Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
دیباچہ
کچھ جدید اڈیشن کے بارے میں
۱۔ نوعیتِ مسئلہ
۲ ۔عورت مختلف اَدوار میں
۳ ۔دَورِ جدید کا مسلمان
۴۔ نظریات
۵ ۔نتائج
۶ ۔چند اور مثالیں
۷۔ فیصلہ کن سوال
۸ ۔قوانینِ فطرت
۹ ۔انسانی کوتاہیاں
۱۰ ۔اسلامی نظامِ معاشرت
۱۱ ۔پردہ کے احکام
۱۲۔ باہر نکلنے کے قوانین
۱۳۔ خاتمہ

پردہ

  مغربی تہذیب کی برق پاشیوں اور جلوہ سامانیوں نے اہل ِمشرق کی عموماً اور مسلمانوں کی نظروں کو خصوصاً جس طرح خیرہ کیا ہے وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور عریانی نے جس سیل رواں کی شکل اختیار کی ہے اس نے ہماری ملی اور دینی اقدار کو خس و خاشاک کی طرح بہادیا گیا۔ اس کی چمک دمک نے ہمیں کچھ اس طرح مبہوت کردیا کہ ہم یہ بھی تمیز نہ کر سکے کہ اس چمکتی ہوئی شے میں زرِخالص کتنا ہے اور کھوٹ کتنا۔ اس تیز وتند سیلاب کے مقابلہ میں ہم اتنے بے بس ہو کر رہ گئے ہیں کہ ہماری اکثریت نے اپنے آپ کو پوری طرح اس کے حوالے کردیا۔ نیتجتاً ہمارا معاشرہ تلپٹ ہوگیا اور ہمارے خاندانی نظام کا شیرازہ کچھ اس طرح منتشر ہواکہ کوچہ کوچہ ہماری اس تہذیبی خودکشی پر نوحہ کر رہا ہے۔مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ ان با بصیرت اصحاب میں سے ہیں جنھوں نے اس سیلاب بلا خیز کی تباہ کا ریوں کا بروقت اندازہ لگا کر ملت کو اس عظیم خطرے سے متنبہ کیا اور اسے روکنے کے لیے مضبوط بند باندھنے کی کو شش کی۔

”پردہ “ آپ کی انھی کوششوں کی آئینہ دار ہے۔

عصرِ حاضر میں اس موضوع پر اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں ،”پردہ “ان میں ممتاز مقام رکھتی ہے اس کا دل نشین اندازِ بیان، پرزوراستدلال اور حقائق سے لبریز تجزیے اپنے اندروہ کشش رکھتا ہے کہ کٹر سے کٹر مخالف بھی قائل ہوئے بغیر نہیں رہتا۔یہی وجہ ہے کہ پورے عالمِ اسلام میں اس کتاب کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ بہت کم کتابوں کو نصیب ہوئی ہے ۔مشرقِ وسطیٰ میں اس کا عربی ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ یہی حال اس کے اردو اور انگریزی ایڈیشن کا ہے۔

۱۔ نوعیتِ مسئلہ

انسانی تمدن کے سب سے مقدم اور سب سے زیادہ پیچیدہ مسئلے دو ہیں۔ جن کے صحیح اور متوازن حل پر انسان کی فلاح و ترقی کا انحصار ہے اور جن کے حل کرنے میں قدیم ترین زمانے سے لے کر آج تک دنیا کے حکما و عقلا پریشان و سرگرداں رہے ہیں۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں مرد اور عورت کا تعلق کس طرح قائم کیا جائے کیوں کہ یہی تعلق دراصل تمدن کا سنگِ بنیاد ہے اور اس کا حال یہ ہے کہ اگر اس میں ذرا سی بھی کمی آ جائے تو
تا ثریا می رود دیوار کج
] آسمان تک دیوار ٹیڑھی رہے گی[
اور دوسرا مسئلہ فرد اور جماعت کے تعلق کا ہے جس کا تناسب قائم کرنے میں اگر ذرا سی بے اعتدالی بھی باقی رہ جائے توصدیوں تک عالم انسانی کو اس کے تلخ نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔
ایک طرف ان دونوں مسائل کی اہمیت کا یہ حال ہے اوردوسری طرف ان کی پیچیدگی اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ جب تک فطرت کے تمام حقائق پر کسی کی نظر پوری طرح حاوی نہ ہو وہ اسے حل نہیں کر سکتا۔ سچ کہا تھا جس نے کہا تھا کہ انسان عالمِ اصغر ہے۔ اس کے جسم کی ساخت، اس کے نفس کی ترکیب، اس کی قوتیں اور قابلیتیں، اس کی خواہشات، ضروریات اور جذبات و احساسات، اور اپنے وجود سے باہر کی بے شمار اشیا کے ساتھ اس کے فعلی و انفعالی تعلقات، یہ سب چیزیں ایک دنیا کی دنیا اپنے اندر رکھتی ہیں۔ انسان کو پوری طرح نہیں سمجھا جا سکتا جب تک کہ اس دنیا کا ایک ایک گوشہ نگاہ کے سامنے روشن نہ ہو جائے، اور انسانی زندگی کے بنیادی مسائل حل نہیں کیے جا سکتے جب تک کہ خود انسان کو پوری طرح نہ سمجھ لیا جائے۔
یہی وہ پیچیدگی ہے جو عقل و حکمت کی ساری کاوشوں کا مقابلہ ابتدا سے کر رہی ہے اور آج تک کیے جا رہی ہے۔ اوّل تو اس دنیا کے تمام حقائق ابھی تک انسان پر کھلے ہی نہیں۔ انسانی علوم میں سے کوئی علم بھی ایسا نہیں ہے جو کمال کے آخری مرتبہ پر پہنچ چکا ہو، یعنی جس کے متعلق یہ دعوٰی کیا جا سکتا ہو کہ جتنی حقیقتیں اس شعبۂ علم سے تعلق رکھتی ہیں ان سب کا اس نے احاطہ کر لیا ہے۔ مگر جو حقائق روشنی میں آ چکے ہیں ان کی وسعتوں اور باریکیوں کا بھی یہ عالم ہے کہ کسی انسان کی بلکہ انسانوں کے کسی گروہ کی نظر بھی ان سب پر بیک وقت حاوی نہیں ہوتی۔ ایک پہلو سامنے آتا ہے اور دوسرا پہلو نظروں سے اوجھل رہ جاتا ہے۔ کہیں نظر کوتاہی کرتی ہے اور کہیں شخصی رجحانات حاجب نظر بن جاتے ہیں۔ اس دوہری کم زوری کی وجہ سے انسان خود اپنی زندگی کے ان مسائل کو حل کرنے کی جتنی تدبیریں بھی کرتا ہے وہ ناکام ہوتی ہیں اور تجربہ آخر کار ان کے نقص کو نمایاں کر دیتا ہے۔ صحیح حل صرف اسی وقت ممکن ہے جب کہ نقطہ عدل کو پا لیا جائے اور نقطہ عدل پایا نہیں جا سکتا جب تک کہ تمام حقائق نہ سہی، کم از کم معلوم حقائق ہی کے سارے پہلو یکساں طور پر نگاہ کے سامنے نہ ہوں۔ مگر جہاں منظر کی وسعت بجائے خود اتنی زیادہ ہو کہ بینائی اس پر چھانہ سکے اور اس کے ساتھ نفس کی خواہشات اور رغبت و نفرت کے میلانات کا یہ زور ہو کہ جو چیزیں صاف نظر آتی ہوں ان کی طرف سے بھی خود بخود نگاہ پھر جائے، وہاں نقطۂ عدل کس طرح مل سکتا ہے؟ وہاں تو جو حل بھی ہو گا اس میں لا محالہ اِفراط پائی جائے گی یا تفریط۔
اُوپر جن دو مسائل کا ذکر کیا گیا ہے اُن میں سے صرف پہلا مسئلہ اس وقت ہمارے سامنے زیربحث ہے۔ اس باب میں جب ہم تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں افراط اور تفریط کی کھینچ تان کا ایک عجیب سلسلہ نظر آتا ہے۔ ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ وہی عورت جوماں کی حیثیت سے آدمی کو جنم دیتی اور بیوی کی حیثیت سے زندگی کے ہر نشیب و فراز میں مرد کی رفیق رہتی ہے، خادمہ بلکہ لونڈی کے مرتبے میں رکھ دی گئی ہے، اسے بیچا اور خریدا جاتا ہے۔ اسے ملکیت اور وراثت کے تمام حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے، اسے گناہ اور ذلت کا مجسمہ سمجھا جاتا ہے اور اس کی شخصیت کو ابھرنے اور نشوونما پانے کا کوئی موقع نہیں دیا جاتا۔ دوسری طرف ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ وہی عورت اٹھائی اور ابھاری جا رہی ہے مگر اس شان سے کہ اس کے ساتھ بداَخلاقی اور بد نظمی کا طوفان اُٹھ رہا ہے، وہ حیوانی خواہشات کا کھلونا بنائی جاتی ہے، اسے واقعی شیطان کی ایجنٹ بنا کر رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ابھرنے کے ساتھ انسانیت کے گرنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
ان دونوں انتہائوں کو ہم محض نظری حیثیت سے افراط اور تفریط کے ناموں سے موسوم نہیں کرتے بلکہ تجربہ جب ان کے مضر نتائج کا پورا پورا ریکارڈ ہمارے سامنے لا کر رکھ دیتا ہے تب ہم اَخلاق کی زبان میں ایک انتہا کو افراط اور دوسری کو تفریط کہتے ہیں۔ تاریخ کا پس منظر جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے۔ ہمیں یہ بھی دکھاتا ہے کہ جب ایک قوم وحشت کے دَور سے نکل کر تہذیب و حضارت کی طرف بڑھتی ہے تو اس کی عورتیں لونڈیوں اور خدمت گاروں کی حیثیت سے اس کے مردوں کے ساتھ ہوتی ہیں۔ ابتدا میں بدویانہ طاقتوں کا زور اسے آگے بڑھائے لیے جاتا ہے، مگر تمدنی ترقی کی ایک خاص منزل پر پہنچ کر اسے محسوس ہوتا ہے کہ اپنے پورے نصف حصہ کو پستی کی حالت میں رکھ کر وہ آگے نہیں جا سکتی۔ اسے اپنی ترقی کی رفتار رکتی نظر آتی ہے اور ضرورت کا احساس اسے مجبور کرتا ہے کہ اس نصف ثانی کو بھی نصف اول کے ساتھ چلنے کے قابل بنائے۔ مگر جب وہ اس نقصان کی تلافی شروع کرتی ہے تو صرف تلافی پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ آگے بڑھتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ عورت کی آزادی سے خاندانی نظام (جو تمدن کی بنیاد ہے) منہدم ہو جاتا ہے، عورتوں اور مردوں کے اختلاط سے فواحش کا سیلاب پھوٹ پڑتا ہے۔ شہوانیت اور عیش پرستی پوری قوم کے اَخلاق کو تباہ کر دیتی ہے اور اَخلاقی تنزل کے ساتھ ساتھ ذہنی، جسمانی اور مادّی قوتوں کا تنزل بھی لازمی طور پر رونما ہوتا ہے جس کا آخری انجام ہلاکت و بربادی کے سوا کچھ نہیں۔
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں