Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ
باب اول:
دین و سیاست
۱۔مذہب کا اسلامی تصور
۲۔ اسلامی ریاست کیوں؟
۳۔ اسلام اور اقتدار
۴۔ دین و سیاست کی تفریق کا باطل نظریہ اورقصۂ یوسف ؑ سے غلط استدلال
۵۔ تفریق دین و سیاست کا دفاع اور اس کا جائزہ
باب ٢
اسلام کا سیاسی نظریہ
۱۔بنیادی مُقدّمات
۲۔ نظریۂ سیاسی کے اوّلین اصول
۳۔ اسلامی ریاست کی نوعیت
۴۔ اسلامی ریاست کی خصوصیات
۵۔ نظریۂ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
باب۳ قرآن کا فلسفہ ٔ سیاست
۱۔علم سیاست کے بنیادی سوال
۲۔ چند بنیادی حقیقتیں
۳۔اسلامی تصورِ حیات
۴۔ دین اور قانونِ حق
۵۔حکومت کی ضرورت اور اہمیت
۶۔ تصور حاکمیت و خلافت
۷۔ اصول اطاعت ووفاداری
باب ۴
معنی ٔ خلافت
باب ۵
۱۔اسلامی تصور قومیت
۲۔ اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
باب۶
اسلام کے دستوری قانون کے مآخذ
ا۔قرآن مجید
۲۔ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۸۴؎
۳۔خلافتِ راشدہ کا تعامل
۴۔ مجتہدینِ امت کے فیصلے
ضمیمہ باب ۶: سنت ِرسولؐ اللہ بحیثیت ِ مآ خذ ِقانون
باب۷
اسلامی ریاست کی بنیادیں
۱۔حاکمیت کس کی ہے؟
۲۔ ریاست کے حدودِ عمل
۳۔ اعضائے ریاست کے حدودِ عمل اور ان کا باہمی تعلق
۴۔ ریاست کا مقصدِ وجود
۵۔حکومت کی تشکیل کیسے ہو؟
۶۔اولی الامر کے اوصاف
۷۔ شہریت اور اس کی بنیادیں
۸۔ حقوقِ شہریت
۹۔شہریوں پر حکومت کے حقوق
باب ۸
اسلامی دستور کی بنیادیں
۱۔حاکمیت الٰہی
۲۔ مقامِ رسالت
۳۔ تصورِ خلافت
۴۔ اصولِ مشاورت
۵۔اصولِ انتخاب
۶۔عورتوں کے مناصب
۷۔ حکومت کا مقصد
۸۔ اولی الامر اور اصولِ اطاعت
۹۔ بنیادی حقوق اور اجتماعی عدل
۱۰۔فلاحِ عامہ
باب ۹
۱۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ خلافتِ راشدہ
باب ۱۰
۱۔ اسلام میں قانون سازی کا دائرۂ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
۲۔قانون سازی‘ شوریٰ اور اجماع
۳۔نظام اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
باب۱۱
۱۔ اسلامی ریاست کے چند پہلو
۲۔خلافت و حاکمیت۲۰۳؎
۳۔ ملکی سیاست میں عورتوں کا حصہ
۴۔ذمیوں کے حقوق۲۱۱؎
(۵) ذمیوں کے حقوق۲۱۶؎
۶۔چند متفرق مسائل
باب ۱۲
انسان کے بنیادی حقوق
باب۱۳
غیر مسلموں کے حقوق
باب۱۴
اسلام اور عدلِ اجتماعی
باب ۱۵
اسلامی ریاست کے رہنما اُصول
باب۱۶
۱۔اسلامی انقلاب کی راہ
ضمیمہ نمبر ۱
ضمیمہ نمبر ۲

اسلامی ریاست

اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اُصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔ اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔انبیاء کرامؑ وقت کی اجتماعی قوت کواسلام کےتابع کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی دعوت کا مرکزی تخیل ہی یہ تھا کہ اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کےلیے خالص ہو جائے اور شرک اپنی ہر جلی اور خفی شکل میں ختم کردیا جائے ۔قرآن کےمطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف ،حضرت موسی، حضرت داؤد، اور نبی کریم ﷺ نے باقاعدہ اسلامی ریاست قائم بھی کی اور اسے معیاری شکل میں چلایا بھی۔اسلامی فکر میں دین اورسیاست کی دوری کاکوئی تصور نہیں پایا جاتا اور کا اسی کانتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کواسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہ جدوجہد ان کے دین وایمان کاتقاضا ہے۔قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں جس طرح اخلاق اور حسنِ کردار کی تعلیمات موجود ہیں۔اسی طرح معاشرت،تمدن اور سیاست کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب’’اسلامی ریاست‘‘مفکرِ اسلام مولا نا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کی تصنیف ہے ۔جس میں انھوں نے بیک وقت ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کی کما حقہ کوشش کی ہے ۔ ایک طرف انھوں نے اسلام کےپورے نظام حیات کودینی اور عقلی دلائل کےساتھ اسلام کی اصل تعلیمات کودورحاضر کی زبان میں پیش کیاہے ۔ ان کی تحریرات کےمطالعہ سے قاری کوزندگی کے بارے میں اسلام کے نقظہ نظر کا کلی علم حاصل ہوتا ہے اوروہ پوری تصویر کو بیک نظر دیکھ سکتا ہے۔انھوں نےہر مرعوبیت سے بالا تر ہوکر دورحاضرکے ہر فتنہ کا مقابلہ کیا اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اورفوقیت کوثابت کیا ہے۔پھر یہ بھی بتایا ہےکہ اس نظام کودور حاضر میں کیسے قائم کیا جاسکتا ہے اور آج کے اداروں کوکس طرح اسلام کے سانچوں میں ڈھالا جاسکتاہے ۔انھوں نے اسلامی ریاست کے ہمہ پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئےدور جدید کے تقاضوں کوسامنے رکھ کر اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پیش کیاہے ۔کتاب ہذا دراصل مولانامودودی کے منتشر رسائل ومضامین کامجموعہ ہے جسے پروفیسر خورشید احمد صاحب (مدیر ماہنامہ ترجمان القرآن)نے بڑے حسن ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف ومرتب کی اشاعتِ اسلام کےلیے کی جانے والی تمام کاوشوں کو قبول فرماے۔آمین

۱۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

ظہور اسلام کے ساتھ جو مسلم معاشرہ وجود میں آیا اور پھر ہجرت کے بعد سیاسی طاقت حاصل کرکے جس ریاست کی شکل اس نے اختیار کی، اس کی بنیاد چند واضح اصولوں پر تھی۔ ان میں سے اہم تر،جن کا تعلق ہماری بحث سے ہے، یہ ہیں:
قانونِ خداوندی کی بالاتری
اس ریاست کا اولین بنیادی قاعدہ یہ تھا کہ حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے اور اہل ایمان کی حکومت دراصل ’خلافت‘ ہے جسے مطلق العنانی کے ساتھ کام کرنے کا حق نہیں ہے‘ بلکہ اس کو لازمًا اس قانون خداوندی کے تحت رہ کر ہی کام کرنا چاہیے جس کا ماخذ خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت ہے۔ قرآن مجید میں اس قاعدے کو حسب ذیل آیات میں بیان کیا گیا ہے:
النساء:۵۹‘ ۶۴‘ ۶۵‘ ۸۰‘ ۱۰۵۔ المائدہ: ۴۴‘ ۴۵‘ ۴۷۔ الاعراف:۳۔ یوسف: ۴۰۔ النور: ۵۴‘ ۵۵۔ الاحزاب:۳۶۔ الحشر: ۷۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے متعدد ارشادات میں اس اصل الاصول کو پوری صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے:
۱۔ عَلَیْکُمْ بِکِتَابِ اللّٰہِ اَحِلُّوْا حَلَالَہ‘ وَ حَرِّمُوْا حَرَامَہ‘۔۱۱۶؎
تم پر لازم ہے کتاب اللہ کی پیروی۔ جس چیز کو اس نے حلال کیا ہے اسے حلال کرو اور جسے اس نے حرام کیا ہے اسے حرام کرو۔
۲۔ اِنَّ اللّٰہَ فَرَضَ فَرائِضَ فَلاَ تُضَیِّعُوْھَا وَ حَرَّمَ حُرُمَاتٍ فَلاَ تَنْتَھِکُوْھَا وَحَدَّحُدُوْدًا فَلاَ تَعْتَدُوْھَا وَسَکَتَ عَنْ اَشْیَآئَ مِنْ غَیْرِ نِسْیَانٍ فَلاَ تَبْحَثُوْا عَنْھَا۔۱۱۷؎
اللہ نے کچھ فرائض مقرر کیے ہیں‘ انھیں ضائع نہ کرو۔ کچھ حرمتیں مقرر کی ہیں‘ انھیں نہ توڑو۔ کچھ حدود مقرر کی ہیں‘ ان سے تجاوز نہ کرو، اور کچھ چیزوں کے بارے میں سکوت فرمایا ہے بغیر اس کے کہ اسے نسیان لاحق ہوا ہو‘ ان کی کھوج میں نہ پڑو۔
۳۔ مَنِ اقْتَدٰی بِکِتَابِ اللّٰہِ لَا یَضِلُّ فِی الدُّنْیَا وَلَا یَشْقٰی فِی الْاٰخِرَۃِ۔۱۱۸؎
جس نے کتاب اللہ کی پیروی کی وہ نہ دنیا میں گمراہ ہوگا، نہ آخرت میں بدبخت۔
تَرَکْتُ فِیْکُمْ اَمَرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا کِتَابَ اللّٰہِ وَسُنَّۃَ رَسُوْلِہٖ۔۱۱۹؎
میں نے تمھارے اندر دو چیزیں چھوڑی ہیں جنھیں اگر تم تھامے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے‘ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔
۴۔ مَااَمَرْتُکُمْ بِہٖ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھَیْتُکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا۔۱۲۰؎
جس چیز کا میں نے تم کو حکم دیا ہے اسے اختیار کرلو اور جس چیز سے روکا ہے اس سے رک جائو۔
عدل بین الناس
دوسرا قاعدہ جس پر اس ریاست کی بنا رکھی گئی تھی‘ یہ تھا کہ قرآن و سنت کا دیا ہوا قانون سب کے لیے یکساں ہے اور اس کو مملکت کے ادنیٰ ترین آدمی سے لے کر مملکت کے سربراہ تک سب پر یکساں نافذ ہونا چاہیے۔ کسی کے لیے بھی اس میں امتیازی سلوک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو یہ اعلان کرنے کی ہدایت فرماتا ہے کہ:
وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَيْنَكُمْ الشوریٰ 15:42
اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمھارے درمیان عدل کروں۔
یعنی میں بے لاگ انصاف پسندی کرنے پر مامور ہوں۔ میرا یہ کام نہیں ہے کہ کسی کے حق میں اور کسی کے خلاف تعصب برتوں۔ میرا سب انسانوں سے یکساں تعلق ہے اور وہ ہے عدل و انصاف کا تعلق۔ حق جس کے ساتھ ہو، میں اس کا ساتھی ہوں اور حق جس کے خلاف ہو، میں اس کا مخالف ہوں۔ میرے دین میں کسی کے لیے بھی کوئی امتیاز نہیں ہے۔ اپنے اور غیر‘ بڑے اور چھوٹے‘ شریف اور کمین کے لیے الگ الگ حقوق نہیں ہیں۔ جو کچھ حق ہے وہ سب کے لیے حق ہے۔ جو گناہ ہے وہ سب کے لیے گناہ ہے۔ جو حرام ہے وہ سب کے لیے حرام ہے۔ جو حلال ہے وہ سب کے لیے حلال ہے، اور جو فرض ہے وہ سب کے لیے فرض ہے۔ میری اپنی ذات بھی قانونِ خداوندی کی اس ہمہ گیری سے مستثنیٰ نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود اس قاعدے کویوں بیان فرماتے ہیں:
اِنَّمَا ھَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ اِنَّھُمْ کَانُوْا یُقِیْمُوْنَ الْحَدَّ عَلَی الْوَضِیْعِ وَ یَتْرُکُوْنَ الشَّرِیْفَ وَ الَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ لَوْ اَنَّ فَاطِمَۃَ (بِنْتَ مُحَمَّدٍ) فَعَلَتْ ذَالِکَ لَقَطَعْتُ یَدَھَا۔۱۲۱؎
تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں وہ اسی لیے تو تباہ ہوئیں کہ وہ لوگ کم تر درجے کے مجرموں کو قانون کے مطابق سزا دیتے تھے اور اونچے درجے والوں کو چھوڑ دیتے تھے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے‘ اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو میں ضرور اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔
حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں:
رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَیِّدُ مِنْ نَّفْسِہٖ۔۱۲۲؎
میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ذات سے بدلہ دیتے دیکھا ہے۔
مساوات بین المسلمین
اسی قاعدے کی فرع یہ تیسرا قاعدہ ہے جو اس ریاست کے مُسلِّمات میں سے تھا کہ تمام مسلمانوں کے حقوق بلالحاظ رنگ و نسل و زبان و وطن بالکل برابر ہیں۔ کسی فرد‘ گروہ‘ طبقے یا نسل و قوم کو اس ریاست کے حدود میں نہ امتیازی حقوق حاصل ہوسکتے ہیں اور نہ کسی کی حیثیت کسی دوسرے کے مقابلے میں فرو تر قرار پا سکتی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(i ) اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ الحجرات10:49
مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔
(ii ) يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا۝۰ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۝۰ۭ الحجرات13:49
لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمھیں قبیلوں اور قوموں میں تقسیم کیا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسب ذیل ارشادات اس قاعدے کی صراحت کرتے ہیں:
(i ) اِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ اِلٰی صُوَرِ کُمْ وَاَمْوَالِکُمْ وَلٰکِنْ یَّنْظُرُ اِلٰی قُلُوْ بِکُمْ وَاَعْمَالِکُمْ۔۱۲۳؎
اللہ تمھاری صورتیں اور تمھارے مال نہیں دیکھتا بلکہ تمھارے دل اور تمھارے اعمال دیکھتا ہے۔
(ii ) اَلْمُسْلِمُوْنَ اِخْوَۃٌ لَا فَضْلَ لِاَحَدٍ عَلٰی اَحَدٍ اِلاَّ بِالتَّقْوٰی۔۱۲۴؎
مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ کسی کو کسی پر فضیلت نہیں مگر تقویٰ کی بنا پر۔
(iii ) یَآاَیُّھَا النَّاسُ اَلاَ اِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ لَا فَضْلَ لِعَرَبِّیٍ عَلٰی عَجَمِیٍّ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰی اَحْمَرَ وَلاَ لِاَ حْمَرَ عَلٰی اَسْوَدَ اِلاَّ بِالتَّقْوٰی۔۱۲۵؎
لوگو! سن لو‘ تمھارا رب ایک ہے۔ عربی کو عجمی پر، یا عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں، نہ کالے کو گورے پر، یا گورے کو کالے پر کوئی فضیلت ہے، مگر تقوٰی کے لحاظ سے۔
(iv ) مَنْ شَھِدَاَنْ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَصَلّٰی صَلٰوتَنَا وَاَکَلَ ذَبِیْحَتَنَا فَھُوَ الْمُسْلِمُ لَہ‘ مَا لِلْمُسْلِمِ وَ عَلَیْہِ مَاعَلَی الْمُسْلِمِ۔۱۲۶؎
جس نے شہادت دی کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں اور ہمارے قبلے کی طرف رخ کیا اور ہماری طرح نماز پڑھی اور ہمارا ذبیحہ کھایا وہ مسلمان ہے۔ اس کے حقوق وہی ہیں جو مسلمان کے حقوق ہیں اور اس پر فرائض وہی ہیں جو مسلمان کے فرائض ہیں۔
(v ) اَلْمُؤْمِنُوْنَ تَتَکَافَأُ دِمَا ئُھُمْ وَھُمْ یَدٌ عَلٰی مَنْ سِوَاھُمْ وَیَسْعٰی بِذِمَّتِھِمْ اَدْنَاھُمْ۔۱۲۷؎
مومنوں کے خون ایک دوسرے کے برابر ہیں‘ وہ دوسروں کے مقابلے میں ایک ہیں‘ اور ان کا ایک ادنیٰ آدمی بھی ان کی طرف سے ذمہ لے سکتا ہے۔
(vi ) لَیْسَ عَلَی الْمُسْلِمِ جِزْیَۃٌ۔۱۲۸؎
مسلمان پر جزیہ عاید نہیں کیا جاسکتا۔
حکومت کی ذمے داری
چوتھا اہم قاعدہ جس پر یہ ریاست قائم ہوئی تھی‘ یہ تھا کہ حکومت اور اس کے اختیارات اور اموال‘ خدا اور مسلمانوں کی امانت ہیں جنھیں خدا ترس‘ ایمان دار اور عادل لوگوں کے سپرد کیا جانا چاہیے اور اس امانت میں کسی شخص کو من مانے طریقے پر‘ یا نفسانی اغراض کے لیے تَصرُّف کرنے کا حق نہیں ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۝۰ۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِہٖ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًاo النساء58:4
اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔ اللہ تمھیں اچھی نصیحت کرتا ہے۔ یقیناً اللہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(i ) اَلاَ کُلُّکُمْ رَاعٍ وَّ کُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ فَالْاِمَامُ الْاَعْظَمُ الَّذِیْ عَلَی النَّاسِ رَاعٍ وَھُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ۔۱۲۹؎
خبردار رہو‘ تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور ہر ایک اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے اور مسلمانوں کا سب سے بڑا سردار جو سب پر حکمران ہو‘ وہ بھی راعی ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ۔
(ii ) مَا مِنْ وَّالٍ یَّلِیْ رَعِیَّۃً مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ فَیَمُوْتُ وَھُوَ غَاشٌ لَّھُمْ اِلَّا حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ۔۱۳۰؎
کوئی حکمران جو مسلمانوں میں سے کسی رعیت کے معاملات کا سربراہ ہو‘ اگر اس حالت میں مرے کہ وہ ان کے ساتھ دھوکا اور خیانت کرنے والا تھا‘ تو اللہ اس پرجنت حرام کردے گا۔
(iii ) مَا مِنْ اَمِیْرٍ یَلِیْ اَمْرَ الْمُسْلِمِیْنَ ثُمَّ لَایَجْھَدْ لَھُمْ وَلاَ یَنْصَحْ اِلاَّ لَمْ یَدْخُلْ مَعَھُمْ فِی الْجَنَّۃِ۔۱۳۱؎
کوئی حاکم جو مسلمانوں کی حکومت کا کوئی منصب سنبھالے، پھر اس کی ذمے داریاں ادا کرنے کے لیے جان نہ لڑائے اور خلوص کے ساتھ کام نہ کرے وہ مسلمانوں کے ساتھ جنت میں قطعاً نہ داخل ہوگا۔
(iv ) یَا اَبَاذَرٍّ اِنَّکَ ضَعِیْفٌ وَ اِنَّھَا اَمَانَۃٌ وَاِنَّھَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ خِزْیٌ وَنَدَامَۃٌ اِلاَّ مَنْ اَخَذَ بِحَقِّھَا وَاَدَّی الَّذِیْ عَلَیْہِ فِیْھَا۔۱۳۲؎
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذرؓ سے فرمایا اے ابوذر! تم کمزور آدمی ہو اور حکومت کا منصب ایک امانت ہے‘ اور قیامت کے روز وہ رسوائی اور ندامت کا موجب ہوگا، سوائے اس شخص کے جو اس کے حق کا پورا پورا لحاظ کرے اور جو ذمے داری اس پر عائد ہوتی ہے اسے ٹھیک ٹھیک ادا کرے۔
(v ) مِنْ اَخْوَنِ الْخَیَانَۃِ تِجَارَۃُ الْوَالِیْ فِیْ رَعِیَّۃٍ۔ (کنز العمال‘ ج۶‘ح۷۸)
کسی حاکم کا اپنی رعیت میں تجارت کرنا بدترین خیانت ہے۔
(vi) مَنْ وُّلِیَ لَنَا عَمَلاً وَلَمْ تَکُنْ لَہ‘ زَوْجُہ‘ فَلْیَتَّخِذْ زَوْجَۃً وَمَنْ لَّمْ یَکُنْ لَہ‘ خَادِمٌ فَلْیَتَّخِذْ خَادِمًا اَوْلَیْسَ لَہ‘ مَسْکَنٌ فَلْیَتَّخِذْ مَسْکَنًا اَوْلَیْسَ لَہ‘ دَابَّۃٌ فَلْیَتَّخِذْ دَابَّۃً فَمَنْ اَصَابَ سِوٰی ذٰلِکَ فَھُوَ غَالٌّ اَوْسَارِقٌ۔ (کنز العمال‘ ج۶‘ح۳۴۶)
جو شخص ہماری حکومت کے کسی منصب پر فائز ہو وہ اگر بیوی نہ رکھتا ہو تو شادی کرلے‘ اگر خادم نہ رکھتا ہو تو ایک خادم حاصل کرلے‘ اگر گھر نہ رکھتا ہوتو ایک گھر لے لے‘ اگر سواری نہ رکھتا ہو تو ایک سواری لے لے۔ اس سے آگے جو شخص قدم بڑھاتا ہے وہ خائن ہے یا چور۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓ فرماتے ہیں:
مَنْ یَکُنْ اَمِیْرًا فَاِنَّہ‘ مِنْ اَطْوَلَ النَّاسِ حِسَابًا وَاَغْلَظَہ‘ عَذَابًا وَمَنْ لَایَکُوْنُ اَمِیْرًا فَاِنَّہ‘ مِن اَیْسَرِ النَّاسِ حِسَابًا وَ اَھْوَنَہ‘ عَذَابًا لِاَنَّ الْاُمَرَائَ اَقْرَبُ النَّاسِ مِنْ ظُلْمِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَنْ ظَلَمَ الْمُؤْمِنِیْنَ فَاِنَّمَا یَخْفَرُ اللّٰہَ۔ (کنزالعمال‘ ج۵‘ ح۲۵۰۵)
جو شخص حکمران ہو اس کو سب سے زیادہ بھاری حساب دینا ہوگا اور وہ سب سے زیادہ سخت عذاب کے خطرے میں مبتلا ہوگا‘ اور جو حکمران نہ ہو اس کو ہلکا حساب دینا ہوگا اور اس کے لیے ہلکے عذاب کا خطرہ ہے‘ کیونکہ حکام کے لیے سب سے بڑھ کر اس بات کے مواقع ہیں کہ ان کے ہاتھوں مسلمانوں پر ظلم ہو اور جو مسلمانوں پر ظلم کرے وہ خدا سے غداری کرتا ہے۔
حضرت عمرؓ کہتے ہیں:
لَوھَلَکَ حَمْلٌ مِنْ وَلَدِ الضَّاْنِ ضِیَاعًا بِشَاطِی الْفُرَاتِ خَشِیْتُ اَنْ یَّسْاَلَنِیَ اللہُ۔۱۳۳؎
دریائے فرات کے کنارے ایک بکری کا بچہ بھی اگر ضائع ہو جائے تو مجھے ڈر لگتا ہے کہ اللہ مجھ سے باز پرس کرے گا۔
شوریٰ
اس ریاست کا پانچواں اہم قاعدہ یہ تھا کہ سربراہ ریاست مسلمانوں کے مشورے اور ان کی رضامندی سے مقرر ہونا چاہیے اور اسے حکومت کا نظام بھی مشورے سے چلانا چاہیے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے:
(i) وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَيْنَہُمْ۝۰۠ الشوریٰ38:42
اور مسلمانوں کے معاملات باہمی مشورے سے چلتے ہیں۔
(ii) وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ۝۰ۚ آل عمران159:3
اور اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے معاملات میں مشاورت کرو۔
حضرت علیؓکا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر آپ کے بعد ہمیں کوئی ایسا معاملہ پیش آئے جس کے متعلق نہ قرآن میں کوئی حکم ہو،اور نہ آپؐ سے ہم نے کچھ سنا ہو تو ہم کیا کریں؟ فرمایا:
اَجْمِعُوا الْعَابِدِیْنَ مِنْ اُمَّتِیْ وَاجْعَلُوْہُ بَیْنَکُمْ شُوْرٰی وَلاَ تَقْضُوْا بِرَأْیِ وَاحِدٍ۔ ۱۳۴؎
میری امت کے عابد لوگوں کو جمع کرو اور اس معاملے کو آپس میں مشورے کے لیے پیش کردو۔ کسی ایک شخص کی رائے پر فیصلہ نہ کرڈالو۔
حضرت عمرؓ کہتے ہیں:
مَنْ دَعَا اِلٰی اَمَارَۃِ نَفْسِہٖ اَوْغَیْرِہٖ مِنْ غَیْرِ مَشْوَرَۃٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ فَلاَ یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ لَّا تَقْتُلُوْہُ۔
(کنزالعمال‘ ج۵‘ ص۲۵۷۷)
جو شخص مسلمانوں کے مشورے کے بغیر اپنی یا کسی اور شخص کی امارت کے لیے دعوت دے تو تمھارے لیے حلال نہیں ہے کہ اسے قتل نہ کرو۔
ایک اور روایت میں حضرت عمرؓ کا یہ قول نقل ہوا ہے:
لَا خِلَافَۃَ اِلَّا عَنْ مَشْوَرَۃٍ۔ (کنزالعمال‘ ج۵‘ حدیث ۲۳۵۴)
مشورے کے بغیر کوئی خلافت نہیں۔
اطاعت فی المعروف
چھٹا قاعدہ جس پر یہ ریاست قائم کی گئی تھی‘ یہ تھا کہ حکومت کی اطاعت صرف معروف میں واجب ہے‘ معصیت میں کسی کو اطاعت کا حق نہیں پہنچتا۔ دوسرے الفاظ میں اس قاعدے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اور حکام کا صرف وہی حکم ان کے ماتحتوں اور رعیت کے لیے واجب الاطاعت ہے جو قانون کے مطابق ہو۔ قانون کے خلاف حکم دینے کا نہ انھیں حق پہنچتا ہے اور نہ کسی کو اس کی اطاعت کرنی چاہیے۔ قرآن مجید میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کو بھی اطاعت فی المعروف کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے‘ حالانکہ آپؐ کی طرف سے کسی معصیت کا حکم صادر ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
وَلَا يَعْصِيْنَكَ فِيْ مَعْرُوْفٍ الممتحنہ12:60
اور یہ کہ وہ کسی امر معروف میں آپؐ کی نافرمانی نہ کریں گی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
۱۔ اَلسَّمْعُ وَ الطَّاعَۃُ عَلَی الْمَرْئِ الْمُسْلِمِ فِیْمَا اَحَبَّ اَوْکَرِہَ مَالَمْ یُؤْمَرْ بِمَعْصِیَۃٍ فَاِذَا اُمِرَ بِمَعْصِیَۃٍ فَلاَ سَمْعَ وَلاَ طَاعَۃَ۔۱۳۵؎
ایک مسلمان پر اپنے امیر کی سمع و طاعت فرض ہے خواہ اس کا حکم اسے پسند ہو یا ناپسند‘ تاوقتیکہ اسے معصیت کا حکم نہ دیا جائے اور جب معصیت کا حکم دیا جائے تو پھر کوئی سمع و طاعت نہیں۔
۲۔ لَاطَاعَۃَ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللہ اِنَّمَا الطَّاعَۃُ فِی الْمَعْرُوْفِ۔۱۳۶؎
اللہ کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں ہے۔ اطاعت صرف معروف میں ہے۔
یہ مضمون نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بکثرت ارشادات میں مختلف طریقوں سے نقل ہوا ہے۔
٭ کہیں آپؐ نے فرمایا:لَاطَاعَۃَ لِمَنْ عَصَی اللہ۔
جو اللہ کی نافرمانی کرے‘ اس کے لیے کوئی اطاعت نہیں۔
٭ کہیں فرمایا:لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ۔
خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کے لیے کوئی اطاعت نہیں۔
٭ کہیں فرمایا: لَاطَاعَۃَ لِمَنْ لَّمْ یُطِعِ اللہ۔
جو اللہ کی اطاعت نہ کرے اس کے لیے کوئی اطاعت نہیں۔
٭ کہیں فرمایا: مَنْ اَمَرَکُمْ مِنَ الْوُلَاۃِ بِمَعْصِیَۃٍ فَلاَ تُطِیْعُوْہُ۔۱۳۷؎
حکام میں سے جوکوئی تمھیں کسی معصیت کا حکم دے اس کی اطاعت نہ کرو۔
حضرت ابوبکرؓ اپنے ایک خطبے میں فرماتے ہیں:
مَنْ وُلِیَ اَمْرَاُمَّۃِ مُحَمَّدٍ شَیْئًا فَلَمْ یَقُمْ فِیْھِمْ بِکِتَابِ اللہ فَعَلَیْہِ بَھْلَۃُ اللہ۔ ۱۳۸؎
جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے معاملات سے کسی معاملے کا ذمے دار بنایا گیا اور پھر اس نے لوگوں کے درمیان کتاب اللہ کے مطابق کام نہ کیا اُس پر اللہ کی لعنت۔
اسی بنا پر خلیفہ ہونے کے بعد انھوں نے اپنی پہلی ہی تقریر میں یہ اعلان کر دیا تھا کہ:
اَطِیْعُونِیْ مَا اَطَعْتُ اللہ وَرَسُوْلَہ‘ فَاِذَا عَصَیْتُ اللہ وَرَسُوْلَہ‘ فَلاَ طَاعَۃَ لِیْ عَلَیْکُمْ ۔۱۳۹؎
میری اطاعت کرو جب تک میں اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرتا رہوں اور جب میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کروں تو میری کوئی اطاعت تم پر نہیں ہے۔
حضرت علیؓ فرماتے ہیں:
حَقٌّ عَلَی الْاِمَامِ اَنْ یَّحْکُمَ بِمَا اَنْزَلَ اللہ وَاَنْ یُّؤَدِّیَ الْاَمَانَۃَ فَاِذَا فَعَلَ ذَالِکَ فَحَقٌّ عَلَی النَّاسِ اَنْ یَّسْمَعُوْا لَہ‘ وَاَنْ یُّطِیْعُوْا وَاَنْ یُّجِیْبُوْا اِذَادُعُوْا۔۱۴۰؎
مسلمانوں کے فرماںروا پر یہ فرض ہے کہ وہ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ کرے اور امانت ادا کرے۔ پھر جب وہ اس طرح کام کر رہا ہو تو لوگوں پر یہ فرض ہے کہ اس کی سنیں اور مانیں اورجب انھیں پکارا جائے تو لبیک کہیں۔
اپنی خلافت کے زمانے میں انھوں نے اپنے ایک خطبے میں یہ اعلان فرمایا:
مَااَمَرْتُکُمْ بِہٖ مِنْ طَاعَۃِ اللہ فَحَقٌّ عَلَیْکُمْ طَاعَتِیْ فِیْمَا اَحْبَبْتُمْ وَمَا کَرَھْتُمْ وَمَا اَمَرْتُکُمْ بِہٖ مِنْ مَعْصِیَۃِ اللہ فَلاَ طَاعَۃَ لِاَحَدٍ فِی الْمَعْصِیَۃِ اَلطَّاعَۃُ فِی الْمَعْرُوْفِ اَلطَّاعَۃُ فِی الْمَعْرُوْفِ اَلطَّاعَۃُ فِی الْمَعْرُوْفِ۔۱۴۱؎
میں اللہ کی فرماںبرداری کرتے ہوئے تم کو جو حکم دوں اس کی اطاعت تم پر فرض ہے‘ خواہ وہ حکم تمھیں پسند ہو یا ناپسند، اور جو حکم میں تمھیں اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے دوں تو معصیت میں کسی کے لیے اطاعت نہیں۔ اطاعت صرف معروف میں ہے‘ اطاعت صرف معروف میں ہے‘ اطاعت صرف معروف میں ہے۔
اقتدار کی طلب و حرص کا ممنوع ہونا
یہ قاعدہ بھی اس ریاست کے قواعد میں سے تھا کہ حکومت کے ذمے دارانہ مناصب کے لیے عموماً اور خلافت کے لیے خصوصاً وہ لوگ سب سے زیادہ غیر موزوں ہیں جو خود عہدہ حاصل کرنے کے طالب ہوں اور اس کے لیے کوشش کریں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِيْنَ لَا يُرِيْدُوْنَ عُلُوًّا فِي الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا۝۰ۭ القصص 83:28
وہ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کو دیں گے جو زمین میں نہ اپنی بڑائی کے طالب ہوتے ہیں اور نہ فساد برپا کرنا چاہتے ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
اِنَّا وَاللہ لَا نُوَلِّیْ عَلٰی عَمَلِنَا ھٰذَا اَحَدًا سَأَلَہ‘ اَوْحَرَصَ عَلَیْہِ۔۱۴۲؎
بخدا! ہم اپنی اس حکومت کا منصب کسی ایسے شخص کو نہیں دیتے جو اس کا طالب ہو یا اس کا حریص ہو۔
اِنَّ اَخْوَنَکُمْ عِنْدَنَا مَنْ طَلَبَ۔۱۴۳؎
تم میں سب سے بڑھ کر خائن ہمارے نزدیک وہ ہے جو اسے خود طلب کرے۔
۳۔اَنْ لاَّ نَسْتَعْمِلَ عَلٰی عَمَلِنَا مَنْ اَرَادَہ‘۔۱۴۴؎
ہم اپنی حکومت میں کسی ایسے شخص کو عامل نہیں بناتے جو اس کی خواہش کرے۔
۴۔ یَا عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ سَمُرَۃَ لَا تَسْئَلِ الْاَمَارَۃَ فَاِنَّکَ اِذَا اُوْتِیْتَھَا عَنْ مَسْئَلَۃٍ وُکِّلْتَ اِلَیْھَا وَاِنْ اُوْتِیْتَھَا عَنْ غَیْرِ مَسْئَلَۃٍ اُعِنْتَ عَلَیْھَا۔۱۴۵؎
(عبدالرحمان بن سمرہؓ سے حضور اکرمؐ نے فرمایا ) اے عبدالرحمن بن سمرہ! امارت کی درخواست نہ کرو‘ کیونکہ اگر وہ تمھیں مانگنے پر دی گئی تو خدا کی طرف سے تم کو اسی کے حوالے کر دیا جائے گا اور اگر وہ تمھیں بے مانگے ملی تو خدا کی طرف سے تم کو اس کا حق ادا کرنے میں مدد دی جائے گی۔
ریاست کا مقصد وجود
اس ریاست میں حکمران اور اس کی حکومت کا اولین فریضہ یہ قرار دیا گیا تھا کہ وہ اسلامی نظام زندگی کو کسی ردوبدل کے بغیر جوں کا توں قائم کرے اوراسلام کے معیار اخلاق کے مطابق بھلائیوں کو فروغ دے اور برائیوں کو مٹائے۔ قرآن مجید میں اس ریاست کا مقصدِ وجود یہ بیان کیا گیا ہے کہ:
٭ اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۝۰ۭ الحج41:22
یہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ دیں گے اور نیکی کا حکم دیں گے اور بدی سے روکیں گے۔
اور یہی قرآن کی رُو سے امت مسلمہ کا مقصد وجود بھی ہے:
٭ وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا۝۰ۭ البقرہ143:2
اور اس طرح ہم نے تم کو ایک بیچ کی امت (یا راہ اعتدال پر قائم رہنے والی امت) بنا دیا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ تم پر گواہ۔
٭ كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۝۰ۭ
آل عمران 110:3
تم وہ بہترین امت ہو جسے لوگوں (کی اصلاح و ہدایت) کے لیے نکالا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
علاوہ بریں جس کام پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ سے پہلے کے تمام انبیاء علیھم السلام مامور تھے وہ قرآن مجید کی رُو سے یہ تھا کہ اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ الشوری 14:42 ’دین کو قائم کرو اور اس میں متفرق نہ ہو جائو‘۔غیر مسلم دنیا کے مقابلے میں آپؐ کی ساری جدوجہد صرف اس غرض کے لیے تھی کہ یَکُوْنَ الِدّیْنُ کُلُّہ‘ لِلّٰہِ۔ الانفال 39:8 ’دین پورے کا پورا صرف اللہ کے لیے ہو جائے‘اور تمام انبیاء کی امتوں کی طرح آپؐ کی امت کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کا حکم یہ تھا کہ لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَائَ البینۃ 5:98 ’یکسو ہو کر اللہ کی بندگی کریں‘اپنے دین کو اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے‘ اس لیے آپؐ کی قائم کردہ ریاست کا اصل کام ہی یہ تھا کہ دین کے پورے نظام کو قائم کرے اور اس کے اندر کوئی ایسی آمیزش نہ ہونے دے جو مسلم معاشرے میں دو رنگی پیدا کرنے والی ہو۔ اس آخری نکتے کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب اور جا نشینوں کو سختی کے ساتھ متنبہ فرما دیا کہ:
۱۔ مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَالَیْسَ مِنْہُ فَھُوَرَدٌّ۔۱۴۶؎
جو شخص ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات نکالے جو اس کی جنس سے نہ ہو اس کی بات مردود ہے۔
۲۔ اِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْاُمُوْرِ فَاِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ۔ ۱۴۷؎
خبردار! نرالی باتوں سے بچنا‘ کیونکہ ہر نرالی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی۔
۳۔ مَنْ وَقَّرَ صَاحِبَ بِدْعَۃٍ فَقَدْ اَعَانَ عَلٰی ھَدْمِ الْاِسْلَامِ۔۱۴۸؎
جس نے کسی بدعت نکالنے والے کی توقیر کی اس نے اسلام کو منہدم کرنے میں مدد دی۔
اسی سلسلے میں آپؐ کا یہ ارشاد بھی ہمیں ملتا ہے کہ تین آدمی خدا کو سب سے زیادہ ناپسند ہیں اور ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو:
مُبْتَغٍ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃَ الْجَاھِلِیَّۃِ۔۱۴۹؎
اسلام میں جاہلیت کا کوئی طریقہ چلانا چاہے۔
امربالمعروف و نہی عن المنکر کا حق اور فرض
اس ریاست کے قواعد میں سے آخری قاعدہ‘ جو اس کو صحیح راستے پر قائم رکھنے کا ضامن تھا‘ یہ تھا کہ مسلم معاشرے کے ہر فرد کا نہ صرف یہ حق ہے، بلکہ یہ اس کا فرض بھی ہے کہ کلمۂ حق کہے‘ نیکی اوربھلائی کی حمایت کرے اور معاشرے یا مملکت میں جہاں بھی غلط اور ناروا کام ہوتے نظر آئیں ان کو روکنے میں اپنی امکانی حد تک پوری کوشش صرف کردے۔ قرآن مجید کی ہدایات اس باب میں یہ ہیں:
۱۔ وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى۝۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۝۰۠ المائدہ2:5
نیکی اور تقویٰ میں تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی میں تعاون نہ کرو۔
۲۔ يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًاo الاحزاب70:33
اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ سے ڈرو اور درست بات کرو۔
۳۔ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاۗءَ لِلہِ وَلَوْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ۝۰ۚ النساء:135:4
اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ انصاف پر قائم رہنے والے اور اللہ کے لیے گواہی دینے والے بنو‘ خواہ تمھاری گواہی خود تمھارے اپنے خلاف یا تمھارے والدین یا قریبی رشتہ داروں کے خلاف پڑے۔
۴۔ اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُہُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ۝۰ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْكَرِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ …… وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۝۰ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ
التوبہ 71-67:9
منافق مرد اور عورتیں ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہیں‘ وہ برائی کا حکم دیتے اور بھلائی سے روکتے ہیں……اور مومن مرد اورمومن عورتیں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں‘ وہ بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں۔
قرآن میں اہل ایمان کی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ:
الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللہِ۝۰ۭ التوبہ112:9
نیکی کا حکم دینے والے‘ بدی سے منع کرنے والے اور اللہ کے حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اس معاملے میں حسب ذیل ہیں:
۱۔ مَنْ رَاٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذَالِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ۔۱۵۰؎
تم میں سے جو شخص کوئی برائی دیکھے اسے چاہیے کہ اس کو ہاتھ سے بدل دے‘ اگر ایسا نہ کرسکے تو زبان سے روکے‘ اگر یہ بھی نہ کرسکے تو دل سے (برا سمجھے اور روکنے کی خواہش رکھے) اور یہ ایمان کا ضعیف ترین درجہ ہے۔
۲۔ ثُمَّ اِنَّھَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِھِمْ خُلُوُفٌ یَقُوْلُوْنَ مَالَا یَفْعَلُوْنَ وَیَفْعَلُوْنَ مَالَا یُؤْمَرُوْنَ فَمَنْ جَاھَدَ ھُمْ بِیَدِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ وَمَنْ جَاھَدَ ھُمْ بِلِسَانِہٖ فَھُوَ مُؤمِنٌ وَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِقَلْبِہٖ فَھُوْ مُؤْمِنٌ وَلَیْسَ وَرَائَ ذَالِکَ حَبَّۃُ خَرْدَلٍ مِّنَ الْاِیْمَانِ۔۱۵۱؎
پھر ان کے بعد نالائق لوگ ان کی جگہ آئیں گے۔ کہیں گے وہ باتیں جو کریں گے نہیں اور کریں گے وہ کام جن کا انھیں حکم نہیں دیا گیا ہے۔ پس جو ان کے خلاف ہاتھ سے جدوجہد کرے وہ مومن ہے‘ اورجو ان کے خلاف زبان سے جہاد کرے وہ مومن ہے اور جو ان کے خلاف دل سے جہاد کرے وہ مومن ہے اور اس سے کم تر ایمان کا ذرہ برابر بھی کوئی درجہ نہیں ہے۔
۳۔ اَفْضَلُ الْجِھَادِ کَلِمَۃُ عَدْلٍ (اَوْحَقٍّ) عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ۔۱۵۲؎
سب سے افضل جہاد ظالم حکمران کے سامنے انصاف کی (یا حق کی) بات کہنا ہے۔
۴۔ اِنَّ النَّاسَ اِذَا رَاَوُ الظَّالِمَ فَلَمْ یَاْخُذُوْا عَلٰی یَدَیْہِ اَوْشَکَ اَنْ یَّعُمَّھُمُ اللہ بِعِقَابٍ مِّنْہُ۔۱۵۳؎
لوگ جب ظالم کو دیکھیں اور اس کے ہاتھ نہ پکڑیں تو بعید نہیں کہ اللہ ان پر عذاب عام بھیج دے۔
۵۔ اِنَّہ‘ سَتَکُوْنُ بَعْدِیْ اُمَرَائٌ مَنْ صَدَّقَھُمْ بِکَذِبِھمْ اَوْ اَعَانَھُمْ عَلٰی ظُلْمِھِمْ فَلَیْسَ مِنِّیْ وَلَسْتُ مِنْہُ۔۱۵۴؎
میرے بعد کچھ لوگ حکمران ہونے والے ہیں، جو ان کے جھوٹ میں ان کی تائید کرے اور ان کے ظلم میں ان کی مدد کرے وہ مجھ سے نہیں اور میں اس سے نہیں۔
۶۔ سَیَکُوْنُ عَلَیْکُمْ اَئِمَّۃٌ یَّمْلِکُوْنَ اَرْزَاقَکُمْ یُحَدِّ ثُوْنَکُمْ فَیَکْذِ بُوْنَکُمْ وَیَعْمَلُوْنَ فَیُسِیُٔوْنَ الْعَمَلَ لَایَرْضَوْنَ مِنْکُمْ حَتّٰی تُحَسِّنُوْا قَبِیْحَھُمْ وَ تُصَدِّقُوْا کَذِبَھُمْ فَاعْطُوْھُمُ الْحَقَّ مَارَضَوْا بِہٖ فَاِذَا تَجَاوَزُوْا فَمَنْ قُتِلَ عَلٰی ذٰلِکَ فَھُوَ شَھِیْدٌ۔۱۵۵؎
عنقریب تم پر ایسے لوگ حاکم ہوں گے جن کے ہاتھ میں تمھاری روزی ہو گی۔ وہ تم سے بات کریں گے تو جھوٹ بولیں گے اور کام کریں گے تو برے کام کریں گے۔ وہ تم سے اس وقت تک راضی نہ ہو ں گے جب تک تم ان کی برائیوں کی تعریف اور ان کے جھوٹ کی تصدیق نہ کرو۔ پس تم ان کے سامنے حق پیش کرو جب تک وہ اسے گوارا کریں۔ پھر اگر وہ اس سے تجاوز کریں تو جو شخص اس پر قتل کیا جائے وہ شہید ہے۔
۷۔ مَنْ اَرْضٰی سُلْطَانًا بِمَا یَسْخَطُ رَبَّہ‘ خَرَجَ مِنْ دِیْنِ اللہ۔۱۵۶؎
جس نے کسی حاکم کو راضی کرنے کے لیے وہ بات کی جو اس کے رب کو ناراض کر دے وہ اللہ کے دین سے نکل گیا۔

شیئر کریں