Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ
باب اول:
دین و سیاست
۱۔مذہب کا اسلامی تصور
۲۔ اسلامی ریاست کیوں؟
۳۔ اسلام اور اقتدار
۴۔ دین و سیاست کی تفریق کا باطل نظریہ اورقصۂ یوسف ؑ سے غلط استدلال
۵۔ تفریق دین و سیاست کا دفاع اور اس کا جائزہ
باب ٢
اسلام کا سیاسی نظریہ
۱۔بنیادی مُقدّمات
۲۔ نظریۂ سیاسی کے اوّلین اصول
۳۔ اسلامی ریاست کی نوعیت
۴۔ اسلامی ریاست کی خصوصیات
۵۔ نظریۂ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
باب۳ قرآن کا فلسفہ ٔ سیاست
۱۔علم سیاست کے بنیادی سوال
۲۔ چند بنیادی حقیقتیں
۳۔اسلامی تصورِ حیات
۴۔ دین اور قانونِ حق
۵۔حکومت کی ضرورت اور اہمیت
۶۔ تصور حاکمیت و خلافت
۷۔ اصول اطاعت ووفاداری
باب ۴
معنی ٔ خلافت
باب ۵
۱۔اسلامی تصور قومیت
۲۔ اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
باب۶
اسلام کے دستوری قانون کے مآخذ
ا۔قرآن مجید
۲۔ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۸۴؎
۳۔خلافتِ راشدہ کا تعامل
۴۔ مجتہدینِ امت کے فیصلے
ضمیمہ باب ۶: سنت ِرسولؐ اللہ بحیثیت ِ مآ خذ ِقانون
باب۷
اسلامی ریاست کی بنیادیں
۱۔حاکمیت کس کی ہے؟
۲۔ ریاست کے حدودِ عمل
۳۔ اعضائے ریاست کے حدودِ عمل اور ان کا باہمی تعلق
۴۔ ریاست کا مقصدِ وجود
۵۔حکومت کی تشکیل کیسے ہو؟
۶۔اولی الامر کے اوصاف
۷۔ شہریت اور اس کی بنیادیں
۸۔ حقوقِ شہریت
۹۔شہریوں پر حکومت کے حقوق
باب ۸
اسلامی دستور کی بنیادیں
۱۔حاکمیت الٰہی
۲۔ مقامِ رسالت
۳۔ تصورِ خلافت
۴۔ اصولِ مشاورت
۵۔اصولِ انتخاب
۶۔عورتوں کے مناصب
۷۔ حکومت کا مقصد
۸۔ اولی الامر اور اصولِ اطاعت
۹۔ بنیادی حقوق اور اجتماعی عدل
۱۰۔فلاحِ عامہ
باب ۹
۱۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ خلافتِ راشدہ
باب ۱۰
۱۔ اسلام میں قانون سازی کا دائرۂ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
۲۔قانون سازی‘ شوریٰ اور اجماع
۳۔نظام اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
باب۱۱
۱۔ اسلامی ریاست کے چند پہلو
۲۔خلافت و حاکمیت۲۰۳؎
۳۔ ملکی سیاست میں عورتوں کا حصہ
۴۔ذمیوں کے حقوق۲۱۱؎
(۵) ذمیوں کے حقوق۲۱۶؎
۶۔چند متفرق مسائل
باب ۱۲
انسان کے بنیادی حقوق
باب۱۳
غیر مسلموں کے حقوق
باب۱۴
اسلام اور عدلِ اجتماعی
باب ۱۵
اسلامی ریاست کے رہنما اُصول
باب۱۶
۱۔اسلامی انقلاب کی راہ
ضمیمہ نمبر ۱
ضمیمہ نمبر ۲

اسلامی ریاست

اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اُصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔ اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔انبیاء کرامؑ وقت کی اجتماعی قوت کواسلام کےتابع کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی دعوت کا مرکزی تخیل ہی یہ تھا کہ اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کےلیے خالص ہو جائے اور شرک اپنی ہر جلی اور خفی شکل میں ختم کردیا جائے ۔قرآن کےمطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف ،حضرت موسی، حضرت داؤد، اور نبی کریم ﷺ نے باقاعدہ اسلامی ریاست قائم بھی کی اور اسے معیاری شکل میں چلایا بھی۔اسلامی فکر میں دین اورسیاست کی دوری کاکوئی تصور نہیں پایا جاتا اور کا اسی کانتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کواسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہ جدوجہد ان کے دین وایمان کاتقاضا ہے۔قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں جس طرح اخلاق اور حسنِ کردار کی تعلیمات موجود ہیں۔اسی طرح معاشرت،تمدن اور سیاست کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب’’اسلامی ریاست‘‘مفکرِ اسلام مولا نا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کی تصنیف ہے ۔جس میں انھوں نے بیک وقت ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کی کما حقہ کوشش کی ہے ۔ ایک طرف انھوں نے اسلام کےپورے نظام حیات کودینی اور عقلی دلائل کےساتھ اسلام کی اصل تعلیمات کودورحاضر کی زبان میں پیش کیاہے ۔ ان کی تحریرات کےمطالعہ سے قاری کوزندگی کے بارے میں اسلام کے نقظہ نظر کا کلی علم حاصل ہوتا ہے اوروہ پوری تصویر کو بیک نظر دیکھ سکتا ہے۔انھوں نےہر مرعوبیت سے بالا تر ہوکر دورحاضرکے ہر فتنہ کا مقابلہ کیا اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اورفوقیت کوثابت کیا ہے۔پھر یہ بھی بتایا ہےکہ اس نظام کودور حاضر میں کیسے قائم کیا جاسکتا ہے اور آج کے اداروں کوکس طرح اسلام کے سانچوں میں ڈھالا جاسکتاہے ۔انھوں نے اسلامی ریاست کے ہمہ پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئےدور جدید کے تقاضوں کوسامنے رکھ کر اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پیش کیاہے ۔کتاب ہذا دراصل مولانامودودی کے منتشر رسائل ومضامین کامجموعہ ہے جسے پروفیسر خورشید احمد صاحب (مدیر ماہنامہ ترجمان القرآن)نے بڑے حسن ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف ومرتب کی اشاعتِ اسلام کےلیے کی جانے والی تمام کاوشوں کو قبول فرماے۔آمین

۱۔ اسلام میں قانون سازی کا دائرۂ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام

اسلام میں قانون سازی کا دائرۂ عمل کیا ہے اور اس میں اجتہاد کا کیا مقام ہے، اس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے دو باتیں واضح طور پر ہماری نگاہ میں رہیں:
٭ اول یہ کہ اسلام میں حاکمیت خالصتہً اللہ تعالیٰ کی تسلیم کی گئی ہے۔ قرآن عقیدۂ توحید کی جو تشریح کرتا ہے اس کی رو سے خدائے وحدہ لاشریک صرف مذہبی معنوں میں معبود ہی نہیں ہے، بلکہ سیاسی اور قانونی مفہوم کے لحاظ سے حاکم‘ مطاع‘ امر و نہی کا مختار اور واضع قانون بھی ہے۔ خدا کی اس قانونی حاکمیت (legal sovereignty)کو قرآن اتنی ہی وضاحت اور اتنے ہی زور سے پیش کرتا ہے جس کے ساتھ اس نے خدا کی مذہبی معبودیت کا عقیدہ پیش کیا ہے۔ اس کے نزدیک خدا کی یہ دونوں حیثیتیں اس کی الوہیت کے لازمی تقاضے ہیں جن کو ایک دوسرے سے منفک نہیں کیا جاسکتا اور ان میں سے جس کا بھی انکار کیا جائے وہ لازماً خدا کی الوہیت کا انکار ہے۔ پھر وہ اس شبہے کے لیے بھی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا کہ شاید قانونِ خداوندی سے مراد قانونِ فطرت ہو۔ اس کے برعکس وہ اپنی ساری دعوت ہی اس بنیاد پر اٹھاتا ہے کہ انسان کو اپنی اخلاقی اور اجتماعی زندگی میں خدا کے اس قانون شرعی کو تسلیم کرنا چاہیے جو اس نے اپنے انبیاء علیھم السلام کے ذریعے سے بھیجا ہے۔ اسی قانون شرعی کو ماننے اور اس کے مقابلے میں اپنی خود مختاری سے دست بردار ہو جانے کا نام وہ ’اسلام‘ (surrender) رکھتا ہے اور صاف صاف الفاظ میں انسان کے اس حق کا انکار کرتا ہے کہ جن معاملات کا فیصلہ خدا اور اس کے رسولؐ نے کر دیا ہو، اُن میں وہ خود اپنی رائے سے کوئی فیصلہ کرے:
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَى اللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَہُمُ الْخِـيَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ۝۰ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًاo الاحزاب 36:33
٭ دوسری بات‘ جو اسلام میں اتنی ہی بنیادی اہمیت رکھتی ہے جتنی کہ توحید اِلٰہ‘ یہ ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں۔ درحقیقت یہی وہ چیز ہے جس کی بدولت توحید الٰہ کا عقیدہ مجرد تخیل سے ایک عملی نظام کی شکل اختیار کرتا ہے اور اسی پر اسلام کے پورے نظام زندگی کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ اس عقیدے کی رُو سے اللہ تعالیٰ کے تمام سابق انبیاء علیہم السلام کی لائی ہوئی تعلیمات‘ بہت سے اہم اضافوں کے ساتھ‘ اس تعلیم میں جمع ہوگئی ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے‘ اس لیے خدائی ہدایت اور تشریع کا مستند ماخذ اب صرف یہی ایک ہے‘ اور آئندہ کوئی مزید ہدایت اور تشریع آنے والی نہیں ہے جس کی طرف انسان کو رجوع کرنے کی ضرورت ہو۔ یہی محمدی تعلیم وہ بالاتر قانون (supreme law)ہے جو حاکم اعلیٰ کی مرضی کی نمائندگی کرتا ہے۔
یہ قانون، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم کو دو شکلوں میں ملا ہے۔ ایک: قرآن جو لفظ بلفظ خداوند عالم کے احکام و ہدایت پر مشتمل ہے۔ دوسرے: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ‘ یا آپؐ کی سنت‘ جو قرآن کے منشا کی توضیح و تشریح کرتی ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے محض نامہ بر نہیں تھے کہ اس کی کتاب پہنچا دینے کے سوا اُن کا کوئی کام نہ ہوتا۔ وہ اس کے مقرر کیے ہوئے رہنما‘ حاکم اور معلم بھی تھے۔ ان کاکام یہ تھا کہ اپنے قول اور عمل سے قانونِ الٰہی کی تشریح کریں‘ اس کا صحیح منشا سمجھائیں‘ اس کے منشا کے مطابق افراد کی تربیت کریں‘ پھر تربیت یافتہ افراد کو ایک منظم جماعت کی شکل دے کر معاشرے کی اصلاح کے لیے جدوجہد کریں‘ پھر اس اصلاح شدہ معاشرے کو ایک صالح و مصلح ریاست کی صورت دے کر یہ دکھلا دیں کہ اسلام کے اصولوں پر ایک مکمل تہذیب کا نظام کس طرح قائم ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پورا کام جو ۲۳ سال کی پیغمبرانہ زندگی میں آپؐ نے انجام دیا‘ وہ سنت ہے جو قرآن کے ساتھ مل کر حاکم اعلیٰ کے قانون برتر کی تشکیل و تکمیل کرتی ہے اور اسی قانونِ برتر کا نام اسلامی اصطلاح میں ’شریعت‘ ہے۔
قانون سازی کا دائرۂعمل
بادی النظر میں ایک آدمی ان بنیادی حقیقتوں کو سن کر یہ گمان کرسکتا ہے کہ اس صورت میں تو ایک اسلامی ریاست میں اسلامی قانون سازی کی سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے‘ کیونکہ یہاں تو قانون ساز صرف خدا ہے اور مسلمانوں کا کام اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس پیغمبر کے دیے ہوئے قانونِ خداوندی کی پیروی کریں۔ لیکن امرِ واقعہ یہ ہے کہ اسلام قانون سازی کی نفی نہیں کرتا، بلکہ اسے خدائی قانون کی بالاتری سے محدود کرتا ہے۔ اس بالاتر قانون کے تحت اور اس کے قائم کیے ہوئے حدود کے اندر‘ انسانی قانون سازی کا دائرۂ عمل کیا ہے‘ اس کو میں یہاں مختصر الفاظ میں بیان کروں گا:
تعبیر ِ احکام
انسانی زندگی کے معاملات میں سے ایک قسم کے معاملات وہ ہیں جن میں قرآن اور سنت نے کوئی واضح اور قطعی حکم دیا ہے‘ یا کوئی خاص قاعدہ مقرر کر دیا ہے۔ اس طرح کے معاملات میں کوئی فقیہ‘ کوئی قاضی‘ کوئی قانون ساز ادارہ‘ شریعت کے دیے ہوئے حکم‘ یا اس کے مقرر کیے ہوئے قاعدے کو نہیں بدل سکتا۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ان میں قانون سازی کے لیے کوئی مجال کار ہے ہی نہیں۔ انسانی قانون سازی کا دائرۂ عمل ان معاملات میں یہ ہے کہ سب سے پہلے ٹھیک ٹھیک معلوم کیا جائے کہ حکم فی الواقع ہے کیا‘ پھر اس کا منشا اور مفہوم متعین کیا جائے اور یہ تحقیق کیا جائے کہ یہ حکم کن حالات اور واقعات کے لیے ہے۔ پھر عملاً پیش آنے والے مسائل پر ان کے انطباق کی صورتیں اور مجمل احکام کی جزئی تفصیلات طے کی جائیں اور ان سب امور کے ساتھ یہ بھی مشخص کیا جائے کہ استثنائی حالات و واقعات میں ان احکام و قواعد سے ہٹ کر کام کرنے کی گنجایش کہاں اور کس حد تک ہے۔
قیاس
دوسری قسم کے معاملات وہ ہیں جن کے بارے میں شریعت نے کوئی حکم نہیں دیا ہے‘ مگر ان سے ملتے جلتے معاملات کے متعلق وہ ایک حکم دیتی ہے۔ اس دائرے میں قانون سازی کا عمل اس طرح ہوگا کہ احکام کی علتوں کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر ان تمام معاملات میں ان کو جاری کیا جائے گا جن میں وہ علتیں فی الواقع پائی جاتی ہوں اور ان تمام معاملات کو ان سے مستثنیٰ ٹھیرایا جائے گا جن میں درحقیقت وہ علتیں نہ پائی جاتی ہوں۔
استنباط
ایک اور قسم ان معاملات کی ہے جن میں شریعت نے متعین احکام نہیں، بلکہ کچھ جامع اصول دیے ہیں، یا شارع کا یہ منشا ظاہر کیا ہے کہ کیا چیز پسندیدہ ہے جسے فروغ دینا مطلوب ہے اور کیا چیز ناپسندیدہ ہے جسے مٹانا مطلوب ہے۔ ایسے معاملات میں قانون سازی کاکام یہ ہے کہ شریعت کے ان اصولوں کو اور شارع کے اس منشا کو سمجھا جائے اور عملی مسائل میں ایسے قوانین بنائے جائیں جو ان اصولوں پر مبنی ہوں اور شارع کے منشا کو پورا کرتے ہوں۔
آزادانہ قانون سازی کا دائرہ
ان کے علاوہ ایک بہت بڑی قسم ان معاملات کی ہے جن کے بارے میں شریعت بالکل خاموش ہے‘ نہ براہ راست ان کے متعلق کوئی حکم دیتی ہے اور نہ ان سے ملتے جلتے معاملات ہی کے متعلق کوئی ہدایت اس میں ملتی ہے کہ ان کو اس پر قیاس کیا جاسکے۔ یہ خاموشی خود اس بات کی دلیل ہے کہ حاکمِ اعلیٰ ان میں انسان کو خود اپنی رائے سے فیصلہ کرنے کا حق دے رہا ہے۔ اس لیے ان میں آزادانہ قانون سازی کی جاسکتی ہے، مگر یہ قانون سازی ایسی ہونی چاہیے جو اسلام کی روح اور اس کے اصولِ عامہ سے مطابقت رکھتی ہو‘ جس کا مزاج اسلام کے مجموعی مزاج سے مختلف نہ ہو‘ جو اسلامی زندگی کے نظام میں ٹھیک ٹھیک نصب ہوسکتی ہو۔
اجتہاد
قانون سازی کا یہ سارا عمل‘ جو اسلام کے قانونی نظام کو متحرک بناتا اور زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ساتھ اس کو نشوونما دیتا چلا جاتا ہے‘ ایک خالص علمی تحقیق اور عقلی کاوش ہی کے ذریعے سے انجام پاسکتا ہے اور اسی کا نام اسلامی اصطلاح میں اجتہاد ہے۔ اس لفظ کے لغوی معنی تو ہیں:کسی کام کی انجام دہی میں انتہائی کوشش صرف کرنا، مگر اصطلاحا ً اس سے مراد ہے: یہ معلوم کرنے کی انتہائی کوشش کہ ایک مسئلۂ زیر بحث میں اسلام کا حکم یا اس کا منشا کیا ہے۔ بعض لوگ غلطی سے اجتہاد کو بالکل آزادانہ استعمال رائے کے معنی میں لے لیتے ہیں۔ لیکن کوئی ایسا شخص جو اسلامی قانون کی نوعیت سے واقف ہے‘ اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ اس طرح کے ایک قانونی نظام میں کسی آزاد اجتہاد کی بھی کوئی گنجائش ہوسکتی ہے۔ یہاں تو اصل قانون قرآن و سنت ہے۔ انسان جو قانون سازی کرسکتے ہیں وہ لازماً یا تو اس اصل قانون سے ماخوذ ہونی چاہیے‘ یا پھر ان حدود کے اندر ہونی چاہیے جن میں وہ استعمال رائے کی آزادی دیتا ہے۔ اس سے بے نیاز ہو کر جو اجتہاد کیا جائے وہ نہ اسلامی اجتہاد ہے اور نہ اسلام کے قانونی نظام میں اس کے لیے کوئی جگہ ہے۔
اجتہاد کے لیے ضروری اوصاف
اجتہاد کا مقصد چونکہ خدائی قانون کو انسانی قانون سے بدلنا نہیں، بلکہ اس کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا اور اس کی رہنمائی میں اسلام کے قانونی نظام کو زمانے کی رفتار کے ساتھ ساتھ متحرک کرنا ہے‘ اس لیے کوئی صحت مندانہ اجتہاد اس کے بغیر نہیں ہوسکتا کہ ہمارے قانون سازوں میں حسبِ ذیل اوصاف موجود ہوں:
۱۔ شریعت الٰہی پر ایمان‘ اس کے برحق ہونے کا یقین‘ اس کے اتباع کا مخلصانہ ارادہ‘ اس سے آزاد ہونے کی خواہش کا معدوم ہونا اور مقاصد‘ اصول اور اقتدار کسی دوسرے ماخذ سے لینے کے بجائے صرف خدا کی شریعت سے لینا۔
۲۔ عربی زبان اور اس کے قواعد اور ادب سے اچھی واقفیت‘ کیونکہ قرآن اسی زبان میں نازل ہوا ہے اور سنت کو معلوم کرنے کے ذرائع بھی اسی زبان میں ہیں۔
۳۔ قرآن اور سنت کا علم جس سے آدمی نہ صرف جزوی احکام اور ان کے مواقع سے واقف ہو‘ بلکہ شریعت کے کلیات اور اس کے مقاصد کو بھی اچھی طرح سمجھ لے۔ اس کو ایک طرف یہ معلوم ہونا چاہیے کہ انسانی زندگی کی اصلاح کے لیے شریعت کی مجموعی اسکیم کیا ہے اور دوسری طرف یہ جاننا چاہیے کہ اس مجموعی اسکیم میں زندگی کے ہر شعبے کا کیا مقام ہے‘ شریعت اس کی تشکیل کن خطوط پر کرنا چاہتی ہے اور اس کی تشکیل میں اس کے پیشِ نظر کیا مصالح ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اجتہاد کے لیے قرآن و سنت کا وہ علم درکار ہے جو مغزشریعت تک پہنچتا ہو۔
۴۔ پچھلے مجتہدین امت کے کام سے واقفیت‘ جس کی ضرورت صرف اجتہاد کی تربیت ہی کے لیے نہیں ہے، بلکہ قانونی اِرتقا کے تسلسل (continuity)کے لیے بھی ہے۔ اجتہاد کا مقصد بہرحال یہ نہیں ہے اور نہیں ہونا چاہیے کہ ہر نسل پچھلی نسلوں کی چھوڑی ہوئی تعمیر کو ڈھا کر یا متروک قرار دے کر نئے سرے سے تعمیر شروع کرے۔
۵۔ عملی زندگی کے حالات و مسائل سے واقفیت‘ کیونکہ انھی پر شریعت کے احکام اور اصول و قواعد کو منطبق کرنا مطلوب ہے۔
۶۔ اسلامی معیار اخلاق کے لحاظ سے عمدہ سیرت و کردار‘ کیونکہ اس کے بغیر کسی اجتہاد پر لوگوں کا اعتماد نہیں ہوسکتا اورنہ اس قانون کے لیے عوام میں کوئی جذبۂ احترام پیدا ہوسکتا ہے جو غیر صالح لوگوں کے اجتہاد سے بنا ہو۔
ان اوصاف کے بیان سے مقصود یہ نہیں ہے کہ ہر اجتہاد کرنے والے کو پہلے یہ ثبوت پیش کرنا چاہیے کہ اس میں یہ اوصاف موجود ہیں، بلکہ اس سے مقصود یہ ظاہر کرنا ہے کہ اجتہاد کے ذریعے سے اسلامی قانون کا نشوونما اگر صحیح خطوط پر ہو سکتا ہے تو صرف اسی صورت میں جب کہ قانونی تعلیم و تربیت کا نظام ایسے اوصاف کے اہلِ علم تیار کرنے لگے۔ اس کے بغیر جو قانون سازی کی جائے گی وہ نہ اسلامی قانون کے نظام میں جذب ہوسکے گی اور نہ مسلم سوسائٹی اس کو ایک خوش گوار غذا کی طرح ہضم کرسکے گی۔
اجتہاد کا صحیح طریقہ
اجتہاد‘ اور اس کی بنا پر ہونے والی قانون سازی کے مقبول ہونے کا انحصار جس طرح اس بات پر ہے کہ اجتہاد کرنے والوں میں اس کی اہلیت ہو‘ اس طرح اس امر پر بھی ہے کہ یہ اجتہاد صحیح طریقے سے کیا جائے۔ مجتہد خواہ تعبیر احکام کر رہا ہو، یا قیاس و استنباط‘ بہرحال اسے اپنے استدلال کی بنیاد قرآن اور سنت ہی پر رکھنی چاہیے، بلکہ مباحات کے دائرے میں آزادانہ قانون سازی کرتے ہوئے بھی اسے اس بات پردلیل لانی چاہیے کہ قرآن و سنت نے واقعی فلاں معاملے میں کوئی حکم یا قاعدہ مقرر نہیں کیا ہے اور نہ قیاس ہی کے لیے کوئی بنیاد فراہم کی ہے۔ پھر قرآن و سنت سے جو استدلال کیا جائے وہ لازماً ان طریقوں پر ہونا چاہیے جو اہلِ علم میں مُسَلّم ہیں۔ قرآن سے استدلال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک آیت کے وہ معنی لیے جائیں جن کے لیے عربی زبان کی لغت‘ قواعد اور معروف استعمالات میں گنجائش ہو‘ جو قرآن کی عبارت کے سیاق و سباق سے لگتے ہوئے ہوں‘ جو اسی موضوع کے متعلق قرآن کے دوسرے بیانات سے متناقض نہ ہوں اور جن کی تائید سنت کی قولی اور عملی تشریحات سے بھی ملتی ہو‘ یا کم از کم یہ کہ سنت ان معنوں کے خلاف نہ ہو۔ سنت سے استدلال کرنے میں زبان اور اس کے قواعد اور سیاق و سباق کی رعایت کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جن روایات سے کسی مسئلے میں سند لائی جارہی ہو، وہ قواعد علم روایت کے لحاظ سے معتبر ہوں۔ اس موضوع سے متعلق دوسری معتبر روایات کو بھی نگاہ میں رکھا گیا ہو‘ اور کسی ایک روایت سے کوئی ایسا نتیجہ نہ نکال لیا گیا ہو جومستند ذرائع سے ثابت شدہ سنت کے خلاف پڑتا ہو۔ ان احتیاطوں کو ملحوظ رکھے بغیر من مانی تاویلات سے جو اجتہاد کیا جائے، اسے اگر سیاسی قوت کے بل پر قانون کا مرتبہ دے بھی دیا جائے تو نہ مسلمانوں کا اجتماعی ضمیر اس کو قبول کرسکتا ہے اور نہ وہ حقیقتاً اسلامی نظامِ قانون کا جز بن سکتا ہے۔جو سیاسی قوت اسے نافذ کرے گی اس کے ہٹتے ہی اس کا قانون بھی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے گا۔
اجتہاد کو قانون کا مرتبہ کیسے حاصل ہوتا ہے؟
کسی اجتہاد کو قانون کا مرتبہ حاصل ہونے کی متعدد صورتیں اسلامی نظامِ قانون میں پائی جاتی ہیں:
٭ ایک یہ کہ تمام امت کے اہلِ علم کا اس پر اجماع ہو۔
٭ دوسری یہ کہ کسی شخص یا گروہ کے اجتہاد کو قبول عام حاصل ہو جائے اور لوگ خود بخود اس کی پیروی شروع کر دیں‘ جس طرح مثلاً: فقہ حنفی‘ شافعی‘ مالکی اور حنبلی کو مسلمانوں کی بڑی بڑی آبادیوں نے قانون کے طور پر مان لیا۔
٭ تیسری یہ کہ کسی اجتہاد کو کوئی مسلم حکومت اپنا قانون قرار دے لے‘ جیسے مثلاً: عثمانی سلطنت نے فقہ حنفی کو اپنا قانون ملکی قرار دیا تھا۔
٭ چوتھی یہ کہ سیاست میں ایک ادارہ دستوری حیثیت سے قانون سازی کا مجاز ہو اور وہ اجتہاد سے کوئی قانون بنائے۔
ان صورتوں کے ماسوا جتنے اجتہادات مختلف اہل علم کریں ان کا مرتبہ فتوے سے زیادہ نہیں ہے۔ رہے قاضیوں کے فیصلے تو وہ ان خاص مقدمات میں تو ضرور قانون کے طور پر نافذ ہوتے ہیں جن میں وہ کسی عدالت نے کیے ہوں اور انھیں نظائر (precedents)کی حیثیت بھی حاصل ہوتی ہے‘ لیکن صحیح معنوں میں وہ قانون نہیں ہوتے‘ حتیٰ کہ خلفائے راشدین کے بھی وہ فیصلے اسلام میں قانون نہیں قرار پائے جو انھوں نے قاضی کی حیثیت سے کیے تھے۔ اسلامی نظامِ قانون میں قضاۃ کے بنائے ہوئے قانون (judge made law)کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا ہے۔
چند اعتراضات اور ان کا جواب
اسلام میں قانون سازی اور اجتہاد کے موضوع پر میرے مقالے کے سلسلے میں جو اعتراضات کیے گئے ہیں‘ میں یہاں ان کا جواب زیادہ سے زیادہ اختصار کے ساتھ دینے کی کوشش کروں گا۔
پہلا اعتراض اس پوزیشن پر ہے جو قرآن کے ساتھ سنت کو دی گئی ہے۔ اس کے جواب میں چند باتیں میں ترتیب وار عرض کروں گا، تاکہ مسئلہ پوری طرح آپ کے سامنے واضح ہو جائے:
۱۔ یہ ایک ناقابلِ انکار تاریخی حقیقت ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت پر سرفراز ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف قرآن پہنچا دینے پر اکتفا نہیں کیا تھا، بلکہ ایک ہمہ گیر تحریک کی رہنمائی بھی کی تھی جس کے نتیجے میں ایک مسلم سوسائٹی پیدا ہوئی‘ ایک نیا نظامِ تہذیب و تمدن وجود میں آیا اور ایک ریاست قائم ہوئی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن پہنچانے کے سوا یہ دوسرے کام جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کیے‘ یہ آخر کس حیثیت سے تھے؟ آیا یہ نبی کی حیثیت سے تھے جس میں آپؐ اسی طرح خدا کی مرضی کی نمائندگی کرتے تھے جس طرح کہ قرآن؟ یا آپؐ کی پیغمبرانہ حیثیت قرآن سنانے کے بعد ختم ہو جاتی تھی اور اس کے بعد آپؐ عام مسلمانوں کی طرح محض ایک مسلمان رہ جاتے تھے جس کا قول و فعل اپنے اندر بجائے خود کوئی قانونی سند و حجت نہیں رکھتا۔
پہلی بات تسلیم کی جائے تو سنت کو قرآن کے ساتھ قانونی سند و حجت ماننے کے سوا چارہ نہیں رہتا، البتہ دوسری صورت میں اسے قانون قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی۔
۲۔ جہاں تک قرآن کا تعلق ہے وہ اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف نامہ بر نہیں تھے، بلکہ خدا کی طرف سے مقرر کیے ہوئے رہبر‘ حاکم اور معلم بھی تھے جن کی پیروی و اطاعت مسلمانوں پر لازم تھی اور جن کی زندگی کو تمام اہل ایمان کے لیے نمونہ قرار دیا گیاتھا۔ جہاں تک عقل کا تعلق ہے‘وہ یہ ماننے سے انکار کرتی ہے کہ ایک نبی صرف خدا کا کلام پڑھ کر سنا دینے کی حد تک تو نبی ہو، اور اس کے بعد وہ محض ایک عام آدمی رہ جائے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے وہ آغاز اسلام سے آج تک بالاتفاق ہر زمانے میں اور تمام دنیا میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نمونۂ واجب الاتباع اور ان کے امر و نہی کو واجب الاطاعت مانتے رہے ہیں‘ حتی کہ کوئی غیر مسلم عالم بھی اس امرِ واقعی سے انکار نہیں کرسکتا کہ مسلمانوں نے ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی حیثیت مانی ہے اور اسی بنا پر اسلام کے قانونی نظام میں سنت کو قرآن کے ساتھ ماخذ قانون تسلیم کیا گیا ہے۔ اب میں نہیں جانتا کہ کوئی شخص سنت کی اس قانونی حیثیت کو کیسے چیلنج کرسکتا ہے۔ جب تک وہ صاف صاف یہ نہ کہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف تلاوت قرآن کی حد تک نبی تھے اور یہ کام کر دینے کے ساتھ ان کی حیثیت نبوت ختم ہو جاتی تھی۔ پھر اگر وہ ایسا دعویٰ کرے بھی تو اسے بتانا ہوگا کہ یہ مرتبہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور خود دے رہا ہے یا قرآن نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی مرتبہ دیا ہے؟ پہلی صورت میں اس کے قول کو اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔دوسری صورت میں اسے قرآن سے اپنے دعوے کا ثبوت پیش کرنا ہوگا۔
۳۔ سنت کو بجائے خود ماخذ قانون تسلیم کرنے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے معلوم کرنے کا ذریعہ کیا ہے۔ میں اس کے جواب میں عرض کروں گا کہ آج پونے چودہ سوسال گزر جانے کے بعد پہلی مرتبہ ہم کو اس مسئلے سے سابقہ نہیں پیش آگیا ہے کہ ڈیڑھ ہزار برس۱۹۵؎قبل جو نبوت مبعوث ہوئی تھی اس نے کیا سنت چھوڑی تھی۔ دو تاریخی حقیقتیں ناقابلِ انکار ہیں۔
٭ ایک یہ کہ قرآن کی تعلیم اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر جو معاشرہ اسلام کے آغاز میں پہلے دن قائم ہوا تھا وہ اس وقت سے آج تک مسلسل زندہ ہے۔ اس کی زندگی میں ایک دن کا انقطاع بھی واقع نہیں ہوا ہے اور اس کے تمام ادارے اس ساری مدت میں پیہم کام کرتے رہے ہیں۔ آج تمام دنیا کے مسلمانوں میں عقائد اور طرز فکر‘ اخلاق اور اقدار‘ عبادات اور معاملات‘ نظریۂ حیات اور طریق حیات کے اعتبار سے جو گہری مماثلت پائی جاتی ہے‘ جس میں اختلاف کی بہ نسبت ہم آہنگی کا عنصر بہت زیادہ موجود ہے‘ جو ان کو تمام رُوئے زمین پر منتشر ہونے کے باوجود ایک امت بنائے رکھنے کی سب سے بڑی بنیادی وجہ ہے‘ یہی اس امر کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ اس معاشرے کو ایک سنت پر قائم کیا گیا تھا اور وہ سنت ان طویل صدیوں کے دوران میں مسلسل جاری رہی ہے۔ یہ کوئی گم شدہ چیز نہیں ہے جسے تلاش کرنے کے لیے ہمیں اندھیرے میں ٹٹولنا پڑ رہا ہو۔
٭ دوسری تاریخی حقیقت‘ جو اتنی ہی روشن ہے‘ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سے ہر زمانے میں مسلمان یہ معلوم کرنے کی پیہم کوشش کرتے رہے ہیں کہ سنت ثابتہ کیا ہے اور کیا نئی چیز ان کے نظام حیات میں کسی جعلی طریقے سے داخل ہو رہی ہے۔ چونکہ ان کے لیے سنت قانون کی حیثیت رکھتی تھی‘ اسی پر ان کی عدالتوں میں فیصلے ہونے تھے اور ان کے گھروں سے لے کر حکومتوں تک کے معاملات چلنے تھے‘ اس لیے وہ اس تحقیق سے بے پروا اور لا اُبالی نہیں ہوسکتے تھے۔ اس تحقیق کے ذرائع بھی اور اس کے نتائج بھی ہم کو اسلام کی پہلی خلافت کے زمانے سے لے کر آج تک نسلاً بعد نسلٍ میراث میں ملے ہیں اور بلا انقطاع ہر نسل کا کیا ہوا کام محفوظ ہے۔ ان دو حقیقتوں کو اگر کوئی اچھی طرح سمجھ لے اور سنت کو معلوم کرنے کے ذرائع کا باقاعدہ علمی مطالعہ کرے تو اسے کبھی یہ شبہ لاحق نہیں ہوسکتا کہ یہ کوئی لَایَنْحَل معمّہ ہے جس سے وہ دو چار ہوگیا ہے۔
۴۔ بلاشبہہ سنت کی تحقیق اور اس کے تعین میں بہت سے اختلافات ہوئے ہیں اور آئندہ بھی ہوسکتے ہیں‘ لیکن ایسے ہی اختلافات قرآن کے بہت سے احکام اور ارشادات کے معنی متعین کرنے میں بھی ہوئے ہیں اور ہوسکتے ہیں۔ ایسے اختلافات اگر قرآن کو چھوڑ دینے کے لیے دلیل نہیں بن سکتے تو سنت کو چھوڑ دینے کے لیے انھیں کیسے دلیل بنایا جاسکتا ہے۔ یہ اصول پہلے بھی مانا گیا ہے اور آج بھی اسے ماننے کے سوا چارہ نہیں ہے کہ جو شخص بھی کسی چیز کے حکم قرآن یا حکم سنت ہونے کا دعویٰ کرے وہ اپنے قول کی دلیل دے۔ اس کا قول اگر وزنی ہوگا تو امت کے اہل علم سے یا کم از کم ان کے کسی بڑے گروہ سے اپنا سکہ منوالے گا‘ اور جو بات دلیل کے اعتبار سے بے وزن ہوگی وہ بہرحال نہ چل سکے گی۔ یہی اصول ہے جس کی بنا پر دنیا کے مختلف حصوں میں کروڑوں مسلمان کسی ایک مذہب فقہی پر مجتمع ہوئے ہیں اور ان کی بڑی بڑی آبادیوں نے احکامِ قرآنی کی کسی تفسیر اور سننِ ثابتہ کے کسی مجموعے پر اپنے اجتماعی نظام کو قائم کیا ہے۔
دوسرا اعتراض میرے مقالے پر یہ کیا گیا ہے کہ میرے کلام میں تناقض ہے۔ یعنی میرا یہ قول کہ قرآن و سنت کے واضح اور قطعی احکام میں تبدیلی کا اختیار کسی کو نہیں ہے۔ معترض کے نزدیک میرے اس قول سے متناقض ہے کہ استثنائی حالات و واقعات میں ان احکام سے ہٹ کر کام کرنے کی گنجایش اور اس کے مواقع اجتہاد سے متعین کیے جاسکتے ہیں۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ اس میں کیا تناقض محسوس کیا گیا ہے۔ اضطرار اور مجبوری کی حالت میں عام قاعدے سے اِستثنا دنیا کے ہر قانون میں ہوتا ہے۔ قرآن میں بھی ایسی رخصتوں کی بہت سی مثالیں موجود ہیں اور ان مثالوں سے فقہا نے وہ اصول متعین کیے ہیں جن کو رخصت کی حد اور اس کے مواقع متعین کرنے میں ملحوظ رکھا جانا چاہیے۔ مثلاً:
۱۔ اَلضَّرُوْرَاتُ تُبِیْحُ الْمُحْظُوْرَاتِ۔
ضرورتیں ممنوع چیزوں کو مباح کر دیتی ہیں۔
۲۔ اَلْمُشَقَّۃُ تَجْلِبُ التَّیْسِیْرَ۔
مشقت آسانی کو ہانک لاتی ہے۔
تیسرا اعتراض ان سب لوگوں پر کیا گیا ہے جنھوں نے یہاں اپنے مقالات میں اجتہاد کی کچھ شرائط بیان کی ہیں۔ چونکہ میں بھی ان میں سے ایک ہوں اس لیے اس کا جواب میرے ذمے بھی ہے۔ میں عرض کروں گا کہ براہ کرم ایک دفعہ پھر ان شرطوں پر نگاہ ڈال لیجیے جو میں نے بیان کی ہیں اور پھر بتائیے کہ آپ ان میں سے کس شرط کو ساقط کرنا چاہتے ہیں:
۱۔ کیا یہ شرط کہ اجتہاد کرنے والوں میں شریعت کی پیروی کا مخلصانہ ارادہ پایا جاتا ہو، اور وہ اس کے حدود کو توڑنے کے خواہش مند نہ ہوں؟
۲۔ یا یہ شرط کہ وہ قرآن و سنت کی زبان‘ یعنی عربی سے واقف ہوں؟
۳۔ یا یہ کہ انھوں نے قرآن و سنت کا کم از کم اس حد تک گہرا مطالعہ کیا ہو کہ وہ شریعت کے نظام کو اچھی طرح سمجھ چکے ہوں؟ یا یہ کہ پچھلے مجتہدین کے کیے ہوئے کام پر بھی ان کی نظر ہو؟
۴۔ یا یہ کہ وہ دنیا کے معاملات اور مسائل سے واقفیت رکھتے ہوں؟
۵۔ یا یہ کہ وہ بدکردار اور اسلامی معیارِ اخلاق سے گرے ہوئے نہ ہوں؟
ان میں سے جس شرط کو بھی آپ غیر ضروری سمجھتے ہیں اس کی نشان دہی کر دیں۔ یہ کہنا کہ ساری اسلامی دنیا میں دس بارہ آدمیوں سے زیادہ ایسے نہیں مل سکتے جو اِن شرائط پر پورے اترتے ہوں‘ میرے نزدیک دنیا بھر کے مسلمانوں کے متعلق بہت ہی بری رائے ہے۔ غالباً ابھی تک ہمارے مخالفوں نے بھی ہم کو اتنا گرا ہوا نہیں سمجھا ہے کہ چالیس پچاس کروڑ مسلمانوں ٭میں ان صفات کے اشخاص کی تعداد دس بارہ سے زیادہ نہ ہو۔ تاہم! اگر آپ اجتہاد کا دروازہ ہر کس و ناکس کے لیے کھولنا چاہیں تو شوق سے کھول دیجیے‘ لیکن مجھے یہ بتائیے کہ جو اجتہاد بدکردار‘ بے علم اور مشتبہ نیت و اخلاص کے لوگ کریں گے، اسے مسلمان پبلک کے حلق سے آپ کس طرح اتروائیں گے؟

شیئر کریں