Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرض ناشر
دیباچہ طبع اوّل
دیباچہ طبع پنجم
اِسلام اور جاہلیّت کی اُصولی و تاریخی کش مکش
زِندگی کے چار نظریے
۱۔ جاہلیّت خالصہ
۲۔ جاہلیّتِ مشرکانہ
۳۔ جاہلیّت ِراہبانہ
۴۔ اِسلام
انبیا علیہم السلام کا مشن
نبی کے کام کی نوعیت
خلافتِ راشدہ
جاہلیّت کا حملہ
مجددین کی ضرورت
شرحِ حدیث ’’مَنْ یُّجَدِّدُ لَھَا دِیْنَھَا‘‘
کارِ تجدید کی نوعیت
مجدد کی تعریف
مجدد اور نبی کا فرق
الامام المہدی
امت کے چند بڑے بڑے مجددین اَور اُن کے کارنامے
عمربن عبدالعزیز ؒ
ائمہ اربعہ
امام غزالی ؒ
ابنِ تیمیہؒ
شیخ احمد سرہندیؒ
شاہ ولی اللّٰہ دہلویؒ کا کارنامہ
تنقیدی کام
تعمیری کام
نتائج
سید احمد بریلویؒ اور شاہ اسمٰعیل شہید
اسبابِ نکامی
ضمیمہ
منصب تجدید اور امام مہدی کے متعلق چند تصریحات
کشف و الہام کی حقیقت اور چند مجدد ین کے دعاوی
تصوف اور تصور شیخ
ایک بے بنیاد تہمت اور اس کا جواب
المہدی کی علامات اور نظامِ دین میں اس کی حیثیت
مسئلہ مہدی

تجدید واحیائے دین

”اسلام کی اصطلاحی زبان کے جو الفاظ کثرت سے زبان پر آتے ہیں ان میں سے ایک لفظ ”مجدد“بھی ہے۔ اس لفظ کا ایک مجمل مفہوم تو قریب قریب ہر شخص سمجھتا ہے، یعنی یہ کہ جو شخص دین کو از سر نو زندہ اور تازہ کرے وہ مجدد ہے لیکن اس کے تفصیلی مفہوم کی طرف بہت کم ذہن منتقل ہوتے ہیں۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ تجدید دین کی حقیقت کیا ہے، کس نوعیت کے کام کو تجدید سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ، اس کام کے کتنے شعبے ہیں، مکمل تجدید کا اطلاق کس کارنامے پر ہو سکتا ہے اور جزوی تجدید کیا ہوتی ہے؟ اسی ناواقفیت کا نتیجہ ہے کہ لوگ ان مختلف بزرگوں کے کارناموں کی پوری طرح تشخیص نہیں کر سکتے جن کو تاریخ اسلام میں مجدد قرار دیا گیا ہے۔ وہ بس اتنا جانتے ہیں کہ عمر ابن عبد العزیز بھی مجدد، امام غزالی بھی مجدد، ابن تیمیہ بھی مجدد، شیخ احمد سرہندی بھی مجدد اور شاہ ولی اللہ بھی مجدد، مگر ان کو یہ معلوم نہیں کہ کون کس حیثیت سے مجدد ہے اور اس کا تجدیدی کارنامہ کس نوعیت اور کس مرتبہ کا ہے۔ اس ذ ہول اور غفلت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جن ناموں کے ساتھ ”حضرت“، ”امام“، ”حجت الاسلام “، ”قطب العارفین“، ”زبدة السالکین“اور اسی قسم کے الفاظ لگ جاتے ہیں ان کی عقیدت مند ی کا اتنا بو جھ دماغوں پر پڑ جاتا ہے کہ پھر کسی میں یہ طاقت نہیں رہتی کہ آزادی کے ساتھ ان کے کارناموں کا جائزہ لے کر ٹھیک ٹھیک مشخص کر سکے کہ کس نے اس تحریک کے لیے کتنا اور کیسا کام کیا ہے اور اس خدمت میں اس کا حصہ کس قدر ہے۔ عموماً تحقیق کی نپی تلی زبان کے بجاے ان بزرگوں کے کارنامے عقیدت کی شاعرانہ زبان میں بیان کیے جاتے ہیں جن سے پڑھنے والے پر یہ اثر پڑتا ہے اور شاید لکھنے والے کے ذہن میں بھی یہی ہوتا ہے کہ جس کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ فرد کامل تھا اور اس نے جو کچھ بھی کیا وہ ہر حیثیت سے کمال کے آخری مرتبے پر پہنچا ہوا تھا۔ حالانکہ اگر اب ہم کو تحریک اسلامی کی تجدید و احیا کے لیے کوئی کوشش کرنی ہے تو اس قسم کی عقیدت مندی اور اس ابہام و اجمال سے کچھ کام نہ چلے گا۔ ہم کو پوری طرح اس تجدید کے کام کو سمجھنا پڑے گا۔ اور اپنی پچھلی تاریخ کی طرف پلٹ کر دیکھنا ہوگا کہ ان بہت سی صدیوں میں ہمارے مختلف لیڈروں نے کتنا کتنا کام کس کس طرح کیا ہے ، ان کے کارناموں سے ہم کس حد تک فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اور ان سے کیا کچھ چھوٹ گیا ہے جس کی تلافی پر اب ہمیں متوجہ ہو نا چاہیے۔ “ مولانا مودودیؒ نے اس کتاب کے مندرجہ بالا دیباچے ہی میں اس کتاب کی غرض وغایت بتادی ہے۔ سید مودودیؒ مزید لکھتے ہیں: ”یہ مضمون ایک مستقل کتاب چاہتا ہے۔ مگر کتاب لکھنے کی فرصت کہاں۔ یہی غنیمت ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب کا ذکر خیر چھڑ گیا جس کی وجہ سے اس مضمون کی طرف چند اشارے کرنے کا موقع نکل آیا۔ شاید کہ اِنھیں اشاروں سے کسی اللہ کے بندے کو تاریخ تجدید و احیاے دین کی تدوین کا راستہ مل جائے۔ یہ مقالہ جو اس وقت کتابی شکل میں شائع کیا جا رہا ہے، ابتدا جر یدہ”الفرقان“بریلی کے شاہ ولی اللہ نمبر کے لیے لکھا گیا تھا۔ اس لیے اس میں شاہ صاحب کے تجدیدی کارناموں پر نسبت زیادہ مفصل نگاہ ڈالی گئی ہے اور دوسرے مجد دین کے کام کا ذکر ضمنی طور پر کیا گیا ہے۔ اس مقالہ کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ اس میں تمام مجد دین کے کارناموں کا احاطہ مقصود نہیں ہے بلکہ صرف ان بڑے بڑے مجددین کا ذکر کیا گیا ہے جو اسلام کی تاریخ پر اپنا ایک مستقل نشان چھوڑ گئے ہیں۔ نیز یہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ تجدید کا کام بہت لوگوں نے کیا اور ہر زمانہ میں بہت لوگ کرتے ہیں مگر ”مجدد“کا لقب پانے کے مستحق کم ہی ہوتے ہیں۔ “

پی ڈی ایف ڈاؤنلوڈ کریں

کشف و الہام کی حقیقت اور چند مجدد ین کے دعاوی

سوال: ’’آپ نے اپنے رسالہ ترجمان القرآن بابت ماہ جنوری،فروری ۱۹۵۱ء میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ:
’’پچھلے زمانہ کے بعض بزرگوں نے بلاشبہ اپنے متعلق کشف و الہام کے طریقہ سے خبر دی ہے کہ وہ اپنے زمانہ کے مجددہیں لیکن انھوں نے اس معنیٰ میں کوئی دعوٰی نہیں کیا کہ انھیں مجدد تسلیم کرنا لوگوں کے لیے ضروری ہے اور جوان کو نہ مانے گم راہ ہے۔ آپ کا یہ قول درست معلوم نہیں ہوتا ۔ کیوں کہ حضرت شاہ ولی اللّٰہ صاحبؒ دہلوی نے بڑے دھڑلے سے یہ دعوٰی فرمایا ہے کہ مجھے اللّٰہ تعالیٰ نے مطلع فرمایا ہے کہ تو اس زمانہ کا امام ہے۔ چاہیے کہ لوگ تیری پیروی کو ذریعہ نجات سمجھیں ۔ مثال کے طور پر ملا حظہ ہو تفہیماتِ الہٰیہ جلددوم صفحہ ۱۲۵۔ کیا جناب شاہ صاحبؒ کا یہ دعویٰ درست تھا یا نہیں ؟ اگر ان کا دعوٰی درست تھا تو پھر آپ کا یہ قول درست نہیں جو آپ نے عبارت مذکورہ بالا کے آگے تحریر فرمایا ہے:
’’دعوٰی کر کے اس کے ماننے کی دعوت دینا اور اسے منوانے کی کوشش کرنا سرے سے کسی مجدد کا منصب ہی نہیں؟‘‘
پھر جناب نے مذکورہ بالا عبارت کے آگے لکھا ہے کہ: ’’جو شخص یہ حرکت کرتا ہے وہ خود اپنے فعل ہی سے یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ فی الحقیقت مجدد نہیں ہے۔‘‘
آپ کے ان ارشاداتِ عالیہ کی بنیاد قرآن کریم ہے،یا احادیث نبویہ،یا جناب نے اپنے اجتہاد کی بنا پر یہ فتوٰی دیا ہے؟ رسالہ مذکور کے اسی صفحہ پر فقرہ نمبر ۶کے ماتحت آپ نے لکھا ہے کہ: ’’کشف والہام وحی کی طرح کوئی یقینی چیز نہیں۔ اس میں وہ کیفیت نہیں ہوتی کہ صاحب کشف والہام کو آفتابِ روشن کی طرح یہ معلوم ہو کہ یہ کشف والہام خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو رہا ہے۔‘‘ جناب کا یہ ارشاد بھی اپنے ذاتی تجربہ کی بنا پر ہے یا آپ کا اجتہاد ہے؟ یا قرآن مجید اور احادیث کے ارشاداتِ عالیہ کی بنا پر ہے؟
اگر امت محمدیہ کے کاملین کے الہام وکشوف کی یہ حقیقت ہے تو پھر ان کے خیر امت ہونے کی حالت معلوم شد۔ حالانکہ پہلی امتوں میں عورتیں تک وحی یقینی سے مشرف ہوتی رہی ہیں۔ اور خدا کے ایسے بندے بھی ہوتے رہے کہ جن کے کشف والہام کا یہ عالم تھا کہ ایک اولوالعزم نبی ؑکوبھی سوال کر کے ندامت اٹھانی پڑی۔ مگر سبحان اللّٰہ امت محمدیہ کے کاملین کے کشوف والہامات عجیب قسم کے تھے کہ انھیں خود یقین نہ تھا کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں یا نہیں۔ پھر اللّٰہ تعالیٰ کوان کو اس قسم کے الہام و کشوف دکھانے کی ضرورت کیا پڑ گئی، جن سے نہ کوئی دینی فائدہ متصور تھا اور نہ ہی صاحب ِ کشف و الہام کے لیے وہ موجب ازدیا د ایمان تھے، بلکہ الٹا موجب تردد ہونے کے باعث ایک قسم کی مصیبت ہی تھے۔
جواب: آپ کی غلطی یہ ہے کہ آپ نے وحی والہام کے مختلف مفہومات کو گڈمڈ کر دیا ہے۔ ایک قسم کی وحی وہ ہے جسے وحی جبلی یا طبیعی کہا جا سکتا ہے، جس کے ذریعہ سے اللّٰہ ہر مخلوق کو اس کے کرنے کا کام سکھاتا ہے۔ یہ وحی انسانوں سے بڑھ کرجانوروں اور شایدان سے بھی بڑھ کر نباتات و جمادات پر ہوتی ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جسے وحی جزئی کہا جا سکتا ہے،جس کے ذریعے سے کسی خاص موقع پر اللّٰہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو امورِ زِندگی میں سے کسی امر کے متعلق کوئی علم،یا کوئی ہدایت، یا کوئی تدبیر سجھا دیتا ہے۔ یہ وحی آئے دن عام انسانوں پر ہوتی رہتی ہے۔ دُنیا میں بڑی بڑی ایجادیں اس وحی کی بدولت ہوئی ہیں۔ بڑے بڑے اہم علمی انکشافات اسی وحی کے ذریعے سے ہوئے ہیں۔بڑے بڑے اہم تاریخی واقعات میں اسی وحی کی کارفرمائی نظر آتی ہے جب کہ کسی شخص کو کسی اہم موقع پر کوئی خاص تدبیر بلا غور وفکر اچانک سوجھ گئی اور اس نے تاریخ کی رفتار پر ایک فیصلہ کن اثر ڈالا دیا۔ ایسی ہی وحی حضرت مو سیٰ ؑکی والدہ پر بھی ہوئی تھی۔ ان دونوں قسم کی وحیوں سے بالکل مختلف نوعیت کی وحی وہ ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو حقائق غیبیہ پر مطلع فرماتا ہے۔ اور اسے نظامِ زِندگی کے متعلق ہدایت بخشتا ہے تا کہ وہ اس علم اور اس ہدایت کو عام انسانوں تک پہنچائے اور انھیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لائے۔ یہ وحی انبیا کے لیے خاص ہے۔ قرآن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس نوعیت کا علم،خواہ اس کا نام القا رکھیے، کشف رکھیے،الہام رکھیے یا اصطلاحا ً اسے وحی سے تعبیر کیجیے، انبیا ورسل کے سوا کسی کو نہیں دیا جاتا۔ اور یہ علم صرف انبیا ہی کو اس طور پر دیا جاتا ہے کہ اس کے من جانب اللّٰہ ہونے،اور شیطان کی دراندازی سے بالکل محفوظ ہونے اور خود اپنے ذاتی خیالات، تصورات اور خواہشات کی آلائشوں سے بھی پاک ہونے کا پورا یقین ہوتا ہے۔ نیز یہی علم حجت ِ شرعی ہے، اس کی پابندی ہر انسان پر فرض ہے۔ اور اسے دوسرے انسانوں تک پہنچانے اور اس پر ایمان کی دعوت سب بندگان خدا کو دینے پر انبیا علیہم السلام مامور ہوتے رہے ہیں۔
انبیا کے سوا دوسرے انسانوں کو اگر اس تیسری قسم کے علم کا کوئی جزو، نصیب بھی ہوتا ہے، تو وہ ایسے دھندلے اشارے کی حدتک ہوتا ہے جسے ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے وحی نبوت کی روشنی سے مدد لینا (یعنی کتاب و سنت پر پیش کر کے اس کی صحت و عدم صحت کو جا نچنا اور بصورتِ صحت اس کا منشا متعین کرنا) ضروری ہے۔ اس کے بغیر جو شخص اپنے الہام کو ایک مستقل با لذات ذریعہ ہدایت سمجھے اور وحی نبوت کی کسوٹی پر اس معاملے کو پر کھے بغیر اس پر عمل کرے اور دوسروں کو اس کی پیروی کی دعوت دے اس کی حیثیت ایک جعلی سکہ ساز کی سی ہوتی ہے جو شاہی ٹکسال کے مقابلہ میں اپنی ٹکسال چلاتا ہے۔ اس کی یہ حرکت خودہی ثابت کرتی ہے کہ فی الحقیقت خدا کی طرف سے اسے الہام نہیں ہوتا ۔
یہ جو کچھ میں عرض کر رہا ہوں،قرآن میں اسے متعدد مقامات پر صاف صاف بیان کیا گیا ہے۔ خصوصاً سورئہ جن کی آخری آیت میں تو اسے با لکل ہی کھول کر فرما دیا گیاہے:
عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْہِرُ عَلٰي غَيْبِہٖٓ اَحَدًاo اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّہٗ يَسْلُكُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًاo لِّيَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّہِمْ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَيْہِمْ وَاَحْصٰى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًاo الجن26-28:72
آپ اگر اسبات کو سمجھنے کی کوشش فرمائیں تو آپ کو خود معلوم ہو جائیگا کہ امت کے صالح و مصلح آدمیوں کو نبی کا ساکشف والہام نہ دینے اور اس سے کم تر ایک طرح کا تا بعانہ کشف والہام دینے میں کیا مصلحت ہے۔ پہلی چیز عطا نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہی چیز نبی اور امتی کے درمیان بنائے فرق ہے، اسے دور کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اور دوسری چیز دینے کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ بنی کے بعد اس کے کام کو جاری رکھنے کی کوشش کریں وہ اس بات کے محتاج ہوتے ہیں کہ دین میں انھیں حکیمانہ بصیرت اور اقامت دین کی سعی میں انھیں صحیح راہ نُمائی اللّٰہ کی طرف سے حاصل ہو۔ یہ چیز غیر شعوری طور پر تو ہر مخلص اور صحیح الفکر خادمِ دین کو بخشی جاتی ہے، لیکن اگر کسی کو شعوری طور پر بھی دے دی جائے تو یہ اللّٰہ کا انعام ہے۔ دوسری بنیادی غلطی جو آپ نے کی ہے، یہ ہے کہ آپ مقامِ نبی اور مقامِ غیر نبی کے اصولی فرق کو سرے سے سمجھے ہی نہیں ہیں۔ قرآن کی رو سے یہ حیثیت صرف ایک نبی ہی کو حاصل ہوتی ہے کہ وہ امرِ تشریعی سے مامور من اللّٰہ ہوتا ہے اور خلق کو یہ دعوت دینے کا مجاز ہوتا ہے کہ وہ اس پر ایمان لائیں اور اس کی اطاعت قبول کریں، حتّٰی کہ جو اس پر ایمان نہ لائے وہ خدا کو ماننے کے باوجود کافر ہوتا ہے۔ یہ حیثیت نبی کے سِوا کسی کو بھی نظامِ دین میں حاصل نہیں ہے۔ اگر کوئی اس حیثیت کا مدعی ہو تو ثبوت اسے پیش کرنا چاہیے، نہ یہ کہ ہم اس کے دعوے کی نفی کا ثبوت پیش کریں۔ وہ بتائے کہ قرآن و حدیث میں کہاں نبی کے سوا کسی کا یہ منصب مقرر کیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے اس منصب پر مامور کیے جانے کا دعوٰی کرے اور اپنے اس دعوے کو ماننے کی لوگوں کو دعوت دے اور جو اس کا دعوٰی تسلیم نہ کرے وہ مجرد اس بنا پر کافر اور جہنمی ہو کہ اس نے مدعی کے اس دعوے کو تسلیم نہیں کیا۔
اس کے جواب میں اگر کوئی شخص حدیث من یجدد لھا دینھا کا حوالہ دے یا ان احادیث کو پیش کرے جو مہدی کی آمد کے متعلق ہیں، تو میں عرض کروں گا کہ ان میں کہیں بھی مجدد یا مہدی کے منصب کی وہ حیثیت نہیں بیان کی گئی ہے،جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے۔ آخر ان میں کہاں یہ لکھا ہے کہ یہ لوگ اپنے مجدد اور مہدی ہونے کے دعوے کریں گے اور جو ان کے دعوے کو مانے گا وہی مسلمان رہے گا، باقی سب کا فر ہو جائیں گے؟
نیز اس کے جواب میں یہ بحث چھیڑنا بھی خلط مبحث ہے کہ جو شخص تجدید و احیائے دین اور اقامت دین کا برحق کام کر رہا ہو اس کا ساتھ نہ دینا یا اس کی مخالفت کرنا کسی طرح موجب نجات نہیں ہو سکتا ۔اس میں شک نہیں ہے کہ اس طرح کاکام جب بھی ہوتا ہے وہ فارق بین الحق والباطل ہو جاتا ہے اور آدمی کے حق پرست ہونے کی پہچان یہی ہوتی ہے کہ وہ ایسے کام کا ساتھ دے۔ لیکن اس فرق و امتیاز کی بنیاد دراصل یہ ہوتی ہے کہ دین کی تجدید و اقامت میں سعی کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے،نہ یہ کہ کسی مدعی کے دعوٰی کو ماننا اس کے ایمان کا تقاضا ہو اور مجرد اس بنا پر وہ نجات سے محروم ہو جائے کہ اس نے ایک شخص کے دعوائے مجددیت یا مہدویت کو نہیں مانا ۔
اب شاہ ولی اللّٰہ صاحب اور مجدد سر ہندی رحمہما اللّٰہ کے دعووں کو لیجیے ۔ میں اس لحاظ سے بہت بدنام ہوں کہ اکابر سلف کو معصوم نہیں ما نتا اور ان کے صحیح کو صحیح کہنے کے ساتھ ان کے غلط کو غلط بھی کَہ گزرتا ہوں۔ ڈرتا ہوں کہ اس معاملہ میں بھی کچھ صاف صاف کہوں گا تو میری فردِ قرار دادِ جرم میں ایک جریمہ کا اور اضافہ ہو جائے گا۔ لیکن آدمی کو دُنیا کے خوف سے بڑھ کر خدا کا خوف ہونا چاہیے۔ اس لیے خواہ کوئی کچھ کہا کرے، میں تو یہ کہنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ ان دونوں بزرگوں کا اپنے مجدد ہونے کی خود تصریح کرنا اور بار بار کشف والہام کے حوالہ سے اپنی باتوں کو پیش کرنا ان کے چند غلط کاموں میں سے ایک ہے اور ان کی یہی غلطیاں ہیں جنھوں نے بعد کے بہت سے کم ظرفوں کو طرح طرح کے دعوے کرنے اور امت میں نت نئے فتنے اٹھانے کی جرأت دلائی۔ کوئی شخص اگر تجدید دین کے لیے کسی قسم کی خدمت انجام دینے کی توفیق پاتا ہو تو اسے چاہیے کہ خدمت انجام دے اور یہ فیصلہ اللّٰہ پر چھوڑے کہ اس کا کیا مقام اس کے ہاں قرار پاتا ہے۔ آدمی کا اصل مقام وہ ہے جو آخرت میں اس کی نیت و عمل کو دیکھ کر اور اپنے فضل سے اسے قبول کر کے اللّٰہ تعالیٰ اسے دے،نہ کہ وہ جس کا وہ خود دعوٰی کرے یا لوگ اسے دیں۔ اپنے لیے خود القاب و خطابات تجویز کرنا اور دعووں کے ساتھ انھیں بیان کرنا اور اپنے مقامات کا ذکر زبان پر لانا کوئی اچھا کام نہیں ہے۔ بعد کے ادوار میں تو صوفیا نہ ذوق نے اسے اتنا گواراکیا کہ خوشگوار بنا دیا،حتّٰی کہ بڑے بڑے لوگوں کو بھی اس فعل میں کوئی قباحت محسوس نہ ہوئی مگر صحابہ کرام اور تابعین وتبع تابعین وائمہ مجتہدین کے دور میں یہ چیز با لکل نا پید نظر آتی ہے۔ میں شاہ صاحب اور مجدد صاحب کے کام کی بے حد قدر کرتا ہوں اور میرے دل میں ان کی عزت ان کے کسی معتقد سے کم نہیں ہے ۔ مگر ان کے جن کا موں پر مجھے کبھی شرحِ صدر حاصل نہیں ہوا ان میں سے ایک یہ ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ میں نے ان کی کسی بات کو بھی اس بنا پر کبھی نہیں مانا کہ وہ اسے کشف یا الہام کی بنا پر فرمارہے ہیں،بلکہ جو بات بھی مانی ہے اس وجہ سے مانی ہے کہ اس کی دلیل مضبوط ہے، یا بات بجائے خود معقول و منقول کے لحاظ سے درست معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح میں نے جوان کو مجدد مانا ہے تو یہ ایک رائے ہے جو ان کاکام دیکھ کر میں نے خود قائم کی ہے،نہ کہ ایک عقیدہ ہے جو ان کے دعوئوں کی بنا پر اختیار کر لیا گیا ہے۔

شیئر کریں