پہلے خواہش کو لیجیے۔ کیا یہ انسان کی راہ نما بن سکتی ہے؟ اگرچہ یہ انسان کے اندر اصلی محرکِ عمل ہے، مگر اس کی عین فطرت میں جو کم زوریاں موجود ہیں ان کی بنا پر یہ راہ نمائی کے قابل ہرگز نہیں ہو سکتی۔ تنہا راہ نمائی کرنا تو درکنار، عقل اور علم کو بھی اکثر اس نے گمراہ کیا ہے۔ اس کو تربیت سے خواہ کتنا ہی روشن خیال بنا دیا جائے، فیصلہ جب کبھی اس پر چھوڑا جائے گا یہ بلامبالغہ ۹۹ فی صدی حالات میں غیر مستقیم فیصلہ کرے گی۔ کیوں کہ اس کے اندر جو تقاضے پائے جاتے ہیں وہ اسے صحیح فیصلہ کرنے کے بجائے ایسا فیصلہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں جس سے مطلوب کسی نہ کسی طرح جلد اور بآسانی حاصل ہو جائے۔ یہ بجائے خود ’’خواہش نفسانی‘‘ کی طبعی کم زوری ہے، لہٰذا ایک فرد کی خواہش ہو یا ایک طبقے کی، یا وہ خواہشِ عام (general will) جس کا رو سونے ذکر کیاہے، بہرحال کسی قسم کی انسانی خواہش میں بھی فطرتاً یہ صلاحیت نہیں ہے کہ ایک الدّین کے وضع کرنے میں مددگار بن سکے بلکہ جہاں تک مسائل عالیہ (ultimate problems) مثلاً حیاتِ انسانی کی حقیقت، اس کے مآل اور اس کی غایت کا تعلق ہے، ان کو حل کرنے میں تو وہ کسی طرح مددگار بن ہی نہیں سکتی۔