اب ذرا آپ جائزہ لے کر دیکھیں کہ ہندستان کے لوگ: ہندو، مسلمان، سکھ____اس امتحان کے موقع پر، اپنے خدا کے سامنے، اپنی کیا صلاحیتیں اور قابلیتیں اور اپنے کیا اوصاف اور کارنامے پیش کر رہے ہیں جن کی بنا پر یہ اُمید کر سکتے ہیں کہ خدا اپنے ملک کا انتظام پھر اِن کے سپرد کر دے گا۔ اِس موقع پر اگر میں بے لاگ طریقے سے کھلم کھلا، وہ فردِ جرم سنا دوں جو اخلاق کی عدالت میں____ہندوئوں، مسلمانوںاور سکھوں____سب پر لگتی ہے، تو میں امید کرتا ہوں کہ آپ بُرا نہ مانیں گے۔ اپنی قوم اور اپنے وطنی بھائیوں کے عیوب بیان کر کے، خوشی تو مجھے بھی نہیں ہوتی، کیوں کہ مَیں گویا اپنی آنکھوں سے انجام کو دیکھ رہا ہوں، جو اِن عیوب کی بِنا پر کل انھیں دیکھنا ہی نہیں، بھگتنا بھی پڑے گا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ عیوب انھیں لے ڈوبیںگے۔ ہم، آپ، کوئی بھی ان کے انجامِ بَد سے نہ بچے گا، اس لیے میں، انھیں دلی رنج کے ساتھ بیان کرتا ہوں، تاکہ جن کے کان ہوں، وہ سنیں اور اصلاح کی کچھ فکر کریں۔
ہمارے افراد کی عام اخلاقی حالت جیسی کچھ ہے، آپ اس کا اندازہ، خود اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات کی بِنا پر کیجیے۔ ہم میں کتنے فی صد آدمی ایسے پائے جاتے ہیں جو کسی کا حق تلف کرنے میں‘ کوئی ناجائزہ فائدہ اُٹھانے میں‘ کوئی ’’مفید‘‘ جھوٹ بولنے اور کوئی ’’نفع بخش‘‘ بے ایمانی کرنے میں، صرف اس بِنا پر تامل کرتے ہوں کہ ایسا کرنا اخلاقاً بُرا ہے؟ جہاں قانون گرفت نہ کرتا ہو، یا جہاں قانون کی گرفت سے بچ نکلنے کی امید ہو، وہاں کتنے فی صدی اشخاص، محض اپنے اخلاقی احساس کی بِنا پر، کسی جرم اور کسی برائی کا ارتکاب کرنے سے باز رہ جاتے ہیں؟ جہاں اپنے کسی ذاتی فائدے کی توقع نہ ہو، وہاں کتنے آدمی دوسروں کے ساتھ بھلائی،ہم دردی، ایثار، حق رسانی اور حُسنِ سلوک کا برتائو کرتے ہیں؟ ہمارے تجارت پیشہ لوگوں میں ایسے تاجروں کا اوسط کیا ہے، جو دھوکے اور فریب اور جھوٹ اور نا جائز نفع اندوزی سے پرہیز کرتے ہوں؟ ہمارے صنعت پیشہ لوگوں میں، ایسے افراد کا تناسب کیا ہے جو اپنے فائدے کے ساتھ، کچھ اپنے خریداروں کے مفاد اور اپنی قوم اور اپنے ملک کی مصلحت کا بھی خیال رکھتے ہیں؟ ہمارے زمین داروں میں کتنے ہیں جو غلہ روکتے ہوئے اور بے حد گراں قیمتوں پر بیچتے ہوئے، یہ سوچتے ہوں کہ اپنی اس نفع اندوزی سے، وہ کتنے لاکھ، بلکہ کتنے کروڑ انسانوں کو فاقہ کشی کا عذاب دے رہے ہیں؟
ہمارے مال داروں میں کتنے ہیں جن کی دولت مندی میں کسی ظلم، کسی حق تلفی، کسی بددیانتی کا دخل نہیں ہے؟ ہمارے محنت پیشہ لوگوں میں کتنے ہیں جو فرض شناسی کے ساتھ اپنی اُجرت اور اپنی تنخواہ کا حق ادا کرتے ہیں؟ ہمارے سرکاری ملازموں میں کتنے ہیں جو رشوت اور خیانت سے، ظلم اور مردم آزاری سے، کام چوری اور حرام خوری سے، اور اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال سے بچے ہوئے ہیں؟ ہمارے وکیلوں میں، ہمارے ڈاکٹروں اور حکیموں میں، ہمارے اخبار نویسوں میں، ہمارے ناشرین و مصنّفین میں، ہمارے قومی ’’خدمت گزاروں‘‘ میں کتنے ہیں جو اپنے فائدے کی خاطر، ناپاک طریقے اختیار کرنے اور خلقِ خدا کو ذہنی، اخلاقی، مالی اور جسمانی نقصان پہنچانے میں کچھ بھی شرم محسوس کرتے ہوں؟
شاید میں مبالغہ نہ کروں گا اگر یہ کہوں کہ ہماری آبادی میں، بمشکل ۵ فی صدی لوگ اس اخلاقی عذاب سے بچے رہ گئے ہیں، ورنہ ۹۵ فی صدی کو، یہ چھوت بُری طرح لگ چکی ہے۔ اس معاملے میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی اور ہریجن کے درمیان کوئی امتیاز نہیں۔ سب کے سب یکساں بیمار ہیں۔ سب کی اخلاقی حالت خوف ناک حد تک گری ہوئی ہے، اور کسی گروہ کا حال، دوسرے سے بہتر نہیں ہے۔