Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
دیباچہ طبع اوّل
دیباچہ طبع ہشتم
باب اوّل
مسلمان ہونے کے لیے علم کی ضرورت
مسلم اورکافر کا اصلی فرق
سوچنے کی باتیں
کلمۂ طیبہ کے معنی
کلمۂ طیّبہ اور کلمۂ خبیثہ
کلمۂ طیبہ پر ایمان لانے کا مقصد
باب دوم
مسلمان کسے کہتے ہیں؟
ایمان کی کسوٹی
اسلام کا اصلی معیار
خدا کی اطاعت کس لیے؟
دین اور شریعت
باب سوم
عبادت
نماز
نماز میں آپ کیا پڑھتے ہیں؟
نماز باجماعت
نمازیں بے اثر کیوں ہو گئیں؟
باب چہارم
ہر امت پر روزہ فرض کیا گیا
روزے کا اصل مقصد
باب پنجم
زکوٰۃ
زکوٰۃ کی حقیقت
اجتماعی زندگی میں زکوٰۃ کا مقام
انفاق فی سبیل اللہ کے احکام
زکوٰۃ کے خاص احکام
باب ششم
حج کا پس منظر
حج کی تاریخ
حج کے فائدے
حج کا عالمگیر اجتماع
باب ہفتم
جہاد
جہاد کی اہمیت
ضمیمہ ۱ ۱۔اَلْخُطْبَۃُ الْاُوْلٰی
۲۔اَلْخُطْبَۃُ الثَّانِیَۃُ
ضمیمہ ۲ (بسلسلہ حاشیہ صفحہ نمبر ۲۰۷)

خطبات

اسلام کو دل نشیں، مدلل اور جا مع انداز میں پیش کرنے کا جو ملکہ اور خداداد صلاحیت سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کو حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ آپ کی تصانیف و تالیفات کی ایک ایک سطر جیسی یقین آفریں اور ایمان افزا ہے، اس کا ہر پڑھالکھا شخص معترف و مدّاح ہے ۔ کتنے ہی بگڑے ہوئے افراد، جوان، بچے، مرد وعورت ان تحریروں سے متاثر ہو کر اپنے سینوں کو نورِ ایمان سے منور کر چکے ہیں۔ ان کتابوں کی بدولت تشکیک کے مارے ہوئے لاتعداد اشخاص ایمان و یقین کی بدولت سے مالا مال ہوئے ہیں اور کتنے ہی دہریت و الحاد کے علم بردار اسلام کے نقیب بنے ہیں۔ یوں تو اس ذہنی اور عملی انقلاب لانے میں مولانا محترم کی جملہ تصانیف ہی کو پیش کیا جا سکتا ہے لیکن ان میں سر فہرست یہ کتاب خطبات ہے۔ یہ کتاب دراصل مولانا کے ان خطبات کا مجموعہ ہے جو آپ نے دیہات کے عام لوگوں کے سامنے جمعے کے اجتماعات میں دیے۔ ان خطبات میں آپ نے اسلام کے بنیادی ارکان کو دل میں اُتر جانے والے دلائل کے ساتھ آسان انداز میں پیش کیا ہے اور کمال یہ ہے کہ اس کتاب کو عام وخاص،کم علم واعلیٰ تعلیم یافتہ،ہر ایک یکساں ذوق وشوق سے پڑھتا ہے اور اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے بنیادی ارکان کو سمجھنے کے لیے ہماری زبان ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی دوسری بلند پایہ زبانوں میں بھی اس کتاب کی نظیر نہیں ملتی۔ علم و حقانیت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جو ان صفحات میں بند کردیا گیا ہے۔

کلمۂ طیبہ کے معنی

برادرانِ اسلام! آپ کو معلوم ہے کہ انسان دائرۂ اسلام میں ایک کلمہ پڑھ کر داخل ہوتا ہے اور وہ کلمہ بھی کچھ بہت زیادہ لمبا چوڑا نہیں ہے، صرف چند لفظ ہیں:
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔
اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں، محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔
ان الفاظ کو زبان سے ادا کرتے ہی آدمی کچھ سے کچھ ہوجاتا ہے۔ پہلے کافر تھا، اب مسلمان ہو گیا۔ پہلے ناپاک تھا، اب پاک ہو گیا۔ پہلے خدا کے غضب کا مستحق تھا، اب اس کا پیارا ہو گیا۔ پہلے دوزخ میں جانے والا تھا، اب جنت کا دروازہ اس کے لیے کھل گیا، اور بات صرف اتنے ہی پر نہیں رہتی۔ اسی کلمے کی وجہ سے آدمی اور آدمی میں بڑا فرق ہو جاتا ہے۔ جو اس کلمے کے پڑھنے والے ہیں وہ ایک امت ہوتے ہیں اور جو اس سے انکار کرتے ہیں وہ دوسری امت ہو جاتے ہیں۔ باپ اگر کلمہ پڑھنے والا ہے اور بیٹا اس سے انکار کرتا ہے توگویا باپ باپ نہ رہا اور بیٹا بیٹا نہ رہا۔ باپ کی جائداد سے اس بیٹے کو ورثہ نہ ملے گا۔ ماں اور بہنیں تک اس سے پردہ کرنے لگیںگی ۔{ FR 1597 } غیر شخص اگر کلمہ پڑھنے والا ہے اور اس گھر کی بیٹی بیاہتا ہے تو وہ اور اس کی اولاد تو اس گھرسے ورثہ پائے گی، مگر یہ اپنی صُلب کا بیٹا صرف اس وجہ سے کہ کلمہ کو نہیں مانتا، غیروں کا غیر بن جائے گا۔ گویا یہ کلمہ ایسی چیز ہے جو غیروں کو ایک دوسرے سے ملا دیتی ہے اور اپنوں کو ایک دوسرے سے کاٹ دیتی ہے۔ حتیٰ کہ اس کلمہ کا زور اتنا ہے کہ خون اور رحم کے رشتے بھی اس کے مقابلے میں کچھ نہیں۔
1-اتنا بڑا فرق کیوں؟
اب ذرا اس بات پر غور کرو کہ یہ اتنا بڑا فرق جو آدمی اور آدمی میں ہو جاتا ہے، یہ آخر کیوں ہوتا ہے؟ کلمہ میں ہے کیا؟ صرف چند حرف ہی توہیں_____ لام، الف، ہ، م، د، س_____ اور ایسے ہی دو چار حروف اور۔ ان حرفوں کو ملا کر اگر منہ سے نکا ل دیا توکیا کوئی جادو ہو جاتا ہے کہ آدمی کی کایا پلٹ جائے؟ آدمی اور آدمی میں کیا بس اتنی سی بات سے زمین وآسمان کا فرق ہو سکتا ہے؟
میرے بھائیو! تم ذرا سمجھ سے کام لو گے تو تمھاری عقل خود کہہ دے گی کہ فقط منہ کھولنے اور زبان ہلا کر چند حرف بول دینے کی اتنی بڑی تاثیر نہیں ہو سکتی۔ بت پرست مشرک تو ضرور سمجھتے ہیں کہ بس ایک منتر پڑھ دینے سے پہاڑ ہل جائے گا، زمین شق ہو جائے گی اور چشمے ابلنے لگیں گے، چاہے منتر کے معنی کی کسی کو خبر نہ ہو، کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ساری تاثیر بس حرفوں میں ہے۔ وہ زبان سے نکلے اور طلسمات کے دروازے کھل گئے، مگر اسلام میں یہ بات نہیں ہے۔ یہاں اصل چیز معنی ہیں۔ الفاظ کی تاثیر معنوں سے ہے۔ معنی اگر نہ ہوں اوروہ دل میں نہ اتریں ، اور ان کے زور سے تمھارے خیالات، تمھارے اخلاق اورتمھارے اعمال نہ بدلیں، تو نرے الفاظ بول دینے سے کچھ بھی اثر نہ ہو گا۔
اس بات کو میں ایک موٹی سی مثال سے تمھیں سمجھائوں۔ فرض کرو تمھیں سردی لگتی ہے۔ اگر تم زبان سے روئی لحاف، روئی لحاف پکارنا شروع کر دو، تو سردی لگنی بند نہ ہو گی، چاہے تم رات بھر میں ایک لاکھ تسبیحیں روئی لحاف کی پڑھ ڈالو۔ ہاں، اگر لحاف میں روئی بھروا کر اوڑھ لو گے تو سردی لگنی بند ہو جائے گی۔ فرض کرو کہ تمھیں پیاس لگ رہی ہے۔ اگر تم صبح سے شام تک پانی پانی پکارتے رہو تو پیاس نہ بجھے گی۔ ہاں، پانی کا ایک گھونٹ لے کر پی لو گے تو کلیجے کی ساری آگ فوراً ٹھنڈی ہو جائے گی۔ فرض کرو کہ تم کو نزلہ بخار ہو جاتا ہے۔ اس حال میں اگر بنفشہ گائو زبان، بنفشہ گائو زبان کی تسبیحیں تم پڑھنی شروع کر دو گے تو نزلے بخار میں کچھ بھی کمی نہ ہو گی۔ ان دوائوں کا جوشاندہ بنا کر پی لو گے تو نزلہ بخار خود بھاگ جائے گا۔ بس یہی حال کلمۂ طیّبہ کا بھی ہے۔ فقط چھے سات لفظ بول دینے سے اتنا بڑا فرق نہیں ہوتا کہ آدمی کافر سے مسلمان ہو جائے، ناپاک سے پاک ہو جائے، مردود سے محبوب بن جائے، دوزخی سے جنتی بن جائے۔
یہ فرق صرف اس طرح ہو گا کہ پہلے ان الفاظ کا مطلب سمجھو اور وہ مطلب تمھارے دل میں اتر جائے۔ پھر مطلب کو جان بوجھ کر جب تم ان الفاظ کو زبان سے نکالو تو تمھیں اچھی طرح یہ احساس ہو کہ تم اپنے خدا کے سامنے اور ساری دنیا کے سامنے کتنی بڑی بات کا اقرار کر رہے ہو، اور اس اقرار سے تمھارے اوپر کتنی بڑی ذمہ داری آ گئی ہے۔ پھر یہ سمجھتے ہوئے جب تم نے اقرار کر لیا تو اس کے بعد تمھارے خیالات پر اور تمھاری ساری زندگی پر اس کلمہ کا قبضہ ہو جانا چاہیے۔ پھر تم کو اپنے دل ودماغ میں کسی ایسی بات کو جگہ نہ دینی چاہیے جو اس کلمہ کے خلاف ہو۔ پھر تم کو ہمیشہ کے لیے بالکل فیصلہ کر لینا چاہیے کہ جو بات اس کلمہ کے خلاف ہے وہ جھوٹی ہے اور یہ کلمہ سچا ہے۔ پھر زندگی کے سارے معاملات میں یہ کلمہ تمھارا حاکم ہونا چاہیے۔ اس کلمہ کا اقرار کرنے کے بعد تم کافروں کی طرح آزاد نہیں رہے کہ جو چاہو کرو، بلکہ اب تم اس کلمہ کے پابند ہو۔ جو وہ کہے اُس کو کرنا پڑے گا اورجس سے وہ منع کرے اس کو چھوڑنا پڑے گا۔ اس طرح کلمہ پڑھنے سے آدمی مسلمان ہوتا ہے، اوراس طرح کلمہ پڑھنے کی وجہ سے آدمی اورآدمی میں اتنا بڑا فرق ہوتا ہے جس کا ذکر میں نے ابھی تم سے کیا۔
* کلمہ کا مطلب
آئو! اب میں تمھیں بتائوں کہ کلمہ کا مطلب کیا ہے اور اس کو پڑھ کر آدمی کس چیز کا اقرار کرتا ہے اور اس کا اقرار کرتے ہی آدمی کس چیز کا پابند ہو جاتا ہے۔
کلمہ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے اور حضرت محمدa اللہ کے رسول ہیں۔ کلمہ میں اِلٰہ کا جو لفظ آیا ہے اس کے معنیٰ ’خدا‘ کے ہیں۔ خدا اس کو کہتے ہیں جو مالک ہو، حاکم ہو، خالق ہو، پالنے اور پوسنے والا ہو، دعائوں کا سننے اور قبول کرنے والا ہو،اور اس کا مستحق ہوکہ اس کی عبادت کی جائے۔ اب جو تم نے لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ کہا تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اوّل تو تم نے یہ اقرار کیا کہ یہ دنیا نہ تو بے خدا کے بنی ہے، اور نہ ایسا ہی ہے کہ اس کے بہت سے خدا ہوں، بلکہ دراصل اس کا خدا ہے، اور وہ خدا ایک ہی ہے، اور اس ایک ذات کے سوا خدائی کسی کی نہیں ہے۔
دوسری بات جس کا تم نے کلمہ پڑھتے ہی اقرار کیا وہ یہ ہے کہ وہی ایک خدا تمھارا اور سارے جہان کا مالک ہے۔ تم اور تمھاری ہر چیز اور دنیا کی ہر شے اس کی ہے۔ خالق وہ ہے، رازق وہ ہے، موت اور زندگی اس کی طرف سے ہے۔ مصیبت اور راحت بھی اسی کی طرف سے ہے۔ جو کچھ کسی کوملتا ہے اس کو دینے والا حقیقت میں وہی ہے۔جو کچھ کسی سے چھینا جاتا ہے اس کا چھیننے والا بھی حقیقت میں وہی ہے۔ڈرنا چاہیے تو اس سے۔ مانگنا چاہیے تو اس سے۔ سر جھکانا چاہیے تو اس کے سامنے۔ عبادت اور بندگی کی جائے تو اس کی۔ اس کے سوا ہم کسی کے بندے اور غلام نہیں اور اس کے سوا کوئی ہمارا آقا اور حاکم نہیں۔ ہمارا اصلی فرض یہ ہے کہ اسی کا حکم مانیں اور اسی کے قانون کی پیروی کریں۔
* اللہ سے عہد وپیمان
یہ عہد وپیمان ہے جو لَآاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ پڑھتے ہی تم اپنے خدا سے کرتے ہو، اور ساری دنیا کو گواہ بنا کر کرتے ہو۔ اس کی خلاف ورزی کرو گے تو تمھاری زبان،تمھارے ہاتھ پائوں، تمھارا رونگٹا رونگٹا، اور زمین اور آسمان کا ایک ایک ذرّہ جس کے سامنے تم نے جھوٹا اقرار کیا، تمھارے خلاف خدا کی عدالت میں گواہی دے گا، اور تم ایسی بے بسی کے عالم میں وہاں کھڑے ہو گے کہ ایک بھی گواہ تم کو صفائی پیش کرنے کے لیے نہ ملے گا۔ کوئی وکیل یا بیرسٹر وہاں تمھاری طرف سے پیروی کرنے والا نہ ہو گا، بلکہ خود وکیل صاحب اور بیرسٹر صاحب، جو دنیا کی عدالتوں میں قانون کی الٹ پھیر کرتے پھرتے ہیں، یہ بھی وہاں تمھاری ہی طرح بے بسی کے عالم میں کھڑے ہوں گے۔ وہ عدالت ایسی نہیں ہے جہاں تم جھوٹی گواہیاں اور جعلی دستاویزیں پیش کرکے اور غلط پیروی کرکے بچ جائو گے۔ دنیا کی پولیس سے تم اپنا جرم چھپا سکتے ہو، خدا کی پولیس سے نہیںچھپا سکتے۔ دنیا کی پولیس رشوت کھا سکتی ہے، خدا کی پولیس رشوت کھانے والی نہیں۔ دنیا کے گواہ جھوٹ بول سکتے ہیں، خدا کے گواہ بالکل سچے ہیں۔ دنیا کے حاکم بے انصافی کر سکتے ہیں، خدا ایسا حاکم نہیں جو بے انصافی کرے۔ پھر خدا جس جیل میں ڈالے گا اس سے بچ کر بھاگنے کی بھی کوئی صورت نہیں ہے۔ خدا کے ساتھ جھوٹا اقرار نامہ کرنا بہت بڑی بیوقوفی، سب سے بڑی بیوقوفی ہے۔ جب اقرار کرتے ہو تو خوب سوچ سمجھ کر کرو اور اس کو پورا کرو، ورنہ تم پر کوئی زبردستی نہیں ہے کہ خواہ مخواہ زبانی ہی اقرار کر لو، کیونکہ خالی خولی زبانی اقرار محض بے کار ہے۔
* رسولؐ کی رہنمائی کا اقرار
لَآاِلٰہَ اِلاَّ اللہُ کہنے کے بعد تم مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہتے ہو۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تم نے یہ تسلیم کر لیا کہ محمدa ہی وہ پیغمبر ہیں جن کے ذریعے سے خدا نے اپنا قانون تمھارے پاس بھیجا ہے۔ خدا کو اپنا آقا اور شہنشاہ مان لینے کے بعد یہ معلوم ہونا ضروری تھا کہ اس شہنشاہ کے احکام کیا ہیں؟ ہم کون سے کام کریں جن سے وہ خوش ہوتا ہے اور کون سے کام نہ کریں جن سے وہ ناراض ہوتا ہے؟ کس قانون پر چلنے سے وہ ہم کو بخشے گا اور اس کی خلاف ورزی کرنے پر وہ ہم کو سزا دے گا؟ یہ سب باتیں بتانے کے لیے خدا نے محمدa کو اپنا پیغامبر مقرر کیا۔ آپؐ کے ذریعے سے اپنی کتاب ہمارے پاس بھیجی، اور آپؐ نے خدا کے حکم کے مطابق زندگی بسر کرکے ہم کو بتا دیا کہ مسلمانوں کو اس طرح زندگی بسر کرنی چاہیے۔
پس جب تم نے مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہا تو گویا اقرار کر لیا کہ جو قانون اور جو طریقہ حضورؐ نے بتایا ہے تم اسی کی پیروی کرو گے، اور جو قانون اس کے خلاف ہے اس پر لعنت بھیجو گے۔ یہ اقرار کرنے کے بعد اگر تم نے حضورؐ کے لائے ہوئے قانون کو چھوڑ دیا اور دنیا کے قانون کو مانتے رہے تو تم سے بڑھ کر جھوٹا اور بے ایمان کوئی نہ ہو گا، کیوں کہ تم یہی اقرار کرکے تو اسلام میں داخل ہوئے تھے کہ محمد a ہی کا لایا ہوا قانون حق ہے اور اسی کی تم پیروی کرو گے۔ اسی اقرار کی بدولت تو تم مسلمانوں کے بھائی بنے، اسی کی بدولت تم نے باپ سے ورثہ پایا، اسی کی بدولت ایک مسلمان عورت سے تمھارا نکاح ہوا، اسی کی بدولت تمھاری اولاد تمھاری جائز اولاد بنی، اسی کی بدولت تمھیں یہ حق ملا کہ تمام مسلمان تمھارے مددگار بنیں، تمھیں زکوٰۃ دیں، تمھاری جان ومال اورعزت وآبرو کی حفاظت کا ذمہ لیں، اور ان سب کے باوجود تم نے اپنا اقرار توڑ دیا۔ اس سے بڑھ کر دنیا میں کون سی بے ایمانی ہو سکتی ہے؟
اگر تم لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے معنی جانتے ہو، اور جان بوجھ کر اس کا اقرار کرتے ہو تو تم کو ہر حال میں خدا کے قانون کی پیروی کرنی چاہیے، خواہ اس کی پیروی پر مجبور کرنے والی کوئی پولیس اور عدالت اس دنیا میں نظر نہ آتی ہو۔ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ خدا کی پولیس اور فوج اور عدالت اور جیل کہیں موجود نہیں ہے اس لیے اس کے قانون کو توڑنا آسان ہے، اور گورنمنٹ کی پولیس، فوج، عدالت اور جیل موجود ہے اس لیے اس کے قانون کو توڑنا مشکل ہے، ایسے شخص کے متعلق میں صاف کہتا ہوں کہ وہ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کا جھوٹا اقرار کرتا ہے۔ اپنے خدا کو، ساری دنیا کو، تمام مسلمانوں کو اور خود اپنے نفس کو دھوکا دیتا ہے۔
* اقرارکی ذمہ داریاں
بھائیو اور دوستو! ابھی میں نے تمھارے سامنے کلمۂ طیبہ کے معنی بیان کیے ہیں۔ اب اسی سلسلے میں ایک اور پہلو کی طرف تم کو توجہ دلاتا ہوں۔
تم اقرار کرتے ہو کہ اللہ تمھارا اور ہر چیز کا مالک ہے۔ اس کے کیا معنی ہیں؟ اس کے معنی یہ ہیں کہ تمھاری جان تمھاری اپنی نہیں، خدا کی مِلک ہے۔ تمھارے ہاتھ اپنے نہیں۔ تمھاری آنکھیں اور تمھارے کان اور تمھارے جسم کا کوئی عضو تمھارا اپنا نہیں۔ یہ زمینیں جن کو تم جوتتے ہو، یہ جانور جن سے تم خدمت لیتے ہو، یہ مال اسباب جن سے تم فائدہ اٹھاتے ہو، ان میں سے بھی کوئی چیز تمھاری نہیں۔ ہر چیز خدا کی مِلک ہے اور خدا کی طرف سے عطیے کے طور پر تمھیں ملی ہے۔ اس بات کا اقرار کرنے کے بعد تمھیں یہ کہنے کا کیا حق ہے کہ جان میری ہے، جسم میرا ہے، مال میرا ہے، اور فلاں چیز میری ہے اور فلاں چیز میری ہے۔ دوسرے کو مالک کہنا اور پھر اس کی چیز کو اپنی قرار دینا، بالکل ایک لغو بات ہے۔ اگر درحقیقت یہ بات سچے دل سے مانتے ہو کہ ان سب چیزوں کا مالک خدا ہی ہے تو اس سے دو باتیں خود بخود تم پر لازم ہو جاتی ہیں:
۱۔مالک کی مرضی کے مطابق کام کرنا
ایک یہ کہ جب مالک خدا ہے اور اس نے اپنی ملکیت امانت کے طور پر تمھارے حوالے کی ہے تو جس طرح مالک کہتا ہے اُسی طرح تمھیں ان چیزوں سے کام لینا چاہیے۔ اس کی مرضی کے خلاف ان سے کام لیتے ہو تو دھوکا بازی کرتے ہو۔ تم اپنے ان ہاتھوں اور پائوں کو بھی اس کی پسند کے خلاف ہلانے کا حق نہیں رکھتے۔ تم ان آنکھوں سے بھی اس کی مرضی کے خلاف دیکھنے کا کام نہیں لے سکتے۔ تم کو اس پیٹ میں بھی کوئی ایسی چیز ڈالنے کا حق نہیں ہے جو اس کی مرضی کے خلاف ہو۔ تمھیں ان زمینوں اور ان جائدادوں پر بھی مالک کے منشا کے خلاف کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ تمھاری بیویاں جن کو تم اپنی کہتے ہو، اور تمھاری اولاد جن کو تم اپنی کہتے ہو، یہ بھی صرف اس لیے تمھاری ہیں کہ تمھارے مالک کی دی ہوئی ہیں، لہٰذا تم کو ان سے بھی اپنی خواہش کے مطابق نہیں، بلکہ مالک کے حکم کے مطابق ہی برتائو کرنا چاہیے۔ اگر اس کے خلاف کروگے تو تمھاری حیثیت غاصب کی ہو گی۔ جس طرح دوسرے کی زمین پر قبضہ کرنے والے کو تم کہتے ہو کہ وہ بے ایمان ہے، اسی طرح اگر خدا کی دی ہوئی چیزوں کو تم اپنا سمجھ کر اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرو گے، یا خدا کے سوا کسی اور کی مرضی کے مطابق ان سے کام لو گے تو وہی بے ایمانی کا الزام تم پر بھی آئے گا۔
اگر مالک کی مرضی کے مطابق کام کرنے میں کوئی نقصان ہوتا ہے تو ہوا کرے۔ جان جاتی ہے تو جائے۔ ہاتھ پائوں ٹوٹتے ہیں تو ٹوٹیں۔ اولاد کا نقصان ہوتا ہے تو ہو۔ مال وجائداد برباد ہو تو ہوا کرے، تمھیں کیوں غم ہو؟ جس کی چیز ہے وہی اگر نقصان پسند کرتا ہو تو اس کو حق ہے۔ ہاں، اگر مالک کی مرضی کے خلاف تم کام کرو اور اس میں کسی چیز کا نقصان ہو تو بلاشبہ تم مجرم ہو گے، کیوں کہ دوسرے کے مال کو تم نے خراب کیا۔ تم خود اپنی جان کے مختار نہیں ہو۔ مالک کی مرضی کے مطابق جان دو گے تو مالک کا حق ادا کر دو گے۔ اس کے خلاف کام کرنے میں جان دو گے تو یہ بے ایمانی ہو گی۔
۲۔ اسلام لانا خدا پر احسان نہیں
دوسری بات یہ ہے کہ مالک نے جو چیز تمھیں دی ہے اس کو اگر تم مالک ہی کے کام میں صَرف کرتے ہو تو کسی پر احسان نہیں کرتے۔ نہ مالک پر احسان ہے نہ کسی اور پر۔ تم نے اگر اس کی راہ میں کچھ دیا، یا کچھ خدمت کی، یا جان دے دی جو تمھارے نزدیک بہت بڑی چیز ہے، تب بھی کوئی احسان کسی پر نہیں کیا۔ زیادہ سے زیادہ جو کام تم نے کیا وہ بس اتنا ہی تو ہے کہ مالک کا حق جو تم پر تھا وہ تم نے ادا کر دیا۔ یہ کون سی ایسی بات ہے جس پر کوئی پھولے اور فخر کرے اور یہ چاہے کہ اس کی تعریفیں کی جائیں اور یہ سمجھے کہ اس نے کوئی بہت بڑا کام کیا ہے جس پر اس کی بڑائی تسلیم کی جائے؟ یاد رکھو کہ سچا مسلمان مالک کی راہ میں کچھ صَرف کرنے یا کچھ خدمت کرنے کے بعد پھولتا نہیں ہے، بلکہ خاکساری اختیار کرتا ہے۔ فخر کرنا کارِ خیر کو برباد کر دیتا ہے۔ تعریف کی خواہش جس نے کی اور اس کی خاطر کوئی کارِخیر کیا، وہ خدا کے ہاں کسی اجر کا مستحق نہ رہا، کیوں کہ اس نے تواپنے کام کا معاوضہ دنیا ہی میں مانگا اور یہیں اس کو مل بھی گیا۔
اللہ کا احسان اور ہمارا رویہ
بھائیو! اپنے مالک کا احسان دیکھو کہ اپنی چیز تم سے لیتا ہے، اورپھر کہتا ہے کہ یہ چیز میں نے تم سے خریدی ہے اور اس کا معاوضہ میں تمھیں دوں گا۔ اللہ اکبر! اس شانِ جُود وکرم کا بھی کوئی ٹھکانا ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ:
اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ ط (التوبہ 9:111)
اللہ نے ایمان داروں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں اس معاوضے میں کہ ان کے لیے جنت ہے۔
یہ تو مالک کا برتائو تمھارے ساتھ ہے۔ اب ذرا اپنا برتائو بھی دیکھو۔ جو چیز مالک نے تم کو دی تھی اور جس کو مالک نے پھر تم سے معاوضہ دے کر خرید بھی لیا، اس کو غیروں کے ہاتھ بیچتے ہو۔ نہایت ذلیل معاوضے لے لے کر بیچتے ہو۔ وہ مالک کی مرضی کے خلاف تم سے کام لیتے ہیں اور تم یہ سمجھ کر ان کی خدمت کرتے ہو کہ گویا رازق وہ ہیں۔ تم اپنے دماغ بیچتے ہو، اپنے ہاتھ پائوں بیچتے ہو، اپنے جسم کی طاقتیں بیچتے ہو، اوروہ سب کچھ بیچتے ہو جس کو خدا کے باغی خریدنا چاہتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر بداخلاقی اور کیا ہو سکتی ہے؟ بیچی ہوئی چیز کو بیچنا قانونی اور اخلاقی جُرم ہے۔ دنیا میں اس پر دغابازی اور فریب دہی کا مقدمہ چلایا جاتا ہے۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ خدا کی عدالت میں اس پر مقدمہ نہیں چلایا جائے گا؟

٭…٭…٭

شیئر کریں