یہ تین بڑی دلیلیں تھیں۔ ان کے بعد تین چھوٹی دلیلیں اور بھی ہیں جن کو ہم اختصارکے ساتھ بیان کرکے اختصار ہی کے ساتھ جواب بھی دیں گے۔
کہا جاتا ہے کہ ضبط ِ ولادت کے ذریعہ سے اچھی قسم کی نسلیں پیدا کی جا سکتی ہیں جن کی تندرستی اچھی ہو، قویٰ مضبوط ہوں، اور جن میں کام کرنے کی عمدہ صلاحیتیں ہوں۔ اس خیال کی بنیاد اس مفروضہ پر ہے کہ انسان کے ہاں جب کبھی ایک دو بچے ہوں گے، قوی وتندرست ذہین اور طباع ہوں گے۔ جب زیادہ بچے ہوں گے تو سب کے سب کمزور، بیمار، بیکار اور کُند ذہن ہوں گے لیکن اس مفروضہ کی تائید میں نہ کوئی علمی دلیل ہے اور نہ باضابطہ مشاہدات وتجربات کے نتائج، محض ایک گمان ہی گمان ہے جس کے خلاف ہزاروں شہادتیں عالم واقعہ میں موجود ہیں۔ درحقیقت انسان کی پیدائش کے متعلق کوئی ضابطہ بنایا ہی نہیں جا سکتا۔ یہ چیز کلیۃً خدا کے ہاتھ میں ہے اور خدا جس طرح چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔
﴿ھُوَالَّذِيْ يُصَوِّرُكُمْ فِي الْاَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاۗءُ۰ۭ ﴾ (آل عمران 6:3)
وہی تو ہے جو تمھاری مائوں کے پیٹ میں تمھاری صورتیں، جیسی چاہتا ہے، بناتا ہے۔
قوی اور تندرست اور ذہین اولاد پیدا کرنا اور کمزور، مریض اور بلید الذہن اولاد نہ ہونے دینا انسان کے اختیار سے باہر ہے۔اسی سے قریب الماخذ دلیل یہ ہے کہ ضبط ِولادت انسان کو ایسے بچوں کی بیکار پیدائش اور پرورش کی مشقت سے بچا دیتا ہے جن کی دنیا کو ضرورت نہیں ہے، جو کبھی کار آمد بننے والے نہیں ہیں، یا بلوغ سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔ یہ خیال اس وقت صحیح ہوتا جب انسان کے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ ہوتا کہ کون سا بچہ کن خصوصیات کا حامل ہو گا؟ لائق ہو گا یا نالائق؟ زندہ رہے گا یا مر جائے گا؟ اس کا وجود کار آمد ہو گا یا بے کار؟ جب یہ چیز انسانی نظر سے قطعاً پوشیدہ ہے تو محض رجماً بالغیب کوئی رائے قائم کرنا صریح حماقت ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ زیادہ بچوں کی پیدائش سے عورت کی صحت خراب ہو جاتی ہے اور اس کے حسن وجمال میں بھی فرق آ جاتا ہے لیکن صفحات گزشتہ میں ہم بیان کر چکے ہیں کہ ضبط ِولادت کے مصنوعی طریقے بھی صحت وجمال کے لیے بے ضرر نہیں ہیں۔ ان سے بھی صحت کو اتنا ہی نقصان پہنچتا ہے جتنا کثرتِ اولاد سے پہنچ سکتا ہے۔ طبی حیثیت سے کوئی ایسا قاعدہ عام مقرر نہیں کیا جا سکتا کہ عورت کتنے بچوں کی ولادت کا بار اٹھا سکتی ہے۔ یہ بات ہر عورت کے شخصی حالات پر منحصر ہے۔ اگر طبیب کسی عورت کے خاص حالات کو پیش نظر رکھ کر یہ رائے قائم کرے کہ حمل اور وضعِ حمل کی تکلیف اس کی زندگی کے لیے خطرناک ہو گی تو ایسی حالت میں بلاشبہ طبیب کے مشورے سے ضبطِ ولادت کا کوئی مناسب طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے بلکہ اگر ماں کی جان بچانے کے لیے ضروری ہو تو اسقاطِ حمل کرانا بھی ناجائز نہیں ہے۔ لیکن صحت کو محض ایک بہانہ بنا کرضبط ِولادت کو ایک عام طرزِ عمل بنا لینا اور دائماً اس پر عمل کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں۔