دوسرا فلسفہ جو انیسویں صدی میں ابھرا اور انسانی ذہنوں پر چھایا وہ ڈارون کے نظریۂ ارتقا کا پیدا کردہ تھا۔ مجھے یہاں ان کے حیاتیاتی (biological)پہلو سے بحث نہیں ہے۔ میں اس کے صرف ان فلسفیانہ اثرات سے بحث کر رہا ہوں جو ڈارون کے طرزِ استدلال اور اس کے اخذ کردہ نتائج سے نکل کر وسیع تر اجتماعی فکر میں جذب ہوئے۔ عام انسانی ذہن نے ڈارون کے بیان سے متاثر ہو کر کائنات کا جو تصور قائم کیا تھا وہ یہ تھا کہ یہ کائنات ایک رزم گاہ ہے جہاں ہر آن ہر طرف زندگی وبقا کے لیے ایک ابدی جنگ برپا ہے۔ نظامِ فطرت ہے ہی کچھ ایسا کہ جسے زندہ اور باقی رہنا ہو، اُسے نزاع اور کش مکش اور مزاحمت کرنی پڑتی ہے اور مزاجِ فطرت واقع ہی کچھ اس طرح ہوا ہے کہ اس کی نگاہ میں وہی بقا کا مستحق ہے جو قوتِ بقا کا ثبوت دے دے۔ اس بے رحم نظام میں جو فنا ہوتا ہے وہ اس لیے فنا ہوتا ہے کہ وہ کم زور ہے اور اسے فنا ہونا ہی چاہیے اور جو باقی رہتا ہے وہ اس لیے باقی رہتا ہے کہ وہ طاقت ور ہے اور اسے باقی ہی رہنا چاہیے۔ زمین اور اس کا ماحول اور اس کے وسائلِ زندگی غرض یہاں جو کچھ بھی ہے طاقتور کا حق ہے، جس نے زندہ رہنے کی قابلیت کا ثبوت دے دیا ہو، کم زور کا ان چیزوں پر کوئی حق نہیں ہے۔ اسے طاقت ور کے لیے جگہ خالی کرنی چاہیے، اور طاقت وَر سراسر برسرِ حق ہے اگر وہ اسے مٹا کر یا ہٹا کر اس کی جگہ لیتا ہے۔
غور کیجیے، یہ تصور ِکائنات جب دماغوں میں بیٹھ جائے اورنظامِ فطرت کواس نگاہ سے دیکھا جانے لگے توانسان انسان کے لیے کیا کچھ بن کر رہے گا؟ اس فلسفۂ زندگی میں ہم دردی، مَحبّت، رحم، ایثار اور اس طرح کے دوسرے شریفانہ انسانی جذبات کے لیے کیا جگہ ہو سکتی ہے؟ اس میں عدل وانصاف، امانت ودیانت اور صداقت وراست بازی کا کیا کام؟ اس میں حق کا وہ مفہوم کہاں باقی رہتا ہے جو کبھی کم زور کو بھی پہنچ سکتا ہو، اور ظلم کے وہ معنی کب ہو سکتے ہیں جن سے کبھی طاقتور بھی گناہ گار ٹھیرایا جا سکتا ہو؟ لڑنے جھگڑنے کا کام اگرچہ پہلے بھی انسان کرتا رہا ہے مگر اسے فساد سمجھا جاتا تھا اور اب وہ عین تقاضائے فطرت ہے۔ کیوں کہ کائنات تو ہے ہی ایک میدانِ جنگ، ظلم پہلے بھی دنیا میں ہوتا تھا، مگر پہلے وہ ظلم تھا اور اب اسے ایک ایسی منطق مل گئی جس سے وہ طاقتور کا حق بن گیا۔ اس فلسفے کے بعد یورپ والوں کو ان تمام مظالم کے لیے جو انھوں نے دوسری قوموں پر ڈھائے، ایک محکم دلیل ہاتھ آ گئی۔ انھوں نے اگر امریکہ اور آسٹریلیا اور افریقہ کی پرانی نسلوں کو مٹایا اور کم زور قوموں کو اپنا غلام بنایا تو یہ گویا ان کا حق تھا جو انھوں نے عین قانونِ فطرت کے مطابق حاصل کیا، مٹنے والے مٹنے ہی کے مستحق تھے اور ان کی جگہ لینے والوں کا حق یہی تھا کہ وہ ان کی جگہ لیں۔ اس بارے میں اگر اہل مغرب کے ضمیر میں پہلے کوئی خلش تھی بھی تو ڈارون کی منطق نے اسے دلائل وشواہد سے دور کر دیا۔ سائنس میں اس نظرئیے کی حیثیت جیسی کچھ بھی ہو(اس کی علمی حیثیت پر مختصر تنقید ہماری کتاب ’’تفہیمات‘‘ حصہ دوم، مطبوعہ اسلامک پبلی کیشنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ لاہور میں ملے گی۔) معاشرت، تمدن اور سیاست میں آ کر تو اس نے انسان کو انسان کے لیے بھیڑیا بنا کر رکھ دیا۔