Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ
باب اول:
دین و سیاست
۱۔مذہب کا اسلامی تصور
۲۔ اسلامی ریاست کیوں؟
۳۔ اسلام اور اقتدار
۴۔ دین و سیاست کی تفریق کا باطل نظریہ اورقصۂ یوسف ؑ سے غلط استدلال
۵۔ تفریق دین و سیاست کا دفاع اور اس کا جائزہ
باب ٢
اسلام کا سیاسی نظریہ
۱۔بنیادی مُقدّمات
۲۔ نظریۂ سیاسی کے اوّلین اصول
۳۔ اسلامی ریاست کی نوعیت
۴۔ اسلامی ریاست کی خصوصیات
۵۔ نظریۂ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
باب۳ قرآن کا فلسفہ ٔ سیاست
۱۔علم سیاست کے بنیادی سوال
۲۔ چند بنیادی حقیقتیں
۳۔اسلامی تصورِ حیات
۴۔ دین اور قانونِ حق
۵۔حکومت کی ضرورت اور اہمیت
۶۔ تصور حاکمیت و خلافت
۷۔ اصول اطاعت ووفاداری
باب ۴
معنی ٔ خلافت
باب ۵
۱۔اسلامی تصور قومیت
۲۔ اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
باب۶
اسلام کے دستوری قانون کے مآخذ
ا۔قرآن مجید
۲۔ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۸۴؎
۳۔خلافتِ راشدہ کا تعامل
۴۔ مجتہدینِ امت کے فیصلے
ضمیمہ باب ۶: سنت ِرسولؐ اللہ بحیثیت ِ مآ خذ ِقانون
باب۷
اسلامی ریاست کی بنیادیں
۱۔حاکمیت کس کی ہے؟
۲۔ ریاست کے حدودِ عمل
۳۔ اعضائے ریاست کے حدودِ عمل اور ان کا باہمی تعلق
۴۔ ریاست کا مقصدِ وجود
۵۔حکومت کی تشکیل کیسے ہو؟
۶۔اولی الامر کے اوصاف
۷۔ شہریت اور اس کی بنیادیں
۸۔ حقوقِ شہریت
۹۔شہریوں پر حکومت کے حقوق
باب ۸
اسلامی دستور کی بنیادیں
۱۔حاکمیت الٰہی
۲۔ مقامِ رسالت
۳۔ تصورِ خلافت
۴۔ اصولِ مشاورت
۵۔اصولِ انتخاب
۶۔عورتوں کے مناصب
۷۔ حکومت کا مقصد
۸۔ اولی الامر اور اصولِ اطاعت
۹۔ بنیادی حقوق اور اجتماعی عدل
۱۰۔فلاحِ عامہ
باب ۹
۱۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ خلافتِ راشدہ
باب ۱۰
۱۔ اسلام میں قانون سازی کا دائرۂ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
۲۔قانون سازی‘ شوریٰ اور اجماع
۳۔نظام اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
باب۱۱
۱۔ اسلامی ریاست کے چند پہلو
۲۔خلافت و حاکمیت۲۰۳؎
۳۔ ملکی سیاست میں عورتوں کا حصہ
۴۔ذمیوں کے حقوق۲۱۱؎
(۵) ذمیوں کے حقوق۲۱۶؎
۶۔چند متفرق مسائل
باب ۱۲
انسان کے بنیادی حقوق
باب۱۳
غیر مسلموں کے حقوق
باب۱۴
اسلام اور عدلِ اجتماعی
باب ۱۵
اسلامی ریاست کے رہنما اُصول
باب۱۶
۱۔اسلامی انقلاب کی راہ
ضمیمہ نمبر ۱
ضمیمہ نمبر ۲

اسلامی ریاست

اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اُصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔ اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔انبیاء کرامؑ وقت کی اجتماعی قوت کواسلام کےتابع کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی دعوت کا مرکزی تخیل ہی یہ تھا کہ اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کےلیے خالص ہو جائے اور شرک اپنی ہر جلی اور خفی شکل میں ختم کردیا جائے ۔قرآن کےمطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف ،حضرت موسی، حضرت داؤد، اور نبی کریم ﷺ نے باقاعدہ اسلامی ریاست قائم بھی کی اور اسے معیاری شکل میں چلایا بھی۔اسلامی فکر میں دین اورسیاست کی دوری کاکوئی تصور نہیں پایا جاتا اور کا اسی کانتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کواسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہ جدوجہد ان کے دین وایمان کاتقاضا ہے۔قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں جس طرح اخلاق اور حسنِ کردار کی تعلیمات موجود ہیں۔اسی طرح معاشرت،تمدن اور سیاست کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب’’اسلامی ریاست‘‘مفکرِ اسلام مولا نا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کی تصنیف ہے ۔جس میں انھوں نے بیک وقت ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کی کما حقہ کوشش کی ہے ۔ ایک طرف انھوں نے اسلام کےپورے نظام حیات کودینی اور عقلی دلائل کےساتھ اسلام کی اصل تعلیمات کودورحاضر کی زبان میں پیش کیاہے ۔ ان کی تحریرات کےمطالعہ سے قاری کوزندگی کے بارے میں اسلام کے نقظہ نظر کا کلی علم حاصل ہوتا ہے اوروہ پوری تصویر کو بیک نظر دیکھ سکتا ہے۔انھوں نےہر مرعوبیت سے بالا تر ہوکر دورحاضرکے ہر فتنہ کا مقابلہ کیا اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اورفوقیت کوثابت کیا ہے۔پھر یہ بھی بتایا ہےکہ اس نظام کودور حاضر میں کیسے قائم کیا جاسکتا ہے اور آج کے اداروں کوکس طرح اسلام کے سانچوں میں ڈھالا جاسکتاہے ۔انھوں نے اسلامی ریاست کے ہمہ پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئےدور جدید کے تقاضوں کوسامنے رکھ کر اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پیش کیاہے ۔کتاب ہذا دراصل مولانامودودی کے منتشر رسائل ومضامین کامجموعہ ہے جسے پروفیسر خورشید احمد صاحب (مدیر ماہنامہ ترجمان القرآن)نے بڑے حسن ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف ومرتب کی اشاعتِ اسلام کےلیے کی جانے والی تمام کاوشوں کو قبول فرماے۔آمین

۱۔اسلامی انقلاب کی راہ

اس مقالےمیں مجھے آپ کے سامنے اس عمل (process)کی تشریح کرنی ہے جس سے ایک طبعی نتیجے کے طور پر اسلامی حکومت وجود میں آتی ہے۔
اہلِ علم کے اس مجمع میں مجھے اس حقیقت کی توضیح پر زیادہ وقت صرف کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ حکومت خواہ کسی نوعیت کی ہو، مصنوعی طریقے سے نہیں بنا کرتی۔ وہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ کہیں وہ بن کر تیار ہو، اور پھر ادھر سے لاکر اس کو کسی جگہ جما دیا جائے۔ اس کی پیدائش تو ایک سوسائٹی کے اخلاقی‘ نفسیاتی‘ تمدنی اور تاریخی اسباب کے تعامل سے طبعی طور پر ہوتی ہے۔ اس کے لیے کچھ ابتدائی لوازم (pre-requisites)،کچھ اجتماعی محرکات‘ کچھ فطری مقتضیات ہوتے ہیں جن کے فراہم ہونے اور زور کرنے سے وہ وجود میں آتی ہے۔ جس طرح منطق میں آپ دیکھتے ہیں کہ نتیجہ ہمیشہ مقدمات (premises)کی ترتیب ہی سے برآمد ہوتا ہے۔ جس طرح علم الکیمیا میں آپ دیکھتے ہیں کہ ایک کیمیائی مرکب ہمیشہ کیمیاوی کشش رکھنے والے اجزا کے مخصوص طریقے پر ملنے ہی سے برآمد ہوا کرتا ہے‘ اسی طرح اجتماعیات میں بھی یہ حقیقت ناقابلِ انکار ہے کہ ایک حکومت صرف ان حالات کے اقتضا کا نتیجہ ہوتی ہے جو کسی سوسائٹی میں بہم پہنچ گئے ہوں۔ پھر حکومت کی نوعیت کا تعین بھی بالکلیہ ان حالات کی کیفیت پر منحصر ہوتا ہے جو اس کی پیدائش کے مقتضی ہوتے ہیں۔ جس طرح یہ ممکن نہیں ہے کہ مقدمات کسی نوعیت کے ہوں اور ان کی ترتیب سے نتیجہ کچھ اور نکل آئے‘ کیمیاوی اجزا کسی خاصیت کے ہوں اور ان کو ملانے سے مرکب کسی اور قسم کا بن جائے‘ درخت لیموں کا لگایا جائے اور نشوونما پاکر وہ پھل آم دینے لگے‘ اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ اسباب ایک خاص نوعیت کی حکومت کے فراہم ہوں‘ ان کے مل کر کام کرنے کا ڈھنگ بھی اسی نوعیت کی حکومت کے نشوونما کے لیے مناسب ہو‘ مگر ارتقائی مراحل سے گزر کر جب وہ تکمیل کے قریب پہنچے تو انھی اسباب اور اسی عمل کے نتیجے میں بالکل ایک دوسری ہی حکومت بن جائے۔
یہ گمان نہ کیجیے کہ میں یہاں جبریت (determinism)کو دخل دے رہا ہوں اور انسانی ارادے و اختیار کی نفی کر رہا ہوں۔ بلاشبہہ حکومت کی نوعیت متعین کرنے میں افراد اور جماعتوں کے ارادہ و عمل کا بہت بڑا حصہ ہے، مگر میں دراصل یہ ثابت کر رہا ہوں کہ جس نوعیت کا بھی نظام حکومت پیدا کرنا مقصود ہو، اسی کے مزاج اور اسی کی فطرت کے مناسب اسباب فراہم کرنا اور اسی کی طرف لے جانے والا طرز عمل اختیار کرنا بہرحال ناگزیر ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ویسی ہی تحریک اٹھے‘ اسی قسم کے انفرادی کیرکٹر تیار ہوں‘ اسی طرح کا اجتماعی اخلاق بنے‘ اسی طرز کے کارکن تربیت کیے جائیں‘ اسی ڈھنگ کی لیڈر شپ ہو‘ اور اسی کیفیت کا اجتماعی عمل ہو جس کا اقتضا اس خاص نظام حکومت کی نوعیت فطرۃً کرتی ہے جسے ہم بنانا چاہتے ہیں۔ یہ سارے اسباب و عوامل جب بہم ہوتے ہیں اور جب ایک طویل مدت تک جدوجہد سے ان کے اندر اتنی طاقت پیدا ہو جاتی ہے کہ ان کی تیار کی ہوئی سوسائٹی میں کسی دوسری نوعیت کے نظام حکومت کا جینا دشوار ہو جاتا ہے تب ایک طبعی نتیجے کے طور پر وہ خاص نظامِ حکومت ابھر آتا ہے جس کے لیے ان طاقت وَر اسباب نے جدوجہد کی ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کہ ایک بیج سے جب درخت پیدا ہوتا ہے‘ اور اپنے زور میں بڑھتا چلا جاتا ہے تو نشوونما کی ایک خاص حد پر پہنچ کر اس میں وہی پھل آنے شروع ہو جاتے ہیں جن کے لیے اس کی فطری ساخت زور کر رہی تھی۔ اس حقیقت پر جب آپ غور کریں گے تو آپ کو یہ تسلیم کرنے میں ذرا تامل نہ ہوگا کہ جہاں تحریک، لیڈر شپ‘ انفرادی سیرت‘ جماعتی اخلاق‘ اور حکمت عملی‘ ہر ایک چیز ایک نوعیت کا نظامِ زندگی پیدا کرنے کے لیے مناسب و موزوں ہو، اور امید یہ کی جائے کہ ان کے نتیجے میں بالکل ہی ایک دوسری نوعیت کا نظام پیدا ہوگا، وہاں بے شعوری‘ خام خیالی‘ اور خام کاری کے سوا اور کوئی چیز کام نہیں کررہی ہے۔
اسلامی حکومت کی خصوصیات
اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ حکومت جس کو ہم اسلامی حکومت کہتے ہیں اس کی نوعیت کیا ہے؟ اس سلسلے میں سب سے پہلی خصوصیت جو اسلامی حکومت کو تمام دوسری حکومتوں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ خالص قوم پرستی کا عنصر اس میں قطعی ناپید ہے۔ وہ ایک اصولی حکومت ہے۔ انگریزی میں اس کو ideological stateکہوں گا۔ یہ ’اصولی حکومت‘ وہ چیز ہے جس سے دنیا ہمیشہ ناآشنا رہی ہے۔ قدیم زمانے میں لوگ صرف خاندانوں یا طبقوں کی حکومت سے واقف تھے۔ بعد میں نسلی اور قومی حکومتوں سے واقف ہوئے۔ محض ایک اصولی حکومت اس بنیاد پر کہ جو اس اصول کو قبول کرے وہ بلا لحاظ قومیت اسٹیٹ کے چلانے میں حصے دار ہوگا‘ دنیا کے تنگ ذہن میں کبھی نہ سما سکی۔ عیسائیت نے اس تخیل کا ایک بہت ہی دھندلا سا نقش پایا، مگر اس کو وہ مکمل نظامِ فکر نہ مل سکا جس کی بنیاد پر کوئی ریاست تعمیر ہوتی۔ انقلاب فرانس میں اصولی حکومت کے تخیل کی ایک ذرا سی جھلک انسان کی نظر کے سامنے آئی، مگر نیشنلزم کی تاریکی میں گم ہوگئی۔ اشتراکیت نے اس تخیل کا خاصا چرچا کیا‘ حتی کہ ایک حکومت بھی اس کی بنیاد پر تعمیر کرنے کی کوشش کی اور اس کی وجہ سے دنیا کی سمجھ میں یہ تخیل کچھ کچھ آنے لگا تھا‘ مگر اس کی رگ و پے میں بھی آخر کارنیشنلزم گھس گیا۔ ابتدا سے آج تک تمام دنیا میں صرف اسلام ہی وہ مسلک ہے جو قومیت کے ہر شائبہ سے پاک کرکے حکومت کا ایک نظام خالص آئیڈیالوجی کی بنیاد پر تعمیر کرتا ہے اور تمام انسانوں کو دعوت دیتا ہے کہ اس آئیڈیالوجی کو قبول کرکے غیر قومی حکومت بنائیں۔
یہ چیز چونکہ نرالی ہے‘ اور گرد و پیش کی تمام دنیا اس کے خلاف چل رہی ہے‘ اس لیے نہ صرف غیر مسلم، بلکہ خود مسلمان بھی اس کو اور اس کے جملہ تضمّنات (implications)کو سمجھنے سے قاصر ہو رہے ہیں۔ جو لوگ مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوئے ہیں‘ مگر جن کے اجتماعی تصورات تمام تر یورپ کی تاریخ‘ اور یورپ ہی کے سیاسیات اور علومِ عمران (social sciences) سے بنے ہیں‘ ان کے ذہن کی گرفت میں یہ تصور کسی طرح نہیں آتا۔ افسوس ہے کہ وہ ممالک جن کی بیش تر آبادی مسلمان اور سیاسی حیثیت سے آزاد ہے‘ وہاں اس قسم کے لوگوں کے ہاتھ میں جب زمامِ کار آئی تو ان کو حکومت کا کوئی نقشہ قومی حکومت (national state)کے سوا نہ سوجھا، کیونکہ وہ اسلام کے علم و شعور اور اصولی حکومت کے تصور سے بالکل خالی الذہن تھے۔ پوری اسلامی دنیا میں ایک ژولیدہ فکری پائی جاتی ہے۔ لوگ اسلامی حکومت کا نام لیتے ہیں مگر بیچارے اپنے ذہن کی ساخت سے مجبور ہیں کہ ہر پھر کر جو نقشہ بھی نظر کے سامنے آتا ہے قومی حکومت ہی کا آتا ہے‘ قوم پرستانہ طرز فکر (nationalistic ideology)ہی میں دانستہ و نادانستہ پھنس جاتے ہیں اور جو پروگرام سوچتے ہیں وہ بنیادی طور پر قوم پرستانہ ہی ہوتا ہے۔ یہ لوگ امت‘ جماعت‘ ملت‘ ملیت‘ امیر‘ اطاعت امیر‘ اور اسی قسم کے دوسرے الفاظ اسلامی اصطلاحات سے لے کر بولتے ہیں‘ مگر اساسی فکر کے اعتبار سے یہ سب ان کے لیے مذہب ِ قوم پرستی کی اصطلاحوں کے مترادفات ہیں جو خوش قسمتی سے پرانے ذخیرے سے گھڑے گھڑائے مل گئے ہیں اور غیر اسلامی فکر کو چھپانے کے لیے اسلامی رنگ کے غلاف کاکام دینے لگے ہیں۔
اصولی حکومت کی نوعیت آپ سمجھ لیں تو آپ کو یہ بات سمجھنے میں ذرہ برابر بھی دقت پیش نہ آئے گی کہ اس کی بنا رکھنے کے لیے یہ طرز فکر‘ یہ انداز تحریک‘ یہ عملی پروگرام نقطۂ آغاز کا بھی کام نہیں دے سکتا، کجا کہ تعمیر کے انجام تک پہنچا سکے‘ بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ اس کا ہر جزو ایک تیشہ ہے جس سے اصولی حکومت کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ اصولی حکومت کے تخیل کی تو بنیاد ہی یہ ہے کہ ہمارے سامنے قومیں اور قومیتیں نہیں صرف انسان ہیں۔ ہم ان کے سامنے ایک اصول اس حیثیت سے پیش کرتے ہیں کہ اس پر تمدن کا نظام اور حکومت کا ڈھانچہ تعمیر کرنے میں ان کی اپنی فلاح ہے اور جو اس کو قبول کرلے وہ اس نظام کو چلانے میں برابر کا حصے دار ہے۔ غور کیجیے اس تخیل کو لے کر وہ شخص کس طرح اٹھ سکتا ہے جس کے دماغ‘ زبان‘ افعال و حرکات‘ ہر چیز پر قومیت اور قوم پرستی کا ٹھپہ لگا ہوا ہو؟
خلافت ِ اسلامیہ
اسلامی حکومت کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کی پوری عمارت خدا کی حاکمیت کے تصور پر قائم کی گئی ہے۔ اس کا بنیادی نظریہ ۲۸۶؎ یہ ہے کہ ملک خدا کا ہے اور وہی اس کا حاکم ہے۔کسی شخص یا خاندان یا طبقے یا قوم کو بلکہ پوری انسانیت کو بھی حاکمیت (sovereignty)کے حقوق حاصل نہیں ہیں۔ حکم دینے اور قانون بنانے کا حق صرف خدا کے لیے خاص ہے۔ حکومت کی صحیح شکل اس کے سوا کوئی نہیں کہ انسان خدا کے خلیفہ کی حیثیت سے کام کرے اور یہ حیثیت صحیح طور پر صرف دو صورتوں سے قائم ہوسکتی ہے:
۱۔ یا تو کسی انسان کے پاس براہ راست خدا کی طرف سے قانون اور دستور حکومت آیا ہو۔
۲۔ یا وہ اس شخص کی پیروی اختیار کرے جس کے پاس خدا کی طرف سے قانون اور دستور آیا ہے۔
اس خلافت کے کام میں تمام وہ لوگ شریک ہوں گے جو اس قانون پر ایمان لائیں اور اس کی پیروی کرنے پر تیار ہوں۔ یہ کام اس احساس کے ساتھ چلایا جائے گا کہ ہم بحیثیت مجموعی‘ اور ہم میں سے ہر ایک فردًافردًاخدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس خدا کے سامنے جو ظاہر اور پوشیدہ ہر چیز کو جاننے والا ہے‘ جس کے علم سے کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی‘ اور جس کی گرفت سے مرکر بھی ہم نہیں چھوٹ سکتے۔ خلافت کی ذمے داری جو ہمارے سپرد کی گئی ہے‘ یہ اس لیے نہیں ہے کہ ہم لوگوں پر اپنا حکم چلائیں‘ ان کو اپنا غلام بنائیں‘ ان کے سر اپنے آگے جھکوائیں‘ ان سے ٹیکس وصول کرکے اپنے محل تعمیر کریں‘ حاکمانہ اختیارات سے کام لے کر اپنے عیش اور اپنی نفس پرستی اور اپنی کبریائی کا سامان کریں‘ بلکہ یہ بار ہم پر اس لیے ڈالا گیا ہے کہ ہم خدا کے قانون عدل کو اس کے بندوں پر جاری کریں۔ اس قانون کی پابندی اور اس کے نفاذ میں ہم نے اگر ذرا سی کوتاہی بھی کی‘ اگر ہم نے اس کام میں ذرہ برابر بھی خود غرضی‘ نفس پرستی‘ تعصب، جانب داری یا بددیانتی کو دخل دیا تو ہم خدا کی عدالت سے سزا پائیں گے‘ خواہ دنیا میں ہر سزا سے محفوظ رہ جائیں۔
اس نظریے کی بنیاد پر جو عمارت اٹھتی ہے وہ اپنی جڑ سے لے کر چھوٹی سے چھوٹی شاخوں تک ہر چیز میں دنیوی حکومتوں (secular states)سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ اس کی ترکیب‘ اس کا مزاج‘ اس کی فطرت‘ کوئی چیز بھی ان سے نہیں ملتی۔ اس کو بنانے اور چلانے کے لیے ایک خاص قسم کی ذہنیت‘ خاص طرز کی سیرت اور خاص نوعیت کے کردار کی ضرورت ہے۔ اس کی فوج‘ اس کی پولیس‘ اس کی عدالت‘ اس کے مالیات‘ اس کے محاصل‘ اس کی انتظامی پالیسی‘ اس کی خارجی سیاست‘ اس کی صلح و جنگ کے معاملات‘ سب کے سب دنیوی ریاستوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ ان کی عدالتوں کے جج‘ چیف جسٹس‘ اس کی عدالت کے کلرک بلکہ چپراسی تک بننے کے اہل نہیں ہوسکتے۔ ان کی پولیس کے انسپکٹر جنرل وہاں کانسٹیبل کی جگہ کے لیے بھی موزوں نہیں ٹھیرتے۔ ان کے جنرل وہاں سپاہیوں میں بھرتی کرنے کے قابل بھی نہیں ہوتے۔ ان کے وزرائے خارجہ وہاں کسی منصب پر تو کیا مقرر ہوں گے‘ شاید اپنے جھوٹ‘ دغا اور بددیانتیوں کی بدولت جیل جانے سے بھی محفوظ نہ رہ سکیں۔ غرض وہ تمام لوگ جو ان حکومتوں کے کاروبار چلانے کے لیے تیار کیے گئے ہوں‘ جن کی اخلاقی و ذہنی تربیت ان کے مزاج کے مناسب حال کی گئی ہو‘ اسلامی حکومت کے لیے قطعی ناکارہ ہیں۔ اس کو اپنے شہری‘ اپنے ووٹر‘ اپنے کونسلر‘ اپنے اہل کار‘ اپنے جج اور مجسٹریٹ‘ اپنے محکموں کے ڈائریکٹر‘ اپنی فوجوں کے قائد‘ اپنے خارجی سفرا‘ اپنے وزیر‘ غرض اپنی اجتماعی زندگی کے تمام اجزا اپنی انتظامی مشین کے تمام پرزے بالکل ایک نئی ساخت کے درکار ہیں۔ اس کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جن کے دلوں میں خدا کا خوف ہو‘ جو خدا کے سامنے اپنی ذمے داری کا احساس رکھتے ہوں‘ جو دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے والے ہوں‘ جن کی نگاہ میں اخلاقی نفع و نقصان کا وزن دنیوی نفع نقصان سے زیادہ ہو‘ جو ہر حال میں اس ضابطے اور اس طرز عمل کے پابند ہوں جو ان کے لیے مستقل طور پر بنا دیا گیا ہے‘ جن کی تمام سعی وجہد کا ہدف مقصود خدا کی رضا ہو۔ جن پر شخصی یا قومی اغراض کی بندگی اور ہواوہوس کی غلامی مسلط نہ ہو‘ جو تنگ نظری و تعصب سے پاک ہوں‘ جو مال اورحکومت کے نشے میں بدمست ہو جانے والے نہ ہوں‘ جو دولت کے حریص اور اقتدار کے بھوکے نہ ہوں۔ جن کی سیرتوں میں یہ طاقت ہو کہ جب زمین کے خزانے ان کے دست قدرت میں آئیں تو وہ پکے امانت دار ثابت ہوں۔ جب بستیوں کی حکومت ان کے ہاتھ میں آئے تو وہ راتوں کی نیند سے محروم ہو جائیں اور لوگ ان کی حفاظت میں اپنی جان‘ مال‘ آبرو‘ ہر چیز کی طرف سے بے خوف رہیں۔ جب وہ فاتح کی حیثیت سے کسی ملک میں داخل ہوں تو لوگوں کو ان سے قتل و غارت گری‘ ظلم و ستم اور بدکاری و شہوت رانی کا کوئی اندیشہ نہ ہو، بلکہ ان کے ہر سپاہی کو مفتوح ملک کے باشندے اپنی جان و مال اور اپنی عورتوں کی عصمت کا محافظ پائیں۔ جن کی دھاک بین الاقوامی سیاست میں اس درجے کی ہو کہ ان کی راستی‘ انصاف پسندی‘ اصول و اخلاق کی پابندی اور عہد و پیمان پر تمام دنیا میں اعتماد کیا جائے۔ اس قسم کے اور صرف اسی قسم کے لوگوں سے اسلامی حکومت بن سکتی ہے اور یہی لوگ اس کو چلا سکتے ہیں۔ رہے مادہ پرست‘ افادی ذہنیت (utilitarian mentality)رکھنے والے لوگ جو دنیوی فائدوں اور شخصی یا قومی مصلحتوں کی خاطر ہمیشہ ایک نیا اصول بناتے ہوں‘ جن کے پیش نظر نہ خدا ہو، نہ آخرت‘ بلکہ جن کی ساری کوششوں کا مرکز و محور اورساری پالیسیوںکا مدار صرف دنیوی فائدہ و نقصان ہی کا خیال ہو‘ وہ ایسی حکومت بنانے یا چلانے کے قابل تو کیا ہوں گے، ان کا اس حکومت کے دائرے میں موجود ہونا ہی ایک عمارت میں دیمک کی موجودگی کا حکم رکھتا ہے۔
اسلامی انقلاب کی سبیل
اسلامی حکومت کی اس نوعیت کو ذہن میں رکھ کر غور کیجیے کہ اس منزل تک پہنچنے کی کیا سبیل ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ میں ابتدا میں عرض کر چکا ہوں‘ کسی سوسائٹی میں جس قسم کے فکری‘ اخلاقی‘ تمدنی اسباب و محرکات فراہم ہوتے ہیں ان کے تعامل سے اسی قسم کی حکومت وجود میں آتی ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک درخت اپنی ابتدائی کونپل سے لے کر پورا درخت بننے تک تولیموں کی حیثیت سے نشوونما پائے، مگر بار آوری کے مرحلے پر پہنچ کر یکایک آم دینے لگے۔ اسلامی حکومت کسی معجزے کی شکل میں صادر نہیں ہوتی۔ اس کے پیدا ہونے کے لیے ناگزیر ہے کہ ابتدا میں ایک ایسی تحریک اٹھے جس کی بنیاد میں وہ نظریۂ حیات‘ وہ مقصد ِ زندگی‘ وہ معیارِ اخلاق‘ وہ سیرت و کردار ہو جو اسلام کے مزاج سے مناسبت رکھتا ہے۔ اس کے لیڈر اور کارکن صرف وہی لوگ ہوں جو اس خاص طرز کی انسانیت کے سانچے میں ڈھلنے کے لیے مستعد ہوں۔ پھر وہ اپنی جدوجہد سے سوسائٹی میں اسی ذہنیت اور اسی اخلاقی روح کو پھیلانے کی کوشش کریں۔ پھر اسی بنیاد پر تعلیم و تربیت کا ایک نیا نظام اٹھے جو اس مخصوص ٹائپ کے آدمی تیار کرے۔ اس سے مسلم سائنٹسٹ‘ مسلم فلسفی‘ مسلم مؤرخ‘ مسلم ماہرین مالیات و معاشیات‘ مسلم ماہرین قانون‘ مسلم ماہرین سیاست‘ غرض ہر شعبۂ علم و فن میں ایسے آدمی پیدا ہوں جو اپنی نظر و فکر کے اعتبار سے مسلم ہوں‘ جن میں وہ قابلیت موجود ہو کہ افکار و نظریات کا ایک پورا نظام اور عملی زندگی کا ایک مکمل خاکہ اسلامی اصول پر مرتب کرسکیں، اور جن میں اتنی طاقت ہو کہ دنیا کے ناخدا شناس ائمۂ فکر کے مقابلے میں اپنی عقلی و ذہنی ریاست (intellectual leadership)کا سکہ جما دیں۔ اس دماغی پس منظر کے ساتھ یہ تحریک عملاً اس غلط نظام زندگی کے خلاف جدوجہد کرے جو گرد و پیش کی دنیا پر چھایا ہوا ہے۔ اس جدوجہد میں اس کے علم بردار مصیبتیں اٹھاکر‘ سختیاں جھیل کر‘ قربانیاں کرکے‘ مار کھا کر اور جانیں دے کر اپنے خلوص اور اپنے ارادے کی مضبوطی کا ثبوت دیں۔ آزمائشوں کی بھٹی میں تپائے جائیں، اور ایسا سونا بن کر نکلیں جس کو پرکھنے والا ہر طرح جانچ کر بے کھوٹ کامل العیار سونا ہی پائے۔ اپنی لڑائی کے دوران میں وہ اپنے ہر قول اور ہر فعل سے اپنی اس مخصوص آئیڈیالوجی کا مظاہرہ کریں جس کے علم بردار بن کر وہ اٹھے ہیں۔ ان کی ہر بات سے عیاں ہو کہ واقعی ایسے بے لوث‘ بے غرض‘ راست باز‘ پاک سیرت‘ ایثار پیشہ‘ بااصول‘ اللہ سے ڈرنے والے لوگ انسانیت کی فلاح کے لیے جس اصولی حکومت کی طرف دعوت دے رہے ہیں‘ اس میں ضرور انسان کے لیے عدل اور امن ہوگا۔ اس طرح کی جدوجہد سے سوسائٹی کے وہ تمام عناصر جن کی فطرت میں کچھ بھی نیکی اور راستی موجود ہے‘ اس تحریک میں کھنچ آئیں گے۔ پست سیرت لوگوں اور ادنیٰ درجے کے طریقوں پر چلنے والوں کے اثرات اس تحریک کے مقابلے میں دبتے چلے جائیں گے۔عوام کی ذہنیت میں ایک انقلاب رونما ہوگا۔ اجتماعی زندگی میں اس مخصوص نظام حکومت کی پیاس پیدا ہو جائے گی جس کے لیے اس طور پر زمین تیار کی گئی ہو گی اور سوسائٹی کے اس بدلے ہوئے ماحول میں کسی دوسرے طرز کے نظام حکومت کا چلنا مشکل ہو جائے گا۔ پھر جوں ہی کہ وہ نظام قائم ہوگا اس کو چلانے کے لیے ابتدائی اہل کاروں سے لے کر وزرا اور نظما تک ہر درجے کے مناسب کل پُرزے اس نظامِ تعلیم و تربیت کی بدولت موجود ہوں گے‘ جس کا ذکر میں ابھی کرچکا ہوں۔
حضرات! یہ ہے اس انقلاب کے ظہور اور اس حکومت کی پیدائش کا فطری طریقہ جس کو اسلامی انقلاب اور اسلامی حکومت کہا جاتا ہے۔ آپ سب اہل علم لوگ ہیں۔ دنیا کے انقلابات کی تاریخ آپ کے سامنے ہے۔ آپ سے یہ بات پوشیدہ نہیں رہ سکتی کہ ایک خاص نوعیت کا انقلاب اسی نوعیت کی تحریک، اسی نوعیت کے لیڈر اور کارکن اور اسی نوعیت کا اجتماعی شعور اور تمدنی و اخلاقی ماحول چاہتا ہے۔ انقلاب فرانس کو وہی خاص اخلاقی و ذہنی اساس درکار تھی جو روسو(۱۷۱۲ء۔۱۷۷۸ء) والٹیر(۱۶۹۴ء۔۱۷۷۸ء) اور مانٹیسکیو(۱۶۸۹ء۔۱۷۵۵ء) جیسے لیڈروں نے تیار کی۔ انقلاب روس صرف مارکس (۱۸۱۸ء۔ ۱۸۸۳ء) کے افکار‘ لینن(۱۸۷۰ء۔۱۹۲۴ء) اور ٹراٹسکی (۱۸۷۹ء۔۱۹۴۰ء)کی لیڈر شپ اور ان ہزارہا اشتراکی کارکنو ں ہی کی بدولت رونما ہوسکتا تھا جن کی زندگیاں اشتراکیت کے سانچے میں ڈھل چکی تھیں۔ جرمنی کا نیشنل سوشلزم اس مخصوص اخلاقی‘ نفسیاتی‘ اور تمدنی زمین ہی میں جڑ پکڑ سکتا تھا جس کو ہیگل‘ (۱۷۷۰ء۔ ۱۸۳۱ء) فشتے‘ گوئٹے‘ نیتشے اور بہت سے مفکرین کے نظریات اور ہٹلر (۱۸۸۹ء۔۱۹۴۵ء) کی لیڈر شپ نے تیار کیا ہے۔ اسی طرح سے اسلامی انقلاب بھی صرف اسی صورت میں برپا ہوسکتا ہے جب کہ ایک عوامی تحریک قرآنی نظریات و تصورات اور محمدی سیرت و کردار کی بنیاد پر اٹھے اور اجتماعی زندگی کی ساری ذہنی‘ اخلاقی‘ نفسیاتی اور تہذیبی بنیادوں کو طاقت وَر جدوجہد سے بدل ڈالے۔
اسلامی تحریک کا مخصوص طریقِ کار
اب میں ایک مختصر تاریخی بیان کے ذریعے سے آپ کے سامنے اس امر کی تشریح کرنا چاہتا ہوں کہ اسلامی انقلاب کے لیے اجتماعی زندگی کی بنیادیں بدلنے اور ازسرنو تیار کرنے کی صورت کیا ہوتی ہے‘ اور اس جدوجہد کا وہ مخصوص طریق کار (technique)کیا ہے جس سے یہ کامیابی کی منزل تک پہنچتی ہے۔
اسلام دراصل اس تحریک کا نام ہے جو خدائے واحد کی حاکمیت کے نظریے پر انسانی زندگی کی پوری عمارت تعمیر کرنا چاہتی ہے۔ یہ تحریک قدیم ترین زمانے سے ایک ہی بنیاد اور ایک ہی ڈھنگ پر چلی آرہی ہے۔ اس کے لیڈر وہ لوگ تھے جن کو رسول اللہ (اللہ کے فرستادے) کہا جاتا ہے۔ ہمیں اگر اس تحریک کو چلانا ہے تو لامحالہ ان ہی لیڈروں کے طرز عمل کی پیروی کرنی ہوگی‘ کیونکہ اس کے سوا کوئی اور طرز عمل اس خاص نوعیت کی تحریک کے لیے نہ ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں جب ہم انبیاء علیہم السلام کے نقشِ قدم کا سراغ لگانے کے لیے نکلتے ہیں تو ہمیں ایک بڑی دقت کا سامنا ہوتا ہے۔ قدیم زمانے میں جو انبیاعلیھم السلام گزرے ہیں ان کے کام کے متعلق ہمیں کچھ زیادہ معلومات نہیں ملتیں۔ قرآن میں کچھ مختصر اشارات ملتے ہیں، مگر ان سے مکمل اسکیم نہیں بن سکتی۔ بائبل کے عہد جدید (new testament)میں سیدنا مسیح علیہ السلام کے کچھ غیر مستند اقوال ملتے ہیں‘ جن سے کسی حد تک اس پہلو پر روشنی پڑتی ہے کہ اسلامی تحریک اپنے بالکل ابتدائی مرحلے میں کس طرح چلائی جاتی ہے اور کن مسائل سے اسے سابقہ پیش آتا ہے، لیکن بعد کے مراحل حضرت مسیح ؑ کو پیش ہی نہیں آئے کہ ان کے متعلق کوئی اشارہ وہاں سے مل سکے۔ اس معاملے میں ہم کو صرف ایک ہی جگہ سے صاف اور مکمل رہنمائی ملتی ہے، اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہے۔اس طرف ہمارے رجوع کرنے کی وجہ نری عقیدت مندی ہی نہیں ہے، بلکہ دراصل اس راہ کے نشیب و فراز معلوم کرنے کے لیے ہم اسی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہیں۔ اسلامی تحریک کے تمام لیڈروں میں صرف ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ تنہا لیڈر ہیں جن کی زندگی میں ہم کو اس تحریک کی ابتدائی دعوت سے لے کر اسلامی اسٹیٹ کے قیام تک اور پھر قیام کے بعد اس اسٹیٹ کی شکل‘ دستور‘ داخلی و خارجی پالیسی اور نظمِ مملکت کے نہج تک ایک ایک مرحلے اور ایک ایک پہلو کی پوری تفصیلات اور نہایت مستند تفصیلات ملتی ہیں۔ لہٰذا میں اسی ماخذ سے اس تحریک کے طریقِ کار کا ایک مختصر نقشہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اسلام کی دعوت پر مامور ہوئے ہیں تو آپ کو معلوم ہے کہ دنیا میں بہت سے اخلاقی‘ تمدنی‘ معاشی اور سیاسی مسائل حل طلب تھے۔ رومی اور ایرانی امپیریلزم بھی موجود تھا۔ طبقاتی امتیازات بھی تھے۔ ناجائز معاشی انتفاع (economic exploitation) بھی ہو رہا تھا۔ اخلاقی ذمائم بھی پھیلے ہوئے تھے۔ خود آپ کے اپنے ملک میں ایسے پیچیدہ مسائل موجود تھے جو ایک لیڈر کے ناخنِ تدبیر کا انتظار کر رہے تھے۔ ساری قوم جہالت‘ اخلاقی پستی‘ افلاس‘ طوائف الملوکی اور خانہ جنگی میں مبتلا تھی۔ بحرین سے یمن تک عرب کے تمام ساحلی علاقے، عراق کے زرخیز صوبے سمیت ایرانی تسلط میں تھے۔ شمال میں عین حجاز کی سرحد تک رومی تسلط پہنچ چکا تھا۔ خود حجاز میں یہودی سرمایہ داروں کے بڑے بڑے گڑھ بنے ہوئے تھے اور انھوں نے عربوں کو اپنی سُود خوری کے جال میں پھانس رکھا تھا۔ مشرقی ساحل کے عین مقابل افریقہ میں حبش کی عیسائی حکومت موجود تھی جو چند ہی سال پہلے مکہ پر چڑھائی کر چکی تھی۔ اس کے ہم مذہبوں اور اس سے ایک گونہ معاشی و سیاسی تعلق رکھنے والوں کا ایک جتھا خود حجاز اور یمن کے درمیان نجران کے مقام پر موجود تھا۔ یہ سب کچھ تھا‘ مگر جس لیڈر کو اللہ نے راہنمائی کے لیے مقرر کیا تھا اس نے دنیا کے‘ اور خود اپنے ملک کے ان بہت سے مسائل میں سے کسی ایک مسئلے کی طرف بھی توجہ نہ کی‘ بلکہ دعوت اس چیز کی طرف دی کہ خدا کے سوا تمام الہٰوں کو چھوڑ دو‘ اور صرف اسی ایک الٰہ کی بندگی قبول کرو۔
اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ اس رہنما کی نگاہ میں دوسرے مسائل کوئی اہمیت نہ رکھتے تھے، یا وہ کسی توجہ کے لائق نہ تھے۔ آپ کو معلوم ہے کہ آگے چل کر اس نے ان سب مسئلوں کی طرف توجہ کی اور سب کو ایک ایک کرکے حل کیا، مگر ابتدا میں سب طرف سے نظر پھیر کر اسی ایک چیز پر تمام زور صرف کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اسلامی تحریک کے نقطۂ نظر سے انسان کی اخلاقی و تمدنی زندگی میں جتنی خرابیاں بھی پیدا ہوتی ہیں‘ ان سب کی بنیادی علت انسان کا اپنے آپ کو خود مختار (independent)اور غیر ذمے دار (irresponsible) سمجھنا،بالفاظ دیگر آپ اپنا الٰہ بننا ہے۔ یا پھر یہ ہے کہ وہ الٰہ العالمین کے سوا کسی دوسرے کو صاحبِ امرتسلیم کرے۔ خواہ دوسرا کوئی انسان ہو یا غیر انسان۔ یہ چیز جب تک جڑ میں موجود ہے اسلامی نظریے کی رُو سے کوئی اوپری اصلاح انفرادی بگاڑ یا اجتماعی خرابیوں کو دور کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ایک طرف سے خرابی کو دور کیا جائے گا اور کسی دوسری طرف سے وہ سر نکال لے گی۔ لہٰذا اصلاح کا آغاز اگر ہوسکتا ہے تو صرف اسی چیز سے ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو انسان کے دماغ سے خود مختاری کی ہوا کو نکالا جائے اور اسے بتایا جائے کہ تو جس دنیا میں رہتا ہے وہ درحقیقت بے بادشاہ کی سلطنت نہیں ہے‘ بلکہ فی الواقع اس کا ایک بادشاہ موجود ہے‘ اور اس کی بادشاہی نہ تیرے تسلیم کرنے کی محتاج ہے‘ نہ تیرے مٹانے سے مٹ سکتی ہے‘ اور نہ تو اس کے حدود سلطنت سے نکل کر کہیں جاسکتا ہے۔ اس اَمِٹ اور اٹل واقعے کی موجودگی میں تیرا خود مختاری کا زعم ایک احمقانہ غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں ہے جس کا نقصان لامحالہ تیرے ہی اوپر عاید ہوگا۔ عقل اور حقیقت پسندی (realism)کا تقاضا یہ ہے کہ سیدھی طرح اس کے آگے سرجھکا دے اور مطیع بندہ بن کر رہ۔ دوسری طرف اس کو واقعے کا یہ پہلو بھی دکھا دیا جائے کہ اس پوری کائنات میں صرف ایک ہی بادشاہ‘ ایک ہی مالک اور ایک ہی مختار ہے۔ کسی دوسرے کو نہ یہاں حکم چلانے کا حق ہے اور نہ واقع میں کسی کا حکم چلتا ہے۔ اس لیے تُو اس کے سوا کسی کا بندہ نہ بن‘ کسی کا حکم نہ مان‘ کسی کے آگے سر نہ جھکا۔ یہاں کوئی ہزمیجسٹی نہیں ہے‘ میجسٹی اسی ایک کے لیے مختص ہے۔ یہاں کوئی ہزہولی نس نہیں ہے‘ ہولی نس ساری کی ساری اسی کے لیے خاص ہے۔ یہاں کوئی ہزہائی نس نہیں ہے‘ ہائی نس صرف اسی ایک کو زیبا ہے۔ یہاں کوئی ہزلارڈشپ نہیں ہے‘ لارڈ شپ بالکلیہ اسی ایک کا حصہ ہے۔ یہاں کوئی قانون ساز نہیں ہے‘ قانون اسی کا ہے اور وہی قانون بنانے کا حق دار و سزاوار ہے۔ یہاں کوئی سرکار‘ کوئی اَن داتا‘ کوئی راجہ‘ مہاراجہ‘ کوئی ولی یا کارساز‘ کوئی دعائیں سننے والا اور فریاد رس نہیں ہے۔ کسی کے پاس اقتدار کی کنجیاں نہیں ہیں۔ کسی کو برتری و فوقیت حاصل نہیں ہے۔ زمین سے آسمان تک سب بندے ہی بندے ہیں۔ رب اور مولیٰ صرف ایک ہے۔ لہٰذا تو ہر غلامی‘ ہر اطاعت‘ ہر پابندی سے انکار کر دے‘ اور اسی ایک کا غلام‘ مطیع اور پابند ِ حکم بن جا۔ یہ تمام اصلاحات کی جڑ اور بنیاد ہے۔ اسی بنیاد پر انفرادی سیرت اور اجتماعی نظام کی پوری عمارت ادھیڑ کر اَز سرِ نو ایک نقشے پر بنتی ہے، اور سارے مسائل جو انسانی زندگی میں آدم سے لے کر اب تک پیدا ہوئے اور اب سے قیامت تک پیدا ہوں گے‘ اسی بنیاد پر ایک نئے طریقے سے حل ہوتے ہیں۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بنیادی اصلاح کی دعوت کو بغیر کسی سابق تیاری اور بغیر کسی تمہیدی کارروائی کے براہ راست پیش کر دیا۔ انھوں نے اس دعوت کی منزل تک پہنچنے کے لیے کوئی ہیر پھیر کا راستہ اختیار نہیں کیا کہ پہلے کچھ سیاسی اور سوشل طرز کاکام کرکے لوگوں میں اثر پیدا کیا جائے‘ پھر اس اثر سے کام لے کر رفتہ رفتہ کچھ حاکمانہ اختیارات حاصل کرلیے جائیں، پھر ان اختیارات سے کام لے کر رفتہ رفتہ لوگوں کو چلاتے ہوئے اس مقام تک بڑھا لائیں۔ یہ سب کچھ‘ کچھ نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں ایک شخص اٹھا اور چھوٹتے ہی اس نے لَآاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کا اعلان کر دیا۔ اس سے کم کسی چیز پر اس کی نظر ایک لمحے کے لیے بھی نہ ٹھیری۔ اس کی وجہ پیغمبرانہ جرأت اور تبلیغی جوش ہی نہیں ہے۔ دراصل اسلامی تحریک کا طریقِ کار یہی ہے۔ وہ اثر یا وہ نفوذ و اقتدار جو دوسرے ذرائع سے پیدا کیا جائے‘ اس اصلاح کے کام میں کچھ بھی مددگار نہیں ہوتا۔ جو لوگ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کے سوا کسی اور بنیاد پر آپ کا ساتھ دیتے رہے ہوں وہ اس بنیاد پر تعمیرِ جدید کرنے میں آپ کے کسی کام نہیں آسکتے۔ اس کام میں تو وہی لوگ مفید ہوسکتے ہیں جو آپ کی طرف لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کی آواز سن کر ہی آئیں۔ اسی چیز میں ان کے لیے کشش ہو‘ اسی حقیقت کو وہ زندگی کی بنیاد بنائیں‘ اور اسی اساس پر وہ کام کرنے کے لیے اٹھیں۔ لہٰذا اسلامی تحریک چلانے کے لیے جس خاص قسم کے تدبر اور حکمت عملی کی ضرورت ہے، اس کا تقاضا یہی ہے کہ کسی تمہید کے بغیر کام کا آغاز توحید کی دعوت ہی سے کیا جائے۔
توحید کا یہ تصور محض ایک مذہبی عقیدہ نہیں ہے۔ جیسا کہ میں ابھی عرض کر چکا ہوں۔ اس سے اجتماعی زندگی کا وہ پورا نظام جو انسان کی خود مختاری یا غیر اللہ کی حاکمیت و الوہیت کی بنیاد پر بنا ہو‘ جڑ بنیاد سے اکھڑ جاتا ہے اور ایک دوسری اساس پر ایک نئی عمارت تیار ہوتی ہے۔ آج دنیا آپ کے مؤذنوں کو اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہ اِلاَّ اللّٰہُ کی صدا بلند کرتے ہوئے اس لیے ٹھنڈے پیٹوں سن لیتی ہے کہ نہ پکارنے والا جانتا ہے کہ کیا پکار رہا ہوں‘ نہ سننے والوں کو اس میں کوئی معنی اور کوئی مقصد نظر آتا ہے، لیکن اگر یہ معلوم ہو جائے کہ اس اعلان کا مقصد یہ ہے‘ اور اعلان کرنے والا جان بوجھ کر اس بات کا اعلان کر رہا ہے کہ میرا کوئی بادشاہ یا فرماںروا نہیں ہے‘ کوئی حکومت مَیں تسلیم نہیں کرتا‘ کسی قانون کو میں نہیں مانتا‘ کسی عدالت کے حدود اختیارات (jurisdictions)مجھ تک نہیں پہنچتے‘ کسی کا حکم میرے لیے حکم نہیں ہے‘ کوئی رواج اور کوئی رسم مجھے تسلیم نہیں‘ کسی کے امتیازی حقوق‘ کسی کی ریاست‘ کسی کا تقدس‘ کسی کے اختیارات میں نہیں مانتا‘ ایک اللہ کے سوا میں سب سے باغی اور سب سے منحرف ہوں‘ تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس صدا کو کہیں بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ آپ خواہ کسی سے لڑنے جائیں یا نہ جائیں‘ دنیا خود آپ سے لڑنے آجائے گی۔ یہ آواز بلند کرتے ہی آپ کو یوں محسوس ہوگا کہ یکایک زمین و آسمان آپ کے دشمن ہوگئے ہیں‘ اور ہر طرف آپ کے لیے سانپ‘ بچھو‘ اور درندے ہی درندے ہیں۔
یہی صورت اس وقت پیش آئی جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آواز بلند کی۔ پکارنے والے نے جان کر پکارا تھا‘ اور سننے والے سمجھتے تھے کہ کیا پکار رہا ہے‘ اس لیے جس جس پر جس پہلو سے بھی اس پکار کی ضرب پڑتی تھی وہ اس آواز کو دبانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ پجاریوں کو اپنی برہمنیت و پاپائیت کا خطرہ اس میں نظر آیا۔ رئیسوں کو اپنی ریاست کا‘ ساہوکاروں کو اپنی ساہوکاری کا‘ نسل پرستوں کو اپنے نسلی تفوق (racial superiority)کا‘ قوم پرستوں کو اپنی قومیت کا‘ اجداد پرستوں کو اپنے باپ دادا کے موروثی طریقے کا‘ غرض ہربت کے پرستار کو اپنے بت کے ٹوٹنے کا خطرہ اسی ایک آواز میں محسوس ہوا، اس لیے اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَاحِدَۃٌ وہ سب جو آپس میں لڑا کرتے تھے اس نئی تحریک سے لڑنے کے لیے ایک ہوگئے۔ اس حالت میں صرف وہی لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آئے جن کا ذہن صاف تھا‘ جو حقیقت کو سمجھنے اور تسلیم کرنے کی استعداد رکھتے تھے‘ جن کے اندر اتنی صداقت پسندی موجود تھی کہ جب ایک چیز کے متعلق جان لیں کہ حق یہ ہے تو اس کی خاطر آگ میں کودنے اور موت سے کھیلنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ ایسے ہی لوگوں کی اس تحریک کے لیے ضرورت تھی۔ وہ ایک ایک‘ دو دو‘ چار چار کرکے آتے رہے اور کشمکش بڑھتی رہی۔ کسی کا روزگار چھوٹا‘ کسی کو گھر والوں نے نکال دیا‘ کسی کے عزیز‘ دوست‘ آشنا سب چھوٹ گئے۔ کسی پر مار پڑی‘ کسی کو قید میں ڈالا گیا۔ کسی کو تپتی ہوئی ریت پر گھسیٹا گیا۔ کسی کی سربازار پتھروں اور گالیوں سے تواضع کی گئی۔ کسی کی آنکھ پھوڑ دی گئی۔ کسی کا سر پھاڑ دیا گیا۔ کسی کو عورت‘ مال‘ حکومت و ریاست اور ہر ممکن چیز کا لالچ دے کر خریدنے کی کوشش کی گئی۔ یہ سب چیزیں آئیں۔ ان کا آنا ضروری تھا۔ ان کے بغیر اسلامی تحریک نہ مستحکم ہوسکتی تھی اور نہ بڑھ سکتی تھی۔
ان کا پہلا فائدہ یہ تھا کہ گھٹیا قسم کے‘ کچے کیرکٹر اور ضعیف ارادہ رکھنے والے لوگ اس طرف آہی نہ سکتے تھے۔ جو بھی آیا وہ نسلِ آدم کا بہترین جوہر تھا‘ جس کی دراصل ضرورت تھی۔ کوئی دوسری صورت، کام کے آدمیوں کو ناکارہ آدمیوں سے چھانٹ کر الگ نکال لینے کی اس کے سوا نہ تھی کہ جو بھی آئے وہ اس بھٹی میں سے گزر کر آئے۔
پھر جو لوگ آئے ان کو اپنی کسی ذاتی غرض کے لیے، یا کسی خاندانی، یا قومی مقصد کے لیے مصائب کا مقابلہ نہیں کرنا پڑا، بلکہ صرف حق اور صداقت کے لیے‘ خدا اور اس کی رضا کے لیے۔ اسی کے لیے وہ پٹے‘ اسی کے لیے بھوکے مرے‘ اسی کے لیے دنیا بھر کی جفاکاریوں کا تختۂ مشق بنے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں وہ صحیح اسلامی ذہنیت پیدا ہوتی چلی گئی جس کی ضرورت تھی۔ ان کے اندر خالص اسلامی کیرکٹر پیدا ہوا۔ ان کی خدا پرستی میں خلوص آتا اور بڑھتا چلاگیا۔ مصائب کی اس زبردست تربیت گاہ میں کیفیت اسلامی کا طاری ہونا ایک طبعی امر تھا۔ جب کوئی شخص کسی مقصد کے لیے اٹھتا ہے اور اس کی راہ میں کشمکش‘ جدوجہد‘ مصیبت‘ تکلیف‘ پریشانی‘ مار‘ قید‘ فاقہ‘ جلاوطنی وغیرہ کے مرحلوں سے گزرتا ہے تو اس ذاتی تجربے کی بدولت اس مقصد کی تمام کیفیات اس کے قلب و روح پر چھا جاتی ہیں‘ اور اس کی پوری شخصیت اس مقصد میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس چیز کی تکمیل میں مدد دینے کے لیے نماز ان پر فرض کی گئی تاکہ نظر کی پراگندگی کا ہر امکان دور ہو جائے‘ اپنے نصب العین پر ان کی نگاہ جمی رہے‘ جس کو وہ حاکم مان رہے ہیں اس کی حاکمیت کا بار بار اقرار کرکے اپنے عقیدے میں مضبوط ہو جائیں‘ جس کے حکم کے مطابق انھیں اب دنیا میں کام کرنا ہے۔ اس کا عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃ ہونا‘ اس کا مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ہونا‘ اس کا قَاھِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ ہونا پوری طرح ان کے ذہن نشین ہو جائے اور کسی حال میں اس کی اطاعت کے سوا دوسرے کی اطاعت کا خیال تک ان کے دلوں میں نہ آنے پائے۔
ایک طرف آنے والوں کی تربیت اس طرح ہو رہی تھی اور دوسری طرف اسی کشمکش کی وجہ سے اسلامی تحریک بھی پھیل رہی تھی۔ جب لوگ دیکھتے تھے کہ چند انسان پیٹے جارہے ہیں‘ قید کیے جارہے ہیں، گھروں سے نکالے جارہے ہیں‘ تو خواہ مخواہ ان کے اندر یہ معلوم کرنے کا شوق پیدا ہوتا تھا کہ آخر یہ سارا ہنگامہ ہے کس لیے؟ اور جب انھیں یہ معلوم ہوتا تھا کہ زن‘ زر‘ زمین کسی چیز کے لیے بھی نہیں ہے‘ کوئی ان کی ذاتی غرض نہیں ہے۔ یہ اللہ کے بندے صرف اس لیے پٹ رہے ہیں کہ ایک چیز کی صداقت ان پر منکشف ہوئی ہے‘ تو ان کے دلوں میں آپ سے آپ یہ جذبہ پیدا ہوتا تھا کہ اس چیز کو معلوم کریں‘ آخر ایسی کیا چیز ہے جس کے لیے یہ لوگ ایسے ایسے مصائب برداشت کر رہے ہیں۔ پھر جب انھیں معلوم ہوتا تھا کہ وہ چیز ہے لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ اور اس سے انسانی زندگی میں اس نوعیت کا انقلاب رونما ہوتا ہے‘ اور اس دعوت کو لے کر ایسے لوگ اٹھے ہیں جو محض صداقت و حقیقت کی خاطر دنیا کے سارے فائدوں کو ٹھکرا رہے ہیں اور جان‘ مال‘ اولاد‘ ہر چیز کو قربان کر رہے ہیں‘ تو ان کی آنکھیں کھل جاتی تھیں‘ ان کے دلوں پر جتنے پردے پڑے ہوئے تھے وہ چاک ہونے لگتے تھے۔ اس پس منظر کے ساتھ یہ سچائی تیر کی طرح نشانے پر جاکر بیٹھتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بجز ان لوگوں کے جن کو ذاتی وجاہت کے تکبر، یا اجداد پرستی کی جہالت، یا اغراضِ دنیوی کی محبت نے اندھا بنا رکھا تھا اور سب لوگ اس تحریک کی طرف کھنچتے چلے گئے۔ کوئی جلدی کھنچا اور کوئی زیادہ دیر تک اس کشش کی مزاحمت کرتا رہا، مگر دیر یا سویر ہر صداقت پسند بے لوث آدمی کو اس کی طرف کھنچنا ہی پڑا۔
اس دوران میں تحریک کے لیڈر نے اپنی شخصی زندگی سے اپنی تحریک کے اصولوں کا اور ہر اس چیز کا جس کے لیے یہ تحریک اٹھی تھی‘ پورا پورا مظاہرہ کیا۔ ان کی ہر بات‘ ہر فعل اور ہر حرکت سے اسلام کی حقیقی روح ٹپکتی تھی اور آدمی کو سمجھ میں آتا تھا کہ اسلام کسے کہتے ہیں۔ یہ ایک بڑی تفصیل طلب بحث ہے جس کی تشریح کا یہاں موقع نہیں، مگر مختصراً چند نمایاں باتوں کا میں یہاں ذکر کروں گا:
۱۔ ان کی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا حجاز کی سب سے زیادہ مال دار عورت تھیں‘ اور وہ ان کے مال سے تجارت کرتے تھے۔ جب اسلام کی دعوت شروع ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سارا تجارتی کاروبار بیٹھ گیا، کیونکہ ہمہ تن اپنی دعوت میں مصروف ہو جانے اور تمام عرب کو اپنا دشمن بنا لینے کے بعد یہ کام نہ چل سکتا تھا۔ جو کچھ پچھلا اندوختہ تھا اس کو میاں اور بیوی دونوں نے اس تحریک کو پھیلانے پر چند سال میں لٹا دیا۔ آخر کار نوبت یہاں تک آئی کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تبلیغ کے سلسلے میں طائف تشریف لے گئے تو وہ شخص جو کبھی حجاز کا مَلِکُ التُّجار کہلاتا تھا اُس کی سواری کے لیے ایک گدھا تک میسر نہ ہوا۔
۲۔ قریش کے لوگوں نے آنحضرتؐ کے سامنے حجاز کی حکومت کا تخت پیش کیا۔ کہا کہ ہم آپؐ کو اپنا بادشاہ بنالیں گے‘ عرب کی حسین ترین عورت آپؐ کے نکاح میں دیں گے‘ دولت کے ڈھیر آپؐ کے قدموں میں لگا دیں گے‘ بشرطیکہ آپؐ اس تحریک سے باز آجائیں‘ مگر وہ شخص جو انسان کی فلاح کے لیے اٹھا تھا‘ اس نے ان سب پیش کشوں کو ٹھکرا دیا اور گالیاں اور پتھر کھانے پر راضی ہوگیا۔
۳۔ قریش کے اور عرب کے سرداروں نے کہا کہ محمدؐ! ہم تمھارے پاس کیسے آکر بیٹھیں اور تمہاری باتیں کیسے سنیں جب کہ تمھاری مجلس میں ہر وقت غلام‘ مفلس‘ معاذ اللہ کمین لوگ بیٹھے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو سب سے نیچے طبقے کے لوگ ہیں ان کو تم نے اپنے گردوپیش جمع کر رکھا ہے‘ انھیں ہٹائو تو ہم تم سے ملیں، مگر وہ شخص جو انسانوں کی اونچ نیچ برابر کرنے آیا تھا‘ اس نے رئیسوں کی خاطر غریبوں کو دھتکارنے سے انکار کر دیا۔
۴۔ اپنی تحریک کے سلسلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ملک‘ اپنی قوم‘ اپنے قبیلے‘ اپنے خاندان‘ کسی کے مفاد کی کبھی پروا نہیں کی۔ اسی چیز نے دنیا کو یقین دلایا کہ آپؐ انسان بحیثیت انسان کی فلاح کے لیے اٹھے ہیں، اور اسی چیز نے آپؐ کی دعوت کی طرف ہر قوم کے انسانوں کو کھینچا۔ اگر آپؐ اپنے خاندان کی فکر کرتے تو غیر ہاشمیوں کو اس فکر سے کیا دلچسپی ہوسکتی تھی؟ اگر آپؐ اس بات کے لیے بے چین ہوتے کہ قریش کے اقتدار کو تو کسی طرح بچالوں‘ تو غیرقریشی عربوں کو کیا پڑی تھی کہ اس کام میں شریک ہوتے؟ اگر آپؐ عرب کی برتری کے لیے اٹھتے تو حبش کے بلالؓ ،رُوم کے صہیبؓ ، اور فارس کے سلمانؓ کو کیا پڑی تھی کہ اس کام میں آپؐ کا ساتھ دیتے؟ دراصل جس چیز نے سب کو کھینچا وہ خالص خدا پرستی تھی۔ ہر ذاتی‘ خاندانی‘ قومی‘ وطنی غرض سے مکمل بے لوثی تھی۔
۵۔ مکہ سے جب آپؐ کو ہجرت کرنی پڑی تو وہ تمام امانتیں جو دشمنوں نے آپؐ کے پاس رکھوائی تھیں‘ حضرت علی ؓ کے سپرد کرکے نکلے کہ میرے بعد ہر ایک کی امانت اس کو پہنچا دینا۔ دنیا پرست ایسے موقع پر جو کچھ ہاتھ لگتا ہے‘ لے کر چل دیتے ہیں، مگر خدا پرست نے اپنی جان کے دشمنوں اور اپنے خون کے پیاسوں کا مال بھی انھیں واپس پہنچانے کی کوشش کی‘ اور اس وقت کی جب کہ وہ اس کے قتل کا فیصلہ کر چکے تھے۔ یہ وہ اخلاق تھا جس کو دیکھ کر عرب کے لوگ دنگ رہ گئے ہوں گے‘ اور مجھے یقین ہے کہ جب وہ دو سال کے بعد میدانِ بدر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لڑنے کھڑے ہوئے ہوں گے تو ان کے دل اندر سے کہہ رہے ہوں گے کہ یہ تم کس سے لڑ رہے ہو؟ اس فرشتہ خصلت انسان سے جو قتل گاہ سے رخصت ہوتے وقت بھی انسانوں کے حقوق اور امانت کی ذمے داری کو نہیں بھولتا؟ اس وقت ان کے ہاتھ ضد کی بنا پر لڑتے ہوں گے، مگر ان کے دل اندر سے بھنچ رہے ہوں گے۔ عجب نہیں کہ بدر میں کفار کی شکست کے اخلاقی اسباب میں سے یہ بھی ایک سبب ہو۔
۶۔ تیرہ برس کی شدید جدوجہد کے بعد وہ وقت آیا جب مدینہ میں اسلام کا ایک چھوٹا سا اسٹیٹ قائم کرنے کی نوبت آئی۔ اس وقت ڈھائی تین سو کی تعداد میں ایسے کارکن فراہم ہو چکے تھے جن میں سے ایک ایک اسلام کی پوری تربیت پاکر اس قابل ہو چکا تھا کہ جس حیثیت میں بھی اُسے کام کرنے کا موقع ملے‘ مسلمان کی حیثیت سے انجام دے سکے۔ اب یہ لوگ ایک اسلامی اسٹیٹ کو چلانے کے لیے تیار تھے‘ چنانچہ وہ قائم کر دیا گیا۔ دس برس تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اسٹیٹ کی رہنمائی کی اور اس مختصر سی مدت میں ہر شعبۂ حکومت کو اسلامی طرز پر چلانے کی پوری مشق ان لوگوں کو کرا دی۔ یہ دور اسلامی آئیڈیالوجی کے ایک مجرد تخیل (abstract idea)سے ترقی کرکے ایک مکمل نظام تمدن بننے کا دور ہے جس میں اسلام کے انتظامی‘ تعلیمی‘ عدالتی‘ معاشی‘ معاشرتی‘ مالی‘ جنگی‘ بین الاقوامی پالیسی کا ایک ایک پہلو واضح ہوا‘ ہر شعبۂ زندگی کے لیے اصول بنے‘ ان اصولوں کو عملی حالات پر منطبق کیا گیا‘ اس خاص طرز پر کام کرنے والے کارکن تعلیم اور تربیت اور عملی تجربے سے تیار کیے گئے‘ اور ان لوگوں نے اسلام کی حکمرانی کا ایسا نمونہ پیش کیا کہ آٹھ سال کی مختصر مدت میں مدینہ جیسے ایک چھوٹے سے قصبے کا اسٹیٹ پورے عرب کی سلطنت میں تبدیل ہوگیا۔ جوں جوں لوگ اسلام کو اس کی عملی صورت میں اور اس کے نتائج کو محسوس شکل میں دیکھتے تھے‘ خود بخود اس بات کے قائل ہوتے جاتے تھے کہ فی الواقع انسانیت اس کا نام ہے اور انسانی فلاح اسی چیز میں ہے۔ بدترین دشمنوں کو بھی آخر قائل ہو کر اسی مسلک کو قبول کرنا پڑا جس کے خلاف وہ برسوں تک لڑتے رہے۔ خالدؓ بن ولیدقائل ہوئے۔ ابوجہل کے بیٹے عکرمہؓ قائل ہوئے۔ ابوسفیانؓ قائل ہوئے۔ قاتل حمزہؓ وحشیؓ قائل ہوئے۔ ہندؓ جگر خوار تک کو آخر کار اس شخص کی صداقت کے آگے سرِ تسلیم خم کر دینا پڑا جس سے بڑھ کر اس کی نگاہ میں کوئی مبغوض نہ تھا۔
۷۔ غلطی سے تاریخ نگاروں نے غزوات کو اتنا زیادہ نمایاں کر دیا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ عرب کا یہ انقلاب لڑائیوں سے ہوا۔ حالانکہ پانچ سال کی تمام لڑائیوںمیں‘ جن سے عرب جیسی جنگ جُو قوم مسخر ہوئی‘ طرفین کے جانی نقصانات کی تعداد ہزار بارہ سو سے زیادہ نہیں ہے۔ انقلاب کی تاریخ اگر آپ کے پیش نظر ہے تو آپ کو تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ انقلاب غیر خونی انقلاب (bloodless revolution)کہے جانے کا مستحق ہے۔پھر اس انقلاب میں فقط ملک کا طریق انتظام ہی تبدیل نہیں ہوا،بلکہ ذہنیتیں بدل گئیں‘ نگاہ کا زاویہ بدل گیا‘ سوچنے کا طریقہ بدل گیا‘ زندگی کا طرز بدل گیا‘ اخلاق کی دنیا بدل گئی‘ عادات اور خصائل بدل گئے۔ غرض ایک پوری قوم کی کایا پلٹ کر رہ گئی۔ جو زانی تھے وہ عورتوں کی عصمت کے محافظ بن گئے۔ جو شرابی تھے وہ منع شراب کی تحریک کے علم بردار بن گئے۔ جو چور اور اُچکے تھے ان کا احساس دیانت اتنا نازک ہوگیا کہ دوستوں کے گھر کھانا کھانے میں بھی ان کو اس بنا پر تامل تھا کہ مبادا ناجائز طریقے پر مال کھانے کا اطلاق اس فعل پر بھی نہ ہو جائے‘ حتیٰ کہ قرآن میں خود اللہ تعالیٰ کو انھیں اطمینان دلانا پڑا کہ اس طرح کے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ جو ڈاکو اور لٹیرے تھے وہ اتنے متدین بن گئے کہ ان کے ایک معمولی سپاہی کو پایۂ تخت ایران کی فتح کے موقع پر کروڑوں کی قیمت کا تاج شاہی ہاتھ لگا اور وہ رات کی تاریکی میں اپنے پیوند لگے ہوئے کمبل میں اسے چھپا کر سپہ سالار کے حوالے کرنے کے لیے پہنچا، تاکہ اس غیر معمولی واقعے سے اس کی دیانت کی شہرت نہ ہو جائے اور اس کے خلوص پر ریاکاری کا میل نہ آجائے۔ وہ جن کی نگاہ میں انسانی جان کی کوئی قیمت نہ تھی‘ جو اپنی بیٹیوں کو آپ اپنے ہاتھ سے زندہ دفن کرتے تھے‘ ان کے اندر جان کا اتنا احترام پیدا ہوگیا کہ کسی مرغ کو بھی بے رحمی سے قتل ہوتے نہ دیکھ سکتے تھے۔ وہ جن کو راست بازی اور انصاف کی ہوا تک نہ لگی تھی ان کے عدل اور راستی کا یہ حال ہوگیا کہ خیبر کی صلح کے بعد جب ان کا تحصیل دار یہودیوں سے سرکاری معاملہ وصول کرنے گیا تو یہودیوں نے اس کو بیش قرار رقم اس غرض کے لیے پیش کی کہ وہ سرکاری معاملے میں کچھ کمی کر دے‘ مگر اس نے رشوت لینے سے انکار کر دیا اور یہودیوں کے درمیان پیداوار کا آدھا حصہ اس طرح تقسیم کیا کہ دو برابر کے ڈھیر آمنے سامنے لگا دیے، اور یہودیوں کو اختیار دیا کہ دونوں میں سے جس ڈھیر کو چاہیں اٹھالیں۔ اس نرالی قسم کے تحصیل دار کا یہ طرز عمل دیکھ کر یہودی انگشت بدنداں رہ گئے اور بے اختیار ان کی زبان سے نکلا کہ اسی عدل پر زمین و آسمان قائم ہیں۔
۸۔ ان کے اندر وہ گورنر پیدا ہوئے جو گورنمنٹ ہائوسوں میں نہیں بلکہ رعایا کے درمیان انھی جیسے گھروں میں رہتے تھے‘ بازاروں میں پیدل پھرتے تھے‘ دروازوں پر دربان تک نہ رکھتے تھے‘ رات دن میں ہر وقت جو چاہتا تھا ان سے انٹرویو کرسکتا تھا۔
۹۔ ان کے اندر وہ قاضی پیدا ہوئے جن میں سے ایک نے ایک یہودی کے خلاف خود خلیفۂ وقت کا دعویٰ اس بنا پر خارج کر دیا کہ خلیفہ اپنے غلام اور بیٹے کے سوا کوئی گواہ پیش نہ کرسکا۔
۱۰۔ ان کے اندر وہ سپہ سالار پیدا ہوئے جن میں سے ایک نے دوران جنگ میں ایک شہر خالی کرتے وقت پورا جزیہ یہ کہہ کر واپس دے دیا کہ ہم اب تمھاری حفاظت سے قاصر ہیں‘ لہٰذا جو ٹیکس ہم نے حفاظت کے معاوضے میں وصول کیا تھا اسے رکھنے کا ہمیں کوئی حق نہیں۔
۱۱۔ ان میں وہ ایلچی پیدا ہوئے جن میں سے ایک نے سپہ سالارانِ ایران کے بھرے دربار میں اسلام کے اصول مساوات انسانی کا ایسا مظاہرہ کیا اور ایران کے طبقاتی امتیازات پر ایسی برمحل تنقید کی کہ خدا جانے کتنے ایرانی سپاہیوں کے دلوںمیں اس مذہب انسانیت کی عزت و وقعت کا بیج اسی وقت پڑ گیا ہوگا۔
۱۲۔ ان میں وہ شہری پیدا ہوئے جن کے اندر اخلاقی ذمے داری کا احساس اتنا زبردست تھا کہ جن جرائم کی سزا ہاتھ کاٹنے اور پتھر مار مار کر ہلاک کر دینے کی صورت میں دی جاتی تھی ان کا اقبال خود آکر کرتے تھے اور تقاضا کرتے تھے کہ سزا دے کر انھیں گناہ سے پاک کر دیا جائے تاکہ وہ چور یا زانی کی حیثیت سے خدا کے سامنے پیش نہ ہوں۔
۱۳۔ ان میں وہ سپاہی پیدا ہوئے جو تنخواہ لے کر نہیں لڑتے تھے بلکہ اس مسلک کی خاطر جس پر وہ ایمان لائے تھے اپنے خرچ سے میدانِ جنگ میں جاتے اور پھر جو مال غنیمت ہاتھ لگتا وہ سارے کا سارا سپہ سالار کے سامنے لاکر رکھ دیتے تھے۔
کیا اجتماعی اخلاق اور اجتماعی ذہنیت کا اتنا زبردست تغیر محض لڑائیوں کے زور سے ہوسکتا تھا؟ تاریخ آپ کے سامنے موجود ہے کہیں آپ کو کوئی ایسی مثال ملتی ہے کہ تلوار نے انسانوں کو اس طرح پر بدل ڈالا ہو؟
درحقیقت یہ ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ تیرہ برس کی مدت میں توکل ڈھائی تین سو مسلمان پیدا ہوئے‘ مگر بعد کے دس سال میں سارا ملک مسلمان ہوگیا۔ اس معمے کو لوگ حل نہیں کرسکتے‘ اس لیے عجیب عجیب توجیہیں کرتے ہیں۔ حالانکہ بات بالکل صاف ہے۔ جب تک اس نئی آئیڈیالوجی پر زندگی کا نقشہ نہیں بنا تھا لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ نرالی قسم کا لیڈر آخر کیا بنانا چاہتا ہے۔ طرح طرح کے شبہات دلوں میں پیدا ہوتے تھے۔ کوئی کہتا: یہ نری شاعرانہ باتیں ہیں۔ کوئی کہتا کہ یہ شخص مجنون ہوگیا ہے‘ اور کوئی اسے محض خیالی آدمی (visionary)قرار دے کر گویا اپنے نزدیک رائے زنی کا حق ادا کر دیتا۔ اس وقت صرف غیر معمولی ذہانت اور سمجھ رکھنے والے لوگ ہی ایمان لائے جن کی نگاہِ حقیقت بیں اس نئے مسلک میں انسانی فلاح کی صورت صاف دیکھ سکتی تھی، مگر جب اس نظامِ فکر پر ایک مکمل نظامِ حیات بن گیا اور لوگوں نے اپنی آنکھوں سے اس کو کام کرتے دیکھ لیا اور اس کے نتائج ان کے سامنے عیاناً آگئے‘ تب ان کی سمجھ میں آیا کہ یہ وہ چیز تھی جس کو بنانے کے لیے وہ اللہ کا نیک بندہ دنیا بھر کے ظلم سہہ رہا تھا۔ اس کے بعد ضد اور ہٹ دھرمی کے لیے پائوں جمانے کا کوئی موقع باقی نہ رہا۔ جس کی پیشانی پر دو آنکھیں تھیں اور ان آنکھوں میں نور تھا اس کے لیے آنکھوں دیکھی حقیقت سے انکار کرنا غیر ممکن ہوگیا۔
یہ ہے اس اجتماعی انقلاب کے لانے کا طریقہ جس کو اسلام برپا کرنا چاہتا ہے۔ یہی اس کا راستہ ہے۔ اسی ڈھنگ پر وہ شروع ہوتا ہے اور اسی تدریج سے وہ آگے بڑھتا ہے۔ لوگ اس کو معجزے کی قسم کا واقعہ سمجھ کر کہہ دیتے ہیں کہ: اب یہ کہاں ہو سکتا ہے۔ نبی ہی آئے تو یہ کام ہو، مگر تاریخ کا واقعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ یہ بالکل ایک طبعی قسم کا واقعہ ہے۔ اس میں علت اور معلول کا پورا منطقی اور سائنٹفک ربط ہمیں نظر آتا ہے۔ آج ہم اس ڈھنگ پر کام کریں تو وہی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، البتہ یہ صحیح ہے کہ اس کام کے لیے ایمان‘ شعورِ اسلامی‘ ذہن کی یکسوئی‘ مضبوط قوت فیصلہ‘ اور شخصی جذبات اور ذاتی امنگوں کی سخت قربانی درکار ہے۔ اس کے لیے جواں ہمت لوگوں کی ضرورت ہے جو حق پر ایمان لانے کے بعد اس پر پوری طرح نظر جما دیں‘ کسی دوسری چیز کی طرف توجہ نہ کریں‘ دنیا میں خواہ کچھ ہوا کرے وہ اپنے نصب العین کے راستے سے ایک انچ نہ ہٹیں‘ دنیوی زندگی میں اپنی ذاتی ترقی کے سارے امکانات کو قربان کر دیں‘ اپنی امیدوں کا اور اپنے والدین کی تمنائوں کا خون کرتے ہوئے نہ جھجھکیں ‘ عزیزوں اور دوستوں کے چھوٹ جانے کا غم نہ کریں‘ سوسائٹی‘ حکومت‘ قانون‘ قوم‘ وطن جو چیز بھی ان کے نصب العین کی راہ میں حائل ہو اُس سے لڑجائیں۔ ایسے ہی لوگوں نے پہلے بھی اللہ کا کلمہ بلند کیا تھا۔ ایسے ہی لوگ آج بھی کریں گے اور یہ کام ایسے ہی لوگوں کے کیے سے ہوسکتا ہے۔
پُر اَمن انقلاب کا راستہ۲۸۷؎
سوال: ذیل میں دو شبہات پیش کرتا ہوں۔ براہ کرم! صحیح نظریات کی توضیح فرما کر انھیں صاف کر دیجیے۔
(۱) ترجمان القرآن کے گزشتہ سے پیوستہ پرچے میں ایک سائل کا سوال شائع ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی منظم اسٹیٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا‘ مگر حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے ایک منظم اسٹیٹ تھا اور انھوں نے جب ریاست کو اقتدار کلی منتقلی کرنے پر آمادہ پایا تو اسے بڑھ کر قبول کرلیا اور یہ طریق کار اختیار نہیں کیا کہ پہلے مومنین صالحین کی ایک جماعت تیار کریں۔ کیا آج بھی جب کہ اسٹیٹ اس دور سے کئی گنا زیادہ ہمہ گیر ہو چکا ہے اس قسم کا طریق کار اختیار کیا جاسکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں آپ نے جو کچھ لکھا ہے اس سے مجھے پورا پورا اطمینان نہیں ہوا۔۲۸۸؎ مجھے یہ دریافت کرنا ہے کہ ہم کو حضرت یوسف علیہ السلام کا اتباع کرنا ہی کیوں چاہیے؟ ہمارے لیے تو صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کی بادشاہت کی پیش کش کو رد کرکے اپنے ہی خطوط پر جداگانہ ریاست کی تعمیر و تشکیل کاکام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا اور ہمارے لیے بھی طریق کار اَب یہی ہے۔ واضح فرمائیے کہ میری یہ رائے کس حد تک صحیح یا غلط ہے۔
(۲) آپ نے یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ کسی مرحلے پر اگر ایسے آثار پیدا ہو جائیں کہ موجود الوقت دستوری طریقوں سے نظامِ باطل کو اپنے اصول پر ڈھالا جاسکے تو ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھانے میں تامل نہ ہوگا۔ اس جملے سے لوگوں میں یہ خیال پیدا ہو رہا ہے کہ جماعت اسلامی بھی ایک حد تک اسمبلیوں میں آنے کے لیے تیار ہے اور الیکشن کو جائز سمجھتی ہے۔ اس معاملے میں جماعتی مسلک کی توضیح فرمائیے۔
جواب: (۱)ہمارے لیے سارے انبیاء علیہم السلام واجب الاتباع ہیں۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہی ہدایت تھی کہ اس طریق پر چلیں جو تمام انبیاء علیہم السلام کا طریق تھا۔ جب قرآن کے ذریعے سے ہمیں معلوم ہو جائے کہ کسی معاملے میں کسی نبی نے کوئی خاص طرزِ عمل اختیار کیا تھا اور قرآن نے اس طریق کار کو منسوخ بھی نہ قرار دیا ہو تو وہ ویسا ہی دینی طریق کار ہے جیسے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسنون ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو بادشاہی پیش کی گئی تھی وہ اس شرط کے ساتھ مشروط تھی کہ آپؐ اس دین کو اور اس کی تبلیغ کو چھوڑ دیں تو ہم سب مل کر آپ کو اپنا بادشاہ بنالیں گے۔ یہ بات اگر یوسف علیہ السلام کے سامنے بھی پیش کی جاتی تو وہ بھی اس طرح اس پر لعنت بھیجتے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر لعنت بھیجی اور ہم بھی اس پر لعنت بھیجتے ہیں، لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کو جو اختیارات پیش کیے گئے تھے وہ غیر مشروط اور غیر محدود تھے اور ان کے قبول کرلینے سے حضرت یوسف علیہ السلام کو یہ اقتدار حاصل ہو رہا تھا کہ ملک کے نظام کو اس ڈھنگ پر چلائیں جو دینِ حق کے مطابق ہو۔ یہ چیز اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کی جاتی تو آپؐ بھی اسے قبول کرلیتے اور خواہ مخواہ لڑ کر ہی وہ چیز حاصل کرنے پر اصرار نہ کرتے جو بغیر لڑے پیش کی جارہی ہو۔ اسی طرح کبھی ہم کو اگر یہ توقع ہو کہ ہم رائے عام کی تائید سے نظامِ حکومت پر اس طرح قابض ہوسکیں گے کہ اس کو خالص اسلامی دستور پر چلا سکیں تو ہمیں بھی اس کے قبول کرلینے میں کوئی تامل نہ ہوگا۔
(۲)الیکشن لڑنا اور اسمبلی میں جانا، اگر اس غرض کے لیے ہو کہ ایک غیر اسلامی دستور کے تحت ایک لادینی (secular)‘جمہوری (democratic)ریاست کے نظام کو چلایا جائے تو یہ ہمارے عقیدۂ توحید اور ہمارے دین کے خلاف ہے، لیکن اگر کسی وقت ہم ملک کی رائے عام کو اس حد تک اپنے عقیدہ و مسلک سے متفق پائیں کہ ہمیں یہ توقع ہو کہ عظیم الشان اکثریت کی تائید سے ہم ملک کا دستورِ حکومت تبدیل کرسکیں گے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم اس طریقے سے کام نہ لیں۔ جو چیز لڑے بغیر سیدھے طریقے سے حاصل ہوسکتی ہو اس کو خواہ مخواہ ٹیڑھی انگلیوں ہی سے نکالنے کا ہم کو شریعت نے حکم نہیں دیا ہے، مگر یہ اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ ہم یہ طریق کار صرف اس صورت میں اختیار کریں گے جب کہ:
٭ اولاً: ملک میں ایسے حالات پیدا ہو چکے ہوں کہ محض رائے عام کا کسی نظام کے لیے ہموار ہو جانا ہی عملاً اس نظام کے قائم ہونے کے لیے کافی ہوسکتا ہو۔
٭ ثانیاً: ہم اپنی دعوت و تبلیغ سے باشندگان ملک کی بہت بڑی اکثریت کو اپنا ہم خیال بنا چکے ہوں اور غیر اسلامی نظام کے بجائے اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے ملک میں عام تقاضا پیدا ہو چکا ہو۔
٭ ثالثاً: انتخابات غیر اسلامی دستور کے تحت نہ ہوں بلکہ بنائے انتخاب ہی یہ مسئلہ ہو کہ ملک کا آئندہ نظام کس دستور پر قائم کیا جائے۔
ہمہ گیر ریاست میں تحریکِ اسلامی کا طریقِ کار۲۸۹؎
سوال: یہ بات تو اب کسی مزید استدلال کی محتاج نہیں رہی کہ ایک مسلمان کے لیے بشرطیکہ وہ اسلام کا صحیح شعور حاصل کر چکا ہو‘ صرف ایک ہی چیز مقصدِ زندگی قرار پاسکتی ہے‘ اور وہ ہے حکومتِ الٰہیہ کا قیام۔
ظاہر ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لیے صرف وہی طریقِ کار اختیار کیا جاسکتا ہے جو اس کی فطرت سے عقلاً مناسبت رکھتا ہو، اور جو اس کے اصلی داعیوں نے عملاً اختیار کیا ہو۔ حکومتِ الٰہی کے نصب العین کے داعی انبیاء کرام ؑ ہیں۔ اس لیے طریق کار بھی وہی ہے جو انبیاء ؑ کا طریق کار ہو۔
انبیاء ؑ کی زندگیوں پر نظر ڈالتے ہوئے ہمیں فی الجملہ دو قسم کے پیغمبر دکھائی دیتے ہیں:
٭ ایک تو وہ جن کی دعوت کے ظہور کے وقت اسٹیٹ ایک منظم اورمؤثر طاقت کی حیثیت سے سوسائٹی میں کار فرما نظر آتا ہے‘ اور اکثر حالات میں وہ ایسا اسٹیٹ ہوتا ہے جس میں اقتدار اعلیٰ کلی طور پر شخص واحد میں مرکوز ہوتا ہے۔ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام۔
٭ دوسرے وہ جن کا واسطہ ایک ایسی سوسائٹی سے پڑتا ہے جس میں اسٹیٹ ابھی بالکل ابتدائی حالت میں تھا اور زیادہ سے زیادہ سرقبیلی (patriachal)قسم کا سٹیٹ تھا۔جیسے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم۔
دونوں صورتوں میں طریق کار کا اختلاف نمایاں ہے‘ جو غالباً اسی سیاسی اختلاف احوال کا نتیجہ ہے،لیکن جتنی جامعیت اور ہمہ گیری اسٹیٹ نے اب حاصل کرلی ہے اور جس طرح اس نے آج کل فرد کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے اورجس منظم و مؤثر اور مضبوط طاقت‘ فکری اور عملی دونوں حیثیتوں سے اس نے اب اختیار کرلی ہے، اس کی مثال شاید پچھلی تاریخ میں نہ مل سکے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہی طریق کار جو تقریباً غیر ریاستی (stateless) سوسائٹی یا حد سے حد سرقبیلی حکومت میں کامیاب طور پر استعمال کیا گیا تھا اب بھی اس قسم کی کامیابی کا ضامن ہوسکتا ہے؟ کیا آج کل کے بدلے ہوئے حالات میں اسی مقصد کے لیے کام کرنے والی پارٹی کو اپنا فن انقلاب انگیزی کافی حد تک بدلنا پڑے گا؟
خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی منظم اسٹیٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس کے برعکس حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے ایک منظم اسٹیٹ تھا۔ چنانچہ انھوں نے جب قوت متسلطہ (sovereign power)کو اقتدار منتقل کرنے پر آمادہ پایا تو اِجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ یوسف 55:12 ملک کے خزانے میرے سپرد کیجیے‘کہہ کر اقتدار سنبھال لیا اور اس طرح اپنا مشن پورا کرنے کے لیے پہلے کے قائم شدہ اسٹیٹ کو استعمال میں لے آئے۔ موجودہ زمانے کا اسٹیٹ حضرت یوسف علیہ السلام کے عہد کے اسٹیٹ سے کہیں زیادہ جامع‘ ہمہ گیر اور منظم ہے۔ اس کو اکھیڑ کر ایک نیا اسٹیٹ وجود میں لانے کے لیے جو انقلاب بھی ہوگا اس کا راستہ خون کے لالہ زاروں سے ہو کر گزرے گا۔ جیسا کہ بالشویک روس میں ہوا، اور یہ بھی معلوم ہے کہ اسلام محض توڑ پھوڑ قسم کا انقلاب نہیں چاہتا‘ بلکہ اس کا پروگرام کچھ زیادہ نازک ہے۔ ان حالات میں تو زیادہ موزوں طریقہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ بجائے کلی انقلاب کے جتنا کچھ اقتدار حاصل ہوسکے اسے قبول کرکے کام کو آگے بڑھایا جائے۔ اگر اس پوزیشن کو قبول کرلیا جائے تو نہ صرف یہ کہ ملک کی موجودہ مسلمان جماعتوں کے خلاف کوئی کارروائی درست نہیں ہوگی بلکہ تائید بھی ضروری ہو جائے گی۔
یہ بات واضح کرنے کی ضرورت نہیں کہ اقتدار سے مراد سول سروس کے مناصب نہیں‘ جیسا کہ کسی نواب صاحب نے ترجمان کی ایک اشاعت میں یوسف علیہ السلام کے سلسلے میں فرمایا ہے‘ بلکہ ایک منظم جماعت کی جدوجہد کے بعد جماعتی حیثیت سے قوتِ حاکمہ (sovereign power)سے اختیارات لے کر اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا مراد ہے۔
جواب: بلاشبہہ ایسی حالت میں جب کہ غیر اسلامی اسٹیٹ ہمہ گیر ہو اس حالت کی بہ نسبت جب کہ فاسد سماجی نظام بالکل ابتدائی نوعیت کا ہو‘ بہت کچھ فرق واقع ہو جاتا ہے اور اس کے لحاظ سے طریقِ کار میں بھی کم از کم صورت کے لحاظ سے تغیر کرنا ضروری ہے، لیکن اصولی حیثیت سے طریق کار میں کسی تغیر کی ضرورت نہیں ہے۔ اصولی طریق کار یہی ہے کہ پہلے ہم اپنی دعوت پیش کریں گے۔ پھر ان لوگوں کو جو ہماری دعوت پر لبیک کہیں‘ منظم کرتے جائیں گے۔ پھر اگر رائے عام کی موافقت سے یا حالات کی تبدیلی سے کسی مرحلے پر ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ موجود الوقت دستوری طریقوں ہی سے نظامِ حکومت کا ہمارے ہاتھوں میں آجانا ممکن ہو، اور ہمیں توقع ہو کہ ہم سوسائٹی کے اخلاقی‘ تمدنی اور سیاسی و معاشی نظام کو اپنے اصول پر ڈھال سکیں گے تو ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھانے میں کوئی تامل نہ ہوگا۔ اس لیے کہ ہمیں جو کچھ بھی واسطہ ہے اپنے مقصد سے ہے نہ کہ کسی خاص طریق کار (method)سے‘ لیکن اگر پُر امن ذرائع سے جوہر اقتدار (substance of power)ملنے کی توقع نہ ہو تو پھر ہم عام دعوت جاری رکھیں گے اور تمام جائز شرعی ذرائع سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش کریں گے۔
نظامِ اسلامی کے قیام کی صحیح ترتیب۲۹۰؎
سوال: جن لوگوں سے پاکستان کے آئندہ نظام کے متعلق گفتگو ہوتی ہے وہ اکثر اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ آپ اور دوسرے اہل علم اسلامی حکومت کا ایک دستور کیوں نہیں مرتب کرتے تاکہ اسے آئین ساز اسمبلی میں پیش کرکے منظورکرایا جائے؟ اس سوال سے صرف مجھ کو ہی نہیں دوسرے کارکنوں کو بھی اکثر و بیش تر سابقہ پیش آتا ہے۔ گوہم اپنی حد تک لوگوں کو بات سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ضرورت ہے کہ آپ اس سوال کا جواب ترجمان القرآن میں دیں تاکہ وہ بہت سی غلط فہمیاں صاف ہوسکیں جن پر یہ سوال مبنی ہے۔
جواب: آپ نے جو سوال کیا ہے اس کا مفصل جواب تو سردست نہیں دیا جاسکتا لیکن مختصر طور پر میں ایک بات عرض کروں گا جس سے امید ہے کہ آپ معاملے کی اصل حقیقت تک پہنچ جائیں گے۔
ہم یہ سمجھنے سے بالکل قاصر ہیں کہ جہاں نہ معاشرہ صحیح معنوں میں اسلامی ہو نہ اخلاق اسلامی‘ جہاں کاسیاسی و معاشی اور تعلیمی نظام بھی اب تک غیر اسلامی خطوط پر ترقی کرتا رہا ہو‘ اور جہاں ایک مجرد سیاسی تحریک کی بدولت ایک آزاد ریاست بننے کی یکایک نوبت آگئی ہو، وہاں اسلامی نظام کا قیام صرف اتنی سی بات پر اٹکا ہوا ہو کہ ہم ایک دستور مرتب کرکے پیش کریں اور برسراقتدار لوگ اسے لے کر نافذ کر دیں۔ یہ تو بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ گمان کرے کہ ایک مدرسے یا ایک بینک کو ہسپتال بنا دینے میں بس اتنی کسر ہے کہ چند ڈاکٹر مل کر ایک اچھے ہسپتال کا خاکہ مرتب کردیں اور وہ مدرسے کے معلمین یا بینک کے اسٹاف کو دے دیا جائے تاکہ وہ اسے دیکھ دیکھ کر سارا کام کرتے چلے جائیں۔ تعجب ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں اچھے خاصے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی اس سادگی کے ساتھ سوچ رہے ہیں۔ شاید دستور کو انھوں نے کوئی تعویذ سمجھا ہے۔
واضح طور پر سمجھ لیجیے کہ یہاں اسلامی نظام کا قیام صرف دو طریقوں سے ممکن ہے:
٭ ایک یہ کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں اس وقت زمامِ کار ہے وہ اسلام کے معاملے میں اتنے مخلص اور اپنے ان وعدوں کے بارے میں جو انھوں نے اپنی قوم سے کیے تھے اتنے صادق ہوں کہ اسلامی حکومت قائم کرنے کی جو اہلیت ان کے اندر مفقود ہے اسے خود محسوس کرلیں اور ایمان داری کے ساتھ یہ مان لیں کہ پاکستان حاصل کرنے کے بعد ان کاکام ختم ہوگیا ہے اور یہ کہ اب یہاں اسلامی نظام تعمیر کرنا ان لوگوں کاکام ہے جو اس کے اہل ہوں۔ اس صورت میںمعقول طریقِ کار یہ ہے کہ پہلے ہماری دستور ساز اسمبلی ان بنیادی امور کا اعلان کرے جو ایک غیر اسلامی نظام کو اسلامی نظام میں تبدیل کرنے کے لیے اصولاً ضروری ہیں۔ (جنھیں ہم نے اپنے مطالبے میں بیان کر دیا ہے)۔ پھر وہ اسلام کا علم رکھنے والے لوگوں کو دستور سازی کے کام میں شریک کرے اور ان کی مدد سے ایک مناسب ترین دستور بنائے‘ پھر نئے انتخابات ہوں اور قوم کو موقع دیا جائے کہ وہ زمامِ کار سنبھالنے کے لیے ایسے لوگوں کو منتخب کرے جو اس کی نگاہ میں اسلامی نظام کی تعمیر کے لیے اہل ترین ہوں۔ اس طرح صحیح جمہوری طریق پر اختیارات اہل ہاتھوں میں بہ سہولت منتقل ہو جائیں گے اور وہ حکومت کی طاقت اور ذرائع سے کام لے کر پورے نظامِ زندگی کی تعمیر جدید اسلامی طرز پرکرسکیں گے۔
٭ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ معاشرے کو جڑ سے ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے اور ایک عمومی تحریک اصلاح کے ذریعے سے اس میں خالص اسلامی شعور و ارادے کو بتدریج اس حد تک نشوونما دیا جائے کہ جب وہ اپنی پختگی کو پہنچے تو خود بخود اس سے ایک مکمل اسلامی نظام وجود میں آجائے۔
ہم اس وقت پہلے طریقے کو آزما رہے ہیں۔ اگر اس میں ہم کامیاب ہوگئے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ پاکستان کے قیام کے لیے ہماری قوم نے جو جدوجہد کی تھی وہ لاحاصل نہ تھی بلکہ اس کی بدولت اسلامی نظام کے نصب العین تک پہنچنے کے لیے ایک سہل ترین اور قریب ترین راستہ ہمارے ہاتھ آگیا، لیکن اگرخدانخواستہ ہمیں اس میں ناکامی ہوئی اور اس ملک میں ایک غیر اسلامی ریاست قائم کر دی گئی تو یہ مسلمانوں کی ان تمام محنتوں اور قربانیوں کا صریح ضیاع ہوگا جو قیامِ پاکستان کی راہ میں انھوں نے کیں‘ اور اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم پاکستان بننے کے بعد بھی اسلامی نقطۂ نظر سے اسی مقام پر ہیں جہاں پہلے تھے۔ اس صورت میں ہم پھر دوسرے طریقے پر کام شروع کردیں گے‘ جس طرح پاکستان بننے سے پہلے کر رہے تھے۔
امید ہے کہ اس توضیح سے لوگ ہماری پوزیشن کو اچھی طرح سمجھ جائیں گے۔ ہم کوئی کام وقت سے پہلے نہیں کرنا چاہتے۔ سرِدست ہم نے اسلامی نظام کے بنیادی امور کو ایک مطالبے کی شکل میں پیش کر دیا ہے۔ اگر اسے قبول کرلیا جائے تو دستور سازی کے کام میں جس حد تک ممکن ہوگا ہم پوری مدد کریں گے۔ لیکن اگر سرے سے یہ بنیادی امور ہی برسرِاقتدار لوگوں کو منظورنہ ہوں تو پھر دستور کا خاکہ پیش کرنے سے آخر کیا فائدہ متصور ہے؟
سیاسی انقلاب پہلے یا سماجی انقلاب؟۲۹۱؎
سوال: ہمارے ملک میں یہ احساس عام ہے کہ اسلام کے اصول و احکام پسندیدہ اور مستحسن تو ہیں مگر بحالات موجودہ قابلِ عمل نہیں ہیں۔ عوام و خواص میں اسلام سے جذباتی وابستگی تو ضرور ہے لیکن اسلام کا صحیح مفہوم اور آمادگیِ عمل بہت کم ہے۔ اسلام جس ذہنی و عملی انضباط کا مطالبہ کرتا ہے اسے دیکھ کر یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسلامی قوانین کو نافذ کر دیا گیا تو کہیں اس کے خلاف شدید ردعمل نہ رونما ہو جائے۔ سیاسی انقلاب سے پہلے سماجی انقلاب ضروری ہے اور اصلاح کا جذبہ اوپر سے اور باہر سے پیدا کرنے کے بجائے اندر سے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ صورت حال پیدا ہونے سے پہلے کیا اسلامی ریاست کا مطالبہ قبل از وقت نہیں ہے؟
جواب: اس مسئلے کی اگر پوری وضاحت کی جائے تو اس کے لیے بڑے تفصیلی جواب کی ضرورت ہے، لیکن مختصر جواب یہ ہے کہ بلاشبہ سیاسی انقلاب سے پہلے ایک مدنی‘ اجتماعی اور اخلاقی انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی اسلامی انقلاب کا فطری طریقہ ہے، اور بلاشبہ یہ بات بھی درست ہے کہ اسلام کے احکام و قوانین صرف اوپر سے ہی مسلط نہیں کیے جاسکتے بلکہ اندر سے ان کے اتباع کا دلی جذبہ بھی پیدا کیا جاتا ہے، لیکن اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ پاکستان کے قیام کی شکل میں سیاسی انقلاب رونما ہو چکا ہے۔ اب یہ سوال چھیڑنا بالکل بے کار ہے کہ معاشرتی انقلاب پہلے برپا کرنا چاہیے اور سیاسی انقلاب بعد میں۔ اب تو سوال یہ پیدا ہوگیا ہے کہ جب تک قوم میں ذہنی انقلاب واقع نہ ہو اُس وقت تک آیا ہم سیاسی اختیارات کو کافرانہ اصولوں کے مطابق استعمال کرتے رہیں، یا ان اختیارات کو بھی اسلامی اصولوں کے مطابق کام میں لائیں۔ سیاسی اقتدار کا کوئی نہ کوئی مصرف اور مقصد بہرحال ہمیں متعین کرنا پڑے گا۔ حکومت کی مشینری کو اخلاقی انقلاب رونما ہونے تک معطل بہرحال نہیں کیا جاسکتا۔ ایک قوم جو خدا اور اس کے رسولؐ کی حاکمیت اور بالادستی پر ایمان رکھتی ہو‘ اجتماعی اور قومی زندگی کی باگیں اس کے اپنے ہاتھ میں ہوں‘ اپنا نظامِ حیات وہ خود تعمیر کرنے کے قابل ہو‘ اور کوئی دوسری کافرانہ طاقت اس پر کوئی کافرانہ نظام مسلط کرنے والی نہ ہو‘ تو کیا اس قوم کے افراد کے لیے یہ جائز اور درست ہوسکتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو اخلاقی وعظ و نصیحت تو کرتے رہیں مگر ہیئت ِ حاکمہ کو غیر اسلامی اصولوں کے مطابق کام کرنے کے لیے چھوڑ دیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اس صورت حال کو گوارا کرلیں تو گو ہم انفرادی ارتداد کے مرتکب نہ ہوں‘ اجتماعی اور قومی حیثیت سے ہم ضرور ارتداد کے مرتکب ہوں گے۔
پھر اس معاملے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر آپ اجتماعی و اخلاقی انقلاب لانا چاہتے ہیں تو آپ کو غور کرنا پڑے گا کہ اس انقلاب کے ذرائع و وسائل کیا کیا ہوسکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان ذرائع میں تعلیم و تربیت‘ معاشرتی اصلاح‘ ذہنی اصلاح اور اسی قسم کی بہت سی چیزیں شامل ہیں۔ انھی کے ساتھ ساتھ حکومت کے قانونی اور سیاسی ذرائع و وسائل بھی ہیں۔ حکومت کی طاقت نہ صرف بجائے خود ایک بڑا ذریعۂ اصلاح ہے‘ بلکہ وہ ساری اصلاحی تدابیر کو زیادہ مؤثر‘ نتیجہ خیز اور ہمہ گیر بنانے کا بھی ذریعہ ہے۔ اب آخر کیا وجہ ہے کہ اخلاقی انقلاب لانے کے لیے حکومت کے وسائل کو بھی استعمال نہ کیا جائے۔ ہمارے ووٹوں اور ہمارے ادا کردہ ٹیکسوں اور مالیات کے بل پر ہی تو حکومت کا سارا نظام چل رہا ہے۔ آخر اس حماقت اور جہالت کا ارتکاب ہم کیوں کریں کہ ایک طرف انفرادی حیثیت سے ہم اسلام کے سماجی انقلاب کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کریں اور دوسری طرف حکومت کے سارے ذرائع اخلاق کے بگاڑنے اور فسق و فجور پھیلانے میں لگے رہیں۔

شیئر کریں