Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ
باب اول:
دین و سیاست
۱۔مذہب کا اسلامی تصور
۲۔ اسلامی ریاست کیوں؟
۳۔ اسلام اور اقتدار
۴۔ دین و سیاست کی تفریق کا باطل نظریہ اورقصۂ یوسف ؑ سے غلط استدلال
۵۔ تفریق دین و سیاست کا دفاع اور اس کا جائزہ
باب ٢
اسلام کا سیاسی نظریہ
۱۔بنیادی مُقدّمات
۲۔ نظریۂ سیاسی کے اوّلین اصول
۳۔ اسلامی ریاست کی نوعیت
۴۔ اسلامی ریاست کی خصوصیات
۵۔ نظریۂ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
باب۳ قرآن کا فلسفہ ٔ سیاست
۱۔علم سیاست کے بنیادی سوال
۲۔ چند بنیادی حقیقتیں
۳۔اسلامی تصورِ حیات
۴۔ دین اور قانونِ حق
۵۔حکومت کی ضرورت اور اہمیت
۶۔ تصور حاکمیت و خلافت
۷۔ اصول اطاعت ووفاداری
باب ۴
معنی ٔ خلافت
باب ۵
۱۔اسلامی تصور قومیت
۲۔ اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
باب۶
اسلام کے دستوری قانون کے مآخذ
ا۔قرآن مجید
۲۔ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۸۴؎
۳۔خلافتِ راشدہ کا تعامل
۴۔ مجتہدینِ امت کے فیصلے
ضمیمہ باب ۶: سنت ِرسولؐ اللہ بحیثیت ِ مآ خذ ِقانون
باب۷
اسلامی ریاست کی بنیادیں
۱۔حاکمیت کس کی ہے؟
۲۔ ریاست کے حدودِ عمل
۳۔ اعضائے ریاست کے حدودِ عمل اور ان کا باہمی تعلق
۴۔ ریاست کا مقصدِ وجود
۵۔حکومت کی تشکیل کیسے ہو؟
۶۔اولی الامر کے اوصاف
۷۔ شہریت اور اس کی بنیادیں
۸۔ حقوقِ شہریت
۹۔شہریوں پر حکومت کے حقوق
باب ۸
اسلامی دستور کی بنیادیں
۱۔حاکمیت الٰہی
۲۔ مقامِ رسالت
۳۔ تصورِ خلافت
۴۔ اصولِ مشاورت
۵۔اصولِ انتخاب
۶۔عورتوں کے مناصب
۷۔ حکومت کا مقصد
۸۔ اولی الامر اور اصولِ اطاعت
۹۔ بنیادی حقوق اور اجتماعی عدل
۱۰۔فلاحِ عامہ
باب ۹
۱۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ خلافتِ راشدہ
باب ۱۰
۱۔ اسلام میں قانون سازی کا دائرۂ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
۲۔قانون سازی‘ شوریٰ اور اجماع
۳۔نظام اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
باب۱۱
۱۔ اسلامی ریاست کے چند پہلو
۲۔خلافت و حاکمیت۲۰۳؎
۳۔ ملکی سیاست میں عورتوں کا حصہ
۴۔ذمیوں کے حقوق۲۱۱؎
(۵) ذمیوں کے حقوق۲۱۶؎
۶۔چند متفرق مسائل
باب ۱۲
انسان کے بنیادی حقوق
باب۱۳
غیر مسلموں کے حقوق
باب۱۴
اسلام اور عدلِ اجتماعی
باب ۱۵
اسلامی ریاست کے رہنما اُصول
باب۱۶
۱۔اسلامی انقلاب کی راہ
ضمیمہ نمبر ۱
ضمیمہ نمبر ۲

اسلامی ریاست

اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اُصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔ اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔انبیاء کرامؑ وقت کی اجتماعی قوت کواسلام کےتابع کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی دعوت کا مرکزی تخیل ہی یہ تھا کہ اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کےلیے خالص ہو جائے اور شرک اپنی ہر جلی اور خفی شکل میں ختم کردیا جائے ۔قرآن کےمطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف ،حضرت موسی، حضرت داؤد، اور نبی کریم ﷺ نے باقاعدہ اسلامی ریاست قائم بھی کی اور اسے معیاری شکل میں چلایا بھی۔اسلامی فکر میں دین اورسیاست کی دوری کاکوئی تصور نہیں پایا جاتا اور کا اسی کانتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کواسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہ جدوجہد ان کے دین وایمان کاتقاضا ہے۔قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں جس طرح اخلاق اور حسنِ کردار کی تعلیمات موجود ہیں۔اسی طرح معاشرت،تمدن اور سیاست کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب’’اسلامی ریاست‘‘مفکرِ اسلام مولا نا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کی تصنیف ہے ۔جس میں انھوں نے بیک وقت ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کی کما حقہ کوشش کی ہے ۔ ایک طرف انھوں نے اسلام کےپورے نظام حیات کودینی اور عقلی دلائل کےساتھ اسلام کی اصل تعلیمات کودورحاضر کی زبان میں پیش کیاہے ۔ ان کی تحریرات کےمطالعہ سے قاری کوزندگی کے بارے میں اسلام کے نقظہ نظر کا کلی علم حاصل ہوتا ہے اوروہ پوری تصویر کو بیک نظر دیکھ سکتا ہے۔انھوں نےہر مرعوبیت سے بالا تر ہوکر دورحاضرکے ہر فتنہ کا مقابلہ کیا اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اورفوقیت کوثابت کیا ہے۔پھر یہ بھی بتایا ہےکہ اس نظام کودور حاضر میں کیسے قائم کیا جاسکتا ہے اور آج کے اداروں کوکس طرح اسلام کے سانچوں میں ڈھالا جاسکتاہے ۔انھوں نے اسلامی ریاست کے ہمہ پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئےدور جدید کے تقاضوں کوسامنے رکھ کر اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پیش کیاہے ۔کتاب ہذا دراصل مولانامودودی کے منتشر رسائل ومضامین کامجموعہ ہے جسے پروفیسر خورشید احمد صاحب (مدیر ماہنامہ ترجمان القرآن)نے بڑے حسن ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف ومرتب کی اشاعتِ اسلام کےلیے کی جانے والی تمام کاوشوں کو قبول فرماے۔آمین

۱۔مذہب کا اسلامی تصور

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس غرض کے لیے بھیجے گئے وہ اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ مذہب کے اس جاہلی تصور کو مٹا کر ایک عقلی و فکری تصور پیش کریں اور صرف پیش ہی نہ کریں بلکہ اسی کی اساس پر تہذیب و تمدن کا ایک مکمل نظام قائم کر کے اور کامیابی کے ساتھ چلا کر دکھا دیں۔ آپؐ نے بتایا کہ مذہب قطعاً بے معنی ہے، اگر وہ انسان کی زندگی کا محض ایک شعبہ یا ضمیمہ ہے۔ ایسی چیز کو دین و مذہب کے نام سے موسوم کرنا ہی غلط ہے۔ حقیقت میں دین وہ ہے جو زندگی کا ایک جز نہیں بلکہ تمام زندگی ہو‘ زندگی کی روح اور اس کی قوتِ محرکہ ہو۔ فہم و شعور اور فکر و نظر ہو‘ صحیح و غلط میں امتیاز کرنے والی کسوٹی ہو‘ زندگی کے ہر میدان میں ہر ہر قدم پر راہ راست اور راہ کج کے درمیان فرق کرکے دکھائے‘ راہ کج سے بچائے‘ راہ راست پر استقامت اور پیش قدمی کی طاقت بخشے‘ اور زندگی کے اس لامتناہی سفر میں‘ جو دنیا سے لے کر آخرت تک مسلسل چلا جارہا ہے‘ انسان کو ہر مرحلے سے کامیابی و سعادت کے ساتھ گزارے۔
اسی مذہب کا نام اسلام ہے۔ یہ زندگی کا ضمیمہ بننے کے لیے نہیں آیا ہے‘ بلکہ اس کے آنے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے اگر اس کو بھی پرانے جاہلی تصور کے ماتحت ایک ضمیمۂ زندگی قرار دیا جائے۔ یہ جس قدر خدا اور انسان کے تعلق سے بحث کرتا ہے‘ اسی قدر انسان اور انسان کے تعلق سے بھی کرتا ہے اور اسی قدر انسان اور ساری کائنات کے تعلق سے بھی۔ اس کے آنے کا اصل مقصد انسان کو اسی حقیقت سے آگاہ کرنا ہے کہ تعلقات کے یہ شعبے الگ الگ اور ایک دوسرے سے مختلف و بیگانہ نہیں ہیں‘ بلکہ ایک مجموعے کے مربوط اور مرتب اجزا ہیں اور ان کی صحیح ترکیب ہی پر انسان کی فلاح کا مدار ہے۔ انسان اور کائنات کا تعلق درست نہیں ہوسکتا جب تک کہ انسان اور خالق کائنات کا تعلق درست نہ ہو۔ پس یہ دونوں تعلق ایک دوسرے کی تکمیل و تصحیح کرتے ہیں۔ دونوں مل کر ایک کامیاب زندگی بناتے ہیں، اور مذہب کا اصل کام اسی کامیاب زندگی کے لیے انسان کو ذہنی و عملی حیثیت سے تیار کرنا ہے۔ جو مذہب یہ کام نہیں کرتا وہ مذہب ہی نہیں ہے اور جو اس کام کو انجام دیتا ہے وہی اسلام ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ:
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ آل عمران3:19
اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔
مذہب اور تہذیب
اسلام ایک خاص طریق فکر (attitude of mind)اور پوری زندگی کے متعلق ایک خاص نقطۂ نظر (outlook of life)ہے۔ پھر وہ ایک خاص طرز عمل ہے جس کا راستہ اسی طریق فکر اور اسی نظریۂ زندگی سے متعین ہوتا ہے۔ اس طریق فکر اور طرز عمل سے جو ہیئت حاصل ہوتی ہے وہی مذہب اسلام ہے‘ وہی تہذیب اسلامی ہے۔ یہاں مذہب اور تہذیب و تمدن الگ الگ چیزیں نہیں ہیں، بلکہ سب مل کر ایک مجموعہ بناتے ہیں۔ وہی ایک طریق فکر اور نظریۂ حیات ہے جو زندگی کے ہر مسئلے کا تصفیہ کرتا ہے۔ انسان پر خدا کے کیا حقوق ہیں۔ خود اس کے اپنے نفس کے کیا حقوق ہیں۔ ماں باپ کے‘ بیوی بچوں کے‘ عزیزوں اور قرابت داروں کے‘ پڑوسیوں اور معاملہ داروں کے‘ ہم مذہبوں اور غیر مذہب والوں کے‘ دشمنوں اور دوستوں کے‘ ساری نوع انسانی کے‘ حتیٰ کہ کائنات کی ہر چیز اور قوت کے کیا حقوق ہیں؟ وہ ان تمام حقوق کے درمیان کامل توازن اور عدل قائم کرتا ہے اور ایک شخص کا مسلمان ہونا ہی اس امر کی کافی ضمانت ہے کہ وہ ان تمام حقوق کو پورے انصاف کے ساتھ ادا کرے گا، بغیر اس کے کہ ظلم کی راہ سے ایک حق کو دوسرے حق پر قربان کرے۔پھر یہی طریق فکر اور نظریۂ حیات انسان کی زندگی کا ایک بلند اخلاقی نصب العین اور ایک پاکیزہ روحانی منتہائے نظر معین کرتا ہے اور زندگی کی تمام سعی و جہد کو‘ خواہ وہ کسی میدان میں ہو‘ ایسے راستوں پر ڈالنا چاہتا ہے جو ہر طرف سے اسی ایک مرکز کی طرف راجع ہوں۔
یہ مرکز ایک فیصلہ کن چیز ہے۔ اسی کے لحاظ سے ہر شے کی قدر (value)متعین کی جاتی ہے۔ اسی معیار پر ہر شے کو پرکھا جاتا ہے۔ جو شے اس مرکزی مقصد تک پہنچنے میں مددگار ہوتی ہے اسے اختیار کرلیا جاتا ہے اور جو شے سَدِّراہ ہوتی ہے‘ اسے رد کر دیا جاتا ہے۔ فرد کی زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے معاملات سے لے کر جماعت کی زندگی کے بڑے سے بڑے معاملات تک‘ یہ معیار یکساں کار فرما ہے۔ وہ اس کا بھی فیصلہ کرتا ہے کہ ایک شخص کو اکل و شرب میں‘ لباس میں‘ صنعتی تعلقات میں‘ لین دین میں‘ بات چیت میں‘ غرض زندگی کے ہر معاملے میں کن حدود کو ملحوظ رکھنا چاہیے تاکہ وہ مرکز مقصود کی طرف جانے والی سیدھی راہ پر قائم رہے اور ٹیڑھے راستوں پر نہ پڑ جائے۔ اس کا بھی فیصلہ کرتا ہے کہ اجتماعی زندگی میں افراد کے باہمی روابط کن اصولوں پر مرتب کیے جائیں جن سے معاشرت‘ معیشت‘ سیاست‘ غرض ہر شعبۂ زندگی کا ارتقا ایسے راستوں پر ہو جو اصل منزل مقصود کی طرف جانے والے ہوں‘ اور وہ راہیں نہ اختیار کرے جو اس سے دور ہٹانے والی ہوں۔ اس کا بھی فیصلہ کرتا ہے کہ زمین و آسمان کی جن قوتوں پر انسان کو دسترس حاصل ہو، اور جو چیزیں اس کے لیے مسخر کی جائیں‘ ان کو وہ کن طریقوں سے استعمال کرے‘ تاکہ وہ اس کے مقصد کی خادم بن جائیں‘ اور کن طریقوں سے اجتناب کرے، تاکہ وہ اس کی کامیابی میں مانع نہ ہوں۔ اس کا بھی فیصلہ کرتا ہے کہ اسلامی جماعت کے لوگوں کو غیر اسلامی جماعتوں کے ساتھ دوستی میں اوردشمنی میں‘ جنگ میں اور صلح میں‘ اشتراکِ اغراض میں اور اختلافِ مقاصد میں‘ غلبے کی حالت میں اور مغلوبی کے دور میں‘ علوم و فنون کے اکتساب میں‘ اور تہذیب و تمدن کے لین دین میں کن اصولوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے، تاکہ خارجی تعلقات کے ان مختلف پہلوئوں میں وہ اپنے مقصد کی راہ سے ہٹنے نہ پائیں‘ بلکہ جہاں تک ممکن ہو‘ بنی نوع انسان کے ان نادان اور گمراہ افراد سے بھی طوعاًو کرہاً شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر اس مقصد کی خدمت لے لیں جو اصل فطرت کے اعتبار سے ان کا بھی ویسا ہی مقصد ہے جیسا کہ پیروانِ اسلام کا ہے۔
غرض وہ ایک ہی نقطۂ نظر ہے جو مسجد سے لے کر بازار اور میدانِ کارزار تک‘ طریقِ عبادت سے لے کر ریڈیو اور ہوائی جہاز کے طریق استعمال تک‘ غسل و وضو اور طہارت و استنجا کے جزوی مسائل سے لے کر اجتماعیات‘ معاشیات‘ سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کے بڑے سے بڑے مسائل تک‘ مکتب کی ابتدائی تعلیم سے لے کر آثار فطرت کے انتہائی مشاہدات اور قوانین طبعی کی بلند ترین تحقیقات تک‘ زندگی کی تمام مساعی اور فکر و عمل کے تمام شعبوں کو ایک ایسی وحدت بناتا ہے جس کے اجزا میں ایک مقصدی ترتیب اور ایک ارادی ربط پایا جاتا ہے‘ اور ان سب کو ایک مشین کے پرزوں کی طرح اس طرح جوڑتا ہے کہ ان کی حرکت اور تعامل سے ایک ہی نتیجہ برآمد ہو۔
مذہب کی دنیا میں یہ ایک انقلابی تصور تھا‘ اور جاہلیت کے خمیر سے بنے ہوئے دماغوں کی گرفت میں یہ تصور کبھی پوری طرح نہ آسکا۔ آج دنیا علم و عقل کے اعتبار سے چھٹی صدی عیسوی کے مقابلے میں کس قدر آگے بڑھ چکی ہے مگر آج بھی اتنی قدامت پرستی اور تاریک خیالی موجود ہے کہ یورپ کی شہرہ آفاق یونی ورسٹیوں میں اعلیٰ درجے کی تعلیم پائے ہوئے لوگ بھی اس انقلاب انگیز تصور کے ادراک سے اسی طرح عاجز ہیں جس طرح قدیم جاہلیت کے اَن پڑھ اور کودَن لوگ تھے۔ ہزاروں برس سے مذہب کا جو غلط تصور وراثت میں منتقل ہوتا چلا آرہا ہے‘ اس کی گرفت دماغوں پر ابھی تک مضبوط جمی ہوئی ہے۔ عقلی تنقید اور علمی تحقیق کی بہترین تربیت سے بھی اس کے بند نہیں کھلتے۔ خانقاہوں اور مسجدوں کے تاریک حجروں میں رہنے والے اگر مذہبیت کے معنی گوشۂ عزلت میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے کے سمجھیں اور دین داری کو عبادت کے دائرے میں محدود دخیال کریں تو جائے تعجب نہیں‘ کہ وہ تو ہیں ہی ’تاریک خیال‘۔ جاہل عوام اگر مذہب کو باجے‘ تعزیے اور گائے کے سوالات میں محدود سمجھیں تو یہ بھی مقامِ حیرت نہیں کہ وہ تو ہیں ہی جاہل، مگر یہ ہمارے پروردگانِ نور علم کو کیا ہوا کہ ان کے دماغوں سے بھی قدامت پرستی کی ظلمت دور نہیں ہوتی؟ وہ بھی مذہب اسلام کو انھی معنوں میں ایک مذہب سمجھتے ہیں جن میں ایک غیر مسلم قدیم جاہلی تصور کے تحت سمجھتا ہے۔
ہماری سیاست میں جاہلی تصوّرِ مذہب کے اثرات
فہم و ادراک کے اس تصور کی وجہ سے مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقے کا ایک بڑا حصہ نہ صرف خود غلط روش پر چل رہا ہے‘ بلکہ دنیا کے سامنے اسلام اور اس کی تہذیب و تمدن کی نہایت غلط نمائندگی کر رہا ہے۔ مسلم جماعت کے اصلی مسائل جن کے حل پر اس کی حیات و ممات کا مدار ہے‘ سرے سے ان لوگوں کی سمجھ ہی میں نہیں آتے، اور یہ ضمنی غیر متعلق مسائل کو اصل مسائل سمجھ کر عجیب عجیب طریقوں سے ان کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ مذہب کا پرانا محدود تصور ہی ہے جو مختلف شکلوں میں ظہور کر رہا ہے۔
کوئی صاحب فرماتے ہیں کہ میں پہلے ہندستانی ۱؎ ہوں‘ پھر مسلمان اور یہ کہتے وقت ان کے ذہن میں مذہب کا یہ تصور ہوتا ہے کہ اسلام جغرافی تقسیم قبول کرسکتا ہے۔ ترکی اسلام‘ ایرانی اسلام‘ مصری اسلام‘ ہندستانی اسلام اور پھر پنجابی‘ بنگالی‘ دکنی اور مدراسی اسلام الگ الگ ہوسکتے ہیں۔ ہر جگہ مسلمان اپنے اپنے مقامی حالات کے لحاظ سے ایک الگ طریق ِ فکر اختیار کرسکتا ہے۔ زندگی کا ایک جداگانہ نقطۂ نظر اور نصب العین قبول کرسکتا ہے۔ ان تمام سیاسی‘ معاشی اور اجتماعی نظاموں میں جذب ہوسکتا ہے، جو مختلف قوموں نے مختلف اصولوں پر قائم کیے ہیں اور پھر بھی وہ مسلمان رہ سکتا ہے۔ اس لیے کہ اسلام ایک ’مذہبی ضمیمہ‘ ہے جو دنیوی زندگی کے ہر ڈھنگ اور ہر طریقے کے ساتھ چسپاں ہوسکتا ہے۔
ایک دوسرے صاحب فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کو دین اور دنیا کے معاملات میں واضح امتیاز کرنا چاہیے۔ دین کا تعلق ان معاملات سے ہے جو انسان اور خدا کے درمیان ہیں‘ یعنی اعتقادات اور عبادات۔ ان کی حد تک مسلمان اپنی راہ پر چل سکتے ہیں‘ اور کوئی ان کو اس راہ سے نہ ہٹانا چاہتا ہے‘ نہ ہٹا سکتا ہے۔ رہے دنیوی معاملات تو ان میں دین کو دخل دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جس طرح دنیا کے دوسرے لوگ ان کو انجام دیتے ہیں‘ اسی طرح مسلمانوں کو بھی انجام دینا چاہیے۔
ایک تیسرے صاحب کا ارشاد ہے کہ اپنے مذہبی‘ تمدنی اور لسانی حقوق کے لیے مسلمانوں کو بلاشبہ ایک الگ نظام کی ضرورت ہے، مگر سیاسی اور معاشی اغراض کے لیے ان کو الگ جماعت بندی کی ضرورت نہیں۔ ان معاملات میں مسلم اور غیر مسلم کی تفریق بالکل غیر حقیقی اور مصنوعی ہے۔ یہاں مسلمانوں کے مختلف طبقوں کو اپنے اپنے مفاد اور اپنی اپنی اغراض کے لحاظ سے ان مختلف جماعتوں میں شامل ہونا چاہیے جو غیر مذہبی اصولوں پر سیاسی و معاشی مسائل کو حل کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔
ایک اور صاحب جو مسلم قوم کے تنِ مُردہ میں جان ڈالنے کے لیے اٹھے ہیں‘ ان کا خیال یہ ہے کہ اصل چیز ایمان باللہ اور اعتقاد یوم آخر اور اتباع کتاب و سنت نہیں ہے‘ بلکہ عناصر کی تسخیر اور قوانین طبعی کی دریافت اور نظم و ضبط کی طاقت سے ان عناصر مسخرہ و قوانین معلومہ کو استعمال کرنا ہے‘ تاکہ نتیجے میں عُلُوّ اور تَمَکُّن فِی الْاَرْضْ حاصل ہو۔ یہ صاحب مادی ترقی کو مقصود بالذات قرار دیتے ہیں، اس لیے جو وسائل اس ترقی میں مددگار ہوں‘ وہی ان کے نزدیک اصلی اہمیت رکھتے ہیں۔ باقی رہا وہ ذہن جو علم و عقل کی تہہ میں کام کرتا ہے‘ اور جو اپنے طریق فکر اور زاویۂ نظر کے لحاظ سے وسائل ترقی کے استعمال کا مقصد اور تہذیب و تمدن کے ارتقا کا راستہ اور تمکن فی الارض کا مدعا متعین کرتا ہے‘ سو وہ ان کی نگاہ میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا ____ وہ ذہن چاہے جاپانی ذہن ہو‘ یا جرمن‘ یا اطالوی یا فاروقی یا خالدی‘ ان کو اس سے کوئی بحث نہیں‘ ان کے نزدیک یہ سب یکساں ’اسلامی‘ ذہن ہیں، کیونکہ ان سب کے عمل کا نتیجہ ان کو ایک ہی نظر آتا ہے‘ یعنی عُلُوّ اور تَمَکُّن فِی الْاَرْضْ۔ ان کی نگاہ میں جس کو ’زمین کی وراثت‘ حاصل ہے، وہی ’صالح‘ ہے، اگرچہ وہ ابراہیم ؑ کے مقابلے میں نمرود ہی کیوں نہ ہو۔ جو غالب اور بالادست ہے‘ وہی ’مومن‘ ہے اگرچہ وہ مسیح ؑ کے مقابلے میں بت پرست رومی فرماں رواہی کیوں نہ ہو۔
ایک بڑا گروہ جو مسلمانوں کے قومی حقوق کی حفاظت کے لیے اٹھا ہے، اس کے نزدیک اسلام اور اس کی تہذیب کی حفاظت صرف اس چیز کا نام ہے کہ ان کے مذہب اور’پرسنل لا‘ کی حفاظت کا اطمینان دلایا جائے‘ ان کی زبان کو اپنے رسم الخط سمیت ایک سرکاری زبان تسلیم کرلیا جائے‘ اور جن لوگوں کی شخصیت پر اسلام کا لیبل لگا ہوا ہو، صرف انھی کو مسلمانوں کی نمائندگی کا حق حاصل ہو۔ انتخابی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں متناسب نمائندگی ان کے نزدیک سب سے بڑی اہمیت رکھتی ہے، اور اگر یہ فیصلہ کر دیا جائے کہ خالص اسلامی مسائل میں کوئی تصفیہ اس وقت تک نہ ہوگا جب تک خود مسلمان نمائندوں کی غالب اکثریت اس کو قبول نہ کرے‘ تو اُن کے نزدیک گویا اسلامی حقوق کا پورا پورا تحفظ ہوگیا۔
دیکھا آپ نے! شکلیں کس قدر مختلف ہیں‘ مگر حقیقت ان سب میں ایک ہے۔ یہ سب مختلف مظاہر ہیں‘ اسی جاہلی تصور مذہب کے جو اسلامی تصورِ مذہب کے خلاف ہر زمانے میں نت نئی شکلوں کے ساتھ بغاوت کرتا رہا ہے۔
اگر یہ لوگ اچھی طرح سمجھ لیں کہ مسلم کسے کہتے ہیں اور حقیقی معنی میں اسلامی جماعت کا اطلاق کس گروہ پر ہوتا ہے‘ تو ان کی تمام غلط فہمیاں دور ہوسکتی ہیں۔ قانونی حیثیت سے ہر وہ شخص ’مسلم‘ ہے‘ جو کلمہ طیبہ کا زبانی اقرار کرے اور ضروریاتِ دین کا منکر نہ ہو‘ لیکن اس معنی میں جو شخص ’مسلم‘ ہے‘ اس کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ وہ دائرۂ اسلام میں داخل ہے۔ ہم اس کو کافر نہیں کہہ سکتے‘ نہ وہ حقوق دینے سے انکار کرسکتے ہیں جو مجرد اقرار اسلام سے اس کو مسلم سوسائٹی میں حاصل ہوتے ہیں۔ یہ اصل اسلام نہیں ہے، بلکہ اسلام کی سرحد میں داخل ہونے کا پروانہ ہے۔ اصل اسلام یہ ہے کہ تمھارا ذہن اسلام کے سانچے میں ڈھل جائے۔ تمھارا طریق فکر وہی ہو‘ جو قرآن کا طریقِ فکر ہے ____ زندگی اور اس کے تمام معاملات پر تمھاری نظر وہی ہو‘ جو قرآن کی نظر ہے۔ تم اشیاء کی قدریں (values)اسی معیار کے مطابق معین کرو‘ جو قرآن نے اختیار کیا ہے۔ تمھاراانفرادی و اجتماعی نصب العین وہی ہو‘ جو قرآن نے پیش کیا ہے____ تم اپنی زندگی کے ہر شعبے میں مختلف طریقوں کو چھوڑ کر ایک طریقہ اسی معیار انتخاب کی بنا پر انتخاب کرو‘ جو قرآن اور طریقِ محمدیؐ کی ہدایت سے تم کو ملا ہے۔ اگر تمھارا ذہن اس چیز کو قبول کرتا ہے اور تم اپنے نفسیات کو قرآنی نفسیات کے ساتھ محدود کرلیتے ہو‘ تو پھر زندگی کے کسی معاملے میں بھی تمھاراراستہ اُس راستے سے الگ نہیں ہوسکتا جسے قرآن ’’سبیل المؤمنین‘‘ کہتا ہے۔
قرآنی ذہن
اسلامی ذہن یا قرآنی ذہن ____ کہ حقیقت میں ایک ہی چیز ہیں ____ جس نظریۂ زندگی کے تحت چند اعتقادات پر ایمان لاتا ہے، چند عبادات تجویز کرتا ہے‘ چند شعائر (جو عام اصطلاح میں ’’مذہبی شعائر‘‘ کہے جاتے ہیں) اختیار کرتا ہے، ٹھیک اسی نظریے کے تحت وہ کھانے کی چیزوں میں‘ پہننے کے سامان میں‘ لباس کی وضعوں میں‘ معاشرت کے طریقوں میں‘ تجارتی لین دین میں‘ معاشی بندوبست میں‘ سیاست کے اصولوں میں‘ تمدن و تہذیب کے مختلف مظاہر میں‘ مادی وسائل اور قوانین طبعی کے علم کو استعمال کرنے کے مختلف طریقوں میں‘ بعض کو رد کرتا ہے اور بعض کو اختیار کرتا ہے۔ یہاں چونکہ نقطۂ نظر ایک ہے‘ طریق فکر ایک ہے‘ نصب العین ایک ہے، ترک واختیار کا معیار ایک ہے، اس لیے زندگی بسر کرنے کے طریقے‘ سعی و جہد کے راستے‘ معاملات دنیا کی انجام دہی کے اصول الگ نہیں ہوسکتے۔ جزئیات میں عمل کی شکلیں الگ ہوسکتی ہیں‘ احکام کی تعبیروں اور فروعات پر اصول کے انطباق میں تھوڑا بہت اختلاف ہوسکتا ہے‘ ایک ہی ذہن کی کارفرمائی مختلف مظاہر اختیار کرسکتی ہے‘ لیکن یہ اختلاف عوارض کا اختلاف ہے‘ جوہری اختلاف ہرگز نہیں ہے۔ جس بنیاد پر اسلام میں زندگی کی پوری اسکیم مرتب کی گئی ہے‘ اور اس کے تمام شعبوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کیا گیا ہے وہ کسی قسم کا اختلاف قبول نہیں کرتی۔ آپ خواہ پاکستانی ہوں‘ یا ترکی یا مصری، اگر آپ مسلمان ہیں تو یہی اسکیم اپنی اسی اسپرٹ کے ساتھ آپ کو اختیار کرنی پڑے گی اور اس اسکیم کو رد کر دینا پڑے گا جو اپنی اسپرٹ اور اپنے اصولوں کے لحاظ سے اس کے خلاف ہو۔
یہاں آپ ’مذہبی‘ اور’دنیوی‘ شعبوں کو ایک دوسرے سے الگ کر ہی نہیں سکتے۔ اسلام کی نگاہ میں دنیا اور آخرت دونوں ایک ہی مسلسل زندگی کے دو مرحلے ہیں۔ پہلا مرحلہ سعی و عمل کا ہے‘ اور دوسرا مرحلہ نتائج کا ____ آپ زندگی کے پہلے مرحلے میں دنیا کو جس طرح برتیں گے، دوسرے مرحلے میں ویسے ہی نتائج ظاہر ہوں گے____ اسلام کا مقصد آپ کے ذہن اور آپ کے عمل کو اس طرح تیار کرنا ہے‘ کہ زندگی کے اس ابتدائی مرحلے میں آپ دنیا کو صحیح طریقے سے برتیں تاکہ دوسرے مرحلے میں صحیح نتائج حاصل ہوں۔ پس یہاں پوری دنیوی زندگی ’مذہبی‘ زندگی ہے‘ اور اس میں اعتقادات و عبادات سے لے کر تمدن و معاشرت اور سیاست و معیشت کے اصول و فروع تک ہر چیز ایک معنوی اور مقصدی ربط کے ساتھ مربوط ہے۔ اگر آپ اپنے سیاسی و معاشی معاملات کو اسلام کی تجویز کردہ اسکیم کے بجائے کسی اور اسکیم کے مطابق منظم کرنا چاہتے ہیں تو یہ جزوی ارتداد ہے‘ جو آخر کار کُلّیْ ارتداد پر منتہی ہوتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ اسلامی تعلیمات کا تجزیہ کرکے بعض کو رد اور بعض کو قبول کرتے ہیں۔ آپ معتقدات دین اور عبادات دینی کو قبول کرتے ہیں‘ مگر اس نظامِ زندگی کو ترک کر دیتے ہیں جس کی عمارت انھی عبادات کی بنیاد پر اٹھائی گئی ہے۔ اول تو یہ تجزیہ ہی اسلام کی رُو سے غلط ہے اور کوئی مسلمان جو حقیقت میں اسلام پر ایمان رکھتا ہو‘ اس کا ارادہ نہیں کر سکتا‘ کیونکہ یہ اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ۲؎ کا مصداق ہے۔ پھر اگر آپ نے یہ تجزیہ کرکے دائرۂ اسلام میں رہنے کا عزم کیا بھی تو آپ اس دائرے میں زیادہ مدت تک نہ رہ سکیں گے کیونکہ نظامِ زندگی سے بے تعلق ہونے کے بعد معتقدات دین اور عبادات دینی سب بے معنی ہو جاتے ہیں، ان کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ غیر اسلامی اصول حیات پر ایمان لانے کے بعد اس قرآن پر ایمان قائم ہی نہیں رہ سکتا، جو قدم قدم پر ان اصول حیات کی تکذیب کرتا ہے۔
بخلاف اس کے اگر آپ اس اسکیم کے مطابق اپنی سیاسی و معاشی زندگی کے معاملات کو منظم کرنا چاہتے ہیں جو اسلام نے تجویز کی ہے تو آپ کو الگ پارٹیوں میں منقسم ہونے کی کوئی ضرورت نہیں‘ ایک ہی پارٹی ____ حزب اللہ ____ ان سب کاموں کے لیے کافی ہے‘ کیونکہ یہاں سرمایہ دار اور مزدور‘ زمین دار اور کاشت کار‘ راعی اور رعیت کے مفاد میں تنازع نہیں ہے‘ بلکہ ان کے درمیان موافقت اور اشتراکِ عمل پیدا کرنے والے اصول موجود ہیں، کیوں نہ آپ ان اصولوں کے مطابق اپنی قوم کے مختلف طبقات میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کریں؟ جن کے پاس یہ اصول موجود نہیں ہیں‘ وہ اگر مجبورًاتنازع طبقات (class war)کی آگ میں کودتے ہیں‘ تو آپ کیوں ان کے پیچھے جائیں۔
اسی طرح اگر آپ مادی ترقی چاہتے ہیں، عُلُوّاور تَمَکُّن فی الارض چاہتے ہیں تو اسلام خود اس باب میں آپ کی مدد کرتا ہے، مگر وہ چاہتا ہے کہ آپ فرعونی و نمرودی علو اور ابراہیمی ؑ و موسوی ؑ علو میں امتیاز کریں۔ ایک تمکن وہ ہے جو جاپان اور انگلستان کو حاصل ہے۔ دوسرا وہ تھا جو صحابہ کرامؓ اور قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے حاصل کیا تھا۔ تمکن دونوں ہیں‘ اور دونوں تسخیر عناصر‘ استعمالِ اسباب اور قوانین طبعی کے علم اور ان سے استفادہ کرنے ہی کے نتائج ہیں‘ مگر زمین و آسمان کا فرق ہے، دونوں گروہوں کے مقاصد اور نقطۂ نظر میں۔ آپ نتائج کے ظاہری اور نہایت سطحی تماثل کو دیکھتے ہیں مگر ان کے درمیان جو روحی و اخلاقی بُعد ____ بُعد المشرقین ____ ہے اس کو نہیں دیکھتے۔ دنیا پرستوں کی ترقی اور ان کا تمکن اس تسخیر عناصر اور استعمال اسباب کا نتیجہ ہے جس کی تہہ میں زندگی کا حیوانی نصب العین کام کر رہا ہے۔ بخلاف اس کے قرآن جس علو اور تمکن فی الارض کا وعدہ کرتا ہے وہ بھی اگرچہ تسخیرِ عناصر اور استعمالِ اسباب سے ہی حاصل ہوسکتا ہے‘ مگر اس کی تہہ میں زندگی کا بلند ترین اخلاقی و روحانی نصب العین ہونا چاہیے جس کا تحقق ہو نہیں سکتا، جب تک کہ ایمان باللہ اور اعتقاد یوم آخر پوری طرح مستحکم نہ ہو‘ اور جب تک کہ زندگی کی ساری جدوجہد اس آہنی فریم کے اندر کسی ہوئی نہ ہو جس کی گرفت کو مضبوط کرنے کے لیے صوم و صلوٰۃ اور حج و زکوٰۃ کو آپ پر فرض کیا گیا ہے ____ وہی ’ارکانِ اسلام‘ جن کو آپ مولوی کے غلط مذہب کی ایجاد قرار دیتے ہیں۔

شیئر کریں