پہلے قولی شہادت کا جائزہ لیجیے۔ ہمارے اندر ایک بہت ہی قلیل گروہ ایسا ہے جو کہیں انفرادی طور پر، زبان و قلم سے اسلام کی شہادت دیتا ہے ، اور اس میں ایسے لوگ شاید انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں جو اس شہادت کو اس طرح ادا کر رہے ہیں جیسا اُس کے ادا کرنے کا حق ہے۔ اس شِرذِمَہ قلیل(چھوٹی جماعت) کو اگر آپ الگ کر لیں تو آپ دیکھیں گے کہ مسلمانوں کی عام شہادت، اسلام کے حق میں نہیں، بلکہ اس کے خلاف جا رہی ہے۔ ہمارے زمین دار شہادت دے رہے ہیں کہ اسلام کا قانونِ وراثت غلط ہے اور جاہلیت کے رواج صحیح ہیں۔ ہمارے وکیل، جج اور مجسٹریٹ شہادت دے رہے ہیں کہ اسلام کے سارے ہی قوانین غلط ہیں، بلکہ اسلامی قانون کا بنیادی نظریہ ہی قابلِ قبول نہیں ہے ۔ صحیح صرف وہ قوانین ہیں جو انسانوں نے وضع کیے ہیں اور انگریزوں کی معرفت ہمیں پہنچے ہیں۔ ہمارے معلم، پروفیسر اور تعلیمی ادارے شہادت دے رہے ہیں کہ فلسفہ وحکمت، تاریخ و اجتماعیات، معاشیات و سیاسیات، اور قانون و اخلاق کے متعلق وہی نظریات برحق ہیں جو مغرب کی ملحدانہ تعلیم سے ماخوذ ہیں۔ ان امور میں اسلام کا نقطۂ نظر قابلِ التفات تک نہیں ہے۔
ہمارے ادیب شہادت دے رہے ہیں کہ اُن کے پاس بھی ادب کا وہی پیغام ہے جو امریکا، انگلستان، فرانس اور روس کے دہری ادیبوں کے پاس ہے۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے، ان کے ادب کی سرے سے کوئی مستقل روح ہی نہیں ہے ۔ ہمارا پریس شہادت دے رہا ہے کہ اُس کے پاس بھی وہی مباحث، مسائل اور پروپیگنڈے کے وہی انداز ہیں جو غیرمسلموں کے پاس ہیں۔ ہمارے تاجر اور اہلِ صنعت شہادت دے رہے ہیں کہ اسلام نے لین دین پر جو حدود قائم کیے ہیں وہ ناقابلِ عمل ہیں اور کاروبار صرف انھی طریقوں پر ہو سکتا ہے جن پر کفّار عامل ہیں۔ ہمارے لیڈر شہادت دے رہے ہیں کہ اُن کے پاس بھی قومیت اور وطنیت کے وہی نعرے ہیں، وہی قومی مقاصد ہیں، قومی مسائل کو حل کرنے کے وہی ڈھنگ ہیں، سیاست اور دستور کے وہی اصول ہیں جو کفار کے پاس ہیں۔ اسلام نے اس بارے میں کوئی راہ نُمائی نہیں کی ہے جس کی طرف رجوع کیا جائے۔ ہمارے عوام، شہادت دے رہے ہیں کہ ان کے پاس زبان کا کوئی مَصرف، دنیا اور اس کے معاملات کے سوا نہیں ہے اور وہ کوئی ایسا دین رکھتے ہی نہیں جس کا وہ چرچا کریں، یا جس کی باتوں میں وہ اپنا کچھ وقت صَرف کریں۔ یہ ہے وہ قولی شہادت جو مجموعی طور پر، ہماری پوری اُمّت اِس ملک ہی میں نہیں، ساری دُنیا میں دے رہی ہے۔