اس عالمگیر محاربے میں بینکروں، آڑھتیوں اور صنعت و تجارت کے رئیسوں کی ایک مٹھی بھر جماعت تمام دنیا کے معاشی اسباب و وسائل پر اس طرح حاوی ہو گئی ہے کہ ساری نوعِ انسانی ان کے مقابلہ میں بالکل بے بس ہے۔ اب کسی شخص کے لیے یہ قریب قریب ناممکن ہوگیا ہے کہ اپنے ہاتھ پائوں کی محنت سے اور اپنے دماغ کی قابلیت سے کوئی آزادانہ کام کرسکے اور خدا کی زمین پر جو اسبابِ زندگی موجود ہیں ان میں سے خود کوئی حصہ حاصل کرسکے۔ چھوٹے تاجر، چھوٹے صنّاع، چھوٹے زراعت پیشہ کے لیے آج دنیا کے عرصۂ حیات میں ہاتھ پائوں مارنے کی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔ سب کے سب مجبور ہیں کہ معاشی کاروبار کے ان بادشاہوں کے غلام اور نوکر اور مزدور بن کر رہیں، اور یہ لوگ کم سے کم سامانِ زیست کے معاوضے میں ان کے جسم و دماغ کی ساری قوتیں اور ان کا سارا وقت لے لیتے ہیں، جس کی وجہ سے پوری نوع انسانی بس ایک معاشی حیوان بن کر رہ گئی ہے۔ بہت کم خوش قسمت انسانوں کو اس معاشی کشمکش میں اتنی فرصت نصیب ہوتی ہے کہ اپنے اخلاقی، عقلی، روحانی ارتقاء کے لیے بھی کچھ کرسکیں، اور پیٹ بھرنے سے بالاتر بھی کسی مقصد کی طرف توجہ کرسکیں، اور اپنی شخصیت کے ان عناصر کو بھی نشوونما دے سکیں جو تلاشِ معاش کے سوا دوسری پاکیزہ تر اغراض کے لیے خدا نے ان کے اندر ودیعت کئے تھے۔ درحقیقت اس شیطانی نظام کی بدولت معاشی کشمکش اس قدر سخت ہو جاتی ہے کہ زندگی کے تمام دوسرے شعبے اس سے مائوف و معطل ہو جاتے ہیں۔
انسان کی مزید بدنصیبی یہ ہے کہ دنیا کے اخلاقی فلسفے، سیاسی نظامات اور قانونی اصول بھی اس شیطانی نظامِ معیشت سے متاثر ہوگئے ۔مشرق سے مغرب تک ہر طرف اخلاقی معلمین کفایت شعاری پر زور دے رہے ہیں۔ جتنا کمانا اتنا ہی خرچ کر دینا ایک حماقت اور اخلاقی عیب سمجھا جاتا ہے، اور ہر شخص کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ اپنی آمدنی میں سے کچھ نہ کچھ پس انداز کر کے بینک میں ڈیپازٹ رکھے، یا انشورنس پالیسی خریدے، یا کمپنیوں کے شیئرز حاصل کرے۔ گویا جو چیز انسانیت کو تباہ کرنے والی ہے وہی اخلاق کی نظر میں معیارِ خوبی بن گئی ہے ۔ رہی سیاسی طاقت تو وہ عملاً بالکل ہی ایک شیطانی نظام کے قبضے میں آ چکی ہے۔ وہ بجائے اس کے کہ اس ظلم سے انسان کو بچائے، ظلم کی آلۂ کار بنی ہوئی ہے اور ہر طرف حکومت کی گدیوں پر شیطان کے ایجنٹ بیٹھے نظر آتے ہیں ۔ اسی طرح دنیا کے قوانین بھی اسی نظام کے زیر اثر مرتب ہو رہے ہیں ۔ ان قوانین نے عملاً افراد کو پوری آزادی دے رکھی ہے کہ جس طرح چاہیں جماعت کے مفاد کے خلاف اپنی معاشی اغراض کے لیے جدوجہد کریں۔ روپیہ کمانے کے طریقوں میں جائز اور ناجائز کا امتیاز قریب قریب مفقود ہے۔ ہر وہ طریقہ جس سے کوئی شخص دوسروں کو لوٹ کر یا تباہ کر کے مال دار بن سکتا ہو، قانون کی نظر میں جائز ہے۔ شراب بنایئے اور بیچئے، بداخلاقی کے اڈے قائم کیجئے، شہوانی فلم بنایئے، فحش مضامین لکھیے، جذبات کو بھڑکانے والی تصویریں شائع کیجئے، سٹّے کا کاروبار پھیلایئے، سودخوری کے ادارے قائم کیجئے، قمار بازی کی نئی نئی صورتیں نکالیے، غرض جو چاہیے کیجئے، قانون نہ صرف آپ کو اس کی اجازت دے گا، بلکہ الٹی آپ کے حقوق کی حفاظت کرے گا۔ پھر جو دولت اس طریقے سے سمٹ کر ایک شخص کے پاس جمع ہو گئی ہو، قانون یہ چاہتا ہے کہ وہ اس کے مرنے کے بعد بھی ایک ہی جگہ سمٹی رہے۔ چنانچہ اولادِ اکبر کے وارث ہونے کا طریقہ (rule of primogeniture)، اور بعض قوانین میں متبنیٰ بنانے کا طریقہ، اور مشترک خاندان کا طریقہ (joint family system)، ان سب کی غرض یہی ہے کہ خزانے کا ایک سانپ جب مرے تو دوسرا سانپ اس پر بٹھا دیا جائے، اور اگر بدقسمتی سے اس سانپ نے کوئی سپولیا نہ چھوڑا ہو تو کہیں اور سے ایک سپولیا حاصل کیا جائے تاکہ دولت کے اس سمٹائو میں فرق نہ آنے پائے۔
یہ اسباب ہیں جن سے نوعِ انسانی کے لیے یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے کہ خدا کی اس زمین پر ہر شخص کو سامانِ زیست بہم پہنچنے کا انتظام کس طرح کیا جائے اور ہر شخص کو اپنی استعداد کے مطابق ترقی کرنے اور اپنی شخصیت کو نشوونما دینے کے مواقع کیسے ملیں۔