جیسا کہ آپ سب حضرات جانتے ہیں، ہمارے موجودہ اسلامی معاشرے کا آغاز مکے میں کفر کے ماحول میں ہوا تھا اور اس ماحول سے لڑ کر اسلامی معاشرے کی ابتداء کرنے والے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ یہ اسلامی معاشرہ جب اپنے نظم اور سیاسی خود مختاری میں ترقی کرکے ایک اسٹیٹ بننے کی منزل پر پہنچا تو اس کے اولین رئیس بھی آنحضورؐ ہی تھے، اور آپ کسی کے منتخب کردہ نہ تھے بلکہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے معمور کیے ہوئے تھے۔
دس سال تک آپؐ اس ریاست کی امارت کا فریضہ انجام دینے کے بعد رفیق اعلیٰ سے جا ملے۔ بغیر اس کے کہ اپنی جانشینی کے متعلق کوئی صریح اور قطعی ہدایت دے کر تشریف لے جاتے۔ آپ کے اس سکوت سے، اور قرآن مجید کے اس ارشاد سے کہ وَاَمرُھُمْ شُوریٰ بَیْنَھُمْ (مسلمانوں کے معاملات آپس کے مشورے سے انجام پاتے ہیں) صحابہ کرامؓ نے یہ سمجھا کہ نبی کے بعد رئیسِ مملکت کا تقرر مسلمانوں کے اپنے انتخاب پر چھوڑا گیا ہے اور یہ انتخاب مسلمانوں کے باہمی مشورے سے ہونا چاہیے۔ { اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں میں سے حضرات شیعہ اس بات کے قائل ہیں کہ نبی کی طرح امامت کا منصب بھی توفیقی ہے، یعنی امام بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے مامور ہوتا ہے لیکن یہ اختلاف اب عملاً یوں ختم ہو گیا ہے کہ شیعہ حضرات کے نزدیک بھی بارھویں امام کی غیبت کے بعد چونکہ منصب امامت ان کے ظہور ثانی تک موقوف ہے، اس لیے مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کی سربراہ کاری اب بہرحال کسی غیر مامور من اللہ ہی کے سپرد ہونی چاہیے۔
} چنانچہ خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکرؓ کا انتخاب مجمع عام میں ہوا۔
پھر جب ان کا آخری وقت آیا تو اگرچہ ان کی رائے میں خلافت کے لیے موزوں ترین شخص حضرت عمرؓ تھے، لیکن انھوں نے اپنے جانشین کو نامزد نہ کیا بلکہ اکابرِ صحابہؓ کو الگ الگ بلا کر ان کی رائے معلوم کی، پھر حضرت عمرؓ کے حق میں اپنی وصیّت اِملاکرائی، پھر حالتِ مرض ہی میں اپنے حجرے کے دروازے سے مسلمانوں کے مجمع عام کو خطاب کرکے فرمایا:۔
اترضون بمن استخلفُ علیکم؟ فانی واللّٰہ ما الوت من جھد الرائی ولا ولیت ذاقرابۃ۔ وانی استخلفت عمر بن الخطاب، فاسمعوا لہ واطیعوا۔
کیا تم راضی ہو اس شخص سے جس کو میں تم پر اپنا جانشین بنائوں؟ خدا کی قسم میں نے غوروفکر کرکے رائے قائم کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے اور اپنے کسی رشتہ دار کومقرر نہیں کیا ہے۔ میں نے عمر بن الخطاب کو جانشین بنایا ہے۔ پس تم ان کی سنو اور اطاعت کرو۔
مجمع سے آوازیں آئیں:۔
سمعنا واطعنا ۔ ’’ہم نے سنا اور مانا۔‘‘ (طبری جلد۲ ص۶۱۸ طبعۃ الاستقامہ، مصر)
ا س طرح مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ کا تقرر بھی نامزدگی سے نہیں ہوابلکہ خلیفۂ وقت نے مشورے سے ایک شخص کو تجویز کیااور پھر مجمع عام میں اس کو پیش کرکے منظور کرایا۔
اس کے بعد حضرت عمرؓ کے دنیا سے رخصت ہونے کی باری آئی۔ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معتمد ترین رفیقوں میں سے چھ اصحاب ایسے موجود تھے جن پر خلافت کے لیے مسلمانوں کی نگاہ پڑ سکتی تھی۔ حضرت عمرؓ نے انھی چھ اصحاب کی ایک مجلس شوریٰ بنا دی اور ان کے سپرد یہ کام کیا کہ باہمی مشورے سے ایک شخص کو خلیفہ تجویز کریں اور اعلان کر دیا کہ
من تامر منکم علیٰ غیر مشورۃ من المسلمین فاضربواعنقہ۔
(الفاروق عمرؓ از محمد حسین ہیکل ۔ج۲۔ص۳۲۳)
تم میں سے جو کوئی مسلمانوں کے مشورے کے بغیر زبردستی امیر بنے ا س کی گردن مار دو۔
اس مجلس نے بالآخر انتخاب کا کام حضرت عبدالرحمن ؓبن عوف کے سپرد کیا اورانھوں نے مدینے میں چل پھر کر عام لوگوں کی رائے معلوم کی۔ گھر گھر جا کر عورتوں تک سے پوچھا۔ مدرسوں میں جا کر طلبہ تک سے دریافت کیا۔ مملکت کے مختلف حصوں کے جو لوگ حج سے اپنے اپنے علاقوں کی طرف واپس جاتے ہوئے مدینے ٹھہرے تھے، ان سے استصواب کیا۔ اور اس تحقیقات سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ُا مّت میں سب سے زیادہ معتمد علیہ دو شخص ہیں، عثمانؓ اور علیؓ اور ان میں سے عثمانؓ کی طرف زیادہ لوگوں کا میلان ہے۔ اسی رائے پر آخرکار حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کے حق میں فیصلہ ہوا اورمجمع عام میں ان کے ہاتھ پر بیعت کی گئی۔
پھر حضرت عثمانؓ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا اور امّت میں سخت افراتفری برپا ہوگئی۔ اس موقع پر چند صحابہ حضرت علیؓ کے مکان پر جمع ہوئے اور ان سے عرض کیا کہ آج آپ سے زیادہ امارت کا حق دار کوئی نہیں۔ آپ اس بار کو سنبھالیں۔ حضرت علیؓ نے انکار کیا، مگر وہ اصرار کرتے رہے۔ آخر کار حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اگر آپ لوگ یہی چاہتے ہیں تو مسجد میں چلیے۔
فان بیعتی لا تکون خفیا ولا تکون الاعن رضا من المسلمین۔ (طبری، ج۲، ص۴۵۰)
کیونکہ میری بیعت خفیہ طور پر نہیں ہو سکتی، اور مسلمانوں کی عام رضا مندی کے بغیر اس کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔
چنانچہ آپ مسجد نبوی میں تشریف لے گئے اور مہاجرین و انصار جمع ہوئے اور سب کی نہیں تو کم از کم یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اکثریت کی مرضی سے آپ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی۔
پھر جب حضرت علیؓ پر قاتلانہ حملہ ہوا اور ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان سے پوچھا گیا کہ آپ کے بعد ہم آپ کے صاحبزادے حسنؓ سے بیعت کر لیں؟ اس پر انھوں نے جواب دیا وہ یہ تھا کہ:۔
ما امرکم ولاانـھا لم، انتم البصر۔ (طبری۔ج۴ ص۱۱۲)
میں نہ تم کو اس کا حکم دیتا ہوں نہ اس سے منع کرتا ہوں، تم لوگ خود اچھی طرح دیکھ سکتے ہو۔
یہ ہے رئیس مملکت کے تقرر کے معاملے میں خلافت راشدہ کا تعامل اور صحابۂ کرامؓ کا اجماعی طرزِ عمل جس کی بنیاد خلافت کے باب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سکوت اور تمام اجتماعی معاملات کے باب میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد وَاَمْرُھُمْ شُوَریٰ بَیْنَھُمْ پر رکھی گئی تھی۔ اس مستند دستوری رواج سے جو بات قطعی طور پر ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی مملکت میں صدر کاانتخاب عام لوگوں کی رضا مندی پرمنحصر ہے۔ کوئی شخص خودزبردستی امیر بن جانے کا حق نہیں رکھتا { بعض لوگ یہ شبہ پیدا کرتے ہیں کہ اگر اسلام کا اصول یہی ہے تو پھر دورِ بادشاہی کے نامور علماء نے زبردستی مسلّط ہو جانے والے لوگوں کی خلافت و امارت کیسے تسلیم کر لی؟ لیکن یہ شبہ دراصل دو مختلف مسائل کو خلط ملط کردینے سے پیدا ہوتا ہے۔ ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ اسلام میں خلیفہ یاامیر کے تقرر کا صحیح و معتبر طریقہ کیا ہے۔ اور دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کبھی کسی وجہ سے غلط طریقے پر کوئی شخص مسلّط ہو جائے تو کیا کرنا چاہیے۔ پہلے مسئلے کا جواب تمام علمائے امت نے بالا تفاق یہی دیا ہے کہ صحیح طریقِ کارانتخاب ہے جو مسلمانوں کی رضا مندی سے ہو۔ رہا دوسرامسئلہ تو اس میں زیادہ سے زیادہ نرم رویہ جن لوگوں نے اختیار کیا ہے وہ بھی اس سے آگے نہیں جاتے کہ ایسی امارت صرف نظم اور اجتماعِ کلمۂ مسلمین کی خاطر برداشت کر لینی چاہیے بشرطیکہ اس طرح جبراً مسلّط ہونے والا امیر نظامِ دین کو خراب نہ کرے۔ بالفاظ دیگر یہ لوگ اس شرط کے متحقق ہونے کی صورت میں جابرانہ امارت کے خلاف بغاوت کرنا درست نہیں سمجھتے تاکہ کہیں نظم کی جگہ بد نظمی نہ لے لے۔ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ جو لوگ یہ رائے رکھتے ہیں ان کے نزدیک جبری تسلّط انعقادِ خلافت کی کوئی صحیح صورت ہے۔
} ۔ کسی خاندان یا طبقے کا اس منصب پر اجارہ نہیں ہے۔{ اس معاملے میں بھی بعض لوگ یہ شبہ پیش کرتے ہیں کہ پھر ان احادیث کی کیا توجہیہ ہے جن میں خلافت کے لیے قبیلۂِ قریش کوحق ٹھیرایاگیا ہے۔ مگر اس کا جواب ہم اپنی کتاب رسائل و مسائل حصہ سوم میں دے چکے ہیں۔
} اورانتخاب کسی جبرکے بغیر مسلمانوں کی آزادانہ رضا مندی سے ہونا چاہیے۔ رہی یہ بات کہ مسلمانوں کی پسند کیسے معلوم کی جائے، تو اس کے لیے اسلام میں کوئی خاص طریقِ کار مقرر نہیں کروایا گیا ہے۔ حالات اور ضروریات کے لحاظ سے مختلف طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں، بشرطیکہ ان سے معقول طور پر یہ معلوم کیا جا سکتا ہو کہ جمہور قوم کااعتماد کس شخص کو حاصل ہے۔