Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچۂ طبع اوّل
دیباچۂ طبع ششم
عقل کا فیصلہ
کوتہ نظری
ہدایت و ضلالت کا راز
اسلام ایک علمی و عقلی مذہب
اسلام میں عبادت کا تصور
جہاد فی سبیل اللہ
آزادی کا اسلامی تصوُّر
رواداری
اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
استدراک
امربالمعروف و نہی عن المنکر
نُزولِ عذاب الٰہی کا قانون
ایک مسیحی بزرگ کے چند اعتراضات
کیا نجات کے لیے صرف کلمۂ توحید کافی ہے؟
کیا رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے؟
ایمان بالرّسالت
قرآن پر سب سے بڈا بہتان
نبوت محمدی کا عقلی ثبوت
اتباع اور اطاعت رسول
رسول کی حیثیت شخصی وحیثیت نبوی
رسالت اور اس کے احکام
حدیث اور قرآن
مسلکِ اعتدال
استدراک
حدیث کے متعلق چند سوالات
قرآن اور سنت رسولؐ
ایک حدیث پر اعتراض اور اس کا جواب

تفہیمات (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

کیا رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے؟

ایک صاحب نے میرے مضمون’’ اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی‘‘ میں ایمان کی بحث پڑھ کر ایک شبہ پیش کیا ہے جو درج ذیل ہے:
’’اسلام کا مقصود بالذات توحید و عبادت الٰہی ہے۔ انبیاء محض ذریعہ ہیں اور ان پر ایمان مقصود اصلی نہیں ہے۔ ہر شخص ایمان کے لیے وسعت علم و فکر تک مکلف ہے۔ لہٰذا اگر کوئی غیر مسلم توحید پر ایمان رکھے اور اپنے طریق پر عبادت الٰہی کرے مگر اپنے علم اور فکر سے کام لینے کے باوجود رسالت کے متعلق نیک نیتی سے شکوک رکھتا ہو ایسے شخص کو ناجی قرار نہ دینے کی معقول وجوہ کیا ہیں؟ اس سلسلے میں ذیل کی آیات توجہ کے قابل ہیں:
يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَۃٍ سَوَاۗءٍؚبَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ الخ آل عمران64:3
وَلَوْ اٰمَنَ اَھْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ۝۰ۭ مِنْھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَكْثَرُھُمُ الْفٰسِقُوْنَ
آل عمران 110:3
لَيْسُوْا سَوَاۗءً۝۰ۭ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اُمَّۃٌ قَاۗىِٕمَۃٌ يَّتْلُوْنَ اٰيٰتِ اللہِ اٰنَاۗءَ الَّيْلِ وَھُمْ يَسْجُدُوْنَo يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُسَارِعُوْنَ فِي الْخَيْرٰتِ۝۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ مِنَ الصّٰلِحِيْنَo وَمَا يَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ يُّكْفَرُوْہُ۝۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌۢ بِالْمُتَّقِيْنَo آل عمران: 113-115:3
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَاٰمِنُوْا بِرَسُوْلِہٖ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَّحْمَتِہٖ الحدید28:57
آیت مؤخر الذکر کے متعلق یہ بھی بتائیے کہ کفلین سے کیا مراد ہے اور کفل تثنیہ کیوں ہے؟‘‘
آپ نے اپنے پہلے فقرے میں اسلام کا جو مقصد بیان فرمایا ہے وہ دراصل اسلام کے مقصد کا پورا پورا بیان نہیں ہے بلکہ اس کا صرف ایک حصہ ہے۔ لیکن میں بہ خوف طوالت اس بحث میں نہ پڑوں گا۔ میں یہاں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اسلام کا جوادھورا مقصد آپ نے متعین کیا ہے، اس کو حاصل کرنے کے لیے بھی انبیاء علیہم السلام کی رہنمائی ناگزیر ہے۔
سب سے پہلا سوال جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، یہ ہے کہ اسلام کا جو مقصد آپ قرار دیتے ہیں اس کے حصول کا یقینی ذریعہ کیا ہے۔ ’’توحید‘‘ جس چیز کا نام ہے وہ صرف ’’خدا کو ایک کہنا‘‘ ہی نہیں ہے بلکہ وہ دراصل اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی صحیح معرفت ہے۔ اسی طرح ’’عبادت الٰہی‘‘ کا مفہوم بھی صرف اسی قدر نہیں ہے کہ کسی نہ کسی طور پر خدا کی پرستش کی جائے، بلکہ صحیح معنوں میں اللہ کی عبادت یہ ہے کہ انسان شرک کے تمام شائبوں سے بچ کر اپنی زندگی کو اس ذات پاک کی بندگی کے لیے خالص کر دے۔ یہ دونوں چیزیں (یعنی علم و معرفت کی صحت، اور عبادت کا خلوص) اسلام کی اصطلاح میں ’’ہدایت‘‘ کے جامع نام سے موسوم ہیںاور قرآن کہتا ہے کہ ہدایت جس شے کا نام ہے وہ وہی ہے جو خدا کی طرف سے عطا ہو۔ قُلْ اِنَّ الْھُدَی ھُدَی اللّٰہِ
خدا کی طرف سے ہدایت پانے کی دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ یا تو کسی کے پاس براہ راست خدا کی طرف سے ہدایت آئے، یا کسی ایسے شخص کا اتباع کیا جائے جس کے پاس خدا کی طرف سے براہ راست ہدایت آئی ہو۔ پہلا شخص اسلام کی اصطلاح میں رسول یا نبی ہے۔ اور دوسرے شخص کے لیے اصطلاحی نام ’’مومن‘‘ یا ’’مسلم‘‘ ہے۔ پس اگر کوئی شخص توحید کا صحیح علم رکھتا ہے اور اپنی بندگی و عبادت کو خدائے واحد کے لیے مخصوص کر چکا ہے، تو لا محالہ یا تو وہ خود نبی ہے یا کسی نبی کا متبع۔ لیکن اگر وہ ان دونوں میں سے کوئی بھی نہیں ہے تو اس کے پاس علم نہیں ہے محض گمان اور اٹکل ہےوَاِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَـيْــــًٔاo انجم28:53 اور جب اس کے پاس ’’علم‘‘ نہیں ہے تو اس کی عبادت بھی خالص نہیں ہوسکتی، کیونکہ عبادت کا خالصۃً اللہ کے لیے ہونا اس پر موقوف ہے کہ آدمی کو اللہ کی صحیح معرفت حاصل ہو۔
آپ کو یہ مطالبہ کرنے کا حق ہے کہ قرآن کے اس دعویٰ پر عقلی دلیل پیش کی جائے۔ میں اس مطالبے کو پورا کرنے کے لیے حاضر ہوں۔
اس میں شک نہیں کہ انسان کی فطرت میں خدا کی معرفت کا جوہر موجود ہے اور یہ بات بھی اس کی فطرت ہی میں ہے کہ وہ صرف خدا کی بندگی کرے جیسا کہ قرآن میں کہا گیا ہےفِطْرَتَ اللہِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْہَا۝۰ۭ الروم30:30 اور حدیث نبوی میں آیا ہے کہ کُلُّ مَوْلُوْدیُوْلَدُ عَلٰی فِطْرَۃِ الْاِسْلَامِ۔۱؎ لیکن اس فطری استعداد کے قوت سے فعل میں آنے کے لیے چند شرائط ہیں، اور بادنیٰ تامل یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ شرائط ہر شخص میں پوری نہیں ہوتیں۔
پہلی شرط قوت مشاہدہ کا استعمال اور صحیح استعمال ہے، تاکہ انسان آنکھیں کھول کر آفاق و انفس میں اللہ کی نشانیوں کو دیکھے اور صفات الٰہی کے ان نشانات کو پہچانے جو ہر ذرّے اور خود انسان کے اپنے وجود میں پائے جاتے ہیں۔ لیکن نوع انسانی کی ایک بڑی اکثریت ایسی ہے جو اس طرح کا مشاہدہ نہیں کرتی۔ وہ آثار ومظاہر کے صرف ظاہری پہلو کو دیکھتے ہیں، مگر ان کے باطن کی طرف توجہ بھی نہیں کرتے۔ چنانچہ قرآن اس کی شکایت کرتا ہے کہ
وَكَاَيِّنْ مِّنْ اٰيَۃٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ يَمُرُّوْنَ عَلَيْہَا وَہُمْ عَنْہَا مُعْرِضُوْنَo
یوسف105:12
آسمانوں اور زمین میں اللہ کی کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے لوگ یونہی گزر جاتے ہیں اور غور و فکر نہیں کرتے۔
وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰيٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَo یونس92:10 لوگوں میں سے بہت سے ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔‘‘ ظاہر ہے کہ جو لوگ سرے سے مشاہدے کی قوت ہی استعمال نہیں کرتے ان کے لیے معرفت کا دروازہ کبھی نہیں کھل سکتا۔
دوسری شرط یہ ہے کہ انسان میں غور و فکر کا مادہ موجود ہو، اور وہ بھی صحیح و سلیم ہو، تاکہ انسان اپنے مشاہدات کو صحیح طریقے سے ترتیب دے کر ان سے صحیح نتائج اخذ کرسکے۔ یہ شرط پہلی شرط سے بھی زیادہ کمیاب ہے۔ اوّل تو غور و فکر کرنے والے افراد ہی نوع انسانی میں بہت کم ہیں، اور جو ہیں ان میں بھی صحیح الفکر افراد کم پائے جاتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید بار بار کہتا ہے کہ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَایَعْلَمُوْنَ اور وَلٰکِنَّ اَکْثَرَالنَّاسِ لَا یَعْقِلُوْنَ۔ یہ غور و فکر کا فقدان اور صحت فکر کی کمیابی ان موانع میں سے ہے جو انسان کو علم حق تک پہنچنے سے روکتے اور اسے ٹیڑھے راستوں پر ڈال دیتے ہیں۔ اگرچہ راہ راست کے نشانات ہر طرف موجود ہیں مگر جو شخص ان نشانات کو دیکھتا ہی نہ ہو، یا دیکھتا تو ان سے ٹھیک نتیجہ نہ نکالتا ہو وہ کیوں کر صحیح راستہ پا سکتا ہے؟ یہی بات قرآن مجید میں کہی گئی ہے کہ ہم اپنی نشانیاں کھول کھول کر پیش کرتے ہیں مگر ان کے لیے جو عقل رکھتے ہوں۔ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَo الروم28:30 اور دیکھے کہ یہی بات دوسرے موقع پر کتنے زور کے ساتھ کہی گئی ہے:
وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَــہَنَّمَ كَثِيْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ۝۰ۡۖ لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ بِہَا۝۰ۡوَلَہُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِہَا۝۰ۡوَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِہَا۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَo اعراف179:7
ہم نے جنوں اور انسانوں میں سے ایک بڑی تعداد کو دوزخ کے لیے پیدا کیا ہے جن کا حال یہ ہے کہ دل رکھتے ہیں مگر ان سے سمجھنے بوجھنے کی خدمت نہیں لیتے، آنکھیں رکھتے ہیں مگر ان سے دیکھتے نہیں، کان رکھتے ہیں مگر ان سے سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ، یہ وہی لوگ ہیں جو غفلت برتنے والے ہیں۔
تیسری شرط یہ ہے کہ اس کی طبیعت ایسی سلیم ہو کہ وہ سوسائٹی کے اثرات، باپ دادا کی تربیت اور خاندانی و قومی روایات سے متاثر نہ ہو اور ان سب پردوں کو چاک کرکے نور حقیقت کو صاف صاف دیکھ لے۔ یہ شرط پہلی دونوں شرطوں سے زیادہ کمیاب ہے۔ بڑے بڑے ذی علم، عاقل اور ذکی و فطین لوگوں کو دیکھا ہے کہ سوسائٹی اور خاندان کے اثرات سے آزاد نہیں ہوسکتے۔ جس ڈگر پر ماحول نے ان کو ڈال دیا ہے، اسی پر چلے جارہے ہیں اور اسی کو حق سمجھتے ہیں۔ قرآن مجید اس کو بھی گمراہی کا اہم سبب بتاتا ہے۔ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا۝۰ۭ اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَہْتَدُوْنَo المائدہ104:5
چوتھی شرط یہ ہے کہ انسان میں حق پسندی اور اس کے ساتھ قوت ارادی اتنی زبردست ہو کہ وہ خود اپنے نفس کی خواہشات اور رجحانات کا مقابلہ کرسکے۔ کیونکہ خواہش نفس اوّل تو معرفت حق ہی میں مانع ہوتی ہے، اور اگر کوئی شخص حق کو پہچان بھی لے تو وہ اس کو اپنے علم کے مطابق عمل کرنے سے روکتی ہے، قدم قدم پر مزاحمت کرتی ہے۔ انسان کے نفس میں یہ ایسی زبردست قوت ہے جو اکثر اس کی عقل و فکر پر چھا جاتی ہے اور بسا اوقات اس کو جانتے بوجھتے غلط راستوں پر بھٹکا دیتی ہے۔ معمولی آدمی تو درکنار بڑے بڑے لوگ بھی جو اپنے علم و فضل اور اپنی عقل و بصیرت اور فہم فراست کے لحاظ سے یکتائے روزگار ہوتے ہیں، اس رہزن کی شرارتوں سے بچنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اس چیز کو قرآن مجید میں بھی گمراہی کا سب سے بڑا سبب قرار دیا گیا۔
وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ بِغَيْرِ ہُدًى مِّنَ اللہِ۝۰ۭ القصص50:28
اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہوگا جس نے اللہ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی ہوائے نفس کی پیروی کی۔
اَفَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰــہَہٗ ہَوٰىہُ وَاَضَلَّہُ اللہُ عَلٰي عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰي سَمْعِہٖ وَقَلْبِہٖ وَجَعَلَ عَلٰي بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً۝۰ۭ جاثیہ23:45
تو کیا تو نے دیکھا اس شخص کو جس نے اپنی خواہش نفس ہی کو اپنا خدا بنا لیا۔ باوجودیہ کہ وہ علم رکھتا تھا مگر (جب اس نے ایسا کیا تو) اللہ نے اسے بھٹکا دیا اور اس کے دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔
اور تو اور بسا اوقات پیغمبروں تک کو اس نفس شریر کی رہزنی کے خطرے پیش آئے ہیں۔ چنانچہ حضرت دائود جیسے جلیل القدر پیغمبر کو ایک موقع پر تنبیہ کی گئی ہے کہلَا تَتَّبِعِ الْہَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۭ ص26:38 ہوائے نفس کی پیروی نہ کرنا ورنہ یہ تمھیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دے گی۔
آخری شرط یہ ہے کہ انسان کی وجدانی قوتیں بیدار ہوں، اس کے ذہن کا سانچہ ایسا ہو کہ صحیح اور حق بات سوچنے اور سمجھنے کے لیے غور و فکر اور استدلال عقلی کا زیادہ محتاج نہ ہو، بلکہ فطرتاً وہ غلط بات کو قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہو اور قیاس و استدلال کے بغیر محض حدس Intuition (وجدان)کی قوت سے سچی اور حق بات تک پہنچ جائے۔ یہ شرط سب سے زیادہ کڑی مگر معرفت کی تکمیل کے لیے سب سے زیادہ اہم ہے۔ انسان کا مشاہدہ خواہ کتنا ہی صحیح ہو، غور و فکر اور تعقل و تدبر کی قوت سے وہ کتنا ہی بہرہ مند ہو، اور تقلید غیر و بندگی نفس کی زنجیروں سے کتنا ہی آزاد ہو، لیکن جو حقیقتیں اس کے حواس سے ماوراء ہیں اور جن کی کنہ پر اس کی عقل پوری طرح حاوی ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتی، ان کا علم اور یقینی علم انسان کو محض آثار کے مشاہدے اور محض آزادانہ تفکر کی بدولت حاصل نہیں ہوسکتا۔ وہ ان حقیقتوں کے قریب تک پہنچ سکتا ہے، مگر ان کا ادراک نہیں کرسکتا۔ وہ عقل کے زور پر زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہے کہ شاید ایسا ہو، اغلب ہے کہ ایسا ہو، یا حد سے حد یہ کہ ایسا ہونا چاہیے۔ لیکن محض تعقل اس کو اتنی قوت بہم نہیں پہنچا سکتا کہ وہ جزم و یقین کے ساتھ کہہ سکے کہ فی الواقع ایسا ہے اور یہی حقیقت اور صداقت ہے، اور اس کے سوا جو کچھ ہے قطعاً باطل اور غلط ہے۔ یہ جزم اور یقین اور ایمان کامل کی کیفیت صرف ’’حدس‘‘ سے پیدا ہوتی ہے۔ عرفان کی آخری منزل میں پہنچ کر قیاس و استدلال کام نہیں دیتا۔ وہاں بجلی کی سی سرعت کے ساتھ ذہن میں ایک روشنی نمودار ہوتی ہے اور وہ آن کی آن میں حقیقت کا مشاہدہ کرا دیتی ہے، ویسا ہی مشاہدہ جیسا کہ ہم اپنی آنکھوں سے کوئی مرئی چیز دیکھ رہے ہیں۔ اسی مشاہدے پر جزم و یقین کی بنا قائم ہوتی ہے۔ اس وقت انسان کا اعتقاد گمان اور اندازے اور اٹکل جیسی کمزور اور متزلزل بنیادوں پر نہیں ہوتا بلکہ وہ دل کی آنکھوں سے مشاہدہ کرکے ایک ایسی دیکھی بھالی بات پر ایمان لاتا ہے جس کی صداقت میں شک اور شبہ اور جانب مخالف کے امکان کا کوئی شائبہ تک نہیں ہوتا۔ اسی کا نام معرفت کامل ہے۔ اور جب تک معرفت کا یہ درجہ حاصل نہ ہو، انسان نہ پورا پورا خدا شناس ہوسکتا ہے اور نہ خدا کے لیے اس کی بندگی خالص ہوسکتی ہے۔ لیکن حدس کی یہ روشنی جس پر معرفت کی تکمیل موقوف ہے، انسان کے اپنے بس کی نہیں۔ نہ وہ اس کی حقیقت سے واقف ہے، نہ اس کو پیدا کرنے پر قادر ہے، اور نہ کسب و کوشش سے اس کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یہ محض خداداد ہے، اور یہی وہ چیز ہے جس کو قرآن مجید میں ’’نور خداداد‘‘ اور بُرہان رب‘‘ اور ’’ہدایت الٰہی‘‘ اور ’’تعلیم خداوندی‘‘ وغیرہ الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مثلاً ارشاد ہوتا ہے کہ وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللہُ لَہٗ نُوْرًا فَمَا لَہٗ مِنْ نُّوْرٍo النور40:24 جس کو اللہ نے روشنی نہ دی ہو اس کے لیے پھر کوئی روشنی نہیں۔ حضرت یوسف کے متعلق فرمایا ہے کہ لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْہَانَ رَبِّہٖ۝۰ۭ یوسف24:12 اگر وہ اپنے رب کی بُرہان نہ دیکھ لیتا تو وہ بھی بھٹک جاتا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوتا ہے کہ قُلْ اِنَّنِيْ ہَدٰىنِيْ رَبِّيْٓ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍۥۚ انعام160:6 لوگوں سے کِہہ دو کہ مجھ کو میرے رب نے راہ راست کی طرف ہدایت بخشی ہے۔حضرت موسیٰ کے متعلق ارشاد ہوتا ہے کہ وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَاسْتَوٰٓى اٰتَيْنٰہُ حُكْمًا وَّعِلْمًا۝۰ۭ قصص28:14 اور جب وہ پوری جوانی کو پہنچا اور پورا آدمی بن گیا تو ہم نے اس کو قوت فیصلہ اور علم عطا کیا۔
اب ان پانچ شرطوں پر غور کیجیے۔ اگر آپ کو ان میں سے کسی شرط کی ضرورت سے انکار ہے تو وجہ انکار ارشاد ہو، اگر کسی شرط کے بغیر انسان صداقت اور حقیقت تک پہنچ سکتا ہو تو دلیل پیش فرمائی جائے اور اگر حقیقت تک پہنچنے کے لیے ان پانچوں شرطوں کا پورا ہونا آپ کی رائے میں لازم ہے تو بتائیے کہ کتنے لاکھ نہیں کتنے کروڑ بلکہ کتنے ارب انسانوں میں سے ایک میں یہ شرطیں اس کمال کے ساتھ پوری ہوتی ہیں کہ وہ خداوند جل و علا جیسی سرحد ادراک سے وراء الوراء ہستی کی معرفت ِ کامل حاصل کر سکے؟ اگر آپ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ جنس گراں کمیاب ہے، تو پھر فرمائیے کہ ان کروڑوں بندگان خدا کا کیا حشر ہو جو اس سے محروم ہیں یا اگر بہرہ مند بھی ہیں تو اس درجہ نہیں؟ کیا ہر شخص کو اس کے ناقص ذرائع کے ساتھ چھوڑ دیا جائے کہ وہ خود اپنی اندھی آنکھوں اور مفلوج پائوں کے ساتھ خود ہی راستہ ٹٹول کر چلے، جس چیز کو چاہے نیک نیتی کے ساتھ خدا سمجھ لے، اور جس طرح چاہے اس کی پوجا کرے؟ اگر آپ کا یہی خیال ہے تو آپ کیوں نہیں کہتے کہ ہر شخص کو اپنے مرض کا علاج آپ کرنا چاہیے، کسی طبیب اور ڈاکٹر کی ضرورت نہیں۔ ہر شخص کو اپنا راستہ آپ تلاش کرنا چاہیے، کسی سے راستہ پوچھنے اور کسی کو راستہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ ہر شخص کو خود ہی علم حاصل کرنا چاہیے، کسی استاد اور معلم کی حاجت نہیں… کیا اس دنیا کا پورا نظام یونہی چل رہا ہے؟
انسان کے محدود ذہن میں اتنی سمائی نہیں ہے کہ تمام جہان کی قابلیتیں بیک وقت ایک ہی شخص میں جمع ہو جائیں حتیٰ کہ وہ اپنے ہر کام میں دوسروں کی مدد سے بے نیاز رہے۔ دوسری طرف انسان کی ضروریات اتنی وسیع اور گوناگوں ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کے لیے خاص قسم کی قابلیت درکار ہے اور زندگی کا ہر شعبہ اپنے لیے مناسب حال قابلیتیں چاہتا ہے۔اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے مختلف انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مختلف لوگوں کو مختلف قابلیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ کسی کو طب سے لگائو ہے اور وہ لوگوں کی طبی ضروریات کو پورا کر رہا ہے۔ کسی کو قانون سے لگائو ہے۔ کسی کو تجارت سے، کسی کو کاشتکاری سے۔ کسی کو صنعت و حرفت سے، کسی کو حکومت و سیاست سے۔ اور یہ سب اپنے اپنے شعبے میں نوع انسانی کے محتاج الیہ ہیں۔ ہر شعبۂ زندگی کے مخصوص معاملات میں دوسرے تمام شعبوں کے لوگ اسی خاص شعبے کے آدمیوں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ جو شخص اس نظام کو توڑ کر آپ ہی اپنا طبیب، اپنا وکیل، اپنا مزارع، اپنا بیوپاری اور اپنا صناع بننے کی کوشش کرے گا، وہ خواہ کتنی ہی ’’نیک نیتی‘‘ کے ساتھ اس حماقت کا مرتکب ہو، فطرت کے نظام کو توڑنے کا نتیجہ بہرحال ظاہر ہو کر رہے گا اور وہ یقیناً ناکام زندگی بسر کرے گا۔
یہ نظام جس طرح زندگی کے تمام معاملات میں درست ہے، اسی طرح مذہب کے معاملے میں بھی درست ہے۔ یہاں بھی ہر شخص اس خاص قابلیت سے بہرہ مند نہیں ہے جو معبود کو پہچاننے اور صحیح طریقے سے اس کی عبادت کرنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ قابلیت بھی خاص خاص لوگوں کو عطا کی گئی ہے۔ انھوں نے معبود کو پہچانا ہے اور اس کی نشانیاں کھول کھول کر بیان کر دی ہیں۔ اس کی عبادت و بندگی کا صحیح طریقہ دریافت کیا ہے اور اس کو بتا بھی گئے ہیں۔ عقلمند انسان کاکام ہے کہ اس شعبے میں اسی شعبے کے ماہروں پر اعتماد کرے، جیسی تعلیم انھوں نے دی ہے اس کو قلب و روح میں جگہ دے اور جو طریق بندگی انھوں نے قول اور عمل سے بتا دیا ہے اسی کا اتباع کرے۔ وہ بلاشبہ اس معاملے میں بھی اپنی عقل کو استعمال کرسکتا ہے۔ لیکن یہاں عقل کے استعمال کی صحیح صورت یہ نہیں ہے کہ وہ خود اپنی ناقص قوتوں اور اپنے محدود ذرائع پر اعتماد کرکے راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کرے اور جو راستہ اپنے نزدیک صحیح معلوم ہو اس پر چلنے لگے۔ بلکہ اس کی صحیح صورت یہ ہے کہ وہ اپنے لیے صحیح رہنما تلاش کرے اور جو لوگ مذہب کے میدان میں رہنمائی کے مدعی ہیں ان سب کی سیرتوں اور ان کی تعلیمات پر اپنی حد تک ایک تحقیقی نظر ڈال کر معلوم کرے کہ ان میں سے کون زیادہ بہتر اور صحیح راہ دکھانے والا ہے، کس کی ذات میں وہ پانچوں شرطیں بدرجۂ اتم پوری ہوگئی ہیں جو ہدایت یافتہ ہونے کے لیے ضروری ہیں، اور کس کی تعلیم سب سے زیادہ قابل عمل ہے۔ اس امتحان پر جو شخص پورا اترے اس کی تعلیم کو مان لینا چاہیے اور اس کے اتباع کی کوشش کرنی چاہیے۔
اس معقول طریقے کو چھوڑ کر جو شخص غیر معقول طریقہ اختیار کرے گا وہ خواہ کتنا ہی ’’نیک نیت‘‘ ہو بہرحال وہ اپنی غلطی کے بُرے نتائج ضرور دیکھے گا۔ غلطی خواہ نیک نیتی سے کی جائے یا بدنیتی سے، اس کی ذمہ داری اور اس کے وبال سے انسان بچ نہیں سکتا۔ جو شخص بیمار ہو اور فن طب کے ماہر کو تلاش کرنے اور اس پر اعتماد کرنے کے بجائے اپنے ناقص علم پر اعتماد کرکے خود اپنا علاج کرنے لگے وہ اپنی اس غلطی کا نتیجہ ضرور بھگتے گا‘ خواہ اس نے یہ غلطی کتنی ہی نیک نیتی سے کی ہے۔ جو شخص قانون کے معاملے میں ماہر قانون کو چھوڑ کر خود اپنی ناقص رائے پر عمل کرے گا وہ اپنی حماقت کے نتائج سے نہ بچ سکے گا چاہے اس نے یہ حرکت انتہائی نیک نیتی کے ساتھ کی ہو۔ غلطی بہرحال غلطی ہے اور ہر غلطی کے جو فطری نتائج مقرر ہیں وہ ہرحال میں ظاہر ہو کر رہتے ہیں۔ البتہ بدنیتی سے ایک جُرم کا اضافہ اور ہو جاتا ہے۔
اب میں ان آیات کی طرف توجہ کرتا ہوں جو آپ نے اپنے نقطۂـ نظر کی تائید میں پیش فرمائی ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے اس قاعدۂ کلیہ کو سمجھ لیجیے کہ کسی مسئلے میں قرآن مجید سے استدلال کرنے کے لیے ایک دو آیتوں کو چھانٹ کر نکال لینا کوئی صحیح طریقہ نہیں ہے بلکہ اس کے لیے پورے قرآن پر نظر ڈالنی ضروری ہے تاکہ مسئلے کے تمام پہلو سامنے آجائیں آپ کو معلوم ہے کہ قرآن مجید کوئی مسلسل تصنیف نہیں ہے جس میں ترتیب کے ساتھ ہر ہر مسئلے کو ایک ایک جگہ مفصل بیان کیا گیا ہو، بلکہ یہ مجموعہ ہے، ان آیات کا جو ۲۳ سال کی طویل مدت میں موقع اور ضروریات کے لحاظ سے وقتاً فوقتاً نازل ہوتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے جتنے مہمات مسائل ہیں وہ سب کسی ایک جگہ اپنی پوری پوری تفصیلات کے ساتھ بیان نہیں کر دیئے گئے ہیں، بلکہ پورے قرآن میں پھیلے ہوئے ہیں اور مختلف آیات میں موقع و محل کے لحاظ سے ان کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ پس اگر آپ رسالت کے مسئلے میں قرآن کی تعلیم ٹھیک ٹھیک معلوم کرنا چاہتے ہیں تو پورے قرآن پر مجموعی نظر ڈالیے۔ ایک دو آیتوں کو چھانٹ کر سلسلے سے الگ کرلیں تو غلط فہمی میں مبتلا ہو جائیں گے۔
اس قاعدے کے مطابق جب قرآن کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ قرآن کا مدعا ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہر شخص آپ اپنا راستہ تلاش کرنے کے لیے آزاد ہے اور ہر راستہ جس کو وہ نیک نیتی کے ساتھ درست سمجھتا ہے وہی حقیقت میں بھی صحیح ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس وقت بنی آدم کو زمین پر اتارا تھا اسی وقت اس نے ان کو سیدھا راستہ بتانے کاکام خود اپنے ذمے لے لیا تھا اور ان سے صاف کہہ دیا تھا کہ تمھارے لیے نجات کی صورت بس یہی ہے کہ میری طرف سے جو ہدایت تمھیں پہنچے اس کی پیروی کرو فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَo وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَo البقرہ38-39:2 پھر اس نے یہ بھی فرما دیا تھا کہ یہ ہدایت ہر شخص کے پاس فرداً فرداً نہیں بھیجی جائے گی۔ بلکہ میں خود تم ہی میں سے کچھ لوگوں کا انتخاب کروں گا اور ان پر اپنی ہدایات نازل کروں گا اور ان کو تمھارے پاس رسول بنا کر بھیجوں گا۔ ہر شخص جو میرے رسول کو اور اس کے لائے ہوئے پیغام کو سچے دل سے مانے گا وہی ہدایت پائے گا۔ يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَـقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ۝۰ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ہُمْ يَحْزَنُوْنَo اعراف35:7 جو میرے پیغامبروں کو نہ مانے گا وہ اس کی سزا پائے گا ۔ اِنْ كُلٌّ اِلَّا كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِo ۱؎ ص14:38 اور جب قیامت کے روز اس کو عذاب دیا جائے گا تو اس سے کہا جائے گا کہ کیا تمھارے پاس رسول نہیں آئے تھے اور انھوں نے تم کو خدا کی آیات نہیں سنا دی تھیں اور اس دن کے انجام سے آگاہ نہیں کر دیا تھا؟ اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَتْلُوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِ رَبِّكُمْ وَيُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَا۝۰ۭ الزمر71:39 اس کے ساتھ ہی قرآن مجید صاف کہتا ہے کہ جو شخص اللہ کے رسولوں کو نہ مانے اس کے لیے اللہ کو ماننا ہرگز نافع نہیں ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُوْنَ بِاللہِ وَرُسُلِہٖ وَيُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّفَرِّقُوْا بَيْنَ اللہِ وَرُسُلِہٖ وَيَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَكْفُرُ بِبَعْضٍ۝۰ۙ وَّيُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَّخِذُوْا بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًاo اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَ حَقًّا۝۰ۚ النساء 150-151:4
یقیناً جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں سے کفر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق کریں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لائیں گے اور بعض کا انکار کریں گے اور چاہتے ہیں کہ اس کے بیچ کی کوئی راہ اختیار کریں، وہ لوگ یقیناً کافر ہیں۔
قرآن کے نزدیک مومن وہی ہے جو اللہ کے ساتھ اس کے رسول پر بھی ایمان لائے۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ الحجرات15:49
مومن دراصل وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے۔
اور جو شخص رسول کے ذریعے سے ہدایت کا راستہ واضح ہو جانے کے بعد بھی اس کو اختیار کرنے سے انکار کرے وہ جہنم سے بچ نہیں سکتا۔ اس معاملے میں نیک نیتی اور بدنیتی کا کوئی سوال نہیں ہے۔
وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُ الْہُدٰى وَيَتَّبِـعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ۝۰ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًاo النسائ115:4
اور جو شخص ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد بھی رسول سے جھگڑا کرے اور مومنوں کے راستے پر نہ چلے اس کو ہم اسی طرف پھیر دیں گے جس کی طرف وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونک دیں گے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے۔
یہ بات قرآن مجید کی تعلیم کے اصول سے ہے اور قرآن میں آپ کہیں ایسی بات نہیں پاسکتے جو اس کے خلاف ہو۔ آپ نے جن آیات کو سیاق و سباق سے الگ کرکے پیش فرمایا ہے وہ بظاہر آپ کو اس سے متناقض معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اگر آپ سورۂ آل عمران کو چھٹے رکوع سے لے کر بارھویں رکوع تک مسلسل پڑھیں تو تناقض کا شائبہ تک نہ رہے گا۔ چھٹے رکوع میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرکے فرمایا گیا ہے کہ:
اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِيْنَo فَمَنْ حَاۗجَّكَ فِيْہِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا…… ثُمَّ نَبْتَہِلْ۔ آل عمران60-61:3
یہ علم حق تیرے رب کی طرف سے ہے لہٰذا تو شک کرنے والوں میں سے نہ ہو جائیو۔ پھر جو کوئی اس کے بارے میں تجھ سے حجت کرے جبکہ تیرے پاس علم آچکا ہے تو کہہ کہ آئو… پھر ہم مباہلہ کرلیں۔
اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ اہل کتاب کو ایک سیدھی اور صاف بات یعنی توحید خالص کی طرف دعوت دو اور ان سے کہو کہ ابراہیم جس کے بارے میں تم جھگڑتے ہو وہ یہودی یا نصرانی نہ تھا، بلکہ وہ خالص موحد تھا، اور اس کے ساتھ اصلی تعلق وہی لوگ رکھتے ہیں جو اس کا اتباع کرتے ہیں۔ پھر فرمایا جاتا ہے کہ تمام پیغمبروں سے (اور بالتبع ان کی امتوں سے) ہمیشہ یہ عہد لیا جاتا رہا ہے کہ ہر نبی جو خدا کی طرف سے تمھاری کتابوں کی تصدیق کرنے کے لیے آئے، اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا۔ اس عہد سے جو لوگ پھر جائیں وہ فاسق ہیں۔ آگے چل کر ارشاد ہوتا ہے کہ ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحق اور موسیٰ اورعیسیٰ اور دوسرے نبیوں پر جو کچھ اترا ہے اس سب پر ایمان لائو۔ یہی اسلام ہے اور جو شخص اس اسلام کے سوا کسی اور دین کا خواہاں ہو اس کا وہ دین ہرگز مقبول نہ ہوگا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھائے گا۔ وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْہُ۝۰ۚ وَھُوَفِي الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَo آل عمران85:3 آخر میں اہل کتاب کے متعلق فرمایاجاتا ہے کہ وَلَوْ اٰمَنَ اَھْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ۝۰ۭ آل عمران110:3 اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا۔ مِنْھُمُ الْمُؤمِنُوْنَ وَاکْثَرُھُمُالْفَاسِقُوْنَ۔ان میں سے تھوڑے ایمان لائے اور اکثر نافرمان ہیں۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں ایمان سے مراد رسول عربی پر ایمان ہے۔ کیونکہ جو لوگ ’’اہل کتاب‘‘ ہیں وہ موسیٰ یا عیسیٰ علیہما السلام کو یا دونوں کو اور ان کی لائی ہوئی کتابوں کو مانتے ہیں، اور خدا کے بھی قائل ہیں۔
آخری آیت جو سورۂ حدید سے آپ نے نقل فرمائی ہے، اس میں ان تمام لوگوں کو جو پچھلے انبیاء پر ایمان لاچکے ہیں، دو چیزوں کی دعوت دی گئی ہے۔ ایک یہ کہ خدا سے ڈریں اورتقویٰ اختیار کریں، دوسرے یہ کہ خدا کے رسول یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں۔ پھر فرمایا کہ اگر تم یہ دونوں باتیں اختیار کرو گے تو تم کو خدا کی رحمت کے دو حصے ملیں گے، یعنی ایک حصہ انبیائے سابقین پر ایمان اور تقویٰ کے اجر میں اور دوسرا حصہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے اجر میں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ تقویٰ اور پرہیزگاری کے ساتھ پچھلے انبیاء پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کی دی ہوئی تعلیم پر ٹھیک ٹھیک عامل ہیں ان کو بھی خدا کی رحمت کا کچھ نہ کچھ حصہ ملے گا۔ اس کی تائید دوسری آیات سے بھی ہوتی ہے۔ مثلاً وَالَّذِيْنَ يُمَسِّكُوْنَ بِالْكِتٰبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ۝۰ۭ اِنَّا لَا نُضِيْعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِيْنَo اعراف170:7 يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰي شَيْءٍ حَتّٰي تُقِيْمُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۭ المائدہ68:5 لیکن ایک دوسرے موقع پر یہ بھی تو فرمایا ہے:
اَفَمَنْ يَّعْلَمُ اَنَّمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ ہُوَاَعْمٰى۝۰ۭ الرعد19:13
کیا وہ شخص جو جانتا ہے کہ جو کتاب تیرے اوپر اتاری گئی ہے وہ حق ہے، اس شخص کے مانند ہوسکتا ہے جو اندھا ہے۔
اور یہ بھی تو ارشاد ہوا ہے کہ جو لوگ پچھلی کتابوں کا صحیح علم رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ قرآن خدا کی طرف سے آیا ہے اور برحق ہے۔
وَالَّذِيْنَ اٰتَيْنٰہُمُ الْكِتٰبَ يَعْلَمُوْنَ اَنَّہٗ مُنَزَّلٌ مِّنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ انعام114:6
لہٰذا ان دونوں مضمونوں کی آیتوں کو ملانے سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ جو لوگ جہالت اور نابینائی کے باعث رسولؐ عربی کی صداقت کے قائل نہیں ہیں، مگر انبیائے سابقین پر ایمان رکھتے ہیں اور صلاح و تقویٰ کی زندگی بسر کرتے ہیں ان کو اللہ کی رحمت کا اتنا حصہ ملے گا کہ ان کی سزا میں تخفیف ہو جائے گی۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔
(ترجمان القرآن۔ جمادی الاولیٰ ۱۳۵۳ھ۔ جولائی ۱۹۳۴ئ)

شیئر کریں