Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ
باب اول:
دین و سیاست
۱۔مذہب کا اسلامی تصور
۲۔ اسلامی ریاست کیوں؟
۳۔ اسلام اور اقتدار
۴۔ دین و سیاست کی تفریق کا باطل نظریہ اورقصۂ یوسف ؑ سے غلط استدلال
۵۔ تفریق دین و سیاست کا دفاع اور اس کا جائزہ
باب ٢
اسلام کا سیاسی نظریہ
۱۔بنیادی مُقدّمات
۲۔ نظریۂ سیاسی کے اوّلین اصول
۳۔ اسلامی ریاست کی نوعیت
۴۔ اسلامی ریاست کی خصوصیات
۵۔ نظریۂ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
باب۳ قرآن کا فلسفہ ٔ سیاست
۱۔علم سیاست کے بنیادی سوال
۲۔ چند بنیادی حقیقتیں
۳۔اسلامی تصورِ حیات
۴۔ دین اور قانونِ حق
۵۔حکومت کی ضرورت اور اہمیت
۶۔ تصور حاکمیت و خلافت
۷۔ اصول اطاعت ووفاداری
باب ۴
معنی ٔ خلافت
باب ۵
۱۔اسلامی تصور قومیت
۲۔ اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
باب۶
اسلام کے دستوری قانون کے مآخذ
ا۔قرآن مجید
۲۔ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۸۴؎
۳۔خلافتِ راشدہ کا تعامل
۴۔ مجتہدینِ امت کے فیصلے
ضمیمہ باب ۶: سنت ِرسولؐ اللہ بحیثیت ِ مآ خذ ِقانون
باب۷
اسلامی ریاست کی بنیادیں
۱۔حاکمیت کس کی ہے؟
۲۔ ریاست کے حدودِ عمل
۳۔ اعضائے ریاست کے حدودِ عمل اور ان کا باہمی تعلق
۴۔ ریاست کا مقصدِ وجود
۵۔حکومت کی تشکیل کیسے ہو؟
۶۔اولی الامر کے اوصاف
۷۔ شہریت اور اس کی بنیادیں
۸۔ حقوقِ شہریت
۹۔شہریوں پر حکومت کے حقوق
باب ۸
اسلامی دستور کی بنیادیں
۱۔حاکمیت الٰہی
۲۔ مقامِ رسالت
۳۔ تصورِ خلافت
۴۔ اصولِ مشاورت
۵۔اصولِ انتخاب
۶۔عورتوں کے مناصب
۷۔ حکومت کا مقصد
۸۔ اولی الامر اور اصولِ اطاعت
۹۔ بنیادی حقوق اور اجتماعی عدل
۱۰۔فلاحِ عامہ
باب ۹
۱۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ خلافتِ راشدہ
باب ۱۰
۱۔ اسلام میں قانون سازی کا دائرۂ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
۲۔قانون سازی‘ شوریٰ اور اجماع
۳۔نظام اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
باب۱۱
۱۔ اسلامی ریاست کے چند پہلو
۲۔خلافت و حاکمیت۲۰۳؎
۳۔ ملکی سیاست میں عورتوں کا حصہ
۴۔ذمیوں کے حقوق۲۱۱؎
(۵) ذمیوں کے حقوق۲۱۶؎
۶۔چند متفرق مسائل
باب ۱۲
انسان کے بنیادی حقوق
باب۱۳
غیر مسلموں کے حقوق
باب۱۴
اسلام اور عدلِ اجتماعی
باب ۱۵
اسلامی ریاست کے رہنما اُصول
باب۱۶
۱۔اسلامی انقلاب کی راہ
ضمیمہ نمبر ۱
ضمیمہ نمبر ۲

اسلامی ریاست

اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اُصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔ اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔انبیاء کرامؑ وقت کی اجتماعی قوت کواسلام کےتابع کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی دعوت کا مرکزی تخیل ہی یہ تھا کہ اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کےلیے خالص ہو جائے اور شرک اپنی ہر جلی اور خفی شکل میں ختم کردیا جائے ۔قرآن کےمطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف ،حضرت موسی، حضرت داؤد، اور نبی کریم ﷺ نے باقاعدہ اسلامی ریاست قائم بھی کی اور اسے معیاری شکل میں چلایا بھی۔اسلامی فکر میں دین اورسیاست کی دوری کاکوئی تصور نہیں پایا جاتا اور کا اسی کانتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کواسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہ جدوجہد ان کے دین وایمان کاتقاضا ہے۔قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں جس طرح اخلاق اور حسنِ کردار کی تعلیمات موجود ہیں۔اسی طرح معاشرت،تمدن اور سیاست کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب’’اسلامی ریاست‘‘مفکرِ اسلام مولا نا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کی تصنیف ہے ۔جس میں انھوں نے بیک وقت ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کی کما حقہ کوشش کی ہے ۔ ایک طرف انھوں نے اسلام کےپورے نظام حیات کودینی اور عقلی دلائل کےساتھ اسلام کی اصل تعلیمات کودورحاضر کی زبان میں پیش کیاہے ۔ ان کی تحریرات کےمطالعہ سے قاری کوزندگی کے بارے میں اسلام کے نقظہ نظر کا کلی علم حاصل ہوتا ہے اوروہ پوری تصویر کو بیک نظر دیکھ سکتا ہے۔انھوں نےہر مرعوبیت سے بالا تر ہوکر دورحاضرکے ہر فتنہ کا مقابلہ کیا اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اورفوقیت کوثابت کیا ہے۔پھر یہ بھی بتایا ہےکہ اس نظام کودور حاضر میں کیسے قائم کیا جاسکتا ہے اور آج کے اداروں کوکس طرح اسلام کے سانچوں میں ڈھالا جاسکتاہے ۔انھوں نے اسلامی ریاست کے ہمہ پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئےدور جدید کے تقاضوں کوسامنے رکھ کر اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پیش کیاہے ۔کتاب ہذا دراصل مولانامودودی کے منتشر رسائل ومضامین کامجموعہ ہے جسے پروفیسر خورشید احمد صاحب (مدیر ماہنامہ ترجمان القرآن)نے بڑے حسن ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف ومرتب کی اشاعتِ اسلام کےلیے کی جانے والی تمام کاوشوں کو قبول فرماے۔آمین

۱۔حاکمیت کس کی ہے؟

سب سے پہلے اس سوال کو لیجیے کہ اسلامی ریاست کا دستور ’’حاکمیت‘‘ کا مقام کس کو دیتا ہے؟
اس کا قطعی اور ناطق جواب قرآن سے ہمیں یہ ملتا ہے کہ حاکمیت ہر معنی میں اللہ تعالیٰ کی ہے، اس لیے کہ وہی فی الواقع حاکمِ حقیقی ہے اور اسی کا یہ حق ہے کہ اس کو حاکمِ اعلیٰ مانا جائے۔ اس مسئلے کو اگر کوئی شخص اچھی طرح سمجھنا چاہے تو میں اسے مشورہ دوں گا کہ پہلے وہ’حاکمیت‘ کے معنی اور تصور کو اچھی طرح ذہن نشین کرلے۔
حاکمیت کا مفہوم
علمِ سیاست کی اصطلاح میں یہ لفظ اقتدار اعلیٰ اور اقتدار مطلق کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ کسی شخص یا مجموعۂ اشخاص یا ادارے کے صاحب حاکمیت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا حکم قانون ہے۔ اسے افرادِ ریاست پر حکم چلانے کے غیر محدود اختیارات حاصل ہیں۔ افراد اس کی غیر مشروط اطاعت پر مجبور ہیں‘ خواہ بطوع و رغبت یا بکراہت۔ اس کے اختیارات حکمرانی کو اس کے اپنے ارادے کے سوا کوئی خارجی چیز محدود کرنے والی نہیں ہے۔ افراد کو اس کے مقابلے میں کوئی حق حاصل نہیں۔ جس کے جو کچھ بھی حقوق ہیں‘ اسی کے دیے ہوئے ہیں اوروہ جس حق کو بھی سلب کرے وہ آپ سے آپ معدوم ہو جاتا ہے۔ ایک قانونی حق پیدا ہی اس بنا پر ہوتا ہے کہ شارع (lawgiver)نے اس حق کو پیدا کیا ہے‘ اس لیے جب شارع نے اس کو سلب کر لیا تو سرے سے کوئی حق باقی ہی نہیں رہا کہ اس کا مطالبہ کیا جاسکے۔ قانون صاحب حاکمیت کے ارادے سے وجود میں آتا ہے اور افراد کو اطاعت کا پابند کرتا ہے‘ مگر خود صاحب حاکمیت کو پابند کرنے والا کوئی قانون نہیں ہے۔ وہ اپنی ذات میں قادر مطلق ہے۔ اس کے احکام کے بارے میں خیر اور شر‘ صحیح اور غلط کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ جو کچھ وہ کرے وہی خیر ہے‘ اس کے کسی تابع کو اسے شر قرار دے کر رد کر دینے کا حق نہیں ہے۔ جو کچھ وہ کرے وہ صحیح ہے‘ کوئی تابع اس کو غلط قرار نہیں دے سکتا۔ اس لیے ناگزیر ہے کہ اسے سُبُّوْحَ و قُدُّوْس اور مُنَزَّہْ عَنِ الْخَطَامانا جائے‘ قطع نظر اس سے کہ وہ ایسا ہو یا نہ ہو۔
یہ ہے قانونی حاکمیت (legal sovereignty)کا تصور جسے ایک قانون دان‘ فقیہ یا juristپیش کرتا ہے اور جس سے کم کسی چیز کا نام ’حاکمیت‘ نہیں ہے، مگر یہ حاکمیت اس وقت تک بالکل ایک مفروضہ رہتی ہے جب تک اس کی پشت پر کوئی واقعی حاکمیت یا علم سیاست کی اصطلاح میں سیاسی حاکمیت (political sovereignty)نہ ہو‘ یعنی عملاً اس اقتدار کی مالک جو اس قانونی حاکمیت کو مسلط کرے۔
حاکمیت فی الواقع کس کی ہے؟
اب پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسی کوئی حاکمیت فی الواقع انسانی دائرے میں موجود بھی ہے؟ اور ہے تو وہ کہاں ہے؟ کس کو اس حاکمیت کا حامل کہا جاسکتا ہے؟
کیا کسی شاہی نظام میں واقعی کوئی بادشاہ ایسی حاکمیت کا حامل ہے یا کبھی پایا گیا ہے، یا پایا جاسکتا ہے؟ آپ کسی بڑے سے بڑے مختار مطلق فرماں روا کو لے لیجیے،اس کے اقتدار کا آپ تجزیہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ اس کے اختیارات کو بہت سی خارجی چیزیں محدود کر رہی ہیں جو اس کے ارادے کی تابع نہیں ہیں۔
پھر کیا کسی جمہوری نظام میں کسی خاص جگہ انگلی رکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ یہاں واقعی حاکمیت موجود ہے؟ جس کو بھی آپ اس کا حامل قرار دیں گے‘ تجزیہ کرنے سے معلوم ہوگا کہ اس کے ظاہری اختیارِ مطلق کے پیچھے کچھ اور طاقتیں ہیں جن کے ہاتھ میں اس کی باگیں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ علم سیاست کے ماہرین جب حاکمیت کا واضح تصور لے کر انسانی سوسائٹی کے دائرے میں اس کا واقعی مصداق تلاش کرتے ہیں تو انھیں سخت پریشانی پیش آتی ہے۔ کوئی قامت ایسا نہیں ملتا جس پر یہ جامہ راست آتا ہو۔ اس لیے کہ انسانیت کے دائرے میں‘ بلکہ درحقیقت مخلوقات کے دائرے میں اس قامت کی کوئی ہستی سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ اسی حقیقت کو قرآن بار بار کہتا ہے کہ فی الواقع حاکمیت کا حامل صرف ایک خدا ہے۔ وہی مختار مطلق ہے (فَعَّالٌ لِّمَایُرِیْدُ)،۹۵؎ وہی غیر مسئول اور غیر جواب دہ ہے (لَایُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ)۹۶؎وہی تمام اقتدار کا مالک ہے (بِیَدِہٖ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْئٍ)،۹۷؎ وہی ایک ہستی ہے جس کے اختیارات کو محدود کرنے والی کوئی طاقت نہیں ہے (وَھُوَیُجِیْرُ وَلَا یُجَارَ عَلَیْہِ)۹۸؎ اور اسی کی ذات مُنَزّہ عَنِ الخطا ہے (اَلْمَلِکُ القُّدُوْسُ السَّلَامُ)۹۹؎
حاکمیت کس کا حق ہے؟
پھر دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حقیقت نفس الامری سے قطع نظر کرتے ہوئے، اگر کسی غیر اللہ کو یہ حاکمانہ حیثیت دے دی جائے تو کیا فی الواقع اس کا یہ حق ہے کہ اس کا حکم قانون ہو‘ اور اس کے مقابلے میں کسی کا کوئی حق نہ ہو، اور اس کی غیر مشروط اطاعت کی جائے اور اس کے حکم کے بارے میں خیر و شر یا صحیح و غلط کا سوال نہ اٹھایا جاسکے؟ یہ حق خواہ کسی شخص کو دیا جائے‘ یا کسی ادارے کو‘ یا باشندوں کی اکثریت کو‘ بہرحال یہ پوچھا جائے گا کہ اس کو آخر یہ حق کس بنیاد پر حاصل ہوا ہے؟ اور اس بات کی دلیل کیا ہے کہ اسے افراد پر اس طرح حاکم ہونے کا حق حاصل ہے؟
اس سوال کا زیادہ سے زیادہ اگر کوئی جواب دیا جاسکتا ہے تو وہ صرف یہ کہ لوگوں کی رضامندی اس حاکمیت کے برحق ہونے کی دلیل ہے؟ مگر کیا آپ یہ ماننے کے لیے تیار ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی رضامندی سے اپنے آپ کو کسی دوسرے شخص کے ہاتھ فروخت کردے تو اس خریدار کو اس شخص پر جائز حقِ مالکانہ حاصل ہو جاتا ہے؟ اگر یہ رضامندی اس ملکیت کو برحق نہیں بناتی تو آخر کسی غلط فہمی کی بنا پر محض جمہور کارضامند ہو جانا کسی حاکمیت کو برحق کیسے بنا سکتا ہے؟ قرآن اس گتھی کو بھی یہ کہہ کر سلجھا دیتا ہے کہ اللہ کی مخلوق پر کسی مخلوق کو بھی حکم چلانے کا حق نہیں ہے۔ یہ حق صرف اللہ کو حاصل ہے اور اس بنا پر حاصل ہے کہ وہی اپنی مخلوق کا خالق ہے: اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۔الاعراف54:7 خبردار خلق اسی کی ہے اور امر بھی اسی کے لیے ہے۔ یہ ایک ایسی معقول بات ہے جسے کم از کم وہ لوگ تو رد نہیں کرسکتے جو خدا کو خالق تسلیم کرتے ہیں۔
حاکمیت کس کی ہونی چاہیے؟
پھر تیسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگربالفرض حق اور باطل کی بحث کو نظر انداز کرکے حاکمیت کا یہ منصب کسی انسانی اقتدار کو دے بھی دیا جائے تو کیا اس میں انسانیت کی بھلائی ہے؟ انسان‘ خواہ وہ کوئی ایک شخص ہو‘ یا کوئی طبقہ‘ یا کسی قوم کا مجموعہ‘ بہرحال حاکمیت کی اتنی بڑی خوراک ہضم نہیں کرسکتا کہ اس کو افراد پر حکم چلانے کے غیر محدود اختیارات حاصل ہوں اور اس کے مقابلے میں کسی کا کوئی حق نہ ہو، اور اس کے فیصلے کو بے خطا مان لیا جائے۔ اس طرح کے اختیارات جب بھی کسی انسانی اقتدار کو حاصل ہوں گے‘ ظلم ضرور ہوگا۔ معاشرے کے اندر بھی ظلم ہوگا اور معاشرے کے باہر دوسرے ہمسایہ معاشروں پر بھی ظلم ہوگا۔ فساد اس بندوبست کی فطرت میں مضمر ہے اور جب کبھی انسانوں نے زندگی کا یہ ہنجار اختیار کیا ہے، فساد رونما ہوئے بغیر نہیں رہا ہے، اس لیے کہ جس کی فی الواقع حاکمیت نہیں ہے اور جس کو حاکمیت کا حق بھی حاصل نہیں ہے‘ اسے اگر مصنوعی طور پر حاکمیت کا مقام حاصل ہو جائے تو وہ اس منصب کے اختیارات کبھی صحیح طریقے سے استعمال نہیں کرسکتا۔ یہی بات ہے جسے قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا ہے کہ:
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ المائدہ 45:5
جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں وہی ظالم ہیں۔
اللہ کی قانونی حاکمیت
ان وجوہ سے اسلام میں یہ قطعی طور پر طے کر دیا گیا ہے کہ قانونی حاکمیت اسی کی مانی جائے جس کی واقعی حاکمیت ساری کائنات پر قائم ہے اور جسے انسانوں پر بھی حاکمیت کا، لاشریک حق حاصل ہے۔ اس بات کو قرآن میں اتنی بار بیان کیا گیا ہے کہ اس کا شمار مشکل ہے اور اتنے زور کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ اس سے زیادہ پر زور الفاظ کسی بات کو بیان کرنے کے لیے ہو نہیں سکتے۔ مثال کے طور پر ایک جگہ فرمایا:
اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۝۰ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ۝۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ یوسف40:12
حکم اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں‘ اس کا فرمان ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی و اطاعت نہ کرو‘ یہی صحیح طریقہ ہے۔
دوسری جگہ فرمایا:
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ۝۰ۭ الاعراف7:3
پیروی کرو اس قانون کی جو تمھاری طرف تمھارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اسے چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو۔
تیسری جگہ خدا کی اس قانونی حاکمیت سے انحراف کرنے کو صریح کفر سے تعبیر کیا گیا ہے:
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَ المائدہ44:5
اور جو اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں وہی کافر ہیں۔
اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی قانونی حاکمیت تسلیم کرنے ہی کا نام ایمان و اسلام ہے اور اس سے انکار قطعی کفر ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت
دنیا میں اللہ کی اس قانونی حاکمیت کے نمائندے انبیاء علیہم السلام ہیں۔ یعنی جس ذریعے سے ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے شارع (law giver)کا ہمارے لیے کیا حکم اور کیا قانون ہے، وہ ذریعہ انبیاء ہیں اور اسی بنا پر اسلام میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت ان کی بے چون و چرا اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن میں آپ دیکھیں گے کہ خدا کی طرف سے جو نبی بھی آیا ہے اس نے یہی اعلان کیا ہے کہ فَا تَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ۔۱۰۰؎ ’’پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو‘‘ اور قرآن اس بات کو بطور ایک قطعی اصول کے بیان کرتا ہے کہ:
۱۔ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۭ النساء64:4
ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے اذن سے اس کی اطاعت کی جائے۔
۲۔ مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ۝۰ۚ النساء80:4
جو رسولؐ کی اطاعت کرے اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی۔
حتیٰ کہ قرآن کسی ایسے شخص کو مسلمان ماننے سے انکار کرتا ہے جو اختلافی امور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری فیصلہ دینے والی اتھارٹی تسلیم نہ کرے:
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًاo النساء65:4
پس نہیں‘ تیرے رب کی قسم! وہ ہرگز مومن نہ ہوں گے جب تک کہ اپنے اختلاف میں تجھے فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں‘ پھر جو فیصلہ تو کرے اس پر اپنے دل میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں بلکہ سربسر تسلیم کر لیں۔
پھر وہ کہتا ہے:
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَى اللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَہُمُ الْخِـيَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ۝۰ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا oالاحزاب36:33
اور کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ اللہ اور رسولؐ جب کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو ان کے لیے پھر خود اپنے معاملے میں فیصلہ کرنے کا اختیار باقی رہ جائے اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ کھلی گمراہی میں پڑ گیا۔
اس کے بعد یہ شبہہ کرنے کی کوئی گنجایش ہی باقی نہیں رہتی کہ اسلام میں قانونی حاکمیت خالصتًا اور کلیتاً اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔
اللہ ہی کی سیاسی حاکمیت
اس اہم ترین دستوری مسئلے کا فیصلہ ہو جانے کے بعد یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ پھر سیاسی حاکمیت (political sovereignty)کس کی ہے؟ اس کا جواب لامحالہ یہی ہے اور یہی ہوسکتا ہے کہ وہ بھی اللہ کی ہے‘ کیونکہ انسانوں میں جو ایجنسی بھی سیاسی طاقت سے اللہ تعالیٰ کی قانونی حاکمیت کو نافذ (enforce)کرنے کے لیے قائم ہوگی اس کو کسی بھی طرح قانون اور سیاست کی اصطلاح میں صاحب حاکمیت (sovereign)نہیں کہا جاسکتا۔ ظاہر ہے کہ جو طاقت قانونی حاکمیت نہ رکھتی ہو، اور جس کے اختیارات کو پہلے ہی ایک بالاتر قانون نے محدود اور پابند کر دیا ہو جسے بدلنے کا اسے اختیار نہ ہو‘ وہ حاکمیت کی حامل تو نہیں ہوسکتی۔ اب اس کی صحیح پوزیشن کس لفظ سے ادا کی جائے؟ اس سوال کو قرآن ہی نے حل کر دیا ہے۔ وہ اسے لفظ خلافت سے تعبیر کرتا ہے۔ یعنی وہ بجائے خود حاکمِ اعلیٰ نہیں ہے، بلکہ حاکمِ اعلیٰ کی نائب ہے۔
جمہوری خلافت
اس نیابت کے لفظ سے آپ کا ذہن ظل اللہ اور پاپائیت اور بادشاہوں کے خدائی حقوق (divine rights of the king)کی طرف منتقل نہ ہو جائے۔ قرآن کا فیصلہ یہ ہے کہ اللہ کی نیابت کا یہ مقام کسی فرد واحد‘ یا کسی خاندان‘ یا کسی مخصوص طبقے کا حق نہیں ہے، بلکہ ان تمام لوگوں کا حق ہے جو اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کریں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے پہنچے ہوئے قانونِ الٰہی کو بالاتر قانون مان لیں:
وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ النور55:24
اللہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جنھوں نے تم میں سے ایمان قبول کیا اور عملِ صالح کیا کہ وہ ان کو زمین میں اپنا خلیفہ بنائے گا۔
یہ چیز اسلامی خلافت کو قیصریت اور پاپائیت اور مغربی تصور والی مذہبی ریاست (theocracy)کے برعکس ایک جمہوریت بنا دیتی ہے‘ اس فرق کے ساتھ کہ اہلِ مغرب جس چیز کو لفظ جمہوریت سے تعبیر کرتے ہیں اس میں جمہور کو حاکمیت کا حامل قرار دیا جاتا ہے‘ اور ہم مسلمان جسے جمہوریت کہتے ہیں اس میں جمہور صرف خلافت کے حامل ٹھیرائے جاتے ہیں۔ ریاست کے نظام کو چلانے کے لیے ان کی جمہوریت میں بھی عام رائے دہندوں کی رائے سے حکومت بنتی ہے اور بدلتی ہے اور ہماری جمہوریت بھی اسی کی متقاضی ہے، مگر فرق یہ ہے کہ ان کے تصور کے مطابق جمہوری ریاست مطلق العنان اور مختار مطلق ہے اور ہمارے تصور کے مطابق جمہوری خلافت، اللہ کے قانون کی پابند۔

شیئر کریں