Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
شہادتِ حق اُمّتِ مُسلمہ کا فرض اور مقصدِ وجود
اجتماعات کا حصہ
ہماری دعوت
مسلمانوں کی ذِمّہ داریاں
اُمّتِ مسلمہ کا مقصدِ وجود
شہادتِ حق
شہادت کی اہمیت
اُمّت پر اِتمامِ حجت
کوتاہی پر مواخذہ
طریقۂ شہادت
قولی شہادت
عملی شہادت
تکمیلِ شہادت
ہماری قولی شہادت کا جائزہ
ہماری عملی شہادت کا جائزہ
کِتمانِ حق کی سزا
آخرت کی پکڑ
مسلمانوں کے مسائل و حقوق اور اس کا حل
اصل مسئلہ
ہمارا مقصد
ہمارا طریقۂ کار
نظمِ جماعت
کام کے تین راستے
مختلف دینی جماعتیں
شرکاسے ہمارا مطالبہ
مطلوب کام
اعتراضات اور ان کے جوابات
نیافرقہ
اجتہادی مسائل میں ہمارا مسلک
غلو سے پرہیز
امارت میں غلو
اُصولی تحریک
انتخابِ امیر
علیحدہ جماعت بنانے کی ضرورت
امیر یا لیڈر
اسلام کا مزاج
وصولیٔ زکوٰۃ کا حق
بیت المال

شہادتِ حق

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

ہماری عملی شہادت کا جائزہ

اب عملی شہادت کی طرف آئیے۔ اس کا حال، قولی شہادت سے بدتر ہے۔ بلاشبہ کہیں کہیں، کچھ صالح افراد ہمارے اندر ایسے پائے جاتے ہیں جو اپنی زندگی میں اسلام کا مظاہرہ کر رہے ہیں، مگر سوادِ اعظم کا حال کیا ہے ؟
انفرادی طور پر عام مسلمان، اپنے عمل میں اسلام کی جو نمایندگی کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ اسلام کے زیر اثر پرورش پانے والے افراد کسی حیثیت سے بھی، کفر کے تیار کیے ہوئے افراد سے بلند، یا مختلف نہیں ہیں، بلکہ بہت سی حیثیتوں سے اُن کی بہ نسبت فروتر ہیں، وہ جھوٹ بول سکتے ہیں، وہ خیانت کر سکتے ہیں، وہ ظلم کر سکتے ہیں، وہ دھوکا دے سکتے ہیں، وہ قول و قرار سے پھر سکتے ہیں، وہ چوری اور ڈاکا زنی کر سکتے ہیں، وہ دنگا فساد کر سکتے ہیں، وہ بے غیرتی اور بے حیائی کے سارے کام کر سکتے ہیں۔ اِن سب بداخلاقیوں میں ان کا اوسط کسی کافر قوم سے کم نہیں ہے۔
پھر ہماری معاشرت، ہمارا رہن سہن، ہمارے رسم و رواج، ہماری تقریبات، ہمارے میلے اور عرس، ہمارے جلسے اور جلوس، غرض، ہماری اجتماعی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جس میں ہم اسلام کی کسی حد تک بھی صحیح نمایندگی کرتے ہوں۔ یہ چیز، گویا اِس بات کی زندہ شہادت ہے کہ اسلام کے پیرو، خود ہی اپنے لیے اسلام کے بجائے، جاہلیت کو زیادہ قابلِ ترجیح سمجھتے ہیں۔
ہم مدرسے بناتے ہیں تو علم اور نظامِ تعلیم اور رُوحِ تعلیم سب کچھ کفار سے لیتے ہیں۔ ہم انجمنیں قائم کرتے ہیں تو مقصد، نظام اور طریقِ کار سب کچھ وہی رکھتے ہیں جو کفار کی کسی انجمن کا ہو سکتا ہے۔ ہماری پوری قوم بحیثیتِ مجموعی کوئی جدوجہد کرنے اٹھتی ہے تو اس کا مطالبہ، اس کی جدوجہد کا طریقہ، اس کی جمعیت کا دستور و نظام، اس کی تجویزیں، تقریریں اور بیانات ، سب کچھ، ہوبہو کافر قوموں کی جدوجہد کا چربہ ہوتا ہے ۔ حد یہ ہے کہ جہاں ہماری آزاد یا نیم آزاد حکومتیں موجود ہیں، وہاں بھی ہم نے اساسِ حکومت، نظامِ حکومت اور مجموعۂ قوانین کفار سے لے لیا ہے ۔ اسلام کا قانون بعض حکومتوں میں، صرف پرسنل لا کی حد تک رہ گیا ہے اور بعض نے اسے بھی ترمیم کیے بغیر نہیں چھوڑا۔ حال میں ایک انگریز مصنف lawrence brown نے اپنی کتاب the prospects of islam میں طعنہ دیا ہے کہ:
ہم نے جب ہندستان میں اسلام کے دیوانی اور فوج داری قوانین کو دقیانوسی اور ناقابل عمل سمجھ کر منسوخ کیا تھا اور مسلمانوں کے لیے، صرف اُن کے پرسنل لا کو رہنے دیا تھا تو مسلمانوں کو یہ سخت ناگوار ہوا تھا، کیوں کہ اِس طرح ان کی پوزیشن وہی ہوئی جاتی تھی جو کبھی اسلام کی حکومت میں ذمیوں کی تھی۔ لیکن اب صرف یہی نہیں کہ ہندستان کے مسلمانوں نے اسے پسند کر لیا ہے ، بلکہ خود مسلمان حکومتوں نے بھی اس معاملے میں ہماری تقلید کی ہے ۔ ٹرکی، البانیا نے تو اس سے تجاوز کر کے قوانینِ نکاح و طلاق و وراثت تک میں بھی، ہمارے معیارات کے مطابق ’’اصلاحات‘‘ کر دی ہیں۔ اب یہ بات کھل گئی ہے کہ مسلمانوں کا یہ تصور کہ قانون کا ماخذِ ارادئہ الٰہی ہے، ایک مقدس افسانے (pious fiction) سے زیادہ کچھ نہ تھا۔
یہ ہے وہ عملی شہادت، جو تمام دنیا کے مسلمان تقریباً متفق ہو کر، اسلام کے خلاف دے رہے ہیں۔ ہم زبان سے خواہ کچھ کہیں، مگر ہمارا اجتماعی عمل گواہی دے رہا ہے کہ اس دین کا کوئی طریقہ ہمیں پسند نہیں اور اس کے کسی قانون میں، ہم اپنی فلاح و نجات نہیں پاتے۔

شیئر کریں