انسانی تمدن کے سب سے مقدم اور سب سے زیادہ پیچیدہ مسئلے دو ہیں۔ جن کے صحیح اور متوازن حل پر انسان کی فلاح و ترقی کا انحصار ہے اور جن کے حل کرنے میں قدیم ترین زمانے سے لے کر آج تک دنیا کے حکما و عقلا پریشان و سرگرداں رہے ہیں۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں مرد اور عورت کا تعلق کس طرح قائم کیا جائے کیوں کہ یہی تعلق دراصل تمدن کا سنگِ بنیاد ہے اور اس کا حال یہ ہے کہ اگر اس میں ذرا سی بھی کمی آ جائے تو
تا ثریا می رود دیوار کج
] آسمان تک دیوار ٹیڑھی رہے گی[
اور دوسرا مسئلہ فرد اور جماعت کے تعلق کا ہے جس کا تناسب قائم کرنے میں اگر ذرا سی بے اعتدالی بھی باقی رہ جائے توصدیوں تک عالم انسانی کو اس کے تلخ نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔
ایک طرف ان دونوں مسائل کی اہمیت کا یہ حال ہے اوردوسری طرف ان کی پیچیدگی اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ جب تک فطرت کے تمام حقائق پر کسی کی نظر پوری طرح حاوی نہ ہو وہ اسے حل نہیں کر سکتا۔ سچ کہا تھا جس نے کہا تھا کہ انسان عالمِ اصغر ہے۔ اس کے جسم کی ساخت، اس کے نفس کی ترکیب، اس کی قوتیں اور قابلیتیں، اس کی خواہشات، ضروریات اور جذبات و احساسات، اور اپنے وجود سے باہر کی بے شمار اشیا کے ساتھ اس کے فعلی و انفعالی تعلقات، یہ سب چیزیں ایک دنیا کی دنیا اپنے اندر رکھتی ہیں۔ انسان کو پوری طرح نہیں سمجھا جا سکتا جب تک کہ اس دنیا کا ایک ایک گوشہ نگاہ کے سامنے روشن نہ ہو جائے، اور انسانی زندگی کے بنیادی مسائل حل نہیں کیے جا سکتے جب تک کہ خود انسان کو پوری طرح نہ سمجھ لیا جائے۔
یہی وہ پیچیدگی ہے جو عقل و حکمت کی ساری کاوشوں کا مقابلہ ابتدا سے کر رہی ہے اور آج تک کیے جا رہی ہے۔ اوّل تو اس دنیا کے تمام حقائق ابھی تک انسان پر کھلے ہی نہیں۔ انسانی علوم میں سے کوئی علم بھی ایسا نہیں ہے جو کمال کے آخری مرتبہ پر پہنچ چکا ہو، یعنی جس کے متعلق یہ دعوٰی کیا جا سکتا ہو کہ جتنی حقیقتیں اس شعبۂ علم سے تعلق رکھتی ہیں ان سب کا اس نے احاطہ کر لیا ہے۔ مگر جو حقائق روشنی میں آ چکے ہیں ان کی وسعتوں اور باریکیوں کا بھی یہ عالم ہے کہ کسی انسان کی بلکہ انسانوں کے کسی گروہ کی نظر بھی ان سب پر بیک وقت حاوی نہیں ہوتی۔ ایک پہلو سامنے آتا ہے اور دوسرا پہلو نظروں سے اوجھل رہ جاتا ہے۔ کہیں نظر کوتاہی کرتی ہے اور کہیں شخصی رجحانات حاجب نظر بن جاتے ہیں۔ اس دوہری کم زوری کی وجہ سے انسان خود اپنی زندگی کے ان مسائل کو حل کرنے کی جتنی تدبیریں بھی کرتا ہے وہ ناکام ہوتی ہیں اور تجربہ آخر کار ان کے نقص کو نمایاں کر دیتا ہے۔ صحیح حل صرف اسی وقت ممکن ہے جب کہ نقطہ عدل کو پا لیا جائے اور نقطہ عدل پایا نہیں جا سکتا جب تک کہ تمام حقائق نہ سہی، کم از کم معلوم حقائق ہی کے سارے پہلو یکساں طور پر نگاہ کے سامنے نہ ہوں۔ مگر جہاں منظر کی وسعت بجائے خود اتنی زیادہ ہو کہ بینائی اس پر چھانہ سکے اور اس کے ساتھ نفس کی خواہشات اور رغبت و نفرت کے میلانات کا یہ زور ہو کہ جو چیزیں صاف نظر آتی ہوں ان کی طرف سے بھی خود بخود نگاہ پھر جائے، وہاں نقطۂ عدل کس طرح مل سکتا ہے؟ وہاں تو جو حل بھی ہو گا اس میں لا محالہ اِفراط پائی جائے گی یا تفریط۔
اُوپر جن دو مسائل کا ذکر کیا گیا ہے اُن میں سے صرف پہلا مسئلہ اس وقت ہمارے سامنے زیربحث ہے۔ اس باب میں جب ہم تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں افراط اور تفریط کی کھینچ تان کا ایک عجیب سلسلہ نظر آتا ہے۔ ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ وہی عورت جوماں کی حیثیت سے آدمی کو جنم دیتی اور بیوی کی حیثیت سے زندگی کے ہر نشیب و فراز میں مرد کی رفیق رہتی ہے، خادمہ بلکہ لونڈی کے مرتبے میں رکھ دی گئی ہے، اسے بیچا اور خریدا جاتا ہے۔ اسے ملکیت اور وراثت کے تمام حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے، اسے گناہ اور ذلت کا مجسمہ سمجھا جاتا ہے اور اس کی شخصیت کو ابھرنے اور نشوونما پانے کا کوئی موقع نہیں دیا جاتا۔ دوسری طرف ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ وہی عورت اٹھائی اور ابھاری جا رہی ہے مگر اس شان سے کہ اس کے ساتھ بداَخلاقی اور بد نظمی کا طوفان اُٹھ رہا ہے، وہ حیوانی خواہشات کا کھلونا بنائی جاتی ہے، اسے واقعی شیطان کی ایجنٹ بنا کر رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ابھرنے کے ساتھ انسانیت کے گرنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
ان دونوں انتہائوں کو ہم محض نظری حیثیت سے افراط اور تفریط کے ناموں سے موسوم نہیں کرتے بلکہ تجربہ جب ان کے مضر نتائج کا پورا پورا ریکارڈ ہمارے سامنے لا کر رکھ دیتا ہے تب ہم اَخلاق کی زبان میں ایک انتہا کو افراط اور دوسری کو تفریط کہتے ہیں۔ تاریخ کا پس منظر جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے۔ ہمیں یہ بھی دکھاتا ہے کہ جب ایک قوم وحشت کے دَور سے نکل کر تہذیب و حضارت کی طرف بڑھتی ہے تو اس کی عورتیں لونڈیوں اور خدمت گاروں کی حیثیت سے اس کے مردوں کے ساتھ ہوتی ہیں۔ ابتدا میں بدویانہ طاقتوں کا زور اسے آگے بڑھائے لیے جاتا ہے، مگر تمدنی ترقی کی ایک خاص منزل پر پہنچ کر اسے محسوس ہوتا ہے کہ اپنے پورے نصف حصہ کو پستی کی حالت میں رکھ کر وہ آگے نہیں جا سکتی۔ اسے اپنی ترقی کی رفتار رکتی نظر آتی ہے اور ضرورت کا احساس اسے مجبور کرتا ہے کہ اس نصف ثانی کو بھی نصف اول کے ساتھ چلنے کے قابل بنائے۔ مگر جب وہ اس نقصان کی تلافی شروع کرتی ہے تو صرف تلافی پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ آگے بڑھتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ عورت کی آزادی سے خاندانی نظام (جو تمدن کی بنیاد ہے) منہدم ہو جاتا ہے، عورتوں اور مردوں کے اختلاط سے فواحش کا سیلاب پھوٹ پڑتا ہے۔ شہوانیت اور عیش پرستی پوری قوم کے اَخلاق کو تباہ کر دیتی ہے اور اَخلاقی تنزل کے ساتھ ساتھ ذہنی، جسمانی اور مادّی قوتوں کا تنزل بھی لازمی طور پر رونما ہوتا ہے جس کا آخری انجام ہلاکت و بربادی کے سوا کچھ نہیں۔
٭…٭…٭…٭…٭