Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مسلمانوں کا ماضی وحال اور مستقبل کے لیے لائحہ عمل
ایک غلط فہمی کا ازالہ
پچھلی تاریخ کا جائزہ
ہماری غلامی کے اسباب
دینی حالت
اخلاقی حالت
ذہنی حالت
مغربی تہذیب کی بنیادیں
مذہب
فلسفۂ حیات
ہیگل کا فلسفۂ تاریخ
ڈارون کا نظریۂ ارتقا
مارکس کی مادی تعبیرِ تاریخ
اَخلاق
سیاست
فاتح تہذیب کے اثرات
تعلیم کا اثر
معاشی نظام کا اثر
قانون کا اثر
اخلاق ومعاشرت کا اثر
سیاسی نظام کا اثر
ہمارا ردِّعمل
انفعالی ردِّ عمل
جمودی ردِّ عمل
ہم کیا چاہتے ہیں؟
یَک سُوئی کی ضرورت
ہمارا لائحۂ عمل

مسلمانوں کا ماضی و حال اور مستقبل

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

ہیگل کا فلسفۂ تاریخ

ان میں سے پہلا نظریہ وہ ہے جو ہیگل نے تاریخ انسانی کی تعبیر کے سلسلے میں پیش کیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تاریخ کے ایک دَورمیں انسانی تہذیب وتمدن کا جو نظام بھی ہوتا ہے وہ اپنے تمام شعبوں اور اپنی تمام شکلوں سمیت دراصل چند مخصوص تخیلات پر مبنی ہوتا ہے جو اسے ایک دورِ تہذیب بناتے ہیں۔ یہ دور تہذیب جب پختہ ہو چکتا ہے تو اس کی کم زوریاں واضح ہونی شروع ہوتی ہیں اور اس کے مقابلے میں کچھ دوسرے تخیلات ابھرنے شروع ہوتے ہیں جو اس سے جنگ شروع کر دیتے ہیں۔ اس نزاع وکش مکش سے ایک نیا دور تہذیب جنم پاتا ہے جس میں پچھلے دورِ تہذیب کے باقیاتِ صالحات بھی رہ جاتے ہیں اور کچھ نئی خوبیاں بھی ان تخیلات کے اثر سے پیدا ہو جاتی ہیں۔ جن کی یلغار سے مجبور ہو کر پچھلے دور کے غالب تخیلات بالآخر مصالحت پر مجبور ہوئے تھے۔ پھر یہ دورِ تہذیب بھی پختگی کو پہنچ کر اپنے ہی بطن سے اپنے چند مخالف تخیلات کو جنم دیتا ہے، اور پھر نزاع وکش مکش برپا ہوتی ہے اور پھر دونوں کی مصالحت سے ایک تیسرا دَور وجود میں آتا ہے، جو پچھلے دَور کی خوبیاں اپنے اندر باقی رکھتا ہے اور ان کے ساتھ نئے تخیلات کی لائی ہوئی خوبیاں بھی جذب کر لیتا ہے۔
اس طرح ہیگل نے انسانی تہذیب کے ارتقا کی جو تشریح کی اس سے عام طور پر ذہنوں نے یہ اثر قبول کر لیا کہ پچھلا ہر دَورِ تہذیب اپنے اپنے وقت پر اپنی خامیوں اور کم زوریوں کی وجہ سے ختم ہوا ہے اور اپنی خوبیاں ہر بعد کے دورِ تہذیب میں چھوڑ گیا ہے۔ بالفاظ دیگر اب جس دور تہذیب سے آپ گزر رہے ہیں، وہ گویا خلاصہ ہے ان تمام اجزائے صالحہ کا جو پہلے گزرے ہوئے ادوارِ تہذیب میں پائے جاتے تھے۔ آگے اگر کسی ترقی کا امکان ہے تو ان نئے تخیلات میں ہے جو اس دَورِ تہذیب کے بنیادی تخیلات سے جنگ کرنے کے لیے اٹھیں۔ پچھلے ادوار میں کوئی چیز ایسی موجود نہیں ہے جس سے ہدایت وراہ نمائی حاصل کرنے کے لیے اب پیچھے پلٹ کر دیکھنے کی ضرورت ہو۔ کیوں کہ ان کے جو اجزا بعد کے ادوارِ تہذیب میں جذب نہیں ہوئے ان کو آزما کر اور ناقص پا کر انسانی تاریخ پہلے ہی ٹھکرا چکی ہے۔ ہمارا تاریخی ذوق ان کی کسی چیز کی اگر کوئی قدر کر سکتا ہے تو اس حیثیت سے کر سکتا ہے کہ وہ اپنے وقت میں ایک قابلِ قدر چیز رہ چکی ہے اورانسانی تہذیب کے ارتقا میں اپنے حصے کا کام انجام دے چکی ہے، مگر وہ آج اس دَور کے لیے نہ قابلِ قدر ہے نہ کسی طرح مطمح نظر بننے کی مستحق۔ اس لیے کہ تاریخ اس کے بارے میں پہلے ہی اپنا فیصلہ دے چکی۔
آپ ذرا غور کریں کہ درحقیقت یہ کیسا خطرناک فلسفہ ہے۔ تہذیب انسانی کی تاریخ کا یہ تصور جس شخص کے ذہن میں اتر جائے، کیا آپ توقع کر سکتے ہیں، کہ اس کے دل میں پھر ان ادوارِ تہذیب کی کچھ بھی قدروقیمت باقی رہ سکتی ہے جن میں ابراہیم ؑ اور موسیٰ ؑ اور محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم گزرے ہیں؟ کیا وہ کبھی دَورِ نبوت اور خلافتِ راشدہ کی طرف بھی ہدایت وراہ نمائی کے لیے رجوع کر سکتا ہے؟ دراصل یہ ایک ایسا مدلل اور منظم فکری حملہ ہے جس کی ضرب اگر کسی ذہن پرکاری لگ جائے تو اس میں سے دینی تخیل کی جڑ ہی کٹ کر رہ جاتی ہے۔( یہاں اس فلسفۂ تاریخ پر تنقید کرنے کا کوئی موقع نہیں ہے۔ اس کی غلطیاں اگر کوئی صاحب سمجھنا چاہیں تو وہ ہماری کتاب تفہیمات حصہ دوم (ص ۳۲۵۔۲۱۳) مطبوعہ اسلامک پبلی کیشنز(پرائیویٹ) لمیٹڈ لاہور اور تفہیم القرآن جلد اول سورۂ مائدہ، حاشیہ ۳۵))

شیئر کریں