ان میں سے پہلے نظریے کو ہم جاہلیّتِ خالصہ سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کا خلاصہ یہ ہے:
کائنات کا یہ سارا نظام ایک اِتفاقی ہنگامہ وجود و ظہور ہے جس کے پیچھے کوئی حکمت ، کوئی مصلحت اور کوئی مقصد کار فرما نہیں ہے۔ یوں ہی بن گیا ہے ، یوں ہی چل رہا ہے۔ اور یوں ہی بے نتیجہ ختم ہو جائے گا۔ اس کا کوئی خدا نہیں ہے اور اگر ہے تو اس کے ہونے یا نہ ہونے کا انسان کی زِندگی سے کوئی تعلق نہیں۔
انسان ایک قسم کا جانور ہے، جو دوسری چیزوں کی طرح شاید اتفاقاً یہاں پیدا ہو گیا ہے۔ ہمیں اس سے بحث نہیں کہ اسے کس نے پیدا کیااور کس لیے پیدا کیا۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ یہ اس زمین پر پایا جاتا ہے ، کچھ خواہشیں رکھتا ہے جنھیں پورا کرنے کے لیے اس کی طبیعت اندر سے زور کرتی ہے ، کچھ قوٰی اور کچھ آلات رکھتا ہے۔ جو ان خواہشوں کی تکمیل کا ذریعہ بن سکتے ہیں اور اپنے گرد و پیش زمین کے دامن پر بہت سا سامان پھیلا ہوا دیکھتا ہے جن پر یہ اپنے ان قوٰی اور آلات کو استعمال کرکے اپنی خواہشوں کی تکمیل کر سکتا ہے ، لہٰذا اس کی زِندگی کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ اپنی طبیعت ِحیوانی کے مطالبات پورے کرے اور اس کی انسانی استعدادوں کا مصرف اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ ان مطالبات کو پورا کرنے کے بہتر سے بہتر ذرائع فراہم کرے۔
انسان سے مافوق کوئی علم کا منبع اور ہدایت کا سرچشمہ موجود نہیں ہے جہاں سے اسے اپنی زِندگی کا قانون مل سکتا ہو ، لہٰذا اسے اپنے گرد و پیش کے آثار و احوال سے اور اپنی تاریخ کے تجربات سے خود ہی ایک قانونِ عمل اخذ کرنا چاہیے۔
بظاہر کوئی ایسی حکومت نظر نہیں آتی جس کے سامنے انسان جواب دہ ہو ، اس لیے انسان بجائے خود ایک غیر ذمہ دار ہستی ہے اور اگر یہ جواب دہ ہے بھی تو آپ اپنے ہی سامنے ہے ، یا پھر اس اقتدار کے سامنے جو خود انسانوں ہی میں سے پیدا ہو کر افراد پر مستولی ہو جائے۔
اعمال کے نتائج جو کچھ بھی ہیں اسی دنیوی زِندگی کی حد تک ہیں۔ اس کے ماسوا کوئی زِندگی نہیں ہے ، لہٰذا صحیح اور غلط ، مفید اور مضر ، قابل اخذ اور قابل ترک ہونے کا فیصلہ صرف انھی نتائج کے لحاظ سے کیا جائے گا جو دُنیا میں ظاہر ہوتے ہیں۔
انسان جب جاہلیّت محضہ کی حالت میں ہوتا ہے۔ یعنی جب اپنے محسوسات سے ماورا کسی حقیقت تک وہ نہیں پہنچتا یا بندگی نفس کی وجہ سے نہیں پہنچنا چاہتا تو اس کے ذہن پر یہی نظر یہ حاوی ہوتا ہے۔ دُنیا پرستوں نے ہر زمانے میں یہی نظریہ اختیار کیا ہے۔ قلیل مستثنیات کو چھوڑ کر بادشاہوں نے ، امیروں نے ، درباریوں اور اربابِ حکومت نے خوش حال لوگوں اور خوش حالی کے پیچھے جان دینے والوں نے عموماً اسی نظریہ کو ترجیح دی ہے۔ اور جن قوموں کی تمدنی ترقی کے گیت تاریخ میں گائے جاتے ہیں ، بالعموم ان سب کے تمدن کی جڑ میں یہی نظریہ کام کرتا رہا ہے۔ موجودہ مغربی تمدن کی بنیاد میں بھی یہی نظریہ کار فرما ہے ، اگرچہ اہل مغرب سب کے سب خدا اور آخرت کے منکر نہیں ہیں ، نہ علمی حیثیت سے سب مادہ پرستانہ اخلاق کے قائل ہیں۔ لیکن جو روح ان کے پورے نظامِ تہذیب و تمدن میں کام کر رہی ہے ، وہ اسی انکارِ خدا و آخرت اور اسی مادہ پرستانہ اخلاق ہی کی روح ہے اور وہ کچھ اس طرح ان کی زِندگی میں پیوست ہو گئی ہے کہ جو لوگ علمی حیثیت سے خدا اور آخرت کے قائل ہیں اور اخلاق میں ایک غیر مادہ پرستانہ نقطہ نظر اختیار کرتے ہیں وہ بھی غیر شعوری طور پر اپنی واقعی زِندگی میں دہریے اور مادہ پرست ہی ہیں۔ کیوں کہ ان کے علمی نظریہ کا ان کی عملی زِندگی سے بالفعل کوئی ربط قائم نہیں ہے۔
ایسی ہی کیفیت ان سے پہلے کے مترفین اور خدا فراموش لوگوں کی بھی تھی۔ بغداد ، دمشق ، دہلی اور غرناطہ کے مترفین مسلمان ہونے کی وجہ سے خدا اور آخرت کے منکر نہ تھے مگر ان کی زِندگی کا سارا پروگرام اس طرح بنتا تھا کہ گویا نہ خدا ہے نہ آخرت نہ کسی کو جواب دینا ہے ، نہ کہیں سے ہدایت لینی ہے۔ جو کچھ ہیں ہماری خواہشات ہیں ، ان خواہشات کی تکمیل کے لیے ہر قسم کے ذرائع اور ہر قسم کے طریقے اختیار کرنے میں ہم آزاد ہیں اور دُنیا میں جینے کی مہلت ملتی ہے اس کا بہترین مصرف بس یہ ہے کہ
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
جیسا کہ اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے ، اس نظریہ کی عین فطرت یہی ہے کہ اس کی بنیاد پر ایک خالص مادہ پرستانہ نظام اخلاق بنتا ہے ، خواہ وہ کتابوں میں مدوّن ہو یا صرف ذہنیتوں ہی میں مرتب ہو کر رہ جائے ، پھر اسی ذہنیت سے علوم و فنون اور افکار و آداب کی آبیاری ہوتی ہے اور پورے نظامِ تعلیم و تربیت میں الحاد و مادیت کی روح سرایت کر جاتی ہے۔ پھر انفرادی سیرتیں اسی سانچے میں ڈھلتی ہیں ، انسان اور انسان کے درمیان تعلقات و معاملات کی تمام صورتیں اسی نقشہ پر بنتی ہیں اور قوانین کا نشوونما اسی ڈھنگ پر ہوتا ہے۔ پھر اس طرز کی سوسائٹی میں سطح پر وہ لوگ ابھر آتے ہیں جو سب سے زیادہ مکار ، بددیانت ، جھوٹے ، دغا باز ، سنگ دل اور خبیث النفس ہوتے ہیں۔ تمام سوسائٹی کی سیادت و قیادت اور مملکت کی زمامِ کار انھی کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور وہ شتر بے مہار کی طرح ہر حساب سے بے خوف اور ہر مواخذہ سے بے پروا ہو کر خلقِ خدا پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ میکیادلی (machiavelli) کے اصول سیاست پر ان کی ساری حکمت عملی مبنی ہوتی ہے۔ ان کی کتابِ آئین میں زور کا نام حق اور بے زوری کا نام باطل ہوتا ہے۔ جہاں کوئی مادّی رکاوٹ حائل نہیں ہوتی وہاں کوئی چیز انھیں ظلم سے نہیں روک سکتی۔ یہ ظلم مملکت کے دائرے میں یہ شکل اختیار کرتا ہے کہ طاقت ور طبقے اپنی ہی قوم کے کم زور طبقوں کو کھاتے اور دباتے ہیں اور مملکت کے باہر اس کا اظہار قوم پرستی ، امپیریلزم اور ملک گیری و اقوام کشی کی صورت میں ہوتا ہے۔