Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دعوت اسلامی اور اس کا طریق کار
اجتماعات کا مقصد:
دعوت اسلامی کے تین نکات :
بندگی رب کا حقیقی مفہوم:
منافقت کی حقیقت
تناقض کی حقیقت:
امامت میں انقلاب کیسے آتا ہے؟
مخالفت اور اس کے اسباب :
ہمارا طریقِ کار
علماء اور مشائخ کی آڑ :
زہد کا طعنہ:
رفقاء جماعت سے خطاب :

دعوت اسلامی اور اس کا طریق کار

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

ہمارا طریقِ کار

اب میں آپ کے سامنے مختصر طور پر اس ’’طریقِ کار ‘‘کو پیش کروں گا جو ہم نے اپنی اس دعوت کے لیے اختیار کیا ہے۔ ہماری دعوت کی طرح ہمارا یہ طریقِ کار بھی دراصل قرآن اور انبیا ء علیہم السلام کے طریقے سے ماخوذ ہے۔ جو لوگ ہماری دعوت کو قبول کرتے ہیں ان سے ہمارا اوّلین مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو عملاً اور بالکلیہ بندگی رب میں دے دو اور اپنے عمل سے اپنے اخلاص اور اپنی یکسوئی کا ثبوت دو اور ان تمام چیزوں سے اپنی زندگی کو پاک کرنے کی کوشش کرو جو تمہارے ایمان کی ضدہیں۔ یہیں سے ان کے اخلاق وسیرت کی تعمیر اور ان کی آزمائش کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ جن لوگوں نے بڑی بڑی اُمنگوں کے ساتھ اعلٰی تعلیم حاصل کی تھی انہیں اپنے اونچے اونچے خوابوں کی عمارتیں اپنے ہاتھ سے ڈھادینی پڑتی ہیں اور اس زندگی میں تو درکنار اپنی دوسری تیسری پشت میں بھی دُور دُور نظر نہیں آتے۔ جن لوگوں کی معاشی خوشحالی کسی مرہونہ زمین یا کسی مغصوبہ جائداد یا کسی ایسی میراث پر قائم تھی جس میں حقداروں کے حقوق مارے گئے تھے۔ انہیں بسا اوقات دامن جھاڑ کر اس خوشحالی سے کنارہ کش ہو جانا پڑتا ہے صرف اس لیے کہ جس خدا کو انہوں نے اپنا آقا تسلیم کیا ہے اس کے منشاء کے خلاف کسی کا مال کھانا ان کے ایمان کے منافی ہے۔ جن لوگوں کے وسائلِ زندگی غیر شرعی تھے یا نظام ِباطل سے وابستہ تھے ان کو ترقیوں کے خواب دیکھنا تو درکنار موجود ہ وسائل سے حاصل کی ہوئی روٹی کا بھی ایک ایک ٹکڑا حلق میں اُتارنا ناگوار ہونے لگتا ہے۔ اور وہ ان وسائل کو پاک تروسائل سے خواہ وہ حقیر ترین ہی کیوں نہ ہوں، بدلنے کے لیے ہاتھ پائوں مارنے لگتے ہیں۔ پھر جیسا کہ ابھی میں آپ کے سامنے بیان کر چکاہوں، اس مسلک کو عملاً اختیار کرتے ہی آدمی کا قریب ترین ماحول اس کا دشمن بن جاتا ہے۔ اس کے اپنے والدین، اس کے بھائی بند، اس کی بیوی اور بچے اور اس کے جگری دوست سب سے پہلے اس کے ایمان سے قوت آزمائی کرتے ہیں۔ اور بسا اوقات اس مسلک کا پہلا اثر ظاہر ہوتے ہی آدمی کا اپنا گہوارہ جس میں وہ نازوں سے پالا گیا تھا اس کے لئے زبنور خانہ بن کر رہ جاتا ہے۔ یہ ہے وہ ابتدائی تربیت گاہ جو صالح و مخلص اور قابلِ اعتماد سیرۃ کے کارکن فراہم کرنے کے لیے قدرتِ الٰہی نے ہمارے لیے خود بخود پیدا کر دی ہے۔ ان ابتدائی آزمائشوں میں جو لوگ ناکام ہوجاتے ہیں وہ آپ سے چھٹ کر الگ ہوجاتے ہیں اور ہمیں ان کا چھانٹ پھینکنے کی زحمت گوارا نہیں کرنی پڑتی۔ اور جو لوگ ان میں پورے اترتے ہیں وہ ثابت کردیتے ہیں کہ ان کے اندر کم از کم اتنا اخلاص، اتنی یکسوئی، اتنا صبر اور عزم اتنی محبت ِحق اور اتنی مضبوط، سیرت ضرور موجود ہے جو خدا کی راہ میں قدم رکھنے اور پہلے مرحلہ امتحان سے کامیاب گذر جانے کے لیے ضروری ہے۔ اس مرحلے کے کامیاب لوگوں کو ہم نسبتاً زیادہ بھروسے اور اطمینان کے ساتھ لے کر دوسرے مرحلے کی طرف پیش قدمی کرسکتے ہیں جو آگے آنے والا ہے اور جس میں اس سے زیادہ آزمائشیں پیش آنے والی ہیں۔ وہ آزمائشیں پھر ایک دوسری بھٹی تیار کریں گی جو اسی طرح کھوٹے سکوں کو چھانٹ کر پھینک دے گی اورزر خالص کو اپنی گود میں رکھ لے گی۔ جہاں تک ہمارا علم ساتھ دیتا ہے ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ انسانی معاون سے کارآمد عناصر کو چھانٹنے اور ان کو زیادہ کار آمد بنانے کے لیے یہی طریقہ پہلے بھی اختیار کیا جاتا رہا ہے اور جو تقویٰ ان بھٹیوں میں تیار ہوتا ہے، چاہے وہ فقہی ناپ تول میں پورا نہ اترے، اور خانقاہی معیاروں پر بھی ناقص نکلے، مگر صرف اسی طرز سے تیار کیے ہوئے تقویٰ میں یہ طاقت ہوسکتی ہے۔ کہ انتظام ِدنیا کی بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ سنبھال سکے اور ان عظیم الشان امانتوں کا بار اُٹھاسکے جن کے ایک قلیل سے قلیل جز کا وزن بھی خانقاہی تقویٰ کی برداشت سے باہر ہے۔
اس کے ساتھ دوسری چیز جو ہم اپنے ارکان پر لازم کرتے ہیں یہ ہے کہ جس حق کی روشنی انہوں نے پائی ہے اس سے وہ اپنے قریبی ماحول کو اور ان سب لوگوں کو جن سے ان کا قرابت یا دوستی یا ہمسائیگی یا لین دین کا تعلق ہے، روشناس کرانے کی کوشش کریں اور انہیں اس کی طرف آنے کی دعوت دیں۔ یہاں پھر آزمائشوں کااایک سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ سب سے پہلے تو اس تبلیغ کی وجہ سے مبلغ کی اپنی زندگی درست ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ کام شروع کرتے ہی بے شمار خوردبین اور دیدبان اس کی ذات کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں اور مبلّغ کی زندگی میں اگر کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اس کے ایمان اور اس کی دعوت کے منافی موجود ہوتو یہ مفت کے محتسب اسے نمایاں کرکے مبلغ کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور تازیانے لگا لگا کر اسے مجبور کرتے ہیں کہ اپنی زندگی کو اس سے پاک کرے۔ اگر مبلغ فی الوقع اس دعوت پر سچے دل سے ایمان لایا ہو تو وہ ان تنقیدوں پر جھنجلانے اور تاویلوں سے اپنے عمل کی غلطی کو چھپانے کی کوشش نہ کرے گا بلکہ ان لوگوں کی خدمات سے فائدہ اُٹھائے گا جو مخالفت کی نیت ہی سے سہی مگر بہرحال اس کی اصلاح میں بغیر کسی معاوضے کے سعی ومحنت صرف کرتے رہتے ہیں ظاہر ہے کہ جس برتن کو بیسیوں ہاتھ مانجھنے میں لگ جائیں اور مانجھتے ہی چلے جائیں وہ چاہے کتنا ہی کثیف ہو آخرکار مجلا و مصفّاہو کر رہے گا۔
پھر اس تبلیغ سے ہمارے کارکنوں میں بہت سے ان اوصاف کو بالید گی حاصل ہوتی ہے جنہیں آگے چل کر دوسرے میدانوں میں کسی اور شکل سے ہم کو استعمال کرنا ہے۔ جب مبلغ کو طرح طرح کے دل شکن حالات سے گذرنا پڑتا ہے۔ کہیں اس کی ہنسی اڑائی جاتی ہے، کہیں اس پر طعنے اور آواز ے کسے جاتے ہیں۔ کہیں گالیوں اور دوسری جہالتوں سے اس کی تواضع کی جاتی ہے،کہیں اس پر الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے، کہیں اس کو فتنوں میں اُلجھانے کی نت نئی تدبیریں کی جاتی ہیں۔ کہیں اُسے گھر سے نکال دیا جاتا ہے، میراث سے محروم کیا جاتا ہے دوستیاں اور رشتہ داریاں اس سے منقطع کرلی جاتی ہیں اور اس کے لیے اپنے ماحول میں سانس لینا تک دشوار کردیا جاتا ہے، تو ان حالات میں جو کارکن نہ ہمت ہارے نہ حق سے پھرے، نہ باطل پرستوں کے آگے سپر ڈالے نہ مشتعل ہوکر اپنے دماغ کا توازن کھوئے۔ بلکہ اس کے برعکس حکمت اور تدبر اور ثابت قدمی اور راست بازی اور پرہیز گاری اور ایک سچے حق پرست کی سی ہمدردی وخیر خواہی کے ساتھ اپنے مسلک پر قائم اور اپنے ماحول کی اصلاح میں پیہم کوشاں رہے۔ اس کے اندر ان اوصاف عالیہ کا پیدا ہونا اور نشوونما پانا یقینی ہے جو آگے چل کر ہماری اس جدوجہد کے دوسرے مرحلوں میں اس سے بہت زیادہ بڑے پیمانے پر درکار ہوں گے۔
اس تبلیغ کے سلسلہ میں ہم نے وہی طریقِ کار اپنے کارکنوں کو سکھانے کی کوشش کی ہے جو قرآن مجید میں تعلیم فرمایا گیاہے، یعنی یہ کہ حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ خدا کے راستے کی طرف دعوت دیں۔ تدریج اور فطری ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے لوگو ں کے سامنے دین کے اوّلین بنیادی اصولو ں کو اور پھر،رفتہ رفتہ ان کے مقتضیات اور لوازم کو پیش کریں ،کسی کو اس کی قوتِ ہضم سے بڑھ کر خوراک دینے کی کوشش نہ کریں ،بنیادی خرابیوں کو رفع کیے بغیرظاہری برائیوں اور بیرونی شاخوں کو چھانٹنے پر اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ غفلت اور اعتقادی وعملی گمراہیوں میں پھنسے ہوئے لوگوں کے ساتھ نفرت وکراہیّت کا برتائوکرنے کے بجائے ایک طبیب کی سی ہمدردی وخیرخواہی کے ساتھ ان کے علاج کی فکر کریں ،گالیوں اور پتھروں کے جواب میں دعائے خیر کرنا سیکھیں ،ظلم اور ایذاء رسانی پرصبر کریں ،جاہلوں سے بحثوں اور مناظروں اور نفسانی مجادلوں میں نہ اُلجھیں ،لغو اور بیہودہ باتوں سے عالی ظرف اور شریف لوگو ں کی طرح درگزر کریں ،جولوگ حق سے مستغنی بنے ہوئے ہوں ان کے پیچھے پڑنے کے بجائے ان لوگو ں کی طرف توجہ کریں جن کے اندر کچھ طلب حق پائی جاتی ہو خواہ وہ دُنیوی اعتبار سے کتنے ہی ناقابل توجہ سمجھے جاتے ہوں اور اپنی تمام سعی وجہد میں ریا اور نمودونمائش سے بچیں ،اپنے کارناموں کوگنانے اور فخرکے ساتھ ان کا مظاہرہ کرنے اور لوگوں کی توجہات اپنی طرف کھینچنے کی ذرا برابرکوشش نہ کریں بلکہ جو کچھ کریں اس نیّت اور اس یقین واطمینان کے لیے ہے اور خدا بہرحال ان کی خدمات سے واقف ہے اور ان خدمات کی قدر بھی اسی کے ہاں ہونی ہے خواہ خلق اس سے واقف ہویا نہ ہو اور خلق کی طرف سے سزا ملے یاجزا۔ یہ طریق کار غیر معمولی صبر اور حلم اور لگاتارمحنت چاہتا ہے۔ اس میں ایک مدت دراز تک مسلسل کام کرنے کے بعد بھی شاندار نتائج کی وہ ہری بھری فصل لہلہاتی نظر نہیں آتی جو سطحی اور نمائشی کام شروع کرتے ہی دوسرے دن سے تماشائیوں اور مداریوں کادل لبھانا شروع کردیتی ہے۔ اس میں ایک طرف خودکارکن کے اندر وہ گہری بصیرت، وہ سنجیدگی ، وہ پختہ کاری اور وہ معاملہ فہمی پیدا ہوتی ہے جو اس تحریک کے زیادہ صبر آزمااور زیادہ محنت و حکمت چاہنے والے مراحل میں درکار ہونے والی ہے۔ اور دوسری طرف اس سے تحریک اگرچہ آہستہ رفتار سے چلتی ہے مگر اس کا ایک ایک قدم مستحکم ہوتا چلا جاتا ہے صرف ایسے ہی طریق تبلیغ سے سوسائٹی کا مکھن نکال کر تحریک میں جذب کیا جاسکتا ہے۔ اوچھے اور سطحی لوگوں کی بھیڑجمع کرنے کے بجائے اس طریق تبلیغ سے سوسائٹی کے صالح ترین عناصر تحریک کی طرف کھنچتے ہیں اور سنجیدہ کارکن تحریک کو میسر آتے ہیں جن میں سے ایک ایک آدمی کی شرکت ہزار بوالفضولوں کے انبوہ سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔
ہمارے طریقِ کار کا ایک بڑا اہم جزیہ ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو نظام ِباطل کی قانونی اور عدالتی حفاظت سے خود بخود محروم کرلیا(۱) ہے اور علی الاعلان دنیا کو بتادیا ہے کہ ہم اپنے انسانی حقوق، اپنے مال وجان اور عزت وآبرو، کسی چیز کی عصمت بھی قائم رکھنے کے لیے اس نظام کی مدد حاصل کرنا نہیں چاہتے جس کو ہم باطل سمجھتے ہیں۔ لیکن اس چیز کو ہم نے تمام ارکان پر لازم نہیں کیا ہے۔ بلکہ ان کے سامنے ایک بلند معیار رکھ دینے کے بعد ان کو اختیار دے دیا ہے کہ چاہیں تو اس معیار کی انتہائی بلندیوں تک پہنچ جائیں ورنہ حالات کی مجبوریوں سے شکست کھا کھا کر جس قدر پستی میں گرنا چاہیں گرتے چلے جاہیں البتہ پستی کی ایک حد ہم نے مقرر کر دی ہے کہ اس سے گر جانے والے کو ہم اپنی جماعت میں نہ رکھیں گے۔ یعنی ایسا شخص جو جھوٹا مقدمہ بنائے، یا جھوٹی شہادت دے، یا ایسی مقدمہ بازی میں الجھے جس کے لیے کسی مجبوری کا عذہ نہ پیش کیا جا سکے۔ بلکہ وہ سراسر منفعت طلبی یا نفسانیت کی تسکین یا دوستی اور رشتہ داری کی عصبیت ہی پر مبنی ہو ، ہماری جماعت میں جگہ نہیں پاسکتا۔
بظاہر لوگ ہمارے اس طریقِ کار کی حکمتوں کو جو ہم نے قانون وعدالت کے معاملے میں اختیار کیا ہے پوری طرح نہیں سمجھتے اس لیے وہ طرح طرح کے سوالات ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ مگر فی الحقیقت اس کے بے شمار فائدے ہیں۔ اسکااوّلین فائدہ یہ ہے کہ ہم اپنا ایک بااصول جماعت ہونا اپنے عمل سے اور ایسے عمل سے ثابت کردیتے ہیں جو محض تفریحی نوعیت ہی نہیں رکھتا بلکہ صریح طور پر نہایت تلخ اور انتہائی کڑی آزمائشیں اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا کے سواکسی کو انسانی زندگی کے لیے قانون بنانے کا حق نہیں ہے، اور جب ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ حاکمیت صرف خدا کا حق ہے اور خدا کی اطاعت اور اس کے قانون کی پابندی کے بغیر کوئی زمین میں حکم چلانے کا مجاز نہیں ہے اور جب ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ جو قانونِ الٰہی کی سند کے بغیر معلاماتِ انسانی کا فیصلہ کرے وہ کافر اور فاسق اور ظالم ہے تو ہمارے اس عقیدے اور ہمارے اس دعوے سے خود بخود یہ بات لازم آجاتی ہے کہ ہم اپنے حقوق کی بنیاد کسی غیر الہٰی قانون پر نہ رکھیں اور حق اور غیر حق کا فیصلہ کسی ایسے حاکم کی حکومت پر نہ چھوڑیں جس کو ہم باطل سمجھتے ہیں۔ اپنے عقیدے کے اس تقاضے کو اگر ہم سخت سے سخت نقصانات اور انتہائی خطرات کے مقابلے میں بھی پورا کرکے دکھادیں تو یہ ہماری راستی اور ہماری مضبوطی سیرت اور ہمارے عقیدے اور عمل کی مطابقت کا ایسا بین ثبوت ہوگا جس سے بڑھ کر کسی دوسرے ثبوت کی حاجت نہیں رہتی۔ اور اگر کسی نفع کی امید یا کسی نقصان کا خطرہ یا کسی ظلم و ستم کی چوٹ ہم کو مجبور کردے کہ ہم اپنے عقیدے کے خلاف کام کر گذریں تو یہ ہماری کمزوری کا اور ہماری سیرۃ کے بودے پن کا بھی ایک نمایا ں ترین ثبوت ہوگا جس کے بعد کسی دوسرے ثبوت کی ضرورت نہ رہے گی۔
اس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اپنے ارکان کی پختگی اور ان کے قابل اعتمادیا نا قابل اعتماد ہونے کا اندازہ کرنے کے لیے ہمارے پاس یہ ایک ایسی کسوٹی ہوگی جس سے ہم بآسانی یہ معلوم کرتیں رہیں گے کہ ہم میں سے کون لوگ کتنے پختہ ہیں اور کس سے کس قسم کی آزمائش میں ثابت قدم رہنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔
اس کا تیسرا اور عظیم الشان فائدہ یہ ہے کہ ہمارے ارکا ن یہ مسلک اختیار کرنے کے بعد آپ سے آپ اس بات پرمجبور ہوجائیں گے کہ سوسائٹی کے ساتھ اپنے تعلقات کو قانون کی بنیادوں پرقائم کرنے کے بجائے اخلاق کی بنیادوں پرقائم کریں۔ ان کواپنا اخلاقی معیار کو اتنا بلند کرنا پڑے گا ،اپنے آپ کواپنے ماحول میں اس قدرراست باز ،اتنا متدین ،اتنا امین ،اتنا خدا ترس اور اس قدر خیر مجسم بناناپڑے گا کہ لو گ خود بخود ان کے حقوق ،ان کی عزت اور ان کی جان ومال کا احترام کرنے پرمجبور ہوجائیں گے کیونکہ اس اخلاقی تحفظ کے سواان کے لیے دنیا میں اور کوئی تحفظ نہ ہوگا اور قانونی تحفظ سے محروم ہونے اور پھر اخلاقی تحفظ بھی حاصل نہ کرنے کی صورت میں ان کی حیثیت دنیا میں بالکل ایسی ہوکررہ جائے گی۔ جیسے جنگل میں ایک بکری بھیڑیوں کے درمیان رہتی ہو۔
اس کا چوتھا فائدہ یہ ہے اور یہ بھی کچھ اہم نہیں ہے کہ ہم اس طرح اپنے آپ کو اور اپنے مفاد اور حقوق کوخطرے میں ڈال کر موجودہ سوسائٹی کی اخلاقی حالت کو بالکل برہنہ کر کے دنیا کے سامنے رکھ دیں گے۔جب یہ لوگ جاننے کے بعد کہ ہم پولیس اور عدالت سے اپنی حفاظت کے لیے کوئی مدد لینے والے نہیں ہیں، ہمارے حقوق پر علی الا علان ڈاکے ماریں گے تو یہ اس بات کا نمایاں ترین ثبوت ہو گاکہ ہمارے ملک کی اور ہماری سوسائٹی کی اخلاقی حالت کس قدر کھو کھلی ہے، کتنے آدمی ہیں جو صرف اس وجہ سے شریف بنے ہوئے ہیں کہ قانون نے ان کو شریف بنا رہنے پر مجبور کر رکھا ہے، کتنے آدمی ہیں جو ہر قسم کی خیانت اور بے ایمانی کرنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں، بشر طیکہ ان کو اطمینان ہو جائے کہ دنیا میں کوئی ان پر گرفت کرنے والانہیں ہے۔ کتنے آدمی ہیں جنہوں نے مذہب اور اخلاق اور انسانیت کے جھوٹے لبادے اوڑھ رکھے ہیں حالانکہ اگر موقع میسر آجائے اور کوئی رکاوٹ موجود نہ ہو تو ان سے بدترین بداخلاقی اور لامذہبیت اور حیوانیت کا صدور نہایت آسانی کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ یہ اخلاقی ناسُور جو چھپا ہوا ہے اور اندر ہی اندر ہماری قومی سیرت کو گلا اور سٹر رہا ہے ہم اس کو علیٰ رئوس الاشہاد بے پردہ کر کے رکھ دیں گے تاکہ ہمارے ملک کا اجتماعی ضمیر چونک پڑے اور اسے ٹھیک ٹھیک اندازہ ہو کہ جس مرض سے وہ اب تک غفلت برت رہا ہے وہ کتنی دور پہنچ چکا ہے۔
صاحبو!اپنی دعوت اور اپنے طریق کار کی مختصر تشریح میں نے آپ کے سامنے پیش کر دی ہے۔آپ اس کو جانچیں اور پر کھیں اور اس پر کڑی سے کڑی تنقید کریںاور دیکھیں کہ ہم کس چیز کی طرف بلا رہے ہیں، اوربلانے کے لیے ہم نے جو ڈھنگ اختیار کیا ہے وہ کہاں تک صحیح ہے، کس حد تک خدا اور رسول ؐکی تعلیمات کے مطابق ہے، کس حد تک موجود ہ انفرادی واجتماعی امراض کا صحیح علاج ہے اور کس حد تک اس سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ہم اپنے آخری مقصود یعنی کلمۃاللہ کے بلند اورکلمات با طلہ کے پست ہو جانے کو حاصل کر سکتے ہیں۔اب میں ان شبہات واعتراضات پر کچھ عرض کردوں گا جو اسی اجتماع کے دوران میں بعض رفقاء اور ہمدردوں کے ذریعے سے مجھ تک پہنچائے گئے ہیں۔

شیئر کریں