Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مسلمانوں کا ماضی وحال اور مستقبل کے لیے لائحہ عمل
ایک غلط فہمی کا ازالہ
پچھلی تاریخ کا جائزہ
ہماری غلامی کے اسباب
دینی حالت
اخلاقی حالت
ذہنی حالت
مغربی تہذیب کی بنیادیں
مذہب
فلسفۂ حیات
ہیگل کا فلسفۂ تاریخ
ڈارون کا نظریۂ ارتقا
مارکس کی مادی تعبیرِ تاریخ
اَخلاق
سیاست
فاتح تہذیب کے اثرات
تعلیم کا اثر
معاشی نظام کا اثر
قانون کا اثر
اخلاق ومعاشرت کا اثر
سیاسی نظام کا اثر
ہمارا ردِّعمل
انفعالی ردِّ عمل
جمودی ردِّ عمل
ہم کیا چاہتے ہیں؟
یَک سُوئی کی ضرورت
ہمارا لائحۂ عمل

مسلمانوں کا ماضی و حال اور مستقبل

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

یَک سُوئی کی ضرورت

حقیقت یہ ہے کہ ہم اب ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکے ہیں جہاں مسلسل تجربے نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ اسلام اور جاہلیت کا یہ ملا جلا مرکب، جواَب تک ہمارا نظامِ حیات بنا رہا ہے، زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ یہ اگر چلتا رہا تو دنیا میں بھی ہماری کامل تباہی کا موجب ہو گا اور آخرت میں بھی، اس لیے کہ اس کی وجہ سے ہم اس حالت میں مبتلا ہیں کہ
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
نہ ہم امریکہ اور روس اور انگلستان کی طرح پوری یک سوئی کے ساتھ اپنی دنیا ہی بنا سکتے ہیں، کیوں کہ ایمان واسلام سے ہمارا جو تعلق قائم ہے وہ ہمیں اس راستے پر بے محابا نہیں چلنے دیتا اور نہ ہم ایک سچی مسلمان قوم کی طرح اپنی آخرت ہی بنا سکتے ہیں، کیوں کہ یہ کام ہمیں وہ جاہلیت نہیں کرنے دیتی جس کے بے شمار فتنے ہم نے اپنے اندر پال رکھے ہیں۔ اس دودلی کی وجہ سے ہم کسی چیز کا حق بھی پوری طرح ادا نہیں کرسکتے نہ دنیا پرستی کا، نہ خدا پرستی کا۔ اس کی وجہ سے ہمارا ہر کام، خواہ دینی ہو یا دنیوی، دو متضاد افکار اور رجحانات کی رزم گاہ بنا رہتا ہے، جن میں سے ہر ایک دوسرے کا توڑ کرتا ہے اور کسی فکر ورجحان کے مطالبے بھی کماحقہٗ پورے نہیں ہونے پاتے۔ یہ حالت بہت جلد ختم کر دینے کے لائق ہے اگر ہم اپنے دشمن نہیں ہیں تو ہمیں بہرحال یکسو ہوجانا چاہیے۔
اس یک سُوئی کی صرف دو ہی صورتیں ممکن ہیں اور ہم کو دیکھنا ہے کہ ہم میں سے کون کس صورت کو پسند کرتا ہے۔
اس کی ایک صورت یہ ہے کہ ہمارے سابق حکم رانوں نے اور ان کی غالب تہذیب نے جس راستے پر اس ملک کو ڈالا تھا، اسی کو اختیار کر لیا جائے اورپھر خدا اورآخرت اور دین اور دینی تہذیب واخلاق کا خیال چھوڑ کر ایک خالص مادہ پرستانہ تہذیب کو نشوونما دیا جائے تاکہ یہ ملک بھی ایک دوسرا روس یا امریکہ بن سکے۔ مگر علاوہ اس کے کہ یہ راہ غلط ہے، خلافِ حق ہے اور تباہ کُن ہے، میں کہوں گا کہ پاکستان میں اس کا کام یاب ہونا ممکن بھی نہیں ہے اس لیے کہ یہاں کے نفسیات اور روایات میں اسلام کی مَحبّت اور عقیدت اتنی گہری جڑیں رکھتی ہے کہ انھیں اکھاڑ پھینکنا کسی انسانی طاقت کے بس کا کام نہیں ہے۔ تاہم جو لوگ اس راستے پرجانا چاہتے ہیں وہ میری اس گفتگو کے مخاطب نہیں ہیں۔ ان کے سامنے ہم اپنا پروگرام نہیں بلکہ جنگ کا الٹی میٹم پیش کرنا چاہتے ہیں۔
یَک سُوئی کی دوسری صورت یہ ہے کہ ہم انفرادی اور قومی زندگی کے لیے اس راہ کوانتخاب کر لیں جو قرآن اور سنتِ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ہم کو دکھائی ہے۔ یہی ہم چاہتے ہیں، اور یہی ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی مسلم آبادی کے کم از کم ۹۹۹ فی ہزار باشندے چاہتے ہیں اور یہی ہراس شخص کو چاہنا چاہیے جو خدا اور رسولؐ کو مانتا ہو اور موت کے بعد کی زندگی کا قائل ہو، مگر جو لوگ بھی اس راہ کے پسند کرنے والے ہوں انھیں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جن حالات سے ہم گزرتے ہوئے آ رہے ہیں، اور جن میں اس وقت ہم گھرے ہوئے ہیں ان میں تنہا اسلام اور خالص اسلام کو پاکستان کا راہ نما فلسفۂ حیات اور غالب نظامِ زندگی بنانا کوئی آسان کام نہیں۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلام اور غیر اسلامی قدامت کی اُس آمیزش کو جسے صدیوں کی روایات نے پختہ کر رکھا ہے، تحلیل کریں اورقدامت کے اجزا کو الگ کرکے خاص اسلام کے اس جوہر کو لے لیں جو قرآن اور سنت کے معیار پر جوہر اسلام ثابت ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ کام ہمارے ان گروہوں کی مزاحمت اور سخت مزاحمت کے بغیر نہیں ہو سکتا جو قدامت کے کسی نہ کسی جز کے ساتھ گہری وابستگی رکھتے ہیں۔
اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم مغرب کی حقیقی تمدنی وعلمی ترقیات کو اس کے فلسفۂ حیات اور اندازِ فکر اور اخلاق ومعاشرت کی گمراہیوں سے الگ کریں اور پہلی چیز کو لے کر دوسری چیز کو بالکلیہ اپنے ہاں سے خارج کردیں۔ ظاہر ہے کہ اسے ہمارے وہ گروہ برداشت نہیں کر سکتے جنھوں نے خالص مغربیت کو، یا اسلام کے کسی نہ کسی مغربی ایڈیشن کو اپنا دین بنا رکھا ہے۔
اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے لوگ فراہم ہوں اور منظم طریقے سے کام کریں جو اسلامی ذہنیت کے ساتھ تعمیری صلاحیتیں بھی رکھتے ہوں اور پھر مضبوط سیرت اور صالح اخلاق اور مستحکم ارادے کے مالک بھی ہوں۔ ظاہر ہے کہ یہ جنس ہمارے ہاں ویسے ہی کمیاب ہے، پھر اس دل گردے کے لوگ آخر کہاں آسانی سے ملا کرتے ہیں جو سیاسی اور معاشی چوٹ بھی سہیں، فتووں کی مار بھی برداشت کریں، اور جھوٹے الزامات کی چوطرفہ بارش کا بھی مقابلہ پورے صبر وسکون کے ساتھ کرتے چلے جائیں۔
ان سب شرطوں کے بعد بھی یہ ضروری ہے کہ اسلام کو نظامِ غالب بنانے کی تحریک اسی طرح ایک ہمہ گیر سیلاب کے مانند اٹھے جس طرح مغربی تہذیب یہاں سیلاب کے مانند آئی اور زندگی کے ہر شعبے پر چھا گئی۔ اس ہمہ گیری اور سیلابیت کے بغیر نہ یہ ممکن ہے کہ مغربی تہذیب کو غلبہ و اقتدار سے بے دخل کیا جاسکے، اور نہ ہی یہی ممکن ہے کہ نظامِ تعلیم، نظامِ قانون، نظامِ معیشت اور نظامِ سیاست کو بدل کر ایک دوسرا تمدن خالص اسلامی بنیادوں پر تعمیر کیا جا سکے۔
یہی کچھ ہم چاہتے ہیں۔ ہمارے پیش نظر برِ عظیم ہندو پاکستان کے مسلمانوں کی پرانی تہذیب کا احیا نہیں بلکہ اسلام کا احیا ہے۔ ہم علومِ جدیدہ اور ان کی پیدا کی ہوئی ترقیات کے مخالف نہیں بلکہ اس نظامِ تہذیب وتمدن کے باغی ہیں جو مغربی فلسفۂ زندگی اور فلسفۂ اخلاق کا پیدا کردہ ہے۔ ہم دو دو اور چار چار آنے والے ممبر بھرتی کرکے کوئی سیاسی کھیل کھیلنا نہیں چاہتے بلکہ اپنی قوم میں سے چھانٹ چھانٹ کر ایسے لوگوں کو منظم کرنا چاہتے ہیں جو قرآن وسنت کے حقیقی اسلام کو یہاں کا غالب نظامِ زندگی بنانے کے لیے قدامت اور جدت دونوں سے لڑنے پر تیار ہوں، ہم زندگی کے کسی ایک جز یا بعض اجزا میں کچھ اسلامی رنگ پیدا کر دینے کے قائل نہیں بلکہ اس بات کے درپے ہیں کہ پورا اسلام پوری زندگی پر حکم ران ہو… انفرادی سیرتوں اور گھر کی معاشرت پر حکمران ہو۔ تعلیم کے اداروں پر حکمران ہو، قانون کی عدالتوں پر حکمران ہو، سیاست کے ایوانوں پر حکمران ہو نظم ونسق کے محکموں پر حکم ران ہو اور معاشی دولت کی پیداوار اور تقسیم پر حکمران ہوں۔ اسلام کے اس ہمہ گیر تسلط ہی سے یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ پاکستان یک سُو ہو کر ان روحانی، اخلاقی اور مادّی فوائد سے پوری طرح متمتع ہو جو رب العالمین کی دی ہوئی ہدایت پر چلنے کا لازمی اور فطری نتیجہ ہیں اور پھر اسی سے یہ اُمید کی جا سکتی ہے کہ یہ ملک تمام مسلم ممالک کے لیے دعوت الی الخیر کا اور تمام دنیا کے لیے ہدایت کا مرکز بن جائے۔

شیئر کریں