Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مسئلۂ قربانی شرعی اور عقلی نقطۂ نظر سے پاکستان میں قربانی کے خلاف مہم
اس پروپیگنڈے کا اثر ہندی مسلمانوں پر
شیطانی ذوق تفرقہ اندازی
تفریق بین اللہ و الرسول
منصبِ رسولؐ
رسالت کا غلط تصوُّر
غلط تصو ر کی فتنہ انگیزی
چند مثالیں اور نتائج
سنت، قرآن کی عملی تشریح ہے
قربانی کے قرآنی احکام اور ان کی حکمت
اوقاتِ قربانی کی تعیین
قربانی کا تاریخی پس منظر
اسے عالم گیر بنانے میں مصلحت
قربانی کی حقیقی روح
نبیؐ کی خدا داد بصیرت
احادیث سے قربانی کا ثبوت
فقہائے اُمّت کا اِتفاق
اُمّت کا تواتر عمل
ہمارا اَخلاقی انحطاط
مخالفین کے دلائل کا دینی تجزیہ
اجتماعی نقطۂ نظر سے جائزہ
معترضین کے چند مزید سہارے

مسئلہ قربانی

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

چند مثالیں اور نتائج

مثال کے طور پر دیکھیے۔ یہ اذان جو دنیا بھر میں مسلمانوں کا سب سے زیادہ نمایاں ملی شعار ہے، جسے رُوئے زمین کے ہر گوشے میں ہر روز پانچ وقت مسلم اور کافر سب سنتے ہیں، اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے مقرر اور رائج کیا ہے۔ قرآن میں اس کا کوئی حکم نہیں۔ نہ وہ اس کے الفاظ بتاتا ہے نہ یہ حکم دیتا ہے کہ روزانہ پانچ وقت نمازوں سے پہلے یہ پکار بلند کی جائے۔ اس میں ایک جگہ صرف یہ کہا گیا ہے کہ:
ا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ
الجمعہ62:9
’’جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے روز تو دوڑو اللہ کی یاد کی طرف۔‘‘
ظاہر ہے کہ یہ پکار سن کر دوڑنے کا حکم ہے، خود اس پکار کا حکم نہیں ہے، دوسری جگہ اہل کتاب کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ:
وَ اِذَا نَادَیْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ اتَّخَذُوْھَا ھُزُوًا وَّ لَعِبًا المائدہ5:58
’’جب تم نماز کے لیے پکارتے ہو تو وہ اسے مذاق اور کھیل بنا لیتے ہیں۔‘‘
یہ سرے سے کوئی حکم ہی نہیں ہے بلکہ صرف ایک رائج شدہ چیز کا مذاق اڑانے پر اہل کتاب کی مذمت کی جارہی ہے سوا یہ ہے کہ اگر وہ اختیار و اقتدار جس نے اس اذان کے الفاظ مقرر کیے اور اسے مسلمانوں میں رواج دیا، دائمی عالم گیر شریعت مقرر کرنے کا مجاز نہ ہوتا تو کیا صرف ان دو آیتوں کی بنیاد پر آج دنیا میں آپ اذان کی آواز کہیں سن سکتے تھے؟
خود یہ نماز باجماعت جس کے لیے اذان دی جاتی ہے، اور یہ نماز جمعہ جس کی پکار سن کر دوڑنے کا حکم دیا گیا ہے، اور یہ عیدین کی نمازیں جو ہزارہا مسلمانوں کو اکٹھا کرتی ہیں، اور یہ مسجدیں جو دنیا بھر میں مسلم معاشرے کی اجتماعی زندگی کے لیے مرکز کی حیثیت رکھتی ہیں، ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جس کا حکم قرآن میں دیا گیا ہو۔ قرآن صرف نماز کا حکم دیتا ہے، باقاعدہ نماز باجماعت ادا کرنے کا کوئی صاف حکم نہیں دیتا۔ جمعہ کی نماز کے لیے وہ صرف یہ کہتا ہے کہ جب اس کے لیے پکارا جائے تو دوڑ پڑو۔ اسے خود نماز جمعہ قائم کرنے کا حکم مشکل ہی سے کہا جاسکتا ہے۔ عیدین کی نمازوں کا تو سرے سے اس میں کوئی ذکر ہی نہیں۔ رہیں مسجدیں تو ان کے احترام کا حکم ضرور قرآن میں دیا گیا ہے مگر یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ اے مسلمانو! تم اپنی ہر بستی میں مسجد تعمیر کرو اور اس میں ہمیشہ نماز باجماعت قائم کرنے کا اہتمام کرو۔ یہ ساری چیزیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اختیار و اقتدار کی بنا پر جس کے ساتھ اللہ نے آپ کو شارع مقرر کیا تھا، مسلمانوں میں رائج کی ہیں۔ اگر یہ اختیار و اقتدار مسلم نہ ہوتا تو اسلام کے یہ نمایاں ترین شعائر، جن کا مسلمانوں کو مجتمع کرنے اور ایک یک رنگ امت بنانے اور اسلامی تہذیب کی صورت گری کرنے میں سب سے زیادہ حصہ ہے، کبھی قائم نہ ہوتے اور مسلمان آج مسیحیوں سے بھی زیادہ منتشرو پراگندہ ہوتے۔
یہ صرف سامنے کی چند مثالیں ہیں۔ ورنہ تفصیل کے ساتھ دیکھا جائے تو معلوم ہو کہ اگر ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف ایک کتاب ہی ملی ہوتی اور اس کے ساتھ اللہ کے رسولؐ نے آکر انفرادی زندگی سے لے کر خاندان، معاشرے اور ریاست تک کے معاملات میں ہمارے لیے تہذیب کی ایک متعین صورت نہ بنا دی ہوتی تو آج ہم ایک ممتاز عالم گیر ملت واحدہ کی حیثیت سے موجود نہ ہوتے۔ اب جو شخص اس رسالت کی شرعی حیثیت اور اس کی قانونی سند کو چیلنج کرتا ہے اس کے اس چیلنج کی زد ایک قربانی کے مسئلے یا دو چار منفرد مسئلوں پر نہیں پڑتی، بلکہ اسلامی تہذیب کے پورے نظام اور ملتِ اسلامیہ کی اساس و بنیاد پر پڑتی ہے۔ جب تک ہم بالکل خود کشی پر آمادہ نہ ہو جائیں ہمارے لیے کسی کی یہ بات ماننا محال ہے کہ جس چیز کی سند قرآن میں ملے بس وہی باقی رہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سند پر جتنی چیزوں کا مدار ہے وہ سب ساقط کر دی جائیں۔

شیئر کریں