Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
دیباچہ طبع اوّل
دیباچہ طبع ہشتم
باب اوّل
مسلمان ہونے کے لیے علم کی ضرورت
مسلم اورکافر کا اصلی فرق
سوچنے کی باتیں
کلمۂ طیبہ کے معنی
کلمۂ طیّبہ اور کلمۂ خبیثہ
کلمۂ طیبہ پر ایمان لانے کا مقصد
باب دوم
مسلمان کسے کہتے ہیں؟
ایمان کی کسوٹی
اسلام کا اصلی معیار
خدا کی اطاعت کس لیے؟
دین اور شریعت
باب سوم
عبادت
نماز
نماز میں آپ کیا پڑھتے ہیں؟
نماز باجماعت
نمازیں بے اثر کیوں ہو گئیں؟
باب چہارم
ہر امت پر روزہ فرض کیا گیا
روزے کا اصل مقصد
باب پنجم
زکوٰۃ
زکوٰۃ کی حقیقت
اجتماعی زندگی میں زکوٰۃ کا مقام
انفاق فی سبیل اللہ کے احکام
زکوٰۃ کے خاص احکام
باب ششم
حج کا پس منظر
حج کی تاریخ
حج کے فائدے
حج کا عالمگیر اجتماع
باب ہفتم
جہاد
جہاد کی اہمیت
ضمیمہ ۱ ۱۔اَلْخُطْبَۃُ الْاُوْلٰی
۲۔اَلْخُطْبَۃُ الثَّانِیَۃُ
ضمیمہ ۲ (بسلسلہ حاشیہ صفحہ نمبر ۲۰۷)

خطبات

اسلام کو دل نشیں، مدلل اور جا مع انداز میں پیش کرنے کا جو ملکہ اور خداداد صلاحیت سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کو حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ آپ کی تصانیف و تالیفات کی ایک ایک سطر جیسی یقین آفریں اور ایمان افزا ہے، اس کا ہر پڑھالکھا شخص معترف و مدّاح ہے ۔ کتنے ہی بگڑے ہوئے افراد، جوان، بچے، مرد وعورت ان تحریروں سے متاثر ہو کر اپنے سینوں کو نورِ ایمان سے منور کر چکے ہیں۔ ان کتابوں کی بدولت تشکیک کے مارے ہوئے لاتعداد اشخاص ایمان و یقین کی بدولت سے مالا مال ہوئے ہیں اور کتنے ہی دہریت و الحاد کے علم بردار اسلام کے نقیب بنے ہیں۔ یوں تو اس ذہنی اور عملی انقلاب لانے میں مولانا محترم کی جملہ تصانیف ہی کو پیش کیا جا سکتا ہے لیکن ان میں سر فہرست یہ کتاب خطبات ہے۔ یہ کتاب دراصل مولانا کے ان خطبات کا مجموعہ ہے جو آپ نے دیہات کے عام لوگوں کے سامنے جمعے کے اجتماعات میں دیے۔ ان خطبات میں آپ نے اسلام کے بنیادی ارکان کو دل میں اُتر جانے والے دلائل کے ساتھ آسان انداز میں پیش کیا ہے اور کمال یہ ہے کہ اس کتاب کو عام وخاص،کم علم واعلیٰ تعلیم یافتہ،ہر ایک یکساں ذوق وشوق سے پڑھتا ہے اور اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے بنیادی ارکان کو سمجھنے کے لیے ہماری زبان ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی دوسری بلند پایہ زبانوں میں بھی اس کتاب کی نظیر نہیں ملتی۔ علم و حقانیت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جو ان صفحات میں بند کردیا گیا ہے۔

کلمۂ طیبہ پر ایمان لانے کا مقصد

برادرانِ اسلام! اس سے پہلے دو خطبوں میں آپ کے سامنے کلمۂ طیبہ کا مطلب بیان کر چکا ہوں۔ آج میں اس سوال پر بحث کر نا چاہتا ہوں کہ اس کلمے پر ایمان لانے کا فائدہ اور اس کی ضرورت کیا ہے؟
* ہر کام کا ایک مقصد ہے
یہ تو آپ جانتے ہیں کہ آدمی جو کام بھی کرتا ہے کسی نہ کسی غرض، کسی نہ کسی فائدے کے لیے کرتا ہے۔ بے غرض، بے مقصد، بے فائدہ کوئی کام نہیں کیا کرتا۔ آپ پانی کیوں پیتے ہیں؟ اس لیے کہ پیاس بجھے۔ اگر پانی پینے کے بعد بھی آپ کا وہی حال رہے جو پینے سے پہلے ہوتا ہے تو آپ ہرگز پانی نہ پئیں، کیوں کہ یہ ایک بے نتیجہ کام ہو گا۔ آپ کھانا کیوں کھاتے ہیں؟ اس لیے کہ بھوک رفع ہو، اور آپ میں زندہ رہنے کی طاقت پیدا ہو۔ اگر کھانا کھانے اور نہ کھانے کا نتیجہ ایک ہی ہو تو آپ یہی کہیں گے کہ یہ بالکل ایک فضول کام ہے۔ بیماری میں آپ دوا کیوں پیتے ہیں؟ اس لیے کہ بیماری دُور ہو جائے اور تندرستی حاصل ہو۔ اگر دوا پی کر بھی بیمار کا وہی حال ہو جو دوا پینے سے پہلے تھا، تو آپ یہی کہیں گے کہ ایسی دوا پینا بے کار ہے۔ آپ زراعت میں اتنی محنت کیوں کرتے ہیں؟ اس لیے کہ زمین سے غلہ اور پھل اور ترکاریاں پیدا ہوں۔ اگر بیج بونے پر بھی زمین سے کوئی چیز نہ اُگتی تو آپ ہل چلانے اور تخم ریزی کرنے اور پانی دینے میں اتنی محنت ہرگز نہ کرتے۔ غرض آپ دنیا میں جو کام بھی کرتے ہیں اس میں ضرور کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ اگر مقصد حاصل ہو تو آپ کہتے ہیں کہ کام ٹھیک ہوا۔ اگر مقصد حاصل نہ ہو تو آپ کہتے ہیں کہ کام ٹھیک نہیں ہوا۔
* کلمہ پڑھنے کا مقصد
اس بات کو ذہن میں رکھیے اور میرے ایک ایک سوال کا جواب دیتے جائیے۔ سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ کلمہ کیوں پڑھا جاتا ہے؟ اس کا جواب آپ اس کے سوا اور کچھ نہیں دے سکتے کہ کلمہ پڑھنے کا مقصد یہ ہے کہ کافراور مسلمان میں فرق ہو جائے۔ اب میں پوچھتا ہوں کہ فرق ہونے کا کیا مطلب ہے؟ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ کافر کی دو آنکھیں ہوتی ہیں تو مسلمان کی چار آنکھیں ہو جائیں؟ یا کافر کا ایک سر ہوتا ہے تو مسلمان کے دوسر ہو جائیں؟ آپ کہیں گے کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے۔ فرق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کافر کے انجام اور مسلمان کے انجام میں فرق ہو۔ کافر کا انجام یہ ہے کہ آخرت میں وہ خدا کی رحمت سے محروم ہو جائے اور ناکام ونامراد رہے اور مسلمان کا انجام یہ ہے کہ خدا کی خوشنودی اُسے حاصل ہو، اور آخرت میں وہ کامیاب اور بامراد رہے۔
* آخرت کی ناکامی وکامیابی
میں کہتا ہوں کہ یہ جواب آپ نے بالکل ٹھیک دیا، مگر مجھے یہ بتائیے کہ آخرت کیا چیز ہے؟ آخرت کی ناکامی ونامرادی سے کیا مطلب ہے؟ اور وہاں کامیاب اور بامراد ہونے کا مطلب کیا ہے؟ جب تک میں اس بات کو نہ سمجھ لوں اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتا۔
اس سوال کا جواب آپ کو دینے کی ضرورت نہیں۔ اس کا جواب پہلے ہی دیا جا چکا ہے کہ اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الْاٰخِرَۃِ ۔{ FR 1599 } یعنی دنیا اور آخرت دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں، بلکہ ایک ہی سلسلہ ہے جس کی ابتدا دنیا ہے اور انتہا آخرت۔ ان دونوں میں وہی تعلق ہے جو کھیتی اور فصل میں ہوتا ہے۔ آپ زمین میں ہل جوتتے ہیں، پھر بیج بوتے ہیں، پھر پانی دیتے ہیں، پھر کھیتی کی دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ فصل تیار ہو جاتی ہے، اور اس کو کاٹ کر آپ سال بھر تک مزے سے کھاتے رہتے ہیں۔ آپ زمین میں جس چیز کی کاشت کریں گے اسی کی فصل تیار ہو گی۔ گیہوں بوئیں گے تو گیہوں پیدا ہو گا۔ کانٹے بوئیں گے تو کانٹے ہی پیدا ہوں گے۔ کچھ نہ بوئیں گے تو کچھ نہ پیدا ہو گا۔ ہل چلانے اوربیج بونے اور پانی دینے اور کھیتی کی رکھوالی کرنے میں جو جو غلطیاں اور کوتاہیاں آپ سے ہوں گی ان سب کا برا اثر آپ کو فصل کاٹنے کے موقع پر معلوم ہو گا، اور اگر آپ نے یہ سب کام اچھی طرح کیے ہیں تو ان کا فائدہ بھی آپ فصل ہی کاٹنے کے وقت دیکھیں گے۔ بالکل یہی حال دنیا اور آخرت کا ہے۔ دنیا ایک کھیتی ہے۔ اس کھیتی میں آدمی کو اس لیے بھیجا گیا ہے کہ اپنی محنت اور اپنی کوشش سے اپنے لیے فصل تیار کرے۔ پیدائش سے لے کر موت تک کے لیے آدمی کو اس کام کی مہلت دی گئی ہے۔ اس مہلت میں جیسی فصل آدمی نے تیار کی ہے، ویسی ہی فصل وہ موت کے بعد دوسری زندگی میں کاٹے گا، اور پھر جو فصل وہ کاٹے گا اسی پر آخرت کی زندگی میں اس کا گزر بسر ہو گا۔ اگر کسی نے عمر بھر دنیا کی کھیتی میں اچھے پھل بوئے ہیں اور ان کو خوب پانی دیا ہے اور ان کی خوب رکھوالی کی ہے تو آخرت کی زندگی میں جب وہ قدم رکھے گا تو اپنی محنت کی کمائی ایک سر سبزو شاداب باغ کی صورت میں تیار پائے گا اور اسے اپنی اس دوسری زندگی میں پھر کوئی محنت نہ کرنی پڑے گی، بلکہ دنیا میں عمر بھر محنت کرکے جو باغ اس نے لگایا تھا اسی باغ کے پھلوں پر آرام سے زندگی بسر کرے گا۔ اسی چیز کا نام جنت ہے اور آخرت میں بامراد ہونے کا یہی مطلب ہے۔
اس کے مقابلے میں جو شخص اپنی دنیا کی زندگی میں کانٹے اور کڑوے کسیلے زہریلے پھل بوتا رہا ہے، اس کو آخرت کی زندگی میں انھی پھلوں کی فصل تیار ملے گی۔ وہاں پھر اس کو دوبارہ اتنا موقع نہیں ملے گا کہ اپنی اس حماقت کی تلافی کر سکے اور اس خراب فصل کو جلا کر دوسری اچھی فصل تیار کر سکے۔ پھر تو اس کو آخرت کی ساری زندگی اسی فصل پر بسر کرنی ہو گی جسے وہ دنیا میں تیار کر چکا ہے۔ جو کانٹے اس نے بوئے تھے انھی کے بستر پر اسے لیٹنا ہو گا، اور جو کڑوے کسیلے زہریلے پھل اس نے لگائے تھے وہی اس کو کھانے پڑیں گے۔ یہی مطلب ہے آخرت میں ناکام ونامراد ہونے کا۔
آخرت کی یہ شرح جو میں نے بیان کی ہے، حدیث اور قرآن سے بھی یہی شرح ثابت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آخرت کی زندگی میں انسان کا نامراد یا بامراد ہونا اور اس کے انجام کا اچھا یا برا ہونا دراصل نتیجہ ہے دنیا کی زندگی میں اس کے علم اور عمل کے صحیح یا غلط ہونے کا۔
1-کافر اور مسلمان کے انجام میں فرق کیوں؟
یہ بات جب آپ نے سمجھ لی تو ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی خود بخود سمجھ میں آ جاتی ہے کہ مسلمان اور کافر کے انجام کا فرق یونہی بلا وجہ نہیں ہو جاتا۔ دراصل انجام کا فرق آغاز ہی کے فرق کا نتیجہ ہے۔ جب تک دنیا میں مسلمان اور کافر کے علم وعمل کے درمیان فرق نہ ہو گا، آخرت میں بھی ان دونوں کے انجام کے درمیان فرق نہیں ہو سکتا۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ دنیا میں ایک شخص کا علم اور عمل وہی ہو جو کافر کا علم اور عمل ہے، اور پھر آخرت میں وہ اس انجام سے بچ جائے جو کافر کا انجام ہوتا ہے۔
* کلمے کا مقصد ___ علم وعمل کی درُستی
اب پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کلمہ پڑھنے کا مقصد کیا ہے؟
پہلے آپ نے اس کا جواب یہ دیا تھا کہ کلمہ پڑھنے کا مقصد یہ ہے کہ کافر کے انجام اور مسلمان کے انجام میں فرق ہو۔ اب انجام اور آخرت کی جو تشریح آپ نے سنی ہے، اس کے بعد آپ کو اپنے جواب پر پھر غور کرنا ہو گا۔ اب آپ کو یہ کہنا پڑے گا کہ کلمہ پڑھنے کا مقصد دنیا میں انسان کے علم اور عمل کو درست کرنا ہے تاکہ آخرت میں اس کا انجام درست ہو۔ یہ کلمہ انسان کو دنیا میں وہ باغ لگانا سکھاتا ہے جس کے پھل آخرت میں اس کو توڑنے ہیں۔ اگر آدمی اس کلمے کو نہیں مانتا تو اس کو باغ لگانے کا طریقہ ہی معلوم نہیں ہو سکتا۔ پھر وہ باغ لگائے گا کس طرح اور آخرت میں پھل کس چیز کے توڑے گا؟ اور اگر آدمی اس کلمے کو زبان سے پڑھ لیتا ہے، مگر اس کا علم بھی وہی رہتا ہے جو نہ پڑھنے والے کا علم تھا، اور اس کا عمل بھی ویسا ہی رہتا ہے جیسا کافر کا عمل تھا، تو آپ کی عقل خود کہہ دے گی کہ ایسا کلمہ پڑھنے سے کچھ حاصل نہیں۔ کوئی وجہ نہیں کہ ایسے شخص کا انجام کافر کے انجام سے مختلف ہو۔ زبان سے کلمہ پڑھ کر اس نے خدا پر کوئی احسان نہیں کیا ہے کہ باغ لگانے کا طریقہ بھی وہ نہ سیکھے، باغ لگائے بھی نہیں، ساری عمر کانٹے ہی بوتا رہے، اور پھر بھی آخرت میں اس کو پھلوں سے لدا ہوا لہلہاتا باغ مل جائے۔ جیسا کہ میں پہلے کئی مثالیں دے کر بیان کر چکا ہوں، جس کام کے کرنے اور نہ کرنے کا نتیجہ ایک ہو، وہ کام فضول اور بے معنی ہے۔ جس دوا کو پینے کے بعد بھی بیمار کا وہی حال رہے جو پینے سے پہلے تھا، وہ دوا حقیقت میں دوا ہی نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح اگر کلمہ پڑھنے والے آدمی کا علم اور عمل بھی وہی کا وہی رہے جو کلمہ نہ پڑھنے والے کا ہوتا ہے، توایسا کلمہ پڑھنا محض بے معنی ہے۔ جب دنیا میں کافر اور مسلم کی زندگی میں فرق نہ ہوا توآخرت میں ان کے انجام میں فرق کیسے ہو سکتا ہے؟
2-کلمۂ طیبہ کون سا علم سکھاتا ہے؟
اب یہ سوال سامنے آتا ہے کہ وہ کون سا علم ہے جو کلمۂ طیبہ انسان کو سکھاتا ہے؟ اور اس علم کو سیکھنے کے بعد مسلمان کے عمل اور کافر کے عمل میں کیا فرق ہو جاتا ہے؟
۱۔ اللہ کی بندگی
دیکھیے! پہلی بات جو اس کلمہ سے آپ کو معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ اللہ کے بندے ہیں اور کسی کے بندے نہیں ہیں۔ یہ بات جب آپ کو معلوم ہو گئی تو خود بخود آپ کو یہ بات بھی معلوم ہو گئی کہ آپ جس کے بندے ہیں، دنیا میں آپ کو اسی کی مرضی کے مطابق عمل کرنا چاہیے، کیونکہ اس کی مرضی کے خلاف اگر آپ چلیں گے تو یہ اپنے مالک سے بغاوت ہو گی۔
۲۔ محمدؐ کی پیروی
اس علم کے بعد دوسرا علم آپ کو کلمہ سے یہ حاصل ہوتا ہے کہ حضرت محمد a اللہ کے رسول ہیں۔ یہ بات جب آپ کو معلوم ہو گئی، تو اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی آپ کو خود بخود معلوم ہو گئی کہ اللہ کے رسولؐ نے دنیا کی کھیتی میں کانٹوں اور زہریلے پھلوں کے بجائے پھولوں اور میٹھے پھلوں کا باغ لگانا جس طرح سکھایا ہے اسی طرح آپ کو باغ لگانا چاہیے۔ اگر آپ اس طریقے کی پیروی کریں گے تو آخرت میں آپ کو اچھی فصل ملے گی، اور اگر اس کے خلاف عمل کریں گے تودنیا میں کانٹے بوئیں گے اور آخرت میں کانٹے ہی پائیں گے۔
۳۔علم کے مطابق عمل بھی ہو
یہ علم حاصل ہونے کے بعد لازم ہے کہ آپ کا عمل بھی اس کے مطابق ہو۔ اگر آپ کو یقین ہے کہ ایک دن مرنا ہے، اور مرنے کے بعد پھر ایک دوسری زندگی ہے، اور اس زندگی میں آپ کو اسی فصل پر گزر کرنا ہو گا جسے آپ اس زندگی میں تیار کرکے جائیں گے، تو پھر یہ ناممکن ہے کہ آپ رسول اللہ a کے بتائے ہوئے طریقے کو چھوڑ کر کوئی دوسرا طریقہ اختیار کر سکیں۔ دنیا میں آپ کھیتی باڑی کیوں کرتے ہیں؟ اسی لیے کہ آپ کو یقین ہے کہ اگر کھیتی باڑی نہ کی تو غلہ پیدا نہ ہو گا، اور غلہ نہ پیدا ہوا تو بھوکے مر جائیں گے۔ اگر آپ کو اس بات کا یقین نہ ہوتا اور آپ سمجھتے کہ کھیتی باڑی کے بغیر ہی غلہ پیدا ہو جائے گا، یا غلے کے بغیر بھی آپ بھوک سے بچ جائیں گے، تو ہرگز آپ کھیتی باڑی میں یہ محنت نہ کرتے۔
بس اسی پراپنے حال کو بھی قیاس کر لیجیے۔ جو شخص زبان سے یہ کہتا ہے کہ میں خدا کو اپنا مالک، اور رسولِ پاکؐ کو خدا کا رسول مانتا ہوں، اور آخرت کی زندگی کو بھی مانتا ہوں، مگر عمل اس کا قرآن کی تعلیم اور رسول اللہ a کی سنت کے خلاف ہے۔ اس کے متعلق یہ سمجھ لیجیے کہ درحقیقت اس کا ایمان کمزور ہے۔ اس کو جیسا یقین اپنی کھیتی میں کاشت نہ کرنے کے برے انجام کا ہے، اگر ویسا ہی یقین آخرت کی فصل تیار نہ کرنے کے برے انجام کا بھی ہو، تو وہ کبھی اس کام میں غفلت نہ کرے۔ کوئی شخص جان بوجھ کر اپنے حق میں کانٹے نہیں بوتا۔ کانٹے وہی بوتا ہے جسے یہ یقین نہیں ہوتا کہ جو چیز بو رہا ہے اس سے کانٹے پیدا ہوں گے اور وہ کانٹے اس کو تکلیف دیں گے۔ آپ جان بوجھ کر اپنے ہاتھ میں آگ کا انگارہ نہیں اٹھاتے، کیوں کہ آپ کو یقین ہے کہ یہ جلا دے گا، مگر ایک بچہ آگ میں ہاتھ ڈال دیتا ہے، کیونکہ اسے اچھی طرح معلوم نہیں ہے کہ اس کا انجام کیا ہو گا۔

شیئر کریں