Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
موجودہ عمرانی مسائل کا تاریخی پس منظر
دور متوسط کا کالبرلزم
صنعتی انقلاب
جدید لبرلزم
جدید نظام سرمایہ داری
1۔ شخصی ملکیت کا حق
2 ۔آزادیِ سعی کا حق
3۔ ذاتی نفع کا محرکِ عمل ہونا
4۔ مقابلہ اور مسابقت
5۔اجیر اورمستاجر کے حقوق کا فرق
6۔ ارتقاء کے فطری اسباب پر اعتماد
7 ۔ریاست کی عدم مداخلت
خرابی کے اسباب
سوشلزم اور کمیونزم
سوشلزم اور اس کے اصول
کمیونزم اور اس کا میزانیہ ٔ نفع و نقصان
ردعمل
فاشزم اور نازی ازم
صحیح اور مفید کام
حماقتیں اور نقصانات
نظام سرمایہ داری کی اندرونی اصلاحات
وہ خرابیاں جو اَب تک نظام سرمایہ داری میں باقی ہیں
تاریخ کا سبق
اصلی اُلجھن
اسلامی نظم معیشت کے بنیادی ارکان
جدید معاشی پیچیدگیوں کا اسلامی حل
شخیصِ مرض
اسلامی علاج
1۔ زمین کی ملکیت
2۔ دوسرے ذرائع پیداوار
3۔ مالیات
4۔ زکوٰۃ
5۔حکومت کی محدود مداخلت
متوازن معیشت کے چار بنیادی اصول

اسلام اور جدید معاشی نظریات

یہ کتاب مولانا کی کتاب ’سود‘ کا ایک حصہ ہے۔ جسے بعد میں مولانا مودودیؒ خود ہی الگ کتابی شکل دے دی تھی۔ اس کتاب میں وہ حصہ شامل ہے جس کا براہِ راست تعلق سود سے نہیں ہے۔
اس کتاب میں عمرانی مسائل کا تاریخی پس منظر سمیت صنعتی انقلاب کے بعد دنیا میں ہونے والے تغیرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
سوشلزم اور کمیونزم نے جس طرح انسانیت کو تباہی سے دوچار کیا اور کررہی ہے اس کے نقصانات کا جائزہ لیا گیا۔
اسلامی نظام معیشت کے بنیادی ارکان
اکتساب مال کے ذرائع میں جائز ناجائز کی تفریق
مال جمع کرنے کی ممانعت
خرچ کرنے کا حکم
زکوٰة
قانونِ وراثت
کا ناصرف تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے وہیں قرآن وحدیث کی روشنی میں جدید معاشی پیچیدگیوں کا اسلامی حل بھی بتایا گیا ہے۔
سر مایہ دارانہ نظام کے ہمہ گیر اثرات کے پیش نظر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ نے جن کی زندگی کا مشن ہی غیر اسلامی نظریہ و نظام کو اُکھاڑ پھینکنا ہے اس موضوع پر قلم اٹھایا اور اس کے ہر پہلو پر اس تفصیل کے ساتھ ایسی مدلل بحث کی ہے کہ کسی معقول آدمی کو اس کی خرابیوں کے بارے میں شبہ باقی نہ رہے۔ اس کتاب میں معاشی نقطہ نظر سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ مغرب کا دیا گیا معاشی نظام ہر پہلو سے انسانی معاشرے کے لیے مضرت رساں اور تباہ کن ہے۔ معاشیات کے طالب علموں سمیت کاروباری افراد کے لیے یہ کتاب نہایت اہم ہے اور انھیں اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔

کمیونزم اور اس کا میزانیہ ٔ نفع و نقصان

جہاں تک ارتقائی سوشلزم کا تعلق ہے اس نے ابھی دنیا میں اپنا کوئی نمونہ پیش نہیں کیا ہے جس کو دیکھ کر ہم پورے طور پر معلوم کرسکیں کہ اس کا طریق کار کس طرح انفرادی سرمایہ داری کے نظام کو اجتماعیت میں تبدیل کرے گا اور اس سے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ اس لیے ہم اس کو چھوڑ کر یہاں انقلابی اشتراکیت یعنی کمیونزم کے کارنامے کا جائزہ لیں گے، جس نے 1914-18ء کی جنگ عظیم اول سے فائدہ اٹھا کر روس میں فی الواقع ایک انقلاب برپا کردیا اور اپنے نظریات کے مطابق ایک پورا نظام تمدن قائم کرڈالا۔(۱)
روسی اشتراکیت چونکہ پچھلے کئی سال سے سخت مباحثوں اور مناظروں کا موضوع بنی رہی ہے، اس لیے اس کی میزان نفع و نقصان بنانے میں اس کے حامیوں اور مخالفوں دونوں کی طرف سے بڑی کھینچ تان ہوتی رہتی ہے۔ اس کے حامی اس کے نفع کے پہلو میں بہت سی ایسی چیزوں کو داخل کر دیتے ہیں جو دراصل اشتراکیت کے منافع نہیں ہیں بلکہ قابل اور مستعد لوگوں کے ہاتھ میں انتظام ہونے کے ثمرات ہیں۔ دوسری طرف اس کے مخالف اس کے نقصانات کے پہلو میں بہت سی ان خرابیوں کو رکھ دیتے ہیں جو بجائے خود اشتراکیت کے نقصانات نہیں بلکہ ظالم اور تنگ ظرف افراد کے برسر اقتدار آنے کے نتائج ہیں۔ اشتراکی روس کے حامیوں کا یہ طریقہ کہ وہ عہد زار کے روس کی خستہ حالی، جہالت اور پس ماندگی سے موجودہ روس کی علمی، ذہنی، صنعتی اور تمدنی حالت کا مقابلہ کرتے ہیں اور حاصلِ جمع و تفریق میں جتنی ترقی نکلتی ہے اس سب کو اشتراکیت کی برکات کے خانے میں درج کر دیتے ہیں، اصولاً کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ تیس بتیس سال کی مدت میں جتنی کچھ بھی ترقی روس نے کی ہے اس کا مقابلہ اگر امریکہ، جاپان یا جرمنی کے ایسے ہی تیس بتیس سال سے کیا جائے تو شاید تناسب کچھ زیادہ ہی نکلے گا۔ مثلا 1868ء میں جاپان تعلیم اور صنعت و حرفت اور قدرتی وسائل کے استعمال اور پیداوار دولت کے لحاظ سے کیا کچھ تھا اور 1904ء میں جب اس نے روس کو شکست دی تو وہ ان حیثیات سے کس مرتبے پر پہنچ گیا تھا۔ یا 1870ء میں جرمنی کی کیا حالت تھی اور بیسویں صدی کے آغاز تک پہنچتے پہنچتے اس کے باشندے علمی اور ذہنی حیثیت سے اور اس کے معاشی وسائل اپنی پیداوار کے لحاظ سے کہاں تک جا پہنچے تھے۔ اگر ان ترقیات کا اتنی ہی مدت کی روسی ترقیات سے موازنہ کرکے دیکھا جائے تو روس کے حساب میں آخر کتنا سرمایۂ افتخار نکلے گا؟ پھر کیا یہ اصول مان لیا جائے کہ ایک ملک نے ایک خاص زمانے میں اگر کچھ غیر معمولی ترقی کی ہو تو اس کی ساری تعریف ان اصولوں کے حق میں لکھ دی جائے جن پر اس ملک کا نظام تمدن و معیشت و سیاست قائم ہو؟ حالانکہ بسا اوقات اجتماعی زندگی کا سارا کارخانہ غلط اصولوں پر چل رہا ہوتا ہے، مگر رہنمائوں کی انفرادی خوبیاں اور ان کے مددگاروں کی عمدہ صلاحیتیں بڑے شاندار نتائج پیدا کر دکھاتی ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس اشتراکی روس کی جن خرابیوں کا حوالہ اس کے مخالفین دیتے ہیں ان میں بھی بہت سی خرابیاں وہ ہیں جو کم و بیش اسی طریقے پر غیر اشتراکی جبّاروں کی فرمانروائی میں بھی پائی جاتی ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم ان سب کو برے افراد کے حساب میں سے نکال کر اس اصول کے حساب میں ڈال دیں جس پر ان کا نظام تمدن و معیشت قائم ہوا ہے؟
فوائد
غیر متعلق چیزوں کو الگ کرکے جب ہم اصل اشتراکیت کے اس کارنامے پر نگاہ ڈالتے ہیں جو روسی تجربے کی بدولت ہمارے سامنے آیا ہے تو نفع کے خانے میں ہم کو یہ چیزیں ملتی ہیں:
-1 افراد کے قبضے سے زمین، کارخانے اور تمام کاروبار نکال لینے کا یہ فائدہ ہوا کہ اشیاء کی لاگت اور ان کی بازاری قیمت کے درمیان جو منافع پہلے زمیندار، کارخانہ دار اور تاجر لیتے تھے وہ اب حکومت کے خزانے میں آنے لگا اور یہ ممکن ہوگیا کہ اس منافع کو اجتماعی فلاح کے کاموں پر صرف کیا جاسکے۔
-2 تمام ملک کے ذرائع پیداوار ایک ہی نظم و نسق کے قبضہ میں آجانے سے یہ ممکن ہوگیا کہ ایک طرف ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق ان سب کو زیادہ سے زیادہ ترقی دینے اور زیادہ سے مفید طریقے سے استعمال کرنے کی کوشش کی جائے اور دوسری طرف سارے ملک کی ضروریات کو سامنے رکھ کر انہیں پورا کرنے کی منظم تدابیر عمل میں لائی جائیں۔
-3 سارے وسائل دولت پر قابض ہو کر جب حکومت ایک جامع منصوبہ بندی کے مطابق ان کو چلانے لگی تو اس کے لیے یہ بھی ممکن ہوگیا کہ ملک کے تمام قابل کار آدمیوں کو کام پر لگائے اور یہ بھی کہ وہ ان کو ایک سوچی سمجھی اسکیم کے مطابق تعلیم و تربیت دے کر اس طرح تیار کرے کہ اجتماعی معیشت کے لیے جن پیشوں اور خدمات کے لیے جتنے آدمی درکار ہیں اتنے ہی وہ تیار کئے جاتے رہیں۔
-4 اوپر نمبر ایک میں زراعت، صنعت اور تجارت کے جس منافع کا ذکر کیا گیا ہے وہ جب حکومت کے ہاتھ میں آگیا تو وہ اس قابل ہوگئی کہ اس منافع کا ایک حصہ ’’سوشل انشورنس‘‘ کے انتظام پر صرف کرے۔ سوشل انشورنس کا مطلب یہ ہے کہ تمام ملک میں جو لوگ کام کرنے کے قابل نہ ہوں، یاعارضی یا مستقل طور پر ناقابل کار ہوجائیں، یا بیماری، زچگی، اور دوسرے مختلف حالات کی وجہ سے جن کو مدد کی ضرورت پیش آئے ان کو ایک مشترک فنڈ سے مدد دی جائے۔
نقصانات
کوئی شک نہیں کہ بے قید معیشت سے جو بیماریاں پیدا ہوئی تھیں، اس آپریشن نے ان کا خوب ہی علاج کیا مگر روس کو اس کی قیمت کیا دینی پڑی؟ اور پچھلی بیماریوں کو دور کرنے کے لیے دوسری کیا بیماریاں اس نے مول لیں؟ اب ذرا اس کا جائزہ بھی لے لیں۔
-1 افراد کے قبضے سے زمینوں، کارخانوں اور دوسرے ذرائع پیداوار کو نکالنا اور ان ساری چیزوں کو اجتماعی ملک بنا دینا بہرحال کوئی کھیل نہ تھا کہ بس ہنسی خوشی انجام پاگیا ہو، یہ ایک بڑا ہی سخت کام تھا جو برسوں تک مسلسل نہایت ہولناک ظلم و ستم کرنے سے پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ ہر شخص خود ہی قیاس کرسکتا ہے کہ آپ لاکھوں آدمیوں کو ان کی چھوٹی بڑی املاک سے زبردستی بے دخل کرنے پر تل جائیں تو وہ بآسانی آپ کے اس فیصلے کے آگے سرتسلیم خم نہ کردیں گے۔ یہ کام جب اور جہاں بھی ہوگا سخت کشت و خون ہی سے ہوگا۔ اندازہ کیا گیا ہے کہ اس اسکیم کو عمل میں لانے کے لیے تقریباً 19 لاکھ آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، 20 لاکھ آدمیوں کو مختلف قسم کی سزائیں دی گئیں اور چالیس پچاس لاکھ آدمیوں کو ملک چھوڑ کر دنیا بھر میں تتربتر ہوجانا پڑا۔ صرف ایک اجتماعی زراعت کی اسکیم نافذ کرنے کے لیے لاکھوں چھوٹے چھوٹے اور متوسط زمینداروں (Kulaks) کو جس بے دریغ طریقے سے فنا کیا گیا اس پر تو خود روس کے پُرجوش حامی بھی چیخ اٹھے۔
-2 جو لوگ تمام دنیا کے مسلّم مذہبی، اخلاقی اور قانونی اصولوں کے مطابق اپنی املاک کے جائز مالک ہوں انہیں اگر آپ اپنی ایک خود ساختہ اور نرالی اسکیم نافذ کرنے کے لیے زبردستی ان کی ملکیتوں سے بے دخل کرنا چاہیں گے تو لامحالہ آپ کو نہ صرف ان تمام مذہبوں اور اخلاقی اصولوں کا جو آپ کے نظریہ کے خلاف ہیں، انکار کرنا پڑے گا، بلکہ ملکیتوں کے ساتھ ان کی بھی بیخ کنی پر اپنی ساری قوت لگا دینی ہوگی۔ مزید برآں اس اسکیم کو ہر قسم کی بے دردی، شقاوت، ظلم ، جھوٹ اور فریب سے نافذ کرنے کے لیے آپ مجبور ہوں گے کہ سرے سے ایک نیا ہی نظریۂ اخلاق وضع کریں جس کے تحت ہر ظلم و جبر اور ہر بے دردی اور سنگدلی کا ارتکاب جائز ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اشتراکی لیڈروں اور کارکنوں نے اپنے پیش نظر انقلاب کو عمل میں لانے کے لیے خدا اور مذہب کے خلاف سخت پروپیگنڈا کیا اور بورژوا طبقے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں اور عیسائیوں کے مذہبی طبقوں کو بھی بڑی سختی سے کچلا اور اخلاق کا ایک نیا نظریہ پیدا کیا جو لینن کے الفاظ میں یہ ہے:
’’ہم ہر اس اخلاق کو رد کرتے ہیں جو عالم بالا کے کسی تصور پر مبنی ہو۔ یا ایسے خیالات سے ماخوذ ہو جو طبقاتی تصورات سے ماوراء ہیں۔ ہمارے نزدیک اخلاق قطعی اور کلی طور پر طبقاتی جنگ کا تابع ہے۔ ہر وہ چیز اخلاقاً بالکل جائز ہے جو پرانے نفع اندوز اجتماعی نظام کو مٹانے کے لیے اور محنت پیشہ طبقوں کو متحد کرنے کے لیے ضروری ہو۔ ہمارا اخلاق بس یہ ہے کہ ہم خوب مضبوط اور منظم ہوں اور نفع گیر طبقوں کے خلاف پورے شعور کے ساتھ جنگ کریں۔ ہم یہ مانتے ہی نہیں کہ اخلاق کے کچھ ازلی و ابدی اصول بھی ہیں۔ ہم اس فریب کا پردہ چاک کرکے رہیں گے۔ اشتراکی اخلاق اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ مزدوروں کی مطلق العنان حکومت کو مضبوطی کے ساتھ قائم کرنے کے لیے جنگ کی جائے۔‘‘
’’ناگزیر ہے کہ اس کام میں ہر چال، فریب، غیر قانونی تدبیر، حیلے بہانے اور جھوٹ سے کام لیا جائے۔‘‘
یہ دوسری بھاری قیمت تھی جو سرزمین روس کو اشتراکی نظام کے لیے دینی پڑی۔ یعنی صرف ایک کروڑ آدمیوں کی زندگی ہی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ دین، ایمان، اخلاق، انسانیت، شرافت اور وہ سب کچھ جو ایک انوکھی اسکیم کو جبرو ظلم سے نافذ کرنے میں مانع تھا۔
-3 ہم خود اپنے ملک میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں کہ جب ایک طرف عالم اخلاقیات کے بند ڈھیلے ہوجاتے ہیںاور دوسری طرف مختلف ضروریات زندگی پر سرکاری کنٹرول نافذ کردیا جاتا ہے تو رشوت، خیانت اور غبن کا سلسلہ بے تحاشہ چل پڑتا ہے۔ زندگی کی جو ضرورت بھی پرمٹ، لائسنس، راشن کارڈ یا کوٹا ملنے پر موقوف ہوجاتی ہے اسی کے معاملے میں پبلک کو ہر طرح تنگ ہونا پڑتا ہے اور سرکاری آدمیوں کے وارے نیارے ہونے لگتے ہیں۔ اب خود اندازہ کر لیجئے کہ جہاں ایک طرف سارے ہی اخلاقی مسلمات کی جڑیں ہلا ڈالی گئی ہوں اور اخلاق کا یہ اصول لوگوں کے ذہن نشین کر دیا گیا ہو کہ جو کچھ مفید مطلب ہے وہی حق اور صدق ہے اور ملک کے رہنمائوں نے خود بدترین ظلم و ستم کرکے اس نئے اخلاق کے شاندار نمونے دکھا دئیے ہوں … دوسری طرف جہاں ضرورت کی صرف چند چیزیں نہیں بلکہ ملک کی پوری معاشی دولت اور سارے وسائل زندگی سرکاری کنٹرول میں ہوں، وہاں رشوت، خیانت، غبن اور مردم آزاری کی کیسی کچھ گرم بازاری ہوگی۔ یہ معاملہ صرف قیاس کی حد تک نہیں ہے۔ روس کے ’’آہنی پردے‘‘ سے چھن چھن کر جو خبریں وقتاً فوقتاً باہر آجاتی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہاں عمال حکومت اور مختلف معاشی اداروں کے ارباب انتظام نے ’’بدکرداری‘‘ (Corruption) کا ایک اچھا خاصا سخت مسئلہ پیدا کردیا ہے۔ درحقیقت وہاں اس مسئلے کا پیدا ہونا قابل تعجب نہیں ہے بلکہ نہ ہونا تعجب کے قابل ہوتا۔ ایک نظام کو تم بد اخلاقی کے زور سے توڑ بھی سکتے ہو، اور دوسرا نظام بد اخلاقی کے زور سے قائم بھی کرسکتے ہو لیکن کسی نئے نظام کو بد اخلاقی کے بل بوتے پر چلالے جانا سخت مشکل ہے۔ اسے ٹھیک ٹھیک چلانے کے لیے بہرحال عمدہ اور مضبوط سیرت کے آدمیوں کی ضرورت ہے اور اس کا سانچہ تم خود پہلے ہی توڑ چکے ہو۔
-4 انفرادی ملکیتوں کو ختم کرکے اجتماعی ملکیت کے اصول پر ملک کے معاشی نظام کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے سب سے بڑھ کر جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ لوگوں کے اندر سے خود غرضی اور ذاتی نفع کی طلب نکال دی جائے۔ اور ان صفات کے بجائے ان کے ذہن پر مجموعی بھلائی کے لیے کام کرنے کا جذبہ اتنا غالب کردیا جائے کہ وہی ان کے اندر اصل محرک عمل بن جائے۔ اشتراکیوں کا دعویٰ یہ تھا کہ انسانی فطرت اور جبلت اور موروثی میلانات محض بورژوا فلسفہ و سائنس کے ڈھکوسلے ہیں۔ اس نام کی کوئی چیز انسان کے اندر موجود نہیں ہے۔ ہم ذاتی نفع طلبی اور خود غرضی کے میلانات لوگوں کے اندر سے نکال ڈالیں گے اور ماحول کے تغیر سے اجتماعی ذہنیت ان میں پیدا کر دیں گے۔ لیکن اس بے بنیاد دعوے کو عملی جامہ پہنانے میں اشتراکی حضرات قطعی ناکام ہوچکے ہیں۔ وہ اپنے ملک کے عوام اور اپنے نظام معیشت و تمدن کے کارفرمائوں اور کارکنوں میں حقیقی اجتماعی ذہنیت اس مقدار سے ایک ماشہ بھر بھی زیادہ نہیں بڑھا سکے جتنی ہر سوسائٹی کے لوگوں میں فطرۃً موجود رہتی ہے۔ وہ ان کے اندر سے خود غرضی و نفع طلبی کو نکال دینا تو درکنار اسے کم بھی نہ کرسکے، بلکہ انہیں تھک ہار کر آخر کار اسے سیدھی طرح تسلیم کرنا پڑا اور لوگوں سے کام لینے کے لیے ان کی خود غرضی ہی کو اپیل کرنا پڑا۔ اس حد تک تو خیر وہ بورژوا نظام زندگی کے برابر رہے مگر جس چیز نے ان کو بورژوا نظام سے بھی زیادہ خرابی میں مبتلا کیا وہ یہ ہے کہ جب انہوں نے افراد کی نفع طلبی کے لیے زراعت، صنعت، تجارت اور دوسرے فائدہ مند کاروبار کے فطری راستے بند کر دیئے اور مصنوعی پروپیگنڈہ کے ذریعے سے اس نفع طلبی کے صاف اور سیدھے اور معقول مظاہر کو خواہ مخواہ معیوب ٹھیرا دیا۔ تو یہ جذبہ اندر دب گیا اور انسان کے تمام دوسرے دبے ہوئے جذبات کی طرح اس نے بھی منحرف (Pervert) ہو کر اپنے ظہور کے لیے ایسی غلط راہیں نکال لیں جو سوسائٹی کی جڑیں اندر ہی اندر کھوکھلی کررہی ہیں۔ اشتراکی معاشرے میں رشوت، خیانت، چوری، غبن اور اسی طرح کی دوسری برائیوں کے بڑھنے میں اس چیز کا بڑا دخل ہے۔ وہاں اگر کوئی چیز ممنوع ہے تو صرف یہ کہ ایک آدمی اپنی کمائی ہوئی دولت کو مزید دولت پیدا کرنے والے کسی کاروبار میں لگائے۔ اس کے سوا دولت کے سارے مصرف اسی طرح کھلے ہوئے ہیں جس طرح ہماری سوسائٹی میں ہیں۔ ایک آدمی اپنے لباس، خوراک، مکان، سواری، فرنیچر اور سامان عیش و عشرت پر جتنا چاہے روپیہ خرچ کرسکتا ہے، اپنا معیار زندگی جتنا چاہے بلند کرسکتا ہے، عیاشی و خوش باشی کی وہ ساری ہی صورتیں دل کھول کر اختیار کرسکتا ہے جو مغربی سوسائٹی میں مباح ہیں۔ اس سے جو روپیہ بچے اسے جمع کرسکتا ہے، اس جمع کردہ دولت کو (براہ راست خود تو نہیں مگر) حکومت کے ذریعہ سے کاروبار میں لگا سکتا ہے اور اس پر آٹھ دس فی صدی سالانہ تک سود پاسکتا ہے، اور جب مرنے لگے تو اس جمع شدہ دولت کو اپنے وارثوں کے لیے چھوڑ سکتا ہے۔
-5 اس قدر کشت و خون اور اکھیڑ پچھاڑ اور اتنے بڑے پیمانے پر دین و اخلاق اور انسانیت کی بربادی جس غرض کے لیے برداشت کی گئی تھی وہ یہ تھی کہ اشیاء کی لاگت اور ان کی بازاری قیمت کے درمیان جو منافع صرف زمیندار اور کارخانہ دار اور تاجر طبقے کھا جاتے ہیں وہ چند مخصوص طبقوں کی جیب میں جانے کے بجائے پوری سوسائٹی کے خزانے میں آئے اور سب پر برابری کے ساتھ یا کم از کم انصاف کے ساتھ تقسیم ہو۔ یہی انفرادی ملکیتوں کو ختم کرنے کی اصل غرض تھی اور یہی اگر حاصل ہوتی تو اسے اجتماعی ملکیت کا اصلی فائدہ کہا جاسکتا تھا مگر کیا واقعی یہ مقصد پورا ہوا؟ ذرا تجربہ کر کے دیکھئے کہ انفرادی ملکیتوں کو ختم کرنے سے زراعت، صنعت اور تجارت کے جو منافع اجتماعی خزانے میں آرہے ہیں وہ تقسیم کس طرح ہوتے ہیں؟
حکومت کے تمام شعبوں اور معاشی کاروبار کے تمام اداروں میں ادنیٰ ملازمین اور اعلیٰ عہدہ داروں کے درمیان معاوضوں میں اتنا ہی فرق ہے جتنا کسی بورژوا سوسائٹی میں پایا جاتا ہے۔ ایک عام کارکن کی تنخواہ اور اس کی زندگی کا معیار امریکہ و انگلستان کے مزدوروں کی بہ نسبت بہت پست ہے اور ہندوستان و پاکستان کے معیار سے اگر کچھ اونچا ہے تو کچھ بہت زیادہ نہیں۔ دوسری طرف ڈائریکٹروں اور مینجروں اور حکومت کے عہدہ داروں اور فوجی افسروں اور ایکٹروں اور ایکٹرسوں اور مصنفین و مولفین وغیرہ کی آمدنیاں بڑھتے بڑھتے کئی کئی لاکھ روبل سالانہ تک پہنچ گئی ہیں ۔گویا اگر پوری طرح نہیں تو ایک بڑی حد تک یہ تجارتی و صنعتی منافع اونچے اور نیچے طبقوں کے درمیان اسی نامساوی طریقے سے تقسیم ہورہا ہے جس طرح پہلے محنت پیشہ مزدوروں اور بورژوا لوگوں کے درمیان ہوتا تھا۔
پھر اشتراکی انقلاب برپا کرنے کے لیے محنت پیشہ عوام اور بورژوا لوگوں کے درمیان نفرت اور بغض اور انتقام کی جو عالمگیر آگ بھڑکائی گئی اس نے تمام دنیا کے غیر اشتراکی معاشروں کو روس کا مخالف بنا دیا اور اس بنا پر روس مجبور ہوگیا کہ انفرادی ملکیتوں کو ختم کرکے جو تجارتی و صنعتی منافع اس نے بورژوا طبقوں کے ہاتھوں میں جانے سے بچایا تھا اس کا ایک بڑا حصہ جنگی تیاریوں پر صرف کردے۔
ان دو بڑی بڑی مدوں میں کھپ جانے کے بعد اس منافع کا جتنا حصہ محنت پیشہ عوام کے نصیب میں آیا ہے وہ بس وہی ہے جو ’’سوشل انشورنس‘‘ کے کام میں صرف ہوتا ہے اور کل منافع کے مقابلے میں اس کا تناسب کیا ہے؟ انتہائی مبالغہ کے ساتھ بمشکل ایک یا دو فیصدی۔ (۱)
سوال یہ ہے کہ اگر اتنا ہی کچھ بلکہ اس سے زیادہ اچھی طرح کسی اور طریقے سے سوشل انشورنس کے لیے ملنے لگے تو پھر اس مار دھاڑ اور ظلم و ستم اور اس قربانیِ دین و اخلاق کے ساتھ انفرادی ملکیتیں ختم کرنے اور خواہ مخواہ اجتماعی ملکیت کا ایک مصنوعی نظام انسانی زندگی پر ٹھونسنے کی آخر حاجت ہی کیا ہے؟
-6 اجتماعی ملکیت، اجتماعی نظم و نسق اور اجتماعی منصوبہ بندی کو رائج کرنے کے لیے جان و مال اور مذہب و اخلاق اور انسانیت کی جو اکٹھی بربادی روس کو برداشت کرنی پڑی وہ تو گویا اس تجربے کے آغاز کی لاگت تھی۔ مگر اب روبعمل آجانے کے بعد روزمرہ کی زندگی میں وہ اہل روس کو دے کیا رہا ہے اور ان سے لے کیا رہا ہے؟ اس کا بھی ذرا موازنہ کر دیکھئے۔ وہ جو کچھ انہیں دیتا ہے وہ یہ ہے کہ:
ہر شخص کے لیے کم از کم اتنے روزگار کا انتظام ہوگیا ہے جس سے وہ دو وقت کی روٹی اور تن ڈھانکنے کو کپڑا اور سر چھپانے کو جگہ پاسکے اور اجتماعی طور پر اس امر کا بھی انتظام ہوگیا ہے کہ برے وقت پر آدمی کو سہارا مل سکے۔
بس یہی دو اصل فائدے ہیں جو اس نئے نظام نے باشندگان ملک کو دیئے۔ اب دیکھئے کہ اس نے لیا کیا؟
انفرادی ملکیت کے بجائے اجتماعی ملکیت کا نظام قائم کرنے کے لیے ناگزیر تھا کہ یہ کام وہی پارٹی اپنے ہاتھ میں لے جو اس نظریے کو لے کر اٹھی تھی، یعنی کمیونسٹ پارٹی۔ اس پارٹی کا نظریہ خود بھی یہ تھا اور خود اس کام کا تقاضا بھی یہی تھا کہ ایک زبردست ڈکٹیٹر شپ قائم ہو جو پورے زور کے ساتھ انفرادی ملکیت کے نظام کو توڑ دے اور سخت ہاتھوں سے نئے نظام کو رائج کردے۔ چنانچہ یہ ڈکٹیٹر شپ قائم ہوگئی اور اس کو کارکنوں کی ڈکٹیٹر شپ کا نام دیا گیا۔ لیکن ہر شخص جانتا ہے کہ روس کے مزدوروں اور کاشت کاروں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے کارکنوں کی ساری آبادی کمیونسٹ پارٹی میں شامل نہیں ہے۔ شاید اس آبادی کے 5 فی صد لوگ بھی پارٹی کے ممبر نہ ہوں گے۔ پس ظاہر میں تو نام یہ ہے کہ یہ مزدوروں کی ڈکٹیٹر شپ ہے مگر حقیقت میں یہ مزدوروں پر کمیونسٹ پارٹی کی ڈکٹیٹر شپ ہے۔
اور یہ ڈکٹیٹر شپ بھی کچھ ہلکی پھلکی سی نہیں، اجتماعی ملکیت کے معنی یہ ہیں کہ ملک کے تمام زمیندار ختم کر دیئے گئے اور ایک وحدہ لاشریک زمیندار سارے ملک کی زمین کا مالک ہوگیا۔ سارے کارخانہ دار اور تجار اور مستاجر بھی ختم ہوگئے اور ان سب کی جگہ ایسے سرمایہ دار نے لے لی جو ذرائع پیداوار کی ہر قسم اور ہر صورت پر قابض ہوگیا۔اور پھر اسی کے ہاتھ میں سارے ملک کی سیاسی طاقت بھی مرکوز ہوگئی۔ یہ ہے کمیونسٹ پارٹی کی ڈکٹیٹر شپ۔ اب اگر روس میں بظاہر آپ یہ دیکھتے ہیں کہ جو لوگ اس پوری معاشی، تمدنی اور سیاسی طاقت کو استعمال کررہے ہیں وہ عام آبادی کے ووٹوں ہی سے منتخب ہوا کرتے ہیں تو کیا فی الواقع اس کے معنی جمہوریت کے ہیں؟ سارے روس میں کس کی ہمت ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کے مقابلے میں ووٹ مانگنے کے لیے اٹھ سکے؟ اور اگر کوئی جرأت کرے بھی تو وہ سرزمین روس میں کھائے گا کہاں سے؟ اوراپنی آواز اٹھائے گا کس پریس سے؟ اور اپنی بات سنانے کے لیے ملک میں سفر کن ذرائع سے کرے گا؟ بلکہ یہ سب کچھ کرنے سے پہلے اس کو زندگی اور موت کا درمیانی فاصلہ طے کرنے میں دیر کتنی لگے گی؟ حقیقت یہ ہے کہ اجتماعی ملکیت کے نظام میں حکومت کے پاس اتنی طاقت جمع ہوجاتی ہے جو تاریخ انسانی میں کبھی کسی چنگیز اور ہلاکو اور زار اور قیصر کے پاس بھی جمع نہیں ہوئی تھی۔ جو گروہ ایک دفعہ اس طاقت پر قابض ہوجائے پھر اس کے مقابلے میں اہل ملک بالکل بے بس ہوجاتے ہیں۔ کسی قسم کی بگڑی ہوئی حکومت کو بدل دینا اس قدر مشکل نہیں ہے جس قدر ایک بگڑی ہوئی اشتراکی حکومت کو بدلنا مشکل ہے۔
اس نظام حکومت میں برسراقتدار پارٹی ملک کی مجموعی زندگی کے لیے جو منصوبہ (Plan) بناتی ہے اسے کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے وہ پریس کو، ریڈیو کو، سینما کو، مدرسے کو پوری انتظامی مشینری کو اور پورے ملک کے معاشی کاروبار کو ایک خاص نقشے کے مطابق استعمال کرتی ہے۔ اس منصوبے کی کامیابی کا انحصار ہی اس پر ہے کہ تمام ملک میں سوچنے اور رائے قائم کرنے اور فیصلہ کرنے والے دماغ صرف وہ چند ہوں جو مرکز میں بیٹھے منصوبہ بنا رہے ہیں۔ باقی سارا ملک صرف عملدرآمد کرنے والے دست و پا پر مشتمل ہو جو ’’تعمیل ارشاد‘‘ میں چون و چرا تک نہ کریں۔ تنقید اور نکتہ چینی اور رائے زنی کرنے والوں کے لیے اس نظام میں جیل اور تختۂ دار کے سوا اور کوئی جگہ نہیں ہے اور اگر ایسے دخل در معقولات دینے والے کو ملک بدر کر دیا جائے تو یہ گویا اس کے ساتھ بڑی رعایت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روس میں خود کمیونسٹ پارٹی کے بڑے بڑے سربر آوردہ کارکنوں اور لیڈروں تک کو جن کی محنتوں اور قابلیتوں ہی کی بدولت اشتراکی تجربہ کامیابی کی منزل تک پہنچا، موت اور حبس دوام اور جلاوطنی کی سزائیں دے ڈالی گئیں صرف اس لیے کہ انہوں نے برسر اقتدار گروہ سے اختلاف کی جرأت کی تھی۔ پھر یہ اشتراکی اخلاقیات کا طرفہ تماشا ہے کہ جس کو بھی اختلاف کے جرم میں پکڑا گیا اس پر طرح طرح کے ہولناک الزامات بے تجاشا لگا دیئے گئے اور اشتراکی عدالتوں میں بھی یہ ایک حیرت انگیز کرامت پائی جاتی ہے کہ برسرِاقتدار پارٹی جس کو بھی ان کے سامنے ملزموں کے کٹہرے میں لاکھڑا کرتی ہے وہ استغاثے کے عین منشا کے مطابق اپنے جرائم کی فہرست خود ہی فرفر سناتا چلا جاتا ہے اور کچھ دبی زبان سے نہیں بلکہ پورے زور و شور کے ساتھ اعتراف کرتا ہے کہ وہ بڑا غدار اور سرمایہ داروں کا ایجنٹ او ر روس کی آستین کا سانپ ہے۔
پھر چونکہ یہ نظام انفرادی ملکیتوں اور مذہبی طبقوں کو زبردستی کچل کر قائم کیا گیا ہے اور ابھی وہ سب لوگ دنیا سے اور خود روس کی سرزمین سے مٹ نہیں گئے ہیں جن کے جذبات و حسیات اور حقوق کی قبر پر یہ قصر تعمیر ہوا ہے اس لیے کمیونسٹ پارٹی کی ڈکٹیٹر شپ کو ہر وقت روس میں جوابی انقلاب کاخطرہ لگا رہتا ہے۔ علاوہ بریں اشتراکی حضرات یہ بھی خوب جانتے ہیں کہ ان کے انکار کے باوجود انسانی فطرت نام کی ایک چیز موجود ہے جو انفرادی نفع طلبی کا جذبہ رکھتی ہے اور وہ ہر وقت زور لگا رہی ہے کہ پھر انفرادی ملکیت کا نظام واپس آجائے۔ انہی وجوہ سے ایک طرف کمیونسٹ پارٹی خود اپنے نظام کو آئے دن ’’جلاب‘‘ دیتی رہتی ہے تاکہ جن لوگوں میں ’’رجعت‘‘ کی ذرا سی بو بھی پائی جائے انہیں صاف کیا جاتا رہے(۱) اور دوسری طرف پارٹی کی حکومت سارے ملک میں جوابی انقلاب کے خطرات، امکانات بلکہ شبہات اور وہم و گمان تک کو مٹا دینے کے لیے ہر وقت تلی رہتی ہے۔ اس نے جاسوسی کا ایک وسیع نظام قائم کر رکھا ہے جس کے بے شمار کارکن ہر ادارے، ہر گھر اور ہر مجمع میں ’’رجعت پسندوں‘‘ کو سونگھتے پھرتے ہیں۔ اس جاسوسی کے پر اسرار جال نے شوہروں اور بیویوں تک کے درمیان شک و شبہ کی دیوار حائل کردی ہے حتیٰ کہ ماں باپ کے خلاف خود ان کی اولاد تک سے جاسوسی کی خدمت لینے میں دریغ نہیں کیا گیا ہے۔ روس کی پولیس اور سی آئی ڈی کا ’’محتاط‘‘ نظریہ یہ ہے کہ اگر بھول چوک سے چند سو یا چند ہزار بے گناہ آدمی پکڑے اور مار ڈالے جائیں تو یہ اس سے بہتر ہے کہ چند گنہگار چھوٹ جائیں اور ان کے ہاتھوں سے جوابی انقلاب برپا ہوجائے۔ اسی لیے وہ ہر فیکٹری، ہر کان، ہر دفتر اور ہر ادارے میں دیکھتے رہتے ہیں کہ کون سا مزدور یا کارکن ملک کے یا خود اپنے ادارے کے انتظام پر ناک بھوں چڑھاتا ہے یا کسی قسم کی بے اطمینانی کا اظہار کرتا ہے۔ اس طرح کا کوئی فعل کرنا تو درکنار، جس پر شبہ ہوجائے کہ وہ ایسے جراثیم رکھتا ہے وہ بھی اچانک گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ چونکہ یہ آئے دن کا معمول ہے اس لیے جب کوئی کارکن رات کو اپنے گھر نہیں پہنچتا تو اس کی بیوی خود ہی سمجھتی ہے کہ پکڑا گیا۔ دوسرے دن وہ اس کی ضرورت کی چیزیں آپ ہی آپ پولیس کے دفتر میں پہنچانی شروع کر دیتی ہے اور ان کا قبول کرلیا جانا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس کا قیاس صحیح تھا۔ وہ کوئی سوال کرے تو دفتر کی طرف سے اسے کوئی جواب نہیں ملتا۔ ایک روز یکایک ایسا ہوتا ہے کہ اس کا بھیجا ہوا پارسل واپس آجاتا ہے، بس یہی اس امر کی اطلاع ہے کہ اس کا خاوند لینن کو پیارا ہوا۔ اب اگر وہ نیک بخت خود بھی اسی انجام سے دو چار ہونا نہ چاہتی ہو تو اس کا فرض ہے کہ ایک اچھی کامریڈنی کی طرح اس معاملے کی بھاپ تک منہ سے نہ نکالے اور دوسرا کوئی ایسا خاوند ڈھونڈے جو ’’رجعت پسندی‘‘ کے شبہ سے بالاتر ہو۔
یہ ہے وہ قیمت جو دو وقت کی روٹی اور برے وقت کی دستگیری کے لیے اشتراکی روس کے باشندوں کو ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ کیا واقعی اس قیمت پر یہ سودا سستا ہے؟ بلاشبہ ایک فاقہ کش آدمی بسا اوقات بھوک کی شدت سے اتنا مغلوب ہوجاتا ہے کہ وہ جیل کی زندگی کو اپنی مصیبت بھری آزادی پر ترجیح دینے لگتا ہے۔ صرف اس لیے کہ وہاں کم از کم دو وقت کی روٹی، تن ڈھانکنے کو کپڑا اور سر چھپانے کو جگہ تو نصیب ہوگی۔ مگر کیا اب پوری نوع انسانی کے لیے فی الواقع یہ مسئلہ پیدا ہوگیا ہے کہ اسے روٹی اور آزادی دونوں ایک ساتھ نہیں مل سکتیں؟ کیا روٹی ملنے کی اب یہی ایک صورت باقی رہ گئی ہے کہ ساری روئے زمین ایک جیل خانہ ہو اور چند کامریڈز اس کے جیلر اور وارڈر ہوں؟

شیئر کریں