدان چھوڑنے پر مجبور ہو جائے گا؟ آپ ان علوم و اکتشافات کو خواہ کتنی ہی اہمیت دیں‘ مگر یاد رکھیے کہ امور غیب میں وہ ہرگز مفید یقین نہیں ہیں۔ زیادہ سے زیادہ ان کا یہ اثر ہوسکتا ہے کہ آپ ’ریب و تذبذب‘ میں پڑ جائیں اور کہیں کہ ہم وحی و الہام‘ بعث بعد الموت‘ عذاب و ثواب آخرت‘ فرشتوں کے وجود اور خود خدا کے وجود کے متعلق نفیاً یا اثباتاً کوئی حکم نہیں لگا سکتے، لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ کو’ناچار مسلماں شو‘ کی لعنت سے نکالنے اور’کافرتوانی شد‘ ({ FR 1157 })کی ’’برکت‘‘ سے مالا مال ہونے میں یہ علوم کچھ بھی مدد دے سکیں کیونکہ امور مذکورہ بالا سے قطعی انکارکر دینے کے لیے یہ علوم کوئی حجت فراہم نہیں کرتے‘ اورکسی چیز کے عدم کا حکم لگانے کے لیے صرف اتنی حجت کافی نہیں ہے کہ اس کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں۔ پس ’ریب و تذبذب‘ کا مقام وہ آخری مقام ہے جہاں آپ کے ’علوم جدیدہ واکتشافات حاضرہ‘ آپ کو لے جاکر ٹھیرا دیتے ہیں مگر عقلی و ذہنی حیثیت سے یہ ایک بدترین مقام ہے۔ جو علوم انسان کو یقین نہ بخش سکیں‘ جو اسے ایک ایسے مقام پر معلق چھوڑ دیں جہاں اس کو کوئی جائے قرار نہ ملتی ہو‘ جو اسے ’کافر نتوانی شد،ناچار مسلمان شو‘ کی دلدل میں لے جاکر پھنسا دیں وہ یقیناً جہل سے بدتر ہیں۔
اس مشکل سے اگر کوئی چیز انسان کو بچا سکتی ہے تو وہ صرف ایمان بالغیب ہے۔ ایک دفعہ جب آپ نے ایک شخص کو نبی مان لیا اور یہ سمجھ لیا کہ وہ علوم الٰہیہ میں کامل بصیرت رکھتا ہے اور یہ تسلیم کرلیا کہ وہ ہرگز جھوٹ نہیں بولتا‘ تو پھر آپ کے لیے امور غیب میں کسی تذبذب و ریب کی گنجائش نہیں رہتی اور آپ کا اعتقاد یقین و اذعان کی ایک ایسی مضبوط بنیاد پر قائم ہو جاتا ہے جسے کسی علم جدیدہ و اکتشافِ حاضر اور عمل و خیال کی کسی نئی طرح اور حریت فکر و ضمیر کی کسی گرم بازاری سے کوئی صدمہ نہیں پہنچ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں صاف تصریح کر دی گئی ہے کہ یہ کتاب ہدایت ہے متقین کے لیے اور متقین کی پہلی صفت یہ ہے کہ وہ ایمان بالغیب لاتے ہیں:
ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ o الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ البقرہ2:2-3
ہدایت ہے اُن پرہیزگار لوگوں کے لیے جوغیب پر ایمان لاتے ہیں۔
ایمان بالغیب پر مذہب کی پوری عمارت قائم ہے۔ اگر آپ نے اس اصل الاصول کو منہدم({ FR 1154 }) کر دیا تو پھر مذہب کے ان بنیادی معتقدات کے متعلق جن کی حقیقت معلوم کرنے کا خود آپ کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے‘ آپ کسی ایسی رائے پر نہیں پہنچ سکتے جس کی صحت کا خود آپ کو یقین ہو، اور جس کی صداقت کا آپ دوسروں کو یقین دلا سکیں۔
اب آخری سوال یہ رہ جاتا ہے کہ ایک شخص کے پاس یہ دریافت کرنے کا کون سا ذریعہ ہے کہ وہ نبی ہے‘ اُس کو علوم الٰہیہ میں کامل بصیرت حاصل ہے اور وہ اس مرتبے کا صادق انسان ہے کہ اگر وہ امور غیب کے متعلق ہم کو ایسی باتیں سنائے جو ہماری عقل سے ماورا اور ہمارے دائرہ علم سے باہر ہوں تب بھی ہم اس کی بات پر ایمان لے آئیں اور یقین کے ساتھ کہہ سکیں کہ وہ ہرگز جھوٹا نہیں ہے؟ اس سوال کا تصفیہ منحصر ہے دو چیزوں پر:
٭ ایک یہ کہ ہم اس شخص کی سیرت کو اس سخت سے سخت معیار پر جانچ کر دیکھیں جس پر کسی انسان کی سیرت جانچی جاسکتی ہے۔
٭ دوسرے یہ کہ ہم اس کی پیش کی ہوئی ان باتوں پر نگاہ ڈالیں جو ہمارے دائرہ علم سے باہر نہیں ہیں اور جن میں قطعیت کے ساتھ ایک حکم عقلی لگانا ہمارے لیے ممکن ہے۔
جب ان دونوں امتحانوں سے یہ ثابت ہو جائے کہ وہ اپنے صادق القول ہونے میں بے مثل ہے اور اس کے ساتھ زندگی کے تمام عملی و فکری شعبوں میں خیر و صلاح و حکمت کی ایسی کامل تعلیم دیتا ہے جس میں انسانی عقل کہیں سے کوئی عیب نہیں نکال سکتی تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس کو سچا نہ مانیں اور بدگمانی کریں کہ اس نے کسی علم و واقفیت کے بغیر محض دنیا کو دھوکا دینے کے لیے خدا اور فرشتوں اور عرش و کرسی اور وحی و الہام اور بعث بعد الموت اور دوزخ و جنت کا اتنا بڑا فریب گھڑ کر رکھ دیا ہے۔
پس حضرت نیاز کی تیسری غلطی یہ ہے کہ وہ قرآن کے پہلے حصے کو جسے ہم نے اپنی تقسیم میں دوسرا حصہ قرار دیا ہے‘ قابل بحث نہیں سمجھتے اور مزید برآں یہ خیال کرتے ہیں کہ:
اس معاملے میں تمام مذاہب تقریباً یکساں ہیں‘ اور مذہب اسلام کی تعلیم دوسرے مذاہب کی تعلیم سے مختلف یا فروتر نہیں ہے۔
برعکس اس کے ہم کہتے ہیں کہ ان کی تقسیم کے مطابق قرآن کے دوسرے اور تیسرے حصے (یا ہماری تقسیم کے مطابق پہلے حصے) کی صداقت کا فیصلہ منحصر ہی اس پر ہے کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور قرآن مجید کے ان تمام حصوں کی ناقدانہ چھان بین کریں جن کا تعلق امورغیب سے نہیں ہے اور صرف اسی پر اکتفا نہ کریں کہ اسلام کی تعلیم کا یہ حصہ دوسرے مذاہب سے مختلف یا فروتر نہیں ہے بلکہ بدلائل یہ ثابت کریں کہ وہ تمام ان مذاہب سے جو غیر اسلام ہیں اعلیٰ و ارفع و اجل ہے۔ جب تک بحث کا یہ مرحلہ طے نہ ہو جائے دوسرے مرحلے (یعنی امور غیب کی بحث) میں قدم رکھنا اصولاً غلط ہے اور اس کے تصفیے کے بغیر ان کا تصفیہ ممکن نہیں ہے۔
حضرت نیاز چاہتے ہیں کہ ہم ’معاد‘ اور ’کلام الٰہی‘ اور ان آیات سے بحث کریں جو عقائد اور قصص سے تعلق رکھتی ہیں، لیکن ہمارے نزدیک اس بحث کے دو پہلو ہیں اور وہ دو گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں:
o ایک گروہ وہ ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان ہی نہیں رکھتا اور اس پر بنا پر ان میں شک کرتا ہے۔
o دوسرا گروہ وہ ہے جو آپؐ کی رسالت کو تسلیم کرتا ہے مگر امور غیب میں اس کو شکوک و شبہات ہیں۔
ان دونوں گروہوں سے بحث کرنے کے طریقے مختلف ہیں اور جب تک ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ معترض کس گروہ سے تعلق رکھتا ہے اس وقت تک ہم اس سے بحث نہیں کرسکتے۔
پہلے گروہ سے معاد اورکلام الٰہی اور دوسرے امور غیب پر بحث کرنا بالکل بے نتیجہ ہے کیونکہ اصل میں اختلاف رہتے ہوئے فروع پر بحث کرکے نتیجے پر پہنچنا ممکن نہیں۔ ہم معاد اور کلام الٰہی حتیٰ کہ خود وجود و صفات الٰہی کے متعلق بھی جن باتوں پر ایمان رکھتے ہیں ان پر ہمارا ایمان و یقین اس بنا پر نہیں ہے کہ ہماری اپنی عقلی تحقیق یا ہمارے اپنے ذاتی تجربے و مشاہدے نے ان کے متعلق ہمیں کوئی ایسا قطعی اور یقینی علم بخشا ہے جس کے خلاف ہم پر کوئی دلیل عقلی قائم نہ کی جاسکتی ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو بلاشبہ نبوت کی بحث سے بے نیاز ہو کر ان مسائل سے بحث کی جاسکتی تھی، لیکن ان امور پر ہمارے قطعی ایمان و اذعان کی بنیاد دراصل اس اعتقاد پر ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم صادق القول ہیں اور اپنی رسالت اور قرآن کے کلام الٰہی ہونے کے متعلق جو کچھ انھوں نے کہا وہ بالکل صحیح ہے۔ اسی اصل سے وہ بات متفرع ہوتی ہے کہ جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے منکر سے ہم اس بنیادی مسئلے کو تسلیم نہ کرالیں گے اس وقت تک کسی فروعی مسئلے سے بحث ہی نہ کریں گے۔
رہا دوسرا گروہ تو اس کے حق کو ہم تسلیم نہیں کرتے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو تسلیم بھی کرے اور پھر امور غیب پر اس جہت سے کلام بھی کرے کہ قرآن میں جو کچھ کہا گیا ہے اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ خبریں دی ہیں وہ صحیح ہیں یا غلط؟ اس لیے کہ یہ پہلو اختیار کرتے ہی وہ پہلے گروہ میں شامل ہو جائے گا۔ اگر وہ حقیقت میں دوسرے گروہ کا آدمی ہے تو اسے ماننا پڑے گا کہ قرآن کا ہر لفظ صحیح ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ پیش کیا وہ غلطی سے مبرا ہے، البتہ وہ اس پر دو پہلوئوں سے کلام کرسکتا ہے:
٭ ایک یہ کہ آیا فی الواقع قرآن میں ایسا اور ایسا ارشاد ہوا ہے یا نہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا اور ایسا فرمایا ہے یا نہیں؟
٭ دوسرے یہ کہ قرآن اور سنت میں جو کچھ فی الواقع ہے اس کا صحیح مفہوم کیا ہے؟
آخر میں ایک بات مجھے اور عرض کرنی ہے۔ حضرت نیاز نے رائے دی ہے کہ ترجمان القرآن میں ایک باب المناظرہ کھولا جائے اور ارادہ ظاہر فرمایا ہے کہ وہ اپنے شبہات و اعتراضات بھی پیش کریں گے۔ جہاں تک اصطلاحی مناظرے کا تعلق ہے میں نے ہمیشہ اس سے دامن بچایا ہے اور اب بھی بچانا چاہتا ہوں کیونکہ ایسی بحث کا میں ہرگز قائل نہیں ہوں جس کا مقصد محض دماغی ورزش اور عقلی کشتی ہو۔ رہا علمی مناظرہ جس کا مقصد احقاق({ FR 1110 }) و تحقیق ہو اور جس میں فریقین اس دلی خواہش کے ساتھ شریک ہوں کہ جو کچھ ان کے نزدیک حق ہے اس کا اظہار کریں گے اور جو کچھ حق ثابت ہو جائے گا اس کو تسلیم کرلیں گے‘ تو اس کے لیے میں ہر وقت آمادہ ہوں۔ نگار میں جن شبہات و اعتراضات کو پیش کیا جائے گا وہ بجنسہ ترجمان القرآن میں نقل کیے جائیں گے اور پھر جواب دیا جائے گا۔ اسی طرح امید ہے کہ ترجمان القرآن کے جواب پر اگر حضرت نیاز کوئی تنقید فرمائیں گے تو اصل جواب بھی اس کے ساتھ نقل فرمائیں گے‘ تاکہ دونوں رسالوں کے ناظرین بحث کے دونوں پہلوئوں سے واقف ہوں‘ اور خود بھی کوئی رائے قائم کرسکیں۔ صرف ایک پہلو کو پیش کرنا اور دوسرے پہلو کو پیش کرنے سے احتراز کرنا میرے نزدیک خود اپنی کمزوری کا اعتراف ہے۔
(ترجمان القرآن، ربیع الاول ۱۳۵۲ھ۔ جولائی ۱۹۳۳ء)