Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
وضاحت
بنائو اور بگاڑ
قوموں کے عروج وزوال کا خدائی قانون
خدا اپنی زمین کا انتظام کسے دیتا ہے؟
زیادہ بگاڑنے والے پھینکے جاتے ہیں
باغ کے مالک اور مالی کی مثال
مالِک وملازم کے نقطۂ نظر کا فرق
خدا اور بندوں کے نقطۂ نظر کا فرق
تاریخ کی شہادت
ہندستان پر مسلمانوں کا اقتدار
اقتدار سے مسلمانوں کی معزولی
انگریزوں کا اِخراج
آزادی: ہندستان کے باشندوں کا امتحان
ہماری اَخلاقی حالت
اخلاقی تنزل کے ثمرات
کیا یہ نتائج اتفاقی ہیں؟
اپنے اعمال کا جائزہ لیجیے
اِصلاح کی فکر کیجیے
اصلاح کیسے ہو؟
اُمید کی کرن
پہلا قدم: صالح عنصر کی تنظیم
بنائو، بگاڑ کی شناخت دُوسرا قدم: بنائو، بگاڑ کا واضح تصور
بگاڑ پیدا کرنے والے عناصر
اصلاح کرنے والے عناصر

بناؤ اور بگاڑ

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

کیا یہ نتائج اتفاقی ہیں؟

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ محض کسی اتفاقی ہیجان کا نتیجہ ہے؟ اگر یہ آپ کا گمان ہے تو آپ سخت غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ ابھی مَیں آپ کو بتا چکا ہوں کہ اس ملک کی آبادی کے ۹۵ فی صد افراد اخلاقی حیثیت سے بیمار ہو چکے ہیں۔ جب افراد کی اتنی بڑی اکثریت، بداخلاق ہو جائے تو قوموں کا اجتماعی رویہ، آخر کیسے درست رہ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو‘ مسلمان اور سکھ، تینوں قوموں میں سچائی، انصاف اور حق پسندی کی کوئی قدر و قیمت باقی نہیں رہی ہے۔ راست باز، دیانت دار اور شریف انسان اِن کے اندر نِکّو بن کر رہ گئے ہیں۔ بُرائی سے روکنا اور بھلائی کی نصیحت کرنا، ان کی سوسائٹی میں ایک ناقابلِ برداشت جرم ہو گیا ہے۔ حق اور انصاف کی بات سننے کے لیے وہ تیار نہیں ہیں۔ ان میں سے ہر ایک قوم کو، وہی لوگ پسند ہیں جو اُس کی حد سے بڑھی ہوئی خواہشات اور اغراض کی وکالت کریں، دوسروں کے خلاف اس کے تعصبات کو بھڑکائیں اور اس کے جائز و نا جائز مقاصد کے لیے لڑنے کو تیار ہوں۔ اسی بِنا پر، ان قوموں نے چھانٹ چھانٹ کر، اپنے اندر سے بد ترین آدمیوں کو چنا، اور اُنھیں اپنا نمایندہ بنا لیا۔ انھوں نے اپنے اکابر مجرمین کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالا اور اُنھیں اپنا سربراہِ کار بنا لیا۔ ان کی سوسائٹی میں جو لوگ سب سے زیادہ پست اَخلاق، بے ضمیر اور بے اُصول تھے، وہ ان کی ترجمانی کے لیے اُٹھے اور اخبار نویسی کے میدان میں وہی سب سے بڑھ کر مقبول ہوئے۔
پھر یہ سب لوگ بگاڑ کی راہ پر، اپنی اپنی بگڑی ہوئی قوموں کو سرپٹ لے چلے۔ انھوں نے متضاد قومی خواہشات کو، کسی نقطۂ انصاف پر جمع کرنے کے بجائے، اتنا بڑھایا کہ وہ آخر کار نقطۂ تصادم پر پہنچ گئیں۔ انھوں نے معاشی و سیاسی اغراض کی کش مکش میں غصے اور نفرت اور عداوت کا زہر ملایا اور اُسے روز بروز بڑھاتے چلے گئے۔ انھوں نے برسوں اپنی زیرِ اثر قوموں کو اشتعال انگیز تقریروں اور تحریروں کے انجکشن دے دے کر، یہاں تک بھڑکایا کہ وہ جوش میں آ کر کتّوں اور بھیڑیوں کی طرح لڑنے کھڑی ہو گئیں۔ انھوں نے عوام و خواص کے دلوں کو ناپاک جذبات کی سنڈاس (گندگی کے ڈھیر) اور اندھی دشمنی کا تنور بنا کر رکھ دیا۔ اب جو طوفان آپ کی نگاہوں کے سامنے برپا ہے یہ کوئی وقتی اور ہنگامی چیز نہیں ہے، جو اچانک رُونما ہو گئی ہو۔ یہ تو قدرتی نتیجہ ہے، بگاڑ کے اُن بے شمار اسباب کا، جو مدتوں سے ہمارے اندر کام کررہے تھے اور یہ نتیجہ بس ایک ہی دفعہ ظاہر ہو کر نہیں رہ جائے گا‘ بلکہ جب تک وہ اسباب اپنا کام کیے جا رہے ہیں، یہ روز افزوں ترقی کے ساتھ ظاہر ہوتا چلا جائے گا۔ یہ ایک بِس بھری (زہریلی) فصل ہے جو برسوں کی تخم ریزی و آبیاری کے بعد، اب پک کر تیار ہوئی ہے اور اسے آپ کو اور آپ کی نسلوں کو، نہ معلوم کب تک کاٹنا پڑے گا۔

شیئر کریں