سب سے پہلی دقّت زبان کی ہے۔ قرآن، حدیث اور فقہ میں احکام کو بیان کرنے کے لیے جو اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں وہ اب بالعموم لوگوں کے لیے ناقابل فہم ہو گئی ہیں، کیونکہ ایک مدت دراز سے ہمارے ہاں اسلام کا سیاسی نظام معطّل ہو چکا ہے اور ان اصطلاحوں کا چلن نہیں رہا ہے۔ قرآن مجید میں بہت سے الفاظ ایسے ہیں جن کی ہم روزانہ تلاوت کرتے ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ یہ دستوری اصطلاحات ہیں، مثلاً سلطان، ملک، حکم، امر، ولایت وغیرہ۔ ان الفاظ کے صحیح دستوری مفہوم کو عربی میں بھی کم لوگ سمجھتے ہیں اور ترجموں میں منتقل ہو کر تو ان کا سارا مطلب خبط ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی قرآن کے دستوری احکام کا ذکر سن کر حیرت کے ساتھ پوچھنے لگتے ہیں کہ قرآن میں کون سی آیت دستور سے تعلق رکھتی ہے؟ فی الواقع ان بیچاروں کی حیرت بجا ہے۔ قرآن کی کوئی سورت ’’الدستور‘‘ کے نام سے نہیں ہے اور نہ بیسویں صدی کی اصطلاحات میں کوئی آیت نازل ہوئی ہے۔