سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ اسلام محض چند منتشر خیالات اور منتشر طریق ہائے عمل کا مجموعہ نہیں ہے جس میں اِدھر اُدھرسے مختلف چیزیں لاکر جمع کر دی گئی ہوں‘ بلکہ یہ ایک باضابطہ نظام ہے جس کی بنیاد چند مضبوط اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ اس کے بڑے بڑے ارکان سے لے کر چھوٹے چھوٹے جزئیات تک ہر چیز اس کے بنیادی اصولوں کے ساتھ ایک منطقی ربط رکھتی ہے۔ انسانی زندگی کے تمام مختلف شعبوں کے متعلق اس نے جتنے قاعدے اور ضابطے مقرر کیے ہیں ان سب کی روح اور ان کا جو ہر اس کے اصول اوّلیہ ہی سے ماخوذ ہے۔ ان اصول اوّلیہ سے پوری اسلامی زندگی اپنی مختلف شاخوں کے ساتھ بالکل اسی طرح نکلتی ہے جس طرح درخت میں آپ دیکھتے ہیں کہ بیج سے جڑیں‘ اور جڑوں سے تنا‘ اورتنے سے شاخیں اور شاخوں سے پتیاں پھوٹتی ہیں اور خوب پھیل جانے کے باوجود اس کی ایک ایک پتی اپنی جڑ کے ساتھ مربوط رہتی ہے۔ پس آپ اسلامی زندگی کے جس شعبے کوبھی سمجھنا چاہیں آپ کے لیے ناگزیر ہے کہ اس کی جڑ کی طرف رجوع کریں‘ کیونکہ اس کے بغیر آپ اس کی روح کو نہیں پاسکتے۔
انبیاء علیہم السلام کا مشن
اسلام کے متعلق دو باتیں قریب قریب ہر مسلمان کو معلوم ہیں:
ایک یہ کہ اسلام تمام انبیاء علیہم السلام کا مشن ہے۔ یہ صرف محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن ہی نہیں ہے، بلکہ انسانی تاریخ کے قدیم ترین دور سے جتنے انبیاء ؑ بھی اللہ کی طرف سے آئے ہیں، ان سب کا یہی مشن تھا۔
دوسری یہ کہ اللہ کی طرف سے جتنے انبیاء علیھم السلام بھی دنیا میں آئے ہیں ان کی آمد کا مقصدِ وحید خدائے واحد کی خدائی منوانا اور صرف اسی ایک کی عبادت کرانا تھا۔
جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ان کے لیے بظاہر یہ دونوں باتیں بالکل پیش پا اُفتادہ حقیقتیں ہیں۔ ہر مسلمان ان کو سن کر کہے گا کہ یہ معلوم و معروف باتیں ہیں جنھیں ایک دیہاتی مسلمان بھی جانتا ہے، لیکن میں چاہتا ہوں کہ اس اجمال کا پردہ اٹھا کر ذرا آپ گہرائی میں اتریں۔ سب کچھ اسی پردے کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ تجسس کی نگاہ ڈال کر اچھی طرح دیکھیے کہ ایک اللہ کی خدائی منوانے سے مقصد کیا تھا؟ صرف اسی کی عبادت کرانے کا مطلب کیا تھا؟ اور آخر اس میں ایسی کون سی بات تھی کہ جہاں کسی اللہ کے بندے نے مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ۲۶؎ کا اعلان کیا اور ساری طاغوتی طاقتیں جھاڑ کا کانٹا بن کر اس کو چمٹ گئیں؟ اگر بات صرف اتنی ہی تھی جتنی آج کل سمجھی جاتی ہے کہ مسجد میں خدائے واحد کے سامنے سجدہ کرلو اور پھر باہر نکل کر حکومت ِ وقت (جو بھی وقت کی حکومت ہو) کی غیر مشروط وفاداری اور اطاعت میں لگ جائو تو کس کا سر پھرا تھا کہ اتنی سی بات کے لیے خواہ مخواہ اپنی وفادار رعایا کی مذہبی آزادی میں مداخلت کرتا۔
آئیے! ہم تحقیق کرکے دیکھیں کہ اللہ کے بارے میں انبیاء علیہم السلام کا اور دنیا کی دوسری طاقتوں کا اصل جھگڑا کس بات پر تھا۔
قرآن میں ایک جگہ نہیں بکثرت مقامات پر یہ بات صاف کر دی گئی ہے کہ کفار و مشرکین‘ جن سے انبیاء کی لڑائی تھی، اللہ کی ہستی کے منکر نہ تھے۔ ان سب کو تسلیم تھا کہ اللہ ہے اور وہی زمین و آسمان کا خالق اور خود ان کفار و مشرکین کا خالق بھی ہے، کائنات کا سارا انتظام اسی کے اشارے سے ہو رہا ہے، وہی پانی برساتا ہے، وہی ہوائوں کو گردش دیتا ہے، اسی کے ہاتھ میں سورج اور چاند اور زمین سب کچھ ہیں:
قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِيْہَآ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo سَيَقُوْلُوْنَ لِلہِ۰ۭ قُلْ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَo قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِo سَيَقُوْلُوْنَ لِلہِ۰ۭ قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَo قُلْ مَنْۢ بِيَدِہٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّہُوَيُجِيْرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْہِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo سَيَقُوْلُوْنَ لِلہِ۰ۭ قُلْ فَاَنّٰى تُسْحَرُوْنَ o المومنون 84-89:23
ان سے پوچھو کہ زمین اور جو کچھ زمین میں ہے وہ کس کا ہے‘ بتائو اگر تم جانتے ہو؟ وہ کہیں گے: اللہ کا ہے۔ کہو: پھر تم غور نہیں کرتے؟ ان سے پوچھو: ساتوں آسمانوں کا رب اور عرشِ عظیم کا رب کون ہے؟ وہ کہیں گے: اللہ۔ کہو: پھر تم اس سے ڈرتے نہیں؟ ان سے پوچھو: وہ کون ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا اختیار ہے اور وہ سب کو پناہ دیتا ہے مگر کوئی اس کے مقابلے میں کسی کو پناہ نہیں دے سکتا؟ بتائو اگر تم جانتے ہو؟ وہ کہیں گے کہ اللہ۔ کہو: پھر تم کس دھوکے میں ڈال دیے گئے ہو؟
٭ وَ لَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ فَاَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ العنکبوت29:61
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے؟ اور کس نے سورج اور چاند کو تابع فرمان بنا رکھا ہے؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔ پھر آخر یہ کدھر بھٹکائے جارہے ہیں؟
٭ وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ مِنْ م بَعْدِ مَوْتِھَا لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ ط
العنکبوت29: 63
اور اگر تم ان سے یہ پوچھو کہ کس نے آسمان سے پانی اتارا اور کس نے مری ہوئی زمین کو روئیدگی بخشی؟ وہ ضرور کہیں گے اللہ نے۔
وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَھُمْ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ فَاَنّٰی یُؤْ فَکُوْنَ o الزخرف43:87
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ تم کو کس نے پیدا کیا ہے؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔ پھر آخر یہ کدھر بھٹکائے جارہے ہیں؟
ان آیات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ کے ہونے میں اور اس کے خالق ہونے اور مالک ارض و سما ہونے میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ لوگ ان باتوں کو خود ہی مانتے تھے۔ لہٰذا ظاہر ہے کہ انھی باتوں کو منوانے کے لیے تو انبیاء کے آنے کی ضرورت تھی ہی نہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ انبیاء علیھم السلام کی آمد کس لیے تھی اور جھگڑا کس چیز کا تھا؟
قرآن کہتا ہے کہ سارا جھگڑا اس بات پر تھا کہ انبیاء کہتے تھے‘ جو تمھارااور زمین و آسمان کا خالق ہے وہی تمھارارب اور الٰہ بھی ہے‘ اس کے سوا کسی کو الٰہ اور رب نہ مانو، مگر دنیا اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہ تھی۔
آئیے! ذرا پھر تجسس کریں کہ اس جھگڑے کی تہہ میں کیا ہے؟ الٰہ سے کیا مراد ہے؟ رب کسے کہتے ہیں؟ انبیاء کو کیوں اصرار تھا کہ صرف اللہ ہی کو الٰہ اور رب مانو؟ اور دنیا کیوں اس بات پر لڑنے کھڑی ہو جاتی تھی؟
الٰہ اور رب کا مفہوم
الٰہ کے معنی آپ سب جانتے ہیں کہ معبود کے ہیں، مگر معاف کیجیے گا معبود کے معنی آپ بھول گئے ہیں۔ معبود کا مادہ عبد ہے۔ عبد بندے اور غلام کو کہتے ہیں۔ عبادت کے معنی: محض پوجا کے نہیں ہیں‘ بلکہ بندہ اور غلام‘ جو زندگی غلامی اور بندگی کی حالت میں بسر کرتا ہے‘ وہ پوری کی پوری سراسر عبادت ہے۔ خدمت کے لیے کھڑا ہونا‘ احترام میں ہاتھ باندھنا، اعتراف بندگی میں سرجھکانا‘ جذبۂ وفاداری سے سرشار ہونا‘ فرماں برداری میں دوڑ دھوپ اور سعی وجہد کرنا‘ جس کام کا اشارہ ہو اُسے بجا لانا‘ جو کچھ آقا طلب کرے اسے پیش کر دینا‘ اس کی طاقت و جبروت کے آگے ذلت اور عاجزی اختیار کرنا‘ جو قانون وہ بنائے اس کی اطاعت کرنا‘ جس کے خلاف وہ حکم دے اُس پر چڑھ دوڑنا‘ جہاں اُس کا فرمان ہو سر تک کٹوا دینا۔ یہ عبادت کا اصل مفہوم ہے اور آدمی کا معبود حقیقت میں وہی ہے جس کی عبادت وہ اس طرح کرتا ہے۔
اور ’رب‘ کا مفہوم کیا ہے؟ عربی زبان میں رب کے اصلی معنی: پرورش کرنے والے کے ہیں، اور چونکہ دنیا میں پرورش کرنے والے ہی کی اطاعت و فرماں برداری کی جاتی ہے، لہٰذا رب کے معنی مالک اور آقا کے بھی ہوئے۔ چنانچہ عربی محاورے میں مال کے مالک کو رَبُّ المال اور صاحب خانہ کو رَبُّ الدَّار کہتے ہیں۔ آدمی جس کو اپنا رازق اور اپنا مربی سمجھے‘ جس سے نوازش اور سرفرازی کی امید رکھے‘ جس سے عزت اور ترقی اور امن کا متوقع ہو‘ جس کی نگاہِ لطف کے پھر جانے سے اپنی زندگی برباد ہو جانے کا خوف کرے‘ جس کو اپنا آقا اور مالک قرار دے اور جس کی فرماں برداری اور اطاعت کرے وہی اس کا رب۲۷؎ہے۔
ان دونوں لفظوں کے معنی پر نگاہ رکھیے اورپھر غور سے دیکھیے‘ انسان کے مقابلے میں یہ دعویٰ لے کر کون کھڑا ہوسکتا ہے کہ میں تیرا الٰہ ہوں اور میں تیرا رب ہوں‘ میری بندگی و عبادت کر؟ کیا درخت؟ پتھر؟ دریا؟ جانور؟ سورج؟ چاند؟ تارے؟ کسی میں بھی یہ یارا ہے کہ وہ انسان کے سامنے آکر یہ دعویٰ پیش کرسکے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ وہ صرف انسان ہی ہے جو انسان کے مقابلے میں خدائی کا دعویٰ لے کر اٹھتا ہے اور اٹھ سکتا ہے۔ خدائی کی ہوس انسان ہی کے سر میں سما سکتی ہے۔ انسان ہی کی حد سے بڑھی ہوئی خواہشِ اقتدار یا خواہشِ انتفاع اسے اس بات پر ابھارتی ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کا الٰہ بنے‘ ان سے اپنی بندگی کرائے‘ ان کے سر اپنے آگے جھکوائے‘ ان پر اپنا حکم چلائے‘ ان کو اپنی خواہشات کے حصول کا آلہ بنائے۔ یہ الٰہ بننے کی لذت ایسی ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی لذیذ چیز انسان آج تک دریافت نہیں کرسکا۔ جس کو کچھ طاقت یا دولت یا چالاکی یا ہوشیاری یا کسی نوع کا کچھ زور حاصل ہے وہ یہی چاہتا ہے کہ اپنے فطری اور جائز حدود سے آگے بڑھے‘ پھیل جائے اور آس پاس کے انسانوں پر‘ جو اس کے مقابلے میں ضعیف یا مفلس یا بیوقوف یا کسی حیثیت سے بھی کمزور ہوں‘ اپنی خدائی کا سکہ جما دے۔
اس قسم کی ہوسِ خداوندی رکھنے والے لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں اور دو مختلف راستے اختیار کرتے ہیں۔(الف) راست دعوے دار، (ب) بالواسطہ دعوے دار
(ا) راست دعوے دار
ایک قسم ان لوگوں کی ہے جن میں زیادہ جرأت ہوتی ہے، یا جن کے پاس خدائی کے ٹھاٹھ جمانے کے کافی ذرائع ہوتے ہیں۔ وہ براہ راست اپنی خدائی کا دعویٰ پیش کر دیتے ہیں۔ مثلاً: ایک وہ فرعون تھا جس نے اپنی بادشاہی اور اپنے لشکروں کے بل بوتے پر مصر کے باشندوں سے کہہ دیا کہ اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی النٰزعٰت79:24 میں تمھارا سب سے اونچا رب ہوں،اور مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْالقصص28:38میں نہیں جانتا کہ میرے سوا تمھارا اور بھی کوئی الٰہ ہے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کے سامنے اپنی قوم کی آزادی کا مطالبہ پیش کیا اور اس سے کہا کہ تو خود بھی الٰہ العالمین کی بندگی اختیار کر‘ تو اس نے کہا کہ میں تم کو جیل بھیج دینے کی قدرت رکھتا ہوں، لہٰذا تم مجھ کو الٰہ تسلیم کرو۔
لَئِنِ اتَّخَذْتَ اِلٰـھًا غَیْرِیْ لَاَجْعَلَنَّکَ مِنَ الْمَسْجُوْنِیْنَ الشعرائ26:29
اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں تمھیں قید کردوں گا‘‘۔
اسی طرح ایک وہ بادشاہ تھا جس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بحث ہوئی تھی۔ قرآن مجید میں اس کا ذکر جن الفاظ کے ساتھ آیا ہے، انھیں ذرا غور سے پڑھیے:
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرٰھٖمَ فِیْ رَبِّہٖٓ اَنْ اٰتٰہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ اِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ قَالَ اَنَا اُحْیٖ وَ اُمِیْتُ قَالَ اِبْرٰھٖمُ فَاِنَّ اللّٰہَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِھَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُھِتَ الَّذِیْ کَفَرَط البقرہ2: 258
تو نے نہیں دیکھا اُس شخص کو جس نے ابراہیم علیہ السلام سے بحث کی اس بارے میں کہ ابراہیم علیہ السلام کا رب کون ہے اور یہ بحث اس نے اس لیے کی کہ اللہ نے اس کو حکومت دے رکھی تھی۔ جب ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جس کے ہاتھ میں زندگی اور موت ہے تو اس نے جواب دیا کہ زندگی اور موت تو میرے ہاتھ میں ہے۔ ابراہیم علیہ السلام نے کہا: اچھا اللہ تو سورج کو مشرق کی طرف سے لاتا ہے‘ تو ذرا مغرب کی طرف سے نکال لا۔یہ سن کر وہ کافر ہکا بکا رہ گیا۔
غور کیجیے! وہ کافر ہکا بکا کیوں رہ گیا؟ اس لیے کہ وہ اللہ کے وجود کا منکر نہ تھا۔ وہ اس بات کا بھی قائل تھا کہ کائنات کا فرماں روا اللہ ہی ہے۔ سورج کو وہی نکالتا اور وہی غروب کرتا ہے۔ جھگڑا اس بات میں نہ تھا کہ کائنات کا مالک کون ہے، بلکہ اس بات میں تھا کہ انسانوں کا اور خصوصاً سرزمین عراق کے باشندوں کا مالک کون ہے۔ وہ اللہ ہونے کا دعویٰ نہیں رکھتا تھا، بلکہ اس بات کا دعویٰ رکھتا تھا کہ سلطنت عراق کے باشندوں کا رب میں ہوں اور یہ دعویٰ اس بنا پر تھا کہ حکومت اس کے ہاتھ میں تھی۔ لوگوں کی جانوں پر وہ قابض و متصرف تھا۔ اپنے آپ میں یہ قدرت پاتا تھا کہ جسے چاہے پھانسی پر لٹکا دے‘ اور جس کی چاہے جان بخشی کر دے۔ یہ سمجھتا تھا کہ میری زبان قانون ہے اور میرا حکم ساری رعایا پر چلتا ہے، اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اس کا مطالبہ یہ تھا کہ تم مجھے رب تسلیم کرو‘ میری بندگی اور عبادت کرو، مگر جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ میں تو اسی کو رب مانوں گا اور اسی کی بندگی و عبادت کروں گا جو زمین و آسمان کا رب ہے اور جس کی عبادت یہ سورج کر رہا ہے تو وہ حیران رہ گیا اور اس لیے حیران رہ گیا کہ ایسے شخص کو کیوں کر قابو میں لائوں۔۲۸؎
یہ خدائی جس کا دعویٰ فرعون اور نمرود نے کیا تھا‘ کچھ انھی دو آدمیوں تک محدود نہ تھی۔ دنیا میں ہر جگہ فرماں روائوں کا یہی دعویٰ تھا اور یہی دعویٰ ہے۔ ایران میں بادشاہ کے لیے خدا اور خداوند کے الفاظ مستعمل تھے اور ان کے سامنے پور ے مراسم عبودیت بجا لائے جاتے تھے۔ حالانکہ کوئی ایرانی ان کو خدائے خدائیگاں (یعنی اللہ) نہیں سمجھتا تھا اور نہ وہ خود اس کے مدعی تھے، اسی طرح ہندستان میں فرماںروا خاندان اپنا نسب دیوتائوں سے ملاتے تھے ____ چنانچہ سورج بنسی اور چندر بنسی آج تک مشہور ہیں ____ راجہ کو اَن داتا یعنی رازق کہا جاتا تھا اور اس کے سامنے سجدے کیے جاتے تھے، حالانکہ پر میشور اور پرماتما ہونے کا دعویٰ نہ کسی راجہ کو تھا اور نہ پرجا ہی ایسا سمجھتی تھی۔ ایسا ہی حال دنیا کے دوسرے ممالک کا بھی تھا اور آج بھی ہے۔ بعض جگہ فرماںروائوں کے لیے الٰہ اور رب کے ہم معنی الفاظ اب بھی صریحًابولے جاتے ہیں، مگر جہاں یہ نہیں بولے جاتے وہاں اسپرٹ وہی ہے جو ان الفاظ کے مفہوم میں پوشیدہ ہے۔ اس نوع کے دعوائے خداوندی کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ آدمی صاف الفاظ میں الٰہ اور رب ہونے ہی کا دعویٰ کرے، نہیں‘ وہ سب لوگ جو انسانوں پر اس اقتدار‘ اس فرماںروائی و حکمرانی‘ اس آقائی و خداوندی کو قائم کرتے ہیں جیسے فرعون اور نمرود نے قائم کیا تھا‘ دراصل وہ الٰہ اور رب کے معنی و مفہوم کا دعویٰ کرتے ہیں‘ چاہے الفاظ کا دعویٰ نہ کریں اور وہ سب لوگ جو ان کی اطاعت و بندگی کرتے ہیں وہ بہرحال ان کے الٰہ و رب ہونے کو تسلیم کرتے ہیں‘ چاہے زبان سے یہ الفاظ نہ کہیں۔
(ب) بالواسطہ دعوے دار
غرض ایک قسم تو انسانوں کی وہ ہے جو براہ راست اپنی الہٰیت اور ربوبیت کا دعویٰ کرتی ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جس کے پاس اتنی طاقت نہیں ہوتی‘ اتنے ذرائع نہیں ہوتے کہ خود ایسا دعویٰ لے کر اٹھیں اور اسے منوالیں‘ البتہ چالاکی اور فریب کاری کے ہتھیار ہوتے ہیں جن سے وہ عام انسانوں کے دل و دماغ پر جادو کرسکتے ہیں۔ سو ان ذرائع سے کام لے کر وہ کسی روح‘ کسی دیوتا‘ کسی بت‘ کسی قبر‘ کسی سیارے یا کسی درخت کو الٰہ بنا دیتے ہیں اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ تمھیں نفع اور ضرر پہنچانے پر قادر ہیں۔ یہ تمھاری حاجت روائی کرسکتے ہیں۔ یہ تمھارے ولی اور محافظ اور مدد گار ہیں۔ ان کو خوش نہ کرو گے تو یہ تمھیں قحط اور بیماریوں اور مصیبتوں میں مبتلا کر دیں گے۔ انھیں خوش کرکے حاجتیں طلب کرو گے تو یہ تمھاری مدد کو پہنچیں گے‘ مگر انھیں خوش کرنے اور ان کو تمھارے حال پر متوجہ کرنے کے طریقے ہم کو معلوم ہیں۔ ان تک پہنچنے کا ذریعہ ہم ہی بن سکتے ہیں، لہٰذا ہماری بزرگی تسلیم کرو‘ ہمیں خوش کرو اور ہمارے ہاتھ میں اپنی جان‘ مال‘ آبرو سب کچھ دے دو۔ بہت سے بیوقوف انسان اس جال میں پھنس جاتے ہیں اور یوں جھوٹے خدائوں کی آڑ میں ان پروہتوں اور پجاریوں اور مجاوروں کی خداوندی قائم ہوتی ہے۔
اسی نوع میں کچھ دوسرے لوگ ہیں جو کہانت اور نجوم اور فال گیری اور تعویذ گنڈوں اور منتروں کے وسیلے اختیار کرتے ہیں۔ کچھ اور لوگ ہیں جو اللہ کی بندگی کا اقرار تو کرتے ہیں‘ مگر کہتے ہیں کہ تم براہ راست اللہ تک نہیں پہنچ سکتے‘ اس کی بارگاہ تک پہنچنے کا ذریعہ ہم ہیں۔ عبادت کے مراسم ہمارے ہی واسطے سے ادا ہوں گے اور تمھاری پیدائش سے لے کر موت تک ہر مذہبی رسم ہمارے ہاتھوں سے انجام پائے گی۔ کچھ دوسرے لوگ ہیں جو اللہ کی کتاب کے حامل بن جاتے ہیں‘ عام لوگوں کو اس کے علم سے محروم کر دیتے ہیں اور خود اپنے زعم میں خدا کی زبان بن کر حلال و حرام کے احکام دینے شروع کر دیتے ہیں۔ یوں ان کی زبان قانون بن جاتی ہے اور وہ انسانوں کو خدا کے بجائے خود اپنے حکم کا تابع بنا لیتے ہیں۔ یہی اصل ہے اس برہمنیت اور پایائیت کی جو مختلف ناموں اور مختلف صورتوں سے قدیم ترین زمانے سے آج تک دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیلی ہوئی ہے اور جس کی بدولت بعض خاندانوں‘ نسلوں یا طبقوں نے عام انسانوں پر اپنی سیادت کا سکہ جما رکھا ہے۔
فتنے کی جڑ
اس نظر سے جب آپ دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ دنیا میں فتنے کی اصل جڑ اور فساد کا اصلی سرچشمہ انسان پر انسان کی خدائی ہے‘ خواہ وہ بالواسطہ ہو یا بلا واسطہ۔ اسی سے خرابی کی ابتدا ہوئی اور اسی سے آج بھی بِس کے زہریلے چشمے پھوٹ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو خیر انسان کی فطرت کے سارے راز ہی جانتا ہے‘ مگر اب تو ہزارہا برس کے تجربے سے خود ہم پر بھی یہ حقیقت پوری طرح منکشف ہو چکی ہے کہ انسان کسی نہ کسی کو الٰہ اور رب مانے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔ گویا کہ اس کی زندگی محال ہے اگر کوئی اس کا الٰہ اور رب نہ ہو۔ اگر اللہ کو نہ مانے گا تب بھی اسے الٰہ اور رب سے چھٹکارا نہیں ہے، بلکہ اس صورت میں بہت سے الٰہ اور ارباب اس کی گردن پر مسلط ہو جائیں گے۔ آج بھی آپ جدھر نگاہ ڈالیں گے یہی نظر آئے گا کہ کہیں ایک قوم دوسری قوم کی الٰہ ہے، کہیں ایک طبقہ دوسرے طبقوں کا الٰہ ہے، کہیں ایک پارٹی نے الہٰیت و ربوبیت کے مقام پر قبضہ کر رکھا ہے، کہیں قومی ریاست خدائی کے مقام پر براجمان ہے اور کہیں کوئی ڈکٹیٹر مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِی القصص28:38کی منادی کر رہا ہے۔ انسان کسی ایک جگہ بھی الٰہ کے بغیر نہ رہا۔
پھر انسان پر انسان کی خدائی قائم ہونے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ وہی جو ایک کم ظرف آدمی کو پولیس کمشنر بنا دینے، یا ایک جاہل کو وزیراعظم بنا دینے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اول تو خدائی کا نشہ ہی کچھ ایسا ہے کہ آدمی اس شراب کو پی کر کبھی اپنے قابو میں رہ نہیں سکتا اور بالفرض اگر وہ قابو میں رہ بھی جائے تو خدائی کے فرائض انجام دینے کے لیے جس علم کی ضرورت ہے اور جس بے لوثی و بے غرضی اور بے نیازی کی حاجت ہے وہ انسان کہاں سے لائے گا؟ یہی وجہ ہے کہ جہاں جہاں انسانوں پر انسانوں کی الہٰیت و ربوبیت قائم ہوئی وہاں ظلم‘ طغیان‘ ناجائز انتفاع‘ بے اعتدالی اور ناہمواری نے کسی نہ کسی صورت سے راہ پا ہی لی۔ انسانی روح اپنی فطری آزادی سے محروم ہو کر ہی رہی۔ انسان کے دل و دماغ پر‘ اس کی پیدائشی قوتوں اور صلاحیتوں پر ایسی بندشیں عائد ہو کر ہی رہیں‘ جنھوں نے انسانی شخصیت کے نشو و ارتقا کو روک دیا۔ کس قدر سچ فرمایا اُس صادق و مصدوق علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ و السلام نے:
قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اِنِّیْ خَلَقْتُ عِبَادِیْ حُنَفَائَ کُلَّھُمْ وَاِنَّھُمْ اَتَتْھُمُ الشَّیَاطِیْنُ فَاجْتَالَتْھُمْ عَنْ دِیْنھِمِ وَ حَرَّمَتْ عَلَیْھِمْ مَا اَحْلَلْتُ لَھُمْ۔ (مسلم)
اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ میں نے اپنے بندوں کو صحیح فطرت پر پیدا کیا تھا، پھر شیطانوں نے ان کو آن گھیرا‘ انھیں فطرت کی راہ راست سے بھٹکا لے گئے اور جو کچھ میں نے ان کے لیے حلال کیا تھا اُن شیطانوں نے ان کو اس سے محروم کرکے رکھ دیا۔
یہی وہ چیز ہے جو انسان کے سارے مصائب‘ اس کی ساری تباہیوں‘ اس کی تمام محرومیوں کی اصل جڑ ہے، یہی اس کی ترقی میں اصل رکاوٹ ہے، یہی وہ روگ ہے جو اس کے اخلاق اور اس کی روحانیت کو‘ اس کی علمی و فکری قوتوں کو‘ اس کے تمدن اور اس کی معاشرت کو‘ اس کی سیاست اور اس کی معیشت کو اور قصہ مختصر اس کی انسانیت کو تپ دق کی طرح کھا گیا ہے۔ قدیم ترین زمانے سے کھا رہا ہے اور آج تک کھائے چلا جاتا ہے۔ اس روگ کا علاج بجز اس کے کچھ ہے ہی نہیں کہ انسان سارے ارباب اور تمام الہٰوں کا انکار کرکے صرف اللہ کو اپنا الٰہ اور صرف رب العالمین کو اپنا رب قرار دے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ اس کی نجات کے لیے نہیں ہے کیونکہ ملحد اور دہریہ بن کر بھی تو وہ الہٰوں اور ارباب سے چھٹکارا نہیں پاسکتا۔
انبیاء علیہم السلام کا اصل اصلاحی کام
یہی وہ بنیادی اصلاح تھی جو انبیاء علیہم السلام نے انسانی زندگی میں کی۔ وہ دراصل انسان پر انسان کی خدائی تھی جس کو مٹانے کے لیے یہ لوگ آئے۔ ان کا اصلی مشن یہ تھا کہ انسان کو اس ظلم سے‘ ان جھوٹے خدائوں کی بندگی سے‘ اس طغیان اور ناجائز انتفاع سے نجات دلائیں۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ جو انسان انسانیت کی حد سے آگے بڑھ گئے ہیں انھیں دھکیل کر پھر اس حد میں واپس پہنچائیں۔ جو اس حد سے نیچے گرا دیے گئے ہیں انھیں ابھار کر اس حد تک اٹھا لائیں اور سب کو ایک ایسے عادلانہ نظام زندگی کا پابند بنا دیں جس میں کوئی انسان نہ کسی دوسرے انسان کا عبد ہو نہ معبود‘ بلکہ سب ایک اللہ کے بندے بن جائیں۔ ابتدا سے جتنے نبی دنیا میں آئے ان سب کا ایک ہی پیام تھا اور وہ یہ تھا:
یٰـقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ۔ المومنون23:23
لوگو! اللہ کی بندگی کرو‘ اس کے سوا کوئی تمھارا الٰہ نہیں ہے۔
یہی حضرت نوح ؑ نے کہا، یہی حضرت ہود علیہ السلام نے کہا۔ یہی حضرت صالح ؑ نے کہا۔ یہی حضرت شعیب علیہ السلام نے کہااور اسی کا اعلان محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے:
۱۔ اِنَّمَآ اَنَا مُنْذِرٌ وَّمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّا اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ o رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا۔
ص38: 66
میں بس ایک متنبہ کرنے والا ہوں۔ کوئی الٰہ نہیں ہے بجز اس ایک اللہ کے، جو سب پر غالب ہے‘ جو رب ہے آسمانوں اور زمین کا اور ہر اس چیز کا جو آسمان و زمین کے درمیان ہے۔
۲۔ اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ …… وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍم بِاَمْرِہٖ اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ ۔ الاعراف7:54
یقیناً تمھارا رب وہی اللہ ہے جس نے پیدا کیا ہے آسمانوں اور زمین کو …… اور سورج اور چاند اور تاروں کو۔ سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔ خبردار! خلق بھی اسی کی ہے اور حکومت بھی اسی کی۔
۳۔ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ فَاعْبُدُوْہُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ وَّکِیْلٌ۔
الانعام6: 102
وہی ایک اللہ تمھارا رب ہے‘ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے‘ ہر چیز کا خالق‘ لہٰذا تم اسی کی بندگی کرو اور وہ ہر چیز پر نگہبان ہے۔
۴۔ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآئَ ۔ البینۃ98:5
لوگو ں کو کوئی حکم نہیں دیا گیا بجز اس کے کہ اللہ کی بندگی کریں‘ اپنے دین کو اسی کے لیے خالص کرکے‘ یک سو ہو کر۔
۵۔ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ۔ آل عمران3:64
آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے، یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی ہم بندگی نہ کریں اور خدائی میں کسی کو اس کا شریک نہ قرار دیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے سوا اپنا رب نہ بنائے۔
یہی وہ منادی تھی جس نے انسان کی روح اور اس کی عقل و فکر اور اس کی ذہنی و مادی قوتوں کو غلامی کی ان بندشوں سے رہا کر دیا جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ یہ انسان کے لیے حقیقی آزادی کا چارٹر تھا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کارنامے کے متعلق قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ:
وَ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ۔ الاعراف7:157
یعنی یہ نبی ان پر سے وہ بوجھ اتار تا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور ان بندھنوں کو کاٹتا ہے جن میں وہ کسے ہوئے تھے۔