Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
(قومیّت ِاسلام (قوم کا مفہوم
قومیّت کے غیرمنفک لوازم
قومیت کے عناصر ترکیبی
شر اور فساد کا سرچشمہ
عصبیّت جاہلیہ
قومیت کے عناصر پر ایک عقلی تنقید
نسلیّت
وطنیت
لسانی امتیازات
امتیازِ رنگ
معاشی قومیّت
سیاسی قومیّت
انسانیت و آفاقیت
اسلام کا وسیع نظریہ
عصبیّت اور اسلام کی دشمنی
عصبیّت کے خلاف اسلام کا جہاد
اسلامی قومیّت کی بنیاد
اسلام کا طریق جمع و تفریق
اسلامی قومیت کی تعمیر کس طرح ہوئی؟
مہاجرین کا اسوہ
انصار کا طرزِعمل
رشتہ دین پر مادی علائق کی قربانی
جامعہ اسلامیہ کی اصلی رُوح
رسولؐ اللہ کی آخری وصیت
اسلام کے لیے سب سے بڑا خطرہ
مغرب کی اندھی تقلید
کلمۂ جامعہ
متَّحدہ قومیّت اور اسلام
غیرعلمی زاویۂ نظر
اثباتِ مُدعا کے لیے حقائق سے چشم پوشی
قومیں اوطان سے کہاں بنتی ہیں؟
لُغت اور قرآن سے غلط استدلال
ایک اور لفظی مغالطہ
بناء فاسد علی الفاسد
افسوس ناک بے خبری
وطنی قومیّت کا حقیقی مُدعا
اِشتِراکِ لفظی کا فتنہ
کیا ہندوستان کی نجات نیشنلزم میں ہے؟
نیشنلزم بربنائے مصلحت
نیشنلزم اور اسلام
یورپین نیشنلزم کی حقیقت
مغربی نیشنلزم اور خدائی تعلیم کا بنیادی اختلاف
مغربی نیشنلزم کا انجام
دنیا نیشنلزم کی لعنت میں کیوں مبتلا ہے؟
نیشنلزم ہندوستان میں
نیشنلزم کے لوازم
کیا ہندوستان کی نجات نیشنلزم میں ہے؟
ہندوستانی نیشنلزم کس طرح پیدا ہوسکتا ہے؟
کیا ہندوستان کا کوئی بہی خواہ یہاں نیشنلزم کا خواہش مند ہوسکتا ہے؟
فرنگی لباس
اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
استدراک

مسئلہ قومیت

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

یورپین نیشنلزم کی حقیقت

یہ تو وہ بات تھی جو نیشنلزم کے بالکل ابتدائی مفہوم پر غور کرنے سے نکلتی ہے۔ اب ہمیں ذرا آگے بڑھ کر یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ ’’یورپین نیشنلزم‘‘ کیا چیز ہے جس کے اصول پر مولانا سندھی ہندوستان میں نیشنلزم کی ترقی چاہتے ہیں۔
قدیم جاہلیت میں قومیت کا تصور اچھی طرح پختگی کو نہیں پہنچا تھا۔ قوم کی جگہ انسان کے جذبات زیادہ تر نسل یا قبیلہ کے ساتھ وابستہ ہوتے تھے۔ اس لیے اس زمانہ میں قوم پرستی کے بجائے نسل پرستی کا زور تھا، اور اس نسلی عصبیت میں بڑے بڑے عالی دماغ فلسفی اور حکیم تک اندھے ہوجاتے تھے۔ ارسطو جیسا بلندپایہ مفکر اپنی کتاب ’’السیاست‘‘ میں یہ خیال ظاہر کرتا ہے کہ ’’فطرت نے وحشی قوموں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ غلام بن کر رہیں‘‘۔{ کتاب اوّل}
اس کے نزدیک دولت حاصل کرنے کے فطری اور جائز ذرائع میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ’’نوعِ انسانی کے ایسے طبقات کو غلام بنانے کے لیے جنگ کی جائے جنھیں فطرت نے اسی غرض کے لیے پیدا کیا ہے‘‘۔{ باب دوم و ششم
} یہ نظریہ اور زیادہ بھیانک ہوجاتا ہے جب ہم اس کے ساتھ اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں کہ یونانیوں کے نزدیک وحشی (Barbarians) کے معنی محض ’’غیریونانی‘‘ کے تھے اور ان کا بنیادی تصور یہ تھا کہ یونانی لوگوں کے اَخلاق اور انسانی حقوق دوسرے انسانوں سے بالکل مختلف ہیں۔
یہ اس نیشنلزم کا ابتدائی جرثومہ تھا جس نے بعد کو یورپ میں ترقی کی۔ اس جرثومہ کے نشوونما کو جو طاقت ایک مدت تک روکتی رہی وہ مسیحیت کی طاقت تھی۔ ایک نبی ؑکی تعلیم، اگرچہ وہ کیسی ہی بگڑی ہوئی صورت میں ہو، بہرحال نسل پرستی اور قوم پرستی کی جگہ ایک وسیع انسانی نقطۂ نظر ہی لیے ہوئے ہوسکتی تھی۔ اس کے ساتھ رومن ایمپائر کے عالم گیر نظام نے بھی کم از کم اتنا کام کیا کہ بہت سی چھوٹی قوموں کو ایک مشترک اقتدار کا مطیع و فرماں بردار بنا کر قومی اور نسلی تعصبات کی شدت کو کم کر دیا۔ اس طرح صدیوں تک پوپ کا رُوحانی اور شہنشاہ کا سیاسی اقتدار، دونوں مل جل کر عالم مسیحی کو ایک رشتے میں باندھے رہے۔ مگر یہ دونوں طاقتیں ظلم و ستم میں اور علمی و عقلی ترقی کی مخالفت میں ایک دوسرے کی مددگار تھیں، اور دُنیوی اقتدار اور مادی فوائد کی تقسیم میں باہم حریف و معاند تھیں۔ ایک طرف ان کی آپس کی کش مکش نے ، دوسری طرف ان کی بداعمالیوں اور ظلم و ستم نے اور تیسری طرف جدید علمی بیداری نے سولہویں صدی میں وہ سیاسی اور مذہبی تحریک پیدا کی جسے تحریک ِ اصلاح (ریفارمیشن) کہتے ہیں۔
اس تحریک کا یہ فائدہ تو ضرور ہوا کہ پوپ اور شہنشاہ کے اس اقتدار کا خاتمہ ہوگیا جو ترقی اور اصلاح کا دشمن تھا۔ لیکن اس سے یہ نقصان بھی ہوا کہ جو قومیں ایک رشتہ میں بندھی ہوئی تھیں وہ بکھر گئیں۔ریفارمیشن اس روحانی رابطہ کا بدل فراہم نہ کرسکا جو مختلف مسیحی اقوام کے درمیان قائم تھا۔ مذہبی اور سیاسی وحدت کا تعلق ٹوٹنے کے بعد جب قومیں ایک دوسرے سے الگ ہوئیں تو ان کی جدا جدا خودمختار قومی ریاستیں وجود میں آنے لگیں۔ ہرقوم کی زبان اور لٹریچر نے الگ الگ ترقی کرنی شروع کی اور ہرقوم کے معاشی مفاد دوسری ہمسایہ قوموں سے مختلف ہوتے گئے۔ اس طرح نسلی، سیاسی، معاشی اور تہذیبی بنیادوں پر قومیت کا ایک نیا تصور پیدا ہوا جس نے نسلی عصبیت کےقدیم جاہلی تصور کی جگہ لے لی۔ پھر مختلف قوموں میں نزاع، چشمک اور مسابقت (competition) کا سلسلہ شروع ہوا۔ لڑائیاں ہوئیں، ایک قوم نے دوسری قوموں کے حقوق پر ڈاکے ڈالے۔ ظلم اور شقاوت کے بدترین مظاہرے کیے گئے جن کی وجہ سے قومیت کے جذبات میں روز بروز تلخی پیدا ہوتی چلی گئی، یہاں تک کہ قومیت کا احساس رفتہ رفتہ ترقی کر کے قوم پرستی (نیشنلزم) میں تبدیل ہوگیا۔
یہ قوم پرستی جس کا نشوونما اس طور پر یورپ میں ہوا ہے، چوں کہ ہمسایہ قوموں کے ساتھ مسابقت اور تصادم سے پیدا ہوئی ہے اس لیے اس میں لازماً چار عناصر پائے جاتے ہیں:
۱- قومی افتخار کا جذبہ جو اپنی قومی روایات اور خصوصیات کی محبت کو پرستش کی حد تک بڑھا لے جاتا ہے، اور دوسری قوموں کے مقابلہ میں اپنی قوم کو ہرلحاظ سے بالاو برتر قرار دیتا ہے۔
۲- قومی حمیت کا جذبہ جو حق اور انصاف کے سوال کو نظرانداز کرکے آدمی کو ہرحال میں اپنی قوم کا ساتھ دینے پر آمادہ کرتا ہے خواہ وہ حق پر ہو یا ناحق پر۔
۳- قومی تحفظ کا جذبہ جو قوم کے واقعی اور خیالی مفادات کی حفاظت کے لیے ہرقوم کو ایسی تدابیر اختیار کرنے پر آمادہ کرتا ہے جو مدافعت سے شروع ہوکر حملہ پر ختم ہوتی ہیں، مثلاً معاشی مفاد کی حفاظت کے لیے محصولات درآمد و برآمد کو گھٹانا بڑھانا، غیرقوموں کی مہاجرت پر پابندیاں عائد کرنا، اپنے حدود میں دوسروں کے لیے کسب ِ معاش اور شہری حقوق کے دروازے بند کرنا، دفاعِ ملکی کے لیے دوسروں سے بڑھ چڑھ کر فوجی طاقت فراہم کرنا، دفاعِ ملکی کے لیے دوسروں سے بڑھ چڑھ کر فوجی طاقت فراہم کرنا، اور دوسروں کے ملک میں اپنی قوم والوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے دوڑ جانا۔
۴- قومی استعلاء و استکبار (National Aggrandisement) کا جذبہ جو ہر ترقی یافتہ اور طاقت ور قوم کے اندر یہ داعیہ پیدا کرتا ہے کہ وہ دُنیا کی دوسری قوموں پر غالب اور برتر ہو، دوسروں کے خرچ پر اپنی خوش حالی بڑھائے، اپنے آپ کو پس ماندہ قوموں میں تہذیب پھیلانے کی خدمت پر خود بخود مامور سمجھے اور دوسرے ممالک کی قدرتی دولت سے استفادہ کرنے کو اپنا پیدائشی حق قرار دے۔
یہی ہے وہ یورپ کا نیشنلزم جس کے نشہ میں سرشار ہوکر کوئی پکارتا ہے: ’’جرمنی سب سے اُوپر‘‘، کوئی نعرہ بلند کرتا ہے ’’امریکا خدا کا اپنا ملک ہے‘‘۔ ’’کوئی اعلان کرتا ہے ’’اٹلی ہی مذہب ہے‘‘۔ کسی کی زبان سے دُنیا کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ ’’حکومت کرنا برطانیہ کا حق ہے‘‘۔ اور ہر قوم پرست اس مذہبی عقیدے پر ایمان لاتا ہے کہ ’’میرا ملک! خواہ حق پر ہو یا ناحق پر‘‘۔ یہ قوم پرستی کا جنون آج دُنیا میں انسانیت کے لیے سب سے بڑی لعنت ہے۔ انسانی تہذیب کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ یہ انسان کو اپنی قوم کے سوا ہر دوسری قوم کے لیے درماندہ بنا دیتا ہے۔
اس نیشنلزم کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ آدمی اپنی قوم سے محبت رکھتا ہے اور اس کو آزاد، خوش حال اور برسرِ ترقی دیکھنا چاہتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ ایک شریف جذبہ ہوتا۔ لیکن درحقیقت محبت سے زیادہ عداوت، نفرت اور انتقام کے جذبات اس کو جنم دیتے اور پرورش کرتے ہیں۔ اس کا مادۂ حیات دراصل وہ آگ ہے جو قومیت کے مجروح جذبات اور کچلے ہوئے قومی حوصلوں سے دل میں بھڑک اُٹھتی ہے ، اور یہ آگ، یہ حمیت جاہلیہ قومی محبت کے شریفانہ جذبہ کو بھی حد سے بڑھ کر ایک ناپاک چیز بنا دیتی ہے۔ بظاہر اس کا آغاز ان بے انصافیوں کی تلافی کرنے کی غرض سے ہوتا ہے جو کسی قوم کے ساتھ کسی دوسری قوم یا قوموں نے، واقعی یا خیالی طور پر کی ہوں لیکن چونکہ کوئی اَخلاقی ہدایت، کوئی روحانی تعلیم، کوئی الٰہی شریعت اس کی رہنمائی کرنے والی اور اس کو ضابطہ میں رکھنے والی نہیں ہوتی اس لیے یہ اپنی حد سے گزر کر قیصریت (Imperialism) معاشی قوم پرستی (Economic Nationalism)، نسلی منافرت، جنگ اور بین بدامنی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ زمانہ حال کا ایک مصنف فرانس کوکر (Francis W. Cocker) لکھتا ہے:
’’بعض قوم پرست اہلِ قلم دعویٰ کرتے ہیں کہ آزادانہ زندگی بسر کرنے کا حق دُنیا کی صرف ترقی یافتہ قوموں کو ہے۔ ان قوموں کو جو ایسا اعلیٰ درجہ کا تہذیبی اور روحانی سرمایہ رکھتی ہیں جو اس کا مستحق ہے کہ دُنیا میں باقی رکھا جائے اور پھیلایا جائے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ ایک اعلیٰ درجہ کی مہذب قوم کا حق اور فریضہ صرف یہی نہیں ہے کہ وہ اپنی آزادی کی حفاظت کرے اور اپنے اندرونی معاملات کو دوسروں کی مداخلت کے بغیر سرانجام دے بلکہ اس کا حق اور فرض یہ بھی ہے کہ اپنے دائرۂ اثر کو ان قوموں پر پھیلائے جو نسبتاً پسماندہ ہیں، خواہ اس کے لیے قوت ہی کیوں نہ استعمال کرنی پڑے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک اُونچے درجے کی قوم اپنا ایک عالم گیر منصب رکھتی ہے، اسے اپنی قابلیتوں کو صرف اپنی ہی سرزمین میں مدفون کردینے یا خود غرضی کے ساتھ صرف اپنی ہی ترقی کے لیے استعمال کرنے کا حق نہیں… یہی نظریہ اور یہی استدلال تھا جسے عموماً انیسویں صدی کے آخری دور میں ملک گیر کی تائید کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اسی محبت کو پیش کرکے افریقہ اور بحرالکاہل کی ’’نیم مہذب‘‘ قوموں کو یورپ اور امریکا کی سلطنتوں کا تابع فرمان بنایا گیا تھا‘‘۔
آگے چل کر وہ لکھتا ہے:
’’یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک بڑی قوم صرف یہی حق نہیں رکھتی کہ براہِ راست جو حملہ اس پر کیا جائے اس کی مدافعت کرے، بلکہ یہ بھی اس کا حق ہے کہ ہراس چیز کی مزاحمت کرے جس سے اس کے ایسے مفاد پر زد پڑتی ہو جو اس کی خودمختارانہ زندگی اور خوشحالی کے لیے خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کی زندگی کے لیے صرف یہی کافی نہیں ہے کہ بس اپنی سرحدوں کی حفاظت کرلے، اور اپنے مادی وسائل پر خودقابو یافتہ رہے، اور اپنی عزت کو پامال نہ ہونے دے۔ نہیں، اسے اگر زندہ رہنا ہے تو اس سے زیادہ بھی کچھ کرنا پڑے گا۔ اس کو بڑھنا چاہیے، پھیلنا چاہیے، اپنی فوجی طاقت بڑھانی چاہیے،اپنا قومی دبدبہ قائم کرنا چاہیے، ورنہ وہ رفتہ رفتہ گرتی چلی جائے گی اور بالآخر قوموں کی مسابقت میں اس کا وجود محو ہوکر رہ جائے گا۔ جو قومیں اپنے مفاد کی حفاظت کرنے اور اپنے سیاسی و معاشی نفوذ و اثر کا دائرہ بڑھانے میں زیادہ کامیاب ہوتی ہیں وہی زندہ رہنے کی زیادہ حق دار ہیں۔ جنگ قومی توسیع کا فطری ذریعہ ہے ، اور جنگ میں فتح یات ہونا قوم کے اصلح (Fittest) ہونے کی دلیل ہے۔ ڈاکٹر بیج ہاٹ کے بقول وہ جنگ ہی ہے جو قوموں کو بناتی ہے‘‘۔
اس کے بعد وہ لکھتا ہے:
’’(ڈارون کے نظریۂ ارتقاء کو بھی ان خیالات کی تائید میں غلط طور پر استعمال کیا گیا ہے)۔ ارنسٹ ہیکل (Ernist Hackel) جو جرمنی میں ڈاروینیٹ کا پہلا اور سب سے زیادہ بااثر پیغمبر گزرا ہے اور جس نے اپنے علم الحیات کے (Biological) نظریات کو نہایت ہوشیاری کے ساتھ فلسفہ اور اجتماعیات (Sociology) میں استعمال کیا ہے، خودغرضی و خود پرستی کو عالم گیر قانونِ حیات قرار دیتاہے اور کہتا ہے کہ یہ قانون انسانی سوسائٹی کے اندر ایک طرح کی نسلی مردم خوری کی صورت میں جاری ہوتا ہے۔ اس کی رائے میں زمین ان تمام نسلی گروہوں کے لیے کافی سامانِ زندگی نہیں رکھتی جو اس کی آغوش میں جنم لیتے ہیں ، لہٰذا کمزور گروہ فنا ہوجاتے ہیں، نہ صرف اس وجہ سے کہ زمین کے محدود وسائل زندگی سے فائدہ اُٹھانے کے لیے جو عام تنازع برپا ہوتا ہے اس میں وہ دوسرے گروہوں کا کامیاب مقابلہ نہیں کرسکتے، بلکہ اس وجہ سے بھی کہ زیادہ طاقت ور گروہوں کے فاتحانہ اقدامات کی مدافعت کا کس بل ان میں نہیں ہوتا۔ اسی طرح کارل پیرسن (Karl Pearson) بین الاقوامی کش مکش کو ’’نوعِ انسانی کی فطری تاریخ‘‘ کا ایک شعبہ قرار دیتا ہے۔ اس کا دعویٰ یہ ہے کہ زندگی کے علمی تصور (Scientific view of life )کی رُو سے انسانی تہذیب و تمدن کا ارتقا دراصل اس نزاع و جدال کی وجہ سے ہوتا ہے جو صرف افراد ہی کے درمیان نہیں بلکہ قوموں کے درمیان بھی دائماً برپا رہتی ہے۔ جب ایک اعلیٰ درجہ کی قوم اپنی کمزور نسلوں کو مٹانے اور صرف طاقت ور نسلیں پیدا کرنے کا انتظام کرکے اندرونی حیثیت سے اپنی صلاحیت بڑھا لیتی ہے، تب وہ دوسری قوموں سے مقابلہ کرکے بیرونی حیثیت سے اپنی صلاحیت (Fitness) کو ترقی دینا شروع کرتی ہے۔ اس نزاع میں کمزور (غیرصالح) قومیں کچلی جاتی ہیں۔ طاقت ور (صالح) قومیں باقی رہتی ہیں اور اس طرح مجموعی حیثیت سے پوری نوعِ انسانی کا قدم ترقی کی طرف بڑھتا ہے۔ ایک قوم دوسری عالی مقام قوموں کے ساتھ اپنی برابری کا ثبوت اسی طرح دے سکتی ہے کہ وہ ان سے تجارتی راستوں اور خادم پیداوار کے وسائل اور سامانِ غذا کے ذخائر کے لیے پیہم مجاہدہ کرتی رہے۔ فروتر درجہ کی قوموں (کمزور قوموں) سے واسطہ پڑنے کی صورت میں اگر وہ ان کے ساتھ مساوات کا برتائو کرتی اور ان سے گھلتی ملتی ہے تو گویا خود ہی اپنے دعویٰ بالاتری سے دستبردار ہوجاتی ہے اور اگر وہ انھیں زمین سے نکال کر خود قبضہ کرلیتی ہے، یا انھیں زمین میں باقی رکھ کر اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتی ہے تو اپنی بالاتری ثابت و قائم کردیتی ہے‘‘۔{ Recent Political Thought. New York, 1934. pp 443-48}
ایک دوسرا مصنف جوزف لیٹن (Joseph lighten) لکھتا ہے:
’’پندرھویں صدی سے دُنیا کی تاریخ زیادہ تر قومی ریاستوں کے درمیان معاشی رقابتوں کی داستان ہے۔ معاشی قوم پرستی روز بروز قوموں کے درمیان تصادم کا سبب بنتی چلی گئی ہے۔ پہلے تجارت کے میدان میں مزاحمت کا سلسلہ چلتا ہے، پھر جنگ ہوتی ہے۔ امریکا ، افریقہ، سات سمندروں کے جزائر اور ایشیا کے ایک بڑے حصے پر تسلط، نوآبادیوں کا قیام اور ان ممالک کے معاشی وسائل سے انتفاع (Exploitation) یہ سب کچھ اسی داستانِ قزاقی کے مختلف ابواب ہیں۔ اگرچہ یہی سب ذرا چھو ٹے پیمانہ پر اس وقت بھی ہوا تھاجب زوال روما کے بعد وحشی قومیں تاخت و تاراج کرتی ہوئی پھیل گئی تھیں۔ مگر فرق یہ ہے کہ رومن ایمپائر کے باقیات سے تو مذہبی ، اَخلاقی اور تہذیبی بنیادوں پر ایک بین الاقوامی نظام تعمیر ہوگیا تھا۔ لیکن دُنیائے جدید میں یہ نہ ہوسکا‘‘۔{ } Social phiosophies in Conflict New York, 1937. pp439}
دوسری جگہ یہی مصنف لکھتا ہے:
’’جب ایک ایسی قوم جو تہذیبی وحدت رکھتی ہو، سیاسی حیثیت سے خودمختار، اور معاشی حیثیت سے متَّحد الاَغراض ہوتی ہے، اور اس تہذیبی و سیاسی و معاشی قومیت میں اپنی عظمت اور برتری کے احساسات اُبھر آتے ہیں تب معاشی قوم پرستی اپنی شدید تر صورت میں رُونما ہوئے بغیر نہیں رہتی کیونکہ دُنیا کی مختلف قوموں کے درمیان مسابقت و مزاحمت کا جو سسٹم اس وقت قائم ہے اس کا لازمی نتیجہ یہی قوم پرستی ہے اور یہ قوم پرستی بہت جلدی معاشی امپیریلزم میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ قومیں تجارتی فوائد کے لیے ایک دوسرے کے خلاف جدوجہد کرتی ہیں اور بیرونی ممالک میں منڈیوں اور پس ماندہ ممالک کی معاشی دولت پر قبضہ کرنے کے لیے ان کے درمیان کش مکش ہوتی ہے۔
’’سیاسی اور معاشی نیشنلزم کی گتھی (جس کو سلجھانے کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوئی) یہ ہے کہ ایک طرف قومی ریاست کا وجود ایک قوم کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے ، اور اس کی محض معاشی خوش حالی ہی نہیں بلکہ اس کی تہذیبی ترقی، اس کی تعلیم، اس کے سائنس، اس کے فنون ، غرض اس کی ہر چیز کے نشوونما کا انحصار قومی ریاست کے پھلنے پھولنے ہی پر ہے۔ لیکن دوسری طرف موجودہ مسابقت کے ماحول میں خودبخود معاشی نیشنلزم پیدا ہوجاتا ہے۔ ہرقوم دوسری قوموں کے نقصان پر پھلنے پھولنے کی کوشش کرتی ہے، اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قوموں کے درمیان رقابت ، شبہات، خوف اور نفرت کے جذبات پرورش پاتے ہیں۔ معیشت کے میدان میں بین الاقوامی مسابقت سے لے کر کھلے میدان میں فوجی تصادم تک سیدھا راستہ جاتا ہے اور یہ بہت قریب کا راستہ ہے‘‘۔{ حوالۂ مذکور، ص ۴-۵ }

شیئر کریں