اعتراض:احادیث کے ’’طریقِ حفاظت‘‘ کی کم زوری کے تو آپ خود بھی قائل ہیں جب آپ لکھتے ہیں:
بادی النظر میں یہ بات بالکل صحیح معلوم ہوتی ہے کہ ایسی فعلی اور قولی احادیث کو تواتر کا درجہ حاصل ہونا چاہیے جن کے دیکھنے اور سننے والے بکثرت ہوں۔ ان میں اختلاف نہ پایا جانا چاہیے لیکن ہر شخص بادنیٰ تامل یہ سمجھ سکتا ہے کہ جس واقعے کو بکثرت لوگوں نے دیکھا ہو یا جس تقریر کو بکثرت لوگوں نے سنا ہو اس کو نقل کرنے یا اس کے مطابق عمل کرنے میں سب لوگ اس قدر متفق نہیں ہو سکتے کہ ان کے درمیان یک سرِمُوفرق نہ پایا جائے… مثال کے طور پر آج میں ایک تقریر کرتا ہوں اور کئی ہزار آدمی اس کو سنتے ہیں۔ جلسہ ختم ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی (مہینوں اور برسوں بعد نہیں بلکہ چند ہی گھنٹے بعد) لوگوں سے پوچھ لیجیے کہ مقرر نے کیا کہا؟ آپ دیکھیں گے کہ تقریرکا مضمون نقل کرنے میں سب کا بیان یکساں نہ ہو گا۔ کوئی کسی ٹکڑے کو بیان کرے گا، کوئی کسی ٹکڑے کو۔ کوئی کسی جملے کو لفظ بلفظ نقل کرے گا، کوئی اس مفہوم کو جو اس کی سمجھ میں آیا ہے اپنے الفاظ میں بیان کردے گا۔ کوئی زیادہ فہیم آدمی ہو گا اور تقریر کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر اس کا صحیح ملخص بیان کرے گا۔ کسی کی سمجھ زیادہ اچھی نہ ہو گی اور وہ مطلب کو اپنے الفاظ میں اچھی طرح ادا نہ کر سکے گا۔ کسی کا حافظہ اچھا ہو گا اور تقریر کے اکثر حصے لفظ بلفظ نقل کر دے گا۔ کسی کی یاد اچھی نہ ہو گی اور وہ نقل وروایت میں غلطیاں کرے گا۔ (تفہیمات، ج اول، ص ۳۳۰)
جواب: اوّل تو اس اقتباس کے عین وسط میں لکیر لگا کرایک فقرہ چھوڑ دیا گیا ہے اور ہر شخص اس کو پڑھ کر خود دیکھ سکتا ہے کہ کتنی نیک نیتی کے ساتھ اسے چھوڑا گیا ہے۔ وہ فقرہ یہ ہے:
اس واقعے یا اس تقریر کے اہم اجزا میں تو سب کے درمیان ضرور اتفاق ہو گا مگر فروعی امور میں بہت کچھ اختلاف بھی پایا جائے گا اور یہ اختلاف ہرگز اس بات کی دلیل نہ ہو گا کہ وہ واقعہ سرے سے پیش ہی نہ آیا۔
پھر اس اقتباس کے بعد کی پوری بحث چوں کہ ڈاکٹر صاحب کے شبہات کا جواب تھی اور ان سے الجھن رفع ہو سکتی تھی اس لیے ڈاکٹر صاحب نے اسے چھوڑ دیا، کیوں کہ انھیں تو الجھن ہی کی تلاش ہے۔ ایک مضمون میں سے جتنے فقرے الجھنے اور الجھانے کے لیے مل سکتے ہیں انھیںلے لیتے ہیں، اور جہاں سے بات سلجھنے کا خطرہ ہوتا ہے، صاف کترا کر نکل جاتے ہیں اور لطف یہ ہے کہ یہ دھوکا ایک مصنف کی کتاب سے خود مصنف کو دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ میں ناظرین سے گزارش کروں گا کہ اگر تفہیمات حصہ اول انھیں بہم پہنچ جائے تو اس میں سے ’’حدیث کے متعلق چند سوالات‘‘ کے زیر عنوان وہ پورا مضمون نکال کر ملاحظہ فرمائیں جس سے یہ عبارت نقل کی گئی ہے۔ تاہم مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس عبارت کے فورًا بعد جو فقرے میں نے لکھے تھے وہ یہاں بھی نقل کر دئیے جائیں، تاکہ جنھیں اصل کتاب نہ مل سکے وہ بھی ڈاکٹر صاحب کے کرتب کی داد دے سکیں۔ وہ فقرے یہ ہیں:
اب اگر کوئی شخص اس اختلاف کو دیکھ کر یہ کہہ دے کہ میں نے سرے سے کوئی تقریر ہی نہیں کی، یا جو تقریر کی وہ از سر تاپا غلط نقل کی گئی تو یہ صحیح نہ ہو گا۔ بخلاف اس کے اگر تقریرکے متعلق تمام اخبارِ آحاد کو جمع کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس امر میں سب کے درمیان اتفاق ہے کہ میں نے تقریر کی، فلاں جگہ کی، فلاں وقت کی۔ بہت سے آدمی موجود تھے اور تقریر کا موضوع یہ تھا۔ پھر تقریر کے جن جن حصوں کے متعلق زیادہ سے زیادہ اتفاق لفظاً یامعنًا پایا جائے گا، وہ زیادہ مستند سمجھے جائیں گے اور ان سب کو ملا کر تقریر کا ایک مستند مجموعہ تیار کر لیا جائے گا اور جن حصوں کے بیان میں ہر راوی منفرد ہو گا وہ نسبتاً کم معتبر ہوں گے مگر ان کو موضوع اور غلط کہہ دینا صحیح نہ ہو گا۔ تاوقتیکہ وہ تقریر کی پوری اسپرٹ کے خلاف نہ ہوں، یا کوئی اور بات ان میں ایسی نہ ہو جس کی وجہ سے ان کی صحت مشتبہ ہو جائے، مثلاً تقریر کے معتبر حصوں سے مختلف ہونا، یا مقرر کے خیالات اور انداز بیان اور افتاد مزاج کے متعلق جو صحیح معلومات لوگوں کے پاس پہلے سے موجود ہیں ان کے خلاف ہونا۔