Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ
باب اول:
دین و سیاست
۱۔مذہب کا اسلامی تصور
۲۔ اسلامی ریاست کیوں؟
۳۔ اسلام اور اقتدار
۴۔ دین و سیاست کی تفریق کا باطل نظریہ اورقصۂ یوسف ؑ سے غلط استدلال
۵۔ تفریق دین و سیاست کا دفاع اور اس کا جائزہ
باب ٢
اسلام کا سیاسی نظریہ
۱۔بنیادی مُقدّمات
۲۔ نظریۂ سیاسی کے اوّلین اصول
۳۔ اسلامی ریاست کی نوعیت
۴۔ اسلامی ریاست کی خصوصیات
۵۔ نظریۂ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
باب۳ قرآن کا فلسفہ ٔ سیاست
۱۔علم سیاست کے بنیادی سوال
۲۔ چند بنیادی حقیقتیں
۳۔اسلامی تصورِ حیات
۴۔ دین اور قانونِ حق
۵۔حکومت کی ضرورت اور اہمیت
۶۔ تصور حاکمیت و خلافت
۷۔ اصول اطاعت ووفاداری
باب ۴
معنی ٔ خلافت
باب ۵
۱۔اسلامی تصور قومیت
۲۔ اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
باب۶
اسلام کے دستوری قانون کے مآخذ
ا۔قرآن مجید
۲۔ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۸۴؎
۳۔خلافتِ راشدہ کا تعامل
۴۔ مجتہدینِ امت کے فیصلے
ضمیمہ باب ۶: سنت ِرسولؐ اللہ بحیثیت ِ مآ خذ ِقانون
باب۷
اسلامی ریاست کی بنیادیں
۱۔حاکمیت کس کی ہے؟
۲۔ ریاست کے حدودِ عمل
۳۔ اعضائے ریاست کے حدودِ عمل اور ان کا باہمی تعلق
۴۔ ریاست کا مقصدِ وجود
۵۔حکومت کی تشکیل کیسے ہو؟
۶۔اولی الامر کے اوصاف
۷۔ شہریت اور اس کی بنیادیں
۸۔ حقوقِ شہریت
۹۔شہریوں پر حکومت کے حقوق
باب ۸
اسلامی دستور کی بنیادیں
۱۔حاکمیت الٰہی
۲۔ مقامِ رسالت
۳۔ تصورِ خلافت
۴۔ اصولِ مشاورت
۵۔اصولِ انتخاب
۶۔عورتوں کے مناصب
۷۔ حکومت کا مقصد
۸۔ اولی الامر اور اصولِ اطاعت
۹۔ بنیادی حقوق اور اجتماعی عدل
۱۰۔فلاحِ عامہ
باب ۹
۱۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ خلافتِ راشدہ
باب ۱۰
۱۔ اسلام میں قانون سازی کا دائرۂ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
۲۔قانون سازی‘ شوریٰ اور اجماع
۳۔نظام اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
باب۱۱
۱۔ اسلامی ریاست کے چند پہلو
۲۔خلافت و حاکمیت۲۰۳؎
۳۔ ملکی سیاست میں عورتوں کا حصہ
۴۔ذمیوں کے حقوق۲۱۱؎
(۵) ذمیوں کے حقوق۲۱۶؎
۶۔چند متفرق مسائل
باب ۱۲
انسان کے بنیادی حقوق
باب۱۳
غیر مسلموں کے حقوق
باب۱۴
اسلام اور عدلِ اجتماعی
باب ۱۵
اسلامی ریاست کے رہنما اُصول
باب۱۶
۱۔اسلامی انقلاب کی راہ
ضمیمہ نمبر ۱
ضمیمہ نمبر ۲

اسلامی ریاست

اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اُصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔ اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔انبیاء کرامؑ وقت کی اجتماعی قوت کواسلام کےتابع کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی دعوت کا مرکزی تخیل ہی یہ تھا کہ اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کےلیے خالص ہو جائے اور شرک اپنی ہر جلی اور خفی شکل میں ختم کردیا جائے ۔قرآن کےمطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف ،حضرت موسی، حضرت داؤد، اور نبی کریم ﷺ نے باقاعدہ اسلامی ریاست قائم بھی کی اور اسے معیاری شکل میں چلایا بھی۔اسلامی فکر میں دین اورسیاست کی دوری کاکوئی تصور نہیں پایا جاتا اور کا اسی کانتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کواسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہ جدوجہد ان کے دین وایمان کاتقاضا ہے۔قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں جس طرح اخلاق اور حسنِ کردار کی تعلیمات موجود ہیں۔اسی طرح معاشرت،تمدن اور سیاست کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب’’اسلامی ریاست‘‘مفکرِ اسلام مولا نا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کی تصنیف ہے ۔جس میں انھوں نے بیک وقت ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کی کما حقہ کوشش کی ہے ۔ ایک طرف انھوں نے اسلام کےپورے نظام حیات کودینی اور عقلی دلائل کےساتھ اسلام کی اصل تعلیمات کودورحاضر کی زبان میں پیش کیاہے ۔ ان کی تحریرات کےمطالعہ سے قاری کوزندگی کے بارے میں اسلام کے نقظہ نظر کا کلی علم حاصل ہوتا ہے اوروہ پوری تصویر کو بیک نظر دیکھ سکتا ہے۔انھوں نےہر مرعوبیت سے بالا تر ہوکر دورحاضرکے ہر فتنہ کا مقابلہ کیا اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اورفوقیت کوثابت کیا ہے۔پھر یہ بھی بتایا ہےکہ اس نظام کودور حاضر میں کیسے قائم کیا جاسکتا ہے اور آج کے اداروں کوکس طرح اسلام کے سانچوں میں ڈھالا جاسکتاہے ۔انھوں نے اسلامی ریاست کے ہمہ پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئےدور جدید کے تقاضوں کوسامنے رکھ کر اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پیش کیاہے ۔کتاب ہذا دراصل مولانامودودی کے منتشر رسائل ومضامین کامجموعہ ہے جسے پروفیسر خورشید احمد صاحب (مدیر ماہنامہ ترجمان القرآن)نے بڑے حسن ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف ومرتب کی اشاعتِ اسلام کےلیے کی جانے والی تمام کاوشوں کو قبول فرماے۔آمین

۱۔ اسلامی ریاست کے چند پہلو

لادینی جمہوریت‘ تھیاکریسی اور اسلامی ریاست
اسلامی ریاست‘ جس کا قیام اور فروغ ہمارا نصب العین ہے‘ نہ تو مغربی اصطلاح کے مطابق مذہبی حکومت (theocracy) ہے اور نہ جمہوری حکومت (democracy) بلکہ وہ ان دونوں کے درمیان ایک الگ نوعیت کا نظام سیاست و تمدن ہے۔ جو ذہنی الجھنیں آج کل مغربی تعلیم یافتہ لوگوں کے ذہن میںاسلامی ریاست کے تصور کے متعلق پائی جاتی ہیں وہ دراصل ان مغربی اصطلاحات کے استعمال سے پیدا ہوتی ہیں جو لازماً اپنے ساتھ مغربی تصورات اور اپنے پیچھے مغرب کی تاریخ کا ایک پورا سلسلہ بھی ان کے ذہن کے سامنے لے آتی ہیں۔ مغربی اصطلاح میں مذہبی حکومت (theocracy)دو بنیادی تصورات کا مجموعہ ہے:
۱۔ خدا کی بادشاہی، قانونی حاکمیت (legal sovereignty) کے معنی میں،
۲۔ پادریوں اور مذہبی پیشوائوں کا ایک طبقہ جو خدا کا نمائندہ اور ترجمان بن کر خدا کی اس بادشاہی کو قانونی اور سیاسی حیثیت سے عملاً نافذ کرے۔
ان دو تصورات پر ایک تیسرے امرِ واقعی کا بھی وہاں اضافہ ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام انجیل کی اخلاقی تعلیمات کے سوا کوئی قانونی ہدایت نامہ چھوڑ کر نہیں گئے اور سینٹ پال نے شریعت کو لعنت قرار دے کر عیسائیوں کو احکام توراۃ کی پابندی سے آزاد کر دیا۔ اب اپنی عبادت‘ معاشرت‘ معاملات اور سیاست وغیرہ کے لیے عیسائیوں کو قوانین و احکام کی جو ضرورت پیش آئی اسے ان کے مذہبی پیشوائوں نے اپنے خود ساختہ احکام سے پورا کیا اور ان احکام کو خدائی احکام کی حیثیت سے منوایا۔ اسلام میں اس مذہبی حکومت (theocracy)کا صرف ایک جز آیا ہے اور وہ ہے خدا کی حاکمیت کا عقیدہ۔ اس کا دوسرا جز اسلام میں قطعاً نہیں ہے۔ رہا تیسرا جز‘ تو اس کے بجائے یہاں قرآن اپنے جامع اور وسیع احکام کے ساتھ موجود ہے اور اس کی تشریح کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی قولی اور عملی ہدایات موجود ہیں جن کی روایات میں سے صحیح کو غلط سے ممیز کرنے کے مستند ذرائع ہمیں حاصل ہیں۔ ان دو ماخذ سے جو کچھ ہمیں ملے صرف وہی من جانب اللہ ہے۔ اس کے سوا کسی فقیہہ‘ امام‘ ولی یا عالم کا یہ مرتبہ نہیں ہے کہ اس کے قول و فعل کو حکم خداوندی کی حیثیت سے بے چون و چرا مان لیا جائے۔ اس صریح فرق کے ہوتے ہوئے اسلامی ریاست کو مغربی اصطلاح میں مذہبی حکومت (theocracy)کہنا قطعاً غلط ہے۔
دوسری طرف مغرب میں جس چیز کو جمہوری حکومت (democracy)کہتے ہیں وہ بھی دو بنیادی تصورات کا مجموعہ ہے:
۱۔ عوام کی قانونی اور سیاسی حاکمیت جو عوام کی اکثریت‘ یا ان کے منتخب کیے ہوئے نمائندوں کی اکثریت کے ذریعے سے عملاً ظہور میں آئے۔
۲۔ ریاست کا انتظام کرنے والی حکومت کا عوام کی آزادانہ خواہش سے بننا اور بدل سکنا۔
اسلام اس کے صرف دوسرے جز کو لیتا ہے۔ رہا پہلا جز‘ تو اسے دو حصوں میں تقسیم کرکے قانونی حاکمیت اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص کرتا ہے جس کے احکام (خواہ وہ کتاب اللہ میں ہوں، یا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں) ریاست کے لیے ناقابلِ تغیر و تبدل قانون کی حیثیت رکھتے ہیں اور سیاسی حاکمیت کوحاکمیت کے بجائے خلافت (یعنی اللہ‘ حاکم حقیقی کی نیابت) قرار دے کر، ریاست کے عام مسلمان باشندوں کے حوالے کر دیتا ہے۔ یہ خلافت مسلم عوام کی اکثریت یا ان کے معتمد علیہ نمائندوں کی اکثریت کے ذریعے سے عملاً ظہور میں آئے گی۔ اس بنیادی فرق کو دیکھتے ہوئے اسلامی ریاست کو مغربی اصطلاح کے مطابق جمہوریت (democracy)کہنا بھی کسی طرح صحیح نہیں ہے۔
اسلام میں قانون سازی
اوپر جو کچھ کہا گیا ہے اس سے یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام جس نوعیت کی ریاست بناتا ہے اس میں ایک مجلس قانون ساز (legislature)کی موجودگی ضروری ہے جو مسلم عوام کے معتمد علیہ نمائندوں پر مشتمل ہو، اور جن کے اجماع یا اکثریت کے فیصلے دارالاسلام میں قانون کی حیثیت سے نافذ ہوں۔ اس مجلسِ قانون ساز (legislature)کی ترکیب‘ اس کے کام کا ضابطہ اور اس کے ارکان کے انتخاب کا طریقہ اسلام میں مقرر نہیں کیا گیا ہے‘ اس لیے ہر زمانے کے حالات و ضروریات کے لحاظ سے اس کی الگ شکلیں اختیار کی جاسکتی ہیں، مگر جو باتیں اصولاً طے کر دی گئی ہیں وہ یہ ہیں:
۱۔ ریاست کاکام مشورے سے چلایا جائے۔
۲۔ فیصلے یا تو اجماع (اتفاق رائے) سے ہوں، یا جمہور (اکثریت) کی رائے کے مطابق۔
۳۔ قرآن و سنت کے خلاف کو ئی فیصلہ اجماع سے بھی نہیں کیا جاسکتا۔
۴۔ قرآن و سنت کے احکام کی جس تعبیر پر اجماعی یا جمہوری فیصلہ ہو جائے وہ ملک کا قانون قرار پائے۔
۵۔ جن امور میں قرآن و سنت کا کوئی حکم موجود نہ ہو،ان میں مسلم عوام کے نمائندے خود قانون بنا سکتے ہیں اور ان کا اجماعی یا جمہوری فیصلہ نافذ ہوگا۔
۶۔ اس امر کا کوئی موزوں انتظام ہونا چاہیے کہ افرادِ ریاست کے درمیان‘ یا حکومت اور عوام کے درمیان یا عوام اور مجلس قانون ساز کے درمیان یا حکومت کے مختلف شعبوں اور اجزا کے درمیان جو نزاع بھی ہو، اس کا فیصلہ کتاب اللہ و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں کیا جاسکے۔
اسلامی ریاست کیوں؟
پاکستان کو اس طرح کی ایک ریاست بنانے کے لیے ہمارا مطالبہ بہت سے معقول وجوہ پر مبنی ہے جن میں سے اہم ترین وجوہ تین ہیں:
٭ ایک یہ کہ یہ عین ہمارے ایمان کا تقاضا ہے اور ہم ہرگز اپنے ایمان میں مخلص نہیں ہوسکتے اگر آزادی اور اختیارات پانے کے بعد بھی ہم اس قرآن اور اس رسولؐ کے احکام کو نافذ نہ کریں جس کے برحق ہونے پر ہم ایمان رکھتے ہیں۔
٭ دوسرے یہ کہ پاکستان کے قیام کا مطالبہ ہی اس لیے کیا گیا تھا کہ یہاں ایک اسلامی ریاست قائم کی جائے جس میں خدا اور رسولؐ کے احکام جاری ہوں اور اسی تمنا کے پیچھے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانیں اور عزتیں اور جائیدادیں قربان کیں۔
٭ تیسرے یہ کہ پاکستان کے باشندوں کی عظیم الشان اکثریت چاہتی ہے کہ ان کی قومی ریاست ایک اسلامی ریاست ہو، اور اکثریت کی مرضی کو بہرحال نافذ ہونا چاہیے۔
اس میں شک نہیں کہ یہاں کچھ تھوڑے سے لوگ ایسے ضرور ہیں جو مغربی تہذیب و تمدن اور اس کے نظریات کو برحق سمجھتے ہیں اور ان کے لیے اسلامی ریاست کے تخیل سے اپنے ذہن کو مانوس کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ نیز پاکستان کی ملازمتوں میں بھی ایک اچھی خاصی تعداد ایسے لوگوں کی موجود ہے جن کی ساری ذہنی و عملی تربیت مغربی طرز کا نظام حکومت چلانے ہی کے لیے ہوئی ہے اور انھیں اسلامی ریاست کا نظام آتے دیکھ کر طرح طرح کے خدشات لاحق ہو رہے ہیں، مگر ان کے لیے مناسب یہی ہے کہ جو چیز ہونی اور شدنی ہے اس کے ساتھ اپنے آپ کو مطابق بنائیں جس طرح ان کے بزرگوں نے انگریزی دور کی آمد پر اپنے آپ کو نئے دور کے مطابق بنایا تھا۔ ان میں اکثر لوگ ایسے ہیں جو اپنے آپ کو جمہوریت کا بڑا شیدائی ظاہر کرتے ہیں۔ اب یہ سوچنا ان کا اپنا کام ہے کہ چند لوگوں یا خاندانوں کی سہولت کی خاطر ایک ایسی چیز کی مزاحمت کرنا کہاں تک صحیح ہے جسے باشندگان ملک کی اکثریت چاہتی ہو۔
اسلامی ریاست میں ذمیوں کی حیثیت
اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی حیثیت کے متعلق عدالت میں جو سوالات چھیڑے گئے ہیں ان کے جوابات سلسلہ وار حسب ذیل ہیں:
(i ) اسلامی ریاست کی غیر مسلم رعایا کو اسلامی اصطلاح میں ’ذمی‘ کہا جاتا ہے۔ ذمی کوئی گالی نہیں ہے اور نہ یہ لفظ شودر اور ملیچھ کا ہم معنی ہے۔ ذمہ عربی زبان میں (guarantee) کو کہتے ہیں اور ذمی وہ شخص ہے جس کے حقوق ادا کرنے اور محفوظ رکھنے کا اسلامی حکومت نے ذمہ لیا ہو۔ اسلامی حکومت یہ ذمہ محض اپنی طرف سے یا مسلم باشندوں کی طرف سے نہیں، بلکہ خدا اور رسولؐ کی طرف سے لیتی ہے اور اس کی اہمیت اس درجے کی ہے کہ اگر کسی غیر مسلم حکومت میں مسلمانوں کا قتل عام بھی کر ڈالا جائے تو ہم انتقاماً اپنے ملک میں اس کے ہم مذہب ذمیوں کا بال تک بیکا نہیں کرسکتے۔ ایک اسلامی حکومت میں کوئی پارلیمنٹ ان کے شرعی حقوق غصب کرنے کی سرے سے مجاز ہی نہیں ہے۔
(ii) ذمیوں کی تین قسمیں ہیں:
٭ اول:وہ جو کسی معاہدے کے ذریعے سے اسلامی حکومت کے تابع ہوئے ہیں۔
٭ دوم: وہ جو بزور شمشیر فتح ہوئے ہوں۔
٭ سوم: وہ جو نہ مفتوح ہوں اور نہ جن سے کوئی باقاعدہ معاہدہ ہی ہوا ہو۔
پہلی قسم کے ذمیوں سے اس معاہدے کے مطابق برتائو کیا جائے گا جو ان سے طے کیا گیا ہو۔ دوسری قسم کے ذمیوں کو وہ حقوق دیے جائیں گے جو شریعت میں اہل ذمہ کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ رہے تیسری قسم کے ذمی‘ تو انھیں بہرحال دوسری قسم والوں کے حقوق تو دیے ہی جائیں گے‘ اور مزید ایسے حقوق بھی ہم ان کو دے سکتے ہیں جو اسلامی اصولوں سے نہ ٹکراتے ہوں اور جنھیں دینا ہم اپنے حالات کے لحاظ سے مناسب سمجھیں۔
(iii) ذمیوں کے کم سے کم حقوق جو شریعت میں مقرر کیے گئے ہیں‘ یہ ہیں:
مذہب کی پوری آزادی۔ مذہبی تعلیم کی اجازت۔ مذہبی لٹریچر طبع اور شائع کرنے کی اجازت۔ قانون کے حدود میں مذہبی بحث کی آزادی۔ معابد کی حفاظت۔ پرسنل لا کی حفاظت۔ جان و مال اور عزت کی حفاظت۔ دیوانی اور فوج داری قوانین میں مسلمانوں کے ساتھ پوری مساوات۔ حکومت کے عام برتائو میں ذمی اور مسلم رعایا کے درمیان عدمِ امتیاز۔ معاشی کاروبار کے ہر میدان میں مسلمانوں کی طرح یکساں مواقع۔ حاجت مند ہونے کی صورت میں مسلمان کی طرح ذمی کا بھی بیت المال سے مدد پانے کا استحقاق۔
یہ حقوق اسلامی ریاست صرف کاغذ ہی پر نہیں دیتی، بلکہ وہ اپنے دین و ایمان کی رُو سے عملاً انھیں ادا کرنے پر مجبور ہے، قطع نظر اس سے کہ غیر مسلم ریاستیں مسلمانوں کو کاغذ پر کیا حقوق دیتی ہیں اور عملاً کیا۔
(iv) ذمیوں کو صرف اَمصارِ مسلمین میں نئے معابد بنانے سے روکا گیا ہے، البتہ اگر ان کے پرانے معابد وہاں موجود ہوں تو ان کی حفاظت اور مرمت کرسکتے ہیں۔ امصار مسلمین سے مراد وہ شہر ہیں جو مسلمانوں نے خاص اپنے لیے آباد کیے ہوں‘ جیسے کوفہ اور بصرہ اور فسطاط۔ باقی رہے ملک کے دوسرے شہر اور قصبے اور دیہات‘ تو ان کو وہاں نئے معابد تعمیر کرنے اور پرانے معابد کی مرمت کرنے کی پوری آزادی ہوگی۔
(v) ذمیوں پر لباس وغیرہ کے متعلق جن قیود کا ذکر بعض فقہی کتابوں میں کیا گیا ہے، اس سے کسی قسم کی غلط فہمی نہ ہونی چاہیے۔ دراصل یہ تین قسم کی قیود تھیں جو پہلی دوسری صدی ہجری کے فقہاء نے حالات و ضروریات کے لحاظ سے عاید کی تھیں:
٭ پہلی قسم کی قیود وہ تھیں جن میں ذمیوں کو فوجی وردی استعمال کرنے سے روکا گیا تھا۔ مسلمانوں کو اس چیز سے اس لیے نہیں روکا گیا کہ ہر بالغ مسلمان مرد کے لیے اس وقت فوجی خدمت لازمی تھی اور ذمی اس سے مستثنیٰ تھے۔
٭ دوسری قسم کی قیود وہ تھیں جن میں مسلمانوں کو غیر مسلموں کے اور غیر مسلموں کو مسلمانوں کے مشابہ بننے سے روکا گیا تھا‘ کیونکہ اس طرح کے تَشَبُّہ میں بہت سی قباحتیں ہیں۔ اس میں اندیشہ ہے کہ مختلف تہذیبوں کے مصنوعی اختلاط سے ایک دو غلی تہذیب پیدا ہو جائے گی۔ اس میں یہ بھی اندیشہ ہے کہ مسلمانوں کے سیاسی غلبے سے مرعوب ہو کر غیر مسلموں میں وہ غلامانہ خصوصیات پیدا ہو جائیں گی جن کی وجہ سے مغلوب قوم اپنے لباس اور اپنی معاشرت میں غالب قوم کی نقل اتارنے لگتی ہے۔ اسلام اس طرح کی ذہنیت کو کسی کافر میں بھی پرورش ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا۔ اسی لیے غیر مسلموں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی تہذیب و معاشرت اور اپنے مذہب کی خصوصیات کو محفوظ رکھیں اور مسلمانوں کی رِیس نہ کریں۔ چنانچہ فقہ حنفی کی مشہورکتاب بَدَائِعُ الصَّنَائِع میں یہ حکم ان الفاظ میں بیان ہوا ہے:
اَنَّ اَھْلَ الذِّمَّۃِ یُؤْخَذُوْنَ بِاِظْھَارِ عَلاَمَاتٍ یُعْرَفُوْنَ بِھَا وَلَایُتْرَکُوْنَ یَتَشَبَّھُوْنَ بِالْمُسْلِمِیْنَ فِیْ لِبَاسِھِمْ۔ (ج۷،ص۱۱۳)
اہلِ ذمہ کو ایسی علامات اور نشانیاں رکھنے کا پابند کیا جائے گا جن سے وہ پہچانے جائیں اور ان کو اپنے لباس میں مسلمانوں کے مشابہ بننے سے روکا جائے گا۔
علاوہ بریں اس میں قانونی پیچیدگیاں پیدا ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ مثلاً: مسلمانوں کے لیے شراب پینا‘ رکھنا اور بیچنا، فوج داری جرم ہے اور ذمیوں کے لیے یہ جرم نہیں ہے۔ اب اگر ایک مسلمان ذمیوں کے مشابہ لباس پہنے تو وہ پولیس کے مواخذے سے بچ سکتا ہے‘ اور اگر ایک ذمی مسلمانوں کے مشابہ بن کر رہے تو وہ پولیس کی گرفت میں آسکتا ہے۔
تیسری قسم کی قیود اس وقت کے مخصوص حالات کی وجہ سے عائد کی گئی تھیں۔ اس وقت سندھ سے لے کر اسپین تک بہت سے ممالک مسلمانوں کی تلوار سے مفتوح ہوئے تھے اور قدرتی طور پر ان سب ملکوں کی آبادی میں سابق حکمران طبقوں کے ایسے کثیر التعداد لوگ موجود تھے جن میں اپنا کھویا ہوا اقتدار واپس لینے کا دم داعیہ تھا۔ مسلمانوں نے دنیا کے دوسرے فاتحین کی طرح ان طبقوں کو تہ تیغ نہیں کیا تھا‘ بلکہ ذمی بنا کر محفوظ و مامون کر دیا تھا، مگر بہرحال سیاسی مصالح کی بنا پر ان کو کچھ نہ کچھ دبا کر رکھنا ضروری تھا‘ تاکہ وہ پھر سر اٹھانے کی ہمت نہ کریں۔ اس لیے ان کو اپنی سواریوں اور اپنے لباس اور دوسرے لوازم معاشرت میں وہ شان دکھانے سے روک دیا گیا جس سے ان کے دور حکمرانی کی یاد تازہ ہوتی ہو۔ اس طرح کے احکام وقتی تھے نہ کہ ابدی، اور یہ احکام چاہے فقہ کی کتابوں ہی میں لکھے گئے ہوں‘ مگر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تمام اہلِ ذمہ پر ان کو چسپاں نہیں کیا جاسکتا۔
(vi) اسلامی حکومت میں کوئی غیر مسلم صدر ریاست‘ وزیر‘ سپہ سالار، قاضی اور ایسے کلیدی مناصب کا حامل نہیں بن سکتا جہاں وہ حکومت کی پالیسی میں حصہ دار ہوسکے۔ اس کی وجہ کوئی تعصب نہیں ہے، بلکہ اس کی صاف اور سیدھی وجہ یہ ہے کہ اسلامی حکومت ایک نظریے پر بنتی ہے اور اس میں یہ مناصب ایسے ہی شخص کو دیے جاسکتے ہیں جو اس نظریے کو اچھی طرح سمجھتا ہو اور اس کی صحت و صداقت پر ایمان رکھتا ہو۔ اسلامی حکومت چونکہ خلوص اور ایمان داری پر قائم ہوتی ہے اس لیے وہ اپنی غیر مسلم رعایا میں بھاڑے کے ٹٹوئوں کی ذہنیت (mercenary spirit) پیدا کرنا پسند نہیں کرتی۔ اس کے برعکس وہ ان سے کہتی ہے کہ اگر تم ہمارے نظریے اور اصولوں کو صحیح سمجھتے ہو تو ان کی صداقت کا علانیہ اقرار کرو‘ تمھارے لیے حکمران جماعت میں شامل ہونے کے مواقع کھلے ہوئے ہیں،اور اگر تم ان کی صداقت پر ایمان نہیں رکھتے تو محض پیٹ اور جاہ طلبی کی خاطر اس نظام کو چلانے اور فروغ دینے کے لیے نہ آئو جسے عقیدتاً تم غلط سمجھتے ہو۔
(vii) ہمارے لیے یہ سوال قطعاً کوئی اہمیت نہیں رکھتا کہ غیر مسلم حکومتیں اپنے دائرۂ اقتدار میں مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہیں اور کیا نہیں کرتیں۔ ہم جس چیز کو حق سمجھتے ہیں اس پر اپنے ملک میں عمل کریں گے اور دوسرے جس چیز کو حق سمجھیں اسے عمل میں لانے کے لیے وہ آزاد ہیں۔ آخر کار ہمارا اور ان کا مجموعی طرز عمل دنیا کی رائے عام کے سامنے واضح کر دے گا کہ ہم کیا ہیں اور وہ کیا۔ ہم بہرحال یہ مکاری نہیں کرسکتے کہ اپنے دستور کے صفحات پر غیر مسلموں کو سارے نمائشی حقوق دے دیں، مگر عملاً ان کی وہ حالت بنا کر رکھیں جو ہندستان میں مسلمانوں کی‘ امریکہ میں حبشیوں اور ریڈ انڈین قبائل کی اور روس میں غیر اشتراکی لوگوں کی ہے۔ رہا یہ سوال کہ کیا ایسی حالت میں غیر مسلم اقلیتیں اسلامی حکومت کی وفادار بن کر رہ سکیں گی‘تو اس کا جواب یہ ہے کہ وفاداری اور ناوفاداری دستور کے چند لفظوں سے پیدا نہیں ہوتی، بلکہ اس مجموعی برتائو سے پیدا ہوتی ہے جو حکومت اور اکثریت اپنی زیر اثر اقلیتوں کے ساتھ عملاً اختیار کرے۔
مرتد کی سزا اسلام میں
عدالت میں مرتد کی سزا کا مسئلہ بھی چھیڑا گیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام میں مرتد کی انتہائی سزا قتل ہے۔ اگر کوئی کہنا چاہے کہ ایسا نہ ہونا چاہیے تو یہ بات کہنے کا اسے اختیار ہے، لیکن اگر وہ کہتا ہے کہ اسلام میں فی الواقع ایسا کوئی قانون نہیں ہے‘ تو وہ یا تو اسلامی قانون سے ناواقف ہے یا پھر (شماتتِ ہمسایہ) سے شرما کر اپنے دین کے ایک حکم پر پردہ ڈالتا ہے۔ اسلام کے اس قانون کو سمجھنے میں لوگوں کو جو الجھنیں پیش آتی ہیں ان کے کئی وجوہ ہیں:
اول: یہ کہ وہ اسلام بحیثیت مذہب اور اسلام بحیثیت ریاست کا فرق نہیں سمجھتے اور ایک کا حکم دوسرے پر چسپاں کرنے لگتے ہیں‘ حالاں کہ ان دونوں حیثیتوں اور ان کے احکام میں فرق ہے۔
دوم: یہ کہ وہ موجودہ حالات کو نگاہ میں رکھ کر اس حکم پر غور کرتے ہیں جب کہ غیر مسلم حکومتوں ہی میں نہیں‘ خود مسلمانوں کی اپنی حکومتوں میں بھی غیر اسلامی تعلیم اور غیر اسلامی تہذیب کے غلبے سے مسلمانوں کی نئی نسلوں میں بکثرت لوگ گمراہ ہو کر اٹھ رہے ہیں۔ حالانکہ اگر ایک صحیح اسلامی حکومت موجود ہو تو اس کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ ان تمام اسباب کا سدباب کرے جن سے کوئی مسلمان واقعی اسلام سے غیر مطمئن اور ارتداد پر آمادہ ہوسکتا ہو۔ جہاں اسلامی حکومت اپنے حقیقی فرائض انجام دے رہی ہو، وہاں تو غیر مسلموں کا کفر پر مطمئن رہنا بھی مشکل ہے‘ کجا کہ ایک مسلمان الٹا اسلام سے غیر مطمئن ہو جائے۔
سوم: یہ کہ وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ مسلم سوسائٹی ہی وہ چٹان ہے جس پر اسلامی ریاست کا قصر تعمیر ہوتا ہے اور اسی چٹان کے استحکام پر ریاست کے استحکام کا پورا انحصار ہے۔ آخر دنیا میں وہ کون سی ریاست ہے جو اپنے اندر خود اپنی تخریب کے اسباب و وسائل کو پرورش کرنا، یا گوارا ہی کرنا پسند کرتی ہو؟ ہم اپنی حد تک اپنی ریاست کی بنیادی چٹان کے ہر ذرے کو چٹان سے بہ دل و جان وابستہ رکھنے کی پوری کوشش کریں گے۔ پھر بھی اگر کوئی ذرہ ایسا نکل آئے جو علیحدگی کو ہی ترجیح دیتا ہو تو ہم اس سے کہیں گے کہ تمھیں علیحدہ ہونا ہے تو ہمارے حدود سے باہر نکل جائو‘ ورنہ یہاں ہم تمھیں دوسرے ذروں کی پراگندگی کا سبب بننے کے لیے آزاد نہ چھوڑیں گے۔
چہارم: یہ کہ وہ اس غلط فہمی میں ہیں کہ ہر قسم کے مرتد کو ہرحال میں ضرور قتل ہی کیا جائے گا۔ حالانکہ ایک جرم کی انتہائی سزا شدید ترین نوعیت جرم پر دی جاتی ہے نہ کہ مجرد جرم پر۔ ایک شخص محض عقائد کی حد تک اسلام سے منحرف ہو کر رہ جاتا ہے۔ دوسرا شخص اسلام کوعلانیہ چھوڑ کر کسی دوسرے مذہب میں جا ملتا ہے۔ تیسرا شخص مرتد ہونے کے بعد اسلام کی مخالفت میں عملی سرگرمیاں دکھانے لگتا ہے۔ کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ اسلامی قانون اس طرح کے تمام مختلف آدمیوں کو ہر حال میں ایک ہی نگاہ سے دیکھے گا؟۲۰۰؎
اسلامی قانون جنگ اور غلامی
اسلامی قانون جنگ اور خصوصاً غلامی کے مسئلے پر بھی عدالت میں کچھ سوالات کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اسلام کا قانون جنگ حقیقت میں ایک قانون ہے جس پر اسلامی ریاست میں لازماً عمل کیا جائے گا، قطع نظر اس سے کہ دوسری قومیں‘ جن سے ہماری جنگ ہو‘ اس کے مقرر کردہ قواعد اور حدود کو ملحوظ رکھیں یا نہ رکھیں۔ اس کے برعکس جس چیز کو بین الاقوامی قانون جنگ کہتے ہیں، وہ حقیقت میں قانون نہیں ہے، بلکہ بین الاقوامی راضی ناموں کا ایک مجموعہ ہے، جس کے قواعد اور حدود کی پابندی ہر قوم نے اس امید اور سمجھوتے پر قبول کی ہے کہ دوسری قومیں بھی جنگ میں انھیں ملحوظ رکھیں گی۔ اسلام نے ہمیں جنگ کے چند کم سے کم حدود تہذیب و اخلاق کا تو پابند کر دیا ہے جنھیں اگر دوسرے توڑ بھی دیں تو ہم بہرحال نہیں توڑ سکتے‘ اور ان سے زائد اگر کچھ مزید مہذب قوانین پر دوسری قومیں راضی ہوں تو ہم نہ صرف یہ کہ ان کے ساتھ ایسے سمجھوتے کرنے کے لیے آزاد ہیں‘ بلکہ ان سب سے بڑھ کر یہ ہمارا منصب ہے کہ انھیں جنگ میں مزید تہذیب اختیار کرنے کی ترغیب دیں۔ مثال کے طور پر غلامی ہی کے مسئلے کولے لیجیے۔ اسلام نے اس کی اجازت اس حالت میں دی ہے جب کہ دشمن نہ تبادلۂ اسیران جنگ پر راضی ہو، اور نہ فدیے کے عوض اپنے قیدی چھڑانا اور ہمارے قیدی چھوڑنا قبول کرے۔ اس صورت میں اسلام نے قیدیوں کو جیلوں اور اجتماعی کیمپوں میں رکھ کر جبری محنت لینا پسند نہ کیا، بلکہ انھیں افراد میں تقسیم کر دینے کو ترجیح دی، تاکہ ان کا مسلمانوں میں جذب ہو جانا زیادہ آسانی کے ساتھ ممکن ہو۔ یہ صحیح ہے کہ اس زمانے میں دنیا کے دوسرے ممالک بھی قیدیوں کو غلام ہی بنا کر رکھتے تھے‘ اور غلامی کا لفظ ہمارے اور ان کے درمیان ضرور مشترک تھا‘ مگر جہاں تک غلامی کی حقیقت کا تعلق ہے‘ اسے جس طرح اسلام نے بدلا اس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔ آخر وہ دنیا کی کون سی قوم ہے جس میں اس کثرت سے غلام اور غلام زادے امامت اور قضا اور سپہ سالاری اور امارت و فرماں روائی کے مرتبوں پر پہنچے ہوں؟ یہ تو وہ کم سے کم تہذیب و انسانیت کی حد تھی جس پر اسلامی قانون نے ہمیں قائم کیا۔ اب اگر دنیا کی قومیں تبادلۂ اسیران جنگ کا قاعدہ قبول کر چکی ہیں تو اسلام میں کوئی چیز اس کا خیر مقدم کرنے سے ہم کو نہیں روکتی۔ ہمارے لیے تو یہ خوشی کا مقام ہے کہ دنیا بالآخر اس بات پر راضی ہوگئی جس پر ہم صدیوں پہلے اسے راضی کرنا چاہتے تھے۔
اسلام اور فنونِ لطیفہ
یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ اسلامی حکومت میں آرٹ کا کیا حشر ہوگا اور اس سلسلے میں تصویر‘ ڈرامے‘ موسیقی‘ سینمااور مجسموں کا خاص طور پر نام لیا گیا ہے۔ میں اس سوال کا یہ مختصر جواب دوں گا کہ آرٹ تو انسانی فطرت کی ایک پیدائشی امنگ ہے جسے خود خالقِ فطرت نے اپنے ہر کام میں ملحوظ رکھا ہے‘ اس لیے بجائے خود اس کے ناجائز یا ممنوع ہونے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا، مگرآرٹ کے مظاہر لازماً وہی نہیں ہیں جو اس وقت مغربی تہذیب میں پائے جاتے ہیں‘ بلکہ ہر تہذیب اپنے اصول اور نظریات اور رجحانات کے مطابق فطرت کی اس امنگ کا اظہار مختلف جاموں میں کرتی ہے اور دوسری تہذیبوں کے اختیار کردہ جاموں کے جواز و عدم جواز کا فیصلہ کیا کرتی ہے۔ آخر یہ کیوں فرض کرلیا گیا ہے کہ آرٹ بس اسی چیز کا نام ہے جو مغرب سے درآمد ہو رہی ہے اور اگر اس پر کسی قسم کی پابندیاں عائد کی گئیں تو بجائے خود آرٹ ہی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اسلام آرٹ کے متعلق خود اپنا ایک نظریہ رکھتا ہے۔ وہ فطرت کی اس امنگ کو بت پرستی‘ حسن پرستی اور شہوانیت کی راہوں پر جانے سے روکتا ہے اور اس کے ظہور کے لیے دوسرے راستے دکھاتا ہے۔ اس کی حکومت میں لازمًا اس کا اپنا ہی نظریہ فرماں روا ہوگا۔ مغربی تہذیب کے نظریات کی فرماں روائی بہرحال جاری نہ رہ سکے گی۔
فقہی اختلافات اسلامی ریاست کے قیام میں حائل نہیں ہیں
یہ سوال بھی چھیڑا گیا ہے کہ مسلمان فرقوں کے درمیان اعتقادی اور فقہی اختلاف کی کیا نوعیت ہے اور یہ کہ جب ان کے درمیان بنیادی امور میں بھی اتفاق نہیں ہے‘ حتیٰ کہ سنت تک شیعوں اور سنیوں میں متفق علیہ نہیں ہے تو ایک اسلامی ریاست کا نظام کیسے چل سکتا ہے۔ اس سوال کے جواب میں میرے نزدیک صرف اتنی تصریح کافی ہے کہ پاکستان میں ہم کو روایتی ۷۳ فرقوں سے عملاً کوئی سابقہ درپیش نہیں ہے‘ اور ہر نیا خیال جسے کسی شخص نے کسی اخبار یا رسالے میں پیش کیا ہو، اور کچھ منتشر لوگوں نے قبول کرلیا ہو‘ کوئی قابل ذکر فرقہ نہیں بنا دیتا۔ ہمارے ملک میں بالفعل صرف تین فرقے پائے جاتے ہیں:
۱۔ حنفی، جو دیوبندیوں اور بریلویوں میں تقسیم ہونے کے باوجود فقہ میں متفق ہیں۔
۲۔ اہل حدیث ۳۔ شیعہ
ان تینوں فرقوں کے اختلافات عملاً ایک اسلامی ریاست کا نظام بننے اور چلنے میں کوئی مشکل پیدا نہیں کرتے، اگر یہ اصول مان لیا جائے کہ پرسنل لا، مذہبی رسوم و عبادات اور مذہبی تعلیم کی حد تک ہر فرقے کا مسلک دوسرے فرقے کی مداخلت سے محفوظ رہے گا اور ملک کا انتظام ان قواعد اور قوانین کے مطابق چلے گا جو پارلیمنٹ کی اکثریت طے کرے۔ اس سلسلے میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں’۷۳فرقوں‘ کے اس افسانے کی حقیقت بھی کھول دوں جس سے خواہ مخواہ ناواقف لوگ اپنے ذہن کو بھی الجھاتے ہیں اور دوسروں کے ذہنوں میں بھی الجھنیں پیدا کرتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ مسلمان فرقوں کی وہ کثیر تعداد جس کا ذکر کتابوں میں ملتا ہے‘ اس کا بہت بڑا حصہ کاغذی وجود کے سوا نہ پہلے کوئی وجود رکھتا تھا اور نہ اب رکھتا ہے۔ جس شخص نے بھی کوئی نرالا خیال پیش کیا اور اس کے سو پچاس حامی پیدا ہوگئے اسے ہمارے مصنفین نے ایک فرقہ شمار کرلیا۔ اس طرح کے فرقوں کے علاوہ ایک معتدبہ تعداد ایسے فرقوں کی بھی ہے جو گذشتہ تیرہ سو۲۰۱؎ برس کی مدت میں پیدا بھی ہوئے اور مٹ بھی گئے۔ اب دنیا میں مسلمانوں کے بمشکل چھ‘ سات فرقے باقی ہیں جنھیں اصولی اختلافات کی بنا پر مستقل فرقہ کہا جاسکتا ہے اور جو اپنی تعداد کے لحاظ سے قابل ذکر ہیں۔ ان میں بھی بعض فرقے بہت قلیل التعداد ہیں اور یا تو خاص خاص علاقوں میں مجتمع ہیں یا دنیا بھر میں اس طرح منتشر ہیں کہ کہیں بھی ان کی کوئی قابلِ لحاظ آبادی نہیں ہے۔ دنیا میں بڑے مُسلّم فرقے صرف دو ہی ہیں۔ ایک: سنی‘ دوسرے: شیعہ۔ ان میں سے امت کا سوادِ اعظم سنیوں پر مشتمل ہے اور ان کے ضمنی فرقوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو حقیقتاً دوسرے سنی فرقوں سے کوئی اصولی اختلاف رکھتا ہو۔ یہ صرف مذاہب فکر (school of thought)ہیں جن کو مناظرہ بازیوں نے خواہ مخواہ فرقوں کی شکل دے رکھی ہے۔ اگر کوئی عملی سیاست دان دنیا کے کسی ملک میں اسلامی حکومت قائم کرنا چاہے تو ان اختلافات کی موجودگی کہیں بھی سدِّراہ نہیں ہوسکتی۔۲۰۲؎

شیئر کریں