Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مسلمانوں کا ماضی وحال اور مستقبل کے لیے لائحہ عمل
ایک غلط فہمی کا ازالہ
پچھلی تاریخ کا جائزہ
ہماری غلامی کے اسباب
دینی حالت
اخلاقی حالت
ذہنی حالت
مغربی تہذیب کی بنیادیں
مذہب
فلسفۂ حیات
ہیگل کا فلسفۂ تاریخ
ڈارون کا نظریۂ ارتقا
مارکس کی مادی تعبیرِ تاریخ
اَخلاق
سیاست
فاتح تہذیب کے اثرات
تعلیم کا اثر
معاشی نظام کا اثر
قانون کا اثر
اخلاق ومعاشرت کا اثر
سیاسی نظام کا اثر
ہمارا ردِّعمل
انفعالی ردِّ عمل
جمودی ردِّ عمل
ہم کیا چاہتے ہیں؟
یَک سُوئی کی ضرورت
ہمارا لائحۂ عمل

مسلمانوں کا ماضی و حال اور مستقبل

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

ہمارا لائحۂ عمل

ہمارے اس مقصد کو سمجھ لینے کے بعد کسی کو ہمارے لائحۂ عمل کے سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آ سکتی۔ اس کے چار بڑے بڑے اجزا ہیں جنھیں میں الگ الگ بیان کروں گا۔
۱۔ اس کا پہلا جز تطہیر افکار وتعمیر افکار ہے۔ یہ تطہیر وتعمیر اس مقصد کو سامنے رکھ کر ہونی چاہیے کہ ایک طرف غیر اسلامی قدامت کے جنگل کو صاف کرکے اصلی اور حقیقی اسلام کی شاہراہِ مستقیم کو نمایاں کیا جائے، دوسری طرف مغربی علوم وفنون اور نظامِ تہذیب وتمدن پر تنقید کرکے بتایا جائے کہ اس میں کیا کچھ غلط اور قابلِ ترک ہے اور کیا کچھ صحیح اور قابلِ اخذ، اور تیسری طرف وضاحت کے ساتھ یہ دکھایا جائے کہ اسلام کے اصولوں کو زمانۂ حال کے مسائل ومعاملات پر منطبق کرکے ایک صالح تمدن کی تعمیر کس طرح ہو سکتی ہے اور اس میں ایک ایک شعبۂ زندگی کا نقشہ کیا ہو گا۔ اس طریقے سے خیالات بدلیں گے اور ان کی تبدیلی سے زندگیوں کا رُخ پھرنا شروع ہو گا اور ذہنوں کو تعمیرِ نو کے لیے فکری غذا بہم پہنچے گی۔
۲۔ اس کا دوسرا جز صالح افراد کی تلاش، تنظیم اور تربیت ہے۔ اس غرض کے لیے ضروری ہے کہ ان آبادیوں میں سے اُن مردوں اور عورتوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالا جائے جو پُرانی اور نئی خرابیوں سے پاک ہوں یا اب پاک ہونے کے لیے تیار ہوں۔ جن کے اندر اصلاح کا جذبہ موجود ہو۔ جو حق کو حق مان کر اس کے لیے وقت، مال اور محنت کی کچھ قربانی کرنے پر بھی آمادہ ہوں۔ خواہ وہ نئے تعلیم یافتہ ہوں یا پرانے، خواہ وہ عوام میں سے ہوں یا خواص میں سے، خواہ وہ غریب ہوں یا امیر یا متوسط، ایسے لوگ جہاں کہیں بھی ہوں انھیں گوشۂ عافیت سے نکال کر میدانِ سعی وعمل میں لانا چاہیے تاکہ ہمارے معاشرے میں جو ایک صالح عنصر بچا کھچا موجود ہے، مگر منتشر ہونے کی وجہ سے، یا جزوی اصلاح کی پراگندہ کوششیں کرنے کی وجہ سے کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر رہا ہے، وہ ایک مرکز پر جمع ہو اور ایک حکیمانہ پروگرام کے مطابق اصلاح وتعمیر کے لیے منظم کوشش کر سکے۔
پھر ضرورت ہے کہ اس طرح کا ایک گروہ بنانے پر ہی اکتفا نہ کیا جائے بلکہ ساتھ ساتھ ان لوگوں کی ذہنی واخلاقی تربیت بھی کی جائے تاکہ ان کی فکر زیادہ سے زیادہ سلجھی ہوئی ہو اور ان کی سیرت زیادہ سے زیادہ پاکیزہ، مضبوط اور قابلِ اعتماد ہو۔ ہمیں یہ حقیقت کبھی نہ بھولنی چاہیے کہ اسلامی نظام محض کاغذی نقشوں اور زبانی دعوئوں کے بل پر قائم نہیں ہو سکتا۔ اس کے قیام اور نفاذ کا سارا انحصار اس پر ہے کہ آیا اس کی پشت پر تعمیری صلاحیتیں اورصالح انفرادی سیرتیں موجود ہیں یا نہیں۔ کاغذی نقشوں کی خامی تو اللّٰہ کی توفیق سے علم اور تجربہ ہر وقت رفع کر سکتا ہے لیکن صلاحیت اورصالحیت کا فقدان سرے سے کوئی عمارت اٹھا ہی نہیں سکتا اور اٹھا بھی لے تو سہار نہیں سکتا۔
۳۔ اس کا تیسرا جز ہے اجتماعی اصلاح کی سعی۔ اس میں سوسائٹی کے ہر طبقے کی اس کے حالات کے لحاظ سے اصلاح شامل ہے، اور اس کا دائرہ اتنا ہی وسیع ہو سکتا ہے جتنے کام کرنے والوں کے ذرائع وسیع ہوں۔ اس غرض کے لیے کارکنوں کو ان کی صلاحیتوں کے لحاظ سے مختلف حلقوں میں تقسیم کرنا چاہیے اور ہر ایک کے سپرد وہ کام کرنا چاہیے جس کے لیے وہ اہل تر ہو۔ ان میں سے کوئی شہری عوام میں کام کرے اور کوئی دیہاتی عوام میں۔ کوئی کسانوں کی طرف متوجہ ہو اور کوئی مزدوروں کی طرف۔ کوئی متوسط طبقے کو خطاب کرے اور کوئی اونچے طبقے کو۔ کوئی ملازمین کی اصلاح کے لیے کوشاں ہو اور کوئی تجارت پیشہ اور صنعت پیشہ لوگوں کی اصلاح کے لیے۔ کسی کی توجہ پرانی درس گاہوں کی طرف ہو اور کسی کی نئے کالجوں کی طرف۔ کوئی جمود کے قلعوں کو توڑنے میں لگ جائے اور کوئی الحاد وفسق کے سیلاب کو روکنے میں، کوئی شعر وادب کے میدان میں کام کرے اورکوئی علم وتحقیق کے میدان میں۔ اگرچہ ان سب کے حلقہ ہائے کار الگ ہوں، مگر سب کے سامنے ایک ہی مقصد اور ایک ہی اسکیم ہو جس کی طرف وہ قوم کے سارے طبقوں کو گھیر کر لانے کی کوشش کریں۔ ان کا متعین نصب العین یہ ہونا چاہیے کہ اس ذہنی، اخلاقی اور عملی انارکی کو ختم کیا جائے جو پرانے جمودی اور نئے انفعالی رجحانات کی وجہ سے ساری قوم میں پھیلی ہوئی ہے، اور عوام سے لے کر خواص تک، سب میں صحیح اسلامی فکر، اسلامی سیرت، اور سچے مسلمانوں کی سی عملی زندگی پیدا کی جائے۔
یہ کام صرف وعظ وتلقین اور نشرواشاعت اور شخصی ربط ومکالمہ ہی سے نہیں ہونا چاہیے، بلکہ مختلف سمتوں میں باقاعدہ تعمیری پروگرام بنا کر پیش قدمی کرنی چاہیے۔ مثلاً یہ عاملینِ اصلاح جہاں کہیں اپنی تبلیغ سے چند آدمیوں کو ہم خیال بنانے میں کام یاب ہوجائیں وہاں وہ انھیں ملا کر ایک مقامی تنظیم قائم کر دیں اور پھر ان کی مدد سے ایک پروگرام کو عمل میں لانے کی کوشش شروع کر دیں جس کے چند اجزا یہ ہیں:
بستی کی مسجدوں کی اصلاحِ حال، عام باشندوں کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے روشناس کرانا۔ تعلیمِ بالغاں کا انتظام۔ کم از کم ایک دارالمطالعہ کا قیام۔ لوگوں کو ظلم وستم سے بچانے کے لیے اجتماعی جدوجہد۔ باشندوں کے تعاون سے صفائی اور حفظانِ صحت کی کوشش۔ بستی کے یتیموں، بیوائوں، معذوروں اور غریب طالب علموں کی فہرستیں مرتب کرنا اور جن جن طریقوں سے ممکن ہو ان کی مدد کا انتظام کرنا۔ اور اگر ذرائع فراہم ہو جائیں تو کوئی پرائمری اسکول، یا ہائی اسکول یا مذہبی تعلیم کا ایسا مدرسہ قائم کرنا جس میں تعلیم کے ساتھ اخلاقی تربیت کا بھی انتظام ہو۔
اسی طرح مثلاً جو لوگ مزدوروں میں کام کریں وہ ان کو اشتراکیت کے زہر سے بچانے کے لیے صرف تبلیغ ہی پر اکتفا نہ کریں، بلکہ عملاً ان کے مسائل کو حل کرنے کی سعی بھی کریں۔ انھیں ایسی مزدور تنظیمات قائم کرنی چاہئیں جن کا مقصد انصاف کا قیام ہو نہ کہ ذرائعِ پیداوار کو قومی ملکیت بنانا۔ ان کا مسلک جائز اورمعقول حقوق کے حصول کی جدوجہد ہو نہ کہ طبقاتی کشمکش… ان کا طریقِ کار اخلاقی اور آئینی ہو نہ کہ توڑ پھوڑ اور تخریب۔ ان کے پیشِ نظر صرف اپنے حقوق ہی نہ ہوں بلکہ اپنے فرائض بھی ہوں۔ جو مزدود یا کارکن بھی ان میں شامل ہوں ان پر یہ شرط عائد ہونی چاہیے کہ وہ ایمانداری کے ساتھ اپنے حصے کا فرض ضرورادا کریں گے۔ پھر ان کا دائرۂ عمل صرف اپنے طبقے کے مفاد تک ہی محدود نہ ہونا چاہیے بلکہ یہ تنظیمات جس طبقے سے بھی تعلق رکھتی ہوں اس کی دینی، اخلاقی اور معاشرتی حالت کو بھی درست کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔
اس عمومی اصلاح کے پورے لائحۂ عمل کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جو شخص جس حلقے اور طبقے میں بھی کام کرے مسلسل اورمنظم طریقے سے کرے اور اپنی سعی کو ایک نتیجے تک پہنچائے بغیرنہ چھوڑے۔ ہمارا طریقہ یہ نہ ہونا چاہیے کہ ہوا کے پرندوں اور آندھی کے جھکڑوں کی طرح بیج پھینکتے چلے جائیں۔ اس کے برعکس ہمیں کسان کی طرح کام کرنا چاہیے جو ایک متعین رقبے کو لیتا ہے، پھر زمین کی تیاری سے لے کر فصل کی کٹائی تک مسلسل کام کرکے اپنی محنتوں کو ایک نتیجے تک پہنچا کر دم لیتا ہے۔ پہلے طریقے سے جنگل پیدا ہوتے ہیں اور دوسرے طریقے سے باقاعدہ کھیتیاں تیار ہوا کرتی ہیں۔
۴۔ اس لائحۂ عمل کا چوتھا جز نظامِ حکومت کی اصلاح ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کے موجودہ بگاڑ کو دُور کرنے کی کوئی تدبیر بھی کام یاب نہیں ہو سکتی جب تک کہ اصلاح کی دوسری کوششوں کے ساتھ ساتھ نظامِ حکومت کو درست کرنے کی کوشش بھی نہ کی جائے۔ اس لیے کہ تعلیم اور قانون اور نظم ونسق اور تقسیمِ رزق کی طاقتوں کے بل پر جو بگاڑ اپنے اپنے اثرات پھیلا رہا ہو اس کے مقابلے میں بنائو اور سنوار کی وہ تدبیریں جو صرف وعظ اور تلقین اور تبلیغ کے ذرائع پر منحصر ہوں، کبھی کارگر نہیں ہو سکتیں۔ لہٰذا اگر ہم فی الواقع اپنے ملک کے نظامِ زندگی کو فسق وضلالت کی راہ سے ہٹا کر دینِ حق کی صراطِ مستقیم چلانا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے ناگزیر ہے کہ مسندِ اقتدار سے ہٹانے اور بنائو کو اس کی جگہ متمکن کرنے کی براہِ راست کوشش کریں۔ ظاہر ہے کہ اگر اہلِ خیر وصلاح کے ہاتھ میں اقتدار ہو تو وہ تعلیم اور قانون اور نظم ونسق کی پالیسی کو تبدیل کرکے چند سال کے اندر وہ کچھ کر ڈالیں گے جو غیر سیاسی تدبیروں سے ایک صدی میں بھی نہیں ہو سکتا۔
یہ تبدیلی کس طرح ہو سکتی ہے؟ ایک جمہوری نظام میں اس کا راستہ صرف ایک ہے، اور وہ ہے انتخابات کا راستہ۔ رائے عام کی تربیت کی جائے، عوام کے معیار انتخابات کو بدلا جائے، انتخاب کے طریقوں کی اصلاح کی جائے، اور پھر ایسے صالح لوگوں کو اقتدار کے مقام پر پہنچایا جائے جو ملک کے نظام کو خالص اسلام کی بنیادوں پر تعمیر کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہوں اور قابلیت بھی۔
ہماری تشخیص یہ ہے کہ اس ملک کے سیاسی نظام کی خرابیوں کا بنیادی سبب یہاں کے طریقِ انتخاب کی خرابی ہے۔ جب انتخاب کا موسم آتا ہے تو منصب وجاہ کے خواہشمند لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور دوڑ دھوپ کرکے یا تو کسی پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرتے ہیں یا آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے اپنے لیے کوشش شروع کر دیتے ہیں۔ اس کوشش میں وہ کسی اخلاق اور کسی ضابطے کے پابند نہیں ہوتے۔ کسی جھوٹ، کسی فریب، کسی چال، کسی دبائو اور کسی ناجائز سے ناجائز ہتھکنڈے کے استعمال میں بھی ان کو دریغ نہیں ہوتا۔ جسے لالچ دیا جا سکتا ہو اس کا ووٹ لالچ سے خریدتے ہیں جسے دھمکی سے مرعوب کیا جا سکتا ہے اسے مرعوب کرکے ووٹ حاصل کرتے ہیں۔ جسے دھوکا دیا جا سکتا ہے اس کا ووٹ دھوکے سے لیتے ہیں اور جس کو کسی تعصب کی بنا پر اپیل کیا جا سکتا ہے اس کا ووٹ تعصب کے نام پرمانگتے ہیں۔ اس گندے کھیل کے میدان میں قوم کے شریف عناصر اوّل تو اترتے ہی نہیں، اور بھولے بھٹکے اگر وہ کبھی اتر آتے ہیں تو پہلے ہی قدم پر انھیں میدان چھوڑ دینا پڑتا ہے۔ مقابلہ صرف ان لوگوں کے درمیان رہ جاتا ہے جنھیں نہ خدا کا خوف ہو نہ خلق کی شرم، اور نہ کوئی بازی کھیل جانے میں کسی طرح کا باک۔ پھر ان میں سے کام یاب ہو کر وہ نکلتا ہے جو سب جھوٹوں کو جھوٹ میں اور سب چال بازوں کو چال بازی میں شکست دے دے۔ رائے دینے والی پبلک جس کے ووٹوں سے یہ لوگ کام یاب ہوتے ہیں، نہ اصولوں کو جانچتی ہے، نہ پروگراموں کو پرکھتی ہے، نہ سیرتوں اورصلاحیتوں کودیکھتی ہے۔ اس سے جو بھی زیادہ ووٹ جھپٹ لے جائے وہ بازی جیت لیتا ہے۔ بلکہ اب تو اس کے حقیقی ووٹوں کی اکثریت بھی کوئی چیز نہیں رہی ہے۔ کرائے پر ووٹ دینے والے جعلی ووٹر، اور بد دیانت پولنگ افسر اپنے ہاتھوں کے کرتب سے بارہا ان لوگوں کو شکست دے دیتے ہیں جن کو اصلی رائے دہندوں کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہوتا ہے۔ بسا اوقات انتخاب کی نوبت بھی نہیں آنے پاتی۔ ایک بے ضمیر مجسٹریٹ کسی ذاتی دل چسپی کی بِنا پر یا کسی کا اشارہ پا کر تمام امیدواروں کو بیک جنبشِ قلم میدان سے ہٹا دیتا ہے اور منظورِ نظر آدمی بلا مقابلہ پورے حلقۂ انتخاب کا نمائندہ بن جاتا ہے خواہ وہ واقعی نمائندہ ہو یا نہ ہو۔
ہر شخص جو کچھ بھی عقل رکھتا ہے، ان حالات کو دیکھ کر خود یہ اندازہ کر سکتا ہے کہ جب تک یہ طریقِ انتخاب جاری ہے، کبھی قوم کے شریف اور نیک اور ایمان دار آدمیوں کے ابھرنے کا امکان ہی نہیں ہے۔ اس طریقے کا تو مزاج ہی ایسا ہے کہ قوم کے بدتر سے بدتر عناصر چھٹ کر سطح پر آئیں اورجس بداخلاقی وبدکرداری سے وہ انتخاب جیتتے ہیں اسی کی بنیاد پر وہ ملک کا انتظام چلائیں۔
یہ طریقے یکسر بدل دینے کے لائق ہیں۔ ان کے بجائے دوسرے کیا طریقے ہو سکتے ہیں جن کے ذریعے سے بہتر آدمی اوپر آ سکیں؟ ان کی ایک مختصر سی تشریح میں آپ کے سامنے کرتا ہوں۔ آپ خود دیکھ لیں کہ آیا ان طریقوں سے نظامِ حکومت کی اصلاح کی توقع کی جا سکتی ہے یا نہیں؟
اوّل یہ کہ انتخابات اصولوں کی بنیاد پر ہوں نہ کہ شخصی یا علاقائی یا قبائلی مفادات کی بنیاد پر۔
دوم یہ کہ لوگوں کو ایسی تربیت دی جائے جس سے وہ یہ سمجھنے کے قابل ہو سکیں کہ ایک اصلاحی پروگرام کو نافذ کرنے کے لیے کس قسم کے آدمی موزوں ہو سکتے ہیں اور ان میں کیا اخلاقی صفات اور ذہنی صلاحیتیں ہونی چاہئیں۔
سوم یہ کہ لوگوں کے خود امیدوار بن کرکھڑے ہونے اور خود روپیہ صرف کرکے ووٹ حاصل کرنے کا طریقہ بند ہونا چاہیے کیوں کہ اس طرح بالعموم صرف خود غرض لوگ ہی منتخب ہو کر آئیں گے۔ اس کے بجائے کوئی ایسا طریقہ ہونا چاہیے جس سے ہر حلقۂ انتخاب کے شریف ومعقول لوگ سرجوڑ کر بیٹھیں۔ کسی موزوں آدمی کو تلاش کرکے اس سے درخواست کریں کہ وہ ان کی نمائندگی کے لیے تیارہو اور پھر خود دوڑ دھوپ کرکے اور اپنا مال صرف کرکے اسے کام یاب کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرح جو لوگ منتخب ہوں گے وہی بے غرض ہو کر اپنے نفس کے لیے نہیں بلکہ ملک کی بہتری کے لیے کام کریں گے۔
چہارم یہ کہ جس شخص کو اس طرح کی کوئی پنچایت اپنے علاقے کی نمائندگی کے لیے تجویز کرے اس سے برسرِ عام یہ عہد لیا جائے کہ وہ پنچایت کے منظور کیے ہوئے منشور کا پابند رہے گا، پارلیمنٹ میں پہنچ کر ان لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرے گا، جو اسی منشور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اسی طریقے پر کام یاب ہو کر دوسرے علاقوں سے وہاں پہنچیں اور جب کبھی پنچایت اس پراظہارِ بے اعتمادی کرے، وہ مستعفی ہو کر واپس آ جائے گا۔
پنجم یہ کہ پنچایت کے جو کارکن اس شخص کو کام یاب کرانے کی جدوجہد کریں ان سے قسم لی جائے کہ وہ اخلاق کے حدود اور انتخابی ضوابط کی پوری پابندی کریں گے۔ کسی تعصب کے نام پر اپیل نہ کریں گے۔ کسی کے جواب میں بھی جھوٹ اور بہتان تراشی اور چال بازیوں سے کام نہ لیں گے۔ کوئی جعلی ووٹ نہ بھگتائیں گے۔ خواہ جیتیں یا ہاریں، بہرحال شروع سے آخر تک پوری انتخابی جنگ صداقت اور دیانت کے ساتھ بالکل بااصول طریقے سے لڑیں گے۔
میرا خیال یہ ہے کہ اگر اس ملک کے انتخابات میں ان پانچ طریقوں کو آزمایا جائے تو جمہوریت کو قریب قریب بالکل پاک کیا جا سکتا ہے اور بدکردار لوگوں کے لیے برسرِ اقتدار آنے کے دروازے بند کیے جا سکتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ان کے بہتر نتائج پہلے ہی قدم پر ظاہر ہو جائیں لیکن اگر اس رُخ پرایک دفعہ انتخابات کو ڈال دیا جائے تو جمہوریت کا مزاج یکسر تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ ان طریقوں سے نظامِ حکومت کی واقعی تبدیلی میں پچیس تیس سال صرف ہو جائیں، یا اس سے بھی زیادہ۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ تبدیلی کا صحیح راستہ یہی ہے اور جو تبدیلی اس طریقے سے ہو گی وہ ان شاء اللّٰہ پائیدار ومستحکم ہو گی۔
حضرات! میں نے ا س تقریر میں مرض اور اسبابِ مرض کی پوری تشخیص وتشریح آپ کے سامنے رکھ دی ہے، طریقِ علاج بھی بیان کر دیا ہے، اوروہ مقصد بھی پیش کر دیا ہے جس کے لیے ہم علاج کی یہ کوششیں کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد یہ رائے قائم کرنا آپ کا اپنا کام ہے کہ میری باتیں کہاں تک قابلِ قبول ہیں۔

٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں