Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچۂ طبع اوّل
دیباچۂ طبع ششم
عقل کا فیصلہ
کوتہ نظری
ہدایت و ضلالت کا راز
اسلام ایک علمی و عقلی مذہب
اسلام میں عبادت کا تصور
جہاد فی سبیل اللہ
آزادی کا اسلامی تصوُّر
رواداری
اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
استدراک
امربالمعروف و نہی عن المنکر
نُزولِ عذاب الٰہی کا قانون
ایک مسیحی بزرگ کے چند اعتراضات
کیا نجات کے لیے صرف کلمۂ توحید کافی ہے؟
کیا رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے؟
ایمان بالرّسالت
قرآن پر سب سے بڈا بہتان
نبوت محمدی کا عقلی ثبوت
اتباع اور اطاعت رسول
رسول کی حیثیت شخصی وحیثیت نبوی
رسالت اور اس کے احکام
حدیث اور قرآن
مسلکِ اعتدال
استدراک
حدیث کے متعلق چند سوالات
قرآن اور سنت رسولؐ
ایک حدیث پر اعتراض اور اس کا جواب

تفہیمات (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

کوتہ نظری

’’ایک دو سال کا خوبصورت بچہ بخار اور دردِ قولنج میںمبتلا تھا۔ اس کی تکلیف اور اضطراب کو سخت سے سخت دل انسان بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ رفع تکلیف کے لیے کبھی وہ اپنے ماں باپ کی طرف دیکھتا اور کبھی ڈاکٹر کے سامنے کڑوی کسیلی دوا کے لیے منہ کھولتا۔ اسی تکلیف میں ایک دن رات رہ کر ہمیشہ کے لیے اپنے ماں باپ سے رخصت ہوگیا۔ اس کو کرب اور نزع کی حالت میں دیکھ کر دل میں سوال پیدا ہوا کہ رب رحیم جو رأفت اور شفقت کا منبع ہے، چھوٹے اور معصوم بچوں پر مصائب اور تکالیف کیوں وارد کرتا ہے؟ حالانکہ وہ خود کہتا ہے کہ مَااَنَا بِظَلاَّمٍ لِّلْعَبِیْدِ ۔
یہ ایک کرم فرما کے خط کا اقتباس ہے، جو سوال ان کے دل میں پیدا ہوا ہے قریب قریب وہی سوال مختلف صورتوں میں ہر ایسے موقع پر لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے جب وہ موت اور بیماری اور نزول آفات کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ وبامیں ہزاروں آدمیوں کا انتہائی بے کسی کی موت مرنا، زلزلے میں ہزارہا گھروں کا تباہ ہونا، سیلاب میں لوگوں کا بے اندازہ مصائب و شدائد سے دوچار ہونا، مختلف قسم کی موذی بیماریوں میں لوگوں کا سخت کرب و اذیت کے ساتھ تڑپنا، غرض مصیبت اور درد و الم کا ہر نظارہ انسان کے دل میں آپ سے آپ یہ سوال پیدا کر دیتا ہے کہ وہ خدا جو رئوف و رحیم ہے، اور وہ خدا جو اپنی ربوبیت اور اپنے فضل و کرم پر ناز رکھتا ہے ، اور وہ خدا جو خود کہتا ہے کہ میں ظالم نہیں ہوں، آخر وہ اپنے بندوں پر یہ سختیاں کیوں نازل کرتا ہے؟ خود اپنی بنائی ہوئی مخلوق کو، جسے خود اس نے درد و الم کا احساس دیا ہے، اس طرح مصائب و آلام میں کس لیے مبتلا کرتا ہے؟ بعض لوگ تو اس مسئلے میں یہاں تک بڑھ جاتے ہیں کہ قہر خداوندی کے ان آثار کو حق تعالیٰ کی صفت رأفت و رحمت کے منافی سمجھنے لگتے ہیں اور انھیں گمان ہونے لگتا ہے کہ معاذ اللہ خدا ایک اندھی طاقت (Blind Force)ہے جس کو کسی کی راحت و اذیت کا کچھ علم نہیں۔ وہ یونہی بلا کسی علم کے بنانے اور توڑنے پھوڑنے میں مشغول ہے۔
جن لوگوں نے کائنات کے نظم اور ملکوت ارض و سماء پر غور کیا ہے وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کائنات علیحدہ علیحدہ مستقل الوجود اجزا پر مشتمل نہیں ہے بلکہ ایک کل ہے جس کے تمام اجزا ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں۔ زمین کا ایک ذرّہ مریخ اور عطارد کے ذرّات سے ویسا ہی تعلق رکھتا ہے جیسا میرے سر کا ایک بال میرے ہاتھ کے ایک رونگٹے سے رکھتا ہے۔ گویا پوری کائنات ایک جسد واحد ہے اور اس کے اجزا میں باہم ویسا ہی ربط ہے جیسا ایک جسم کے اجزا میں ہوتا ہے۔ پھر جس طرح کائنات کے اجزا میں ربط اور تسلسل ہے اسی طرح ان واقعات میں بھی ربط و تسلسل ہے جو اس کائنات میں پیش آتے ہیں۔ دنیا کا کوئی چھوٹا یا بڑا واقعہ بجائے خود ایک مستقل واقعہ نہیں ہے۔ بلکہ وہ تمام کائنات کے سلسلۂ واقعات کی ایک کڑی ہے اور کلی مصلحت کے تحت صادر ہوتا ہے جس کو پیش نظر رکھ کر خداوند عالم اپنی اس غیر محدود سلطنت کو چلا رہا ہے۔ اب یہ امر قابل غور ہے کہ جس شخص کی نظر پوری کائنات پر نہیں بلکہ اس کے ایک نہایت ہی حقیر حصے پر ہے جس کو کل کے ساتھ اتنی نسبت بھی نہیں جتنی ایک ذرے کو آفتاب کے ساتھ ہوتی ہے، اور جس شخص کے سامنے واقعات عالم کا پورا سلسلہ نہیں ہے بلکہ اس سلسلے کی بے حد و حساب کڑیوں میں سے محض ایک یا دو یا چند کڑیاں ہیں اور جو شخص کائنات کے اس حقیر حصے اور واقعات کی ان چند کڑیوں میں بھی صرف ظاہری سطح کو دیکھ رہا ہے، باطنی حقائق تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ اس کے پاس نہیں ہے، کیا ایسا شخص کسی جزئی واقعے کو دیکھ کر اس کی حکمت و مصلحت کے متعلق کوئی رائے قائم کرنے کا اہل ہوسکتا ہے؟ اور اگر وہ کوئی رائے قائم کرنے کی جرأت کرے تو کیا اس کی رائے صحیح ہوسکتی ہے؟
کائنات کا نظام اور خدا کی خدائی تو خیر اس قدر وسیع ہے کہ اس کے تصور ہی سے ہمارا ذہن تھک جاتا ہے۔ آپ ایک چھوٹے پیمانے پر کسی انسانی سلطنت ہی کو لے لیجیے۔ جو شخص کرسیٔ وزارت یا تخت شاہی پر بیٹھا ہوا ایک بڑی سلطنت کا انتظام کر رہاہے وہ بھی اگرچہ ہماری ہی طرح کا ایک انسان ہے، اور فطری استعداد کے لحاظ سے ہمارے اور اس کے درمیان کچھ زیادہ فرق نہیں ہے، نیز اس کے جتنے معاملات ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کو سمجھنے اور انجام دینے کی قوت و استعداد ہم میں نہ ہو، لیکن محض یہ فرق کہ وہ کرسیٔ حکومت پر سے تمام سلطنت کے نظم و نسق کو یکھ رہا ہے اور ہم ایک گوشے میں اس نظم سے یک گو نہ بے تعلق بیٹھے ہوئے ہیں ، ہمارے اور اس کے درمیان اتنا عظیم تفاوت پیدا کر دیتا ہے کہ ہم بالفعل اس کے معاملات کو نہیں سمجھ سکتے اور اگر کوئی جزئی واقعہ ہمارے سامنے آتا ہے تو ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کی غایت و مصلحت کیا ہے۔ پھر جب انسان اور انسان کے درمیان محض پوزیشن کے فرق سے اتنا تفاوت واقع ہو جاتا ہے، تو غورکیجیے کہ انسان اور خداکے درمیان کتنا تفاوت ہوگا، دراں حالیکہ یہاں پوزیشن کا نہیں حقیقت کا فرق عظیم ہے۔ وہ تمام عالم پر سلطنت کر رہا ہے اور ہم اس کی سلطنت کے ایک نہایت ہی حقیر گوشے میں بیٹھے ہیں۔ اس کی دانش و بینش سارے عالم پر حاوی ہے، اور ہماری دانش و بینش کی رسائی خود اپنے جسم کی باطنی حقیقتوں تک بھی نہیں۔ اس کی طاقتیں بے پایاں ہیں اور ہمارے پاس ان میں سے کوئی طاقت بھی نہیں۔ اگراس تفاوت عظیم کے باوجود اس کے کاموں پر ہم تنقید کریں اور ان کی حکمت و مصلحت کے متعلق کوئی رائے قائم کریں تو کیا یہ تنقید اس تنقید سے کروڑ درجہ زیادہ جاہلانہ نہ ہوگی جو ایک گنوار اپنی جھونپڑی میں بیٹھ کر سلطنت کے معاملات پر کرتا ہے۔
اس سے زیادہ واضح ایک اور مثال لیجیے۔ فرض کیجیے کہ آپ ایک باغبان ہیں۔ جو باغ آپ نے بڑی محنت سے لگایا ہے اورجس کی ترتیب و تزئین میں آپ نے اپنی پوری مہارت صرف کر دی ہے، اس کے درختوں اور پودوں اور بیلوں سے یقیناً آپ کو محبت ہوگی۔ آپ ان کی حفاظت میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھیں گے۔ ان کو بے ضرورت کاٹنا، چھانٹنا یا اکھاڑ پھینکنا آپ کبھی پسند نہ کریں گے اور اگر کوئی غیر آکر ان پر تیشہ چلائے تو آپ کو سخت ناگوار ہوگا۔ پھر آپ کو علمی طریق سے یہ بھی معلوم ہے کہ نباتات میں راحت اور اذیت، رنج اور خوشی کا احساس ہوتا ہے، اور آپ جانتے ہیں کہ اگر درختوں اور پودوں پر قینچی یا کلہاڑی چلائی جائے تو ان کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ اپنے اعضا کے کٹنے اور اپنے بچوں (پھلوں) سے جدا ہو جانے کا انھیں بھی رنج ہوتا ہے۔ لیکن اس محبت اور علم کے باوجود آپ ضرورت اور باغ کی کلی مصلحت کا لحاظ کرکے اپنے باغ میں تراش خراش کرتے ہیں، پتیوں اور شاخوں کو کاٹتے چھانٹتے ہیں۔ پودوں کو تراش کر قلمیں لگاتے ہیں، سبزے کو کاٹ کر ہموار کرتے ہیں، کچے اور پکے پھل حسب ضرورت اتار لیتے ہیں، کھلے اور بن کھلے پھول توڑ لیتے ہیں، غیر ضروری پودوں کو اکھاڑتے ہیں، سوکھے ہوئے درختوں کو کاٹ پھینکتے ہیں۔
اگر درختوں اور پودوں اور بیل بوٹوں کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ سب کچھ سراسر ظلم ہے۔ اگر ان میں گویائی ہوتی تو وہ کہتے کہ یہ باغبان کیسا بے درد اور ظالم ہے۔ ہمارے اعضا کی قطع و برید کرتا ہے۔ ہمارے بچوں کو ہم سے چھین لیتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے پودوں کو جنھوں نے ابھی زندگی کی ایک بہار بھی نہیں دیکھی تھی، اکھاڑ پھینکتا ہے۔ ننھی ننھی کلیوں کو توڑلے جاتا ہے۔ بوڑھوں کو دیکھتا ہے نہ بچوں اور جوانوں کو۔ بس کاٹنے سے کام ہے۔ اور کبھی تو ظالم ایک مشین لے کر اس طرح پھراتا ہے کہ ہماری برادری کے ہزاروں افراد کا بیک وقت صفایا کر ڈالتا ہے۔ کیا ایسا شخص شفیق و مہربان ہو سکتا ہے؟ کیا اس کے دل میں محبت اور رحمت و رأفت کے پاکیزہ جذبات ہوسکتے ہیں؟ ہم تو اس کاٹ چھانٹ اور اکھیڑ پچھاڑ میں کوئی مصلحت بھی نہیں دیکھتے۔ ہمیں تو یہ ایک اندھا، بے حس، سنگ دل وجود معلوم ہوتا ہے جو بغیر کسی علم و حکمت اور غرض و غایت کے کبھی ہم کو پانی دیتا ہے اور کبھی ہم پر قینچی چلاتا ہے، کبھی ہم کو کھاد بہم پہنچاتا ہے اورکبھی ہمیں کلہاڑی سے کاٹ پھینکتا ہے، کبھی دوسروں سے ہماری حفاظت کرتا ہے اورکبھی ہمیں خود اپنی ہاتھوں اکھاڑ ڈالتا ہے، کبھی بیماریوں میں ہمارا مداوا کرتا ہے اور کبھی خود ایک مشین لے کر ہمارا قتل عام کر دیتا ہے۔
اگر درخت آپ کے انتظام پر نکتہ چینی کریں تو آپ کیا کہیں گے؟ یہی ناکہ ان کی نظر محدود ہے، وہ صرف اپنے وجود اور اپنے قریبی متعلقات کو دیکھتے ہیں، مگر میری نظر وسیع ہے، میں باغ کی کلی مصلحت کو دیکھتا ہوں۔ وہ صرف اپنے پھل پھول، پتوں اور شاخوں سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ بہت بڑھے تو آس پاس کے پودوں اور درختوں سے محبت اور ہمدردی کے تعلقات پیدا کر لیے۔ مگر میرے پیش نظر پورے باغ کی بہتری ہے اور میں مجموعی طور پر سب کی اصلاح حال کے لیے عمل کر رہا ہوں۔ ہر نادان درخت اور بیوقوف پودا یہ سمجھ رہا ہے کہ سارا باغ اسی کی ذات اور اس کے دوستوں اور عزیزوں کے لیے لگایا گیا ہے اور اس باغ میں اسی کا مفاد قابل لحاظ ہے۔ لیکن میں نے دراصل ان کو باغ کے لیے لگایا ہے۔ ان کی ذات سے مجھ کو جو کچھ دلچسپی ہے اپنے باغ کی خاطر ہے۔ جس حد تک باغ کی بہتری کے لیے مناسب اور ضروری ہے میں ہر درخت اور ہر پودے اور ہر بیل بوٹے کی حفاظت اور پرورش کرتا ہوں۔ مگر جب باغ کی مصلحت متقاضی ہوتی ہے تو میں اس میں کاٹ چھانٹ، تراش خراش، اور اکھاڑ پچھاڑ سب کچھ کرتا ہوں، کیونکہ باغ کا مجموعی مفاد میرے نزدیک ایک ایک پودے اور ایک ایک درخت اور بیل بوٹے کے شخصی مفاد سے زیادہ قیمت رکھتا ہے۔ یہ گمان کرتے ہیں کہ میں دشمنی کی راہ سے ان پر ہاتھ صاف کرتا ہوں، لیکن یہ محض ان کی نادانی اور تنگ خیالی ہے۔ ان میں یہ صلاحیت نہیں کہ باغ کے معاملات اور اس کے مصالح کو سمجھ سکیں۔ ان کے پاس صرف اپنی تکلیف کا احساس اور اپنی راحت اور زندگی کی خواہش ہے۔ جب ان کی خواہشات اور احساسات کو صدمہ پہنچتا ہے تو یہ بے صبر ہو جاتے ہیں اور مجھ پر ظالم ہونے کا شبہ کرنے لگتے ہیں۔ مگر حقیقت ان کے گمان کے تابع نہیں ہے۔ ان کے سمجھنے سے میں درحقیقت ظالم نہیں ہوسکتا اور ان کی خاطر میں اپنے باغ کے انتظام کو بھی نہیں بدل سکتا۔
اس چھوٹی سی مثال کو جب آپ پھیلا کر دیکھیں گے تو آپ کو اپنے بہت سے گلوں شکووں کا جواب مل جائے گا۔
کائنات کے نظم پر جب ہم غور کرتے ہیں تو ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ اس زبردست کارخانے کو بنانے اور چلانے والا یقیناً ایک ایسا وجود ہونا چاہیے جو کمال درجہ حکیم و دانا اور علیم و خبیر ہو۔ جس نے ہم میں خواہشات پیدا کی ہیں ممکن نہیں کہ وہ خواہشات سے بے خبر ہو۔ جس نے ہم میں احساسات پیدا کیے ہیں، ممکن نہیں کہ وہ ہمارے احساسات سے ناواقف ہو۔ جس نے بچے کو پیدا کیا ہے اور بچے کی پرورش کے لیے ماں باپ کے دل میں محبت پیدا کی ہے، وہ ضرور جانتا ہے کہ بیماری اور موت سے بچے کو کیا تکلیف ہوتی ہے۔ اور ماں باپ کے دل کو کیسا صدمہ پہنچتا ہے۔ لیکن جب یہ سب کچھ جاننے اور ہم سے زیادہ جاننے کے باوجود اس نے بچے اور ماں باپ کو یہ اذیت دینا گوارا کیا، جب ہمارے احساسات سے باخبر ہونے کے باوجود اس نے ان کو پامال کرنا پسند کیا، جب ہماری خواہشات کا علم رکھنے کے باوجود اس نے ان کو پورا کرنے سے انکار کیا، تو ہم کو سمجھنا چاہیے کہ ایسا کرنا یقیناً ناگزیر ہی ہوگا، اور اس علیم و خبیر کے علم میں اس سے بہتر کوئی صورت نہ ہوگی، ورنہ وہ اس بہتر صورت ہی کو اختیار کرتا، کیونکہ وہ حکیم ہے، اور حکیم کے حق میں یہ گمان نہیں کیا جاسکتا کہ اگر بہتر تدبیر ممکن ہو تو وہ اسے چھوڑ کر بدتر تدبیر اختیار کرے گا ______ اس میں شک نہیں کہ اس کی حکمتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور نہیں آسکتیں، اس لیے کہ ہماری نظر پورے نظام عالم پر نہیں ہے، اور ہم نہیں جان سکتے کہ نظام عالم کے مصالح کیا ہیں، اور ان کے لیے کس وقت کون سی تدبیر ضروری ہے۔ لیکن اگر اجمالی طور پر ہم اللہ تعالیٰ کی حکمت و دانائی اور اس کے علم کامل پر صحیح اعتقادرکھتے ہوں تو ہر آفت کے نزول پر ہم سمجھ لیں گے کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اسی کی متقاضی ہوگی اور اس کے علم میں ایسا ہی مناسب ہوگا اور ہمارے لیے بجز تسلیم و رضا کے اور کوئی چارہ نہیں۔
پھر ایک دوسری بات جو غور و فکر سے ہم کو معلوم ہوتی ہے، یہ ہے کہ جو ہستی کائنات کے اس نظام کو چلا رہی ہے، اس کے پیش نظر خیر کلّی ہے۔ اس کے کاموں میں جو امور ہم کو شر اور فساد نظر آتے ہیں وہ دراصل اعتباری شرور ہیں، یعنی افراد و اشخاص کی طرف قیاس کرتے ہوئے ان کو شرور کہا جاسکتا ہے۔ مگر حقیقت میں وہ سب خیر کلّی ہی کے لیے ہیں، اور ان کا وقوع دراصل خیر کلّی کے حصول کا ایک ناگزیر وسیلہ ہے۔ اگر یہ شرور ناگزیر نہ ہوتے اور ان کے بغیر خیر کلّی کا حصول ممکن ہوتا تو خدائے حکیم و علیم ان کو اختیار نہ کرتا اور کوئی دوسرا نظام تجویز کرتا۔ خود ہم اپنی کمزوریوں اور نارسائیوں کے باوجود جب گہری نظر سے دیکھتے ہیں تو ہماری عقل حکم لگاتی ہے کہ اس کائنات کے لیے اس سے بہتر نظام ممکن نہیں ہے۔ کوئی دوسرا نظام ایسا تجویز نہیں کیا جاسکتا جو ان جزوی و اعتباری شرور سے یکسر خالی ہو۔ بلکہ اگر یہ شرور واقع نہ ہوں تو حقیقت میں ان کا عدم ایک بڑا شر ہوگا کیونکہ وہ ایک خیر جزئی کی خاطر بہت سے خیرات کے حصول کو روک دے گا۔ مثال کے طور پر موت ہی کو لے لیجیے جس پر انسان سب سے زیادہ واویلا کرتا ہے۔ ایک شخص کی موت کتنے اشخاص کے لیے زندگی کا راستہ صاف کرتی ہے۔ اگر ایک شخص کو زندگی کا پروانہ دے دیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ بہت سے اشخاص پر زندگی کا دروازہ بند کر دیا گیا۔ اس کی دائمی زندگی اگر خیر ہے تو صرف اس کی ذات کے لیے ہے۔ لیکن خیر کلی کے لیے وہ شر ہوگی۔ بخلاف اس کے اس خاص شخص کی موت صرف اس کے لیے ایک جزئی شر ہے۔ لیکن یہی شر بہت سے جزئی خیرات کے حصول کا بھی ذریعہ ہے۔ رہا خیر کل تو اس شخص کے مرجانے سے اس میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا کیونکہ نظام عالم میں اس کی موت سے کوئی خلل نہیں آتا۔
اسی مثال پر قیاس کرکے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اشخاص پر جتنے مصائب نازل ہوتے ہیں وہ سب ایک اعتبار سے شر ہیں اور دوسرے اعتبار سے وسیلۂ خیر، اور خیر کلّی کے لیے ان کا وقوع ناگزیر ہے۔ بسا اوقات ہم خود غور کرکے ان کے وسیلۂ خیر ہونے کی جہت کو سمجھ لیتے ہیں۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تجربے سے ہم پر ثابت ہو جاتا ہے کہ جس چیز کو ہم نے شر سمجھا تھا وہ حقیقت میں سبب خیر تھی۔ لیکن اگر کبھی کسی شر کی جہت خیر ہماری سمجھ میں نہ آئے، تب بھی ہم کو مجملاً اس حقیقت پر ایمان رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ جو کچھ کرتا ہے بہتر کرتا ہے، اور ہماری خیریت اسی میں ہے کہ اس کی قضا کے آگے سر جھکا دیں خواہ اس کے فعل کی لِم ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ (ترجمان القرآن۔ ربیع الاول ۱۳۵۴ھ۔ جون ۱۹۳۵ئ)

شیئر کریں