٭ وَفِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِo الذاریات19:51
ان کے مالوں میں حق تھا مدد مانگنے والے کے لیے اور رزق سے محروم رہ جانے والے کے لیے۔
٭ خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَـۃً تُطَہِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْہِمْ بِہَا وَصَلِّ عَلَيْہِمْ۰ۭ التوبہ 103:9
ان کے مالوں میں سے صدقہ وصول کرکے ان کو (بری صفات سے) پاک کرو اور ان کو (اچھی صفات میں) بڑھائو اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو۔
٭ اِنَّ اللّٰہَ قَدْ فَرَضَ عَلَیْھِمْ صَدَقَۃً تُؤْخَذُ مِنْ اَغْنِیَائِھِمْ فَتُرَدُّ عَلٰی فُقَرَائِھِمْ ۔ (بخاری و مسلم)
اللہ نے مسلمانوں پر ایک صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے مال داروں سے لیا جائے گا اور ان کے حاجت مندوں پر لوٹا دیا جائے گا۔
٭ الَسُّلْطَانُ وَلِیٌّ مَنْ لاَّ وَلِیَّ لَہ‘ ۔ (ابودائود، ترمذی، مسند احمد، ابن ماجہ، دارمی)
حکومت اس کی سرپرست ہے جس کا کوئی سرپرست نہ ہو۔
٭ مَنْ مَاتَ وَعَلَیْہِ دَیْنٌ وَلَمْ یَتْرُکْ وَفَائً فَعَلَیَّ قَضَائُہ‘ وَمَنْ تَرَکَ مَالاً فَلِوَرَثَتِہٖ۔ (مشکوۃ ۲۹۱۰)
جو شخص مر جائے اور اس کے ذمے قرض ہو اور وہ اسے ادا کرنے کے قابل مال نہ چھوڑے تو اس کا ادا کرنا میرے ذمے ہے اور جو مال چھوڑے تو وہ اس کے وارثوں کا حق ہے۔
٭ وَفِیْ رِوَایَۃٍ مَنْ تَرَکَ دَیْنًا اَوْضِیَاعًا فَلْیَاْ تِنِیْ فَاَنَا مَوْلَاہُ۔ (مشکوۃ۲۹۱۰)
ایک دوسری روایت میں ہے جو شخص قرض چھوڑے یا ایسے پس ماندگان چھوڑ جائے جن کے ضائع ہو نے کا خطرہ ہو تو وہ میرے پاس آئیں‘ میں ان کا سرپرست ہوں‘‘۔
٭ وَفِیْ رِوَایَۃٍ مَنْ تَرَکَ مَالاً فَلِوَرَثَتِہٖ وَمَنْ تَرَکَ کَلاًّ فَاِلَیْنَا۔ (بخاری و مسلم)
ایک اور روایت میں ہے جو مال چھوڑے تو وہ اس کے وارثوں کا حق ہے اور جو ذمے داریوں کا بار چھوڑ جائے تو وہ ہمارے (یعنی حکومت کے ذمے) ہے۔
٭ اَنَا وَارِثٌ مَنْ لاَّ وَارِثَ لَہ‘ اَعْقِلُ عَنْہُ وَارِثَہ‘ ۔ (مشکوۃ ۲۹۲۰،ابودائود)
جس کا کوئی وارث نہ ہو اُس کا میں وارث ہوں۔ اُس کی طرف سے دیت ادا کروں گا اور اُس کی میراث لوں گا۔
یہ آیات اور احادیث تصریح کرتی ہیں کہ اسلامی حکومت کے فرائض میں سے ایک اہم فرض زکوٰۃ کی تنظیم ہے اور اس کی ذمے داریوں میں سے ایک اہم ذمے داری یہ ہے کہ وہ اپنے حدود کے اندر تمام ان لوگوں کی کفیل بنے جو مدد کے محتاج ہوں اور وسائلِ رزق سے محروم رہ گئے ہوں۔
یہ ہیں وہ بڑے بڑے دستوری احکام جو ہم کو کتاب و سنت میں ملتے ہیں۔ اگرچہ دستوری مسائل کے متعلق قرآن اور حدیث میں اور بھی بہت سی ہدایات موجود ہیں‘ مگر چونکہ اُن کا تعلق دستور سے کم اور دستوری قانون سے زیادہ ہے‘ اس لیے ہم نے ان کو یہاں بیان نہیں کیا ہے۔
اب ہر شخص جو دستور کے متعلق کچھ بھی واقفیت رکھتا ہو‘ ہماری پیش کردہ ان آیات اور احادیث کو دیکھ کر خود رائے قائم کرے کہ آیا ان میں ایک اسلامی ریاست کی اصولی بنیادیں صاف صاف بیان کر دی گئی ہیں یا نہیں۔ اگر کوئی صاحب کھوکھلے دعوئوں کے بجائے علمی استدلال سے یہ ثابت کر دیں کہ ان احکام کا دستور سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ہمیں بتائیں کہ دستور کے وہ کون سے بنیادی مسائل (تفصیلات نہیں، بلکہ بنیادی مسائل) ہیں جن میں کتاب و سنت سے کوئی رہنمائی نہیں ملتی‘ تو ہم ضرور اس کے شکر گزار ہوں گے، لیکن اگر یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ وہ مسائل جن پر ہم نے اوپر بحث کی ہے دستوری مسائل نہیں ہیں اور نہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ ان مسائل پر قرآن و حدیث کی ان تعلیمات سے کوئی روشنی نہیں پڑتی‘ تو اس کے بعد غیر منافق شرفا کے لیے دو ہی راستے کھلے رہ جاتے ہیں: ۱۔یا تو وہ سیدھی طرح ان احکام کو تسلیم کریں اور ملک کے دستور میں ان کو ثبت کرکے باقی تفصیلات جس طرح مناسب سمجھیں مرتب کرتے رہیں،۲۔ یا پھر صاف صاف کہہ دیں کہ ہم نہ قرآن کو مانتے ہیں نہ سنت کو‘ ہمارا ایمان اس ڈیمو کریسی پر ہے جس کا ’اسوہ حسنہ‘ ہم کو امریکہ اور انگلستان اورہندستان کے دستور سلطنت میں ملتا ہے۔ ان دو راستوں میں سے جو راستہ بھی وہ اختیار کریں گے‘ بہرحال وہ راست باز انسانوں کے شایانِ شان ہوگا۔ رہا یہ طریقہ کہ سامنے آفتاب نصف النہار پر چمک رہا ہو اور آدمی کہے جائے کہ روشنی کہیں موجود نہیں ہے تو اس سے لوگ فریب کھائیں یا نہ کھائیں‘ کہنے والا اپنی عزت ضرور کھو دیتا ہے۔