Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
(قومیّت ِاسلام (قوم کا مفہوم
قومیّت کے غیرمنفک لوازم
قومیت کے عناصر ترکیبی
شر اور فساد کا سرچشمہ
عصبیّت جاہلیہ
قومیت کے عناصر پر ایک عقلی تنقید
نسلیّت
وطنیت
لسانی امتیازات
امتیازِ رنگ
معاشی قومیّت
سیاسی قومیّت
انسانیت و آفاقیت
اسلام کا وسیع نظریہ
عصبیّت اور اسلام کی دشمنی
عصبیّت کے خلاف اسلام کا جہاد
اسلامی قومیّت کی بنیاد
اسلام کا طریق جمع و تفریق
اسلامی قومیت کی تعمیر کس طرح ہوئی؟
مہاجرین کا اسوہ
انصار کا طرزِعمل
رشتہ دین پر مادی علائق کی قربانی
جامعہ اسلامیہ کی اصلی رُوح
رسولؐ اللہ کی آخری وصیت
اسلام کے لیے سب سے بڑا خطرہ
مغرب کی اندھی تقلید
کلمۂ جامعہ
متَّحدہ قومیّت اور اسلام
غیرعلمی زاویۂ نظر
اثباتِ مُدعا کے لیے حقائق سے چشم پوشی
قومیں اوطان سے کہاں بنتی ہیں؟
لُغت اور قرآن سے غلط استدلال
ایک اور لفظی مغالطہ
بناء فاسد علی الفاسد
افسوس ناک بے خبری
وطنی قومیّت کا حقیقی مُدعا
اِشتِراکِ لفظی کا فتنہ
کیا ہندوستان کی نجات نیشنلزم میں ہے؟
نیشنلزم بربنائے مصلحت
نیشنلزم اور اسلام
یورپین نیشنلزم کی حقیقت
مغربی نیشنلزم اور خدائی تعلیم کا بنیادی اختلاف
مغربی نیشنلزم کا انجام
دنیا نیشنلزم کی لعنت میں کیوں مبتلا ہے؟
نیشنلزم ہندوستان میں
نیشنلزم کے لوازم
کیا ہندوستان کی نجات نیشنلزم میں ہے؟
ہندوستانی نیشنلزم کس طرح پیدا ہوسکتا ہے؟
کیا ہندوستان کا کوئی بہی خواہ یہاں نیشنلزم کا خواہش مند ہوسکتا ہے؟
فرنگی لباس
اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
استدراک

مسئلہ قومیت

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

کلمۂ جامعہ

(یہ ایک مختصر تقریر ہے جو ربیع الاوّل ۵۳ھ میں انجمن مجددیہ حیدرآباد کے سالانہ جلسہ کے موقع پر کی گئی تھی)
الحمد للّٰہ رب العٰلمین والصلوۃ والسلام علٰی نبیہ محمد
سیّدالمرسلین وخاتم النبیین
برادرانِ ملّت!
کیا میں آپ کو بتائوں کہ دُنیا میں سب سے بڑھ کر روح کو بالیدگی اور دل کو فرحت بخشنے والا نظارہ کون سا ہے؟ اس نظارہ کو بیان کرنے کے لیے الفاظ سے تصویر کھینچنے کی ضرورت نہیں۔ جس چیز کا آنکھیں یہیں اسی وقت مشاہدہ کرسکتی ہیں، اسے بیان کرنے کے لیے زبان کو تکلیف دینے کی کیا حاجت؟ وہ نظارہ یہی ہے جو میں اس وقت دیکھ رہا ہوں اور آپ میں سے ہرشخص دیکھ رہا ہے یعنی مسلمانوں کا اجتماع مسلمان ہونے کی حیثیت سے، خدا پرست ہونے کی حیثیت سے ، اُمت محمدؐ ہونے کی حیثیت سے یہ اجتماع صرف میرے اور آپ کے لیے ہی دل خوش کن نہیں ہے۔
اس کو خدا نے بھی پسند کیا ہے، اور وہ بھی اس کا عاشق ہے۔
اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِہٖ صَفًّا كَاَنَّہُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ۝۴ (الصف:۴)
’’اللہ ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہوکر جنگ کرتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیو ار ہیں‘‘۔
پسندیدگی صرف اسی صف بندی کے لیے نہیں ہے جو جنگ میں کی جاتی ہے بلکہ اس صف بندی کے لیے بھی ہے جو آپ نماز میں خدا کی عبادت کے لیے کرتے ہیں۔ چنانچہ اسی لیے آپ کو حکم دیا جاتا ہے اور کیسی تاکید کے ساتھ حکم دیا جاتا ہے کہ:
اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللہِ وَذَرُوا الْبَيْعَ (الجمعہ:۹)
’’جب جمعہ کے روز نماز کے لیے ندا کی جائے تو خدا کی یاد کے لیے دوڑو اور سب کاروبار چھوڑ دو‘‘۔
یہی نہیں بلکہ خدا کی محبت اس پورے اسلامی اجتماع کے ساتھ ہے جو مشرق کے انتہائی کناروں سے لے کر مغرب کے انتہائی کناروں تک پھیلا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو اپنی نعمت قرار دیتا ہے اور احسان جتاتا ہے۔
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۝۰۠ وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا۝۰ۚ وَكُنْتُمْ عَلٰي شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا (آل عمران:۱۰۳)
’’یاد کرو اپنے اُوپر اللہ کے احسان کو کہ تم آپس میں دشمن تھے۔ اس نے تمھارے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت ڈال دی اور تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ سے بھرے ہوئے گڑھے کے کنارے پر تھے، اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا‘‘۔
حضرات!
غور کیجیے کہ وہ کیا چیز ہے جو آپ کو ایک بنیانِ مرصوص بناتی ہے؟ آپ میں سے ہرشخص اپنا ایک الگ وجود رکھتا ہے۔ہرشخص کا جسم الگ ہے، جان الگ ہے، طبیعتیں علیحدہ علیحدہ ہیں، مزاج مختلف ہیں، خیالات مختلف ہیں مگر اس کے باوجود کوئی چیز ہے جو آپ کے درمیان مشترک ہے اور وہی ایک چیز کبھی آپ کو مسجد میں کھینچ لاتی ہے اور ایک صف میں محمود و ایاز سب کو کھڑا کر دیتی ہے۔ وہی چیز کبھی آپ کو میدانِ جنگ میں کھینچ لے جاتی ہے اور ایک مشترک مقصد کے لیے آپ سے سرفروشی کراتی ہے، وہی چیز آپ کے درمیان شادی بیاہ کے تعلقات قائم کراتی ہے۔ وہی آپ کو ایک دوسرے کا ہمدرد، رفیق، غم گسار بنا دیتی ہے، اور وہی آپ میں اور دوسری قوموں میں خط ِ امتیاز کھینچتی ہے مگر وہ کوئی رسی نہیں ہے جو لکڑیوں کو ایک دوسرے سے باندھ کر جکڑ دیتی ہو، وہ کوئی چُونا نہیں ہے جو اینٹوں کو جوڑ کر پیوستہ کردیتا ہو، وہ محض ایک کلمہ ہے جس کو مَیں کلمۂ جامعہ کے لفظ سے اسی لیے تعبیر کرتا ہوں کہ اس میں انسانوں کو جمع کرنے کی خاصیت ہے۔
کلمہ سے مراد الفاظ نہیں ہیں، بلکہ معانی ہیں۔ اعتقاد اور تخیل کو بھی اس لحاظ سے کلمہ کہتے ہیں کہ وہ الفاظ ہی کا جامہ پہن کر ذہن سے باہر آتا ہے اس اعتبار سے ہر وہ تخیل کلمۂ جامعہ کہا جاسکتا ہے جو انسانوں کی کسی بڑی تعداد کو جمع کر کے ایک قوم بنا دیتا ہو۔ وہ تخیل بھی کلمۂ جامعہ ہے جس کی بناپر تمام ترکی النسل قوموں کو ایک قوم بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وہ تخیل بھی کلمۂ جامعہ ہے جو آسٹریا اور جرمنی کے باشندوں کے اتحاد کی کوششوں میں کام کر رہا ہے ۔ وہ تخیل بھی کلمۂ جامعہ ہے جو سلافی نسل کی قوموں کو ایک مرکز پر جمع کرنے کے لیے سرگرم ہے اور وہ سب تخیلات بھی جامع کلمات ہیں جو ایک زبان بولنے والوں یا ایک نسل کے فرزندوں یا ایک ملک کے باشندوں کو ایک قوم بناتے ہیں مگر یہ جتنے کلمات ہیں ان سب کی جامعیت محدود ہے ، کسی کلمہ کی وسعت کو کوئی دریا روک دیتا ہے۔ کسی کی حدبندیاں پہاڑ اور سمندر کر دیتے ہیں۔ کسی کی وسعت ایک خاص زبان کی وسعت کے ساتھ مقید ہے۔ کسی کا پھیلائو بس اسی حد تک ہے جس حد تک کوئی خاص نسل پھیلی ہوئی ہے۔ ایسے کلمات کو ایک ملک کے لیے جامع کہا جاسکتا ہے۔ ایک نسل کے لیے جامع کہا جاسکتا ہے، مگر تمام دنیا کے لیے جامع نہیں کہا جاسکتا۔
اب دیکھیے کہ کیا وہ کلمہ بھی انھی معنوں میں جامع ہے جس نے آپ کو جمع کیا ہے؟ کیا آپ سب اس لیے جمع ہیں کہ آپ ایک ملک کے رہنے والے ہیں؟ کیا آپ کو خون کی وحدت نے بنیان مرصوص بنایا ہے؟ کیا آپ اس لیے ایک قوم ہیں کہ آپ کی سیاسی اَغراض ایک ہیں؟ آپ یقینًا جواب دیں گے کہ نہیں اگر کوئی عربی بولنے والا عرب اور پشتو بولنے والا افغانی یہاں موجود ہو تو کیا آپ اس کو اپنی جماعت سے نکال دیں گے؟ اگر کوئی حبش کا زنگی یا پولینڈ کا فرنگی یہاں آئے تو کیا اسے آپ اپنی جماعت میں شریک نہ کریں گے؟ آپ اس کا جواب بھی نفی میں دیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ کو جمع کرنے والا وہ نہیں ہے جس کو پہاڑ اور دریا محدود کرسکتے ہوں۔ نہ وہ ہے جس کو کوئی نسل محدود کرسکتی ہو، بلکہ یہ وہ کلمہ ہے جو تمام روئے زمین پر محیط ہے، جو ساری نوعِ انسانی کو اپنی آغوش میں لے سکتا ہے، جس کو پھیلنے اور چھا جانے سے دنیا کی کوئی مادی چیز روک نہیں سکتی، جس کی بندش میں کالے اور گورے زرد اور سفید مغربی اور مشرقی سب یکساں بندھ سکتے ہیں۔ اس کلمہ کو ہم اسی غیرمحدود وسعت کے لحاظ سے جامع کہتے ہیں۔ یہ اسی لیے جامع ہے کہ تمام عالم کے انسانوں کو جمع کرنے کی قابلیت اس میں موجود ہے۔
حضرات! میں آپ سے پھر ایک گہری نظر کا مطالبہ کروں گا آپ ایک مسلم کی سی بصیرت سے دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ دنیا میں اس صفت اور اس خاصیت کا ایک ہی کلمہ ہوسکتا ہے۔ اس بات کو آپ ایک مثال سے بآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ یہ دیواریں جو آپ کے سامنے کھڑی ہیں اور یہ ستون جو آپ کے سامنے ایستادہ ہیں، ان میں سے ہر ایک اپنا ایک الگ اور مستقل وجود رکھتا ہے۔ یہ چھت اور یہ فرش بھی بجائے خود الگ الگ ہیں، ان میں سے ہر ایک اپنے اندر بہت سے پتھروں اور اینٹوں کو لیے ہوئے ہے، ان کے درمیان اختلاف کے سیکڑوں مادے ہیں، ان کی وضع مختلف ہے، ان کے مقام مختلف ہیں، ان کی سمتیں مختلف ہیں، ان کے رنگ مختلف ہیں، ان کے وزن و حجم مختلف ہیں، غرض بہت سی چیزیں ہیں جو ان کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہیں مگر ایک چیز ان میں مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ سب ایک ہی عمارت کے اجزاء ہیں۔ ایک ہی مقصد کی خدمت کے لیے ان کو بنایا گیا ہے اور ایک ہی انجینیران کا بنانے والا ہے۔ یہ ایک مادۂ اِشتِراک تو ان سب کو متفق و متَّحد کرسکتا ہے، باقی جتنے مادے ہیں، سب اختلاف کے مادے ہیں، نہ کہ اِشتِراک کے۔ بس اسی طرح دنیا کے مختلف رنگ، مختلف زبانیں، مختلف نسلیں اور مختلف وطن رکھنے والی قومیں اگر مل کر ایک قوم بن سکتی ہیں تو صرف اسی صورت سے کہ وہ سب خداوند عالم اور اس کے ملائکہ، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور اس کے پاس حاضری کے دن پر ایمان لائیں۔ اس کے سوا اور کوئی چیز ان کو جمع کرنے والی نہیں ہے۔
پھر اسی دیوار کی مثال کو لے کر دیکھیے۔ اس کا رنگ سفید ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی یرقان کا مریض اس کو زرد کہے، ہوسکتا ہے کہ کسی کی آنکھ پر رنگین عینک چڑھی ہوئی ہو اور وہ اسے سرخ یا سبز کَہ دے، ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص ضد کی وجہ سے اس کو سیاہ یا نیلا کَہ دے۔ بہرحال اس کے اصلی رنگ کے سوا جتنے رنگ بھی دنیا میں موجود ہیں ان سب کا اطلاق اس پر کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ جتنے اطلاقات ہوں گے، سب کے سب جھوٹے ہوں گے اور کبھی دیکھنے والی دنیا ان مختلف رنگوں کے اطلاق پر جمع نہ ہوسکے گی کیونکہ دنیا کبھی جھوٹ پر متفق نہیں ہوسکتی۔ اتفاق اگر ممکن ہے تو صداقت ہی پر ممکن ہے۔ اس لیے اگر سب دیکھنے والے کسی قول پر متفق ہوسکتے ہیں تو وہ یہی ہے کہ اس دیوار کو سفید کہا جائے۔ اسی طرح کائنات کے خالق اور پروردگار کے متعلق بھی بے شمار اقوال ممکن ہیں اور کہے گئے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ دو خدا ہیں، کوئی تین کہتاہے، کوئی لاکھوں اور کروڑوں ہستیوں میں خدائی کو تقسیم کردیتا ہے لیکن سچی بات جس پر آسمان اور زمین کا ہر ذرّہ گواہ ہے ، وہ یہی کلمہ ہے۔ اس کے سوا جتنے کلمے ہیں سب جدا کرنے والے اور اختلاف برپا کرنے والے ہیں، جوڑنے اور ملانے والے نہیں ہیں، نہ ہوسکتے ہیں۔
اور آگے بڑھیے ملائکہ کے متعلق بہت سے اقوال ممکن ہیں اور کہے گئے ہیں۔ کسی نے ان کو دیوتا بنایا، کسی نے انھیں شفیع ٹھیرایا، کسی نے ان کو خدائی میں شریک کیا، لیکن سچی بات ایک ہی ہے کہ ملائکہ خدا کے خادم ہیں اور امرالٰہی کے خلاف حرکت کرنے کی قدرت ان میں ذرّہ برابر بھی نہیں ہے۔ اگر دنیا میں اتفاق ممکن ہے تو اسی سچی بات پر ممکن ہے۔ باقی سب اختلافات کی بنیادیں ہیں۔
یہی معاملہ انبیاء اور کتابوں کا ہے۔ ہر قوم اپنے اپنے پیشوا اور اپنی اپنی کتاب کو لے کر الگ ہوسکتی ہے۔ کُلُ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحُوْنَ ،ہرقوم کَہ سکتی ہے کہ میرا پیشوا سچا اور سب جھوٹے۔ ہرقوم کَہ سکتی ہے کہ میری کتاب سچی اور باقی کتابیں جھوٹی ہیں۔ یہ مختلف اقوال قوموں کو ملانے والے نہیں بلکہ جدا کرنے والے ہیں۔ سب کو ملا کر ایک قوم بنانے والا اگر کوئی قول ہوسکتا ہے تو وہ یہی ہے کہ خدا کے جتنے رسول مختلف زمانوں اور مختلف قوموں میں آئے ہیں سب سچے تھے۔ جتنی کتابیں خدا کی طرف سے مختلف قوموں کے رسول لے کر آئے، سب حق اور نیکی کی تعلیم دینے والی تھیں۔
اسی طرح دُنیا کے انجام اور نوعِ انسانی کے خاتمہ کے متعلق بھی مختلف باتیں کہی جاسکتی ہیں اور کہی گئی ہیں لیکن دل جس صداقت پر ٹھکتا ہے وہ ایک ہی ہے کہ ہم سب کو ایک دن اپنے خالق کے سامنے حاضر ہونا ہے اور اپنے اعمال کا حساب پیش کرنا ہے۔ اگر دنیا متفق ہوسکتی ہے تو اسی صداقت پر ہوسکتی ہے، باقی جتنی باتیں اس کے خلاف ہیں ان میں اختلاف کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
یہی پانچ چیزیں ہیں جن کے اعتقاد کا نام ہم نے کلمۂ جامعہ رکھا ہے۔
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ۝۰ۭ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللہِ وَمَلٰۗىِٕكَتِہٖ وَكُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ۝۰ۣ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ۝۰ۣ وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۝۰ۤۡ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَيْكَ الْمَصِيْرُ۝۲۸۵
’’رسولؐ ایمان لایا اس کتاب پر جو اس کی طرف اس کے رب کی جانب سے اُتار دی گئی ہے اور مومن بھی اس پر ایمان لائے۔ سب کے سب ایمان لائے اللہ پر اور اس کے ملائکہ پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں ؑ پر اور کہا کہ ہم اس کے رسولوں میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ پروردگار ! ہم تیری ہی مغفرت کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف واپس جانا ہے‘‘۔
ان پانچوں صداقتوں کا ظاہر کرنے والا خدا ہے اور دُنیا میں پیش کرنے والا خدا کا رسولؐ ہے۔ اس لیے ان سب کے تفصیلی بیان کو مختصر کرکے ایک چھوٹا سا کلمہ بنا دیا گیا ہے اور وہ کلمہ ہے لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ۔خدا کی یکتائی کے ساتھ محمدﷺ کی پیغمبری کا اقرار یہ معنی رکھتا ہے کہ آپ ان سب صداقتوں پر ایمان لے آئیں جو محمدﷺنے خدا کی طرف سے پیش فرمائی ہیں۔
حضرات!
یہی وہ قول ہے جس کو بھاری اور ثقیل کہا گیا ہے:
اِنَّا سَـنُلْقِيْ عَلَيْكَ قَوْلًا ثَـقِيْلًا۝۵ (المزمل:۵)
یہ کسی پتّے یا کاغذ کے ٹکڑے کی طرح نہیں ہے کہ معمولی ہوا کے جھونکے اس کو اُڑا لے جائیں، جس کو ایک جگہ قرار نصیب نہ ہو، جو ہر نئے اکتشاف، ہر نئے نظریے، ہر نئے تخیل کے ساتھ پلٹیاں کھاتا چلا جائے، یہ تو پہاڑ کی طرح بھاری بھرکم قول ہے کہ ہوا کے طوفان آئیں اور گزر جائیں۔ پانی کے سیلاب اُمڈیں اور بیٹھ جائیں مگر یہ اپنی جگہ سے ہلنے والا نہیں۔ یہی بات ہے جس کو دوسری جگہ فرمایا گیا ہے کہ:
اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا كَلِمَۃً طَيِّبَۃً كَشَجَرَۃٍ طَيِّبَۃٍ اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُہَا فِي السَّمَاۗءِ۝۲۴ۙ تُؤْتِيْٓ اُكُلَہَا كُلَّ حِيْنٍؚبِـاِذْنِ رَبِّہَا۝۰ۭ وَيَضْرِبُ اللہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ۝۲۵ وَمَثَلُ كَلِمَۃٍ خَبِيْثَۃٍ كَشَجَرَۃٍ خَبِيْثَۃِۨ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَہَا مِنْ قَرَارٍ۝۲۶ يُثَبِّتُ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَۃِ۝۰ۚ وَيُضِلُّ اللہُ الظّٰلِــمِيْنَ۝۰ۣۙ وَيَفْعَلُ اللہُ مَا يَشَاۗءُ۝۲۷ (ابراہیم: ۲۴-۲۷)
’’کیا نہیں دیکھتے کہ اللہ نے اچھے کلمہ کو کس چیز سے مثال دی ہے؟ وہ ایک اچھی ذات کے درخت کی طرح ہے جس کی جڑیں زمین میں خوب جمی ہوئی ہیں اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ وہ ہر وقت اپنے رب کے اِذن سے پھل لاتا ہے اور اللہ لوگوں کے سامنے یہ مثالیں اس لیے بیان کرتا ہے کہ وہ سبق حاصل کریں اور بُرے کلمہ کی مثال ایک بُرے بداصل درخت کی سی ہے جو زمین کی سطح ہی پر سے اُکھاڑ پھینکا جاتا ہے، اس کو کوئی جمائو نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ایمان لانے والوں کو ایک مضبوط قول کے ساتھ دنیا میں بھی ثبات بخشتا ہے اور آخرت میں بھی اور جو ظالم اس قول سے انکار کرتے ہیں ان کو وہ بھٹکا دیتا ہے اور اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے‘‘۔
اس تمثیل نے بات کو بالکل واضح کر دیا۔ زمین میں ثبات اور قرار اور پھیلائو اسی کلمہ کو نصیب ہوسکتا ہے جو پاک اور سچا اور جامع کلمہ ہے۔ اس کے سوا جتنے کلمے ہیں، سب کے سب بداصل کلمے ہیں۔ کسی کو ثبات و قرار نصیب ہونے والا نہیں۔ وہ خود رَو درخت ہیں۔ آج اُگے اور کل اکھڑ گئے۔ زمانہ کا ہر نیا حادثہ، وقت کا ہر نیا تغیر ایک نیا پودا اُگاتا ہے اور پچھلے پودوں کو اُکھاڑ پھینکتا ہے۔ ان پودوں میں برگ و بار لانے کی صلاحیت نہیں۔ اگر یہ بار لاتے بھی ہیں تو کڑوے کسیلے، بلکہ زہریلی گیسیں نکلتی ہیں، کہیں ان سے پھٹنے اور آگ لگانے والے بم جھڑتے ہیں۔ کہیں ان سے نفاق اور عداوت اور حسد و بُغض کے بیج نکلتے ہیں جن کی قسمت میں خدا کا عذاب لکھا ہے، انھیں چھوڑ دیجیے کہ وہ ان پودوں سے دل بہلائیں، آپ کے پاس تو وہ پاک اور صحیح الاصل درخت موجود ہے جو ہبوطِ آدم کے وقت سے آج تک کبھی نہ اکھڑا، نہ بے برگ و بار ہوا، اس کی جڑیں زمین میں گہری جمی ہوئی ہیں اور اس درخت سے ہمیشہ امن اور سلامتی کا پھل پیدا ہوا ہے۔ یہ آدم ؑ کے کسی بیٹے اور بیٹی کو اپنے سایہ میں پناہ لینے اور اپنے پھلوں کا فائدہ اُٹھانے سے نہیں روکتا، یہ کسی سے نہیں پوچھتا کہ تو کس نسل سے ہے؟ کیا زبان بولتا ہے؟ کہاں کا باشندہ ہے؟ اس کے سایہ کی خاصیت یہ ہے کہ جو اس کے نیچے آگیا وہ انساب کا تفاخر بھول گیا۔ زبانوں کا فرق رنگوں کا امتیاز ملکوں کا اختلاف اس کی نگاہ میں ہیچ ہوگیا، اور اس کی روح میں یہ تعلیم سما گئی کہ:
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ تَرٰىہُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا (الفتح:۲۹)
’’محمدؐ رسول اللہ اور ان کے ساتھی کفار پر سخت اور آپس میں نرم ہیں۔ تم جب کبھی ان کو دیکھو گے انھیں اسی حال میں پائو گے کہ یا تو وہ رکوع و سجود میں مشغول ہیں یا پھر اپنے رب کے فضل (پاک رزق) کی تلاش میں گئے ہیں‘‘۔
برادرانِ ملّت!
یہ کلمہ اس لیے پیش کیا گیا تھا کہ تمام نوعِ انسانی ایک بڑی اور عالم گیر صداقت پر متفق ہوسکے اور بے شمار مالی و عقلی اختلافات کے باوجود ایک امر مشترک ایسا ہو جس میں سب بنی آدم ایک دوسرے کے بھائی بن سکیں اسی لیے ایمان کی بنا ایسے اُمور پر رکھی گئی جن میں بڑی وسعت ہے اور جو ساری نوعِ انسانی کو اپنے دامن میں لے سکتے ہیں اسی لیے اس کلمہ کے پیش کرنے والے (علیہ الصلوٰۃ والسلام) کو یہ اعلان کرنے کا حکم دیا گیا کہ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا ۔ اسی لیے کہا گیاکہ جو اس کلمہ کا قائل ہوجائے اس کا خون حرام ہے، اس کی عزت حرام ہے، وہ تمھارا بھائی ہے، اس کو قتل کرنے والا دائمی عذاب و جہنّم کا سزاوار ہے اور اس کی عزت پر حملہ کرنے والا فاسق ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر بدقسمتی کیا ہوسکتی ہے کہ ہم نے اس سب سے بڑے جامع کلمہ کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کرڈالے ۔ خدا کا فرمان تھا کہ جو کوئی خدا، ملائکہ، کتابوں، رسولوں اور یومِ آخر کو مانے وہ مسلّم ہے مگر ہم نے کچھ دوسری چیزوں پر کفرواسلام کا مدار رکھا اور ان پانچوں اُمور پر ایمان لانے والوں میں بھی بے تکلف کفر کی لعنت تقسیم کی۔ اس کلمۂ جامعہ کے ہوتے ہوئے بھی ہم اس طرح بچھڑ گئے کہ گویا ہمارے دین الگ الگ ہیں، ہم نےعملاً اپنی قومیں الگ بنالیں، اپنی مسجدیں الگ کرلیں، اپنی نمازیں الگ کرلیں، اپنے درمیان شادی بیاہ کے رشتے توڑ دیے اور اس برادری کے تعلق کو قطع کردیا جو اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ کَہ کر جوڑا گیا تھا۔ اس کے بعد ایک اور مصیبت آئی۔ دوسری قوموں سے ہم نے وطنی اور نسلی قومیتوں کا نیا سبق حاصل کیا جو اسلام کی روح اور اس کی تعلیم کے سراسر منافی ہے۔ جن جاہلی عصبیتوں کا مٹانا اسلامی تعلیم کے اوّلین مقاصد میں سے تھا وہ سب ہم میں پیدا ہوگئیں۔ کسی نے پین تورانی تحریک کا علَم بلند کیا، کسی نے پین عرب تحریک اُٹھائی، کسی نے آریائی نسلیت کا چرچا کیا، کسی نے وطنی قومیتوں میں جذب ہوجانے کا اعلان کیا۔ غرض مختلف مذہبی اور سیاسی تحریکوں نے اپنی پوری قوت اسلام کے اس کلمۂ جامعہ کو پارہ پارہ کرنے میں صرف کر دی جو انھی تمام تفریقوں کو مٹاکر نوعِ انسانی کی ایک عالم گیر برادری قائم کرنے کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ میرا یہ مُدعا ہرگز نہیں ہے اور نہ ہوسکتا ہے کہ اس کلمۂ جامعہ کا مقصد تمام اختلافات کو مٹا دینا تھا۔ اختلاف تو ایک فطری امر ہے جس کا مٹنا ممکن نہیں۔ نہ رنگوں اور نسلوں کا اختلاف مٹ سکتا ہے، نہ زبانوں اور ملکوں کا اختلاف مٹ سکتا ہے، نہ خیالات اور طبائع کا اخلاف مٹ سکتا ہے اور جب یہ نہیں مٹ سکتا تو ظاہر ہے کہ کسی نہ کسی طور سے نوعِ انسانی کے گروہوں میں اعتقاد اور اَغراض کے لحاظ سے اختلاف ضرور باقی رہے گا لیکن کلمۂ جامعہ کے بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ ان تمام مادی اور حسی اختلافات کے درمیان ایک عقلی، اَخلاقی اور تہذیبی رابطہ پیدا کیا جائے جس کو نوعِ انسانی کے تمام افراد قبول کرسکتے ہوں، اور جس کو قبول کرکے وہ سب اپنے جغرافی ، نسلی، معاشی، لونی اور لسانی اختلافات کے باوجود ایک قوم بن سکتے ہوں۔ اسی مقصد کے لیے ایک جامع کلمہ کے ساتھ نماز میں جماعت کی تاکید کی گئی۔ تمام دُنیا کے لیے ایک قبلہ مقرر کیا گیا۔ روزے اور حج کو اجتماعی صورت دی گئی۔ معاشرتی اور سماجی امتیازات کو مٹایا گیا۔ تمام مسلمانوں کو مساوی قانونی مرتبہ دیا گیا اور سب کو ایک عالم گیر تہذیب کے رنگ میں رنگ دیا گیا۔ یہ سب کچھ اس لیے تھا کہ دین کا اتحاد تمام چھوٹے اختلافات پر غالب ہوجائے اور دُنیا میں ایک ایسی قومیت بن جائے جو تمام نوعِ انسانی کو اپنے دائرے میں لے سکتی ہو۔ لیکن افسوس ہے اور غیر مسلموں سے بڑھ کر مسلمانوں کے حال پر افسوس ہے کہ جو نعمت ِ عظمیٰ ان کے رب نے ان کو دی تھی، اسے آدم ؑ کی اولاد پر عام کرنے کے بجائے وہ خود وطنی اور لسانی اور نسلی اور معاشی قومیتوں کے سراسر جاہلی تصورات کو قبول کر رہے ہیں حالانکہ پچھلی تاریخ ہی نہیں، جدید دور کے روشن ترین واقعات شہادت دے رہے ہیں کہ انھی قومیتوں سے امپریلزم اور ڈکٹیٹرشپ اور ظلم و استبداد اور چنگ و پیکار کے فتنے پیدا ہوئے جنھوں نے ساری دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال دیا اور روئے زمین کو مظلوموں کے خون سے لالہ زار کر دیا۔
بھائیو!
اگر تمھارے شہر سے متصل کوئی بڑا زبردست بند کسی دریا کے سیلاب کو روکے کھڑا ہو، اور تمھارے شہر کی سلامتی اس بند کی مضبوطی پر منحصر ہو، اور تم اپنی ساری قوتیں ان شگافوں کو بھرنے اور اس بند کی حفاظت کرنے میں صرف کردو گے لیکن مجھے تعجب ہے کہ دنیا میں فتنہ و فساد اور حسد و نفاق اور عداوت و دشمنی کے عظیم الشان اور ہولناک سیلاب کو جو بند روکے ہوئے ہے، اور جس کی مضبوطی پر سارے عالم کا بقا و تحفظ منحصر ہے اس میں ہر طرف سے شگاف پڑ رہے ہیں، مگر تم کو اس کی کچھ فکر نہیں۔ میں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ اس بند ِ عظیم کی حفاظت اتنا مقدس کام ہے کہ اگر کوئی شخص اس کے شگافوں کو بھرنے کے لیے اپنا سر بھی دے دے تو اس کام کی نسبت سے یہ کوئی بڑی قربانی نہ ہوگی۔ اس سے بھی بڑی قربانی اگر کوئی ممکن ہوتی تو اس کے لیے وہ بھی کرنی چاہیے تھی۔(ترجمان القرآن، ربیع الاوّل ۱۳۵۳ھ، جولائی ۱۹۳۴ء)

شیئر کریں