Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرض ناشر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دنیائے اسلام
غیر شعوری مسلمان
مسلمان ہونے کے معنی
ہم کیا چاہتے ہیں؟
آپ کے فرائض
آپ کا پہلا کام
آپ کا دوسرا کام
آپ کا تیسرا کام
آپ کا چوتھا کام
ایک فیصلہ طلب سوال
نازک وقت آ رہا ہے
حکومت اور رائے عام
اسلامی حکومت میں خواتین کے حقوق
مغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب کا فرق
پورا اسلام یا پوری فرنگیت

مسلم خواتین سے اسلام کے مطالبات

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

ہم کیا چاہتے ہیں؟

اسلام کی اس مختصر تشریح کے بعد اب میں عرض کروں گا کہ ہم دینِ اسلام کے خادم اورکارکن کیا چاہتے ہیں۔
ہماری دعوت سب لوگوں کو یہ ہے کہ وہ اسلام کو جس کی حقیقت یہ ہے، اچھی طرح جانچ کر، پرکھ کر یہ فیصلہ کریں کہ وہ اسے اپنی زندگی کے دین کی حیثیت سے قبول کرتے ہیں یا نہیں، جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں، اسلام پیدائش سے حاصل نہیں ہوتا، نسل اور نسب سے نہیں مل جاتا ، پس یہ ضروری ہے کہ اس سوال کو آپ کے سامنے رکھا جائے، اور آپ سے صاف صاف پوچھا جائے کہ آیا فی الواقع آپ اُسے برضا ورغبت قبول کرتی ہیں یا نہیں؟
آپ اس کی عائد کردہ پابندیوں کو اٹھانے پر راضی ہیں یا نہیں؟ آپ کو ایمان کے کھونٹے اور اطاعت کی رسی سے بندھ جانا منظور ہے یا نہیں؟ اگر کسی کو یہ دین پسند نہ ہو اور اسلام کے اصول وحدود کے اندر رہنا گوارا نہ ہو تو اسے پورا اختیار ہے کہ وہ اسے چھوڑ دے، لیکن چھوڑنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ صاف صاف اُسے رد کر دے، اپنا نام بدلے، اپنا تعلق مسلمان سوسائٹی سے منقطع کر لے، اپنے آپ کو مسلمان کہنا چھوڑ دے اور پھرآزادی کے ساتھ جس راہ پر جانا چاہے جائے۔ اپنے نئے مسلک کے مطابق جونام پسند ہو، اُسے اختیار کرے اورجو سوسائٹی اُسے مرغوب ہو اس میں شامل ہو جائے یا اپنے ہم خیال لوگوں کو ساتھ لے کر کوئی نئی سوسائٹی بنائے۔ بہرحال یہ فریب اور یہ مسخرا پن اب ختم ہونا چاہیے جو آج کل لوگوں نے اختیار کر رکھا ہے کہ اسلام پسند بھی نہیں ہے، اس کی پیروی پرراضی بھی نہیں ہیں، خیال اور عمل میں اُسے چھوڑ کر دوسرے طریقے اختیار بھی کر چکے ہیں، مگر اصرار ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان کہلائے جانے پر ہی مصر نہیں ہیں بلکہ اسلام کے علمبردار اور اس کے مفتی بھی بنے پھرتے ہیں۔ یہ کھیل بہت دنوں کھیلا جا چکا، اب ہم اسے چلنے نہیں دیں گے۔ اسی طرح یہ منافقانہ رویہ بھی ختم ہو جانا چاہیے کہ اسلام کی جو چیزیں اپنے مفاد اور اغراض کے مطابق نظر آئیں وہ تو قبول کر لی جائیں اور جوچیزیں خواہش نفس کے مطابق نہ ہوں انہیں رد کر دیا جائے یہ افتُومِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتَابِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبعْضٍ{ ترجمہ: کیاتم کتاب کے کچھ حصہ کو مانتے ہو اور کچھ کا انکار کرتے ہو۔ } کا مصداق ہے جس کا طعنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہودیوں کو دیا گیا تھا کہ کتاب الٰہی سے اپنی پسند کی چیزوں کو تو لے لیتے ہیں اور جوپسند نہ ہوں انہیں رد کر دئیے ہیں۔ یہ نفس پرستی اور خواہش کی بندگی کا جعلی سکہ اب ایمان کے نام سے نہیں چل سکتا۔ کسی شریف آدمی کے لیے بھی یہ جعل سازی اور فریب کاری باعزت نہیں ہے کہ اپنے مطلب کے لیے تو وہ مسلمان ہو اور اسلام کے نام پر اپنے حقوق مانگے مگر اسلام کی پیروی کے لیے وہ مسلمان نہ ہو۔ ہم ہر شخص کے سامنے یہ سوال رکھتے ہیں اور اس کا دو ٹوک جواب چاہتے ہیں کہ تمہیں اسلام اپنے طریقِ زندگی کی حیثیت سے پسند ہے یا نہیں؟ پسند نہیں ہے تو براہِ کرم صاف انکار کرو اور ملت کے دائرے سے باہر ہو جائو، اور اگر پسند ہے اور فی الحقیقت تم مسلمان رہنا چاہتے ہو تو سچے دل سے اُسے قبول کرو۔ اسلام کے ایک جز یا چند اجزاء کو نہیں بلکہ پورے اسلام کو لو، سیدھی طرح اطاعت کا رویہ اختیار کرو اور اسلام کو اپنا دین مان لینے کے بعد پھر آزادی کا دعویٰ مت کرو۔ مسلمان ہونے کے بعد کسی کو یہ کہنے کا حق رہتا ہی نہیں کہ ہم اپنی عقل اور اپنی پسند کے مطابق جو طریقے چاہیں گے اختیار کریں گے۔ اسلام اس آزادی کو آپ کا حق نہیں مانتا۔
یہ بات ہمیں صرف مردوں ہی سے نہیں کہنی ہے، بلکہ عورتوں سے بھی یہی کچھ ہم کہنا چاہتے ہیں۔ ہم عورتوں سے گذارش کرتے ہیں کہ وہ اپنی شخصیتوں کو مردوں کی شخصیتوں میں گم نہ کر دیں۔ اپنے دین کو مردوں کے حوالے نہ کریں۔ وہ مردوں کا ضمیمہ نہیں ہیں ، ان کی اپنی ایک مستقل شخصیت ہے۔ عورتوں کو بھی مردوں ہی کی طرح خدا کے رو برو پیش ہونا ہے اور اپنے اعمال وافعال کا خود حساب دینا ہے۔ قیامت کے روز ہر عورت اپنی ہی قبر سے اٹھے گی۔ اپنے باپ یا شوہر یا بھائی کی قبر سے نہیں اٹھے گی۔ اپنے اعمال کا حساب دیتے وقت وہ یہ کہہ کر نہ چھوٹ جائے گی کہ میرا دن میرے مردوں سے پوچھو، اپنے طریقِ زندگی کی وہ خود ذمہ داری ہے، اور اُسے خدا کے سامنے اس بات کی جواب دہی کرنی ہو گی کہ وہ جس طریقہ پر چلتی رہی کیا سوچ کر چلتی رہی۔ لہٰذا ہم عورتوں کا سوال مردوں کے سامنے نہیں خود عورتوں کے سامنے پیش کرتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ اپنی راہِ زندگی کا فیصلہ تم خود کرو اور اس امر کا لحاظ کیے بغیر کرو کہ تمہارے مردوں کا فیصلہ کیا ہے۔ اسلام تمہیں اپنے دین کی حیثیت سے پسند ہے یا نہیں؟ اس کے اصول، اس کے حدود، اس کی عائد کی ہوئی پابندیاں، اس کی ڈالی ہوئی ذمہ داریاں، غرض ساری ہی چیزیں دیکھ کر فیصلہ کرو کہ وہ تمہیں قبول ہے یا نہیں؟ اگر ان سب چیزوں کے ساتھ اسلام قبول ہے تو سچے دل سے اس کی پیروی کرو، ادھورے نہیں بلکہ پورے اسلام کو اپنا دین بنائو اورپھر جان بوجھ کر اس سے انحراف نہ کرو اور اگر قبول نہیں ہے تو شرافت اور سچائی اسی میں ہے کہ صاف صاف اور اعلانیہ اسے چھوڑ دو اور اس کے نام سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرو۔
یہ بات ایک مدت سے ہم کہہ رہے ہیں، اور آپ کو اگر ہمارے لٹریچر سے کچھ واقفیت ہو اور آپ اس سے مطلع ہوں تو آپ بھی اس بات کو جانتی ہوں گی کہ ہم نے ہمیشہ اپنے ساتھیوں اور رفیقوں سے یہی کہا ہے کہ آپ گھر کی عورتوں، مائوں، بہنوں، بیویوں، بیٹیوں پر اسلام کی تبلیغ ضرور کریں، مگر خدا کے لیے انہیں قوامیت کے زور سے اپنے مسلک کی طرف نہ کھینچیں۔ انہیں سوچنے کی، رائے قائم کرنے کی پوری آزادی دیں۔ تبلیغ کا حق بس اتنا ہی ہے کہ آپ اسلام کے مطالبے کو ان کے سامنے رکھیں۔ اس کے بعد عورتوں کو اس امر کا فیصلہ خود کرنے کی آزادی ہونی چاہیے کہ انہیں یہ مطالبہ قبول ہے یا نہیں۔

شیئر کریں