اس کے علاوہ میری مذکورۂ بالا عبارات میں چند امور اور بھی ہیں جن سے آپ نے صرفِ نظر کرکے اصل مسائل سے پیچھا چھڑانے کے لیے دوسرے سوالات چھیڑ دیے ہیں لیکن میں اس راہ گریز کی طرف آپ کو نہ جانے دوں گا جب تک ان امور کے متعلق آپ کوئی متعین بات صاف صاف نہ کہیں۔ یا تو آپ ان کو سیدھی طرح تسلیم کیجیے اور اپنا موقف بدلیے، یا پھر محض دعووں سے نہیں بلکہ علمی دلیل سے ان کا انکار کیجیے۔ وہ امور یہ ہیں:
۱۔ سنتوں کا بہت بڑا حصہ امت میں متفق علیہ ہے۔ اِسلامی نظام حیات کا بنیادی ڈھانچہ جن سنتوں سے بنتا ہے وہ تو قریب قریب سب ہی متفق علیہ ہیں۔ ان کے علاوہ اصول اور کلیاتِ شریعت جن سنتوں پرمبنی ہیں، ان میں بھی زیادہ تر اتفاق ہے۔ اختلاف اکثر وبیش تر ان سنتوں میں ہے جن سے جزئی احکام نکلتے ہیں اور وہ بھی سب مختلف فیہ نہیں ہیں، بلکہ ان کا بھی ایک اچھا خاصا حصہ ایسا ہے جن پر علمائے امت کے درمیان اتفاق پایا جاتا ہے۔ صرف یہ بات کہ ان اختلافی مسائل کو بحثوں اور مناظروں میں زیادہ اچھالا گیا ہے، یہ فیصلہ کر دینے کے لیے کافی نہیں ہے کہ ’’سُنّت‘‘ پوری کی پوری مختلف فیہ ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی سنتوں کے بڑے حصے کو متفق علیہ قرار دینے میں مانع نہیں ہے کہ چند چھوٹے چھوٹے خبطی اور زیادہ تر بے علم گروہوں نے کبھی کہیں اور کبھی کہیں اٹھ کر متفق علیہ چیزوں کو بھی اختلافی بنانے کی کوشش کی ہے۔ ایسے گروہوں نے ایک سُنّت ہی پر ہاتھ صاف نہیں کیا ہے، بلکہ ان میں سے بعض تحریفِ قرآن تک کے مدعی ہوئے ہیں، مگر اس قسم کے چند سر پھرے اور کم سواد لوگوں کا وجود امت مسلمہ کے بحیثیتِ مجموعی اتفاق کو باطل نہیں کر سکتا۔ ایسے دو چار سو یا دو چار ہزار آدمیوں کو آخر یہ اجازت کیوں دی جائے کہ پورے ملک کے لیے جو آئین بن رہا ہو اس میں سے ایک ایسی چیز کو خارج کر دینے کے لیے کھڑے ہوجائیں جسے قرآن کے بعد ساری امت اِسلامی قانون کی دوسری بنیاد مانتی ہے اور ہمیشہ سے مانتی رہی ہے؟
۲۔ جزئی احکام سے متعلق جن سنتوں میں اختلاف ہے ان کی نوعیت بھی یہ نہیں ہے کہ فرد فرد ان میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتا ہو، بلکہ ’’دُنیا کے مختلف حصوں میں کروڑوں مسلمان کسی ایک مذہبِ فقہی پر مجتمع ہو گئے ہیں اور ان کی بڑی بڑی آبادیوں نے احکامِ قرآنی کی کسی ایک تعبیر وتفسیر اور سننِ ثابتہ کے کسی ایک مجموعے پر اپنی اجتماعی زندگی کے نظام کو قائم کرلیا ہے۔ مثال کے طور پر اپنے اسی ملک، پاکستان کو لے لیجیے جس کے آئین کا مسئلہ زیر بحث ہے۔ قانون کے معاملے میں اس ملک کی پوری مسلم آبادی صرف تین بڑے بڑے گروہوں پر مشتمل ہے۔ ایک: حنفی، دوسرے: شیعہ، تیسرے: اہل حدیث۔
ان میں سے ہر ایک گروہ احکامِ قرآن کی ایک تعبیر اور سننِ ثابتہ کے ایک مجموعے کو مانتا ہے۔ کیا جمہوری اصول پر ہم آئین کے مسئلے کو اس طرح بآسانی حل نہیں کر سکتے کہ شخصی قانون (پرسنل لاء) کی حد تک ہر ایک گروہ کے لیے احکامِ قرآن کی وہی تعبیر اور سننِ ثابتہ کا وہی مجموعہ معتبر ہو، جسے وہ مانتا ہے اور ملکی قانون (پبلک لائ) اس تعبیرِ قرآن اور ان سننِ ثابتہ کے مطابق ہو جس پر اکثریت اتفاق کرے؟
۳۔ بجائے خود بھی یہ سوال کہ ’’یہ کیوں کر معلوم کیا جائے کہ فلاں سُنّت رسول اللّٰہa ہے یا نہیں۔‘‘ درحقیت کوئی لاینحل سوال نہیں ہے۔ جن سنتوں کے بارے میں یہ اختلاف پیدا ہوا ہے کہ وہ ثابت ہیں یا نہیں، ان پر ’’صدیوں اہل علم کے درمیان بحثیں جاری رہی ہیں اور نہایت تفصیل کے ساتھ ہر نقطۂ نظر کا استدلال اور وہ بنیادی مواد جس پر یہ استدلال مبنی ہے، فقہ اور حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ آج کسی صاحب علم کے لیے بھی یہ مشکل نہیں ہے کہ کسی چیز کے سُنّت ہونے یا نہ ہونے کے متعلق خود تحقیق سے کوئی رائے قائم کرسکے۔
۴۔ پھر آئین اور قانون کی اغراض کے لیے اس مسئلے کا آخری حل یہ ہے کہ ’’قرآن کی مختلف ممکن تعبیرات میں سے جس شخص، ادارے یا عدالت نے تفسیر وتعبیر کے معروف علمی طریقے استعمال کرنے کے بعد بالآخر جس تعبیر کوحکم کا اصل منشا قرار دیا ہو، اس کے علم اوردائرۂ کار کی حد تک وہی حکم خدا ہے، اگرچہ یہ دعوٰی نہیں کیا جا سکتا کہ حقیقت میں بھی وہی حکمِ خدا ہے۔ بالکل اسی طرح سُنّت کی تحقیق کے علمی ذرائع استعمال کرکے کسی مسئلے میں جو سُنّت بھی ایک فقیہ، لیجسلیچر، (legislator) یا عدالت کے نزدیک ثابت ہوجائے وہی اس کے لیے حکمِ رسولa ہے، اگرچہ قطعی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حقیقت میں رسولa کا حکم وہی ہے۔‘‘
اب آپ خود ایمان داری کے ساتھ اپنے ضمیر سے پوچھیں کہ یہ امور جو میری محولہ بالا عبارات میں آپ کے سامنے آئے تھے، ان میں آپ کو اپنے تیسرے اور چوتھے سوال کا جواب مل گیا تھا یا نہیں؟ اور ان کا سامنا کرکے ان کے متعلق ایک واضح بات نفیًا، یا اِثباتًاکہنے کے بجائے آپ نے دوسرے سوالات چھیڑنے کی جو کوشش فرمائی ہے، اس کی معقول وجہ، جس پر آپ کا ضمیر مطمئن ہو، کیا ہے؟