یہ ہے اس ’’دین‘‘ یا طریقِ زندگی یا نظامِ زندگی کی نوعیت جس کا انسان حاجت مند ہے۔ اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اگرانسان خدا کی مدد سے بے نیاز ہوکر خود اپنے لیے اس نوعیت کا ایک دین بنانا چاہے تو کیا وہ اس کوشش میں کام یاب ہو سکتا ہے؟ میں آپ کے سامنے یہ سوال پیش نہ کروں گا کہ آیا انسان اب تک ایسا دین خود بنانے میں کام یاب ہوا ہے؟ کیوں کہ اس کا جواب تو قطعاً نفی میں ہے۔ خود وہ لوگ بھی جو آج بڑے بڑے بلند بانگ دعوئوں کے ساتھ اپنے اپنے دین پیش کر رہے ہیں اور اُن کے لیے ایک دوسرے سے لڑ مر رہے ہیں، یہ دعوٰی نہیں کر سکتے کہ ان میں سے کسی کا پیش کردہ دین ان ضرورتوں کو پورا کرتا ہے جن کے لیے انسان من حیث الانسان ایک ’’الدّین‘‘ کا محتاج ہے۔ کسی کا دین نسلی وقومی ہے، کسی کا جغرافی، کسی کا طبقاتی اورکسی کا دین پیدا ہی اس دَور کے تقاضوں سے ہوا ہے جو ابھی کل ہی گزر چکا ہے، رہا وہ دَور جوکل آنے والا ہے اس کے حالات ومسائل کے متعلق کچھ پیشگی نہیں کہا جا سکتا کہ ان میں بھی وہ کام دے سکے گا یا نہیں، کیوں کہ جو دَور اب گزر رہا ہے ابھی تو اسی کے تاریخی تقاضوں کا جائزہ لینا باقی ہے۔ اس لیے مَیں سوال یہ نہیں کر رہا ہوں کہ انسان ایسا دین بنانے میں کام یاب ہوا ہے یا نہیں، بلکہ یہ کہہ رہا ہوں کہ کام یاب ہو بھی سکتا ہے یا نہیں؟
یہ ایک نہایت اہم سوال ہے جس سے سرسری طور پر بحث کرنا مناسب نہیں ہے۔ یہ انسانی زندگی کے فیصلہ کن سوالات میں سے ایک ہے۔ اس لیے پہلے اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ وہ چیز کیا ہے جسے وضع کرنے کا سوال درپیش ہے، اور اس شخص کی قابلیتیں کیا ہیں جس کے متعلق پوچھا جا رہا ہے کہ وہ اسے وضع کر سکتا ہے یا نہیں؟