اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۰ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ یوسف40:12
حکم نہیں ہے مگر صرف اللہ کے لیے، اس کا فرمان ہے کہ تم نہ بندگی کرو مگر صرف اس کی، یہی صحیح دین ہے۔
یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ فیصلہ کرنے کا اختیار اورفرماںروائی کا حق (بالفاظ دیگر ’حاکمیت‘) اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے۔یہاں کوئی لفظ یا قرینہ ایسا موجود نہیں ہے جس کی بنا پر اس حاکمیت کو محض ’کائناتی حاکمیت‘ (universal sovereignty)کے مفہوم میں مقید کردیا جائے۔ اللہ کی یہ حاکمیت جس طرح کائناتی ہے اسی طرح سیاسی و قانونی بھی ہے اور اخلاقی و اعتقادی بھی، اورخود قرآن مجید میں ان تمام اقسام کی حاکمیتوں کے اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہونے کی واضح دلیلیں موجود ہیں۔ چنانچہ قرآن تصریح کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف رَبُّ الناس اور اِلٰہ الناس ہی نہیں ہے، بلکہ مَلِکُ النَّاس بھی ہے:
٭ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِo مَلِكِ النَّاسِo اِلٰہِ النَّاسِo الناس114:3-1
کہو: اے محمدؐ: کہ میں پناہ مانگتا ہوں انسانوں کے رب‘ انسانوں کے بادشاہ اور انسانوں کے معبود کی۔
وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ملک کا مالک ہے اوربادشاہی میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے:
٭ قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ۰ۡ آل عمران26:3
کہو‘: خدایا! ملک کے مالک‘ تو جسے چاہے ملک دے اور جس سے چاہے چھین لے۔
٭ لَمْ يَكُنْ لَّہٗ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ بنی اسرائیل111:17
بادشاہی میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔
پھر وہ صاف صاف کہتا ہے کہ امر کا حق صرف اللہ کو ہے اس لیے کہ پیدا کرنے والا وہی ہے۔
اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۰ۭ الاعراف54:7
خبردار! خلق اسی کی ہے اور امر بھی اسی کا ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ محض کائناتی حاکمیت نہیں، بلکہ صریحًاسیاسی حاکمیت ہے اور اسی بنا پر قرآن قانونی حاکمیت کو بھی اللہ کے لیے مخصوص کرتا ہے:
۱۔ اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ۰ۭ الاعراف7:3
پیروی کرو اس چیز کی جو تمھارے رب کی طرف سے تمھاری طرف نازل کی گئی ہے اورنہ پیروی کرو اسے چھوڑ کر دوسرے کار سازوں کی۔
۲۔ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَo المائدہ5:44
اور جو لوگ فیصلہ نہ کریں اس قانون کے مطابق جو اللہ نے نازل کیا ہے وہی کافر ہیں۔
اللہ کی سیاسی اور قانونی حاکمیت کا یہ تصور اسلام کے اولین بنیادی اصولوں میں سے ہے اور شروع سے آج تک تمام فقہائے اسلام اس پر متفق ہیں کہ حکم دینے کا حق اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے۔ چنانچہ علامہ آمدیؒ اصول فقہ کی مشہور کتاب ’’الاحکام فی اصول الاحکام‘‘ میں لکھتے ہیں:
اِعْلَمْ اَنَّہ‘ لَا حَاکِمَ سِوَی اللّٰہِ وَلاَ حُکْمَ اِلاَّ مَا حَکَمَ بِہٖ۔
جان لو کہ حاکم اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے اور حکم بس وہ ہے جو اللہ نے دیا ہے۔
اور شیخ محمد خضری اپنی تصنیف ’’اصول الفقہ‘‘ میں اس کو جمیع اہل اسلام کا متفقہ عقیدہ قرار دیتے ہیں:
اِنَّ الْحُکْمَ ھُوَ خِطَابُ اللّٰہِ فَلاَ حُکْمَ اِلَّا لِلّٰہِ وَھٰذِہٖ قَضْیَۃٌ اِتَّفَقَ عَلَیْھَا الْمُسْلِمُوْنَ قَاطِبَۃً۔
درحقیقت’حکم‘ اللہ کے فرمان کو کہتے ہیں۔ پس حکم دینے کا حق اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے اور یہ ایک ایسی بات ہے جس پر تمام مسلمان متفق ہیں۔
پس کوئی اسلامی دستور اس کے بغیر نہیں بن سکتا کہ اس میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی سیاسی اور قانونی حاکمیت کا اقرار کیا جائے اور بالفاظ صریح یہ لکھا جائے کہ یہ ریاست اللہ کی مطیع ہے‘ اس کو حاکمِ اعلیٰ تسلیم کرتی ہے اور اس کے احکام کو واجب العمل مانتی ہے۔